جماعت کے موجودہ لٹریچر کا صرف ترجمہ کر دینا عربی داں پبلک کے لیے کافی نہیں ہو سکتا۔ لٹریچر کے ترجمے میں بھی عرب کے مخصوص حالات و افکار کے اعتبار سے جابجا ضمنی تبدیلیاں اور اضافے کرنا ہوں گے۔ نیز اچھاخاصا صالح لٹریچر براہِ راست عربی زبان میں تیار کرنا پڑے گا جو وقت کے چلنسار اور مقبول عام افکار کے مقابلے میں اسلامی فکر اور اسلامی تحریک کو صحیح اور سائنٹی فک طریقے پر پیش کر سکے۔ یہ صالح لٹریچر اپنی زبان ‘ طریقۂ نظروفکر اور اسلوبِ بحث کے لحاظ سے اتنا ممتاز اور نمایاں ہو کہ دل اس کی طرف خود بخود کھنچ جائیں اور دماغ اس سے اثرپذیر ہوسکیں۔
یہ کام صرف صالح لٹریچر کی تیاری سے بھی پورا نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ہمیں ایک اعلیٰ درجے کے ماہنامے کی ضرورت ہوگی‘ جو ایک طرف تو اپنی ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے عربی کے مشہور رسالوں کے مقابلے پر آسکے‘ دوسری طرف وقت کے تمام مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر سے بے لاگ تنقید کر سکتا ہو…
یہ حالات ہیں ‘ جن کے پیش نظر جماعت نے ایک بلند پایہ عربی ماہ نامہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ابھی تو جنگ کی فتنہ سامانیوں کے باعث آغاز کار بہت مشکل ہے‘ لیکن یہ رائے طے پاچکی ہے کہ جنگ کے ختم ہوتے ہی عربی بولنے والی قوموں کو اسلامی دعوت اور اقامت دین کی تحریک سے روشناس کرانے کے لیے ایک رسالہ جاری کیا جائے۔ چونکہ کام اہم ہے اور اس کے لیے بڑی تیاریوں کی ضرورت ہے‘ اس لیے راقم الحروف اپنا مستقر چھوڑ کر دارالاسلام آگیا ہے‘ تاکہ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عربی زبان میں ترجمہ اور لٹریچر کی تیاری کا کام باضابطہ اور منظم طور پر شروع کر دیا جائے‘ اوراس دوران میں اتنا کام ہوجائے کہ جنگ کے بعد عربی زبان میں نشرواشاعت کا کام بلا پس وپیش شروع کیا جاسکے…
جو اصحاب اس مہم میں ہمارا ہاتھ بٹانا چاہیں‘ وہ بخوشی ہمیں اطلاع دیں۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم حقیقت کی طرف اشارہ کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے‘ وہ یہ کہ ہمیں ٹھیکے اور معاوضے پر کام کرنے والے مترجم مطلوب نہیں ہیں۔ ہمیں ایسے رفیقوں کی ضرورت ہے‘ جو اسلامی تحریک کے نصب العین اور طریق کار سے حرف بہ حرف متفق ہوں‘ اور جذبۂ تبلیغ وعمل ان کے رگ و پے میں سرایت کرچکا ہو۔ وہ اس کام کو ایک دینی خدمت سمجھ کر انجام دیں۔(’’اشارات‘‘، مسعود عالم ندوی‘ ترجمان القرآن‘ جلد۲۵‘ عدد ۱ -۴‘ رجب تا شوال ۱۳۶۳ھ‘ جولائی تا اکتوبر۱۹۴۴ئ‘ص ۴-۵)