جناب جسٹس ناظم حسین صدیقی چیف جسٹس آف پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کی تربیت کی تکمیل پر فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کی تقریب تقسیمِ اسناد میں ملک کے عدالتی نظام پر عوام کے اعتماد کے مسئلے پر بڑے بنیادی اور فکر انگیز خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے کہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد مطلوبہ معیار سے کہیں کم ہے‘ انھوں نے صرف نئے ججوں ہی کو نہیں بلکہ عدلیہ کی ہر سطح پر ذمہ دار افراد کو تلقین کی ہے کہ ’’ہمیں (عدلیہ کو) ملک میں انصاف کے نظام پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا‘‘۔ فاضل چیف جسٹس کا ارشاد ہے کہ ’’انصاف کی فراہمی مشکل کام ہے‘ تاہم نئے جج صاحبان اپنی ذہانت اور دل و دماغ کی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لاکر عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بناسکتے ہیں۔ اگر ہمیں ایک مہذب قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو اسلام کی آفاقی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے مطابق انصاف کی فراہمی کو افضل عمل کی حیثیت سے معاشرتی زندگی میں عملی شکل دینی ہوگی اور عوام کا اعتماد نظامِ انصاف پر بحال کرنا ہوگا‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’ڈسٹرکٹ جج نظام انصاف میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ضلع کی سطح پر جج صاحبان انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو پورا نظام انصاف زمین بوس ہوسکتا ہے‘‘۔
جسٹس ناظم حسین صدیقی صاحب نے ایک بڑے بنیادی مسئلے کی طرف عدلیہ اور پوری قوم کو متوجہ کیا ہے اور ہماری اجتماعی زندگی کی ایک نہایت ہی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ اس وقت ملک کے سارے ہی ادارے سخت اضمحلال کا شکار ہیں لیکن جس ادارے کی اصلاح کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیے وہ عدلیہ کا ادارہ ہے۔ اگر حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو بڑے دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج ملک میں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول سب سے مشکل بن گیا ہے۔ پولیس کی بدعنوانی اپنی جگہ‘ لیکن عدلیہ کا ادارہ جس حد تک انصاف فراہم کرنے اور اپنے کو مفادات‘ بااثر عناصر کے دبائو اور خود حکومت وقت کی دراندازیوں سے بالا رکھ کر اصلاح احوال کے لیے جو کردار ادا کر سکتا ہے وہ اس میں کامیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز بروز عوام کا اعتماد پورے نظامِ عدل پر‘ نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک بری طرح مجروح ہوا ہے۔ اس باب میں قوم جن مسائل سے دوچار ہے ان میں اہم ترین یہ ہیں:
اولاً ‘قوانین کی بھرمار ہے‘ مگر قانون کا احترام عنقا ہے۔ قوانین کی اکثریت سامراجی دور کا عطیہ ہے اور آزادی کے حصول کے بعد ۵۷ سال گزر جانے کے باوجود ان قوانین میں آزادی کے تقاضوں اور اسلامی قانون و روایات سے ہم آہنگی کے حصول کے لیے کوئی ہمہ گیر تبدیلی نہیں کی گئی۔ دسیوں قانونی کمیشن بنے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل اور اعلیٰ عدالتی کمیشن نے سفارشات پیش کی ہیں لیکن حکومت اور پارلیمنٹ نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ حالانکہ ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت بنیادی حقوق کے نقطۂ نظر سے ملک کے قوانین کی اصلاح کا کام دوسال کے اندر اور اسلامی احکام و قوانین کے اعتبار سے سات سال کے اندر مکمل ہوجاناچاہیے تھا۔ آج بھی اگر پارلیمنٹ دن رات اس کے لیے کام کرے تو یہ مقصد ایک متعین مدت میں حاصل ہو سکتا ہے۔ اس سے عوام او رعدلیہ دونوں کا کام آسان ہو جائے گا۔
دوسری بنیادی چیز ہر سطح پر عدلیہ میں ججوں کے انتخاب‘ ان کی تربیت اور احتساب کے نظام کا مؤثر ہونا ہے۔ ججوں کے انتخاب میں دو ہی بنیادیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں‘ یعنی قابلیت (merit) اور دیانت(integrity)۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح عدلیہ میں بھی تقرر کا نظام نہایت ناقص اور سیاسی اور دوسری مصلحتوں کے تابع ہے جس کے نتیجے میں ہر سطح پر عدلیہ میں ایسے عناصر در آئے ہیں جن کی صلاحیت اور دیانت دونوں شک و شبہے سے بالا نہیں۔ عدلیہ کو جس تربیتی نظام اور جس نظام احتساب کی ضرورت ہے وہ نہایت غیر مؤثر ہے۔ دستور نے اعلیٰ عدالتوں کے لیے تقرری کا جو نظام تجویز کیا ہے اس پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ حالیہ تجربات اور دنیا کے دوسرے ممالک کے اقدامات کی روشنی میں جن چیزوں کی فوری ضرورت ہے وہ یہ ہیں:
