اگست ۲۰۱۶

فہرست مضامین

۶۰ سال پہلے

| اگست ۲۰۱۶ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

مجتہد کا معیار

قانون اپنے ارتقا میں جس تدریجی تسلسل اور جس منطقی ربط کو چاہتا ہے اسے برباد کردینے کا نام اجتہاد نہیں ہوسکتا۔ ایسا اجتہاد تو اس کی جڑیں کھود کے رکھ دے گا.... اجتہاد کے لیے بہرحال معتمدعلیہ شخصیتوں کی ضرورت ہے.... اجتہادی فیصلے صرف ایسے لوگوں کے ذریعے ہونے چاہییں جو حسب ذیل پہلوئوں سے ملّت کا اعتماد حاصل کرسکیں:__ ان کی علمی استعداد کے بارے میں یہ اطمینان پایا جانا چاہیے کہ یہ قانونِ شریعت کے پورے سسٹم کو جڑ سے لے کر کونپلوں تک سمجھتے ہیں اور ان کا باہمی ربط جانتے ہیں اور پیش آمدہ مسائل میں ماہرانہ راے دے سکتے ہیں__ ان کے کردار کے بارے میں عوام کو یہ بھروسا ہونا چاہیے کہ ان کے اندر دین اور اس کے قانون سے انحراف کا جذبہ کارفرما نہیں ہے، یہ شریعت کے اندر اپنی اغراض و اہوا کو دخیل کرنے والے نہیں ہیں اور ان کے کچھ اپنے طبقاتی اور گروہی تقاضے ایسے نہیں ہیں کہ جن کو یہ خدا اور رسولؐ کا نام لے لے کر اجتہاد کے عنوان سے ہمارے سر منڈھ دیں__ان کی ذہنی و فکری ساخت کے بارے میں عام مسلمانوں کے اندر یہ اندیشہ موجود نہ ہونا چاہیے کہ وہ کسی غیراسلامی فکروتہذیب سے مرعوب اور کسی کافرانہ نظامِ قانون کے مفتوح ہیں اور وہ اجتہاد کی مسند پر بیٹھ کر شریعت کے ڈھانچے میں اجنبی اور متضاد نظریات، اصول اور جزئیات کو داخل کردیں گے اور اسلامی قانون میں تحریف کرڈالیںگے....

صحیح طریق کار یہ ہے کہ ہم اپنے اندر سے ایک طرف ایسے معتمدعلیہ علما کو لیں جو اسلامی قانون کے ماہرانہ علم کے ساتھ جدید حالات و ضروریات کا شعور رکھتے ہوں اور دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ طبقے میں سے ایسے مخلص افراد کو چھانٹ لیں جو دورِحاضر کے مسائلِ حیات کا تحقیقی مطالعہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلام سے وفاداری رکھتے ہوں اور کم سے کم اسلامی قانون کے عناصر ترکیبی اور ان کے باہمی ربط اور ان میں سے ہر ایک کی قدروقیمت کو جانتے ہوں۔ دونوں صفوں میں سے وہی لوگ اس نازک فریضے کو سرانجام دینے کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں جو انتہاپسندانہ ذہن کے ساتھ باہم دگر نفرت اور کش مکش رکھنے کے بجاے ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے اہل ہوں۔ (’اشارات، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۴۶، عدد۶، ذی الحجہ ۱۳۷۵ھ، اگست ۱۹۵۶ئ، ص ۱۳-۱۶)

_______________