کیا حقیقی اقتدار موجودہ جمہوری اداروں کی طرف منتقل ہوجائے گا؟ کیا پرویز مشرف صاحب سترھویں ترمیمی بل کی منظوری کے بعد‘ دستوری تقاضے پورے کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر کی آخری تاریخ سے قبل چھوڑدیں گے یا کلی اقتدار سے چمٹے رہنے پر اصرار کریں گے ؟ کیا پاکستان کو ایک دیانتدار‘اہل اور ملک و ملت کا حقیقی دردرکھنے والی قیادت میسر آسکے گی ؟ کیا امریکا ‘بھارت اور اسرائیل کی ملی بھگت کے مقابلے میں ہم اپنی قومی مصلحتوں کی حفاظت کرنے کے اہل ہیں؟ کیا ہم امریکا کے ساتھ نتھی ہونے پر مجبور ہیں یا امریکا سے جان چھڑا کر آزاد داخلہ اور خارجہ پالیسی اپنانے کے مواقع موجود ہیں ؟
ہم کوشش کریں گے کہ ان اہم سوالات سے متعلق مسائل کے بارے میں اپنی پالیسی کی وضاحت کریں۔
برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بظاہر تو اقتدار مسلم لیگ کی طرف منتقل ہوا لیکن قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کی رحلت کے بعد مسلم لیگ کی تنظیمی کمزوری کی وجہ سے اقتدار کلی طور پر سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ (انتظامیہ)کے ہاتھوں میں مرتکز ہوگیا ۔ گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی اور بالآخر یہ نوبت آئی کہ جنرل محمد ایوب خاں نے اسکندرمرزا کے ساتھ مل کر فوجی قبضے کے ذریعے سیاسی بساط ہی لپیٹ دی۔ایوب خان کے بعد یحییٰ خان اور یحییٰ خان کے بعد مشرقی پاکستان گنوا کے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی فوج ہی نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا۔ذوالفقار علی بھٹو سے اقتدار پھر جنرل ضیاء الحق کے ذریعے فوج کی طرف منتقل ہوگیا اور اسی فوجی دورِ حکومت میں نواز شریف کو متعارف کرایا گیا ۔ بے نظیر اور نوازشریف کے تجربات کے بعد فوج نے پرویز مشرف کے ذریعے ایک بارپھر اقتدار براہ راست سنبھال لیا۔
اس طرح پاکستان کی پوری تاریخ پر نظرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کی حقیقی مالک پاکستان کی فوجی اور سول انتظامیہ (establishment)ہے جو وقتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً سیاستدانوں میں سے پسند کے کچھ لوگوں کو بھی شریکِ اقتدار کرلیتی ہے لیکن اس کے لیے تیار نہیں ہے کہ حقیقی اقتدار عوام کے نمایندوں کی طرف منتقل ہو ۔ موجودہ حکمران پارٹی بناتے وقت بھی اس کا انتظام کیا گیا ہے کہ اس کی قیادت میں کوئی ایسا لیڈر سامنے نہ آسکے جو فوجی قیادت سے آزاد ہو کر ملک و قوم کی رہنمائی کی اہلیت رکھتا ہو۔ چودھری شجاعت حسین علالت کی بنا پر اس قابل نہیں ہیں کہ ملک و قوم کی قیادت کا بوجھ اٹھا سکیں ۔ اسی لیے انھوں نے محض چند مہینے کی وزارت عظمیٰ پر بخوشی اکتفا کرلیا ۔ اس سے قبل وہ اپنی علالت ہی کی وجہ سے میر ظفر اللہ خاں جمالی کی وزارت عظمیٰ پر رضا مند ہوگئے تھے۔
شوکت عزیز صاحب بنیادی طور پر ایک ٹیکنوکریٹ ہیں ۔ ساری زندگی ملک سے باہر گزاری ہے ۔ ان کا سیاسی میدان کا تجربہ پرویز مشرف کے دور تک محدود ہے ۔وہ پہلی مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور جن حلقوں کو ان کے انتخاب لڑنے کے لیے پسند کیا گیا ہے وہاں ان کی کامیابی کا انحصار جاگیرداروں اور وڈیروں کی حمایت پر ہے ۔ یہ امر محل نظر ہے کہ کیا وہ پرویز مشرف کی سرپرستی کے بغیر بھی سیاسی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں ۔
