’اسلامی فقہ اکیڈمی مکّہ مکرمہ‘ نے اپنے دسویں اجلاس منعقدہ ۲۴-۲۸صفر ۱۴۲۳ھ بمطابق ۱۷-۲۰ ؍اکتوبر ۱۹۸۷ء میں ایک فیصلہ دیا تھا۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر پیش ہے۔(ادارہ)
’’مجلس نے ان مشکلات اور تصورات کا مطالعہ کیا اور جائزہ لیا ہے، جو اختلافِ مذاہب کے سلسلے میں نوخیز ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کی بنیاد اور مفہوم سے واقف نہیں ہوتے۔ یہ تصورات بعض گمراہ کن لوگ ان میں پھیلاتے ہیں۔ مجلس سمجھتی ہے کہ جب اسلامی شریعت واحد ہوگی، اس کے اصول قرآنِ مجید اور سنت ِ ثابتہ سے (یک جا صورت میں) اخذ کیے جائیں گے تو پھر مذاہب میں اختلاف کیوں پیدا ہوگا؟ پھر کیوں مذاہب متحد نہ ہوں گے کہ مسلمان احکامِ شریعت کے ایک فہم اور ایک مذہب کے ساتھ کھڑے ہوسکیں۔
اسی طرح مجلس نے مذہبی عصبیت اور اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ خصوصاً عہدحاضر میں بعض نئے زاویہ ہاے نظر کے پیروکاروں کا معاملہ کہ یہ لوگ جدید اجتہادی تصور کی طرف بلاتے ہیں اور قدیم اسلامی اَدوار سے لے کر اب تک اُمت کے قبول کردہ مستقل مذاہب پر طعن کرتے ہیں۔ اس کے ائمہ کو تنقید کا نشانہ بناتے یابعض کو گمراہ قرار دیتے ہیں اور لوگوں کے درمیان نئے نئے فتنے کھڑے کرتے ہیں۔ مجلس اس موضوع کی مناسبت سے جملہ اُمور اور گمراہی و فساد کی صورت میں نکلنے والے اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد دونوں گروہوں (گمراہی کے فتوے لگانے والوں اور عصبیت میں مبتلا کرنے والوں) کو درج ذیل بیان کے ذریعے تنبیہ کرتی اور توجہ دلاتی ہے:
پہلا اختلاف، یعنی اعتقادی اختلاف واقعتاً ایک عذاب کی سی شکل اختیار کرتے ہوئے مسلم ممالک میں خطرناک حد کو پہنچ گیا ہے۔ جس سے مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی ہے اور یہ سخت قابلِ افسوس صورتِ حال ہے۔ یقینا اُمت کو اہلُ السنۃ والجماعت کے مذہب پر مجتمع ہونا چاہیے، جو مذہب عہد ِ رسالت اور عہد ِ خلافت ِ راشدہ میں صاف و شفاف اسلامی فکر کی صورت میں قابلِ اتباع رہا ہے۔ خلافت راشدہ کے منہج کو قابلِ اِتباع ہونے کا یہ حق اس لیے حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم پر میری سنت اور میرے بعد خلفاے راشدینؓ کی سنت کی پیروی لازم ہے۔ اس پر تمسک اختیار کرو اور اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو۔(ابوداؤد، ترمذی)
دوسرا اختلاف، یعنی بعض مسائل میں فقہی مذاہب کا اختلاف ہے، تو اس کے علمی اسباب ہیں اور یہ موضوع غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بلیغ حکمت موجود ہے اور یہ بندوں پر اس کی رحمت ہے۔ یہ نصوص [متن]سے احکام اخذ کرنے کے میدان میں وسعت کا ذریعہ ہے۔ یہ قانونی، فقہی دولت نعمت بھی ہے، جو اُمت اسلامیہ کو اس کے دین و شریعت کے معاملے میں وسعت سے ہم کنار کرتی ہے۔ اس کا انحصار محض ایک مسئلے یا معاملے میں شرعی تطبیق ہی پر نہیں محدود رہتا کہ اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصود نہ ہو۔ صورتِ واقعہ یہ ہے کہ جب اُمت کسی امام کے مذہب میں تنگی محسوس کرتی ہے تو وہ دوسرے امام کے مذہب میں وسعت، نرمی اور سہولت پاتی ہے، خواہ یہ عبادات کے مسائل ہوں یا معاملات کے، عائلی اُمور ہوں یا فوجداری معاملات، اور یہ وسعت بھی شرعی دلائل کی روشنی ہی میں ملتی ہے۔
