سوال : ہمارا معاشرہ تیزی سے اخلاقی بگاڑ اور انحطاط کا شکار ہو رہا ہے۔ سرعام وہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا پہلے تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان حالات میں کیا خواتین کا گھر سے نکل کر بالخصوص دوسرے شہر میں جاکر تعلیم حاصل کرنا جائز ہے؟ پہلی بات تویہ ہے کہ محرم کے بغیر گھر سے نکلنا ہوتا ہے۔ میڈیکل کی تعلیم میں‘ خواتین کالجوں میں بھی اساتذہ مرد ہوتے ہیں۔ گرلز ہوسٹلوں میں مرد ملازموں سے واسطہ پیش آتا ہے۔ میڈیکل کی تعلیم میں ایسے موضوعات پڑھنے ہوتے ہیں جہاں حیا آڑے آتی ہے۔ اگر یہ مضامین مرد اساتذہ پڑھائیں تو یہ اور بھی اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ مخلوط تعلیمی اداروں کا ماحول تو اور بھی زیادہ غیر مناسب ہے۔ اگر ان حالات میں خواتین تعلیم حاصل کریں تو متعدد واضح اسلامی احکامات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
خواتین کی تعلیم کے حصول میں والدین کے پیش نظر ملازمت بھی ہوتی ہے‘ جب کہ اسلام میں خواتین کا اہم ترین دائرہ کار گھر کی ذمہ داریوں کو سنبھالنا اور آیندہ نسلوں کی تربیت ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں انھیں گھر کی چار دیواری تک محدود رہنا چاہیے اور اسی ضرورت کے تحت علم حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ خواتین کی ملازمت کے نتیجے میں گھر بھی متاثر ہوتا ہے‘ بچوں کی تربیت بھی صحیح نہیں ہو پاتی اور معاشرتی انحطاط میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل خواتین کی ملازمت کا تناسب بہت کم تھا اور معاشرتی بگاڑ اور جرائم کا تناسب بھی کم تھا۔ موجودہ صورت حال بڑی حد تک اس کے برعکس ہے۔
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ موجود اخلاقی بگاڑ اور معاشرتی انحطاط میں خواتین کی تعلیم کی کیا حدود ہیں؟ کیا خواتین کو صرف اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کے پیشِ نظر علم حاصل کرنا چاہیے یا ملازمت کے حصول کے لیے؟ قرآن و سنت سے رہنمائی فرما دیں۔
جواب :آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ بہت اہم ہیں اور ان کا براہ راست تعلق اسلام کے نظام حیا، نظام معاشرت اور نظام تعلیم کے ساتھ ہے۔ بلاشبہہ اسلام حیا کا دین ہے اور اسے ایمان کا بڑا حصہ قرار دیتا ہے۔ حدیث نبویؐ میں بار ہا یہ ذکر آتا ہے جس میں حیا نہیں وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ ایسے ہی حیا کا ایمان کا لازمی جزو ہونا بھی حدیث سے ثابت ہے۔ قرآن کریم نے گھروں میں داخلے کے وقت لازمی کر دیا کہ پہلے سلام کر کے اجازت لی جائے۔ یہ بھی وضاحت کردی گئی کہ جن تین اوقات میں ایک شخص استراحت کرتا ہے‘ ان میں بچے اور ملازم بھی بغیر اجازت اندر داخل نہ ہوں۔ قرآن کریم نے گفتگو اور آنکھ کے حوالے سے بھی ہدایت کی کہ اس میں حیا کا خیال رکھا جائے۔
