حضرت جابرؓ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حاجی کبھی بھی محتاج نہیں ہوتا۔ (بزار، طبرانی)
حج پر اخراجات بہت زیادہ آتے ہیں۔ آج کی طرح پہلے اَدوار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی دوسرے کاموں سے بڑھ کر دو کاموں میں مال خرچ ہوتا تھا: قتال فی سبیل اللہ اور حج۔ دونوں میں سفر بھی ہوتا، سواری کی بھی ضرورت ہوتی اور مال بھی خرچ ہوتا تھا۔ ایک عام مسلمان یہ سوچ سکتا تھا کہ جو رقم میرے پاس ہے اسے حج پر خرچ کردوں یا عمرے پر تو پھر دوسرے کام کیسے ہوسکیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خدشے کو دُور فرمایا کہ حج و عمرہ پر خرچ ہونے والی رقم کے سبب آدمی محتاج اور فقیر نہیں ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ اس کے عوض مال عطا فرما دیتے ہیں۔ گویا خرچ مزید آمدنی کا باعث ہوجاتا ہے۔ تب مال دار لوگوں کے لیے حج پر جانے سے کوئی چیز مانع نہیں ہونی چاہیے۔
o
حضرت خلّاد بن سائب اپنے والد حضرت سائب بن یزید سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبریل ؑ تشریف لائے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے اصحاب کو حکم دوں کہ وہ بلند آواز سے تلبیہ کہیں۔ ابن ماجہ میں ہے کہ یہ حج کا شعار ہے۔ (سنن ترمذی)
لبیک دراصل حضرت ابراہیم ؑ کی حج کے لیے پکار کا جواب ہے۔جنھوں نے اس وقت جواب دیا تھا جب حضرت ابراہیم ؑ نے حج کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پکاراتھا۔ وہ آج بھی جواب دیتے ہیں اور حج پر جاتے ہیں۔ ان حجاج کرام کے لیے یہ ہدایت ہے کہ تلبیہ بلندآواز سے پڑھا کریں کیوںکہ یہ تلبیہ حج کی خصوصی نشانی ہے۔ اس نشانی کو رضاے الٰہی کے حصول کے لیے بلندآواز سے پڑھنا چاہیے تاکہ اردگرد کے اہلِ علاقہ بھی لبیک کے گواہ بن جائے، اور وہ بھی حاضری کے اعلان کا لطف اُٹھائیں۔
o
حضرت انسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج میں مال خرچ کرنے کا ثواب جہاد فی سبیل اللہ میں مال خرچ کرنے کے مثل ہے۔ ایک درہم کا ثواب ۷۰۰ درہم کے برابر۔(بزار، طبرانی اوسط)
اللہ تعالیٰ کی ذات کس قدر مہربان ہے۔ اپنے بندوں کو جب کوئی مشکل حکم دیتے ہیں تو اس کا اجر بھی زیادہ عنایت فرماتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: عائشہؓ! تجھے جو اجر ملے گا وہ تمھاری مشقت اور خرچ کے اندازے کے مطابق ملے گا (مستدرک حاکم)۔ حج اور قتال فی سبیل اللہ جہاں مشکل کام ہیں اس کے ساتھ ہی ان میں خرچ بھی زیادہ آتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان میں اجر بھی عام نیکیوں میں خرچ کے مقابلے میں زیادہ رکھا ہے۔ عام نیکیوں میں خرچ کا اجر ایک اور ۱۰ کا ہے لیکن حج اور قتال فی سبیل اللہ میں ایک اور ۷۰۰ کا ہے۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی حج کے لیے حلال اور پاکیزہ مال کے ساتھ نکلتا ہے اور رکاب میں پائوں رکھا اور لبیک اللّٰھم لبیک کی صدا لگاتا ہے، تو آسمان سے اس کی پکار کا جواب دینے والا جواب دیتا ہے: لبیک وسعدیک، ہم بھی حاضر ہیں، بار بار مدد کریں گے، تیرا زادِ راہ حلال ہے۔، تیری اُونٹنی اور حج، پاکیزہ ہے اور مقبول ہے۔ اس پر تجھے کوئی گناہ نہ ہوگا۔ لیکن جب ناپاک خرچ کے ساتھ نکلتا ہے ، اُونٹنی کی رکاب میں پائوں رکھتا اور ندا دیتا ہے: لبیک اللّٰھم لبیک تو آسمان سے ندا دینے والا ندا دیتا ہے: کوئی لبیک نہیں ہے اور کوئی مدد نہیں ہے۔ تیرا زادِ راہ حرام اور تیرا خرچ حرام ہے اور تیرا حج گناہ ہے۔ کوئی نیکی نہیں اور مقبول نہیں ہے۔(طبرانی اوسط، اصفہانی عن سلمہ مولی عمر بن الخطاب)
رکاب میں پائوں رکھنے سے مراد سواری پر سوار ہونا ہے۔ پہلے زمانے میں سواریاں اُونٹ ، گھوڑے، خچر اور گدھے وغیرہ ہوتے تھے۔ آج کل ہوائی جہاز اور بحری جہاز ہیں، یا گاڑیاں ، بسیں اور کاریں ہیں۔ جو بھی سواری میسر ہو جب آدمی اس پر چڑھے تو اسے تلبیہ پڑھنا چاہیے۔ جب زادِ راہ اور خرچ حلال ہو تو آسمان سے قبولیت کی ندا آتی ہے اور جب حرام ہو تو اس کے مردود ہونے کی اطلاع دے دی جاتی ہے۔ اس لیے حرام مال سے حج و عمرہ سے سختی سے اجتناب کرنا چاہیے ورنہ ایک دفعہ مردودیت کا ٹھپہ لگ گیا تو پھر اسے دھونا بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ حج اور عمرے اور جہاد میں حرام اور ناپاک مال کی نحوست کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہے جس طرح ان دونوں میں حلال مال کا دائرہ اور اس کی برکات کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہے۔ اللہ تعالیٰ رزقِ حلال عطا فرمائے اور رزقِ حرام سے محفوظ فرمائے۔آمین!