اختلافِ مذاہب کی دوسری قسم، یعنی فقہی اختلاف کوئی نقص نہیں ہے اور نہ یہ دین اسلام کے اندر کسی تناقض کی علامت ہے۔ کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے پاس کوئی ایسا کامل قانونی نظام ہو جو اس کے اپنے فہم و اجتہاد سے تشکیل پایا ہو اور اس میں یہ فقہی و اجتہادی اختلاف نہ ہو۔
یہ ممکن ہی نہیں کہ اختلاف نہ ہو، کیوں کہ بیش تر نصوصِ اصلیہ ایک سے زائد صورتوں میں رہنمائی کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ نص تمام امکانات کا احاطہ کرلے۔ اس لیے کہ نصوص تو محدود ہوتی ہیں اور وقائع (واقعات) غیرمحدود ہوتے ہیں جیساکہ علما کی ایک تعداد نے کہا ہے:
’قیاس‘ کی طرف رجوع، احکام کی علّت، شارع کے مقصود، شریعت کے مقاصد عامہ، وقائع میں ان کی احکامی حیثیت ، اور درپیش صورتِ حال میں گہرا غوروخوض ضروری ہے۔ اس کام میں احتمالات کے درمیان علما کی ترجیحات اور ان کے فہم میں اختلاف کا پایا جانا فطری امر ہے، جس کی وجہ سے ایک ہی موضوع میں علما کے بیان کردہ احکام بھی مختلف ہوجاتے ہیں اور علما میں سے ہر ایک حق تک پہنچنے ہی کی کوشش کرتا ہے۔ جو اس حق کو پالے اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو خطا کرجائے اس کے لیے ایک اجر ہے اور یہیں سے وسعت پیدا ہوتی ہے اور تنگی ختم ہوتی ہے۔ لہٰذا، اس مذہبی اختلاف کے وجود میں کہاں عیب ہے، جب کہ فی الواقع یہ اللہ کی اپنے مومن بندوں پر رحمت اور نعمت ہے اور ساتھ ہی عظیم فقہی دولت اور ایسی خوبی و خصوصیت ہے جس پر اُمت مسلمہ فخر کرسکتی ہے۔ تاہم، اِدھر اُدھر سے کچھ فتنہ انگیز افراد بعض مسلمان نوجوانوں میں اسلام کے حوالے سے پختگی نہ ہونے سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ خصوصاً ایسے نوجوان ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں جو بیرونِ ممالک تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ گمراہی پھیلانے والے ان کے سامنے بعض فقہی اختلافات کو یوں پیش کرتے ہیں کہ گویا یہ اعتقادی اور بنیادی اختلافات ہیں۔ وہ ان کے ذہنوں میں ظلم و جَور سے یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ یہ اختلاف تو شریعت کے تناقض پر دلالت کرتا ہے۔ وہ ان کے سامنے اختلاف کی دونوں صورتوں کا فرق بیان نہیں کرتے جو ان کے درمیان ہے۔
دوسرا طبقہ جو مذاہب کو ویسے ہی ترک کر دینے کا داعی ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ انھی کی جدیدیت زدہ آزاد روی کو اختیار کریں۔ یہ طبقہ مستقل فقہی مذاہب کو مطعون اور ان کے ائمہ کو موردِ الزام ٹھیراتا ہے۔ ہم فقہی مذاہب اوران کے وجود اور خوبیوں اور ائمہ کے حوالے سے اپنے اس بیان میں، فتنہ پرور طبقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس شرانگیز اسلوب کو چھوڑ دیں۔ آج ہمیں اُمت مسلمہ کے شیرازے کو متحد کرنے اور دشمنانِ اسلام کے خطرناک چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کی اشد ضرورت ہے‘‘۔(ترجمہ: ارشاد الرحمٰن)
سوال : نماز باجماعت میں اداے فرض کے بعد اداے سنت کے لیے جگہ کی تبدیلی پر ہمارے ہاں زور دیا جاتا ہے اور یہ چیز ایسی عادت بن گئی ہے کہ اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو اس کو بُرا سمجھاجاتاہے، گویا یہ بھی ایک ضروری چیزہے۔ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ’’قیامت میں وہ جگہ گواہی دے گی جہاں سنتیں ادا کی گئی ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اس پر اتنا زور دینا کیا مقام رکھتا ہے؟ نیز یہ کہ دلیل میں جو بات کہی جاتی ہے وہ حدیث میں ہے یا قرآن میں؟ یہ بھی فرمایئے کہ جگہ کی تبدیلی کے کیا معانی ہیں؟ کیا وہاں سے بالکل ہٹ جانا چاہیے جہاں فرض نماز ادا کی گئی ہے؟
