عالمِ اسلام پر امریکی یلغار نے ایک طوفان کی صورت اختیار کرلی ہے۔ یوں تو ہر مسلمان ہی مشکوک اور مشتبہ اور ہر مسلم ملک ’خطرناک‘ سمجھا جا رہا ہے مگر بعض خطے خصوصی توجہ کے مستحق قرار دیے گئے ہیں۔ یمن بھی ان میں سے ایک ہے۔ پاکستان کی طرح یمنی حکومت امریکا کی حامی‘ اتحادی اور نام نہاد ’خاتمۂ دہشت گردی‘ منصوبے میں فعال کردار ادا کرنے کی سنجیدہ کوشش کر رہی ہے۔ مگر امریکی قیادت کو ابھی تک مکمل اطمینان اور یک سوئی نہیں ہے۔ وقتاً فوقتاًذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے یہودی اور امریکی انتظامیہ میں گھسے ہوئے ان کے شاگرد یہ شوشہ بھی چھوڑتے رہتے ہیں کہ عالمِ جدید کے خطرناک ترین ’دہشت گرد‘ اسامہ بن لادن کا آبائی مسکن یمن ہی میں ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت بھی ہے کہ بن لادن خاندان سعودی عرب کے بہت سے دیگر طاقتور‘ مال دار اور بااثر خاندانوں کی طرح اصلاً حضرموت (یمن) سے تعلق رکھتا ہے مگر یمن کو نشانۂ انتقام بنانے کے لیے یہ دور کی کوڑی ہے۔
سعودی عرب کے جنوب میں واقع ۵ لاکھ ۲۸ ہزار مربع کلومیٹر رقبہ اور ایک کروڑ ۷۰لاکھ سے زاید آبادی پر مشتمل جمہوریہ یمن میں اس وقت مختلف علاقوں میں حکومتی فوج اور مسلح سرکاری اہل کاروں کا مقابلہ سرکاری ذرائع کے مطابق ’القاعدہ‘ کے جنگجوئوں سے جاری ہے اور دونوں جانب کا بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے۔ اس شورش کا مرکز یمن کے صدر مقام صنعاء سے تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر شمال کی جانب صعدہ کے صوبے میں واقع ہے جو قبائلی مزاج‘ روایات اور پہاڑی جغرافیائی ماحول رکھتا ہے۔ مران کے پہاڑ امریکا مخالف عناصر کی پناہ گاہ ہیں اور ایک مذہبی رہنما حسن بدرالدین الحوثی ان کی قیادت کر رہا ہے۔ وہ زیدی شیعہ مسلک کا نمایندہ ہے اور حکومتی الزامات کے مطابق اس کا رابطہ ایک جانب لبنان کی شیعہ جہادی تنظیم حزب اللہ سے اور دوسری جانب اسامہ بن لادن سے ہے۔ یمن کی حکومت اس خانہ جنگی میں وسائل‘ مالی اور افرادی قوت ضائع کرنے کے ساتھ راے عامہ کی نفرت کا بھی شکار ہو رہی ہے‘ مگر امریکی پالیسی سازوں کے نزدیک ابھی صدر علی عبداللہ صالح کی حکومت القاعدہ کو موثرانداز میں کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
الحوثی کا تعلق حزب اللہ سے جوڑنے کا دعویٰ خود صدرِ یمن نے علما سے ملاقات کے دوران کیا تھا مگر حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ نے کھلے عام اس کی تردید کر دی ہے (بحوالہ انٹرپریس نیوز سروس‘ روزنامہ ڈان‘ ۹ جولائی ۲۰۰۴ئ)۔ جہاں تک القاعدہ سے ان کا ناطہ جوڑنے کا معاملہ ہے وہ بھی محل نظر ہے اور امریکی و برطانوی ایجنسیوں کی عراقی ہتھیاروں کے متعلق رپورٹوں کی طرح نہایت غلط معلومات پر مبنی نظرآتاہے۔ الحوثی اور القاعدہ کا نام جن لوگوں کو دیا گیا ہے‘ ان کے خیالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ الحوثی کے پورے سیٹ اپ کا جو تعارف اسلام آن لائن پر دستیاب ہے وہ ان دعوئوں کا منہ چڑاتا ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ الحوثی کی طرح یمن کے سنی علما بھی امریکیوں سے بے پناہ نفرت کرتے ہیں اور اس کا اظہار بھی وہ کھلے عام کرتے رہتے ہیں۔ ان کو القاعدہ اور اسامہ کے ساتھی شمار کر کے پکڑا بھی گیا ہے اور گوانتاناموبے کے علاوہ افغانستان‘ مصر اور خود امریکا میں بھی ان کی نظربندی کی خبریں اب ساری دنیا میں گونج رہی ہیں۔
