میاں طفیل محمد


اللہ تعالیٰ ہی اس ساری کائنات کا اور ہم سب انسانوں کا خالق‘ مالک اور رب ہے۔ اسی کی زمین پر ہم بستے ہیں اور اسی کا عطا کردہ رزق کھاتے ہیں۔ کوئی فرد بشر کسی ایک ایسی شے کی بھی نشان دہی نہیں کر سکتا جو خداوند تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عطا کردہ ہو۔ اس لیے خدا کی مخلوق‘ اس کے مملوک اور اس کے رزق پر پلنے والی کسی ہستی کو بھی نہ عقلاً‘ نہ اخلاقاً اور نہ دنیا جہاں کے کسی قاعدے قانون یا رسم و رواج کی رُو سے اس بات کا حق حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے رب کی مقرر کردہ حدود اور طریق زندگی سے بال برابر بھی ادھر سے اُدھر قدم رکھے‘ یا کوئی ایسا کام یا ایسی حرکت کرے جو اس کی منشا کے خلاف ہو اور اس کی مرضی کے مطابق نہ ہو۔ اسی طرزِعمل کو اختیار کرکے زندگی بسر کرنے کا نام ’اسلام‘ ہے۔ اسی بات کو سمجھانے اور اسی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اللہ نے اپنے رسول ؑبھیجے اور پھر سب رسولوں کے آخر میں‘ اس بات کو قیامت تک پیدا ہونے والے مردوں اور عورتوں کو سمجھانے اور اس طرزِزندگی کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے  اللہ رب العالمین نے‘ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنا کر بھیجا اور یہ نصیحت فرمائی کہ ہمارے اس رسول ؐکے طرزِحیات میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔

قرآن مجید میں بار بار فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے اس رسولؐ کو اس غرض سے اپنا پسندیدہ دین‘ یعنی انسانوں کے لیے خدا کی طرف سے مقرر کردہ طریق زندگی اور ہدایات کا مجموعہ دے کر بھیجا ہے کہ آیندہ خدا کے بندے خدا کی زمین پر اسی طریقے کو نہ صرف خود اختیار کریں‘ بلکہ باقی انسانی گروہوں اور اقوام کے سامنے بھی اسے پیش کریں‘ اور اس انسانی معاشرے کا عملی نمونہ بھی نوعِ انسانی کی رہنمائی کے لیے قائم کریں جسے رب کائنات کی مرضی اور منشا کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کر کے اُمت کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ دیکھو‘ میں خدا کا آخری رسول ہوں۔ آیندہ نہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول آئے گا اور نہ تمھارے بعد کوئی اور اُمت اٹھائی جائے گی جو اس کام کو کرے۔ اب قیامت تک میرے جانشین اُمتی ہونے کی حیثیت سے یہ تمھاری ذمہ داری ہے کہ آنے والی تمام انسانی نسلوں کو ان کے خالق و مالک کے مقرر کردہ صحیح انسانی طرزِ زندگی کو اسی طرح سے سکھائو اور اس پر چلائو‘ جس طرح میں نے تمھیں سکھایا اور چلایا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی نہیں خود اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب میں واضح طور پر اہلِ ایمان کو بتایا کہ اللہ کی بندگی اور اس کے پسندیدہ نظامِ حیات کو اختیار کرنے اور اسے دنیا میں رواج دینے والے تمام انبیا اور ان کے پیروئوں کا نام اس سے پہلے بھی ہر زمانے میں ہم نے ’مسلم‘ ہی رکھا ہے‘ اور اب اپنے اس رسولؐ اور ان کی پیروی میں اس راہ کو اختیار کرنے اور ان کے مشن کو آگے لے کر چلنے والے لوگوں کا نام بھی ہم نے ’مسلم‘ ہی رکھا ہے۔ اب یہ تمھارا کام ہے کہ زندگی کے جس نمونے اور نظام کی شہادت ہمارے اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھارے سامنے پیش کی ہے‘ ان کے بعد اس کی شہادت اور عملی نمونہ دوسرے انسانوں کے سامنے تم پیش کرتے رہو۔یہ فریضہ مردوں اور عورتوں پر یکساں عاید ہوتا ہے۔

اس امرسے انکارممکن نہیں کہ انسانی معاشرے کی گاڑی مرد اور عورت پر مشتمل دو پہیوں سے چلتی ہے اور کوئی گاڑی دو پہیوں کے بغیر نہیں چل سکتی۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ گاڑی کے دونوں پہیے ایک دوسرے سے الگ برابر فاصلے پہ رہتے ہوئے چلیں۔ اگر خدانخواستہ گاڑی کے دونوں پہیے مقرر فاصلے پر رہ کر چلنے کے بجاے آپس میں گڈمڈہونے اور ایک دوسرے میں پھنسنے لگ جائیں اور اپنی اپنی لکیر اور سیدھ پر نہ چلیں تو نہ گاڑی کی خیرہے اور نہ ان کی سواریوں کی۔ منزل پر بخیریت پہنچنے کے لیے دونوں پہیوں کو اپنی اپنی جگہ پر ہی ہوگا‘ اور برابر ایک رفتار سے چلنا ہوگا۔ چنانچہ پورے قرآن مجید میں خواہ خطاب اہلِ ایمان و اسلام سے ہے اور خواہ اہلِ کفرونفاق سے‘ مردوزن کے کسی امتیاز کے بغیریاایھا الناس (اے لوگو)‘ یاایھا الذین آمنوا (اے مومنو!)‘ یاایھا الکفرون (اے کافرو)‘ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ(منافق سب کے سب جہنم کے سب سے گہرے گڑھے میں ہوں گے۔النسائ۴:۱۴۵) کے الفاظ کے ذریعے کیا گیا ہے۔ مرد و زن میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ صاف صاف فرمایا گیا ہے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّـرَہٗ (الزلزال ۹۹:۷-۸)‘ یعنی جو بھی خواہ مرد ہو یا عورت ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کا بدلہ پالے گا‘ اور جو بھی ذرہ برابر برائی کرے گا وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا۔