کیا اس کا مطلب یہ لیاجائے گا کہ ایک طبیب اور ایک سرجن کسی مریض کے جسم کو دیکھے بغیر غض بصر کرتے ہوئے محض قیاس اور زبانی تکلیف سننے کے بعد جراحت کر ڈالے؟ یا اسے جراحت سے قبل پہلے انسانی جسم کے اعضا‘ ظاہر ہوں یا پوشیدہ‘ سب کا جائزہ اور ان کے ایک ایک ریشے کے بارے میں تجرباتی معلومات حاصل کرنی ہوں گی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ حدیث اور فقہ کی ہر مستند کتاب میں طہارت اور ناپاکی کے بارے میں عمومی اور جزوی تفصیلات پائی جاتی ہیں۔ کیا ان کا بغور مطالعہ کیے بغیر ایک مسلمان مرد اور عورت دینی فرائض صحیح طور پر ادا کر سکتا ہے‘ اور کیا ان معلومات کا بغور اور تحقیق کے ساتھ مطالعہ کرنے کے نتیجے میں کسی مسلمان مرد یا عورت میں حیا میں کمی واقع ہوتی ہے؟
جن علوم کا حاصل کرنا دینی فرائض کی ادایگی میں آسانی پیدا کرتا ہے‘ وہ مقاصد شریعت کی تکمیل کرتے ہیں اور ان کی تعلیم پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی‘ نہ ان کی تعلیم سے کسی کو روکا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے ایک فقیہہ یا تفسیر و حدیث کا استاد بھی اگر ذہن میں کجی اور دل میں فتنہ رکھتا ہے تو وہ ایک سادہ سی بات کو سخت جنسی بنا سکتا ہے‘ اور اگر وہ فتنے سے خالی ذہن رکھتا ہے تو ایک جنسی مسئلے کو بھی بغیر کسی جذباتیت کے بیان کر سکتا ہے۔ اصل مسئلہ نفس مضمون کا نہیں‘ ان افراد کے رویوں (attitudes) اور طرز فکر کا ہے جو اس کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہر شعبۂ علم کی تعلیم اس طرح دی جا سکتی ہے کہ حیا اور اسلامی آداب پر پورا عمل بھی ہو اور نازک سے نازک مضامین سمجھائے بھی جا سکیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو انسانی جان اور صحت کو خطرہ لاحق ہو گا جو شریعت کے مقاصد کے منافی ہو گا۔
جہاں تک معاشرتی پہلو کا تعلق ہے‘ بلاشبہہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ یہ بات واضح کرتی ہیں کہ ایک مسلمان خاتون بلکہ عمومی طورپر خواتین کی ذمہ داریوں میں بچوں کی تربیت بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور اس کے بغیر انسانیت کا ثقافتی سفر اور تہذیبی ترقی ممکن نہیں ہوسکتی۔ اسی بنا پر ماں کے معاشرتی مقام کو بہت بلند رکھا گیا اور اولاد کو قبل پیدایش اور بعد پیدایش سہولیات فراہم کرنے کے نتیجے میں ماں کو فضلیت سے نوازا گیا۔ اب اگر یہ ماں بچے کی پیدایش کے بعد بچے کی معاشرتی، اخلاقی اور طبعی ضروریات پورا کر رہی ہے، یا بچہ ایسی عمر میں ہے کہ وہ اسکول یا کالج جاتا ہے اور ماں ایسے علم و فن سے آراستہ ہے جس کا فائدہ معاشرے کو ہو سکتا ہے‘ تو کوئی اسلامی اصول اسے اس کام سے نہیں روکتا۔ ہاں‘ اپنی صلاحیت کا استعمال کرتے وقت اس کا اپنا تحفظ، اس کی صحت اور اوقات کار کا اس کے مناسبِ حال ہونا‘ گھر میں مشاورت کے ساتھ یہ طے کرنا کہ وہ کس نوعیت کے بیرونی کام کرے اور کن سے اپنے آپ کو دُور رکھے‘ یہ سارے معاملات مباح کے دائرے میں آتے ہیں اور ان میں سے کسی کو دلیل شرعی کے بغیر مطلقاً حرام نہیں کیا جا سکتا۔ ذاتی پسندوناپسند کی بنا پر شریعت کی کسی اجازت کو منسوخ کرنے کا حق نہ کسی عالم کو ہے اورنہ کسی مقلد کو۔
گھر کی چار دیواری کا مطلب کبھی یہ نہ تھا کہ ایک خاتون گھر میں قیدرہے ‘نہ تعلیم حاصل کرے اور نہ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ کے قرآنی حکم کی کبھی پیروی کرے۔ اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں لیا جاسکتا ہے کہ وہ ۲۴گھنٹے محض بازاروں میں گھومتی رہے کہ مشاہدہ فطرت کررہی ہے! اسلام کی تعلیمات کو توازن اور اعتدال میں رہتے ہوئے اور قرآن وسنت کے مجموعی احکام کی روشنی میں ہی اختیار کیا جائے گا۔ کسی ایک حکم کو الگ کر کے اس کی تعبیر کرنا مناسب نہیں ہے۔
