مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحی اور جناب میاں طفیل محمد نے مطالبہ نظامِ اسلامی کی پاداش میں ۱۹۴۸ء تا ۱۹۵۱ء تک ۲۰ ماہ زندان میں گزارے۔ ان کے اس دور کے مکاتیب حکیم محمد شریف امرتسری نے مکاتیب ِ زنداں کے نام سے شائع کیے تھے۔ یہ جہاں تحریکی جدوجہد کے ایک مرحلے کا تذکرہ ہے وہاں تزکیہ و تربیت، اطمینانِ قلب و سکینت، صبرواستقامت، خدا پر ایمان و یقین اور کامل بھروسے اور عزیمت کی راہ کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ میاں طفیل محمد صاحب کے خطوط سے چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔(ادارہ)
یہ میں آپ کو پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اب پھر لکھ رہا ہوں کہ اپنی صحت کی طرف سے غفلت نہ برتیں۔ میں آ پ کی مشکلات سے ناواقف نہیں، اور نہ آپ کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بے خبر ہوں، مگر ان کے باوجود آپ کو اپنی حد تک غافل نہیں ہونا چاہیے۔ دوا کے ساتھ ساتھ دعا بھی کیجیے۔ اپنی مشکلات کو اپنے رب کے حضور پیش کیجیے، اپنی لاچاریوں کو اسی کے دربار میں گزاریئے۔ ان شاء اللہ وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا اور اگر اس کی مشیت میں یہی ہوگا کہ آپ ان مشکلات اور خرابیِ صحت میں ہی مبتلا رہیں تو بھی وہ آپ کو اس کے بدلے میں اجرعظیم عطا فرمائے گا جس سے بڑھ کر کسی شے کی کوئی مومن آرزو نہیں کرسکتا۔
یہ میں آپ کو یونہی نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ بہن انواراختر کی بیماری کا معاملہ آپ کے سامنے ہے۔ گذشتہ مرتبہ وہ اسی لیے مولانا [مودودی] سے ملنے آئیں کہ اب انھیں سفرِآخرت درپیش ہے اور ہر علاج سے مایوسی ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر بے بس ہیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں سمجھایا کہ ڈاکٹروں سے نہیں صحت مجھ سے مانگو۔ انھوں نے جب سارے آسرے چھوڑ کر فریاد کی تو اگلے ہی روز صورت بدلنے لگی۔ ڈاکٹر نے دوائی بدلی۔ جسم نے خون بنانا شروع کر دیا۔ یاد رکھیے کہ خدا اب بھی وہی ایک خدا ہے جو ابراہیم ؑ کا خدا تھا، موسٰیؑ اور مسیحؑ کا خدا تھا اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا تھا۔ وہ نہیں بدلا اور نہیں بدلتا ہے۔ بندے خود بدل جاتے ہیں۔ اس لیے اسے بدلا ہوا پاتے ہیں۔ یک سُو ہوکر اس کی طرف رجوع کیجیے۔ اگر اس کی مشیت اور اس کی اسکیم میں گنجایش ہوگی تو وہ آپ کی صحت درست فرما دے گا ورنہ ان شاء اللہ یہ تکلیف ہی لذت میں بدل جائے گی۔ مگر دوا سے غافل نہ ہوں کیوںکہ اسباب کو ختم کرکے اگر بندہ خدا سے کچھ مانگے تو یہ حدِ بندگی سے تجاوز ہوگا۔ یہ خدا کی آزمایش ہوگی (کہ وہ اسباب کے بغیر آپ کی مدد کرے، یعنی معجزہ دکھائے) اور یہ کام بندگی کی حد سے آگے ہے۔ بندگی کی راہ سے بال برابر اِدھر اُدھر نہ ہوں۔(اہلیہ محترمہ کے نام، ۲۰فروری ۱۹۵۰ئ)