پرویز مشرف صاحب نے ایک منصوبے کے تحت مسلم لیگ (ق) کو کسی حقیقی عوامی اور سیاسی قیادت سے محروم رکھا ہے ۔ مسلم لیگ (ق) کے اتحادیوں میں اگرایک دوشخصیات ایسی ہیں بھی کہ وہ ذاتی لحاظ سے قیادت کی اہل ہیں تو وہ مسلم لیگ کو قابل قبول نہیں ہیں ۔البتہ چودھری شجاعت حسین صاحب علالت کے باوجود اپنی برادری کے اثرات‘ وسائل‘ اور اپنے طویل سیاسی تجربے کی بنا پر اس بات کے اہل ضرور ہیں کہ اپنے کسی سیاسی حریف کو موجودہ اسمبلی میں اقتدار تک پہنچنے سے روک سکیں ۔
ان حالات میں فوجی وردی اتارنے کے باوجود‘ اقتدار پرویز مشرف کے پاس رہے گا۔ شوکت عزیز ان کی وفاداری اورا طاعت پر مجبور ہوںگے اور چودھری برادران دونوںکو سیاسی پشتیبانی مہیاکرتے رہیں گے ۔امریکی سرپرستی حاصل کرنے کے لیے پرویز مشرف اور شوکت عزیزقومی مصلحتوں اور مفادات پر سودا بازی کرتے رہیں گے ‘جس کے نتیجے میں عوام کی بے چینی بڑھے گی اور عوام کی طرف سے اپوزیشن پر خصوصاً ایم ایم اے پر‘ پرویز مشرف حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لیے دبائو بڑھے گا ۔
ان حالات میں ملک کو کسی ہیجانی صورت حال سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مسائل کا آئینی اور قانونی حل نکالنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں اور حکومتی گروہ میں مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے۔ طرفین ایسا رویہ اختیار کرنے سے گریز کریں جس کے نتیجے میں تصادم ناگزیر ہوجائے ۔ اس کے لیے سب سے پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ پرویز مشرف صاحب خوش دلی سے آئین کاتقاضا پورا کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ چھوڑ دیں ۔ اس سے فوج میں بھی اطمینان پیدا ہوگا اور پرویز مشرف صاحب کو بھی ان خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جس کی شکایت انھوں نے خود اپنے ایک انٹرویو میں کی ہے کہ ان پر حملے میں فوج کے نچلی سطح کے کچھ لوگوں کاہاتھ تھا ۔ اس کے برعکس اگر آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ فوجی عہدہ برقرار رکھنے پر اصرار کریں گے تو تشدد کا راستہ اختیارکرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ۳۱دسمبرکے بعد فوجی عہدہ برقرار رکھنا آئین کو پس پشت ڈال کر اپنے ہی قائم کردہ جمہوری نظام پر وار کرنے کے مترادف ہوگا جس کے بعد جمہوری قوتوں کے پاس پرویز مشرف کے خلاف ایجی ٹیشن کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہے گا۔ اس ایجی ٹیشن کا نتیجہ جو بھی نکلے‘ لیکن اتنا تو یقینی ہے کہ اس کے بعد پرویز مشرف صاحب کے لیے اقتدار پر قائم رہنا ممکن نہیں رہے گا اور ایوب خان اور یحییٰ خان کی طرح ان کے اپنے ہی ساتھی ان سے معذرت کرسکتے ہیں کہ ان کا یہ رویہ نہ قوم کے لیے قابل قبول ہے اور نہ ملک کے دوسرے اداروں کے لیے۔ چنانچہ ملک و قوم اور خود پرویز مشرف کے لیے عافیت کا راستہ یہی ہے کہ وہ وردی اتار کر ایک سویلین صدر بننے پر اکتفا کرلیں ۔ اگر شوکت عزیز وزیراعظم بن جائیں تو دونوں مل کر باہمی ہم آہنگی کے ساتھ ۲۰۰۷ء تک آئین کی حدود میں رہتے ہوئے حکومتی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں اور اپوزیشن جماعتیں ۲۰۰۷ء کے انتخابات کے لیے تیاری کریں۔
اس صورت میں پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی حکومت عا فیت کے ساتھ اسی وقت چل سکتی ہے کہ وہ حساس معاملات میں قومی جذبات کا احترام کریں۔ حساس معاملات میں نیوکلئیر پروگرام سب سے اہم ہے اور اس پر ملک و قوم کی سلامتی کا انحصار ہے۔ بھارت کے مقابلے میں اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ہمارا دار و مدار اسی صلاحیت پر ہے۔یہ ملک و قوم اور ہماری فوج کے لیے بین الاقوامی برادری میں افتخار کا باعث ہے ۔
