قدیم و جدید کتب ِ سیرتؐ میں بیش تر مواد مغازیِ رسولؐ (رسولِ کریمؐ کی جہادی زندگی) پر موجود ہے۔ اوّلین سیرت نگار محمد بن اسحاق نے بھی سیرت النبیؐ کے اسی پہلو کو دیگر تفصیلات سے الگ کر کے مرتب کیا۔بعدازاں بہت سے تاریخ نگاروں نے سیرت نگاری کا فریضہ ادا کیا۔ بنیادی حیثیت کی حامل یہ تمام کتب عربی زبان میں ہیں۔ اب سیرت نگاری کا دائرہ کچھ مزید پھیل گیا ہے۔ ماخذ و مراجع تک رسائی کی سہولت نے اسے آسان تر بناد یا ہے۔ البتہ: ایں سعادت بزورِ بازو نیست!
اُردو سیرت نگاروں میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عسکری اور جہادی زندگی کی تفصیلات پر متعدد کتب موجود ہیں۔ رسولِؐ رحمت تلواروں کے سایـے میں، سیرتِ رسولؐ کے اس پہلو پرباقاعدہ طور پر مرتب کی گئی ہے۔ رسولِ کریمؐ کی زندگی کا مدنی دور جہادی سرگرمیوں کا عہد ہے۔ لہٰذا ہجرتِ مدینہ کے تذکرے سے اس کتاب کا آغاز ہوتا ہے اور چار جلدوں میں غزواتِ رسولؐ اور صحابہؓ کے سرایا کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ چاروں جلدیں ۱۹۹۱ئ، ۱۹۹۴ئ، ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۳ء میں یکے بعد دیگرے شائع ہوئیں۔ سریۂ نجران پر چوتھی جلد کا اختتام ہوتا ہے۔ غزوات و سرایا کی تفصیلات کے علاوہ بھی عہدنبوت کے ان تمام واقعات کو ساتھ ساتھ ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق رسولِ کریمؐ کی عسکری جدوجہد اور دعوتی مساعی سے تھا۔
عنوانِ کتاب کی حدود کے لحاظ سے موضوع کا لوازمہ پورا ہوچکا تھا۔ البتہ سیرتِ نبویؐ کے نہایت اہم دور کی تفصیلات ابھی باقی تھیں۔ لہٰذا پانچویں جلد اسی دور کی کچھ تفصیلات کا احاطہ کرتی ہے۔ چھے ابواب میں سے پہلے تین ابواب کی تفصیلات کا راست تعلق سیرتِ رسولؐ سے ہے، یعنی ۱-عام الوفود ۲-حجۃ الوداع ۳-وصال النبیؐ۔ پہلا باب بارگاہِ رسالت میں ۴۸وفود کی آمد اور حاضری کا حال بیان کرتا ہے۔ دوسرا باب رسولؐ اللہ کے حج مبارک کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ تیسرے باب میں وصالِ رسولؐ کے لمحات، خلیفۂ رسولؐ کی بیعت، وراثت ِ رسولؐ اور خاندانِ نبوتؐ کی تفصیلات موجود ہیں۔ رسولؐ اللہ کے ۳۷ غلاموں، ۱۷ خادموں، ۲۴کاتبینِ وحی اور تین اُمنا [امین کی جمع] کا تعارف ہے۔ اگلے تین ابواب، یعنی: ۴-لشکر اسامہ بن زیدؓ ۵-مرتدین اور مانعین زکوٰۃ ۶- جھوٹے مدعیانِ نبوت کے بارے میں تفصیل فراہم کرتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کا دور عہدِنبوت تو نہیں ہے مگر ان کا آغاز اسی عہد سے تعلق رکھتا ہے۔
واقعات نگاری میں تاریخ و سیرت کی بنیادی کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید اور کتب ِ احادیث سے بھی موقع بہ موقع استشہاد کیا گیا ہے۔ اسلوبِ نگارش والہانہ البتہ محققانہ ہے۔ مصنف دُعا اور مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اُن کو سیرتِ رسولؐ کے مدنی دور کی تفصیلات قلم بند کرنے کی توفیق مرحمت ہوئی جو الحمدللہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ اُمید ہے کہ یہ کتاب اُردو قارئینِ سیرت کو نئے اور نادر گوشوں سے آشنا کرے گی۔(ارشاد الرحمٰن)
صدیوں پر محیط مسلمانوں کے عربی ادب نے دنیا بھر کی زبانوں پر اپنے اثرات مرتب کیے۔ زبان و بیان اور تہذیب وثقافت پر پڑنے والے یہ اثرات آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ مختلف علوم و فنون میں تحریر کردہ مسلمانوں کی عربی کتابیں ایک طویل عرصے تک مغربی تعلیمی اداروں میں رائج رہیں۔ اَلعِقْدُ الْفَرید انھی کتابوں میں شامل ہے۔
