اگست ۲۰۰۴

فہرست مضامین

…قرآن کو بدل دیتے ہیں

مسلم سجاد | اگست ۲۰۰۴ | شذرات

Responsive image Responsive image

ہمارے ملک کے بعض دانش ور کبھی کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس سے وہ کچھ دن کے لیے خبروں کا موضوع بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے جو عدلیہ سے وابستہ رہے اور ملک کی ایک نمایاں شخصیت ہیں‘ فرمایا ہے کہ سیکولرازم اسلام کا حصہ ہے‘ شریعت کے مطابق غصب اقتدار جائز ہے اور آخری بات یہ کہ قرآن میں شراب کی حُرمت کا ذکر نہیں آیا۔ (نواے وقت لاہور‘ ۸ جولائی ۲۰۰۴ئ)

ان میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں کہ نوٹس لیاجائے لیکن چونکہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی ایک پہچان ان کے والد گرامی علامہ محمد اقبال ہیں جنھوں نے مسلمانوں کو مغرب کے لادینی اور سیکولر نظریات سے بچنے کی تلقین کی‘ اور مغرب کے استعمار کے مقابلے میں کھڑے ہونے کا سبق دیا‘ اس لیے اس طرح کی باتوں سے ہم مسلمانوں کے دل کو کچھ زیادہ تکلیف پہنچتی ہے۔

جب کوئی تہذیب غالب ہوجاتی ہے تو مغلوب تہذیب کے مرعوب ذہنیت کے لوگوں کو اپنی تہذیب میں بڑے عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ اور اگر وہ لکھے پڑھے بھی ہوں تو اپنی شرمندگی کا علاج یہ کرتے ہیں کہ تحقیق کر کے یہ دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ ہماری تہذیب میں تو وہ کچھ ہے ہی نہیں جس پر اعتراض اور تنقید کی جا رہی ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ غالب تہذیب کے نمایاں خصائص کو اپنی تہذیب میں تلاش کرلیتے ہیں حتیٰ کہ رہن سہن میں خود اس کا نمونہ بن جاتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔

جب سے انگریزبرعظیم میں آئے‘ یہ صورت حال جاری ہے اور ہر دور میں اس کے مظاہر تلاش کیے جاسکتے ہیں لیکن آج کل عالمی منظر پر یہ موضوع اس لیے بہت نمایاں ہوگیا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امریکا اپنی فوجی اور سیاسی برتری کے بل پر مسلمانوں کی تہذیب اور معاشرت کو‘ بلکہ ان کے عقائد کو بھی اپنے سانچوں میں ڈھالنا چاہتا ہے تاکہ کہیں سے کوئی مزاحمت پیش آنے کا دُور دُور تک‘ نہ صرف پوری ۲۱ ویں صدی بلکہ ۲۲ ویں صدی تک میں بھی امکان نہ رہے۔

بدقسمتی سے اس مہم جوئی میں امریکا کو مسلمانوں کی صفوں ہی سے معاون مل رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹرجاوید اقبال کے متذکرہ بالا ارشادات ہیں۔

جاوید اقبال اپنی ذات میں تنہا نہیں۔اس وقت پوری دنیا میں اور پاکستان میں بھی اسلام کے حوالے سے جو کش مکش برپا ہے‘اس میں ایک گروہ اسلام کو مغرب کے لیے قابلِ قبول بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ دوسری طرف ۲۰ویں صدی میں بہت سی شخصیات اور اسلامی تحریکوں نے اسلام کو اس کی حقیقی شکل میں واضح کر کے پیش کیا ہے۔ ہر ملک میں اس کے     علم بردار موجود ہیں جو اسلام کو اس کے حقیقی مفہوم میں اجتماعی زندگی کا نظام بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا اصل مقابلہ ان لوگوں سے ہے جو مذہب کو ذاتی زندگی تک محدود کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے ان کو سیکولرازم اور اسلا م میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ لیکن ان حضرات کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس دور میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی قیادت میں پاکستان کا قیام اس تصور پر سب سے بڑی چوٹ تھی۔ اگر پاکستان کی قیادت منافقت سے کام نہ لیتی اور   تحریکِ پاکستان میں جو پروگرام پیش کرکے عوام سے حمایت اور قربانیاں لی گئی تھیں اس کے مطابق ملک کا نظام قائم کیا جاتا‘ حقیقی جمہوریت ہوتی‘ عدل و انصاف ہوتا‘ معاشی و سیاسی حقوق محفوظ ہوتے‘ تو یہ بحثیں اپنی موت آپ مر جاتیں لیکن ہماری دوغلی سیاست نے ان بحثوں میں جان ڈال رکھی ہے اور کبھی کبھی کوئی اٹھ کر ایسے نعرے لگا دیتا ہے‘ جیسے ڈاکٹر جاوید اقبال وقفے وقفے کے بعد لگاتے رہتے ہیں۔ لیکن انھیں اور ان کے ہمنوائوں کو جان لینا چاہیے کہ اسلام کا کوئی مسخ شدہ یا ادھورا یا مغرب زدہ تصور یہاں پنپ نہیں سکتا۔ پاکستان کی ۵۶ سالہ تاریخ اس پر شاہد ہے۔

