محترم خرم مراد ایسوسی ایٹڈ کنسلٹنگ انجیینرز (ACE) کے ساتھ کام کر رہے تھے، جب ان کی کمپنی کو حرم کی توسیع اور تعمیرکا کام ملا۔ یہ کام انھوں نے نہایت وارفتگی ، محبت اور مہارت کے ساتھ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے خانہ کعبہ کی تاریخ، توسیع و تعمیر کے بارے میں ایک ضخیم جلد مرتب کی جو انگریزی اور عربی میں محفوظ ہے۔ اس کاابتدائی حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
سعودی عرب کا مغربی علاقہ حجاز کہلاتا ہے۔حجاز، جو عربوں کی جاے پیدایش ہے، تقریباً ۱۴۰۰؍ کلومیٹر طویل، ایک تنگناے ارضی پر مشتمل ہے۔یہ خطہ بحر احمر کے مشرقی ساحل پرواقع ہے۔ لفظ ’’حجاز‘‘ کے معنی حد بندی کے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ نام اس کی جغرافیائی ہیئت کی وجہ سے پڑ ا ہو۔اس خطے کے مرکزی ڈھانچے کی تشکیل سرات کے پہاڑی سلسلے سے ہوئی ہے جو بحر احمر کے ساتھ ساتھ چلتا چلا جاتا ہے۔یہ پہاڑی سرحد بحر احمر کے ساحلی میدانی علاقے ’تہامہ‘ کوسطح مرتفع ’نجد‘ سے جدا کرتی ہے۔ خط سرطان حجاز کے دونوں مقدس شہروں مکہ اور مدینہ کے درمیان سے گزرتا ہے۔
مکہ، مسلمانوںکا مقدس ترین شہر، حرمِ پاک کعبہ کے ارد گردنموپذیر ہوا ہے۔ یہ شہر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاے پیدایش ہے اور اسی شہر میں آپؐ پروحیِ الٰہی کانزول ہوا۔
مکہ مکرمہ نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں بیت اللہ کے شہر کی حیثیت سے ایک خاص کردار ادا کیا ہے۔ ’بیت اللہ‘ جو قدیم ترین گھر یا ’بیت العتیق‘ہے،اس شہر کو قرآن میں ’اُم القریٰ‘ کہا گیا ہے (الشوریٰ۴۲:۷)، یعنی ’شہروں کی ماں‘۔یہی بات مؤرخین بھی کہتے ہیں، کیوں کہ مکہ کا علاقہ زمین کا مرکزی مقام تسلیم کیاجاتا ہے۔اسی وجہ سے شہر کے مرکزی نشیب کوبسا اوقات ’مکہ کی ناف‘ کہا جاتا ہے۔
ہجرت سے دو سو سال قبل مکہ شہر بن چکا تھا۔اس سے پہلے کے لوگ کعبہ سے کچھ فاصلے پر واقع جبل احمر اور جبل ابوقبیس کی ترائی پر رہا کرتے تھے جہاں سے کعبہ نظر آتا تھا۔
جب قصی مکہ کے سردار بنے، جو سیدنا اسماعیل ؑ کی نسل سے تھے، تو انھوںنے شہر کی تعمیر کا بیڑا اُٹھایااور اس کانقشہ تیار کیا۔ اُس زمانے کی بے لچک قبائلی اور طبقاتی تقسیم کے مطابق تمام مکانات کعبہ کو مرکز مان کر اس کے ارد گرد ایک دائرے کی شکل میںبنائے گئے تھے۔ خود قصی اور ان کی اولاد کے مکانات کعبہ کے گرد باقی ماندہ خالی مربعے پر تعمیر ہوئے جہاں سے کعبہ کی زیارت کی جاسکتی تھی۔
مکہ کے اوّلین مکانات مکعب کی شکل کے تھے اور ان میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی دروازہ ہوتا تھا، جیسا کہ پہلی صدی ہجری سے لے کر تیسری صدی ہجری تک کے مکانات کے متعلق بتایا جاتا ہے۔ یہ مکانات عام طور پر تراشے ہوئے یا اَن گھڑ پتھروں سے،یا پکی اور کچی اینٹوں سے تعمیر کیے جاتے تھے۔بعض اوقات ان گھروںکو سنگِ مرمر، رنگین پتھروںیا ساحلِ عرب پر پائی جانے والی سیپیوں سے بھی مزین کیا جاتا تھا۔یہ تھاوہ سادہ آغاز جس سے نشوونما پاکر مکہ پورے عالم اسلام کے لیے ایک متبرک شہر بن گیا۔
جبل سرات کی آتش فشاں چوٹیوں کے درمیان ریتلے راستے اور قدرتی وادیاںپائی جاتی ہیں۔ان ہی میں سے ایک وادی، ’وادی ابراہیم‘ کعبہ کے مقام پرمسجد الحرام کے اندر واقع ہے۔ اس وادی میں کعبہ ایک نگینے کی طرح جَڑا ہوا ہے۔کعبہ کی سمت لپکتے ہوئے زائرین ، بعض اوقات ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے لبیک اللّٰھم لبیک کا ورد شروع کردیتے ہیں، ’’میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں‘‘۔ روایات کے مطابق، اللہ کے اِس قدیم ترین گھر،کعبہ کی بنیاد سیدنا آدم علیہ السلام نے رکھی تھی۔ یہی وہ مقدس گھر تھا جس کے جوار میں اپنی زوجہ محترمہ ہاجرہ ؑ اور اپنے شیرخوار بیٹے اسماعیل ؑ کو چھوڑ جانے کا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو فریضہ سونپا گیا کہ اپنے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو ساتھ ملاکر انسانوں کے لیے وضع کیے جانے والے اس اوّلین مبارک گھر کی بنیادیں از سر نو اُٹھائیں۔ ’’ابراہیم ؑ اور اسمٰعیل ؑ جب اس گھر کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے،تُو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔اے رب! ہم دونوں کو اپنا مطیع فرمان (مسلم) بنا لے اورہماری نسل سے ایک ایسی قوم اُٹھا جو تیری مطیع فرمان ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما، تو بڑا معاف فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (البقرہ۲: ۱۲۷- ۱۲۹)
یہی وہ گھر تھا جو تمام انسانیت کومجتمع کرنے کے لیے ایک مرکزاور امن کی جگہ بنا۔ ’’بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، ابراہیم ؑ کا مقامِ عبادت ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہووہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔(اٰل عمرٰن ۳:۹۶ - ۹۷)
از سرنو بنیادیں اُٹھاتے ہوئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام نے چار خطوط مستقیم پر مشتمل ایک ایسی سادہ سی شکل تعمیر کی، جس کے دو اطراف بھی متوازی نہ تھے۔ شمال مغربی جانب ۳۲ ہاتھ طویل تھی،شمال مشرقی جانب ۲۲ ہاتھ طویل تھی، جنوب مغربی جانب ۳۷ہاتھ طویل تھی اور جنوب مشرقی جانب ۲۰ ہاتھ طویل تھی۔دونوں حضرات انبیا (علیہم السلام) نے سخت محنت و مشقت کے ساتھ اور گارا استعمال کیے بغیر پتھر کے اوپر پتھر رکھ کریہ شکل تعمیر فرمائی۔ مشرقی سمت میں انھوں نے سیاہ رنگ کا ایک خاص پتھر (حجر اسود) نصب فرمایا،اِس علامت کے طور پر کہ طواف کا آغاز یہاں سے کیا جائے۔جب دیواریں اونچی ہونے لگیں تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ہاتھ مزید اوپرتک پہنچنے سے قاصرہوا۔سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام ایک پتھر اُٹھا لائے تاکہ وہ اُس پر چڑھ کر کھڑے ہو سکیں۔اس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نقوشِ پا آج تک ثبت ہیں۔یہی وہ پتھر ہے جو آج’مقامِ ابراہیم‘کے نام سے موسوم ہے۔ جب دیواریں نو (۹) ہاتھ اونچی ہوگئیںتو ان حضرات نے توقف فرمایا۔اپنی اس مکعب شکل ہی کی وجہ سے اس عمارت کانام ’کعبہ‘ پڑا۔
بغیر چھت کی یہ مقدس عمارت تعمیر کرکے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حکم الٰہی کی تعمیل کردی اورسمع و طاعت کا مظاہرہ پیش فرمایا۔ ایمان کی اِس سادہ سی علامت کی تعمیر اُن کے پختہ عقیدۂ توحیدکی بنیاد پر ہوئی ع
جس نے کفر و الحاد کی دنیا میں اور یادگاری مندروں اور اہراموں سے بھری ہوئی دنیا میں، عقیدۂ توحید کے ذریعے سے انسانیت کے چہرے کا رُخ پھیر دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یادکرو وہ وقت، جب کہ ہم نے ابراہیم کے لیے اس گھر کی جگہ تجویز کی تھی، (اس ہدایت کے ساتھ کہ) میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو،اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو،اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہردُور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوارآئیںتاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں، اور چند مقرر دنوںمیں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیںاور تنگ دست محتاج کو بھی دیں، پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذر پوری کریں، اور اس قدیم گھر کا طواف کریں‘‘۔ (الحج۲۲: ۲۶- ۲۹)
اس گھر کی تعمیر کے بعد، صحرا کے وسط میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک پتھر پر چڑھے اور چاروں جانب چہرہ پھیر پھیر کر تمام انسانوں کو پکارا کہ وہ آئیں اور اس گھر کا طواف کریں۔اس پکار کے جواب میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر ابدتک کے زمانے کے پیروانِ اسلام کا ایک انبوہِ کثیر لبیک اللّٰھم لبیک (میں حاضرہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں) کی صدائیں بلند کرتا ہوا، والہانہ آتا رہا ہے اور تاقیامت آتا رہے گا۔