آپ نے ہمارے یہاں سے باہر نکلنے کے بارے میں جس خواہش اور جن جذبات کا اظہار فرمایا ہے ایک محب کی خواہش اور قدرتی جذبات وہی ہوسکتے ہیںمگر اس بات کو نہ بھولیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اسکیم اور پروگرام کو کسی کی خاطر نہیں بدلتا ہے۔ جو وقت ہمارے یہاں پہنچنے کے لیے مقدر تھا ٹھیک اُس وقت ہمیں یہاں لے آیا اور جب وہ مقصد جس کے لیے ہمیں یہاں لایا گیا پورا ہوجائے گا تو کوئی چاہے یا نہ چاہے ہم باہر آجائیں گے۔ بہرحال ہم جن دعوئوں کو لے کر اُٹھے تھے ان کی آزمایش بھی اللہ تعالیٰ کو لازماً کرنی تھی اور جن لوگوں نے اسلام اور قرآن اور شریعت کے نعرے لگاکر ملک کے سیاہ و سپید کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا ان کو بھی اسے آزمانا تھا اور ان کے اعلانات کی صداقت و عدم صداقت کا امتحان کرنا تھا۔ یہ آزمایش و امتحان کب تک ہوگا اس کا ٹھیک اندازہ ممتحن ہی کو ہے۔ ہماری کوشش اور دُعا یہ ہے کہ ہم بھی اس آزمایش میں ثابت قدم رہیں اور اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو بھی کسی بدانجامی میں مبتلا نہ ہونے دے۔ مگر اس کا دستور یہ ہے کہ وہ بدانجامی سے بچاتا اسی کو ہے جسے اپنے بچائو کی فکرہے اور وہ بدانجامی سے بچنے کی اُس طریق پر کوشش کرے جو خدا کی طرف سے مقرر ہے۔
برادرِ محترم! اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کو قطعاً کسی کی ضرورت نہیں، وہ غنی ہے، حمید ہے، قادرِ مطلق، عزیز اور حکیم ہے۔اس نے یہ کارخانۂ کائنات بنایا ہی اس غرض سے ہے کہ بندوں کی آزمایش کرے۔ اس زندگی میں جو صورت بھی کسی کو پیش آتی ہے وہ آزمایش ہی کی صورت ہوتی ہے۔ آپ بھی اپنی جگہ آزمایش میں ہیں، ہم بھی آزمایش میں ہیں اور جن لوگوں نے ہمیں اس حال میں مبتلا کیا ہے، وہ بھی آزمایش میں ہیں۔ اللہ کسی پر نہ کوئی زیادتی کرتا ہے، نہ ظلم و بے انصافی۔ البتہ وہ اس دنیا میں بندوں کو ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کا پورا موقع دیتا ہے تاکہ جو ظالم ہیں وہ ظالم ثابت ہوں، جو صابر ہیں ان کے صبر کا امتحان ہو، جو حق پرست ہیں ان کے جوہر کھلیں، جو بدنفس ہیں ان کی بگلا بھگتی کی قلعی کھلے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان باتوں کا موقع نہ دیتا تو پھر اس کارخانے کو بنانا بے کار تھا۔ پھر تو وہ جنت اور دوزخ ابتدا ہی میں بنا دیتا، مگر ان میں کسی کو رکھنے کا فیصلہ کرنے کی کیا صورت ہوتی؟ لہٰذا جو اسکیم اللہ تعالیٰ کے پیش نظرتھی اس کی تکمیل کی واحد صورت وہی تھی جو اس نے اختیار فرمائی کہ انسان کو ایک محدود عرصۂ حیات میں اختیار و ارادے سے مسلح کر کے اس کارگاہ میں چھوڑ دے۔ عقل و ضمیر اور نیکی و بُرائی کا شعور بھی دے دے۔ سمجھانے کا بھی معقول حد تک انتظام فرما دے اور اس کے بعد انسان جو کرنا چاہے اس کا اسے مہلت ِ زندگی تک بلا روک موقع دے۔ اس کے بعد جو ابراہیم ؑ، موسٰی ؑ، عیسٰی ؑ ، محمدؐ اور حسین ؓ کی زندگی کا مظاہرہ کریں، نیکی پھیلانے اور برائی کو مٹانے میں اپنی جان کھپا دیں، ان کو جنت دے، اور جو اُس راہ کو نظرانداز کر کے اسی چند روزہ عیش کو مقصد زندگی قرار دے لیں، انھیں موت کے بعد کے انعامات سے محروم کردے۔ کیوںکہ انھوں نے نہ اس کی ضرورت محسوس کی اور نہ اس کے لیے کوئی کوشش کی۔ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اس مقصد میں ناکام نہ ہوں۔ جس حال میں مبتلا کیے جائیں اس پر صابر و شاکر رہیں۔ تغیر اس کائنات کی فطرت میں ہے۔ عُسر اور یسر رات اور دن کی طرح آتے اور جاتے ہیں مگر خوش قسمت وہ ہیں جو اس حقیقت کا احساس کرلیں۔(بنام حکیم محمد شریف، حافظ آباد، ۳نومبر ۱۹۴۹ئ)