امریکا نے کھلم کھلا ہمیں ایک ایٹمی طاقت ماننے سے انکار کیا ہے ۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے ۔ ہماری اس صلاحیت کو اسرائیل نے بھی اپنے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور بین الاقوامی صہیونی لابی اس پروگرام کے خلاف سرگرم ہے۔ عبدالقدیر خان سمیت ہمارے بہت سے سائنس دانوں کو اس ایٹمی پروگرام کو پروان چڑھانے کے جرم میں اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں ذلیل کرایا گیا ہے اور ایٹمی پھیلائو (nuclear proliferation)کا الزام لگا کر پاکستان کو بھی غیر ذمہ دار ملک قرار دینے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ایٹمی پروگرام پر دبائو میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ پرویز مشرف کی وفاداری اور دہشت گردی کے خلاف امریکی اتحاد میں شامل ہونے کے باوجود‘ اور اس امر کے باوجود کہ پاکستا ن کو نیٹوسے باہر امریکا کا اہم اتحادی قرار دیا گیا ہے‘ اس اتحادی پر اس وقت تک اعتماد نہیں کیا جائے گا جب تک کہ پرویز مشرف صاحب ایٹمی پروگرام کو امریکا کے معائنے کے لیے کھول نہ دیں اور اس پر بین الاقوامی کنٹرول کو قبول نہ کرلیں ۔ لیکن پرویز مشرف صاحب ایٹمی پروگرام پر ایک حد سے زیادہ مفاہمت نہیں کرسکتے۔ اگر کشمیر یا ایٹمی پروگرام پر قومی پالیسی سے انحراف کیاجائے گا یا اسرائیل کوتسلیم کرنے ‘عراق اور افغانستان میں امریکی مفادات کے لیے اپنی فوجوں کو ملوث کرنے‘ یا قبائلی علاقوں میں امریکی دبائو کے تحت عریاں فوجی قوت استعمال کرنے کے قبیل کے اقدامات کیے جائیں گے تو حکومت کو اندرونی سیاسی ایجی ٹیشن اور بڑی عوامی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکا خارجہ پالیسی سے آگے بڑھ کر اب تعلیمی اور ثقافتی اور تہذیبی میدان میں بھی اپنی مرضی منوانے پر تلا ہوا ہے ۔پرویز مشرف کے مطلق العنان دور حکومت میں جب ابھی پارلیمنٹ وجود میں نہیں آئی تھی‘ زبیدہ جلال صاحبہ کی معرفت امریکی آشیر باد کے ساتھ اہم تعلیمی شعبوں میں آغاخان فائونڈیشن کو عمل دخل دینے کے لیے ایک معاہدہ کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ۲۰۰۶ء میں ملک بھر میں ہر تعلیمی ادارے کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنے ادارے کا آغاخان فائونڈیشن کے قائم کیے ہوئے تعلیمی بورڈ سے الحاق کر لے۔ آغاخان فائونڈیشن کے بورڈ کو یوایس ایڈ (U.S. Aid)کی مالی پشتیبانی حاصل ہوگی جس کی شہ پر وہ خود سے منسلک اداروں کو بظاہربہتر سہولتیں مہیا کرکے انھیں مغربی تہذیب و ثقافت اور اقدار اپنانے اور بچوں کو اسلامی تہذیب سے نا آشنا کرکے مغربی تہذیب کا خوگر بنانے پر آمادہ کرسکے گا ۔ اس طرح نظام تعلیم کو سیکولر بنانے اور نئی نسل کو اسلامی نظریے کے بجاے سیکولر نظریات کی طرف دھکیلنے کی امریکی پالیسی پر عمل درآمد کرنے کا پروگرام ہے ۔
اس کا راستہ ہموار کرنے کے لیے ابھی سے پرویز مشرف صاحب اپنی تقریروں اور انٹرویوزمیں اظہار خیال فرمارہے ہیں کہ اسلام سیکولرازم کے ساتھ متصادم نہیں ہے۔پرویز مشرف صاحب کے اعتدال پسند اسلام (Moderate Islam)کی تو یہ توجیہہ کی جاسکتی ہے کہ خود قرآن کریم نے امت مسلمہ کو امت وسط (اعتدال والی قوم ) قرار دیا ہے مگر ان کے اس ارشاد کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں ہے کہ اسلام میں سیکولرازم کی گنجایش ہے کیونکہ سیکولرازم نام ہی اجتماعی اور سیاسی زندگی سے دین کے اخراج کا ہے ‘ جب کہ اسلام مکمل نظام زندگی ہے ‘ زندگی بسر کرنے کا سلیقہ ہے اور بقول اقبال دین دنیا کے دروازے کی کنجی ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا ہے:’’از کلیددین دردنیا کشاد‘‘۔