جب ابراہیم علیہ السلام کعبہ، مکہ اور حجاز کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ رہے تھے تو آپ ؑ نے دُعا فرمائی: ’’اے پروردگار! اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ پروردگار! اِن بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے، جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میںاپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اِس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کوان کا مشتاق بنااور انھیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔پروردگار! تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں‘‘۔اور واقعی اللہ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمانوں میں‘‘۔ (ابراہیم ۱۴: ۳۵ - ۳۸)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر آج تک خانہ کعبہ گذشتہ چار ہزار برسوں سے اپنے اصل مقام پر، اپنی اصل ہیئت میں اور اپنی اصل بنیادوں پر قائم ہے۔ پوری تاریخ میں یہ بات ریکارڈ پر رہی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے اب تک جب بھی خانہ کعبہ کی تعمیرنو ہوئی ہے، ہمیشہ ان ہی بنیادوںپر ہوئی ہے۔
قدیم روایات کے مطابق خانہ کعبہ بے چھت کی چاردیواری سے گھرا ہوا ایک حجرہ تھاجس کی دیواروں کی بلندی ایک قد آدم تھی۔ ازرقی نے مزید تفصیل سے بیان کیاہے کہ یہ دیواریں ساڑھے چار میٹر بلند تھیںاور کھردرے پتھروںسے بغیر گارے کے بنائی گئی تھیں۔ چاروں کونوں پر چار پتھر نصب تھے، جن کی عرب تعظیم کیا کرتے تھے۔زم زم کا مقدس کنواں کعبہ کے صحن میں واقع تھا۔
ہجرتِ مدینہ سے اٹھارہ برس قبل قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرنو کی، جس کی حالت مرمت طلب ہو چکی تھی۔ اس تعمیر نو کا احوال ازرقی نے یوں بیان کیا ہے:’’اسی زمانے میں یونان کا ایک تجارتی بحری جہاز شُعیبیہ( جدہ سے قبل مکہ کی بندرگاہ) پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔قریش بحری جہاز کی لکڑی اور ایک یونانی بڑھئی کو، جس کانام باقوما تھا(اور وہ اسی بحری جہاز پر سوار تھا)،کعبہ کی تعمیر نو میں مدد کے لیے ساتھ لے آئے۔ اب کعبہ اس طرح سے تعمیر کیا گیا کہ ایک تہ پتھروں کی رکھی جاتی اور ایک تہ (ساگوان کی) لکڑی کی۔ یوں کُل ۳۱تہیں جمائی گئیں۔۱۶ تہیں پتھروں کی تھیں اور ۱۵تہیں لکڑی کی۔پہلی اور آخری تہ پتھر کی تھی‘‘۔
جب حجر اسود کو اس کے مقام پر نصب کرنے کا وقت آیاتو سردارانِ قریش میں اسے نصب کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر جھگڑا شروع ہو گیا۔صورتِ حال سنگین ہوگئی اور خوںریزی کی نوبت نظر آنے لگی۔فیصلہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم پر چھوڑا گیا۔ آپؐ کا فیصلہ تمام متعلقین کے لیے قابل قبول ہوا۔یوں ایک تشویش ناک صورتِ حال ٹل گئی۔
کعبہ کا دروازہ فرش سے اونچا کرکے اس طرح بنایا گیا کہ اس کی چوکھٹ سطحِ زمین سے چار ہاتھ (تقریباً دو میٹر) بلندتھی۔قریش نے ایک سپاٹ چھت بھی تعمیر کی۔چھت کوچھے ستونوںسے سہارا دیا گیا تھا جوتین تین ستونوں کی دو قطاروں پر مشتمل تھے۔حرم کی دیواریں اب ۱۸ ہاتھ اونچی کردی گئیں، جب کہ اس سے قبل صر ف نو ہاتھ بلند تھیں۔ہر تہ کی اونچائی تقریباً ۳۱سینٹی میٹر تھی۔ شمالی کونے پر جو رُکنِ شامی کہا جاتا ہے، چھت تک پہنچنے والی چوبی سیڑھیاں بنائی گئیں۔حرم کو ایک کپڑے میں ملفوف کر دیا گیا،یہ کپڑا’قباطی‘ کہلاتا تھا، پھر اس کپڑے کو بھی اونی پٹیوں سے ڈھانپ دیا گیا ۔