خواتین کی تعلیم کو ہمیشہ ملازمت (job) سے وابستہ کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اگرایک خاتون اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرلے اور اس کی نیت کسی ملازمت کی نہ ہو‘ جب بھی اسے یہ حق قرآن و سنت نے دیا ہے۔
رہا یہ سوال کہ تعلیم کے دوران مخلوط ماحول میں رہنا کہاں تک درست ہے۔ تو اسلام لازمی طور پر یہ چاہتا ہے کہ طلبا وطالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ تعلیمی سہولیات ہوں۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا کیا تعلیم کا سلسلہ روک دیا جائے؟
ایک مثالی اسلامی معاشرے کی تعمیر سے قبل اضطراری کیفیت میں بہت سے ایسے پہلو برداشت کرنے ہوںگے‘ لیکن ایسا کرنے کے دوران ماحول، طریق تعلیم، اور رویے کو اسلامی اصولوں سے قریب ترین لانا ہو گا۔ اگر ایک طالب علم اپنے استاد کے ساتھ گفتگو میں اسلامی آداب کا خیال رکھے تو استاد کبھی اس کے ساتھ ہنسی مذاق اور بے تکلفی کا اظہار نہیں کر سکتا۔ اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے طبی کالجوں میں پیشہ ورانہ اخلاقیات (professional ethics )کو نافذ کریں اور اس پرسختی سے عمل کیا جائے۔ ایک معروف میڈیکل کالج میں جہاں ابھی تک مخلوط تعلیم ہے‘ یہ کوشش کی گئی ہے کہ طبی اخلاقیات کے اصولوں پر عمل کیا جائے اور اساتذہ اورطلبا پیشہ ورانہ تعلیم کے حصول کے ساتھ اسلامی اخلاق و آداب پر عمل کرسکیں۔
تعلیمی ماحول کو بہتربنانے کے لیے نہ صرف اداروں بلکہ آپ جیسے شہریوں کو اپنا فرض ادا کرنا ہو گااور محض سوال کے ذریعے نہیں بلکہ مسلسل خطوط، ملاقاتو ں اور وفود کے ذریعے طبی اداروں کو اس طرف متوجہ کرنا ہو گا۔ یہ کام کسی ایک فقیہہ یا معلم کا نہیں۔ اس میں معاشرے کے ہر فرد کو اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے۔ اسی وقت تبدیلی کا آغاز ہو گا اور آخرکار ایسا اخلاقی ماحول پیدا ہوگا جس میں طلبا اور طالبات کو مخلوط اداروں میں بھی اپنے دین و ایمان کی نشوونما میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔ ہدف بہرحال یہی رہے گا کہ طلبا وطالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ اعلیٰ اور بنیادی تدریس کے لیے تعلیم گاہوں کا قیام جلد ازجلد عمل میں آ سکے۔
محرم اور نامحرم کی حدود دین نے متعین کر دی ہیں۔ جس بات کی واضح ممانعت ہے وہ خلوت ہے‘ یعنی تنہائی میں صرف ایک مرد اور عورت کا یکجا ہونا ۔ ایک کلاس میں جہاں ایک طرف لڑکیاں ہوں اور دوسری جانب لڑکے ‘ یکمشت حرام نہیں کہا جاسکتا۔ گو‘ ان کی علیحدہ تعلیم ہمیشہ افضل اور اسلامی اصولوں سے مطابق رہے گی۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے خواتین کی تعلیم کی اہمیت نہیں تھی۔ اسلام روزاول سے تعلیم کی فرضیت کا حکم دیتا ہے جس میں کوئی جنسی تفریق نہیں پائی جاتی۔ اگر کسی دور میں مسلمان اس حکم کی پیروی نہ کریں تو یہ ان کا اپنا فعل ہے۔ اسلام اس کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹرانیس احمد)