اسلام کا مطالبہ ہے کہ اسے قبول کرنا ہے تو پورے کاپورا قبول کرلو۔اسلام کے بعض حصوں کو قبول اور بعض کو رد کرنے کی کوئی گنجایش دین اسلام میں نہیں ہے ۔اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِط (البقرہ ۲:۸۵) ’’توکیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں‘ ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟‘‘
حدود قوانین اور توہین رسالت ؐکے قانون کو مغربی اقوام کے دبائو کے تحت تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لیکن پرویز مشرف صاحب پر یہ واضح رہنا چاہیے کہ اگر انھوں نے پسپائی اختیار کی اور اسلام کے راستے کو چھوڑکر اپنے نظام تعلیم اور تہذیب و ثقافت اور قوانین کو مغربی تہذیب کے رنگ میںرنگنے کے راستے پر چل پڑے تو وہ خود اپنے خلاف احتجاج اور ایجی ٹیشن کو دعوت دیں گے ۔
مغربی اقوام اور خصوصاً امریکا کا ایک مطالبہ دینی مدارس کے آزادانہ نظام کو ختم کرکے ان کو حکومتی کنٹرول میں دینا ہے ۔مغربی میڈیا میں دینی مدارس کے خلاف زبردست مہم چلائی جارہی ہے اور دینی مدارس کو دہشت گردی اور تشدد کا منبع قرار دیا جا رہا ہے ۔ دہشت گردی اور جہاد کو ہم معنی قرارد یا جارہا ہے اور اس بہانے قرآنی تعلیمات کو نصاب تعلیم سے خارج کرنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ یہ ایسا مطالبہ ہے کہ پاکستانی قوم کو اس کے لیے آمادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ جو حکومت بھی اس حد تک امریکا کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگی اسے اپنی قوم کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکا کے دبائو کے تحت اس طرح کی پالیسی بنانے والی حکومت ملک کے امن و امان کو تہ و بالا کرنے کی خود ذمہ دار ہوگی اور امن و امان کی خرابی کے ساتھ اقتصادی ترقی کا خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اقتصادی ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور امن و امان بنیادی ضرورت ہے ۔ آج دنیا میں ہزاروں ارب ڈالر اس انتظار میں ہیں کہ انھیں کسی ترقی پذیر ملک میں امن و امان کی بہتر صورت حال اور سیاسی استحکام ملے تو یہ پورا سرمایہ وہاں منتقل کردیا جائے ۔ خود پاکستانی شہری اپنا سرمایہ اور اپنی مہارت (skill)اپنے ملک کی طرف اس وقت منتقل کریں گے جب ا ن کو یقین ہوگا کہ ملک سیاسی طور پر مستحکم ہے اور امن و امان کی صورت حال بہتر ہے ۔ یہ حالات اس وقت پیداہوسکتے ہیں جب حکومت اور عوام میں ہم آہنگی ہو اور باہمی اعتماد کی فضا قائم ہو۔جو حکومت اپنے عوام کی خواہشات اور امنگوں کو نظر انداز کرکے طاقت کے استعمال کے ذریعے امن قائم کرنے پرتل جائے‘ وہ امن کی بجاے بد امنی کو دعوت دے گی ۔ چنانچہ وزیر ستان میں طاقت کے استعمال کانتیجہ حکومت نے دیکھ لیا ۔ اب پاکستانی فوج اپنے آپ کو خود اپنی قوم میں اجنبی محسوس کررہی ہے ۔ چھائونیوں کے گرد دیواروں کو اونچا کیا جا رہا ہے اور فوجی افسران حفاظتی دستوں کی نگرانی کے بغیر اپنے گھرسے باہر نہیں نکلتے ۔ پرویز مشرف صاحب جس راستے سے گزرتے ہیں‘ اس پورے راستے پر گاڑیوں کے چلنے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے اور عملاً کرفیو کا سماں ہوتا ہے۔ یہ سب عوام کی مرضی کے خلاف پالیسیاں بنانے کے شاخسانے ہیں۔ ان حالات میں ملک نہ اقتصادی طور پر ترقی کرسکتا ہے‘ نہ اس میں سیاسی استحکام پیدا ہوسکتا ہے‘ نہ اس کی امن و امان کی صورت حال کو درست کیا جاسکتا ہے۔
