خلاصہ: آج کی ’ایک عالم گیردنیا‘ جدید ٹکنالوجی کا ایک ایسا تحفہ ہے جس میں طرح طرح کی سہولتیں تو ہیں‘ لیکن اس نے مل جل کر رہنے کا کام سہل نہیں بنایا۔ گو‘ باہمی رابطہ پہلے کے مقابلے میں تیز تر ہوگیا ہے لیکن خود ہمسایوں کے درمیان میل ملاپ مشکل تر ہوگیا ہے۔ کیا مذہب ایک خدا کے کنبے کو متحد کر سکتا ہے؟ حق یا نجات کی حقیقت کیا ہے؟ اس مقالے میں‘ اسلام کے تصورِ نبوت کی روشنی میں انھی سوالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اسلام کا استدلال ہے کہ مذاہب کے سرچشمے الوہی ہیں۔ لہٰذا‘ ہدایت من جانب اللہ پر کسی خاص گروہ‘ نسل یا مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اسلام اس کا مدعی نہیں کہ تمام انبیا ؑ، اسلام کی وہی شکل (version) لائے تھے جو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کی۔ یہ مقالہ ہدایت من جانب اللہ اور ایک انسانی وسیلے کی حیثیت سے نبوت کے تصور پر بحث کرتا ہے‘ اور نبوت کی تاریخ اور اس کی عالم گیریت اور تبدیلی مذہب کی ذمہ داری کی وضاحت کرتا ہے۔
تضادات سے بھرپور اس دنیا میں مل جل کر رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تاہم‘ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان نہایت مفید کاموں میں سے ایک ہے‘ جو پیچیدگیوں سے بھرپور اور ہلاکت خیز حد تک خطرناک سہی‘ لیکن اس میں انسان اپنی تخلیق کے روزِ اول ہی سے سرگرم عمل ہے۔ ان کوششوں کا دائرہ طبعی لحاظ سے نہیں ہے کہ اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتے‘ اور نہ معاشرتی اعتبار سے ہے‘ کیونکہ معاشرتی روابط کے بغیرانسانی زندگی کا تانا بانا نہیں بُناجاسکتا۔ یہ قلب و ذہن کا دائرہ ہے: میل ملاپ‘ افہام و تفہیم‘ باہمی تعاون اور اس دنیا میں مل جل کر امن و امان اور محبت کو عام کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ اندیشوں اور ناکامیوں کے باوجود اس عظیم کام میں آدم و حوا کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے ناقابلِ مزاحمت کشش موجود رہی ہے۔ مل جل کر رہنے کی مشکلات نے انسانی خواہشات اور جدوجہد کو اکثر حیرانی اور مایوسی سے دوچار کیا ہے‘ لیکن اس کے لیے کوشش کو کبھی ترک نہیں کیا گیا‘ اگرچہ یہ حقیقت سے زیادہ ایک خواب‘ اور کارنامے کے بجاے ایک تمنا رہی ہے۔
تخلیق کے ہر اظہار میں تنوع لازماً ہوتا ہے لیکن وحدانیت اس کا منبع اور جوہر ہے۔ اگر اسی تنوع سے آدمی یہ سیکھنے کے لیے آمادہ ہو کہ وہ کس راستے پر چل کر اپنے خالق کو تلاش کرے اور اس تک پہنچے‘ تو اس جستجو میں مایوس ہونے کا کوئی جواز نہیں:
اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں۔ شاید کہ تم اس سے سبق لو (کہ خدا ایک ہے)۔ پس دوڑو‘ اللہ کی طرف۔ (الذاریات ۵۱:۴۹-۵۰)
اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدایش اور تمھاری زبانوں اور تمھارے رنگوں کا اختلاف ہے۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانش مند لوگوں کے لیے۔(الروم ۳۰:۲۲)
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں‘ جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی سفید‘ سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں‘ جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں‘ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ (فاطر ۳۵:۲۷-۲۸)
باہم مل جل کر رہنے میں جو بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں‘ ان میں مذہب‘ خصوصاً زیادہ مانے جانے والے مذاہب اور عقائد کے اختلاف کو عرصۂ دراز سے اہم ترین قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ ان عقائد کو تشدد اور تنازعات پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے‘ تاہم مغرب میں ’روشن خیالی‘ کے دور نے اس تصور کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عقلی و ذہنی ارتقا سے قطع نظر بعض تاریخی وجوہ نے بھی مغربی فکر میں مذہب کے اس تصور کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ بھی اس سے مبرا نہیں کہاجاسکتا‘ لیکن یورپ خصوصی طور پر مذہب کے نام پر شدید تشدد کا منظرنامہ پیش کرتا رہا ہے۔ ایک ایسے وقت جب مختلف عقائد کی حامل مختلف اقوام مختلف علاقوں میں مل جل کر رہ رہی تھیں‘ یورپ مذہبی بنیادوں پر جنگوں اور مذہبی اقلیتوں پر’ہسپانوی حل‘ ] مذہبی تطہیر[ مسلط کرنے میں مصروف تھا۔ یہاں تک کہ ۱۹۹۰ء میں بھی اس کے نزدیک مذہبی اختلافی مسئلے کا حل اقلیتوں کا صفایا یا مکمل جلاوطنی ہی قرار پایا ہے] جیساکہ بوسنیا میں مظاہرہ کیا گیا[۔ یہی سب سے بڑا سبب ہوسکتا ہے کہ مذہبی تکثیریت (pluralism) کی حقیقت اور اس کے مطالبات سے ہم آہنگی کی ضرورت‘ جو صدیوں سے بہت سے لوگوں کے نزدیک زندگی کی ایک حقیقت کے طور پر چلی آرہی ہے‘ مغرب پر اب اتنی دیر بعد منکشف ہوئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو متحد کرنے میں آج مذہب کیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے؟
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذہبی شخصیتوں کے باہمی مکالمے کی ضرورت ایک بڑا چیلنج ہے‘ خواہ اس مکالمے کی ابتدا مغرب کی طرف سے ہو۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تمام مذاہب کو ایک سائنسی نقطۂ نظر کی سطح پر لانے کا خبط بھی مغرب ہی کی پیداوار ہے‘ بجاے اس کے کہ ایک ایسا خاکہ تیار کیا جائے جو الہامی مذاہب کی حیثیت سے ان کے الگ وجود کو تسلیم کرے۔
اس حقیقت کو واضح طور پر تسلیم کرنا چاہیے کہ مذہبی عقائد نے بنی نوع انسان کو تقسیم کرنے میں کوئی بڑا یا فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا۔ دراصل دوسرے عقائد (لادینیت‘ قوم پرستی وغیرہ) نسلِ انسانی کی بقا کے لیے بڑے خطرے بن گئے ہیں۔ یہ عقائد کسی آسمانی خدا کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ انسان کی خدائی میں روبہ عمل ہیں۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ ’روشن خیالی‘ کے جڑواں بچوں‘ یعنی لادینیت اور قوم پرستی کے پیدا کردہ تشدد کے سامنے مذہب کے جرائم ماند پڑ جاتے ہیں۔ ذرا دیکھیں کہ دونوں عظیم جنگوں کے دوران‘ ہیروشیما اور ناگاساکی پر‘ اس کے بعد کوریا اور ویت نام‘ ہنگری اور چیکوسلوواکیہ پر اور اب سابق یوگوسلاویہ ]اور افغانستان اور عراق[ پر کیا گزر رہی ہے؟ قوم پرستی یا نسل پرستی کی قربان گاہوں پر‘ ترقی اور توسیع پسندی کی ناقابلِ تسکین پیاس اور نام نہاد انسان پرستی اور سائنسی طریقۂ کار کی کوکھ سے پیدا ہونے والے نظریات کے لیے جو خون بہایا گیا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کا کوئی حساب نہیں لگایا جا سکتا۔
’ایک عالم گیر دنیا‘ کے ظہور نے‘ جو ٹکنالوجی کی متنوع برکات کا تحفہ ہے‘ مل جل کر رہنے کے کام کو آسان نہیں بنایا۔ اس سے قبل مشکلات اور خطرات ایسے مشکل اور گمبھیر نہ تھے جیسے کہ اب ہیں۔ فاصلوں کے سمٹ جانے کے عمل نے لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب نہیں کیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ آواز کی رفتار سے ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتے ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ خیالات‘ تصورات اور اطلاعات کو ایک لاکھ ۸۶ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے کرئہ ارض کے پار پہنچایا جاسکتا ہے۔ پھر بھی صدیاں گزرنے کے باوجود باہمی محبت‘ فہم و ادراک اور خیرخواہی کے جذبات ایک پڑوسی سے دوسرے پڑوسی تک نہیں پہنچے ہیں۔ امرواقعہ یہ ہے کہ میں‘ ولفریڈ کانٹ ویل سمتھ کی رجائیت پسندی اور خوشی میں شریک ہونا مشکل سمجھتا ہوں۔ جب وہ یہ کہتا ہے کہ ’فی الحال کم سے کم تشدد‘ باہمی چپقلش اور نفرت سے چھٹکارا پا لیا گیا ہے یا پایا جا سکتا ہے‘ اور تنہاپسندی اور جہالت جلدی ختم ہونے والی ہیں۔ ماضی میں تہذیبیں ایک دوسرے سے بے نیاز رہیں‘ اب ایسا نہیں ہے۔ ہم تفصیلی طور پر ایک دوسرے سے آگاہ ہوچکے ہیں اور مذہبی اور ثقافتی سطح پر بھی تدریجاً آگاہی حاصل کر رہے ہیں۔۱؎
آیئے! لوگوں میں پائے جانے والے سیاسی‘ ثقافتی اور نسلی فاصلوں کو ایک لمحے کے لیے نظرانداز کر دیں اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں پر نگاہ ڈالیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ واقعتاً یا استعارۃً قریب کے پڑوسی ہوں اور ایک دوسرے کے بارے میں مکمل معلومات کتابوں کی الماری میں موجود ہوں‘ لیکن عدمِ واقفیت پہلے ہی کی طرح غیرمعمولی ہے۔ آگاہی پہلے ہی کی طرح بہت کم ہے‘ اور حقیقی علم تاحال ایک دور کا خواب معلوم ہوتا ہے۔ میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کسی غیرمسلم کی‘ خواہ وہ کتنا ہی عالم و فاضل کیوں نہ ہو‘ جو بھی تحریر اٹھاتا ہوں‘ اسے پہلے سے تشکیل شدہ تصورات‘ مضحکہ خیز خاکوں‘ لاعلمی حتیٰ کہ تعصبات سے بھرپور پاتا ہوں۔ غیرمسلم جب کسی مسلمان کی تحریر پڑھتے ہوں گے تو ان کے بھی اسی طرح کے تاثرات ہوتے ہوں گے۔ کیا ہم سب اپنے آپ کو اور دوسروں کو رنگ دار شیشوں سے دیکھتے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ اب‘ جب فاصلے سکڑرہے ہیں‘ ذہنوں‘ دلوں اور رویوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ تناسب بالمعکوس ہوں۔