اب خانہ کعبہ کی اندرونی چھت، دیواروں اور ستونوں کو رسولوں، فرشتوں اور درختوں کی تصاویر سے مزین کیا گیا۔رسولوں کی تصاویر میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ایک تصویر بھی شامل تھی جس میں ایک ضعیف العمر شخص کوتیروں کی مدد سے فال نکالتے دکھایا گیا تھا۔ قدیم روایات کی رُو سے کعبہ کا صحن طلوعِ اسلام سے قبل بھی طواف کے لیے استعمال کیا جاتا تھااور یہ دائرہ نُما تھا۔اس علاقے کو قرآن مجید میں ’مسجد الحرام‘ کہاگیا ہے: ’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک‘‘۔ (بنی اسرائیل۱۷: ۱)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا کہ اللہ اُن کی ذرّیت میں سے ایک رسول مبعوث فرمائے، مستجاب ہوئی اور۲ ہزار ۶ سو برس بعد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم ان میں مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کی آیات ان کے سامنے تلاوت فرمائیں اورعربوں کی کایا پلٹ دی۔ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے پہلا اسلامی حج، ایک لاکھ ۱۴ ہزار مسلمانوں کے ساتھ، ۱۰ ہجری میں ادا فرمایا۔اسلام کی دُور دراز تک اشاعت کے بعد حاجیوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔اس کے نتیجے میں مسجد حرام اور کعبہ کے گرد مطاف میں وقتاً فوقتاً توسیع کرتے رہنا ناگزیر ہوگیا۔پہلی توسیع خلیفہ ثانی سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ کے دور میں ہوئی، اور اب تک کی (یعنی یہ مضمون تحریر کیے جانے تک کی: مترجم) آخری توسیع سعودی عرب کی حکومت نے ۱۳۹۵ھ میں کی ہے۔مطاف کی آخری توسیع جمادی الاولیٰ ۱۳۹۸ھ میں ہوئی۔حرم کی توسیع اور تزئین نو کی ایک روداد ذیل میں دی جاتی ہے:
جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ تشریف لائے اور آپؓنے کعبہ کو مرمت طلب حالت میںدیکھا توٹوٹے پھوٹے حصوں کی مرمت کے احکامات جاری فرمائے۔ بعض مآخذ سے معلوم ہوا ہے کہ مسعیٰ کی جانب سے آنے والا سیلابی پانی مقام ابراہیم ؑ کے سواہرجگہ نقصان کا باعث بنا۔آپؓ نے یہ بھی محسوس کیا کہ اہل ایمان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے گنجایش پیدا کرنے کو کعبہ کے گرد مسجد حرام کے رقبے میں توسیع کی ضرورت ہے۔ اس غرض سے کعبہ کے جوار میں بنے ہوئے مکانات کا معاوضہ ادا کرکے انھیں مسمار کروا دیاگیا۔تمام روایتی مآخذ سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے ادوار میں کعبہ کااحاطہ کرنے والی کوئی دیوار نہیں تھی۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ نے ایک قد آدم سے کچھ کم اونچائی کی ایک دیوارچاروں طرف کھنچوا دی۔اس دیوار میں دروازے بنوائے گئے اور اندھیرا چھا جانے پر اس احاطے کوروشن کرنے کے لیے دیوار پر چراغ رکھ دیے گئے۔تاریخ میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ آپؓ نے ایک پشتہ بھی تعمیر کروایاتاکہ آیندہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے یہ جگہ محفوظ رہ سکے۔مسجد حرام کا توسیع شدہ احاطہ کثیر الاضلاعی شکل کا تھااورزم زم کا کنواں اس احاطے کے اندر لے لیا گیا تھا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ کے ہاتھوں ہونے والی مسجد حرام کی توسیع کے زمانے کو بمشکل ایک عشرہ گزرا ہوگا کہ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہٗ کو مزید توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی۔ نئے نئے ممالک میں تیزی سے اشاعتِ اسلام کے باعث حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اِس توسیع کی وجہ بنی۔ ۲۶ ہجری میں آپؓ نے ارد گرد کے مزید گھروں کو معاوضہ ادا کرنے کے بعد مسمار کروا دیا اور اُن کی اراضی مسجد حرام میں شامل کردی۔آپؓ نے مسجد کی مکمل تزئینِ نو کروائی اور تاریخ میں پہلی بار نماز کے لیے سائبان تعمیر کروایا۔ نقشہ کم و بیش مربع شکل کا تھااور اس کے تمام کونے نالی دار تھے۔
سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے نواسے تھے اور مدینہ منورہ میں پیدا ہونے والے سب سے پہلے مسلمان تھے۔ آپؓ کی والدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا اُن افراد میں سے ایک تھیں جنھوں نے مکہ سے ہجرت کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کی معاونت کی تھی۔جب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ یزید کے مقابلے میں سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لیے جدو جہد کررہے تھے تو یزید نے مکہ معظمہ پر حملہ کردیااور محاصرے کے دوران میں خانہ کعبہ کو آگ لگ گئی۔محاصرے کا اختتام یزید کی موت پر ہوا۔اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ نے کعبہ کی تعمیرِ نوکا آغاز کیا۔ سب سے پہلے آپؓ نے خانہ کعبہ کو اُن پتھروںسے صاف کرنے کا حکم دیاجو یزید سے جنگ کے دوران میں کعبہ کے اندر پھینکے گئے تھے۔پھر آپ نے پوری عمارت کو منہدم کرنے کا حکم دیا، کیوں کہ بہت تھوڑا ہی سا حصہ اپنی اصل صورت میں باقی رہ گیا تھا۔آتش زدگی کے نتیجے میں دیواریں ریزہ ریزہ ہوئی جارہی تھیں۔ اہل مکہ انہدام کی غرض سے خانہ کعبہ کو ہاتھ لگانے سے خائف تھے۔ پہلے پہل انھوںنے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ کی مدد کرنے سے انکار کردیا،تا آں کہ آپؓ نے خود بہ نفسِ نفیس انہدام کے کام کا آغازنہ فرمایا۔
محاصرے کے دوران میں حجر اسود تین ٹکڑے ہوگیا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ نے ان ٹکڑوں کو جوڑ کر چاندی کے فریم میںیکجا کیااور حفاظت کے نقطۂ نظر سے اُس وقت تک اپنے گھر میں رکھا جب تک کعبہ کی دیواریں حجر اسود کی تنصیب کے مقام تک بلند نہ ہو گئیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی ہوئی بنیاد میں،جو بہت بڑے بڑے سبز پتھروں پر مشتمل تھی، چھے ہاتھ کا اضافہ کیا گیااور منہدم کی گئی عمارت کے مقابلے میں اس کی چوڑائی بھی بڑھائی گئی۔
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ نے کعبہ کوسیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قائم کردہ بنیادوں پر ازسرِ نو تعمیر کیا۔ لمبائی میں اضافہ کرکے اسے ۱۸ ہاتھ سے ۲۶ ہاتھ کر دیا۔حجر اسماعیل(علیہ السلام) کو کعبہ کے اندر شامل کیااور کعبہ کی اُونچائی ۱۸ ہاتھ سے ۲۷ ہاتھ تک لے گئے، یہ پیمایش عمارت کی کرسی سے کی گئی تھی، جو خود ۱۶؍ انچ بلند تھی۔نئی عمارت کی تعمیرپتھروں سے کی گئی جن کی موٹائی دوہاتھ تھی۔ ان پتھروںکی ۲۷ تہیں جمائی گئی تھیں۔سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ نے کعبہ میں دو دروازے بنوائے جو ۱۱ ہاتھ بلند تھے۔ ایک دروازہ مشرقی جانب، جو کعبہ میں داخل ہونے کے لیے تھا اور دوسرا دروازہ مغربی جانب جوباہر آنے کے لیے مختص تھا۔بعض مآخذ سے معلوم ہوا ہے کہ ان دروازوںپر سونے کی پتریاں چڑھائی گئی تھیں۔شمالی گوشے میں ایک چوبی سیڑھی نصب کی گئی جو چھت تک جاتی تھی۔ترشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کے لیے روایتی یمنی فن تعمیر اختیار کیا گیا اور یمن کی چکنی مٹی کاگارا استعمال کیا گیا۔
کلیساے یمن کی طرز پر (جو اَبرہہ نے تعمیر کروایا تھا) میناکاری کی گئی۔سنگ مرمر کے تین ستون بھی تعمیر کیے گئے جو رنگارنگ نقاشی سے مزیّن تھے۔صنعا سے شفاف سنگ مرمر لا کر اندرونی چھت پر لگائے گئے، جس سے اندرونی حصہ روشن ہوگیا۔ اگرچہ حجر اسودخانہ کعبہ سے اتار لیا گیا تھا، مگر عارضی چوبی ڈھانچے کے گرد بھی طواف جاری رہا۔جب دیواریں حجر اسود کی تنصیب کے مقام تک بلند ہو گئیں تو حجر اسود نصب کرکے اس پر دو پتھر مضبوطی سے جمادیے گئے۔کعبہ کی اندرونی اور بیرونی دیواروں پر مُشک کا لیپ کیا گیا۔ حرم کی نئی عمارت کو مصر کے قبطی ریشم کا غلاف پہنایاگیا، یہ روایت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہٗ کے دور سے جاری تھی۔باقی ماندہ اضافی پتھروں سے کعبہ کے گرد ۱۰ ہاتھ چوڑی ایک دائرہ نما پیادہ رَو تعمیر کی گئی۔حرم کے گرد بنی ہوئی دیوار اونچی کی گئی۔موجودہ دیواروں کی مرمت کی گئی اور ایک برآمدے کا اضافہ کیا گیا جس کی چھت سادہ لکڑی سے بنائی گئی تھی۔ازرقی بیان کرتا ہے کہ مسجد حرام نو جریب سے کچھ زائد پر تھی۔
