اگست ۲۰۰۴

فہرست مضامین

دارفور : سوڈان میں امریکی مداخلت کا ایک اور دروازہ

عبد الغفار عزیز | اگست ۲۰۰۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

جنوبی سوڈان کی بغاوت کے بعد اب مغربی سوڈان خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ صوبہ دارفور میں ہنگاموں کا آغاز فروری ۲۰۰۳ء میں ہوا تھا۔ لیکن اس وقت امریکا سمیت دنیا کے کسی ملک نے ان کا ذکر نہیں کیا‘ کیونکہ تب امریکا سوڈانی حکومت کے ساتھ جنوبی علیحدگی پسندوں کا معاہدہ کروانے میں مصروف تھا۔ اس اثنا میں متعدد بار امریکی ذمہ داران نے سوڈانی حکومت کی وسیع النظری اور حقیقت پسندی کی تعریف کی‘ سوڈان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی بات آگے بڑھائی۔ یہ تجویز بھی زیربحث آئی کہ جنوبی باغیوں سے معاہدہ ہوجائے تو اس پر دستخط کرنے کے لیے فریقین واشنگٹن آجائیں تاکہ خود صدر بش اس معاہدے کو اپنی آشیرباد و ’’برکات‘‘ سے نوازیں۔ اس دوران باغیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے کوششیں جاری رہیں۔ دھمکیاں‘ لالچ‘ تعریفیں سب دائو آزمائے گئے۔ پھر جیسے ہی کینیا میں دو سال کے طویل مذاکرات کے بعد مئی ۲۰۰۴ء میں طرفین کے درمیان معاہدہ ہوگیا‘ تو دارفور دنیا کا خطرناک ترین مقام بن گیا۔ اقوام متحدہ کے نمایندہ براے سوڈان موکایش کابیلا کے الفاظ میں: ’’دارفور میں حقوق انسانی کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی آفت ٹوٹ پڑی ہے‘‘۔

۲۹ جون کو امریکی وزیرخارجہ ۱۹ سال کے بعد پہلی بار سوڈان گیا تو اس نے بیان دیا: ’’اگر دارفور میں عرب ملیشیا کو نہ کچلا گیا تو سلامتی کونسل کے ذریعے کارروائی کریں گے‘‘۔ یعنی‘ سوڈان پر پابندیاں عائد کر دیں گے‘ فوج کشی کریں گے۔ امریکی مفادات کی محافظ اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل کوفی عنان بھی اگلے روز خرطوم پہنچا اور اس نے بھی لَے میں لَے ملائی: ’’سوڈانی حکومت متاثرین تک مغربی امدادی ٹیمیں نہیں پہنچنے دے رہی‘‘۔

صوبہ دارفور سوڈان کے کل رقبے (۲۵ لاکھ کلومیٹر مربع) کا پانچواں حصہ ہے یعنی‘ ۵لاکھ ۱۰ہزار کلومیٹر مربع۔ سوڈان کے مغربی کنارے پر واقع ہونے کے باعث اس کی سرحدیں لیبیا‘ چاڈ اور جمہوریہ وسطی افریقا سے ملتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو افریقی النسل اور وہاں کی اصل آبادی اور کچھ کو عربی النسل اور بعد میں آنے والے کہا جاتا ہے۔ دارفور جنوبی سوڈان سے یوں مختلف ہے کہ صوبے کی ۹۹ فی صد آبادی مسلمان ہے اور ایک سروے کے مطابق آبادی کے تناسب کے اعتبار سے دنیا میں حفاظ کرام کی سب سے زیادہ تعداد اس صوبے میںہے۔ صوبے کی زبوں حالی‘ فقر اور بھوک کے باعث تقریباً ہر موسم باراں میں قبائل کا آپس میں جھگڑا ہو جاتا ہے۔ گلہ بانی وہاں کا بنیادی پیشہ ہے۔ سوڈان میں کثیر تعداد میں پائی جانے گائیوں کا ۲۸ فی صد حصہ دارفور میں ہے‘ جن کی تعداد دو کروڑ ۸۰ لاکھ گائیں بنتی ہے۔ بارش کے بعد چراگاہوں پر جھگڑا معمول کی بات ہے۔ دارفور کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ مہدی سوڈانی کی تحریک میں پوری کی پوری آبادی نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے بعد بھی دارفور کو ہمیشہ مہدی خاندان اور ان کی پارٹی ’حزب الامۃ‘ کا گڑھ سمجھا گیا۔ لیکن صوبے کی کسمپرسی اور قبائلی جھگڑوں کے خاتمے کے لیے     نہ صادق المہدی حکومت کچھ کر سکی اور نہ ان سے قبل یا ان کے بعد کی حکومتیں۔