یقینا مذہب بنی نوع انسان میں تفرقات پیدا کرنے اور خون بہانے کا اصل ذمہ دار نہیں۔ بلکہ اگر مناسب طریقہ اختیار کیا جائے تو اب بھی یہ واقعی ’ایک عالم گیر دنیا‘ کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے‘ یعنی ایک ایسے عالم گیر معاشرے کا قیام جو ایک ’خدا کے کنبے‘ کی طرح زندگی گزارے۔ کیا مذہب اس دعوے کو کچھ قریب لا سکتا ہے؟ بنی نوع انسان کی بقا کو جو چیلنج درپیش ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اسے یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے۔
اس حوالے سے مذہبی شخصیتوں کے لیے اپنے ماضی‘ حال اور مستقبل پر بحث و مباحثے کے لیے ایک اجلاس کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ ایسے اجلاس یا مکالمے کا مفید اور معنی خیز ہونا شرکا پر منحصر ہوگا لیکن اس کی اصل اہمیت یہ ہوگی کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے اکٹھے ہوکر‘ کھل کر اپنے مماثلات اور تضادات‘ اپنے تاریخی اور حالیہ تعلقات کی حرکیات اور ان خاکوں‘ مثالیوں اور مفروضوں پر غور کریں جو ان کے باہمی رشتوں سے تعلق رکھتے ہوں اور جو اُس الہامی دانش کے خزانے سے اخذ کردہ ہوں‘ جو ان سب کے پاس ہے۔
اس کا مقصد ایک عالمی مذہب‘ یا کلی یکسانیت یا ہمہ گیر ہم آہنگی نہیں جیسا کہ اس سے قبل بیشتر لوگوں نے اپنے مکالمات میں بیان کیا ہے۔ میری رائے میں اس کا لازماً یہ مطلب بھی نہیں کہ مذہباً تبدیل ہوا جائے لیکن اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ ایک دوسرے کے ورثے کے بارے میں ایک بہتر نگاہ حاصل کرلی جائے‘ اور باہم اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے مشترکہ بنیادوں کو تلاش کیا جائے‘ نیز یہ معلوم کیا جائے کہ کیا کچھ بجا طور پر خود ہمارے ورثے کا جزو ہے۔
تاہم‘ اگر ہم بہت واضح اور مشترک باتوں کے علاوہ دیگر امور کو اس خوف سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیں کہ اس کا مطلب تبدیلیِ مذہب ہوگا‘ اورہم اپنے اختلافات کی اصل نوعیت کا کھوج لگانے اور اس پر بحث کرنے سے اس خوف سے ہچکچائیں کہ اس سے ہماری دوستیاں اور رفاقتیں متاثر ہوں گی اور اپنی مذہبی صداقتوں کے بارے میں ہمارے بیانات کو وعظ سمجھ لیا جائے گا‘ تو اس طرح ہمارے بین المذاہب مکالمے کا ایک اہم مقصد پسِ پشت چلا جائے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اگر ہم مشترکہ مقاصد کے لیے بعض امور پر متفق ہوکر جدوجہد کریں تاکہ باہمی تعلقات اور عام انسانی حالت میں بہتری پیدا ہو‘ تو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اگر اس طرف توجہ نہ کی گئی تو سیاسی اور لادینی تنازعات جو آج ہمارے درمیان پُرتشدد تفریق پیدا کر رہے ہیں‘ وہ مذہبی اختلاف سے بھی زیادہ سنگین ہوسکتے ہیں۔ یہ عموماً مذہبی اجلاسوں کے ایجنڈے میں جگہ نہیں پاتے۔ ایس جے سمارتھا کہتی ہیں: مذہبی شخصیات کے اجلاس کا اہم ترین مقصد یہ ہوگا کہ وہ ہمارے مخصوص ورثوں کے ماخذ کا تعین کرے اور ان کی ایسی تعبیر کرے جو ہمیں ساتھ رہنے میں مدد دے، ۲؎کیونکہ ہم ایک مشترک مستقبل میں حصہ دار ہیں۔ ساتھ رہنے کے لیے اتنا ہی‘ یا اس سے بھی زیادہ اہم‘ ان ماخذ کا تعین ہو سکتا ہے جن میں ہم حصہ دار ہیں‘ جو ہمارے لیے مخصوص نہیں ہیں لیکن یہ ہمارا مشترکہ ورثہ بن گئے ہیں۔ بڑے اور سنگین قسم کے اختلافات اور بے شمار تنازعات کے باوجود ایسے ماخذ قلیل نہ ہوں گے‘ اور آج بین المذاہب تعلقات قائم کرنے کے لیے ان کی تلاش‘ ہو سکتا ہے کہ‘ بہ نسبت کسی اور چیز کے‘ زیادہ ثمرآور ثابت ہو۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام میں بہت سی باتیں مشترک ہیں اور اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں ایسے مزید ماخذ ملیں۔ لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہیں اور رہے ہیں۔ شاید ہم اسی لیے محاذ آرا ہیں کہ ہم میں مشترکات بہت ہیں۔ یہ بذاتِ خود تحقیق کا ایک دل چسپ موضوع ہو سکتا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دوسرے بڑے مذاہب کے ساتھ مشترک ماخذ کی تلاش و جستجو کو بھی کچھ کم ثمرآور ثابت نہ ہونا چاہیے‘ اگر ہم صرف یہ کام کریں کہ تاریخ نے ان پر جو تہیں چڑھا دی ہیں ان کو اتار دیں‘ اور ان کی تہ میں پوشیدہ زبان اور علامات کے پس پردہ اصل مطالب نکال لیں۔ ہمیں ان تین مذاہب کے بارے میں بھی یہ جائزہ لینا ہوگا کہ ان میں کیا چیز مشترک ہے‘ تاکہ ان طریقوں کے بجاے جو خود انسانی ذہن نے اللہ تک رسائی کے لیے اختیار کیے ہیں۔ ان طریقوں کو معلوم کیا جائے جو اللہ نے انسانی ذہن کو اپنے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے سکھائے ہیں (یہ بجاے خود ایک بدیہی مفروضہ ہوگا جو دوسرے کے خلاف ہوگا)۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک بڑی دل چسپ مشق ثابت ہو۔
اگر ہم مذہب کے ماخذ کی تعریف اس کے صحیفے‘ اس کی روایات‘ اس کی تاریخ‘ اس کی ثقافت‘ اس کی موروثی دانش‘ اور اس اصول کی روشنی میں کی جائے جو اس نے دوسرے مذاہب کی اقوام سے اپنا رشتہ یا تعلق استوار کرنے کے لیے استعمال کیا ہے‘ تو مجھے یہ بات جرأت سے کہہ ڈالنی چاہیے کہ یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام جو مشترکہ سرمایہ رکھتے ہیں‘ اس میں کوئی بات اتنی مشترک اور ان کے لیے ایسی لازمی اہمیت کی حامل نہیں ہے جتنی کہ نبوت کا ادارہ اور بعض انبیا علیہم السلام کی شخصیات۔ انبیا علیہم السلام بحیثیت ایسے انسان جن سے اللہ ہمکلام ہوا اور جنھیں اللہ نے انسانوں کو یہ سکھانے کے لیے مبعوث کیا کہ اللہ کی عبادت کیسے کی جائے‘ ہمارے مذاہب میں اتنا اہم اور نمایاں مقام رکھتے ہیں کہ شاید ’مشترکہ وسیلے‘ کے طور پر نبوت سے زیادہ کوئی چیز ہماری توجہ کی محتاج نہیں۔
یہ صحیح ہے کہ اس معاملے میں ہمارے درمیان بنیادی اور سنگین قسم کے اختلافات موجود ہیں۔ ایسے اختلافات جو غالباً دوسری چیزوں سے بڑھ کر ہمارے تنازعات کا باعث رہے ہیں۔ ایک طرف ہم نبوت کے استدراک میں اختلاف رکھتے ہیں‘ خصوصاً عیسائی فہم کے مطابق ’’یسوعؑ کی گواہی ہی نبوت کی روح ہے‘‘۔ مسلمان ایک محدود مفہوم اور اپنی تعبیر کے مطابق شاید اس نظریے سے کچھ ہمدردی رکھتے ہیں‘ مگر یہودی ہرگز اس پر راضی نہ ہوں گے۔ دوسری طرف ہم اس ضمن میں شدید اختلاف رکھتے ہیں کہ حقیقی اور سچا نبی کون ہے؟ جب بات حضرت عیسٰی ؑ اور آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اسلامی نقطۂ نظر تک پہنچتی ہے‘ تو ہم دو مختلف کناروں پر پہنچ جاتے ہیں۔ عیسائی اور یہودی دونوں اسلامی نقطۂ نظر سے ہرگز اتفاق نہیں کر سکتے۔ یہ اختلافات ہمارے مذاہب میں کچھ کم اہمیت نہیں رکھتے۔ البتہ اگر ہم اعتماد اور بھروسے کے ساتھ مذہبی شخصیات کی حیثیت سے‘ مفید نتائج کے لیے میل جول جاری رکھنے کے متمنی ہوں تو ان ماخذ کی باہم جستجو کو‘ جن میں ہمارا مشترکہ حصہ ہے‘ خواہ یہ اشتراک اتفاق میں ہو یا اختلاف میں‘ زیادہ عرصے تک معرض التوا میں نہیں ڈالے رکھنا چاہیے۔
پہلے قدم کے طور پر کچھ دیر کے لیے ہمیں فی الحال اس سوال کو ایک طرف اٹھا رکھنا چاہیے کہ کون نبی تھا‘ اور اس ادارے کے بنیادی خدوخال پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو ہم سب اپنی روایات میں بھرپورطریقے سے موجود پاتے ہیں۔ کیا یہ سودمند نہ ہوگا کہ ایک ایسے موضوع کا مطالعہ کیا جائے جو کسی ایسے نمونے یا خاکے کی بنیاد فراہم کر سکے جس پر ہم ’ایک عالم گیر دنیا‘ کے مذاہب میں رشتوں کی تعمیر کر سکیں۔ اس امید پر کہ یہ ممکن ہے‘ میں اس مقالے کے بیشتر حصے میں ان موضوعات پر گفتگو کروں گا جو اسلام میں نبوت کے تصور کے مطالعے کے دوران واضح ہوتے ہیں۔
ایسا کرتے ہوئے میں خصوصی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کی تعلیمات پر انحصار کروں گا۔ صرف اس لیے نہیں کہ میں ایک مسلمان ہوں‘ بلکہ اس لیے بھی کہ میرے خیال میں قرآن اس ادارے کے بنیادی خدوخال سے بہت جامع اور تفصیلی بحث کرتا ہے‘ اور اس طرح ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم ایک مربوط اور مکمل نظریہ تشکیل دے سکیں۔ جو کچھ انبیا علیہم السلام نے کہا یا کیا‘ جس کا انجیل میں بڑی تفصیل سے اور بڑے مؤثرانداز میں تذکرہ موجود ہے‘وہ بھی ایک قیمتی ماخذ ہوگا۔ میرا مقصد یہ ہے کہ اس اہم دائرے میں قرآنی بصیرت کو ایک بین المذہبی گروہ کے سامنے تنقیدی جائزے کے لیے پیش کروں۔