اب ہم اپنے سوالات کے اصل جواب کی طرف آتے ہیں۔ اگرپاکستان کی فوج‘ یہاں کے سیاست دان اور قومی دانش ور خلوصِ نیت کے ساتھ ملک و ملّت کو موجودہ گمبھیر صورت حال سے نکالنا چاہتے ہیں تو درج ذیل اقدامات کے ذریعے قوم کی کشتی بھنور سے نکالی جاسکتی ہے:
۱- پرویز مشرف صاحب چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ چھوڑتے ہوئے اسے فوج کے کسی مستحق اور اہل جنرل کے سپردکردیں جو سیاسی عزائم کی بجاے قومی دفاع پر پوری توجہ مرتکز کردے‘ اور فوج کو ملک کی اندرونی صورت حال میں فریق بنانے کی بجاے سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الگ کردے ۔
۲- نیوکلئیرپروگرام کی حفاظت اور اسے ترقی دینے کی پالیسی پر سختی سے پابندی کا اعلان کیاجائے۔
۳- پارلیمنٹ کی خود مختاری کو تسلیم کرکے اقتدار اس کی طرف منتقل کردیا جائے اور پارلیمنٹ سے بالا تر اداروں کا خاتمہ کرکے صدر اور سکیورٹی کونسل کے ادارے اور فوج سمیت تمام اداروں کو پارلیمنٹ کے ماتحت کردیا جائے ۔ اس بنیادی اصول کو قوم ‘ سیاست دان‘ حکومتی پارٹی اور اپوزیشن دل سے تسلیم کرلیں اور اس کا احترام کریں۔
۴- پرویز مشرف صاحب اور حکمران پارٹی کوئی ایسا اقدام کرنے سے گریز کریں جو ملک کے اسلامی نظریے کے منافی ہو‘ جس کو ملک کے عوام خوش دلی سے قبول کرنے سے انکار ی ہوں اور جو قومی پالیسی اور قومی امنگوں کے منافی ہو ۔
۵- کشمیر کی قومی پالیسی پر سختی سے کاربند رہیں اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے علاوہ کسی دوسرے حل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔
۶- فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کا اعلان و اقرارکیا جائے اور بیت المقدس سمیت فلسطین پر اسرائیل کی بالادستی تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔
۷- عراق اور افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کو ختم کرکے عراق اور افغانستان کی آزادی اور خود مختاری کوبحال کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ کسی بھی صورت پاکستانی فوج یا نمایندے عراق نہ بھیجے جائیں۔
۸- دینی مدارس میں ناجائز حکومتی مداخلت کا سلسلہ بند کیا جائے اور امریکی دبائو کے تحت تعلیمی منہج کو تبدیل کرنے سے احترازکیاجائے۔
۹- حدود قوانین اور توہین رسالتؐ کے قوانین کو چھیڑنے سے احترازکیا جائے۔
۱۰- آیندہ انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے کے لیے ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اپوزیشن کے مشورے سے عمل میں لائی جائے۔ جس الیکشن کمیشن پر اپوزیشن عدم اعتماد کا اظہار کرے‘ اسے تبدیل کردیا جائے تاکہ انتقال اقتدار عوام کی آزادمرضی سے عمل میں آئے اور عوام کا حق حکمرانی تسلیم کرلیا جائے ۔