عربی زبان کے شاعر اور انشاپرداز ابن عبدربہ (۸۶۰ئ-۹۴۰ئ) قرطبہ میں پیدا ہوئے اور مدت العمر اندلس ہی میں رہے اور قرطبہ میں دفن ہوئے۔ وہ خلیفہ عبدالرحمن الثالث الناصر (۹۱۲ئ-۹۶۱ئ) سے وابستہ تھے۔ ان کی ۲۵ کتابوں میں اَلعِقْدُ الْفَرید عربی ادب کی بہترین کتاب شمار کی جاتی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب اس کے خلاصے پر مبنی کتاب کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب کے ۲۵؍ ابواب ہیں، اور ہر باب کی دو فصلیں ہیں۔ ابواب کے نام جواہرات کے ناموں پر رکھے گئے ہیں، مثلاً: مرجان، زبرجد، یاقوت، زمرد وغیرہ۔
زیرنظر کتاب پندونصائح اور حکمت و دانائی کے جواہرات کا مجموعہ ہے۔ عقل و خرد اور فکرودانش کے یہ اَنمول موتی، مصنف نے عالمِ عرب کے دانائوں اور دیگر ممالک کے اہلِ قلم کی نگارشات سے اخذواکتساب کرکے جمع کیے ہیں تاکہ اہلِ عرب یہ جان لیں کہ مرکز سے دُور، انتہائی مغرب میں رہنے والے مسلمان بھی ان علوم سے بہرہ ور ہیں۔ (ص۴۲)
یہ کتاب تاریخ یا سیرت کی کتاب نہیں لیکن تاریخی واقعات کے ساتھ اس میں سیرت النبیؐ پر بھی قابلِ قدر لوازمہ پیش کیا گیا ہے۔ بادشاہوں کے حالات اور ان کی نفسیات پر ادبی، تمثیلی اور مکالماتی انداز میں بات کی گئی ہے۔حکایات، کہاوتوں، اشعار اور اقوال کی سند کو مصنف نے قصداً چھوڑ دیا ہے (ص۴۱)۔ مصنف چوں کہ خود شاعر ہے، اس لیے اس نے جگہ جگہ اپنے عربی اشعار درج کیے ہیں۔ جعلی نبیوں، بخیلوں، طفیلیوں، طب اور مزاح کے بارے میں لکھتے ہوئے مصنف نے کتاب کی دل چسپی کو برقرار رکھا ہے۔
کتاب نفیس کاغذ پر عمدگی سے شائع کی گئی ہے مگر پروف کی غلطیاں کھٹکتی ہیں۔ ادارہ قرطاس مبارک باد کا مستحق ہے کہ عربی کی نہایت اہم کتابوں کے تراجم شائع کر رہا ہے۔(ظفرحجازی)
مولانا سیّد جلال الدین عمری علمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کی معرکہ آرا تصنیفات میں معروف و منکر، تجلیاتِ قرآن، اوراقِ سیرت، غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق ، نیز صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات شامل ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب آپ کے نو مقالات کا مجموعہ ہے جن میں تہذیب و سیاست کی تعمیر میں اسلام کا کردار، اسلام: امن و سلامتی کا پیغام، اسلام اور اصولِ سیاست، اسلام کا شورائی نظام، اسلام اور انسانی حقوق اور اسلام میں انسانی حقوق کی ضمانت شامل ہیں۔
’تہذیب و سیاست کی تعمیر میں اسلام کا کردار‘ ،مولانا کے ایک علمی خطاب پر مشتمل ہے جس میں اسلامی تہذیب کے بعض مظاہر، مثلاً طعام اور معاشرت میں اسلام کی بنا پر طرزِعمل میں تبدیلی سے بحث کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ عصرحاضر کے ایک امریکی دانش ور ہن ٹنگٹن کے تصورِتہذیبی تصادم کا مختصر تذکرہ بھی ہے، نیز اسلامی سیاست کے بعض اصول بھی بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرا مقالہ مختصر ہے مگر اسلام اور سلامتی کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ تحائف کی دینی اور سماجی اہمیت اور بعض احکام پر مضمون گو مختصر ہے لیکن تحائف دینے اور قبول کرنے کی اخلاقیات کو واضح کرتا ہے۔ ’اسلام اور اصولِ سیاست‘ ساڑھے پانچ صفحات پر مبنی ایک مختصر نوٹ ہے جس کے بعد ’اسلام اور سیاست‘ کے زیرعنوان مقالے میں اسلام اور سیاست کے منطقی تعلق سے بحث کی گئی ہے۔ اگلے مقالے کا عنوان ’اسلام کا شورائی نظام‘ ہے۔ اس مقالے میں قرآنِ کریم میں شوریٰ کی فضیلت، احادیث میں اس کی اہمیت، اور اسلام کے مجموعی مزاج میں شوریٰ کے کلیدی کردار کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ آخری دو مقالات حقوقِ انسانی کے بارے میں اسلامی موقف کی وضاحت کرتے ہیں۔
یہ مختصر مضامین اس لحاظ سے بہت مفید ہیں کہ کم وقت میں بھی ایک سنجیدہ قاری ان سے استفادہ کرسکتا ہے لیکن اگر ان مقالات کے اندرونی ربط کے پیش نظر انھیں مفصل مقالات کی شکل دے دی جاتی تو یہ ایک نہایت وقیع علمی پیش کش ہوتی۔ (ڈاکٹر انیس احمد)