اگست ۲۰۰۴

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اگست ۲۰۰۴ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت ابوبکرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاضی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے اس حال میں کہ وہ غصے میں ہو۔ اس روایت کے بعض راویوں نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ حاکم کے لیے مناسب نہیں کہ غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے۔ (ابن ماجہ)

غصے میں ایک فرد‘ ایک جج‘ ایک حاکم‘ ایک پارٹی جو فیصلہ کرے گی وہ عدل و انصاف اور اعتدال و توازن سے خالی ہوگا۔ غصے میں طلاق دے کرشوہر پچھتاتا ہے۔ غصے کے نتیجے میں آدمی کسی کو زد و کوب کرتا ہے تو بعض اوقات وہ قتل کا مرتکب ہوجاتاہے۔ پارٹیاں ایک دوسرے کے بارے میں غصے اور جذبات میںآکر جو فیصلہ کرتی ہیں‘ اس کے نتیجے میں حالات میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ غصے اور جذبات میں آکر جس طرح فیصلہ کرنا درست نہیں ہے‘ اسی طرح کسی کی محبت میں گرفتار ہوکر اور کسی سے خوش ہوکر فیصلہ کرنے میں بھی بے اعتدالی ہوجاتی ہے۔ اسی واسطے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کو نصیحت فرمائی کہ ’’رضا اور غضب دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرو‘‘۔

فیصلہ کرنے کے لیے قاضی کی کرسی پر بیٹھنا ضروری نہیں۔ روزمرہ زندگی میں مختلف مواقع فیصلہ کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ایسے ہر موقع پر ہمیں رسولؐ اللہ کی یہ ہدایت یاد رہنی چاہیے۔

o

حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال مجھے عطیہ عنایت فرمایا۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ میری بجاے مجھ سے زیادہ محتاج کو دے دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: عمرؓ، جب تمھیں لالچ اور سوال کے بغیر ملے تو لے لیا کرو‘ اور نہ ملے تو اپنے نفس کو اس کے پیچھے نہ لگایا کرو۔ (بخاری‘ کتاب الزکوٰۃ)

مال کے بارے میں راہ اعتدال مطلوب ہے۔ نہ اتنا استغنا کہ سوال اور لالچ کے بغیر ملے جب بھی نہ لیا جائے اور نہ اتنی طلب کہ اس کے پیچھے ہی لگا رہا جائے۔ مال کی ایسی طلب کہ جائز و ناجائز کی تمیز اٹھ جائے‘ فساد اور معاشرے کو سکون سے محروم کرنے کا اصل سبب ہے۔ضروریات کے لیے جائز ذرائع سے مال حاصل کرنے کی کوشش عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ ضروریات کو حد میں رکھنے سے ناجائز ذرائع کی طرف قدم نہیں اٹھتے۔ اسراف و تبذیر سے بچنا قومی کلچر ہونا چاہیے۔ سعی و جہد طریق زندگی ہو‘ سوال کرنے اور لالچ کرنے سے پرہیز لازم ہے۔ زندگی حصولِ مال و دولت سے اہم تر مقاصد کے لیے ہے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔ تم میں سے جب کوئی آدمی کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے‘ اس کے بعد بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے۔ پھر جب جانے کے لیے اٹھے تو سلام کرے۔ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ ضروری نہیں ہے۔ اور جس نے جانے کے لیے اٹھتے وقت سلام کیا وہ اس کارخیر میں شریک شمار ہوگا جس میں لوگ اس کے جانے کے بعد مصروف رہے۔ (ابوداؤد‘ ترمذی‘ رزین)

سلام مجلس کا ادب ہے‘ جب کہ اس سے مجلس کے کام میں خلل نہ پیدا ہو۔ کوئی اجتماعی پروگرام ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں بلند آواز سے سلام کر کے اس میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے۔ ایسی صورت میں پروگرام کے اختتام کا انتظار کیا جائے۔ مجلس میں آتے وقت یا جاتے وقت سلام کا مقصد اہلِ مجلس کو سلامتی کی دعا دینا اور ان کے کام میں دعائوں کی صورت میں شرکت کرنا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کا تعاون ہے۔ اس سے اہلِ مجلس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور دعا کی قبولیت کی صورت میں کامیابی بھی ہوتی ہے۔ سلام کرنے والا حوصلہ افزائی اور کامیابی میں تعاون پر اجر کا مستحق ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ کسی مجلس میں آکر بیٹھ جاتے ہیں‘ سلام نہیں کرتے اور بعض ایسی صورت میں بھی سلام کرتے ہیں جب کہ مجلس میں اجتماعی پروگرام جاری ہو۔ دونوں صورتیں نامناسب ہیں۔

جاتے وقت سلام کرنے کا یہ مزید فائدہ ہے کہ کسی کارِخیر کے اجر سے حصہ ملتا ہے۔

ابی امیہ مخزومی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا‘ جس نے چوری کا اعتراف کیا تھا لیکن اس کے پاس سے چوری کا سامان برآمد نہ ہوا۔رسولؐ اللہ نے اس سے فرمایا: میں نہیں سمجھتا کہ تم نے چوری کی ہو۔ اس نے کہا: نہیں‘ میںنے چوری کی ہے۔ آپؐ نے دو یا تین مرتبہ اپنی بات دہرائی۔ اس نے ہر بار چوری کا اعتراف کیا۔ اس پر آپؐ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر اسے آپؐ کے پاس لایا گیا۔ آپؐ نے اس سے فرمایا: اللہ سے استغفار اور توبہ کرو۔ پھر آپؐ نے اس کے لیے دعا مانگی۔ ’’اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما(تین مرتبہ)‘‘۔ (ابوداؤد‘ نسائی‘ ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ شریف)