اگر حکومت ان تجاویز پر خوش دلی سے عمل کرنے پر آمادہ ہو جائے تو قدرتی طور پر اپوزیشن سے بھی مثبت رویے کی توقع کی جاسکتی ہے بلکہ وہ اقتصادی‘ اخلاقی اور سیاسی میدان میں ترقی کے کاموں میں حکومت سے تعاون کرے گی۔ اس صورت میں ملک و قوم کی کشتی نئے آنے والے طوفانی دور میں بحفاظت پار ہوسکتی ہے اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعاون کے راستے کھل سکتے ہیں ۔ ملک کے ہر بہی خواہ کا فرض ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو عافیت کا یہ راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرے ۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اگر قومی مفادپر مبنی اس پالیسی پر اتفاق ہوجائے تو ہم بھارت ‘اسرائیل اور امریکی گٹھ جوڑ کے باوجود خطرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور قومی مصلحتوں کی حفاظت کی خاطر آزادخارجہ اور داخلہ پالیسیاں بناسکتے ہیں اور ملکی دفاع کی خاطر عوام ‘فوج اور حکومت کا مل اتفاق اور ہم آہنگی کے ساتھ ایک ساتھ چل سکتے ہیں ۔جمہوری طرز حکومت کا حسن یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن قومی مفادکی خاطر اکٹھی ہوجاتی ہیں اور قومی سلامتی کو درپیش خطرات کا مل کر مقابلہ کرتی ہیں ۔
کسی بھی جمہوری معاشرے میں ہر پارٹی کا اصل ہدف اپنی قوم کی فلاح و بہبود ہوتی ہے۔قومی فلاح و بہبود کے لیے قومی سلامتی اولیں ضرورت ہے اور قومی سلامتی کی خاطر حکومت‘ فوج اور عوام میں ہم آہنگی ضروری ہے ۔ یہ ہم آہنگی اس وقت حاصل ہوسکتی ہے جب ملک کے تمام ادارے صدق دل سے پاکستان کے آئین اور قرارداد مقاصد میں بیان کردہ بنیادی اصولوں کی پاسداری کریں ۔ ان بنیادی اصولوں میں سب سے اہم ہمارا اسلامی نظریہ ہے ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے غیر مسلم ممبران سمیت ملک کے تمام اہم اداروں کے افراد پاکستان کے اسلامی نظریے کے ساتھ وفاداری کا حلف لیتے ہیں ۔ دستور کی پابندی اور اس کی حفاظت کرنے کا حلف ہماری افواج کے سربراہان ‘ہمارے صدر‘ وزیراعظم اوراعلیٰ عدالتوں کے تمام جج صاحبان لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود دستور کی پابندی نہ کرنے کے نتیجے میں ہمارا سیاسی نظام کئی بار تلپٹ ہوچکا ہے ۔
ہماری افواج میں بھی اب یہ احساس پایا جاتا ہے کہ قومی سلامتی کے لیے اپنی تاریخ اور اسلامی نظریے سے وابستگی‘ مضبوط اقتصادی ڈھانچا اور مضبوط اداروں کا قیام ضروری ہے ۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب ہم دستور کی پابندی کا عہد کریں جس کی بنیاد نظریہ اسلام ‘ جمہوریت ‘وفاقیت اور عدلیہ کی آزادی پر رکھی گئی ہے ۔
اس وقت پوری قوم میں اپنے مستقبل کے بارے میں جو فکرمندی پائی جاتی ہے‘ اس فکرمندی اور تشویش کو امید کی شمع روشن کرکے یقین محکم میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔یاس اور حزن‘ مایوسی اور ناامیدی تمام برائیوں کی جڑ ہے اور یہ انسان کی قوت عمل کو مفلوج کردیتی ہے‘ جب کہ امیداور یقین مضمحل قوتوں میں بھی جان ڈال دیتی ہے ۔اس لیے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے: یسرواولا تعسروا بشروا ولاتنفروا’’آسانیاں پیدا کرو اور تنگیاں مت پیدا کرو‘خوشخبریاں سنائو اور لوگوں کو متنفرمت کرو‘‘۔
لاتقنطوامن رحمۃ اللّٰہ ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ‘‘۔لاتیئسوامن روح اللّٰہ،’اللہ کے رحم سے ناامید نہ ہوں‘۔لاتخافواولاتحزنوا ،’نہ خوف کرو اور نہ غم کرو‘۔لاتخف،’ خوف مت کرو‘۔ لاتحزن، ’غم مت کرو‘۔
یہی تعلیم ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے دی ہے ۔ وہ امید کے شاعر تھے ۔ یاس اور حزن کوانھوں نے مثنوی اسرارخودی میں ام الخبائث قرار دیا ہے اور فرمایا ہے ؎
نہ ہو نومید‘ نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں