اللہ تعالیٰ ہی اس ساری کائنات کا اور ہم سب انسانوں کا خالق‘ مالک اور رب ہے۔ اسی کی زمین پر ہم بستے ہیں اور اسی کا عطا کردہ رزق کھاتے ہیں۔ کوئی فرد بشر کسی ایک ایسی شے کی بھی نشان دہی نہیں کر سکتا جو خداوند تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عطا کردہ ہو۔ اس لیے خدا کی مخلوق‘ اس کے مملوک اور اس کے رزق پر پلنے والی کسی ہستی کو بھی نہ عقلاً‘ نہ اخلاقاً اور نہ دنیا جہاں کے کسی قاعدے قانون یا رسم و رواج کی رُو سے اس بات کا حق حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے رب کی مقرر کردہ حدود اور طریق زندگی سے بال برابر بھی ادھر سے اُدھر قدم رکھے‘ یا کوئی ایسا کام یا ایسی حرکت کرے جو اس کی منشا کے خلاف ہو اور اس کی مرضی کے مطابق نہ ہو۔ اسی طرزِعمل کو اختیار کرکے زندگی بسر کرنے کا نام ’اسلام‘ ہے۔ اسی بات کو سمجھانے اور اسی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اللہ نے اپنے رسول ؑبھیجے اور پھر سب رسولوں کے آخر میں‘ اس بات کو قیامت تک پیدا ہونے والے مردوں اور عورتوں کو سمجھانے اور اس طرزِزندگی کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے اللہ رب العالمین نے‘ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنا کر بھیجا اور یہ نصیحت فرمائی کہ ہمارے اس رسول ؐکے طرزِحیات میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
قرآن مجید میں بار بار فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے اس رسولؐ کو اس غرض سے اپنا پسندیدہ دین‘ یعنی انسانوں کے لیے خدا کی طرف سے مقرر کردہ طریق زندگی اور ہدایات کا مجموعہ دے کر بھیجا ہے کہ آیندہ خدا کے بندے خدا کی زمین پر اسی طریقے کو نہ صرف خود اختیار کریں‘ بلکہ باقی انسانی گروہوں اور اقوام کے سامنے بھی اسے پیش کریں‘ اور اس انسانی معاشرے کا عملی نمونہ بھی نوعِ انسانی کی رہنمائی کے لیے قائم کریں جسے رب کائنات کی مرضی اور منشا کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کر کے اُمت کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ دیکھو‘ میں خدا کا آخری رسول ہوں۔ آیندہ نہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول آئے گا اور نہ تمھارے بعد کوئی اور اُمت اٹھائی جائے گی جو اس کام کو کرے۔ اب قیامت تک میرے جانشین اُمتی ہونے کی حیثیت سے یہ تمھاری ذمہ داری ہے کہ آنے والی تمام انسانی نسلوں کو ان کے خالق و مالک کے مقرر کردہ صحیح انسانی طرزِ زندگی کو اسی طرح سے سکھائو اور اس پر چلائو‘ جس طرح میں نے تمھیں سکھایا اور چلایا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی نہیں خود اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب میں واضح طور پر اہلِ ایمان کو بتایا کہ اللہ کی بندگی اور اس کے پسندیدہ نظامِ حیات کو اختیار کرنے اور اسے دنیا میں رواج دینے والے تمام انبیا اور ان کے پیروئوں کا نام اس سے پہلے بھی ہر زمانے میں ہم نے ’مسلم‘ ہی رکھا ہے‘ اور اب اپنے اس رسولؐ اور ان کی پیروی میں اس راہ کو اختیار کرنے اور ان کے مشن کو آگے لے کر چلنے والے لوگوں کا نام بھی ہم نے ’مسلم‘ ہی رکھا ہے۔ اب یہ تمھارا کام ہے کہ زندگی کے جس نمونے اور نظام کی شہادت ہمارے اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھارے سامنے پیش کی ہے‘ ان کے بعد اس کی شہادت اور عملی نمونہ دوسرے انسانوں کے سامنے تم پیش کرتے رہو۔یہ فریضہ مردوں اور عورتوں پر یکساں عاید ہوتا ہے۔