مکہ شہر کے محاصرے کے دوران میں حجاج نے کعبہ کو شدید نقصان پہنچا یا۔جب وہ شہر میں داخل ہوا تو کعبہ کی تعمیر نو کا ذمہ لیا۔اس نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ کا تعمیر کردہ پورا ڈھانچا منہدم کرادیا۔ کعبہ کی لمبائی سات ہاتھ کم کرکے صرف ایک دروازے کے ساتھ نئی تعمیر کی گئی۔ اس واحد دروازے کو فرش سے چار ہاتھ بلند کردیاگیا تاکہ کعبہ کے اندر داخلہ محدود کیا جاسکے اور اس میں باقاعدگی لائی جا سکے۔ حجاج نے عمارت کے سامنے کا رُخ تین اُفقی حصوں میں منقسم کردیا۔ سب سے نچلا حصہ ۱۸ ہاتھ بلندتھا اور اس میں کعبہ کے اندر داخل ہونے کا دروازہ شامل تھا۔ اس کے علاوہ تین نمایشی دروازے بھی بنائے گئے۔ حرم کے ہر رُخ پر ایک چھجے کے نیچے ایک، ایک نمایشی دروازہ بنایاگیاتھا۔سب سے اونچاحصہ دو ہاتھ بلند تھااور اس حصے میں نیم شفاف سنگ مرمرکی چارکھڑکیاں نصب کی گئی تھیں۔ اندرونی حصے میں ایک نمایشی چھت کا بھی اضافہ کیا گیا جو شہتیروں سے بنائی گئی تھی۔یہ شہتیر دیواروں سے باہر نکلے ہوئے تھے اور ان پر ایک پردہ لٹکادیا گیا تھا۔ اندرونی حصے میں سنگ سرخ کے تین ستون تھے جنھوں نے شہتیروں سے بنی ہوئی چھت کو سہارا دے رکھا تھا۔
متعدد سیلابوں میںسے ایک سیلاب کے بعد ولید بن عبدالملک نے کعبہ کی بحالی کا آغاز کیا۔ اُس نے مسجد کے رقبے کی توسیع کی اور عمارت کی تزئین نو کروائی۔ برآمدوں کی چھت کو ساگوان کی منقش لکڑی کے شہتیروں سے مزین کیااورشیشے کی میناکاری متعارف کروائی۔ سنگ مرمر کی چوکھٹیں بنوائی گئیں،پرنالوں پرسونے کی ملمع کاری ہوئی اورکنگورے بنوائے گئے۔در حقیقت ولید وہ پہلا شخص تھا جس نے مصر اور شام سے منگائے ہوئے سنگ مرمر سے ستون بنوائے۔
اُموی تعمیرات کا دور جو ۱۳۲ھ تک جاری رہا ، سنگ مرمر کے ستونوں پر ایستادہ محرابی چھتوں اور پتھروں کی تراش خراش سے کی جانے والی پُرکشش تعمیرات کادور تھا۔سنگ مرمرکی چوکھٹوں اور میناکاری پر مشتمل تعمیرات کی اندرونی تزئین و آرایش انتہائی شان دار طریقے سے کی گئی تھی۔ان میں سے کچھ تکنیکی طریقے مسجد حرام کی تعمیر نو میں بھی استعمال کیے گئے۔ عباسیوں کے دور میں (۱۳۲تا ۶۵۶ھ) شامی طرزِ تعمیر کے اثرات کم ہوئے اور ایرانی و ساسانی طرزِ تعمیر کے اثرات میں اضافہ ہوا۔محوری نقشہ سازی اور پیمانوں کی وسعت اس عہد کی دو خصوصی صفات تھیں۔تعمیرات بالعموم اینٹوں سے کی جاتی تھیں جن کو استرکاری سے چھپا دیا جاتا تھا۔چہار مرکزی محرابیں نئی صورت گری کے طور پر ظہور پذیر ہوئیں۔چمک دار ٹائلوں سے مزین قوسی محرابوں کے استعمال کا آغاز بھی اسی دور سے ہوا۔
ابوجعفر المنصور نے مسجد کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا۔اُس نے مسجد کی شمالی اور مغربی جانب کو توسیع کی۔ان توسیعات کے بعد رقبہ پہلے کے مقابلے میں دوگنا ہوگیا۔
محمد المہدی نے یکے بعد دیگرے دو توسیعات کیں۔پہلی توسیع ۱۶۱ھ میں ہوئی جب اس نے شمالی سمت وسیع کرنے کا حکم دیا۔اس علاقے سے متصل عمارات کو خرید کر منہدم کر دیا گیااور ان کا رقبہ مسجد میں شامل کر دیا گیا۔اس توسیع کے بعد کعبہ درمیان میں نہ رہا۔ محمد المہدی نے ۱۶۴ھ کے حج میںاس بات کو محسوس کیا۔ لہٰذا اس نے جنوبی سمت میں بھی توسیع کرنے کا حکم دیا۔وہ خود بہ نفس نفیس جبل ابو قبیس پر کھڑا ہوگیا اور اس امر کو یقینی بنایا کہ کعبہ اس احاطے کے بالکل درمیان میں نظر آئے۔مہدی نے اس احاطے کے گرد برآمدوں کی تین قطاریں مزید تعمیر کروائیں۔ستون یاتو سنگ مرمر کے تھے یا پتھر کے۔ان برآمدوں پر ساگوان کی چھت ڈلوائی گئی۔ اس نے نمازکے لیے چھوٹی چھوٹی چار چوبی عمارتیں بنوائیں ، چار فقہی مذاہب میں سے ہر ایک کے لیے ایک عمارت مختص کر دی گئی۔ مہدی کا شروع کیا ہوا کام اُس کی زندگی میں پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔اُس کے کام کی تکمیل ۱۶۷ھ میں اُس کے بیٹے موسیٰ الہادی کے عہد میں ہوئی۔اس توسیع کے نتیجے میں حرم کا رقبہ اپنے انتہائی طول و عرض تک پہنچ گیا۔سوائے اس کے کہ بعد میں ’باب الزیادہ‘ اور ’بابِ ابراہیم‘ کا اضافہ کیا گیا، حرم میں اور کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ مہدی کی تعمیرات چھے صدیوں تک کسی تغیر کے بغیر برقرار رہیں۔
