(آخری قسط)
اُمت کے اختلاف کی حقیقت اور اس کے اسباب کی تشخیص کرنے والوں نے اختلاف کے متعدد اسباب ذکر کیے ہیں۔جن میں سے ایک سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بسااوقات کسی مجتہد تک یا کسی علاقے کے لوگوں تک صحیح روایت نہیں پہنچ پائی، اور انھوں نے اصل دلیل سے لاعلمی کی وجہ سے ایک کمزور موقف اختیار کرلیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ان کے اوپر اور ان کے بعد والوں پر لازم ہے کہ صحیح روایت سے واقف ہوجانے کے بعد اس کمزور موقف سے رجوع کریں اور دلیل کے مطابق صحیح موقف اختیار کریں۔
اُمت کے درمیان فقہی اختلافات کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کسی صحابی کو معلوم ہوسکی اور کسی کو نہ معلوم ہوسکی ہو، لیکن فرض نمازوں کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ یہ تو صحابہ کی پوری اُمت نے برسہابرس تک روزانہ پانچ مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی، اور اس جذبے سے سیکھی کہ اسے من وعن آپ کے طریقے کے مطابق پڑھنا ہے۔ اس ضمن میں یہ ماننے کی گنجایش نہیں ہے کہ ایک بھی صحابی اللہ کے رسولؐ کے سکھائے ہوئے طریقے سے ناواقف رہ گیا ہوگا۔ اس میں اگر کوئی عمل افضل ہوگا تو سب اس سے واقف ہوں گے، اور اگر کوئی عمل منسوخ ہوگیا ہوگا تو بھی سب اس سے واقف ہوں گے۔ اس میں کوئی عمل کئی طرح سے انجام دیا گیا ہوگا تو بھی سب اس سے واقف ہوں گے۔ غرض فرض نمازوں کے اعمال کے بارے میں یہ بات کہنی کہ ہوسکتا ہے اللہ کے رسولؐ کا ثابت عمل یا آخری وقت کا عمل اُمت کے کسی گروہ تک نہ پہنچا ہو، درست نقطۂ نظر نہیں ہے۔اُمت تک فرض نمازوں کے جو اعمال پہنچے ، وہ سب اللہ کے رسول سے ثابت شدہ ہیں اور وہ سب غیر منسوخ سنتیں ہیں۔
شاہ ولی اللہ دہلوی نے فقہا کے درمیان اختلافات کے بارے میں ایک معتدل موقف پیش کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’فقہا کے درمیان جو اختلافی صورتیں ہیں، ان میں زیادہ تر صورتیں، خاص طور سے وہ مسائل جن میں صحابہ کے اقوال دونوں جانب نظر آتے ہیں، جیسے تشریق کی تکبیریں، عیدین کی تکبیریں، حالت احرام میں نکاح، ابن عباس اور ابن مسعود کا تشہد اور بسم اللہ بلاآواز پڑھنا، آمین بلا آواز کہنا، اقامت کے الفاظ کو دو دو باراور ایک ایک بار کہنا، وغیرہ تو یہ اختلاف دراصل دو قول میں سے ایک کو راجح قرار دینے کا ہے۔ سلف میں اختلاف اس میں نہیں تھا کہ دونوں میں سے کون سا عمل مشروع ہے اور کون سا عمل مشروع نہیں، بلکہ اس میں تھا کہ دونوں میں اولیٰ کون سا ہے۔ اکثر (فقہا کے ان اختلافات )کی نظیر مختلف قراء توں میں قراء کا اختلاف ہے۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے، کہ فقہا اس باب میں یہ توجیہ کرتے ہیں کہ صحابہ میں اختلاف ہے، اور وہ سب صحیح راہ پر ہیں‘‘۔