اس امرسے انکارممکن نہیں کہ انسانی معاشرے کی گاڑی مرد اور عورت پر مشتمل دو پہیوں سے چلتی ہے اور کوئی گاڑی دو پہیوں کے بغیر نہیں چل سکتی۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ گاڑی کے دونوں پہیے ایک دوسرے سے الگ برابر فاصلے پہ رہتے ہوئے چلیں۔ اگر خدانخواستہ گاڑی کے دونوں پہیے مقرر فاصلے پر رہ کر چلنے کے بجاے آپس میں گڈمڈہونے اور ایک دوسرے میں پھنسنے لگ جائیں اور اپنی اپنی لکیر اور سیدھ پر نہ چلیں تو نہ گاڑی کی خیرہے اور نہ ان کی سواریوں کی۔ منزل پر بخیریت پہنچنے کے لیے دونوں پہیوں کو اپنی اپنی جگہ پر ہی ہوگا‘ اور برابر ایک رفتار سے چلنا ہوگا۔ چنانچہ پورے قرآن مجید میں خواہ خطاب اہلِ ایمان و اسلام سے ہے اور خواہ اہلِ کفرونفاق سے‘ مردوزن کے کسی امتیاز کے بغیریاایھا الناس (اے لوگو)‘ یاایھا الذین آمنوا (اے مومنو!)‘ یاایھا الکفرون (اے کافرو)‘ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ(منافق سب کے سب جہنم کے سب سے گہرے گڑھے میں ہوں گے۔النسائ۴:۱۴۵) کے الفاظ کے ذریعے کیا گیا ہے۔ مرد و زن میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ صاف صاف فرمایا گیا ہے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّـرَہٗ (الزلزال ۹۹:۷-۸)‘ یعنی جو بھی خواہ مرد ہو یا عورت ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کا بدلہ پالے گا‘ اور جو بھی ذرہ برابر برائی کرے گا وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا۔
لہٰذا اللہ کے دین کی اشاعت و فروغ اور اس کے غلبے کے لیے کام کرنا مرد و خواتین دونوں کے لیے یکساں لازم ہے۔ البتہ جیسے گاڑی کے دونوں پہیے اپنے اپنے راستے پر الگ الگ چلتے ہیں اسی طرح اسلام نے انسانی معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے دائرہ کار ایک دوسرے سے الگ رکھے ہیں‘ بجز ایک مخصوص دائرے کے جو اور جتنا اُن کے آپس میں مل کر رہنے اور معاشرے کے ارتقا و بقا کے لیے ضروری ہے‘ ورنہ آپس میں ایک دوسرے کے قریب ہوکر باہم ٹکرانے اور گاڑی کو الٹنے ہی کا ذریعہ بنیں گے۔ خالق نے خود ہی انسان کو آزادی بھی دی ہے‘ اور اس کے حدود بھی مقرر فرما دیے ہیں۔ معاشرے کی اصلاح میں بنیادی کردار عورت ادا کرتی ہے‘ بشرطیکہ اسے اس کا احساس اور شعور ہو۔
۱- اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَo (الاعراف ۷:۶)‘ یعنی یہ ضرور ہو کر رہناہے کہ ہم ان لوگوں سے بازپرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبرؐ بھیجے ہیں اور پیغمبروںؐ سے بھی پوچھیں گے (کہ انھوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انھیں اس کا جواب کیا ملا)۔یہ محاسبہ اس امر کا ہوگا کہ رسولوں نے خدا کا پیغام ٹھیک ٹھیک بندوں تک پہنچایا‘ یا نہیں‘ اور جن لوگوں تک یہ پیغام پہنچا انھوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اسے قبول کر کے اس کے مطابق اپنی زندگی اور اس کے معاملات و تعلقات کو درست کیا‘ یا اسے رد کر دیا‘ یا اس میں سے جوبات اچھی اور مفید معلوم ہوئی اسے مان لیا اور باقی کو بے پروائی سے نظرانداز کردیا۔ حالانکہ اللہ کا حکم یہ تھا کہ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط (المائدہ ۵:۳) ’’میں نے تمھارے لیے اسلام کو بطور طریق زندگی مقرر اور پسند کیا ہے‘‘۔لہٰذا اس کا فطری تقاضا تھا : اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط(البقرہ ۲:۲۰۸) ‘یعنی پورے کے پورے اسلام کے اندر آجائو اور کسی معاملے میں بھی اسے چھوڑ کر شیطان کے پیچھے نہ چلو۔ پھر فرمایا: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُقف(اٰل عمران۳:۱۹)۔ یعنی اللہ کے نزدیک انسانوں کے لیے زندگی بسر کرنے اور اپنے معاملات کو چلانے کا صحیح طریقہ صرف اسلام ہی کا طریقہ ہے۔ مزید فرمایا: وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْـہُج (اٰل عمران۳:۸۵)۔ یعنی جو بھی (مرد ہو یا عورت) اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اور طریق اختیار کرے گا اسے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور نہ اس انحراف کو معاف کیا جائے گا۔