جواب:فرض کے بعد مقتدیوں کے لیے جگہ بدل کر سنتیں ادا کرنا مستحسن ہے، ضروری نہیں، اور جگہ بدلنے کے معنی یہ ہیں کہ مقتدی اپنی جگہ سے ایک قدم آگے یا پیچھے، دائیں بائیں ہٹ جائے۔ اگر اس نے اتنا بھی کرلیا تو جگہ بدل گئی۔ البتہ اس کو ضروری قرار دینا غلط ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ فرض کے لیے جو صف بندی کی گئی تھی وہ فرض ادا ہوجانے کے بعد توڑ دی جائے۔ اگر فرض کے بعد امام اور مقتدی ٹھیک اپنی اپنی جگہ پر سنتیں شروع کر دیں تو نئے آنے والے کو یہ دھوکا ہوسکتا ہے کہ ابھی جماعت کی نماز ہورہی ہے۔ اگر امام اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہو یا دوچار مقتدی بھی صف سے اِدھر اُدھر ہوگئے ہوں اور صف ٹوٹ چکی ہو تو یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ ہرمقتدی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ لازماً وہ اپنی جگہ بدل ہی دے۔
دلیل میں جو بات کہی جاتی ہے وہ اس خاص مسئلے سے متعلق نہیں ہے، کیوں کہ زمین قیامت میں ہر اس عمل کی خبر دے گی جو اس پر کیا گیا ہوگا، چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا۔ اگر ایک ہی جگہ فرض اور سنتیں دونوں ادا کی گئی ہوں، تب بھی وہ اس کی گواہی دے گی۔ زمین کی گواہی جگہ بدلنے پر منحصر نہیں ہے۔ زمین کے خبر دینے کا ذکر سورۃ الزلزال کی آیت یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَاo (جس دن زمین اپنی خبریں بیان کرے گی۔۹۹:۴) میں موجود ہے۔ اس آیت کی تشریح میں جو احادیث آتی ہیں، ان میں بھی اس کا ذکر ہے۔ (مولانا سیّد احمد عروج قادری)
سوال : نماز کے دوران غیرارادی یا ارادی طور پر گھڑی پروقت دیکھ لینا کیا فاسد ِ صلوٰۃ ہوگا؟
جواب: نماز دراصل اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی اور مخاطبت کا وقت ہے۔ اس وقت کسی اور طرف توجہ کرنا بالکل اسی طرح ہے کہ ایک شخص کو آپ اپنی طرف متوجہ کریں اور پھر آپ کسی اور کام میں مشغول اور اس کی طرف سے بے توجہ ہوجائیں۔ اسی لیے نماز جیسی عبادت کا صحیح تقاضا تو یہ ہے کہ اس وقت آدمی اپنے آپ کو کلیتاً اللہ تعالیٰ کی طرف یک سو کرلے اور قصداً وقت وغیرہ نہ دیکھے۔
تاہم، اگر کوئی شخص وقت دیکھ ہی لے اور سمجھ لے، البتہ زبان سے اس کا تلفظ ادا نہ کرے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ چنانچہ فتاویٰ عالم گیری میں ہے:
اگر کوئی شخص دورانِ نماز فقہ کی کسی کتاب میں سے کچھ حصہ دیکھ لے اور سمجھ لے تو بالاجماع نماز فاسد نہیں ہوگی۔ فتاویٰ تاتار خانیہ میں ایسا ہی لکھا ہے اور جب محراب پر قرآن کے علاوہ کوئی دوسری چیزلکھی ہو، نمازی اسے دیکھے، اس پر غور کرے اور پھر سمجھ لے تو امام ابویوسفؒ کی راے ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی اور مشائخ احناف نے اسی راے کو قبول کیا ہے۔(ج۱، ص ۵۳)اور اگر بلاارادہ نظر پڑ گئی تب تو ظاہر ہے کہ کوئی مضائقہ نہیں۔(مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)
سوال : عموماً دیہات کی بعض مساجد کی محرابوں اور سامنے کی دیواروں پر بزرگوں کے نام یا فطرت کے آثار کی تصاویر بنائی دکھائی دیتی ہیں۔ اس ضمن میں ہدایت فرمائیں؟
جواب:محراب میں تصویروں کی نقاشی خواہ وہ کسی بھی ذی روح کی ہو سخت گناہ اور مکروہ ہے۔ ہدایہ میں ہے: ’’سب سے زیادہ کراہت اس تصویر میں ہے جو امام کے سامنے ہو، پھر اس میں جو اس کے سر کے اُوپر ہو، پھر دائیں، پھر بائیں اور پھر پیچھے کی تصویر‘‘۔اور یہ کہ: ’’مکروہ ہے کہ اس کے سر کے اُوپر چھت میں یا کوئی لٹکی ہوئی تصویر ہو‘‘۔ (ہدایہ، ج۱،ص ۱۲۲)
اس لیے کہ اس میں شرک کا شبہہ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے زمانے میں قبرپرستی اور اولیا پرستی کا مرض جس طرح عام ہے ، اس فضا میں نمازی کے سامنے دیواروں پر بزرگوں کے نام لکھنا اور ان کے کتبے لگانا بھی کراہت سے خالی نہ ہوگا۔ غیرذی روح کی تصاویر کی بعض فقہا نے اجازت دی ہے۔ یہاں تک کہ علامہ شامیؒ نے سورج و چاند اور ستاروں کی تصویروں کا بنانا بھی جائز قرار دیا ہے (ردالمختار، ج۱،ص ۶۰۷)۔ مگر میرے خیال میں یہ راے محل نظر ہے۔ چاند، سورج اور ستاروں کی بعض مذاہب میں پرستش کی جاتی ہے اور ان کے عبادت خانوں میں ان کی تصویریں بنائی جاتی ہیں ۔ اس لیے ایسی اور اس قسم کی تمام ہی تصویروں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ ابن نجیم مصری نے مطلقاً تصویروں کی نقاشی کو مکروہ قرار دیاہے۔ (البحرالرائق،ج ۵،ص ۲۵۱)۔(مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)
سوال : ہمارے قصبے میں ایک عیدگاہ ہے، وہ مسجد نما ہے۔ اس کے چاروں طرف عیدگاہ کی زمین ہے۔ ایک طرف کی زمین لب ِسڑک ہے۔ متولیان عیدگاہ اس میں دکانیں بنوانا چاہتے ہیں مگر عیدگاہ فنڈ میں مالی وسائل نہیں ہیں اور عیدگاہ کی مرمت اور دیگر ضروریات کے پیش نظر دکانیں بنوانا ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک صاحب ِ ثروت مسلمان سے اس شرط پر معاملہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دکانیں اپنے روپے سے بنوا دیں اور پہلے ہی ان سے دکانوں کا کرایہ طے ہوجائے۔ پھر جب دکانیں بن جائیں تو وہ ان دکانوں کو من مانے کرایے پر اُٹھائیں اور جب تعمیرات میں ان کی لگی ہوئی رقم وصول ہوجائے تو دکانیں عیدگاہ کی ملکیت ہوجائیں۔ ظاہر ہے کہ مثال کے طور پر اس وقت اگر ان سے ۱۰روپے یا ۱۵روپے ماہانہ کرایہ طے ہوتا ہے تو وہ ۲۰ یا ۲۵ یا زائد میں اُٹھائیں گے، جس سے حاصل کردہ زائد کرایہ ان کا نفع ہوگا جس کی خاطر وہ رقم دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ اس صورت میں شرعی مسئلہ کیا ہے؟یہ جائز معاملہ ہوگا یا ناجائز؟
جواب: ذیل کی چند اصولی باتیں سامنے رکھیے تو اس معاملے کا شرعی حکم معلوم کرنا آسان ہوجائے گا:
۱- معدوم، یعنی جو چیز موجود نہ ہو اس کی بیع ناجائز ہے اور جس طرح بیع ناجائز ہے اسی طرح اس کا اجارہ بھی ناجائز ہے۔
۲- قرض اور بیع یا قرض اور اجارے کو ملا کر معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔
۳- قرض دے کر اس سے کوئی نفع حاصل کرنا حرام ہے۔
