’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ یا امریکی ’’دین الٰہی‘‘ (جولائی ۲۰۰۴ئ) نے تو ’امریکی دین الٰہی‘ کی ساری کاوشِ تلبیس کو عیاں ہی نہیں عریاں کر کے رکھ دیا ہے۔ فہم قرآن کے تحت جو ’قابلِ غور پہلو‘ پیش فرمائے ہیں‘ واقعی قابلِ غور ہیں‘تفہیم القرآن خود اپنی جگہ موضوع مطالعہ بنانے کے لائق ہے۔ اصحاب علم و فکر کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔ ’’۱۰ روزہ فہم قرآن کلاسیں، ایک دعوتی تجربہ‘‘ تحریک کا باعث بنا۔ اصل ضرورت دعوت کے اثرات کو سمیٹنے اور نتیجہ خیز کام کی ہی ہے۔
’’مصر: اخوان المسلمون کا نیا دورِ ابتلا‘‘ (جولائی ۲۰۰۴ئ) واقعی چشم کشا ہے۔ اس طرح کی تحریریں مستقل کیوں نہیں آتیں؟ آخر میں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کو کہا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے اس سلسلے میں کیوں آواز نہیں اٹھائی؟مصر کے سفیر متعینہ پاکستان کو یادداشت پیش کی جاسکتی ہے۔ او آئی سی کی حالیہ کانفرنس ترکی میں کوئی اعلامیہ پیش ہوسکتا تھا۔ رابطہ عالمِ اسلامی‘ موتمر اسلامی‘ انسانی حقوق کی انجمنیں‘ کیا ہم ان کو متحرک نہیں کر سکتے؟
ریڈلے کے انٹرویو (اسلام: حیرت زدہ کر دینے والا مذہب‘ جولائی ۲۰۰۴ئ) کا اصل پہلو خاتون قیدی کے ساتھ طالبان کا حسن سلوک ہے۔ عراق میں خواتین قیدیوں کے ساتھ امریکی جو کچھ کر رہے ہیں‘ اس کی کچھ تفصیل المجتمع کے حوالے سے ایک رسالے میں شائع ہوئی ہے جو رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ ریڈلے کو چاہیے کہ وہ مغرب کے باضمیر انسانوں کو جگائے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے ہاتھ پکڑیں۔
خرم مراد صاحب نے ’’امت کامستقبل اور ائمہ مساجد‘‘ (جولائی ۲۰۰۴ئ) میں ائمہ کرام کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف بہت خوب توجہ دلائی ہے۔ شریعت نے مسلمان معاشروں میں پنج وقتہ نماز کے ساتھ مسجدوں کے ذریعے ایک ایسا غیر معمولی اجتماعی نظام قائم کیا ہے‘ جس کی برکات کا کوئی شمار نہیں۔ اس کو مفید سے مفید تر بنانے میں امام کے قائدانہ کردار کا بڑا دخل ہے۔ نمازیوں کو حقیقی مسلمان بنایا جائے اور نئے نمازیوں کو مسجدوں میں لایا جائے۔ یہ سخت جان نظام غلامی کی صدیاں گزار کر بھی قائم ہے۔ اس میں جان ڈال کر اُمت کو بیدار کیا جاسکتا ہے۔
آج کل اخبار پڑھ کر جو مایوسی کی کیفیت ہوتی ہے کہ مسلمان ہر جگہ پٹ رہے ہیں‘ علامہ یوسف قرضاوی کے مضمون: ’’غلبۂ اسلام کی بشارتیں اور عملی تقاضے‘‘ (جولائی ۲۰۰۴ئ) سے یہ کیفیت دُور کرنے میں مدد ملی۔
گلستان شہادت میں ’’فلسطین کے دو پھول‘‘ (جون ۲۰۰۴ئ)سے فلسطین کے ان دو نامور مربی اور عالمِ اسلام کے قائدین استاد شیخ احمد یاسین شہیدؒ اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی شہیدؒکے احوال اور گوشہ ہاے حیات کے تذکرے سے بالخصوص نئی نسل کو نیا عزم اور جذبۂ شہادت کو مہمیز ملی۔
ترجمان القرآن (جون ۲۰۰۴ئ) میں یاد رفتگان کا حصہ کچھ زیادہ ہی طویل ہوگیا۔سیدمودودیؒ نمبر میں کچھ تحقیقی مضامین ’اقتصادیات‘، ’غیرمسلموں میں دعوت‘، ’حکمت عملی‘، ’مستقبل کے امکانات‘ پر آنے چاہیے تھے۔ شاید آیندہ یہ کمی پوری ہو سکے۔
ترجمان القرآن کی خصوصی اشاعت کی صورت میں ایسا عمدہ نمبر شائع ہونے سے تحریکی لٹریچر میں وقیع اضافہ ہوا ہے۔ بانی ٔ تحریک مودودی علیہ الرحمہ کی حیات و کارنامے مختلف انداز میں وا ہوتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ پر بہت سے نمبر شائع ہوئے مگر یہ اپنا الگ رنگ ڈھنگ رکھتا ہے۔ اس کو مولانا علیہ الرحمہ کے خوشہ چینوں کے ہاں دستاویزی حیثیت حاصل رہے گی۔