l۲۲۲ھ تا ۴۸۶ ھ: ۲۲۲ھ میں سامراء سے لائے ہوئے زرد پتھرکے ستون چھت کے لیے استعمال کیے گئے۔کعبہ کے شمال مغرب میں واقع حجر اسماعیل ؑ کی نشان دہی کے لیے سنگ ہاے رنگا رنگ اور سنگ سبز کی تنصیب کی گئی۔مقام ابراہیم ؑ پر سونے کی ملمع کاری کی گئی اور موسمی اثرات سے حفاظت کی غرض سے اِسے ایک چوبی ساخت کے نیچے رکھا گیا۔کعبہ کے گرد چوبی ستونوں پر قندیلیں آویزاں کی گئیں۔تواترسے سیلابوں کی آمد کے سبب مزید مرمت کی شدید ضرورت پڑی تو کعبہ کی چھت کو ڈھاپنے کے لیے سنگ سبزکی تہ جمائی گئی۔چاندی کے دروازے پر سونے کا ملمع چڑھایا گیا۔اندرونی حصے میں دیواروں پر ایک ہاتھ چوڑی سونے کی گل کاری پر مشتمل ایک پٹی کا اضافہ کیا گیا۔ سرخ ریشم کے ایک پردے سے، جس پر سونے سے کڑھائی کی گئی تھی، کعبہ کو ملفوف کردیاگیا۔
معتضد عباسی نے ۲۸۴ھ میں دارالندوہ کا ایک حصہ مسجد حرام میں شامل کر لیا۔بعد میں دارالندوہ کا بقیہ حصہ بھی مسجد میں شامل کر لیا گیا اور اس کا نام ’باب الزیادہ‘ رکھ دیا گیا۔اس کے بعد مقتدر عباسی نے ۳۰۶ھ میں مسجد میں ایک حصے کا اضافہ کیا جو ’بابِ ابراہیم ؑ‘ کہلایا۔ اس توسیع سے مسجد حرام کا رقبہ اتنا بڑا ہوگیا جو ۱۳۷۵ھ تک برقرار رہا۔ ۴۴۲ھ میںاندرونی حصے کے متعلق ایک حاجی یوں بیان کرتا ہے: ’’امویوں کے زمانے سے اس کا نظم تین ستونوں پر استوار تھا۔ستونوں کا بالائی سرا جو سنگِ سفید سے بنایا گیا تھا، شیشے سے بدل دیا گیا۔ چاروں کونوں پر بلند طاق بنائے گئے جن میں قرآن مجید رکھ دیا گیا۔دیواروں پر سونے کی اینٹیں مرصع کر دی گئیں۔شمال مشرقی دیوار پر چھے نقرئی محرابیں بنائی گئیں۔ لکڑی کے کچھ ٹکڑے، جن کے متعلق کہاجاتا ہے کہ یہ کشتی نوحؑ سے حاصل کیے گئے تھے، چاندی کے فریم میں جڑ کر دیوار پر آویزاں کر دیے گئے۔چھ صدیوں تک کعبہ اور مسجد حرام کم و بیش اسی صورت میں رہے، حتیٰ کہ سلطنت عثمانیہ کا دور آپہنچا۔
l۸۰۲ھ تا ۸۰۷ ھ: ۸۰۲ھ میں آتش زدگی کے سبب مسجد کی مغربی سمت مکمل طور پرجل گئی۔ سنگ مرمر کے سو سے زائد ستون اور چھت نذر آتش ہوگئی۔ یہ حادثہ فرج ابن برقوق (شراک حکمرانوں میں سے ایک حکمران)کے عہد میں پیش آیا۔ اس نقصان کی مرمت امیر بیسق الظاہری نے کروائی۔
l ۹۷۹ ھ تا حال: عثمانی حکمران سلطان سلیم نے ۹۷۹ھ میں مسجد الحرام کی مکمل تزئین نوکروائی۔اُس نے ترکی کے عظیم ماہر تعمیرات سنان کو یہ فریضہ سونپا۔ مسجد کے انہدام کا آغاز ۹۸۰ھ میں باب السلام سے ہوا۔ملبے کا ڈھیر مسفلہ میں لگایا گیا۔نئی تعمیر کا آغاز ۶جمادی الاوّل ۹۸۰ھ سے ہوا۔ کعبہ کے گرد واقع برآمدے کو جس میں ۸۹۲ ستون تھے، پتھر اور سنگ مرمرکے ستونوں سے بدل دیا گیا۔پتھر کے ستون اس ترتیب سے ایستادہ کیے گئے کہ وہ استرکاری کی ہوئی سنگی محرابوں اور گنبدوں کو سہارا دیتے رہیں۔ ہموار چھت کی جگہ طرزِ عثمانی میں مجموعی طور پر ۵۰۰ گنبد تعمیر کیے گئے۔ ان گنبدوں کی اندرونی سطح کوبعد میں عبداللہ مفتی نے سنہری نقاشی اور دل کش خطاطی سے مزین کروا دیا۔ ۹۹۴ھ میں سلطان سلیم نے سنان کے نقشے کے مطابق کعبہ کے احاطے میں توسیع کی۔سنگ ہاے رنگارنگ سے کعبہ کے گرد پیادہ رَو کو مزین کیا گیا۔ کعبہ کے احاطے میں کھجور کے درختوں کی شکل کے قمقموں کا اضافہ کیا گیا اور ساتواں میناربنا یا گیا۔ عہد عثمانی کی مسجد کا تذکرہ اٹھارھویں صدی کے اکثر سیاحوں نے کیا ہے۔ فرش کو بڑے بڑے پتھروں سے مسطح کر دیا گیا تھا۔مسجد سے لے کر کعبہ تک سات عدد پختہ پیادہ رَو تعمیر کی گئی۔مسجد کا فرش گلی کی سطح سے نیچے تھا، داخلے کے لیے ۱۹ راستے بنائے گئے جن سے سیڑھیوں کے ذریعے داخل ہوتے تھے۔ سات مینار تھے جو اِن مقامات پر تعمیر کیے گئے تھے: باب العمرہ، باب السلام، باب علیؓ، باب الوداع، مدرسہ قایتبای،باب الزیادہ اور مدرسہ سلطان سلیمان۔ اندرونی حصے میں ستونوںکا جُھنڈ تھا جن کی تعداد ۴۵۰ سے ۵۰۰ تک تھی۔ مشرقی سمت میں ایک برآمدہ تھا، جس میں ستونوں کی چار قطاریں تھیں، دوسری جانب تین قطاریں تھیں۔ ستونوں کو نوکیلی محرابوں سے جوڑا گیا تھا۔ہر چار ستون سے ایک گنبد کو سہارا دیا گیا تھا۔