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت ہے۔ عدالت ملزم کے لیے رحیم و شفیق ہے۔ ملزم عدالت سے محبت کرتا ہے اور فیصلے سے راضی نظر آتا ہے۔ گناہ سے توبہ و استغفار کی تلقین ہوتی ہے‘ ملزم   توبہ و استغفار کرتا ہے۔ عدالت اس کی توبہ کی قبولیت کے لیے دعائیںکرتی ہے۔ ملزم کو ہتھکڑیاں نہیں پہنائی گئیں۔ وہ اپنے جرم کا خود ہی بار بار اعتراف کر رہا ہے۔ ایک ہی پیشی میں فیصلہ سنا کر نافذ کردیا جاتا ہے۔ مجرم کو سزا دے دی گئی لیکن اس کی توہین و تذلیل نہیں کی گئی بلکہ عزت اور دعائیں دی گئیں۔

ایک طرف اس منظر کو دیکھیے‘ دوسری طرف آج کی نام نہاد مہذب دنیا کے کربناک نظامِ جبروتشدد اور عرصہ دراز تک عدالتوں کی پیشیوں اور جیلوں کی اذیتیوں کے مناظر کو سامنے رکھیے۔ پھر فیصلہ کیجیے کہ کون سا نظام مہذب ہے اور اس میں رحمت و شفقت اور عدل و انصاف ہے۔ اور کون سا نظام عدالت کے نام پر ظلم و جور اور وحشت اور درندگی ہے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا‘ جس نے شراب پی تھی۔ آپؐ نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ حاضرین سے کہا: اسے مارو۔ ہم مارنے لگے۔ کسی نے ہاتھ‘ کسی نے جوتے اور کسی نے کپڑے کے کوڑے سے مارا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: اسے ڈانٹ ڈپٹ کرو۔ مسلمان اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے۔ کسی نے کہا: تو نے اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کا خیال نہ کیا؟ کسی نے کہا: تجھے اللہ سے ڈر نہ آیا۔ ایک آدمی نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا۔ فرمایا: اسے بددعائیں دے کر اس کے خلاف شیطان کی اعانت نہ کرو۔ اس کے بجاے دعائیں دو۔ یوں کہو: اے اللہ‘ اس کی بخشش فرما ‘ اے اللہ اس پر رحم فرما۔ (ابوداؤد بحوالہ مشکوٰۃ شریف)

مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملنی چاہیے‘ جرم سے روکنے کے لیے سزا دینا ضروری ہے لیکن سزا دینے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عدلیہ‘ انتظامیہ اور عام لوگ اس کے ساتھ ہمدردی‘ حسنِ اخلاق اور عزت کا سلوک کریں۔ ایسی صورت میں مجرم اپنی اصلاح کرے گا‘ وہ حیا سے کام لے گا اور معاشرے کا باعزت فرد بننے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جائے‘ اسے گالیاں دی جائیں‘ کوسا جائے اور حوالات میں ذلت آمیز طریقے سے رکھا جائے تو اس کے اندر مجرمانہ ذہنیت پرورش پائے گی۔ شیطان اس کے اندر انتظامیہ اور معاشرے کے خلاف دشمنی کے جذبات کو پرورش دے گا جس کے نتیجے میں وہ تائب ہونے کے بجاے جرم کو اپنا پیشہ بنا لے گا۔ آج کل کی انتظامیہ اور عدلیہ یہی کچھ کر رہی ہے۔ ایک مرتبہ جو آدمی پولیس کے ہتھے چڑھتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے عادی مجرم بن جاتا ہے۔ انتظامیہ شیطان کی معاونت کر رہی ہے اور لوگوں کے ساتھ توہین آمیز رویے نے پبلک اور انتظامیہ کے مابین عداوت پیدا کر دی ہے۔

o

حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بِسْمِ اللّٰہ کہہ کر رکاب میں پائوں رکھا‘ پھرسوار ہونے کے بعد فرمایا: اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا… پھر تین مرتبہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور تین دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا‘ پھر فرمایا: سُبْحٰنَکَ ، لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ‘ قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ۔ اس کے بعد آپؐ ہنس دیے۔

میں نے پوچھا: یارسول ؐاللہ! آپؐ ہنسے کس بات پر؟ فرمایا: بندہ جب رَبِّ اغْفِرْلِیْ کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کی یہ بات بہت پسند آتی ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا مغفرت کرنے والا کوئی اور نہیں ہے۔ (احمد‘ ابوداؤد‘ ترمذی‘ نسائی )

جب بھی رَبِّ اغْفِرْلِیْ کہا جائے تو یہ (قلب و ذہن کو حاضر کرکے) کہا جائے کہ اللہ کے علاوہ مغفرت کرنے والا کوئی اور نہیں ہے۔