مولانا [مودودی] کے نام آپ کے خط سے یہ معلوم کرکے تشویش ہوئی کہ آپ کی صحت خراب رہتی ہے اور حافظ آباد کی آب و ہوا آپ کو اب تک راس نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا کیجیے اور ہم بھی دُعا کرتے ہیں کہ آب و ہوا اور صحتوں کا خالق اور مالک حافظ آباد کی آب و ہوا اور آپ کی صحت میں موافقت پیدا فرما دے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ جب مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ گئے ہیں تو وہاں کی آب و ہوا ان کے سخت ناموافق تھی مگر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان مہاجرین کی دُعائوں کا نتیجہ تھا کہ مدینہ کی آب و ہوا میں زمین و آسمان کا تغیر ہوگیا۔ وہ اللہ کے لیے نکلے اور نکالے گئے تھے اور ان کا جینا اور مرنا سب اسی کے لیے تھا۔ ہمیں بھی دُعا کے ساتھ ساتھ اس حیثیت سے اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے....
آپ کہتے ہیں کہ آپ کی انتہائی خواہش یہ ہے کہ مولانا کی صحبت میں رہ کر تربیت حاصل کریں۔ بھائی جان! مولانا نے تو یہاں ایسی عمدہ تربیت گاہ قائم کر دی تھی کہ رہایش، خوراک، علاج، روشنی، پانی، نوکر، پہرے دار، ہر شے سرکاری، نہ کوئی فیس، نہ چندہ، نہ کسی طرف سے کوئی خلل اندازی کرنے والا اور نہ معاملاتِ دنیا کی کوئی فکر۔ رات دن سویئے، پڑھیے، کھایئے، کھیلئے، کوئی ٹوکنے والا نہیں۔ مگر آپ میں سے کوئی آیا ہی نہیں۔ اس میں مولانا کا یا کسی دوسرے کا کیا قصور؟ ہم تو اس انتظار ہی میں رہے کہ آپ لوگ آئیں گے، کچھ پڑھیں لکھیں گے اور آیندہ کاموں کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں گے، مگر نہ معلوم کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں کی یا اس تربیت گاہ میں داخلے کے لیے جو بورڈ مقرر ہے وہی یہ انتظام کرچکنے کے بعد کسی شش و پنج میں پڑ گیا ہو۔ بہرحال یہ اطمینان رکھیے کہ یہ کام کرنے والوں کی تو پانچوں گھی میں ہیں۔ یہاں آئیں تو یہاں کام بہت ہے اور تربیت کا موقع بھی، اور اگر باہر ہوں تو وہاں کام اس سے زیادہ اور تربیت کے مواقع اور بھی وسیع تر ہیں۔ اگر آپ روزانہ اپنا اس نقطۂ نظر سے محاسبہ کرتے رہیں کہ آیا آپ کا اپنے خدا سے حساب صاف ہے یا نہیں، تو یہی ایک بات تربیت کے لیے بہت کافی ہے۔ میری طرف سے سب احباب کو سلام کہیں۔(بنام حکیم محمد شریف، ۳ مارچ ۱۹۴۹ئ، ۲۱ دسمبر ۱۹۴۹ئ)