لہٰذا اللہ کے دین کی اشاعت و فروغ اور اس کے غلبے کے لیے کام کرنا مرد و خواتین دونوں کے لیے یکساں لازم ہے۔ البتہ جیسے گاڑی کے دونوں پہیے اپنے اپنے راستے پر الگ الگ چلتے ہیں اسی طرح اسلام نے انسانی معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے دائرہ کار ایک دوسرے سے الگ رکھے ہیں‘ بجز ایک مخصوص دائرے کے جو اور جتنا اُن کے آپس میں مل کر رہنے اور معاشرے کے ارتقا و بقا کے لیے ضروری ہے‘ ورنہ آپس میں ایک دوسرے کے قریب ہوکر باہم ٹکرانے اور گاڑی کو الٹنے ہی کا ذریعہ بنیں گے۔ خالق نے خود ہی انسان کو آزادی بھی دی ہے‘ اور اس کے حدود بھی مقرر فرما دیے ہیں۔ معاشرے کی اصلاح میں بنیادی کردار عورت ادا کرتی ہے‘ بشرطیکہ اسے اس کا احساس اور شعور ہو۔

اس پس منظر اور ان فرائض کی ادایگی کے سلسلے میں اس وقت خواتین کو جن اہم ترین کاموں کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہیے وہ درج ذیل ہیں:

۱-  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَo (الاعراف ۷:۶)‘ یعنی یہ ضرور ہو کر رہناہے کہ ہم ان لوگوں سے بازپرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبرؐ بھیجے ہیں اور پیغمبروںؐ سے بھی پوچھیں گے (کہ انھوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انھیں اس کا جواب کیا ملا)۔یہ محاسبہ اس امر کا ہوگا کہ رسولوں نے خدا کا پیغام ٹھیک ٹھیک بندوں تک پہنچایا‘ یا نہیں‘ اور جن لوگوں تک یہ پیغام پہنچا انھوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اسے قبول کر کے اس کے مطابق اپنی زندگی اور اس کے معاملات و تعلقات کو درست کیا‘ یا اسے رد کر دیا‘ یا اس میں سے جوبات اچھی اور مفید معلوم ہوئی اسے مان لیا اور باقی کو بے پروائی سے نظرانداز کردیا۔ حالانکہ اللہ کا حکم یہ تھا کہ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط (المائدہ ۵:۳) ’’میں نے تمھارے لیے اسلام کو بطور طریق زندگی مقرر اور پسند کیا ہے‘‘۔لہٰذا اس کا فطری تقاضا تھا : اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط(البقرہ ۲:۲۰۸) ‘یعنی پورے کے پورے اسلام کے اندر آجائو اور کسی معاملے میں بھی اسے چھوڑ کر شیطان کے پیچھے نہ چلو۔ پھر فرمایا: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُقف(اٰل عمران۳:۱۹)۔ یعنی اللہ کے نزدیک انسانوں کے لیے زندگی بسر کرنے اور اپنے معاملات کو چلانے کا صحیح طریقہ صرف اسلام ہی کا طریقہ ہے۔ مزید فرمایا: وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْـہُج (اٰل عمران۳:۸۵)۔ یعنی جو بھی (مرد ہو یا عورت) اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اور طریق اختیار کرے گا اسے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور نہ اس انحراف کو معاف کیا جائے گا۔

لہٰذا دین کے سلسلے میں سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ بالکل یکسو ہوکر اسلام کو قبول کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو‘ اپنے معاملات اور گھربار کو سنوارا اور درست کیا جائے‘ اور سب سے پہلے اپنی ذات کو اسلام کا نمونہ بنایا جائے۔ جانتے بوجھتے اسلام اور ایمان کے خلاف گواہی دینے والا آپ سے کوئی فعل و قول سرزد نہ ہو۔ اقامت دین اور شہادتِ حق کا پہلا تقاضا یہی ہے۔ آپ کا یہ طرزِعمل آپ کو سراپا دعوت بنا دے گا خواہ آپ زبان سے کچھ بھی نہ بولیں۔