لہٰذا دین کے سلسلے میں سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ بالکل یکسو ہوکر اسلام کو قبول کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو‘ اپنے معاملات اور گھربار کو سنوارا اور درست کیا جائے‘ اور سب سے پہلے اپنی ذات کو اسلام کا نمونہ بنایا جائے۔ جانتے بوجھتے اسلام اور ایمان کے خلاف گواہی دینے والا آپ سے کوئی فعل و قول سرزد نہ ہو۔ اقامت دین اور شہادتِ حق کا پہلا تقاضا یہی ہے۔ آپ کا یہ طرزِعمل آپ کو سراپا دعوت بنا دے گا خواہ آپ زبان سے کچھ بھی نہ بولیں۔
۲- اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی رشتہ داروں ‘اپنے ہمسایوں اور دوسری ملنے جلنے والی خواتین کے گھروں کو بھی جاہلانہ رسم و رواج‘ شرک و بدعت اور خدا کی نافرمانی کے طریقوںسے پاک کرنے کی کوشش میں لگ جائیں۔ بے شمار غیراسلامی باتیں‘ پرانے جاہلانہ و ہندوانہ رسوم و رواج کی شکل میں بھی اور نئی مغربی کافرانہ تہذیب اور نت نئے فیشنوں کی صورت میں بھی‘ ہمارے گھروں میں گھس آئی ہیں۔ ان کو مسلم گھرانوں کی زندگی سے خارج کیے بغیر اسلام کے تصورِ شرم و حیا کے لیے موجودہ معاشرے میں جگہ پیدا کرنا سخت مشکل ہے۔ البتہ سلامتی کا راستہ‘ زندگی بعد موت‘ خطبات‘ پردہ اور سورۂ نور کے مضامین کو بتدریج ان کے ذہنوں میں اتار کر آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔
۳- اَن پڑھ اور معمولی پڑھی لکھی خواتین کو بڑے پیمانے پر زبانی علمِ دین سے واقف کرانے کی کوشش کریں۔ دَوراولیٰ کے مرد و خواتین نے سارا کام زبانی تبلیغ کے ذریعے اور بالکل اَن پڑھ قوم میں ہی کیا تھا اور پھر انھی بے پڑھے لکھے لوگوں نے ساری دنیا میں اسلام پھیلا دیا۔ اس غرض کے لیے وسیع پیمانے پر حلقہ ہاے درس قرآن و حدیث قائم کریں۔ دین پھیلانے کا اس سے مؤثر اور بہتر طریقہ اور کوئی نہیں۔
۴- خوش حال گھرانوں میں خدا سے غفلت اور دین اسلام سے انحراف کی بیماری عام ہے اور یہ لوگ آخرت سے بے فکر اور دنیا کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میںمصروف ہیں۔ ان میں آزادانہ اختلاط مرد و زن‘ وباکی شکل اختیار کرگیا ہے۔ تحریک سے متعلق پڑھی لکھی خواتین ان لوگوں کے سدھار کی بھی فکر کریں‘ کیونکہ یہ طبقے معاشرے میں برائی کے جراثیم پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے جو لوگ کوشش کے باوجود توجہ نہ دیں‘ ان پر زیادہ وقت ضائع کرنے کے بجاے اپنی ان دوسری بہنوں کی طرف توجہ دیں جن کو آخرت کا کوئی خوف ہو کیونکہ ہمارا کام خدا کا پیغام پہنچا دینا ہے پھر جس کا جی چاہے خدا کی فرماں برداری کی راہ اختیار کرے اور جس کا جی چاہے کفر میں پڑا رہے۔
۵- اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کرو‘ اپنے بچوں کی خاص طور پر فکر کریں۔ خدا کی توحید‘محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت‘ قرآن کے خدا کی کتاب ہونے اور آخرت میں اپنے رب کے حضور پیش ہونے اور حساب کتاب کا نقش ان کے ذہنوں پر گہرے سے گہرا بٹھانے کی کوشش کریں‘ اور جیسے ہی ان کا شعور بڑھے اس کے مطابق ایمان کی تفصیل اور تقاضے ان پر واضح کرنے کی کوشش کریں۔ یہ نقش اگر چھوٹی عمر میں صحیح طور پر ذہن پر ثبت ہوجائے تو انسان ہمیشہ کے لیے سدھرجاتا ہے۔