اس دوران وہاں مختلف سیاسی قوتیں ظہور پذیر ہوتی گئیں۔ ’تحریک آزادی سوڈان‘ کے نام سے باغیانہ عناصررکھنے والے پارٹی منی ارکون بیناوی کی زیرقیادت وجود میں آئی۔ ’تحریک انصاف و مساوات‘ کے نام سے خلیل ابراہیم کی سربراہی میں ایک پارٹی بنی‘ جس کے بارے میں کہا گیا کہ صدر بشیر سے علیحدگی کے بعد ڈاکٹر حسن ترابی اس کی حمایت کر رہے ہیں اور خلیل ابراہیم ڈاکٹر ترابی کے شاگرد و معتقد ہیں۔ لیکن سب سے بڑا گروہ عرب قبائل سے متعلق ان لوگوں کا بنا جن کی شہرت ’جنجوید‘ کے نام سے ہوئی۔ یہ تین الفاظ کا مجموعہ ہے‘ جن: شخص‘ جاو: G3 سے مسلح‘وید: گھڑسوار یعنی‘ G3گن سے مسلح گھڑسوارآدمی۔ امریکا سمیت تمام عالمی قوتیں سوڈانی حکومت پر الزام لگا رہی ہیں کہ:’ ’حکومت افریقی قبائل کے خاتمے کے لیے عرب جنجوید کو مسلح کر رہی ہے اور جنجوید نے بڑے پیمانے پر قتل عام کر کے لاکھوں افریقی قبائل کو بے گھر کر دیا ہے‘ اور وہ اب چاڈ اور سوڈان کے مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ کہا گیا کہ سوڈانی حکومت نے خود بھی جہازوں اور توپوں کے ذریعے بم باری کی ہے‘قتل عام کی مرتکب ہوئی ہے‘ اور اب عالمی امدادی تنظیموں کو امدادی سامان لے جانے سے روک رہی ہے اور یہ کہ جب تک جنجوید کا خاتمہ نہیں ہوجاتا‘ یورپی امدادی تنظیموں کو کھلی چھٹی نہیں دی جاتی۔ ’فاشر‘ اور ’نیالا‘ (شمال دارفور اور جنوب دارفور کے دارالحکومت) کی تعمیر و ترقی نہیں کی جاتی۔ سوڈان کے خلاف ہر ممکن کارروائیاں کی جاسکتی ہیں‘‘۔

سوڈانی صدر عمر حسن البشیر نے انقلاب کی پندرھویں سالگرہ پر ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’دارفور کا مسئلہ ہماری حکومت وجود میں آنے سے پہلے کا ہے اور ہم (جنوب کی جنگ میں جلتے رہنے اور اپنے خلاف اقتصادی پابندیوں کے باوجود) اس کے حل کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ ’جنجوید‘ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صرف لٹیروں اور ڈاکوئوں کا ایک گروہ ہے اور حکومت ان سے بھی اسی طرح جنگ کرے گی جیسے کسی بھی دوسرے باغی سے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا: ’’لیکن ہمیں یہ نہ سمجھایا جائے کہ ہم صرف عرب قبائل کو تو اسلحے سے پاک کردیں اور دوسروں کو رہنے دیں۔ ہم بلااستثنا ہر قانون شکن سے ہتھیار چھین کر رہیں گے‘‘۔ انھوں نے اس بات کی بھی نفی کی کہ دارفور میں (امریکی دعوے کے مطابق) نسلی تطہیر کی کوئی کارروائی جاری ہے۔ صدربشیر نے نام لیے بغیریہ الزام بھی لگایا کہ ’’بیرونی ہاتھ اب سوڈان میں ایک نیا فتنہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور دارفور کے بہانے سوڈان میں وسیع تر مداخلت چاہتے ہیں‘‘۔

باغیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجے میں جو اسلحہ برآمد ہوا ہے‘ وہ اسرائیل کا بنا ہوا ہے۔ اسرائیل اس سے قبل جنوبی باغیوں اور پڑوسی ممالک کو بھی بڑے پیمانے پر اسلحہ فراہم کرچکا ہے۔ امریکا بھی دارفور کے ذریعے سوڈان میں اپنے قدم جمانا چاہتا ہے۔ مصری اخبارات نے بعض سوڈانی سیاست دانوں کے حوالے سے یہ خبر شائع کی ہے کہ کولن پاول نے اپنے دورہ خرطوم میں یہ ’’فراخ دلانہ‘ تجویز دی کہ’ ’دارفور میں امن قائم کرنے کے لیے امریکا اپنے ۲۵ ہزار فوجی سوڈان بھیجنا چاہتا ہے‘‘۔ تجزیہ نگاروں کے بقول اس سے ایک طرف تو امریکا سوڈان کے حال ہی میں دریافت ہونے والے پٹرول میں سے اپنا حصہ لینا چاہتا ہے۔ جس کی بڑھتی ہوئی پیداوار کے باعث آیندہ پانچ سال میں اس کی روزانہ پیداوار ۲۰لاکھ بیرل ہوجائے گی۔ دوسری طرف عراق و افغانستان میں درپیش نقصانات سے توجہ ہٹانے میں مدد ملے گی اور آیندہ امریکی انتخابات میں بش کاایک یہ کارنامہ بھی بیان کیا جا سکے گا کہ اس نے سوڈان میں افریقی قبائل کو امن لے کر دیا‘ اس لیے اب امریکی سیاہ فام ووٹ کا حق دار ہے۔ کولن پاول کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے سوڈانی وزیرخارجہ مصطفی عثمان اسماعیل نے بیان دیا کہ ’’اگر تو پاول کا دورہ دارفور میں ایک انسانی بحران میں قابو پانے میں مدد دینے کے لیے ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ دورہ عالمی برادری کو ہمارے خلاف لاکھڑا کرنے یا امریکا کے انتخابی معرکے میں کامیابی کی خاطر ہے تو اس سے نہ تو دارفور کو کوئی فائدہ ہوگا اورنہ دوطرفہ تعلقات کو‘‘۔

امریکی پالیسی کے قطب نما معروف ادارے انٹرنیشنل کرائسس گروپ ICG نے ۹مئی کو اپنی ایک رپورٹ میں سوڈانی حکومت کو دھمکاتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’دارفور جنگ نہ صرف سوڈان اور چاڈ کی حکومتوں کے لیے بالواسطہ خطرہ ہے بلکہ اس میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ      اس سے سوڈان کے باقی علاقوں میں بھی بغاوت بھڑک اٹھے… یہ بھی ممکن ہے کہ سوڈان کے       مشرق و مغرب میں ایسی مزید باغی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوں‘‘۔ اس کے بعد اس ادارے نے   کچھ تجاویز سوڈان حکومت کو دی ہیں‘ جن میں سرفہرست عالمی نگرانی اور عالمی امدادی تنظیموں کو شورش زدہ علاقوں میں بلاروک ٹوک جانے کی ضمانت دینا اور جنجوید کا خاتمہ ہے۔ پھر سلامتی کونسل کے لیے سفارشات ہیں کہ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی مذمت کرے اور عالمی مذاکرات کا اہتمام کرے اور پھر امریکا ‘برطانیہ‘ اٹلی اور ناروے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مزید عالمی دبائو کے ذریعے ان تمام رکاوٹوں کو ختم کرے جو دارفور میں انسانی عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی راہ میں آڑے آتی ہیں‘‘۔ ان ممالک سے یہ بھی کہاگیا ہے کہ وہ ’’فرانس اور چاڈ کو شامل مشورہ رکھیں‘‘۔