ا- عدلیہ کو مکمل طور پر انتظامیہ سے آزاد کیا جائے اور اس سلسلے میں طے شدہ پالیسیوں پر مکمل طور پر عمل ہونا چاہیے۔ جس میں مرکزی وزارت قانون میں ججوں کا بطور سیکرٹیری تقرر اور صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان کا قائم مقام گورنر مقرر کیا جانا بالکل ختم ہونا چاہیے۔
۲- ججوں کے تقرر کا نظام بھی اصلاح طلب ہے اور اس کے لیے بھارت کے حالیہ انتخابات کی روشنی میں اس پر غور ہونا چاہیے کہ دستوری ترمیم کے ذریعے ایک بالکل آزاد ادارہ نیشنل جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جو مرکز اور صوبوں کی سطح پر ججوں کے تقرر کے لیے صدرمملکت کو ایک پینل کی سفارش کرے اور صدر اسی پینل میں سے تقرر کا پابند ہو۔
۳- ججوں کی تعداد میں بھی ضرورت کے مطابق اضافے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں مقدمات کی بھرمار ہے اور پورے ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مقدمات (۵ ہزار سے زائد سزاے موت کے مقدمات) زیرسماعت ہیں۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے محرومی کی ایک شکل ہے۔ ہمارے ملک میں حال یہ ہے کہ مقدمے کے فیصلے کے انتظار میں زندگی کے دن تمام ہوجاتے ہیں مگر مقدمے سے نجات نہیں ملتی۔ اس کی کئی وجوہ ہیں جن میں ججوں کی تعداد کی کمی‘ ججوں کی اسامیوں کا بلاجواز خالی رکھنا (اس وقت اعلیٰ عدالتوں میں مجموعی طور پر ۲۶ سیٹیں خالی ہیں‘ سپریم کورٹ میں ۴‘ لاہور ہائی کورٹ میں ۱۲‘ سندھ میں ۶‘ پشاور میں ۲ اور بلوچستان میں ۱۲)‘ وکیلوں کا بار بار مقدمات کی سماعت ملتوی کرانا‘ عدالت کے انتظامی نظام میں کرپشن اور ناقص کارکردگی‘ ججوں کی کارکردگی کے جائزے اور احتساب کے نظام کی کمزوریاں قابل ذکر ہیں۔ دنیا بھر میں قاعدہ ہے کہ ایک مقدمہ جب ضروری تفتیش مکمل ہونے کے بعد شروع ہوجاتاہے تو پھر اسے فیصلے تک تسلسل سے جاری رکھا جاتا ہے۔ مقدمات کے فیصلے میں تاخیر کی ذمہ داری عدالت‘ پولیس ‘ وکلا اور عوام سب پر آتی ہے اور اس کے مؤثر تدارک کی ضرورت ہے۔
۴- ججوں کی مدت ملازمت پر بھی معروضی انداز میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔نیز ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد مختلف بامعاوضہ ذمہ داریوں کے لیے ان کے دستیاب ہونے کے بھی اچھے نتائج سامنے نہیں آتے ہیں۔ اس لیے اس مسئلے پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی جائے‘ پنشن میں اتنا اضافہ ہو کہ ان کو ملازمت کی حاجت نہ رہے اور ان کی صلاحیتوں سے صرف تعلیم‘ تحقیق اور نیم عدالتی نوعیت کے کاموں میں فائدہ اٹھایا جائے جس کی کوئی تنخواہ نہ ہو بلکہ صرف ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس طرح مدت ملازمت کے بعد کی ترغیبات کا دروازہ بند کیا جا سکتا ہے۔
۵- ہر سطح پر ججوں کے تقرر‘ ترقی اور احتساب کا نظام قائم کیا جائے۔
۶- ہر سطح پر ججوں کے لیے تربیت‘ تحقیق اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری انتظامات کیے جائیں۔
۷- عدلیہ کے حضرات کو خود بھی اپنے احتساب کی فکر کرنی چاہیے۔ جسٹس محمد منیر سے لے کر جسٹس ارشاد احمد خان تک جج حضرات میں سے کچھ نے جس طرح سرکاری اثرات کو قبول کیا اور قانون اور عدل پر سیاسی اثرات کو قبول کیا‘ وہ عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔ جج حضرات جس طرح سیاسی اور سماجی محفلوں میں شریک ہو رہے ہیں اس سے ان کی غیر جانب داری کا تاثر متاثر ہو رہا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جس طرح کا سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں وہ ان کے ماقبل کے دور کے بارے میں بھی لوگوں کے اعتماد پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ یہ تمام بڑے نازک معاملات ہیں اور ان کے بارے میں آداب اور روایات کی ذمہ داری خود عدلیہ پر ہے تاکہ اس کا کردار ہر طرح کی انگشت نمائی سے بالا رہے۔
ہمارے دستور کے تحت عدلیہ کی ذمہ داری صرف قانون کی پاسداری کی نہیں بلکہ دستور کی اطاعت اور حقوقِ انسانی کے سلسلے میں عوام کے حقوق کی حفاظت بھی ہے۔ اب تو عدالتی فعالیت (judicial activism) ایک معروف حقیقت بن گیا ہے۔ اس پس منظر میں عدلیہ کا ہر قسم کی سیاسی جانب داری سے پاک ہونا‘ حکومت کے اثرات سے اپنے کو محفوظ رکھنا اور دیانت اور ذہانت کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا ہونا ازبس ضروری ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے عدلیہ پر اعتماد کے مسئلے کو اٹھا کر ان تمام پہلوئوں پر ازسرنو غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ ہماری رائے میں اس مسئلے پر کھلی بحث ہونی چاہیے اور پارلیمنٹ کو جلد از جلد اس کو زیرغور لاکر ضروری قانون سازی کر کے اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