علاج کی صورت حال

ہمارے ملک میں صحت عامہ کی جو صورت حال ہے ‘ وہ محتاج بیان نہیں۔ آبادی کے بڑھے حصے کو علاج نام کی چیز میسر نہیں‘ لیکن جسے میسر ہے اور جو اس کے لیے اپنی رقم خرچ کرتا ہے‘ اسے کیا ملتا ہے‘ اس حوالے سے مریضوں اور تیمارداروں کے پاس اپنی اپنی کہانیاں ہیں۔

علاج کروانے والوں کے ۸۰ فی صد نجی شعبے سے رجوع کرتے ہیں۔ یہاں انھیں بہت زیادہ فیس دینا پڑتی ہے‘ ان کے لیے ضرورت سے زیادہ دوائیں تجویز کی جاتی ہیں‘ ضرورت سے زیادہ انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ یہ انجکشن بیماریاں ختم کرنے کے بجاے انھیں منتقل کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ علاج مزید مہنگا ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں عام ڈاکٹروں کے ۸۵ فی صد نسخوں میں تین یا زائد دوائیں اور ۱۷ فی صد میں چھے سے زائد دوائیں ایک نسخے میں لکھ دی جاتی ہیں۔ اوسط تعداد فی نسخہ چار ہے۔

سرکاری شعبہ بھی بہتر حالت میں نہیں ہے۔ ایک جائزے کے مطابق‘ ڈاکٹر سے مشورہ ہونے سے اس کے کمرے سے باہر آنے تک ایک مریض کو اوسطاً دو منٹ دیے جاتے ہیں۔  ۵۰ فی صد مریض اپنے نسخے سے غیرمطمئن ہوتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک جائزے کے مطابق فی کس فی سال ۵.۸ انجکشن کے ساتھ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ انجکشن لگانے والے تین ممالک میں ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہمارے ملک میں ایک ارب انجکشن لگائے جاتے ہیں اور ان میں سے ۸۵ فی صد غیرمحفوظ طریقوں سے لگائے جاتے ہیں۔ (ڈرگ بلٹن‘ مارچ اپریل ۲۰۰۴ئ)

دوا ساز کمپنیوں اور ڈاکٹروں کے روابط کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا سنا جا رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ صارف کے مفاد دیکھنے والی کوئی انجمن تحقیقی مطالعے کا اہتمام کرے اور اندر کی کہانیاں سامنے لائے۔ گاڑیوں کی چابیاں‘ عمرہ کے ٹکٹ‘ تفریحی دورے اور ماہانہ مشاہرے غالباً کسی افسانوی دنیا کی باتیں نہیں۔ دوائوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔

عام آدمی کی نظروں میں آج بھی ڈاکٹر نہایت مقدس اور دیانت دار ہستی ہے۔ جو کبھی بھی خواہ مخواہ دوا نہیں لکھے گا۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ کمپنیوں کے ذمہ داروں کے مطابق جن اضلاع میں تعلیم کم ہے‘ وہیں سے بہت اچھی سیل رپورٹ آتی ہے۔

کیا ہماری اسمبلی یا سیینٹ کی متعلقہ کمیٹی کوئی ایسا کمیشن نہیں بناسکتی یا خود اپنے آپ کو ایسا کمیشن قرار نہیں دے سکتی جس کے سامنے اس مسئلے کے متعلقہ فریق آکر سب سچ بیان کر دیں اور ایک ضخیم رپورٹ تیار ہو‘ جو اس عظیم پیشے کی‘ دواسازی کے صنعت کاروں کی اور مریضوں کی صحیح صورت حال کی عکاسی کرتی ہو اور پھر کوئی ’علاج‘ بھی تجویز کرے۔