نبوت کے موضوع پر علماے یہود و نصاریٰ کے مطالعوں کی کمی نہیں ہے۔ مگر وہ زیادہ تر عہدنامہ عتیق تک محدود رہتے ہیں اور یہ قابلِ فہم بھی ہے۔ اپنی محدود تحقیق و جستجو کے دوران نبوت کے قرآنی نقطۂ نظر کا کسی غیرمسلم کا تفصیلی مطالعہ میری نظروں سے نہیں گزرا‘ سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بحیثیت پیغمبر مطالعے کے‘ جو ہمیشہ ایک ہی حتمی نتیجے پر پہنچتا ہے۔ زیادہ تر لکھنے والے خدا سے گزر کر اسلام میں نبوتؐ کے موضوع کو چھیڑے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آجاتے ہیں‘ حالانکہ قرآن اس پر اتنا زیادہ زور دیتا ہے۔ اس صورت حال پر تعجب ہوتا ہے کیونکہ غیرمسلم اہلِ علم نے قرآن کے اٹھائے ہوئے اکثر چھوٹے اور معمولی اہمیت کے حامل معاملات پر بھی تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔
مغربی اہلِ علم کی طرف سے مطالعے کے اس میدان کی طرف اتنی کم توجہ کیوں دی گئی؟ اس سوال کا کوئی مکمل جواب نہیں ہو سکتا۔ شاید قرآنی نظریہ اس لیے مسترد کر دیا گیا کہ عقلی اور مذہبی لحاظ سے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یا اس لیے کہ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیش کردہ ایک ایسی چیز کے طور پر دیکھا گیا ہے جس سے ان کے دعویٰ (نبوت) کو تائید مل جائے‘ اور ان کی پوزیشن کو اپنے مخالفین کے مقابلے میں سہارا مل جائے‘ یا شاید مغربی اہلِ علم قرآن میں عرب تاریخی تناظر کی کمی کی طرف زیادہ متوجہ رہے ہیں‘ اور اس حیرت میں مبتلا رہے ہیں کہ گذشتہ انبیاؑ کے ناموں کا مختلف جگہوں پر مختلف ترتیب کے ساتھ کیوں تذکرہ کیا گیا ہے‘ اور انھیں ایک صاف اور واضح تاریخی سلسلے کی صورت میں کیوں نہیں بیان کیا گیا‘ جیسا کہ ایک انسان سے بحیثیت مصنف کرنے کی امید کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدریجی اور قدیم تاریخی معلومات کو بائبل سے ماخوذ ثابت کرنا چاہتے تھے۔
قرآنی بیانات میں نہ صرف ہدایت ربانی اور نبوت کا ایک خاص نقطۂ نظر موجود ہے‘ بلکہ انسان کی ابتدا اور انسانی مذہبی تاریخ کا نظریہ بھی موجود ہے جو مغرب کے بیشتر اہلِ علم کے لیے خوف اور ناراضی کا باعث ہے۔ اپنے روایتی علم وفکر پر مضبوطی سے جمے ہونے کی وجہ سے یہ ان کے نزدیک اس حد تک ناپسندیدہ ہے کہ وہ اس پر دوسری نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ سب کچھ ساتویں صدی کے ایک اَن پڑھ عرب کی طبعی سائنسی علوم‘ تاریخ اور فلسفہ کے میدان میں‘ جو اب اتنی ترقی کرچکے ہیں‘ خلل اندازی ہے اور یہ بھی اس طرح کہ اس کے پیچھے کوئی حتمی یا فیصلہ کن یا غالب تجرباتی شہادت کا وزن نہیں ہے۔
مجھے یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کی تائید میں ابھی تک کوئی حتمی یا اغلب تجرباتی شہادت موجود نہیں ہے‘ لیکن کیا اس کے خلاف کوئی حتمی شہادت موجود ہے؟ کم از کم مجھے تو اب تک ایسی کوئی شہادت نہیں ملی اور نہ مجھے انسان کے آغاز کے حوالے سے ارتقا کے نظریے کے حق میں‘ یا مذہب کی تاریخ کے حوالے سے فطری مذہب سے لے کر نبوی مذہب تک‘ یا بہت سے خدائوں پر عقیدے سے لے کر ایک خدا پر ایمان تک کے حق میں‘ کسی قسم کی حتمی شہادت ملی ہے۔ اس امرسے قطع نظر کہ اگر کوئی حتمی شہادت کبھی میسر آ بھی جائے جس سے سائنسی طور پر کسی سچائی کو ثابت کر دیا جائے یا اگر سائنس حتمی صداقت تک پہنچانے کا دعویٰ کرتی ہے‘ پھر بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ تاریخ کے کسی خاص مرحلے پر کیا دستیاب تاریخی شہادت کو حتمی طور پر قبول کر لیا جائے تاکہ علم کی ہر دوسری شاخ کو اس کے خاکے میں فٹ کر دیا جائے اور اسی کے مطابق اسے قبول یا رد کیا جائے؟ اگر قرآنی نظریے کے چند اہم عناصر کی تائید میں خاطرخواہ تجربی دلائل فراہم ہوجائیں تو میں جو تجویز پیش کرنا چاہوں گا وہ یہ ہوگی کہ یہ نظریہ اگرچہ میرے ایمان کی بنیاد ہے‘ پھر بھی اس کو تین سوالات کی روشنی میں ایک مفروضہ یا اندازہ سمجھا جائے۔ (الف) اسے غلط ثابت کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ (ب) کیا یہ قابلِ عمل ہے اور کسی معلوم شہادت کی توجیہہ کرتا ہے؟ (ج) کیا یہ ’ایک عالم گیر دنیا‘ میں بین المذہبی تعلق کے خاکے کو اجاگر کرنے کے لیے کارآمد ہے؟ تحقیق و جستجو کا ایک سائنسی راستہ یہ بھی ہے کہ ایک مفروضہ تیار کر لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا موجودہ صورت حال میں اس کا اطلاق ہوسکتا ہے۔