۱۰۳۹ھ میں پے در پے سیلابوں کے باعث کعبہ کی تعمیر نو ضروری ہوگئی۔ دو کونوں کے پتھر منہدم ہو گئے اور علما نے متفقہ طور پر مرمت کو لازمی قرار دیا۔کھدائی اُس وقت روک دی گئی جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی رکھی ہوئی بنیادکے پتھروں تک جاپہنچی۔ کعبہ کی تعمیر ان ہی بنیادوں پر ہوئی اورپرانے پتھروں ہی کا زیادہ استعمال کیا گیا۔کعبہ کے اندرونی ستونوں پر سونے کی ملمع کاری کر دی گئی۔ چاندی کا وہ دروازہ جو سلطان سلیمان نے کعبہ کی نذر کیا تھا، اپنے مقام پر بحال کر دیاگیا۔ کعبہ پر دو غلاف چڑھائے گئے، پہلے سُرخ اور اُس کے اوپر سیاہ۔ کعبہ کے گرد پڑی ہوئی ریت آبِ زم زم سے دھو کر صاف کی گئی۔ کعبہ اسی حالت میں کم و بیش ۴۰۰ سال تک رہا، تاآں کہ ۱۳۷۵ھ میں عالی مرتبت شاہ عبدالعزیز نے مسجد الحرام کے توسیعی و تعمیری منصوبے کا آغاز کیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس منصوبے کی کامیابی سے تکمیل کے بعد ۱۳۹۸ھ میں مطاف کی توسیع اور نکاسی آب کے منصوبے کا آغاز کیاگیا۔
اوّلین اسلامی اَدوار ہی سے کعبہ کی چاروں دیواریں سیاہ غلاف سے ملفوف کی جاتی رہی ہیں۔ غلاف کا کپڑا، کعبہ کی تاریخ کے مختلف ادوار میںمصر، یمن اور دیگرعلاقوں سے فراہم کیا جاتا رہاہے۔ ایک مرتبہ سیاہ غلاف کو سفید غلاف سے بدل دیا گیا اور کہا گیا کہ کعبہ نے ’احرام‘پہن لیا ہے۔ غلاف کو بالعموم رسیوں اور کڑوں کی مدد سے زمین پر نصب کیا جاتا ہے۔ زیادہ تریہ غلاف سیاہ کمخواب کاہوتا ہے۔ غلافِ کعبہ کے نچلے حصے سے تین چوتھائی حصہ اوپر کرکے سونے کی کڑھائی پر مشتمل ایک پٹی تشکیل دی جاتی ہے۔کعبہ پر غلاف چڑھانے کی روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے زمانے سے پہلے بھی تھی، مگر یہ روایت حال ہی میں قائم ہوئی ہے کہ غلافِ کعبہ ہرسال تبدیل کیا جائے۔اب غلافِ کعبہ مکہ میں واقع ایک کارخانے کے اندر تیار کیا جاتا ہے۔
کعبہ کے دروازے کا تصور وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہا ہے۔ ابتدا میں دروازہ فرش کی سطح پر تھا۔ بعد میں اس کو بلند کر دیا گیا۔ ایک بار دو دروازے بنادیے گئے تھے۔ ایک داخل ہونے کے لیے اور دوسرا باہر آنے کے لیے، تاہم اکثر زمانوں میں ایک ہی دروازہ کعبہ کے شمال مشرقی رُخ پر رہا ہے۔موجودہ دروازہ فرش کی سطح سے دو میٹر بلند ہے اور سونے چاندی کے ملمع سے بنایا گیا ہے۔ سال میں ایک بار دروازہ کھولا جاتا ہے تاکہ کعبہ کے اندرونی حصے کو غسل دیا جا سکے۔دروازے کی سطح تک پہنچنے کے لیے ایک مخصوص زینہ لایا جاتا ہے۔ کعبہ کے اندرونی حصے کو آبِ زم زم سے غسل شاہِ ذی جاہ اور دیگر عمائدین اپنے ہاتھ سے دیتے ہیں۔اندرونی دیواریں کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی جاروب سے صاف کی جاتی ہیں اور اس کے بعد اندورنی حصے میں خوشبوؤں کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
حجر اسود کعبہ کے مشرقی گوشے میں ثبت ہے۔ایک بار یہ ٹوٹ کر تین حصوں اور بہت سے ریزوں میں منقسم ہو گیا تھا۔ اب اسے پتھروں کے ایک حصار میں جڑ کر چاندی کے ایک بندھن سے باندھ دیا گیا ہے۔کہاجاتا ہے کہ یہ پتھر آتش فشاں کے لاوے کا پتھر ہے۔ اس کا رنگ سُرخی مائل سیاہ ہے، جس پر زرد ذرّات پائے جاتے ہیں۔اب یہ مختلف ناپ کے سات حصوں میں منقسم ہے، جو چاندی کے ایک فریم میں مضبوطی سے جما دیے گئے ہیں۔