شاہ ولی اللہ نے اس بیان میں ایک بہت اہم نکتہ یہ بیان کیا ہے، کہ صحابہ کے درمیان جو اختلافات ہوئے وہ قرأت کے اختلاف جیسے تھے۔ یہ بات صحابہ کے تمام اختلافات پر صادق آئے یا نہ آئے، تاہم فرض نمازوں کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ صحابہ اور تابعین اگر مختلف طرح سے نماز پڑھتے تھے، تو وہ دراصل نماز کی مختلف قراء تیں تھیں جو انھوں نے اللہ کے رسولؐ سے دو دہائیوں کے طویل عرصے میں روزانہ پانچ دفعہ سیکھی تھیں۔
شاہ ولی اللہ نے ذکر کیا ہے کہ فقہا میں اس طرح کے مسائل میں اختلاف دراصل ترجیح کا اختلاف تھا، جائز اور ناجائز کا اختلاف نہیں تھا۔ یہ بات کچھ غور طلب ہے۔ کبھی کبھی پیش آنے والے بہت سارے مسائل کے بارے میں تو ترجیح کا اختلاف معقول اور فطری ہے، تاہم فرض نمازوں کے جو مختلف طریقے اُمت میں دورِ اوّل سے رائج ہیں، ان میں ترجیح کے اختلاف کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ مناسب اور معقول طریقہ یہی تھا کہ ان سارے اعمال کو بلا ترجیح کے قبول کرلیا جاتا۔ کیوںکہ ان میں سے ہر ایک کی پشت پر اُمت کے تواتر عملی کی دلیل موجود ہے۔
فقہ کی کتابوں میں عام طور سے یہ مشترک غلطی پائی جاتی ہے کہ وہ نماز کی مختلف صورتوں کو اماموں اور ان کے مسلکوں سے منسوب کرکے ان کی وکالت کرتی ہیں۔ ان کے دلائل سے یہ احساس قائم ہوتا ہے کہ نماز کی صورت گری میں اماموں کے اجتہاد کو بڑا دخل رہا ہے۔ نماز کے ثبوت کی سب سے بڑی دلیل، یعنی اُمت کے بے نظیر عملی تواتر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، اور روایتوں کو اصل دلیل مان کر روایتوں کی توجیہ وتاویل پر محنت صرف کی جاتی ہے، جس سے روایتوں کی دلالت بھی مجروح ہوتی ہے، اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دلیل سے زیادہ راے سے محبت ہے۔
بلاشبہہ آج ضرورت ہے فقہ کی ایسی کتابوں کی تیاری کی، جن میں تمام شرعی دلیلوں کا احترام ہو، متواتر عملی سنت کا بھی لحاظ ہو، احادیث اور آثار کا بھی خیال ہو، اور پھر ساتھ ہی ساتھ ائمہ کرام کے اجتہاد واستنباط کا بھی احترام ہو۔مدارس میں جب اس طرح کی کتابیں پڑھائی جائیں گی تو مثبت سوچ رکھنے والا اور پوری اُمت اور ساری شریعت سے محبت کرنے والا ذہن تیار ہوگا۔
ہمارے مدارس کا فقہی نصاب ایسی کتابوں پر مشتمل ہونا چاہیے جو اجتہادی احکام اور توقیفی احکام میں فرق کریں۔ عبادات کے وہ ابواب جن میں اجتہاد کی گنجایش نہیں ہے، اور جیسا اللہ کے رسول نے کیا ویسا ہی کرنے کی ہدایت اور تعلیم ہے، وہاں عملی تواتر سے ثابت احکام کو ذکر کرنا،ان کے حق میں جو روایتیں ہیں خواہ وہ کسی بھی درجے کی ہوں ان کا تذکرہ کردینا، اور ان کے اندر جو حکمت کے پہلو ہیں انھیں بیان کردینا بہت مناسب اور مفید ہوگا۔ فقہ کے جن ابواب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اُمت کو ایک سے زیادہ طریقے ملے ہیں، ان ابواب میں وہ سارے طریقے اس طور سے بیان کرنا کہ یہ سب سنت کے مطابق طریقے ہیں، طلبہ کی مثبت ذہنی تربیت میںبہت معاون ہوگا، اور ان سے توقع کی جاسکے گی کہ وہ آیندہ اتحاد اُمت کے لیے بڑا رول ادا کرسکیں گے۔