آپ کے اس خط سے مجھے جس قدر خوشی ہوئی ہے اس سے زیادہ خوشی کسی کے کسی خط سے نہیں ہوئی تھی اور وہ خوشی آپ کے اس کام کی وجہ سے ہوئی جو آپ نے لاہور سے واپس آکر شروع کیا۔ جس طریق پر آپ اسے کر رہی ہیں یہی طریقہ ٹھیک ہے۔ ایک ایک خطبہ اور اگر یہ زیادہ ہو تو آدھا یا اس سے بھی کم تیار کرکے اپنے لفظوں میں بیان کر دیا کریں۔ اس کے بعد گفتگو ہونی چاہیے جس میں اس مضمون پر سوال و جواب ہوں ۔ جو بات صاف نہ ہوئی ہو یا کسی کی سمجھ میں نہ آئی ہو اسے صاف کر دیا اور سمجھا دیا جائے۔ پھر اصل شے ان باتوں کو بیان کرنا اور سننا نہیں ہے بلکہ اصل کام یہ ہے کہ ان کی روشنی میں اپنے آپ کو دیکھا اور جانچا پرکھا جائے، جو کمیاں ہوں ان کو پورا کیا جائے اور جہاں خدا کی لگائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھ گئے ہوں وہاں سے پیچھے ہٹا جائے۔ خطباتکے بعد دینیات کو لیجیے اور پھر دعوتِ اسلامی میں خواتین کا حصہ والی کتاب کو لیں۔ کم سے کم کام کیجیے، اور تھوڑے سے تھوڑا وقت دیجیے مگر جتنا کام ہو اور جتنا وقت دیا جائے پابندی سے ہو اور مستقل ہو۔ روز کوڑی بھر گھی کھا لینا اس سے کہیں زیادہ مفید اور صحت بخش ہے بہ نسبت اس کے کہ مہینے کے بعد آدھ سیر ایک ہی وقت اندر انڈیل لیا جائے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ اُلٹا نقصان پہنچائے۔ ہر ایک کے ذہن میں اس بات کو بٹھایئے کہ جب ہم خدا کے، زمین خدا کی، آسمان خدا کا، کھائیں اُس کا، پئیں اُس کا، گھٹائے وہ، بڑھائے وہ، اور مرنے کے بعد حساب اس کو دینا ہے، تو پھر اس کی مرضی سے بے پروا ہوکر چلنے کا نتیجہ کیسے اچھا نکل سکتا ہے اور اس کی مرضی کے خلاف چلنے کا کسی کو حق کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے؟ مسلمان کے معنی خدا کے فرماں بردار کے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کی فرماں برداری سے نکل کر انسان مسلمان نہیں رہ سکتا۔
اس کام کے ساتھ اخبار کوثر، ترجمان القرآن، چراغِ راہ وغیرہ میں جو آسان مضمون شائع ہوں ان کو بھی دوسری عورتوں کو سناتی اور سمجھاتی رہیں۔ اس سے ایک تو دل چسپی باقی رہے گی اور دوسرے عام معلومات بڑھیں گی۔ اس بات کو خوب سمجھ لیں کہ کوئی شخص علم کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا اور نہ کوئی کام سیکھ کر پیدا ہوتا ہے۔ ہر کام کرنے سے انسان سیکھتا ہے۔ بڑے سے بڑا آدمی غلطیاں کرتا ہے لیکن انھی کے اندر اس کو سمجھ آتی ہے۔ اس لیے جو اور جیسا کام ہوسکے کرتے رہنا چاہیے۔ کیوںکہ اگر ہم بس بھر کام کرتے رہے تو خدا کے سامنے بری ہوجائیں گے لیکن اگر کچھ بھی نہ کیا تو اس سوال کا کیا جواب دیں گے کہ جیسا کچھ کرسکتے تھے ویسا تم نے کیوں نہ کیا؟(ہمشیرہ اُمِ مختوم کے نام، جولائی ۱۹۴۹ئ)
oگذشتہ ملاقات پر معلوم ہوا کہ جمیلہ نے خاصی ترقی کی ہے اور قرآنِ مجید، سیرت اور دوسرا اسلامی لٹریچر بھی کچھ پڑھ لیا ہے اور شوق سے پڑھ رہی ہے۔ اگر میری وجہ سے میرے گھر والوں، بھائی بہنوں اور اعزہ واقربا کی دینی معلومات حاصل کرنے کے شوق، دین کی طرف ان کے رجحان اور آخرت کی فکر میں ترقی ہوجائے تو میں سمجھوں گا کہ میرے اندر اس تغیر سے (جن سے وہ کبھی اس قدر نالاں تھے) دنیا میں انھیں جو نقصانات پہنچے یا جو فائدے حاصل ہونے سے رہ گئے، اُن کی ایسی تلافی ہوگئی جسے وہ اس دنیا میں محسوس کریں یا نہ کریں لیکن ایک روز جب ہرشخص کا سب کیا کرایا اس کے سامنے آجائے گا وہ جان لیں گے کہ انھوں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ خداگواہ ہے کہ میرے نزدیک اس راہ پر قائم رہتے ہوئے ساری زندگی جیل میں گزار دینا اس سے کہیں زیادہ محبوب ہے کہ اس سے سرِمُوانحراف کرکے باطل کی بادشاہی حاصل ہو۔ (والدمحتر م کے نام، ۱۲مئی ۱۹۵۰ئ)