۶- اپنے گھر کے مردوں کو اگر وہ غلبۂ اسلام کی راہ میں کوئی خدمات انجام دے رہے ہوں تو اپنی رفاقت اور معاونت سے ان کی معاون و مددگار بنیں‘ اور اگر خدانخواستہ اس بارے میں کمزور‘ غافل یا کسی اور طرح کے غلط مشاغل میں مبتلا ہوں تو انھیں راہِ راست پر لانے کی صبروتحمل اور حکمت کے ساتھ سعی کریں۔ اس کا بھی کامیاب طریقہ یہی ہے کہ ان کے اندر مرنے کے بعد خدا کے روبرو جواب دہی کا یقین پیدا کیا جائے۔
۷- خواتین کا یہ بھی فرض ہے اور سب سے اہم فرض ہے کہ اپنے گھروں میں حرام کی کمائی نہ گھسنے دیں۔ کیونکہ حرام کی کمائی کے کپڑے میں ملبوس جسم کی کوئی عبادت خدا کے ہاں قبول نہ ہوگی اور نہ ہی اس کی جنت میں داخلہ ممکن ہوگا۔
معاشرے کی موجودہ صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ بدی اور برائی کا سیلاب مختلف شکلوں اور لبادوں میں نئی مسلمان پود کے ذہنوں کو مسموم کرتا چلا جا رہا ہے۔ آرٹ‘ ثقافت‘ ورائٹی اور فیشن شو‘ فن فیئرکی تقاریب اور مینابازار اور خواتین کے حقوق اور ترقی کے نام پر بے راہ روی‘ بے پردگی اور حیاسوزی کی جو فضا مسلمان بچیوں کے اردگرد پیدا کی جارہی ہے‘ اس کے تباہ کن نتائج سے انھیں بچانے کے لیے خدا کی فرماں بردار خواتین پر لازم ہے کہ بدی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے تمام ممکن تدابیر سوچیں اور اختیار کریں۔ آزادیِ نسواں کی نام نہاد تحریک سے متاثر اور اسلام سے بے بہرہ خواتین کو ازواج مطہرات کے حالاتِ زندگی اور اسلام میں عورت کے لیے اعلیٰ و اشرف مقام سے آپ لوگ روشناس کرائیں‘ تاکہ انھیں معلوم ہو کہ اسلامی معاشرے میں عورت کو جو مقام اور مرتبہ عطا کیا گیا ہے‘ اس کی کوئی مثال آج تک کسی معاشرے میں موجود نہیں اور نہ آیندہ ممکن ہے‘ اور عورت کا یہی مقام اسے دنیا میں سرفرازی و احترام اور آخرت میں سرخروئی عطا کرسکتا ہے۔
نفاذ اسلام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب وطن عزیز کی عورتیں بھی اپنے ایمان کے تقاضوں اور اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو کماحقہ‘ محسوس اور ادا کرنے لگیں۔ خوش قسمت ہیں ہماری وہ بہنیں اوربیٹیاںجن کو اللہ نے اپنے دین کو سربلند کرنے کے کام میں لگا دیا ہے اور وہ اس راہ میں اپنی جان کھپا رہی ہیں۔ خدا نے ایمان‘ عقل ‘ گھرانہ اور مال و دولت کی شکل میں آپ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ خدا کے اس احسانِ عظیم کا شکر آپ اسی طریقے سے ادا کرسکتی ہیں کہ دین کی دعوت کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کریں۔ نیکی کو جتنا فروغ ہوگا برائی اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔ اگر آپ نے غلبۂ اسلام کے لیے اپنی جدوجہد کو اخلاص‘ خدا کی رضا اور خوشنودی ہی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جاری رکھا تو ان شاء اللہ اس ملک کو صحیح معنوں میں اللہ کا ملک بنانے کی جو کوششیں تحریکِ اسلامی کر رہی ہے‘ اس کی برکت سے اسلامی انقلاب کی منزل قریب تر آجائے گی اور اس کا جو بے حدوحساب اجر آپ کو ملے گا وہ تصور سے بھی بالاتر ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو ازواجِ مطہرات کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ اور آخرت میں ان کی صف میں شامل فرمائے‘ اور دین حق کی راہ میں آپ کو اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا کے مصداق بنائے۔ آمین!