o
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا تو ایک عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرائو۔ اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے جس پر میں تمھیں رسولؐ اللہ کے ساتھ حج کرائوں۔ اس نے کہا کہ مجھے اپنے فلاں اُونٹ کے ذریعے حج کرائو۔ اس نے کہا کہ وہ تو قتال فی سبیل اللہ کے لیے وقف ہے۔ اس پر سوار ہوکر لڑائی میں جایا جاسکتا ہے، حج میں نہیں۔اس کے بعد وہ رسول ؐاللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے اپنی بیوی کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا تذکرہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا: خبردار ہوجائو! اگر تم نے اپنی بیوی کو اسی اُونٹ پر حج کرایا تو وہ فی سبیل اللہ ہوگا، یعنی جہاد فی سبیل اللہ میں شمار ہوگا۔ اس نے کہا کہ بیوی نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ ؐ سے سوال کروں کہ آپؐ کے ساتھ حج کے برابر حج کس طرح ہوجائے گا؟ اس پر آپؐ نے جواب دیا: اسے میری طرف سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہو ، پھر کہو کہ رمضان المبارک میں عمرہ میرے ساتھ حج کے برابر ہے۔ (ابوداؤد، ابن خزیمہ)۔ بخاری کی روایت میں ہے رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے۔
o
ابن حبان میں ہے کہ حضرت اُمِ سلیمؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیںاور عرض کیا: ابوطلحہ اور اس کے بیٹے نے حج کرلیا اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے تو آپؐ نے فرمایا: اے اُمِ سلیمؓ! رمضان میں عمرہ میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ (مختصر الترغیب والترھیب)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت پر شفقت فرمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر کوئی خاتون آپؐ کے ساتھ حج پر نہیں جاسکی تو اسے ایسے عمرہ کی طرف رہنمائی فرما دی جس کے ذریعے وہ آپؐ کے ساتھ حج کی فضیلت حاصل کرلے۔حضرت اُم سلیمؓ کے ساتھ اور ان کے ذریعے دوسری تمام صحابیات اور قیامت تک کے لیے مومنات و مسلمات کو رمضان المبارک میں عمرہ کی طرف متوجہ فرما کر حج کی فضیلت حاصل کرلینے کی راہ بتلا دی۔ فجزاہ اللّٰہ تعالٰی عنا وعن جمیع المسلمین۔ آپؐ کی اس شفقت سے فائدہ اُٹھانے والے بے شمار اہلِ ایمان دنیا بھر میں موجود ہیں جو رمضان المبارک میں عمرہ کر کے حج کی فضیلت حاصل کرلیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل فرما دے۔ آمین!
o
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی دن بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذوالحجہ کے دس دنوں سے افضل نہیں ہے اور کوئی دن بھی عرفہ کے دن سے افضل نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس دن آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور زمین والوں کے ذریعے آسمان والوں پر فخر فرماتے ہیں۔ فرماتے ہیں: دیکھو! میرے بندوں کی طرف ،وہ میری طرف آتے ہیں اس حال میں کہ بال پراگندا ہیں، چہرے اور جسم غبارآلود ہیں۔ ننگے سر دھوپ میں چل کر آئے ہیں اور دھوپ ہی میں کھڑے ہیں۔ دُوردراز علاقوں سے پہنچے ہیں۔ میری رحمت کے اُمیدوار ہیں اور انھوں نے میرے عذاب کو دیکھا نہیں پھر کوئی دن عرفہ کے دن کے مقابلے میں نہیں دیکھا گیا جس میں آگ سے زیادہ لوگوں کو آزادی ملے۔ (ابویعلٰی، بزار، ابن حبان)
ابن خزیمہ اور بیہقی میں ہے کہ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انھیں بخش دیا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں: ان میں ایک ایسا آدمی بھی ہے جو حرام کاموں کا مرتکب رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں نے ان سب کو اس مجرم سمیت بخش دیا ہے۔(مختصر الترغیب والترھیب)
o
اللہ کی مغفرت بڑی وسیع ہے۔ اس میں تعجب کی بات نہیں ہے۔ عبادت بھی بہت بڑی ہے اور ربِ کریم کی رحمت و کرم بھی بڑے وسیع ہیں۔ حدیث قدسی ہے: ان رحمتی سبقت غضبی ’’یقینا میری رحمت میری غضب پر غالب ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ اگر مغفرت فرمانا چاہے تو پھر کون ہے جو اس کی مغفرت کی راہ میں مانع ہوسکے۔ نہ کوئی آدمی اور نہ کوئی گناہ مانع ہوسکتا ہے۔ مانع اس کی مشیت اور ارادہ ہی ہوسکتا ہے۔ وہ چاہے تو معاف کرے اور چاہے تو معاف نہ کرے۔ اس کے بندے دنیا کے کونے کونے سے اس کی پکار پر جمع ہیں تو پھر بخشش کا اس سے بہتر اور مناسب اور اہم موقع کون سا ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس موقعے پر اللہ تعالیٰ کی مغفرت عام ہوتی ہے اور تمام گناہ گار جو میدانِ عرفات اور میدانِ مزدلفہ میں جمع ہوتے ہیں سب کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ کتنی بڑی شان ہے اس غفور و رحیم ذات کی۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِوَالِدِیْنَا وَلِجَمِیْعِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ الْاَحْیَائِ مِنْہُمْ وَالْاَمْوَاتِ۔