oکوئی انسان بھی اگر اس کے دل اور دماغ سلامت ہوں، اعزہ و احباب سے ملنے کی خواہش سے خالی نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہرقیمتی شے کی طرح خدا کی رضا اور اس کی جنت بھی مشقت اور ایثار کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ ان کے لیے اُسی نسبت سے زیادہ مشقت اور ایثار سے کام لینا ہوگا، جو نسبت اس دنیا کی نعمتوں کو خدا کی رضا اور جنت کی نعمتوں سے ہے۔ معلوم نہیں مولوی لوگوں نے یہ افیون کہاں سے نکال کر مسلمانوں کو کھلانی شروع کر دی تھی کہ حلوے اور کھیریں کھاتے اور کھلاتے جنت میں جابراجیں گے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے جو تعلیم اپنے رسولؐ کے ذریعے دی ہے، اس میں تو یہی بات باربار دُہرائی ہے کہ جب تک وہ پوری طرح سے اسے چھاج میں پھٹک پھٹک کر اور آزمایش کی بھٹیوں میں تپاتپا کر نہیں دیکھ لیتا پروانۂ قبولیت عطا نہیں کرتا۔ آدم ؑ سے لے کر محمدؐ تک ہر نبی ؑ کی زندگی آپ کے سامنے ہے۔ کیا ان سے بھی زیادہ مقرب کوئی ہوسکتا ہے؟ جب ان کو بھی تپائے اور سخت پرکھ کے بغیر خالص قرار نہ دیا تو ہماوشما کون ہیں! ہم لوگ تو اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ ہمارے خالق و مالک نے ہمیں اس قابل تو سمجھا کہ ہمیں آزمایش میں ڈال کر دیکھے اور یہ اس کا انتہائی احسان اور فضل ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی اس نے متزلزل نہیں ہونے دیا۔ ورنہ ہم کیا اور ہماری بساط کیا، ہم سے کمزور کون ہوگا؟
میں یہاں جیل میں آپ کو ایسا تحفہ بھیجتا ہوں اگر آپ اپنے آپ کو اس کے مصداق بنانے میں کامیاب ہوسکیں تو دنیا کی کوئی پریشانی آپ کو پریشان نہ کرسکے گی۔ وہ تحفہ یہ دعا ہے:
اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ ، اَنْتَ نُوْرُ السّٰمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَکَ الْحَمْدُ، اَنْتَ قَیُّوْمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَکَ الْحَمْدُ ، اَنْتَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِنَّ اَنْتَ الْحَقُّ وَقُوْلُکَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَلِقَائُ کَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَ اِلَیْکَ تَحَاکَمْتُ، فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَاَسْرَرْتُ وَاَعْلَنْتُ ، اَنْتَ اِلٰھِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ، خدایا! حمد تجھی کو سزاوار ہے۔ آسمانوں اور زمین کا نور تو ہی ہے اور حمد تجھی کو سزاوار ہے۔ تو ہی زمین و آسمان اور جو بھی ان میں ہے سب کا رب ہے۔ تو خود حق ہے، تیری ہربات حق ہے اور تیرا ہر وعدہ حق ہے۔ تجھ سے ہماری ملاقات برحق، جنت برحق، دوزخ برحق، قیامت برحق۔ خدایا! میں نے تیری اطاعت اختیار کی، تجھ پر مَیں ایمان لایا، میرا بھروسا تجھ پر ہے اور تیری طرف میں نے رجوع کیا اور تیری ہی خاطر جھگڑا اور تیرے ہی حضور میری فریاد ہے۔ تو معاف فرما میرے گناہ بھی اور میری کوتاہیاں بھی۔ میرے وہ قصور بھی جو میں نے چھپا کر کیے اور وہ قصور بھی جو مَیں نے علانیہ کیے۔ توہی میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔(بنام طفیل محمد صاحب ڈجکوٹ، ۱۲ مئی ۱۹۵۰ئ)
یہ بات اپنے دلوں میں خوب اچھی طرح جما لو کہ یہ زمین اللہ کی ہے۔ یہ آسمان، سورج، چاند، ستارے، بادل اور ہوائیں اور جانور اور پرندے سب اسی کے ہیں۔ وہی بارش برساتا ہے، زمین سے پھل پھول اور طرح طرح کے رزق نکالتا ہے۔ مکھیوں سے شہد، کیڑوں سے ریشم اور مٹی سے روئی بنواتا ہے۔ اسی نے ہم کو پیدا کیا، بولنے کو زبان، دیکھنے کو آنکھیں، سننے کے لیے کان، سونگھنے کے لیے ناک، چلنے کے لیے پائوں اور کام کاج کرنے کے لیے ہاتھ دیے۔ ہمیں صحیح اور سیدھی راہ دکھانے کے لیے قرآنِ مجید اُتارا۔ اسے سمجھانے کے لیے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بناکر بھیجا۔ نیکی اور بدی کی سمجھ ہمارے اندر رکھ دی اور ہمیں کھول کھول کر بتا دیا کہ اچھے اچھے کام کرو گے تو اس زندگی کے بعد تمھیں نہایت اعلیٰ درجے کی کوٹھیاں اور سونے کے محل اور پھلوںاور پھولوں سے بھرے ہوئے باغ دیںگے جہاں تم ہمیشہ رہو گے، اور اگر بُرے کام کرو گے تو تم کو آگ میں جلائیں گے اور اس سے تم کبھی نہ نکل سکو گے۔
جو اچھے اور عقل مند آدمی ہوتے ہیں وہ اللہ کی باتوں کو مانتے ہیں، زبان سے اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں، کانوں سے اچھی باتیں سنتے ہیں، دماغ سے اچھی اور بھلائی کی باتیں سوچتے ہیں اور ہاتھوں سے اچھے اچھے کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں یہاں جو کھانے کو دیتے ہیں وہی خوشی خوشی کھا لیتے ہیں۔ جو پہننے کو دیتے ہیں وہی پہن لیتے ہیں، اور جو لوگ بُرے اور بے وقوف ہوتے ہیں وہ اللہ میاں کی باتیں نہیں مانتے۔ وہ زبان سے جھوٹ اور گالیاں بکتے ہیں۔ کانوں سے فضول اور نکمی باتیں سنتے ہیں۔ دماغ سے شرارت اور بُرائی کی باتیں سوچتے ہیں اور ہاتھوں سے بُرے بُرے اور دوسروں کو ستانے اور نقصان پہنچانے والے کام کرتے ہیں۔ جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں گے تو وہ ان کو آگ میں ڈال دیں گے۔
تم سب خوب محنت سے پڑھنا سیکھو، پھر اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآنِ مجید پڑھنا اور اس کے رسولؐ کی باتیں سیکھنا اور پھر دوسرے نیک اور بھلے لوگوں کی باتیں اور انھی کی راہ پر چلنا۔ اگر تم ایسا کرو گے تو جب یہاں سے اللہ میاں کے پاس جائو گے وہ تم سے بہت خوش ہوں گے اور تم میں سے ہر ایک کو ایسا اعلیٰ درجے کا محل اور ایسا نفیس باغ دیں گے کہ بس تم خوش ہوجائو گے۔ ہم لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ تمھارے اور خدا کے دوسرے بندوں کے لیے یہ راہ آسان کردیں۔ آپ سب لوگ ہمارے لیے دُعا کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ تم سب کو اپنی امان میں رکھے۔(بچوں کے نام، ۸؍اپریل ۱۹۵۰ئ)