ان اصولوں کو سامنے رکھ کر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ آپ نے جس معاملے کے بارے میں سوال کیا ہے وہ ان تینوں اصولوں کے خلاف ہے۔ جو دکانیں ابھی موجود نہیں ہیں، ان کو کرایے پر دینے کا معاملہ ایک ایسی شے کا معاملہ ہوگا، جو معدوم ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ متمول مسلمان جو رقم لگائیں گے، اس کی حیثیت قرض ہی کی ہوگی۔ لہٰذا، یہ معاملہ دوسرے اصول کے بھی خلاف ہوگا، قرض کے معاملے میں اجارہ بھی داخل ہوگا جو غلط ہے۔ اور جیساکہ آپ نے لکھا ہے کہ وہ صاحب ِ ثروت مسلمان اس معاملے پر اس لیے تیار ہوں گے کہ متولیوں کو کرایہ کم دیں اور من مانے کرایے پر ان دکانوں کا دوسروں سے معاملہ کر کے اپنی قرض دی ہوئی رقم پر نفع حاصل کریں، لہٰذا یہ معاملہ تیسرے اصول کی رُو سے بھی حرام ہوگا۔ (مولانا سیّد احمد عروج قادری)
سوال : معاشرتی زندگی میں [خصوصاً غیرمسلم ممالک میں] اکثر اوقات غیرمسلموں سے سابقہ پیش آتا ہے اور بہت سے مواقع پر باہم کھانے پینے کی نوبت آتی ہے۔ اس ضمن میں اُن کے برتنوں کے استعمال کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:برتن کی پاکی اور ناپاکی کے سلسلے میں اصولی طور پر تین باتیں پیش نظر رکھنی چاہییں:
۱- برتن دو وجوہ سے ناپاک ہوتا ہے ۔ یا تو اس لیے کہ اس کو استعمال کرنے والا وہ ہے جس کا جھوٹا ناپاک ہو، مثلاً: کتّا، سؤر وغیرہ،یا اس لیے کہ: اس میں جو چیز رکھی جائے وہ خود ناپاک ہو، مثلاً برتن میں خون یا شراب رکھ دی جائے۔
جہاں تک غیرمسلموں کی بات ہے تو ان کے جھوٹے ناپاک نہیں ہوتے۔ تمام انسانوں کے جھوٹے پاک ہیں اور اس میں مسلم اور کافر کا کوئی فرق نہیں ہے (الدر المختار علی ردّ المختار، ج۱،ص ۲۱۵)۔ اس لیے ظاہر ہے کہ ان کے برتن اس وجہ سے تو ناپاک نہیں ہوسکتے۔
جہاں تک ناپاکی کی دوسری وجہ ہے تو چونکہ مشرکین کے ذبیحے اور اہلِ کتاب کے وہ ذبیحے جن پر حضرت مسیح علیہ السلام کا نا م لیا جائے حرام اور نجس ہیں۔ اس لیے اس کا امکان موجود ہے کہ شاید برتن ان کے لیے استعمال کیے گئے ہوں۔ اسی طرح بعض قوموں میں کتّے، سؤر وغیرہ بھی کھائے جاتے ہیں، ان کے برتنوں کے بارے میں بھی اس شبہے کی گنجایش ہے۔
۲- عام حالات میں ان ناپاکیوں سے پاکی کے لیے صرف اس قدر کافی ہے کہ ان کو دھو لیا جائے، اور عادتاً ہر قوم میں کھانے کے بعد برتن دھو بھی لیے جاتے ہیں۔ ان برتنوں کے دھونے میں پاکی کی نیت اور ارادہ بھی ضروری نہیں، فقط دھو لینا ہی کافی ہے، چاہے مسلم دھوئے یا غیرمسلم۔
۳- ناپاکی کا فیصلہ محض شبہہ کی بنا پر نہیں کیا جاسکتا، تاآنکہ اس کے لیے کافی قوی وجہ نہ ہو اور نہ شریعت ان احکام میں ضرورت سے زیادہ کھوج کرید اور تجسس کو پسند کرتی ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ سفر میں ایک صاحب نے مقامی باشندے سے پانی کے ایک گڑھے کے بارے میں سوال کیا کہ: ’’اس سے درندے تو نہیں پیتے ہیں؟‘‘ حضرت عمرؓ نے اس کا جواب دینے سے منع فرما دیا۔ (موطا امام مالک)
لہٰذا، جب تک قرائن کی روشنی میں برتن کے ناپاکی کے لیے استعمال کیے جانے کا غالب گمان نہ ہو اور برتن دُھلا ہوا بھی نہ ہو، اس بات کا گمان غالب ہو کہ اس کے لیے ناپاک پانی استعمال کیا گیا ہوگا، اس وقت تک اس کو ناپاک شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں اہلِ ذمّہ پر یہ شرط بھی عائد کی تھی کہ وہ ا ن کی طرف جانے والے مسلمان قافلوں کی ضیافت کریں (موطا امام مالک)۔ظاہر ہے کہ اس ضیافت کے لیے انھی کے برتن استعمال کیے جاتے تھے۔البتہ، جس جگہ ناپاکی کا احتمال زیادہ ہو، جیسے یورپ وغیرہ میں، جہاں کہ سؤر کی چربی کا مختلف قسم کی غذائوں میں بہ کثرت استعمال ہوا کرتا ہے، وہاں احتیاطاًان کے برتنوں سے بچنا چاہیے۔ (مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)