۱۱ستمبر کے واقعات کے بعد یمن پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پکڑدھکڑ فوراً شروع ہوگئی۔ ردعمل کے طور پر یمن میں امریکی مشنریوں کو یمنی عوام نے قتل کیا‘ امریکی بحری جہاز کول اور فرنچ ٹینکر لمبرگ پر حملے ہوئے۔ چنانچہ القاعدہ کے شبہے میں کئی لوگوں کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کر دیا گیا۔ اب ان میں سے ۱۵ کی رہائی کے لیے امریکی عدالتوں میں مقدمہ درج کرا دیا گیا ہے۔ عدالت نے سماعت کی اجازت بھی دے دی ہے۔ (ڈان‘ ۱۷ جولائی ۲۰۰۴ء )
یمنی پارلیمنٹ میں اگرچہ صدر کی جماعت حکمران پیپلز کانگریس کو اکثریت حاصل ہے مگر اپوزیشن بھی خاصی مضبوط ہے اور اس کے نمایندگان حکومتی ارکان سے کہیں زیادہ بیدارمغز‘ محنتی اور تعلیم یافتہ ہیں۔ پھر حکومت کی امریکا نواز پالیسی نے اسلامی گروپ اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے سیاسی منشور میں کئی امور میں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔
قطر کے’اسلام آن لائن‘ نیٹ ڈاٹ‘‘ کی ویب سائٹ کے مطابق: ’’وزیر داخلہ رشاد العلیمی نے بیان دیا کہ حالیہ جھڑپوں میں صعدہ کے علاقے میں ۱۱۸ افراد قتل ہوگئے ہیں۔ یہ جھڑپیں الحوثی کے مسلح دستوں کے مقابلے پر ۲۰ جون کو شروع ہوئی تھیں اور ابھی تک جاری ہیں۔ ان جھڑپوں میں ۳۲ جوان اور افسران کام آئے ہیں‘ جب کہ ۸۶ انتہاپسند بھی مارے گئے ہیں‘‘۔
جب وزیرداخلہ یہ بیان دے رہے تھے اس وقت فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے اطلاع دی کہ الحوثی کے حامیوں نے جھڑپوں کے دوران سات مزید حکومتی کارندمے قتل کر دیے ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور معلوم نہیں اس کا انجام کیا ہوگا۔ وزیرداخلہ نے اپنے پارلیمانی بیان میں یہ بھی کہا کہ الحوثی کے تمام ساتھیوں کو ماہانہ ۲۰۰ ڈالر معاوضہ ملتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی خطرناک بیرونی قوت ان کی مالی امداد کر رہی ہے۔ وزیرموصوف اس کا کوئی ٹھوس ثبوت پارلیمان میں پیش نہ کر سکے۔ حزب مخالف کے رکن پارلیمان سلطان الفنوانی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس نازک اور اہم مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔ حکومت نے ایک پارلیمانی کمیٹی مقرر کردی ہے جو الحوثی سے مذاکرات کرے گی اور ہتھیار ڈالنے کی ترغیب دے گی۔
حسن بدر الدین یمن میں تو کافی عرصے سے جانی پہچانی شخصیت تھی مگر اسے زیادہ عالمی شہرت حالیہ واقعات ہی سے ملی ہے۔ یہ سیاسی جماعت حزب الحق میں شامل تھا۔ اس کی عمر اس وقت ۴۵ سال ہے۔ حزب الحق کے ٹکٹ پر وہ ۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۷ء تک رکن پارلیمان رہا۔ پھر اس نے سیاسی جماعت چھوڑ کر ’الشباب المومن‘ کے نام سے ایک الگ تنظیم قائم کرلی۔ ان کا نعرہ ’’مرگ بر امریکا‘ مرگ بر اسرائیل‘ لعنت بر یہود‘ فتح اسلام‘‘ تھا۔ پہلے یہ تعلیمی اداروں میں منظم ہوئے۔ پھر صعدہ کے علاقے میں دینی مدارس اور جامعات قائم کیں۔ شروع میں انھیں نہ صرف بے ضرر تنظیم سمجھا گیا بلکہ حکومت نے ان کی تعلیمی ضروریات کے لیے ان سے تعاون بھی کیا‘ خود صدرِمملکت نے حال ہی میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔
قدس پریس کے حوالے سے اسلام آن لائن نے بیان کیا ہے کہ اسلامی جماعت’ ’التجمع الیمنی للاصلاح‘‘ کے اثرات زائل کرنے اور شیخ عبدالمجید زندانی کے سیاسی رسوخ کو محدود کرنے کے لیے حکومت کچھ عرصے سے ایسی مذہبی تنظیموں کی سرپرستی کر رہی تھی۔
عراق میں مقتدیٰ الصدر بھی اچانک جہادی منظر پرنمودار ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھاگیا۔ وہ ابھی ۴۰سال سے بھی کم عمرکا نوجوان ہے۔ اسی طرح یمن میں بھی الحوثی چھا گیا ہے۔ اس کی عمر ۴۵سال ہے۔ دونوں علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یمنی وزیرداخلہ کے بیان مطابق الحوثی کو مہدی المنتظرمانا جاتا ہے اور اس کے پیروکار اس کی مکمل وفاداری و اطاعت کا عہد کرتے ہیں۔