اگرچہ ان سفارشات‘ بیانات اور دھمکیوں کے ساتھ ہی ساتھ امریکا اور حواریوں نے اس وضاحت کی کوشش بھی کی ہے کہ وہ سوڈان کے خلاف لشکرکشی نہیں چاہتے‘ لیکن یورپی یونین کی عسکری کمیٹی کے سربراہ فن لینڈ کے جنرل گوسٹاف ہاگلان نے یہ بیان دے کر ’غلط فہمی‘ دُور کردی کہ ’’یورپی فوجی قوت صوبہ دارفور میں داخل ہو سکتی ہے‘‘۔

اس طرح سوڈان کے خلاف اب ایک نیا خطرناک اسٹیج تیار کیا جا رہا ہے۔ جنوبی علیحدگی پسندوں کے ساتھ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ’ ’اگر جنوبی حلیف معاہدے سے مطمئن نہ ہو سکے تو  حق خودارادی استعمال کرتے ہوئے چھے سال کے بعد ریفرنڈم کے ذریعے سوڈان سے علیحدہ ہوسکیں گے‘‘۔ جنوبی سوڈان کا رقبہ سوڈان کا ایک چوتھائی ہے۔ یعنی دارفور اور جنوب مل کر سوڈان کا نصف رقبہ بنتے ہیں اور اس نصف کو  شورش زدہ کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ICG کے ’خدشات‘ کی روشنی میں مشرقی سوڈان کے ’البجا‘ اور شمالی سوڈان کے ’الکوش‘ قبائل کو بھی باور کروایا جا رہا ہے کہ تم تو بہت مظلوم و محروم قبائل ہو‘ جب کہ خرطوم میں بیٹھے حکمران پٹرول کی   بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔

سوڈان کے خلاف دن بدن تنگ کیا جانے والا گھیرا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن دو متضاد وجوہات نے اس کی سنگینی و اہمیت میں انتہائی اضافہ کر دیا ہے۔ ایک وجہ تو سوڈان کی کمزوری کا ہے کہ بدقسمتی سے انقلاب کی بانی قیادت صدر عمرحسن البشیر اورڈاکٹر حسن ترابی میں اختلافات حتمی قطع تعلقی اور جنگ کی کیفیت تک پہنچا دیے گئے ہیں۔ اب بھی ڈاکٹر ترابی اپنے کئی ساتھیوں سمیت جیل میں محبوس ہیں اوران پر بغاوت کا الزام لگا دیا گیا ہے۔ سب اپنے پرائے اس پر متفق ہیں کہ اس لڑائی سے (اس میں خواہ کتنے ہی اصولی اختلافات ہوں) طرفین ہی نہیں سوڈان کمزور ہوا ہے اور دشمن اس پر جھپٹنا پہلے سے آسان سمجھتا ہے۔ دوسری وجہ سوڈان کی قوت کا باعث ہے کہ گذشتہ چند سال میں چین اور سوڈان کے تعاون سے دریافت ہونے والے پٹرول کی مقدار و معیارنے امریکا سمیت سب کی رال ٹپکا دی ہے۔ بھارتی بنیا بھی وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔

دارفور‘ جنوبی سوڈان اور قبائلی اختلافات کی آڑ میں امریکا و یورپ کی حتی المقدور کوشش یہی ہوگی کہ تقسیم سوڈان کا ہوا دکھا کر وہاں زیادہ سے زیادہ رسوخ و مداخلت ممکن بنائی جائے  خواہ اس کے لیے فوج کشی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ انھیں سوڈان کے اندرونی حالات سے زیادہ شہ اس بات سے مل رہی ہے کہ ان حالات سے براہِ راست متاثر ہونے والے ملک مصر سمیت تمام  مسلم ممالک‘ اس ساری صورت حال سے لاتعلق بیٹھے ہیں۔