قرآنی نظریے کو اسلام کا اس طرح کا سادہ لیکن شدید موقف قرار دے کر بہ نظر حقارت دیکھا جاتا ہے جو اپنی صداقت کے ثبوت اور آخری مذہب ہونے کی اپنی حیثیت کی بنیاد پر نوع انسان کی کُل مذہبی تاریخ پر اپنی چھاپ چاہتا ہے۔ یہ ایک نقطۂ نظر ہوسکتا ہے‘ لیکن ایک دوسرا نقطۂ نظر بھی ہو سکتاہے۔ قرآن دعویٰ کرتا ہے کہ پہلا انسان نبی تھا‘ مسلم تھا‘ اس کا مذہب اسلام تھا‘ اور یہ کہ سب نبی مسلم تھے اور وہ اسلام ہی لے کر آئے تھے۔ اس دعوے سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ بعض ایسے اہم مذہبی مقدمات پیش کر رہا ہے جو نجات‘ انفرادیت اور عروج کی طرف رہنمائی کرنے کے بجاے ’ایک عالم گیر دنیا‘ میں مختلف مذاہب کے اکٹھے رہنے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
ا- تمام مذاہب کا ماخذ الہامی یا آسمانی ہے۔ لہٰذا الہامی رہنمائی پر کسی خاص گروہ‘ نسل یا مذہبی مسلک کی اجارہ داری نہیں ہے۔
ب- مختلف ہونے کے باوجود تمام مذاہب کے کچھ عناصر مشترک ہونے چاہییں کیونکہ ان سب کا آغاز ایک ہی منبع سے ہوا ہے۔
اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اسلام کا ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ تمام انبیاؑ اسلام کی وہی صورت (version) لائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے۔ وہ ایک بہت سادہ پیغام لائے جو اسلام کا اصل جوہر ہے‘ یعنی:
ا- اللہ ایک ہے۔ صرف اسی کی عبادت کرو اور صرف اسی سے ڈرو۔
ب- میری پیروی کرتے ہوئے بھلائی کرو اور برائی سے بچو۔
اب ہم نبوت کے اسلامی تناظر پر ایک سرسری نظر ڈال سکتے ہیں۔ اس کی بنیاد اور حقیقت کیا ہے؟ اسلام اس کو انسان کی زندگی کے سارے منصوبے میں کیا مقام دیتا ہے؟ اس کے بڑے اور اہم خدوخال کیا ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ خداے واحد کی دنیا میں مذہبی تکثیریت کی قبولیت کے کس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے؟ ہم یہاں آزادی فکر کے فلسفیانہ مضمرات پر زیادہ بحث نہیں کریں گے۔ ہم تو ایسی واضح اور قابلِ فہم اصطلاحات میں بات کریں گے جو ایک عام آدمی کی سمجھ بوجھ کے مطابق ہوں۔ مثال کے طور پر: ’اللہ کا وجود ہے‘ اس کے مخاطب فلسفی اور اہلِ علم نہیں بلکہ عام انسان ہیں جو مل جل کر رہنے کے مسائل سے نبردآزما ہیں۔ اہلِ علم کی اہمیت سے انکار نہیں‘ لیکن فی الحال وہ انتظارکرسکتے ہیں۔
نبوت کے اسلامی نظریے کی ساری بنیاد اس پر ہے کہ خدا صرف ایک ہے۔ صرف وہی ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں سوالات کے جوابات کی طرف ہماری رہنمائی کرسکتا ہے۔ انسانی زندگی کا مفہوم اور مقصد کیا ہے؟ اس کا آغاز کیسے ہوا؟ اور یہ ہم کو کہاں لے جاتی ہے؟ ان کے جوابات کی روشنی میں انسان اپنی زندگی کو کیسی شکل دے اور کس طرح گزارے؟ یا مذہبی زبان استعمال کی جائے تو: انسان خدا کی عبادت کس طرح کرے--- صرف خدا ہی خود بتا سکتا ہے۔ صرف اس کی ہدایت ہی علم اور مکمل سچائی ہے۔ باقی سب گمان ہی کیا جا سکتا ہے جو جزوی علم یا جزوی سچائی ہوگی۔
صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۲۰)
اور کہو کیا ان میں کوئی ہے جس کو تم خدا کے ساتھ شریک کرتے ہو‘ جو سچائی کی طرف تمھاری رہنمائی کرے۔ کہو ’’صرف اللہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود راہ نہیں پاتا الا یہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے؟ آخر تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ کیسے الٹے اُلٹے فیصلے کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ محض قیاس اور گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں۔ حالانکہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا‘‘۔ (یونس۱۰:۳۵-۳۶)
اس معاملے کا کوئی علم انھیں حاصل نہیں۔ وہ محض گمان کی پیروی کررہے ہیں۔ یہ گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔ (النجم ۵۳:۲۸)
بہت سے لوگ مظاہر قدرت کے بارے میں سائنس‘ ٹکنالوجی اور تاریخ کے ذریعے تجرباتی اعداد و شمار پر مبنی کچھ معلومات ضرور حاصل کر لیتے ہیں‘ لیکن کائنات اور زندگی کے پوشیدہ اسرار کے بارے میں وہ آسمانی رہنمائی یا ہدایت کے بغیر صرف قیاس اور خیال آرائی ہی کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ خدا کی عبادت کرنے کے لیے رہنمائی من جانب اللہ ہے‘ بلکہ یہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ یہ ایک ایسی ذمہ داری اور فرض ہے جو خدا نے خود اپنے اوپر عائد کیا ہوا ہے‘ تو غلط نہ ہوگا (میں جو زبان استعمال کرتا ہوں‘ ضروری نہیں کہ وہ تینوں مذاہب کی روایت کے حوالے سے موزوں و مناسب ہو۔ میں ایک عالم ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتا لیکن میں ہر صورت قرآنی زبان کے قریب ضرور رہتا ہوں)۔ ’’یقینا ہم پر ہدایت دینے کی ذمہ داری ہے‘‘(اللیل ۹۲:۱۲)۔ یہ وعدہ اس وقت کیا گیا جب انسان کو پہلی دفعہ پیدا کیا گیا۔ ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف یا رنج کا موقع نہ ہوگا‘‘۔(البقرہ ۲:۳۸)
اللہ تعالیٰ اپنا فرض اور وعدہ پورا کرنے کے لیے انسان کا ذریعہ کام میں لاتا ہے۔ بنی نوع انسان کے لیے ایسے انسانوں کے ذریعے اپنی ہدایت نازل کرتا ہے جنھیں وہ منتخب کرتا ہے‘ جن سے وہ ہمکلام ہوتا ہے اور جنھیں‘ اپنے فرمودات کا اعلان کرنے کی ذمہ داری سونپ دیتا ہے۔
ہم نے اسے نازل کیا… تیرے رب کی رحمت کے طور پر۔ (الدخان ۴۴:۳-۶)
اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغامبری کا کام کس سے لے اور کس طرح لے۔ (الانعام ۶:۱۲۴)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ (الحج ۲۲:۷۵)
نبوت خدا کا عطیہ ہے‘ اس لیے صلاحیتوں کو نشوونما دے کر‘ یا مراقبہ کر کے‘ غوروفکر کرکے اسے ازخود حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ وحی ایک نفسیاتی مغالطہ(جنون) نہیں۔ یہ شاعرانہ تخیل بھی نہیں۔ یہ ایک سیاسی بصیرت یا خواہش بھی نہیں اور نہ یہ ایک صوفیانہ تجربہ ہے۔ یہ کوئی فعل نہیں‘ ذاتی اور انسانی ردعمل نہیں۔ کوئی نبی خدا کی طرف جو الفاظ منسوب کرتا ہے‘ ان میں سے کوئی اس کا اپنا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہو تووہ جھوٹا ہوگا اور سب سے بڑا گنہگار۔ نہ وہ یہ کر سکتا ہے کہ فریب خیال یا جنون کی حالت میں الفاظ کو اللہ کی طرف منسوب کر دے۔ایسی صورت میں وہ بڑی مشکل سے انبیاؑ کی طرح رہنمائی کر سکے گا‘ سختیاں جھیلے گا یا اپنے مخالفین کا سامنا کرے گا۔ پیغامِ الٰہی ہمیشہ صاف‘ واضح‘ روشن اور شکوک و شبہات سے پاک ہوتا ہے۔ ’’پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا‘ اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آگیا‘‘۔ (ھود۱۱:۱۷)
واسطہ انسانی ہے کیونکہ مخاطب انسان ہیں۔ لوگوں کے لیے یہ سمجھنا ہمیشہ مشکل رہا ہے کہ بھلا انھی جیسا ایک انسان کیونکر اللہ کا پیغام وصول کر سکتا ہے؟ ایک گوشت پوست کا عام انسان کیونکر اللہ سے ہم کلام ہو سکتا ہے؟ پہلے بھی ایسی ہی مذہبی الجھنیں اور مشکلات پیش آتی رہی ہیں اور آج بھی سائنسی بنیاد پر اعتراضات ہیں (پھر بھی جب کبھی ایسے انسان سامنے آئے تو ان کی دین دارانہ زندگی کا لوگوں پر ایسا اثر ہوا کہ ان کو الوہیت کے مقام تک پہنچا دیا گیا)۔ مگر قرآن پاک انبیاؑ کے انسان ہونے پر بہت اصرار کرتا ہے۔ ’’اے محمدؐ ان سے کہو پاک ہے میرا پروردگار۔ کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں؟ لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے ان کو کسی چیز نے نہیں روکا‘ مگر ان کے اس قول نے کہ: ’’کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا؟‘‘ ان سے کہو‘ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لیے پیغمبر بناکر بھیجتے‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۹۳-۹۵)۔ یہی وجہ تھی کہ ہدایت انسانوں کی زبان میں آئی۔ بولنا انسانی فعل ہے۔ وہ اس کے لیے ذمہ دار ہے اور اس کے لیے آزاد اور بااختیار ہے۔
حضرت آدم ؑ کو جو علم دیا گیا تھا وہ اسماء کا علم تھا (البقرہ ۲:۳۱)۔ زبان سے مافی الضمیر کو بیان کرنا‘رحمت الٰہی کا سب سے بڑا تحفہ اور انسانیت کا جوہر ہے۔ لہٰذا یہ وحی کے عطیے کی ظاہری صورت ہے۔ (الرحمٰن ۵۵:۱-۹)
گو کہ انبیاؑ انسان تھے‘ قرآن ان کی پاکیزہ زندگیوں کو‘ ان کے بے داغ کردار کو‘ نیک چلنی کو‘ اللہ اور اس کے مشن پر ان کے غیر متزلزل ایمان اور وفاداری کو‘ راہ حق میں جو تکالیف انھوں نے صبر سے برداشت کیں‘ ان سب کو نہایت نمایاں کرتا ہے۔ بلاشبہہ وہ انسانیت کی معراج تھے۔ اس لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ اپنے دعوئوں اور مثالوں میں سچے ہوں‘ اور ان کی پیروی کی جا سکے۔ ’’پھر ہم نے ہر ایک کو راہ دکھائی۔ اس طرح نیکوکاروں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیتے ہیں… بہتوں کو ہم نے نوازا۔ اپنی خدمت کے لیے چُن لیا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کی‘ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے…‘‘۔ (الانعام ۸۴۶-۹۰)
نبوت اور وحی سے متعلق بیانات کا یہ مطلب نہیں کہ موجودہ سائنسی چیلنجوں کے باعث جو مشکلات ان کی راہ میں کھڑی کر دی گئی ہیں انھیں نظرانداز کر دیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے لیکن کسی دوسرے موقع پر۔
اگر الہامی ہدایت پانے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی سے انسانی زندگی کے مقصد کی تکمیل اور اخروی نجات حاصل ہوتی ہے تو پھر اس کا ظہور تاریخ کے کسی خاص لمحے کا انتظار نہیں کر سکتا۔ ’اولین انسان‘ پر اللہ کی طرف سے جو بارگراں ڈالا گیا وہ اتنا ہی بڑا اور عظیم تھا جتنا کہ کسی اور انسان کے لیے زمان و مکان کے کسی مرحلے پر ہوسکتا تھا۔ اس لیے پہلا انسان ہی نبی تھا اور اسے وہ ضروری علم حاصل تھا جو آخری نبیؐ کو اور درمیان میں آنے والے تمام انبیاؑ کو حاصل تھا۔ اللہ کے نبی تمام زمانوں‘ علاقوں میں اور مختلف زبانیں بولنے والوں میں آئے۔
اور اللہ نے آدم ؑاور نوح ؑاور آل ابراہیم ؑاور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا تھا ۔(اٰل عمرٰن۳:۳۳)۔
اے محمدؐ، ہم نے تمھاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح ؑاور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی… اور ان رسولوں پر بھی جن کا تم سے ذکر نہیں کیا۔ (النساء ۴:۶۴)۔
ہر شخص کے آگے پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگران لگے ہیں۔ (الرعد ۱۳:۷)
ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیج دیا۔(النحل ۱۶:۳۶)
اللہ کی عبادت کرو اور میری پیروی کرو۔ اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔ (الانبیا ۲۱:۲۵)
نیکی کرو اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انھیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے کی اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی۔ وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔ (الانبیا ۲۱:۷۳)
ہر اُمت کے لیے ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے۔ پس اے محمدؐ، وہ اس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ (الحج ۲۲:۶۷)
تاہم‘ یہ اختلاف ان مذاہب کے پیروکاروں کے لیے اپنی نجات کا خصوصی دعویٰ کرنے یا پھر ایک دوسرے کے خلاف تشدد پر آمادہ ہو جانے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
ہم اب ان مقدمات سے آگے بڑھ سکتے ہیں کہ تمام مذاہب میں بہت سی باتیں مشترک ہونی چاہییں۔ اس لیے نہیں کہ انھوں نے ایک دوسرے سے مستعار لیا ہوا ہے بلکہ اس لیے کہ ایک ہی خدا نے اپنا کلام تمام انبیاؑ تک پہنچایا ہے۔ یہ بات کہ ایک ہی بنیادی پیغام ہر مذہب کا سرچشمہ تھا اور یہ اب بھی ان کی میراث کا حصہ ہے‘ آنے والے تمام زمانوں کے لیے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مابین باہمی تعاون اور امن کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
اس پیغام کے اجزا ایک سچے نبی کو ایک جھوٹے نبی سے ممیز کرنے کا ایک اہم معیار فراہم کرتے ہیں۔ دوسرا معیار اس نبی کی راست بازی اور پاکیزہ زندگی ہے جس نے ہمیشہ اپنے زمانے پر اور آیندہ نسلوں پر ایک گہرا نقش چھوڑا۔ (جاری)
(Encounter, Living Together in a World of Diverse Faiths: An Islamic Perspective ‘جلد ۵‘ شمارہ ۱‘ ۱۹۹۹‘ صفحات ۳-۲۹‘ اسلامک فائونڈیشن لسٹر‘برطانیہ)
۱- ولفرڈ کانٹ ویل سمتھ: On Understanding Islam (Selected Studies) (مائونٹین پبلشرز‘ دی میگ‘ ۱۹۸۱ئ)‘ ص ۲۹۳۔
۲- ایس جے سمارتھا (مدیر) Towards World Community (ورلڈ کونسل آف چرچز جنیوا ۱۹۷۵ئ) ص ۴۰۔