۲-  اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی رشتہ داروں ‘اپنے ہمسایوں اور دوسری ملنے جلنے والی خواتین کے گھروں کو بھی جاہلانہ رسم و رواج‘ شرک و بدعت اور خدا کی نافرمانی   کے طریقوںسے پاک کرنے کی کوشش میں لگ جائیں۔ بے شمار غیراسلامی باتیں‘ پرانے جاہلانہ و ہندوانہ رسوم و رواج کی شکل میں بھی اور نئی مغربی کافرانہ تہذیب اور نت نئے فیشنوں کی صورت میں بھی‘ ہمارے گھروں میں گھس آئی ہیں۔ ان کو مسلم گھرانوں کی زندگی سے خارج کیے بغیر اسلام کے تصورِ شرم و حیا کے لیے موجودہ معاشرے میں جگہ پیدا کرنا سخت مشکل ہے۔ البتہ سلامتی کا راستہ‘ زندگی بعد موت‘ خطبات‘ پردہ اور سورۂ نور کے مضامین کو بتدریج ان کے ذہنوں میں اتار کر آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔

۳-  اَن پڑھ اور معمولی پڑھی لکھی خواتین کو بڑے پیمانے پر زبانی علمِ دین سے واقف کرانے کی کوشش کریں۔ دَوراولیٰ کے مرد و خواتین نے سارا کام زبانی تبلیغ کے ذریعے اور بالکل اَن پڑھ قوم میں ہی کیا تھا اور پھر انھی بے پڑھے لکھے لوگوں نے ساری دنیا میں اسلام پھیلا دیا۔ اس غرض کے لیے وسیع پیمانے پر حلقہ ہاے درس قرآن و حدیث قائم کریں۔ دین پھیلانے کا اس سے مؤثر اور بہتر طریقہ اور کوئی نہیں۔

۴-  خوش حال گھرانوں میں خدا سے غفلت اور دین اسلام سے انحراف کی بیماری عام ہے اور یہ لوگ آخرت سے بے فکر اور دنیا کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میںمصروف ہیں۔ ان میں آزادانہ اختلاط مرد و زن‘ وباکی شکل اختیار کرگیا ہے۔ تحریک سے متعلق پڑھی لکھی خواتین ان لوگوں کے سدھار کی بھی فکر کریں‘ کیونکہ یہ طبقے معاشرے میں برائی کے جراثیم پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے جو لوگ کوشش کے باوجود توجہ نہ دیں‘ ان پر زیادہ وقت ضائع کرنے کے بجاے اپنی ان دوسری بہنوں کی طرف توجہ دیں جن کو آخرت کا کوئی خوف ہو کیونکہ ہمارا کام خدا کا پیغام پہنچا دینا ہے پھر جس کا جی چاہے خدا کی فرماں برداری کی راہ اختیار کرے اور جس کا جی چاہے کفر میں پڑا رہے۔

۵-  اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کرو‘ اپنے بچوں کی خاص طور پر فکر کریں۔ خدا کی توحید‘محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت‘ قرآن کے خدا کی کتاب ہونے اور آخرت میں اپنے رب کے حضور پیش ہونے اور حساب کتاب کا نقش ان کے ذہنوں پر گہرے سے گہرا بٹھانے کی کوشش کریں‘ اور جیسے ہی ان کا شعور بڑھے اس کے مطابق ایمان کی تفصیل اور تقاضے ان پر واضح کرنے کی کوشش کریں۔ یہ نقش اگر چھوٹی عمر میں صحیح طور پر ذہن پر ثبت ہوجائے تو انسان ہمیشہ کے لیے سدھرجاتا ہے۔

۶-  اپنے گھر کے مردوں کو اگر وہ غلبۂ اسلام کی راہ میں کوئی خدمات انجام دے رہے ہوں تو اپنی رفاقت اور معاونت سے ان کی معاون و مددگار بنیں‘ اور اگر خدانخواستہ اس بارے میں کمزور‘ غافل یا کسی اور طرح کے غلط مشاغل میں مبتلا ہوں تو انھیں راہِ راست پر لانے کی صبروتحمل اور حکمت کے ساتھ سعی کریں۔ اس کا بھی کامیاب طریقہ یہی ہے کہ ان کے اندر مرنے کے بعد خدا کے روبرو جواب دہی کا یقین پیدا کیا جائے۔

۷-  خواتین کا یہ بھی فرض ہے اور سب سے اہم فرض ہے کہ اپنے گھروں میں حرام کی کمائی نہ گھسنے دیں۔ کیونکہ حرام کی کمائی کے کپڑے میں ملبوس جسم کی کوئی عبادت خدا کے ہاں قبول نہ ہوگی اور نہ ہی اس کی جنت میں داخلہ ممکن ہوگا۔

معاشرے کی موجودہ صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ بدی اور برائی کا سیلاب مختلف شکلوں اور لبادوں میں نئی مسلمان پود کے ذہنوں کو مسموم کرتا چلا جا رہا ہے۔ آرٹ‘ ثقافت‘ ورائٹی اور فیشن شو‘ فن فیئرکی تقاریب اور مینابازار اور خواتین کے حقوق اور ترقی کے نام پر بے راہ روی‘ بے پردگی اور حیاسوزی کی جو فضا مسلمان بچیوں کے اردگرد پیدا کی جارہی ہے‘ اس کے تباہ کن نتائج سے انھیں بچانے کے لیے خدا کی فرماں بردار خواتین پر لازم ہے کہ بدی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے تمام ممکن تدابیر سوچیں اور اختیار کریں۔ آزادیِ نسواں کی نام نہاد تحریک سے متاثر اور اسلام سے بے بہرہ خواتین کو ازواج مطہرات کے حالاتِ زندگی اور اسلام میں عورت کے لیے اعلیٰ و اشرف مقام سے آپ لوگ روشناس کرائیں‘ تاکہ انھیں معلوم ہو کہ اسلامی معاشرے میں عورت کو جو مقام اور مرتبہ عطا کیا گیا ہے‘ اس کی کوئی مثال آج تک کسی معاشرے میں موجود نہیں اور نہ آیندہ ممکن ہے‘ اور عورت کا یہی مقام اسے دنیا میں سرفرازی و احترام اور آخرت میں سرخروئی عطا کرسکتا ہے۔

نفاذ اسلام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب وطن عزیز کی عورتیں بھی اپنے ایمان کے تقاضوں اور اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو کماحقہ‘ محسوس اور ادا کرنے لگیں۔ خوش قسمت ہیں ہماری وہ بہنیں اوربیٹیاںجن کو اللہ نے اپنے دین کو سربلند کرنے کے کام میں لگا دیا ہے اور وہ اس راہ میں اپنی جان کھپا رہی ہیں۔ خدا نے ایمان‘ عقل ‘ گھرانہ اور مال و دولت کی شکل میں آپ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ خدا کے اس احسانِ عظیم کا شکر آپ اسی طریقے سے ادا کرسکتی ہیں کہ دین کی دعوت کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کریں۔ نیکی کو جتنا فروغ ہوگا برائی اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔ اگر آپ نے غلبۂ اسلام کے لیے اپنی جدوجہد کو اخلاص‘ خدا کی رضا اور خوشنودی ہی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جاری رکھا تو ان شاء اللہ اس ملک کو صحیح معنوں میں اللہ کا ملک بنانے کی جو کوششیں تحریکِ اسلامی کر رہی ہے‘ اس کی برکت سے اسلامی انقلاب کی منزل قریب تر آجائے گی اور اس کا جو بے حدوحساب اجر آپ کو ملے گا وہ تصور سے بھی بالاتر ہے۔

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو ازواجِ مطہرات کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ اور آخرت میں ان کی صف میں شامل فرمائے‘ اور دین حق کی راہ میں آپ کو اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا کے مصداق بنائے۔ آمین!

یہ بات میرے لیے باعث صد مسرت و امتنان ہے کہ ترجمان القرآن کی خصوصی اشاعت بیاد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور کے حصہ اول کے بعد اس کا دوسرا حصہ بھی تیار ہے ۔اللہ تعالیٰ‘ آپ اور اس سلسلے کے دوسرے اہل قلم کو اس کار خیر کے لیے اجر عظیم عطا فرمائے ‘ اور آپ سب کے علم و فضل اور قابلیت میں روز افزوں خیروبرکت عطا فرمائے ۔

آپ نے مولانا سیدابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کے بارے میں کوئی مضمون تحریر کرنے کی فرمایش کی ہے ۔اس بارے میں گزارش ہے کہ میں نے مولانا مرحوم سے ۱۹۴۴ء سے ۱۹۷۹ء تک ۳۵ سالہ دن رات کی رفاقت کے باوجود ‘ ان کے بارے میں اس سے زائد کچھ نہیں کہا ہے جو مشاہدات میں عرض کیا گیا ہے ۔  حضرت عائشہ ؓ سے بڑھ کر حضور نبی کریمؐ کو جاننے اور پہچاننے والی شخصیت اور کون ہو سکتی تھی۔ان سے لوگوں نے جب پوچھا کہ حضور نبی کریمؐ کیسے تھے ؟ تو انھوں نے فرمایا: حضورؐ چلتا پھرتا قرآن تھے ۔ میں بھی مولانا مودودیؒ صاحب کے بارے میں یہی کہتا اور کہہ سکتا ہوں کہ مولانا مودودی مرحوم‘ دعوت اسلامی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔

میں نے ۳۵ سالہ رفاقت کے دوران ان کی کوئی بات اور کوئی حرکت ‘ اسلام اور اسوہ رسولؐ  سے ہٹی ہوئی نہیں دیکھی۔ میراان سے ایک ہی بات پر اختلاف تھا کہ وہ پان کھاتے تھے ۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ اسلام کے منافی تو نہیں ہے‘میں اسے تمھارے لیے تو نہیں چھوڑوں گا‘ خداکے لیے جب ضرورت ہو گی تو چھوڑدوں گا ۔ چنانچہ اکتو بر ۱۹۴۸ء میں جب ہمیں گرفتار کیا گیا تو جیل کے پھاٹک کے باہر انھوں نے پان تھوکا‘ پھر ۲۰ماہ جیل میں کبھی نہیں چکھا اور جب سینٹرل جیل ملتان سے ہم رہا ہوئے تو دفترجماعت اسلامی ملتان میں آتے ہی پان منگوا کر کھانا شروع کردیا۔

شہر لاہور میں‘ مارچ ۱۹۵۳ء میں‘ جب ہم لوگوں کو گرفتا ر کر کے لاہور سینٹرل جیل میں لے جایا گیا تو مو لانا مودودی صاحب ‘ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب ‘ سید نقی علی صاحب ‘ چودھری محمد اکبر صاحب سیالکوٹی اور مجھے لاہور سینٹرل جیل کے دیوانی گھر وارڈمیں اور لاہور سے گرفتار شدہ دوسرے حضرات کو دوسرے وارڈوں میں رکھا گیا ۔ لاہور سینٹرل جیل میں ہی قائم کردہ مار شل لا کورٹ میںمولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب ‘ سید نقی علی صاحب اور ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب پر مقدمہ چلایا گیا ۔ مار شل لا کورٹ میں مولانا مودودی صاحب نے جو بیان دیا وہ انھوں نے مجھے ہی لکھوایا (dictate) تھا اور یہی بیان عدالت میں مولانا محترم نے پیش کیا ۔

۱۱ مئی ۱۹۵۳ء کو ہم لوگ دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلااور ۱۴‘۱۵ فوجی اور جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے ۔ اور جہاں ہم نما ز پڑھ رہے تھے وہاں قریب آکر کھڑے ہو گئے۔ ہم نے سلام پھیرنے کے بعد عرض کیا :’’فرمایئے‘ کیا حکم ہے‘‘ ۔ایک فوجی افسر نے کہا: ’’آپ لوگ نماز سے فارغ ہو لیں‘‘۔ چنانچہ ہم نے باقی نماز مکمل کر لی تو ان میں سے بڑ ے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا‘ اس نے پوچھا:’’ مولانا مودودی صاحب کون ہیں ؟‘‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مولانا مودودی صاحب کون ہیں‘ اس لیے کہ وہ تو عدالت میں کئی دن ان کے سامنے پیش ہوتے رہے تھے ۔ بہر حال مولانا نے عرض کیا:’’میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں‘‘، تواس نے کہا: ’’آپ کو قادیانی مسئلہ تصنیف کر نے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ہے ۔ آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں‘‘۔ مولانا نے بلا توقف فرمایا: ’’مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے ۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی‘ اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔ اس کے بعد اسی افسر نے کہا:’’ آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ تسنیم میں جو بیان دیا ہے اس پر آپ کو سات سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے ‘‘۔

اس کے بعد اسی افسر نے پوچھا :’’نقی علی کون ہے؟‘‘ سید نقی علی کوبھی وہ خوب جانتا تھا کہ وہ بھی ان کی عدالت میں پیش ہوتے رہے تھے ۔ بہر حال سید نقی علی صاحب نے عرض کیا :’’میں ہوں نقی علی ‘‘۔ اس افسر نے کہا:’’تمھیں قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میںنو سال قید بامشقت کی سزادی جاتی ہے‘‘۔ سید نقی علی صاحب نے بھی جواب دیا:’’آپ کا شکریہ‘‘۔

اس کے بعد اس افسر نے پوچھا :’’ نصراللہ خان عزیز کون ہے؟‘‘ ملک نصر اللہ خان صاحب نے جواب دیا:’’میں ہوں نصر اللہ خان عزیز‘‘۔ افسر نے کہا :’’آپ کو روزنامہ تسنیم میں مو لانا مودودی صاحب کا بیان شائع کرنے کے جرم میںتین سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔ ملک صاحب نے جواب دیا:’’آپ کا شکریہ ‘‘۔

یہ حکم سنانے کے بعد یہ لوگ واپس چلے گئے اور وارڈ کا باہر کا دروازہ بند کر دیا گیا ۔ واقعہ یہ ہے کہ احکام سننے کے بعد ہم لوگوں پر بظاہر کوئی اثر ہی نہ ہوا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تیز بلیڈ یا تیزدھار چھری سے ہاتھ کٹ جانے سے فوراً درد محسوس ہی نہیں ہوتا ‘اسی طرح مولانامودودی صاحب کی سزاے موت کا یہ حکم سننے کے بعد ہمیں کچھ محسوس ہی نہیں ہوا ۔

کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا:’’مولانا مودودی صاحب تیار ہوجائیں‘ وہ پھانسی گھر جائیں گے‘‘۔ اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پا جامہ تنگ پاجامے سے بدلا‘ جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے ۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتارکر سیاہ گر گابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہا یت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے ۔

اس کے کوئی نصف گھنٹہ بعد پھر وارڈ ر آئے اور کہا:’’ملک نصر اللہ خاں عزیز اور سید نقی علی صاحب بھی چلیں ۔ وہ سزا یافتہ قیدیوں کے بارک میں جائیں گے‘‘۔ چنانچہ وہ دونوں بھی مولا نا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ چودھری محمد اکبر صاحب کواور مجھ سے گلے مل کر وارڈروں کے ساتھ چلے گئے۔اس کے تھوڑی دیر بعد وارڈ ر مولانا مودودی صاحب کا جوتا ‘ پاجامہ ‘ قمیص اور ٹوپی لا کر ہمیں دے گئے کہ مولانا صاحب کو پھانسی گھر کے کپڑے پہنا دیے گئے ہیں ۔ ان چیزوں کی اب ضرورت نہیں ہے۔ اس پر پہلی مرتبہ ہم لوگوں کو اندازہ ہوا کہ ہو کیا گیا ہے ۔

اب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ مولانامودودی صاحب کی قمیص ‘ پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے سے لگاتے اور کبھی اپنے سر پر رکھتے ‘ کبھی آنکھوں پر لگاتے اور بے تحاشہ روتے ہوئے کہتے جاتے کہ:’’مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مولانا مودودی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں‘ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ خد ا کے ہاں مودودی صاحب کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے‘‘ ۔ چودھری محمد اکبر صاحب بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے گئے اور میں بھی روتا ہوا صحن میں ایک طرف نکل گیا اور ساری رات اسی طرح سے گزرگئی۔ میرے دل میں کبھی تو یہ خیال آتا کہ اللہ تعالیٰ کبھی ان ظالموں کو مولانا کو پھانسی پر لٹکانے کا موقع نہیں دے گا ۔ لیکن اگلے ہی لمحے خیال آتا جس خدا کے سامنے اس کے رسولؐ کے نواسے امام حسین ؓ کو ظالموں نے تپتی ریت پر لٹا کرذبح کر دیا‘ اس کے ہاں بھلا مودودی کی کیا حیثیت ہے ۔ جس خدا کی زمین پر رات دن لاکھوں کروڑوں نہایت حسین پھو ل کھلتے اور مر جھا جاتے ہیں اور کوئی آنکھ ان کو دیکھنے والی بھی نہیںہوتی‘ اسے ایک مودودی کی کیا پروا ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں ساری رات گزر گئی ۔

اگلی صبح ایک وارڈر نے آکر بتایا:’’مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ پھانسی گھر گئے‘ وہاں کا لباس پہنا‘ جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا اور عشاء کی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے مارنے لگے۔ حالانکہ ان کے آس پاس پھانسی گھرکے د وسر ے قیدی چیخ و پکار میں مصروف تھے‘‘۔

مولانا مودودی صاحب کو پھا نسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا ۔ انڈونیشیا کی اسلامی پارٹی کے وزیر اعظم ڈاکٹر ناصر صاحب نے حکومت پاکستان سے کہاکہ: ’’پاکستان کو مودودی صاحب کی ضرورت نہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ان کو انڈو نیشیا بھجوا دے‘‘۔ سعودی عرب نے اس سزا کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ علیٰ ھذا القیاس بہت سے دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے بھی اور پاکستان میں تو ہرجگہ سے احتجاج ہوا ۔ اس احتجاج کانتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی صاحب اور مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے ۔ چنانچہ مولانا مودودی صاحب کو پھانسی گھر سے جیل کے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔

ہم لوگوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے درخواست کی کہ ہمیں مولانا مودودی صاحب سے ملاقات کی اجازت دی جائے‘ چنانچہ ہمیں اس کی اجازت مل گئی تو ہم لوگ بی کلاس وارڈ میں جا کر مولانا سے ملے ۔مولانا کا سارا سامان چونکہ گھر بھیج دیا گیا تھا‘ اس لیے میں اپنا ایک ململ کا کرتہ‘ لٹھے  کا پاجامہ اوربستر کی ایک چادر ساتھ لے گیا اورکھدر کے کرتے پاجامے کی جگہ یہ کپڑے ان کو پہنا دیے ۔ مولانا مودودی صاحب کا پورا جسم گرمی اور کھدر کے موٹے کُرتے پاجامے کی وجہ سے گرمی دانوں سے بھرا پڑا تھا ۔ اسی بی کلاس وارڈ میں مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب اور مولانا خلیل احمد صاحب خلف مولانا ابو الحسنات صاحب سے بھی ملا قات ہوئی ۔

چند دن کے بعد سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو لاہور سنٹرل جیل سے میانوالی جیل میں منتقل کر دیا گیا اور پھر کچھ دن کے بعد ہی انھیں میانوالی جیل سے ڈسٹرکٹ جیل ملتان بھیج دیا گیا‘ جہاں ان کو ایک وارڈ کے کھلے میدان میں ٹین کے بنے ہوئے الگ گول کمرے میں رکھا گیا‘ جو جون‘ جولائی کی دھوپ میں تپ کر جہنم بن جاتا تھا‘ لیکن اس کے باوجود مولانا نے نہ کبھی کوئی شکایت کی اور نہ اس پر کوئی احتجاج فرمایا۔ اس سے اہل حکومت کو اور پریشانی ہوئی کہ ان کا کوئی حربہ بھی مولانامودودی صاحب کو ان سے فریاد کرنے پرمجبور کرنے کے لیے کامیاب نہیں ہو پاتا ۔ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں دو مر تبہ میں نے مولانا مودودی صاحب سے ملاقات کی۔ وہ ان ساری تکا لیف کو نہایت خندہ پیشانی سے بر داشت کر رہے تھے اور کبھی ہم سے بھی انھوں نے اپنی کسی تکلیف یا پریشانی کا اظہار نہیںفر مایا ۔

سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی یہ عمر قید عملاً ۱۴ سال قید با مشقت کی تھی ۔ اگر چہ یہ مارشل لا کورٹ کے تحت دی گئی تھی اور مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا‘لیکن مارشل لا کے تحت سارے احکام اور سزائوں کو انڈمنٹی ایکٹ کے تحت بر قرار رکھا گیا تھا ‘اس لیے یہ سزائیں مارشل لا اٹھ جانے کے باوجود بھی قائم اور جاری تھیں ۔

ملک غلام محمد گورنر جنرل کی حکومت مولانا مودودی صاحب کو ۱۴ سال قید با مشقت کی سزا دے کر مطمئن ہو گئی کہ ان کی مولانا مودودی صاحب اوران کی اسلامی دستور کی تحریک سے جان چھوٹ گئی اور اب وہ اپنا من مانا سیاسی نظامِ حکومت ‘پاکستان پر مسلط کر سکیں گے ۔ لیکن کارساز مابکارِ کارِما۔ہوا یہ کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین ملک کے وزیر اعظم بن گئے تھے۔ مولوی تمیز الدین خاں صاحب پہلی دستور ساز اسمبلی جو ملک کی پارلیمنٹ بھی تھی اس کے صدر تھے‘ ان کا موقف یہ تھا: ’’سلطنت بر طانیہ نے اقتدار مجلس دستور سازکو منتقل کر کے اس کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے دستور مملکت وضع کر کے اقتدار باشندگان پاکستان کو منتقل کرے‘ اس لیے اب جو دستور اور قانون بھی یہ مجلس دستور ساز کی حیثیت سے بنائے اس کے لیے گورنر جنرل جو ملکہ بر طانیہ کا نمایندہ ہے اس کی منظوری اور دستخطوں کی ضرورت نہیںہے۔ وہ مجلس دستور ساز کے صدر مولوی تمیز الدین خاں کی منظوری اوردستخطوں سے قانون اورملک کا دستور بن جائے گا‘‘۔ چنانچہ لاہور کے مار شل لا اٹھنے کے بعد جو انڈ منٹی ایکٹ ‘مجلس نے پاس کیا تھا اس پر گورنر جنرل ملک غلام محمد صاحب کے نہیں‘ بلکہ مولوی تمیز الدین صاحب کے دستخط کرائے گئے تھے اور مار شل لا اٹھ جانے کے بعد اس کی کارروائیوں اور فیصلوں کو مستقل حیثیت دے دی گئی تھی ۔ لیکن ملک غلام محمد صاحب گورنر جنرل کے مجلس دستور ساز اور پارلیمنٹ کو توڑنے کے حکم کے خلاف مولوی تمیز الدین صاحب کے مقدمے میں جسٹس محمد منیر صاحب چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ان کے   بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ پاکستا ن کی پارلیمنٹ خواہ پارلیمنٹ کی حیثیت سے یا مجلس دستور ساز کی حیثیت سے کوئی کارروائی کرے‘ اس کا کوئی فیصلہ گورنر جنرل کی منظوری کے بغیر قانونی صورت اختیار نہیں کرسکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ مجلس کا پاس کر دہ انڈمنٹی ایکٹ بے اثر اور کالعدم ہو گیا‘ کیونکہ اس پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں تھے۔اس لیے جماعت اسلامی نے مولانا مودودی صاحب کی سزا کو کالعدم کرانے کے سلسلے میں لا ہور ہائی کورٹ میں میاں منظور قادر ایڈوو کیٹ کے ذریعے سے رٹ دائر کردی اور ہائی کورٹ نے رٹ منظور کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو رہا کرنے کا حکم دے دیا‘ چنانچہ مولانا مودودی صاحب ۲۸ مئی ۱۹۵۵ء کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہوکر گھرآ گئے۔

مولانا مودودی صاحب کی سزا ے موت کے خلاف رٹ کی اس کارروائی کو اللہ تعالیٰ نے میاں منظور قادر صاحب کو منکر خدا سے ایک مومن و مسلم میں تبدیل کرنے کا ذریعہ بھی بنا دیا ۔ ہو ا یوں کہ اس سلسلے میں ان سے میرا رابطہ اور بے تکلفی ہوئی تو میں نے ایک روزتفہیم القرآن کا پورا سیٹ لے جا کر میاں منظور قادر صاحب کی خدمت میں پیش کیاتو انھوں نے فرمایا:’’میاںصاحب‘ آپ کو تو معلوم ہو گا کہ میں تو خدا کو نہیں مانتا‘‘۔ میں نے عرض کیا:’’میاں منظورقادر صاحب‘ آپ نے ہزاروں کتابیں ہر فن میں پڑھی ہیں‘ ان کو بھی پڑھ ڈالیں۔آپ کو معلوم تو ہو کہ مولانا مودودی کیا کہتے ہیں اور کیسے آدمی ہیں؟‘‘چنانچہ انھوں نے تفہیم القرآن کا سیٹ لے کر رکھ لیا ۔

میاں منظور قادر صاحب کچھ عرصے بعد جگر کے کینسر میں مبتلا ہو گئے۔ وہ علاج کے لیے  سی ایم ایچ لاہور میں داخل ہو گئے ۔میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو کافی مضحمل تھے۔ مجھ سے فرمایا :

Mian Sahib, now I have made peace with my Lord.Now I am prepared to meet Him.

اور کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون!

  • مولانا مودودی صاحب کو چا ر مرتبہ گرفتار کیا اور جیل بھیجا گیا ۔ پہلی مرتبہ ۴  اکتوبر۱۹۴۸ء کو جہاد کشمیر کے بارے میں جھوٹا الزام لگا کر اور اس بار مو لانا امین احسن اصلاحی صاحب کو اور مجھے بھی ان کے ساتھ گرفتار کر کے نیو سینٹرل جیل ملتان میں نظر بند رکھا گیا اور ۲۰ ماہ بعد اس وقت رہا کیا گیا‘ جب ایک اور نظر بند ی کے سلسلے میں ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دے دیا کہ پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندی میں دو مرتبہ ہی چھے چھے ماہ کی تو سیع ہو سکتی ہے ۔ اس سے زیا دہ تو سیع نہیں ہوسکتی۔ ہم لوگ اس وقت اسی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت تیسری تو سیع کے تحت قید بھگت رہے تھے۔ اس لیے ہم لوگوں کو بھی حکومت کو رِہا کرنا پڑا۔
  • دوسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب لاہورشہر کے مار شل لا کے تحت ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ ء کو گرفتار ہوئے تو ان کے ساتھ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور میرے علاوہ جماعت کے ۵۵‘۵۶ نمایاں ارکان بھی گرفتار کر لیے گئے۔ مولانا مودودی صاحب کو سزاے موت اور بعد ازاں اسے عمر قید میں تبدیل کر دیا گیااور وہ ۲۶ ماہ بعد اس بنا پر رہا ہوئے کہ جس انڈ منٹی ایکٹ کے تحت مولانا کی سزا بر قرارتھی وہی خلاف قانون پایاگیا ۔
  • تیسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب ۴ جنوری ۱۹۶۴ء کو جماعت اسلامی خلافِ قانون قرار دیے جانے پر گرفتار ہوئے اور ان کے ساتھ جماعت کے ۵۵‘ ۵۶ دوسرے سرکردہ ارکان جماعت بھی گرفتار ہوئے۔ پھر مولانا مودودی صاحب اور دوسرے سب نظر بند بھی ۹ ستمبر ۱۹۶۴ ء کو اس وقت رِہا ہوئے‘ جب کہ سپریم کورٹ پاکستان نے جماعت پر پابند ی کو منسوخ اور مولانا مودودی سمیت تمام نظربند ارکانِ جماعت کی رہائی کا حکم دے دیا ۔
  • چوتھی مرتبہ مولانا مودودی صاحب ۱۹۶۷ ء میں اس لیے گرفتار اور نظر بند کیے گئے کہ عیدالفطر‘ جمعہ یا جمعرات کو پڑ رہی تھی اور جنرل محمد ایوب خاں صاحب کو ان کے بعض درباریوں نے ڈرا دیاتھا کہ عید جمعہ کے روز ہوئی تو دو خطبے ہوں گے‘یعنی ایک عید کا اور دوسر ا جمعہ کا ‘اور ایک دن میں دو خطبوں کا ہونا حکومت کے لیے منحوس اور خطرہ بھی ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ جنرل محمد ایوب صاحب نے اپنے خوشامدی علما کے ذریعے چاند بدھ کی شام کو ہی دکھا دیا تا کہ عید جمعرات کو ہی ہو جائے ۔ مولانا مودودی صاحب اور تین چار اور بڑے علماے کرام نے سرکاری چاند کوماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر جنرل محمد ایوب صاحب کی حکومت نے مولانا مودودی صاحب کو گرفتار کر کے راتوں رات لاہور سے لے جا کر بنوںمیں نظر بند کر دیا اور دو ماہ بعد ان کو رِہا کیا ۔

مو لانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب گردے میں پتھری کے لیے ۴۳-۱۹۴۲ء سے ہی مریض تھے ۔ ۱۹۴۶ء میں امرتسر کے سول ہسپتال میں ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب اور ڈاکٹر غلام محمد بلوچ صاحب نے ان کے گردے سے چھ پتھریاں نکالیں لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ پھر بننا شروع ہوگئیں ۔ پہلے یہ مسلسل تکلیف کی موجب رہیں اور مو لانا اسی حال میں اپنے سارے کام کرتے رہے‘ یہاں تک کہ آخر کار ۱۹۶۸ء میں لندن میں ڈاکٹروں نے یہ گردہ ہی نکال دیا۔ اسی وجہ سے اس کے بعد انھوں نے اپنا قائم مقام بھی بنانا شروع کر دیا ‘اور آخر کار ۱۹۷۲ء میں امارت کابارمزید اٹھانے سے بالکل ہی معذرت فر ما دی ۔ واللّٰٰہ المستعان!