مسلمان کے معنی ہی اس شخص کے ہیں جو اپنے عقیدہ، اخلاق، معاملات اور اپنے سارے تعلقات میں اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دے۔ ہر بات، ہر کام، ہر معاملے میں اُس کے سامنے صرف خدا کی مرضی کو پورا کرنا ہو اور یہ چیز اس کے بغیر نہیں ہوسکتی کہ وہ خدا کی مرضی کو جانے۔ اس لیے کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہیے جس سے خدا کی مرضی خود کو بھی معلوم ہو اور دوسروں کو بھی معلوم کرائی جاسکے۔ کیوںکہ انسان پر یہی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ خود راست رو ہو بلکہ اس پر یہ بھی اُسی طرح لازم ہے کہ اس کا جس پر جتنا زور چلتا اور اثر ہو اتنا ہی وہ اس کو بھی راہِ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدا کے سامنے اس سے سوال ہوگا۔ ظاہر بات ہے کہ وہاں کچھ جواب نہ بن آئے گا۔(بنام بہن اُمۃ الرحمن صاحبہ،۷جنوری ۱۹۵۰ئ)
آپ کے تازہ رجحانات اور تبدیلی کا حال معلوم کر کے انتہائی خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس میں استقامت اور برکت عطا فرمائے۔ بھائی صاحب تقسیم ملک اور قیامِ پاکستان کے بعد ہم مسلمانوں کے سوچنے کی اوّلین بات یہی ہے کہ اگر ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان نہیں بننا تھا، مخلص مسلمان بن کر نہیں رہنا تھا، اور ہمیں وہی کافر رعنائیاں اور طور طریقے مرغوب تھے تو ہندوئوں اور سکھوں سے علیحدگی اور آدھی قوم کو جس درندگی اور بدمعاشی کا شکار کرایا گیا، اس کا شکار کروانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا فقط کوٹ پتلون کو دھوتی کُرتا بننے سے بچانے کی خاطر؟ پھر اگر اسلام کا نام لینے اور اس کے لیے کام کرنے والوں سے اس درجہ چڑ اور عناد ہے تو قوم کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ پھر اس قوم کی اساس و بنیاد کیا شے بنائی جائے گی؟ کیا پنجابیت، سندھیت اور بنگالیت؟ یا لیڈر صاحبان کی شخصیتیں؟ آخر ہوائی قلعوں سے کتنے دن کام چل سکے گا؟ ہم لوگ آیندہ کے مسائل پر اسی انداز سے سوچتے ہیں اور اسی انداز پر سوچنے کی دوسروں کو دعوت دیتے ہیں۔
ہمارے نزدیک اس ملک اور اس قوم کی فلاح ہی نہیں بلکہ ان کی بقا کا انحصار، ان کے معاشرے اور حکومت کو ایمان داری سے اسلام پر تعمیر کرنے پر ہے۔ ’اسلام کے اصولوں‘ پر نہیں، ’سراسر اسلام پر‘۔ اگر ایسا کرلیا جائے تو ان شاء اللہ چند سال میں انڈونیشیا سے ترکی تک ایک قوم اور ایک ملک بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو پھر ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف بسنے والی قومیں واہگہ کی سرحد کے دونوں طرف بسنے والی قوموں سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کی دشمن ہوں گی اور یہ کوئی خیالی فلسفہ یا مجذوبانہ بڑ نہیں، بلکہ اب واقعہ اور عینی مشاہدے کی صورت میں قوم کے سامنے ہے۔(بنام چودھری عبدالرسول صاحب ایڈووکیٹ، کراچی، ۱۳نومبر ۱۹۴۹ئ)