۱۱ جولائی کو علامہ یوسف قرضاوی کی دعوت پر لندن میں علما کی ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی ۔ دنیا کے مختلف حصوں سے ۲۰۰ سے زائد علما نے اس میں شرکت کی ۔اکثریت عرب ممالک کی تھی۔ کانفرنس نے علما کے اتحاد کی ایک عالمی تنظیم بنائی ہے ‘ جودینی اور سیاسی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کرے گی ۔ علامہ یوسف قرضاوی کو اس کا متفقہ طور پر صدر منتخب کیا گیا ۔ ایران کے آیت اللہ تسخیری‘عمان کے مفتی شیخ احمد الخلیلی اور الجزائر کے شیخ محمد بن بیہ نائب صدر منتخب ہوئے ہیں۔۲۰ افراد پر مشتمل ایک ’مجلس امنا‘ (Trustees Council)تشکیل دی گئی۔ اس میں پاکستان سے جسٹس (ر) محمد تقی عثمانی صاحب کا نام شامل ہے ۔ ۳۰ افراد کی ایک نگران کونسل بھی تشکیل دی گئی جس میں پاکستان سے راقم الحروف کا نام شامل ہے ۔
علما کی یہ کانفرنس ان کوششوں کا حصہ ہے جو مسلمانوں کے اتحادکے لیے کی جا رہی ہیں ۔ اس وقت امت مسلمہ کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ان کی طرف سے بولنے والااور ان کی نمایندگی کرنے والا کوئی نہیں ہے ‘ جب کہ انھیں دہشت گردی اور تشدد کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے اور اسلام اور دہشت گردی کو ہم معنی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ امت کو متحد کرنے کے لیے خلافت کااحیا ہی حقیقی راستہ ہے کیونکہ اسلام دین و دنیا یا دین و سیاست کی تفریق کو قبول نہیں کرتا‘ لیکن جب تک ایک ایسی مضبوط سیاسی اور دینی قوت ظاہر نہیں ہوتی جو مسلمانوں کو سیاسی اور دینی دونوں لحاظ سے متحد کرکے ان کی رہنمائی اور نمایندگی کا حق ادا کرسکے اورپوری امت کو ایک ہی سیاسی اور دینی قیادت کے گرد جمع کرسکے‘ اس وقت تک ترجمانی کے لیے کوئی فورم بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ چنانچہ علما نے اپنے دائرہ کار میں متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دے کر اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تنظیم دنیا کو بتاسکتی ہے کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔اس سلسلے میں بلاشبہہ پاکستان سے متحدہ مجلس عمل کو پہل کرنے کی فضیلت حاصل ہے۔