یہ بات دل چسپ ہے کہ ۱۹۹۴ء کی یمنی خانہ جنگی اور سیاسی بدامنی کے خاتمے کے لیے جن قوتوں نے حکومت کے ساتھ دیا تھا اور یمن کے اتحاد کے نعرے کو عوامی پذیرائی ملی تھی‘ وہ سب حکومت کی موجودہ پالیسی کے شدید مخالف ہیں۔ الاصلاح کے بانی رہنما اور یمن کی معروف یونی ورسٹی جامعہ الایمان کے روحانی پیشوا شیخ عبدالمجیدزندانی اگرچہ یمن کے اندر مسلح جدوجہد کے مخالف ہیں مگر وہ سیاسی مظاہروں کے ذریعے امریکا کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے اور بڑے بڑے احتجاجی جلسوں کی مدد سے عراقی عوام کی حمایت کے فریضے سے کبھی غافل نہیں رہے۔ وہ اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس سے صدرِ مملکت کا نسلی تعلق ہے اور تجزیہ نگاروں کی آرا اس بارے میں مختلف ہیںکہ دونوںمیں سے اس بہت بڑے قبیلے کی اکثریت کس کے ساتھ ہے۔ صنعاء اور دیگر شہروں میں الاصلاح کے پلیٹ فارم سے عوامی مظاہرے اور ملین مارچ کی کامیاب حکمت عملی اور قوت کا مظاہرہ الاصلاح کی قوت اور شیخ زندانی کی کرشمہ ساز شخصیت کا تعارف اور اعتراف ہے۔ شیخ زندانی نے عملاً جہادِ افغانستان میں حصہ لیا تھا اور اسامہ بن لادن کے قریب ترین ساتھی بلکہ اکانومسٹکے الفاظ میں روحانی رہنما کا درجہ رکھتے ہیں۔
شیخ عبدالمجید زندانی بارہا پاکستان آچکے ہیں۔ ان کا سیاسی منشور بالکل واضح ہے۔ وہ زیرزمین سرگرمیوں یا مسلمان معاشرے میں مسلح جدوجہد کو درست قرار نہیں دیتے۔ یمن میں آبادی کی کل تعداد سے تین گنا بندوقوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور یمنی نظام نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ اکانومسٹ کے نمایندے مقیم قاہرہ نے ۴ جنوری ۲۰۰۳ء کی اپنی ایک رپورٹ کا آغاز ان الفاظ سے کیا تھا: ’’دنیا کا سب سے زیادہ بدقسمت شخص وہ ہے جسے شیر پر سواری کرنی پڑے یا پھر اسے یمن کا حکمران بنا دیا جائے۔ یہ ضرب المثل اس وقت کی ہے جب یمن میں اس کے شہریوں کی تعداد سے بندوقوں کی تعداد زیادہ تھی…‘‘
اسلام آن لائن کے مطابق شیخ زندانی بڑے محتاط ہیں مگر حکمت کے ساتھ اپنا جرأت مندانہ موقف اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف احتجاج ہر روز ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ ان کی رائے میں انتہا پسندی اور مسلح جدوجہد کی اصل وجوہات کو نہ حکومت یمن درخور اعتنا سمجھتی ہے‘ نہ ان کے امریکی سرپرست ہی اس بارے میں سنجیدہ ہیں۔ ان کے نزدیک امریکا کی یہ سرشت ہے کہ جو اس کے سامنے بچھتا چلا جائے وہ اسے دباتا چلا جاتا ہے‘ جو ڈٹ جائے‘ اس سے گفت و شنید اور مذاکرات کرتا ہے۔ امریکی ایجنسی ایف بی آئی کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر کی صدرِ یمن سے حالیہ ملاقات اور امریکا کی طرف سے اس مطالبے کو کہ حکومت مزید آہنی شکنجہ استعمال کرے‘ علما اور قوم پرست لیڈروں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے نزدیک امریکی افسر کا لب و لہجہ ایک وائسرائے کا سا تھا‘ جب کہ صدرِمملکت سرتسلیم خم کیے چلے جارہے تھے۔ادھر یمن کے علما نے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ حکومت ملک میں امن قائم کرنے کے بجاے اسے بدامنی کے حوالے کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ ایک جانب پارلیمانی مصالحتی کمیٹی قائم کی گئی ہے اور دوسری جانب حکومتی اہل کاروں نے حسن الحوثی کے نائب اور سابق رکن پارلیمان عبداللہ عیظہ الرزامی کو قتل کر دیا ہے۔ یہ صورت حال کم و بیش ویسی ہی ہے جیسی حکومت پاکستان نے ہمارے قبائلی علاقوں وانا اور جنوبی وزیرستان میں پیدا کر رکھی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ڈرامے کا ڈائریکٹر ایک ہی ہے‘ ایکٹر مختلف ہیں۔