نماز کے باب میں جہاں بہت سارے اعمال کے ایک سے زائد طریقے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اُمت کو ملے ہیں، وہاں کسی ایک ہی مسلک کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل کا انبار لگانا، اور باقی مسالک کو کمزور ثابت کرنے کے لیے وجوہات واسباب جمع کردینا ایک لاحاصل عمل ہے۔ اس سے ’’ہم ہی درست ہیں، اور دوسرے سب غلط ہیں‘‘ کامنفی اور بیمارذہن تیار ہوتا ہے۔
فقہ کے نصاب میں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت یہ بھی ہے کہ توقیفی مسائل کے بجاے زیادہ توجہ اجتہادی مسائل پر مرکوزکی جائے۔ کیوںکہ اجتہادی مسائل میں ائمہ فقہ کے اجتہاد پر جس قدر زیادہ غور وفکر کیا جائے گا، اسی قدر اجتہادی ذوق اور فقہی ملکہ پروان چڑھے گا۔
بعض مدارس میں دیکھا جاتا ہے کہ فقہ کی تعلیم کا بیش تر وقت نماز سے متعلق اختلافی بحثوں میں گزر جاتا ہے، اور ان ابواب کی تعلیم کے لیے مناسب وقت نہیں مل پاتا جن کا تعلق ہماری عملی زندگی کے دوسرے گوشوں سے ہے۔ بعض مدارس میں حدیث کی تعلیم بھی اس طرح دی جاتی ہے، کہ زیادہ وقت نماز سے متعلق اختلافات اور ان کے محاکمہ میں صرف ہوجاتا ہے۔ ان طریقوں کے بجاے مفید تر طریقۂ تدریس اختیار کرنا چاہیے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا جو طریقہ بتایا تھا ،اس میں یہ نہیں بتایا تھا کہ اس میں کیا واجب ہے اور کیا سنت ہے۔ آپ نے نماز کا جو طریقہ سکھایا اس کے ہر جزئیے کا فقہی حکم متعین کرنے کا کام فقہاے کرام نے انجام دیا، اور فقہی حکم متعین کرنے میں ان کے درمیان کبھی اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔فقہی فیصلوں کے درمیان اختلافات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات نماز کے اصل طریقے میں اختلاف نہیں ہوتا ہے، اصل طریقے پر تو سب کا اتفاق ہوتا ہے، البتہ اس طریقے کی حیثیت متعین کرنے میں اختلاف ہوجاتا ہے۔
مغرب کی نماز یا دیگر چار رکعت والی نمازوں میں دوسری رکعت کے بعد تشہد کے لیے بیٹھنا اور بیٹھ کر تشہد پڑھناسب کے نزدیک مطلوب ہے۔ اس کے مطلوب ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، البتہ امام احمد کا ایک قول ہے، اور امام لیث اور امام اسحاق کا بھی یہ قول ہے کہ ایسا کرنا واجب ہے، جب کہ جمہور فقہا کی راے ہے کہ یہ واجب نہیں ہے۔
آخری رکعت میں تشہد کے بعد درود پڑھنا سب کے نزدیک مطلوب ہے، البتہ اس کی حیثیت متعین کرنے میں اختلاف ہوگیا۔ امام ابن المنذر کہتے ہیں: ’’ہماری راے یہ ہے کہ جو بھی نماز پڑھے، وہ درود بھی پڑھے، لیکن ہم اس کو واجب نہیں قرار دیتے، اور اگر کوئی چھوڑ دے تو اس پر نماز کو دُہرانا لازم نہیں۔ یہی امام مالک اور اہل مدینہ کا مسلک ہے۔ سفیان ثوری اور عراق کے اہل راے اور دیگر لوگوں ، اور تمام اہل علم کا یہی مسلک ہے سواے شافعی کے۔ ان کے نزدیک اگر نماز پڑھنے والا درود نہ پڑھے تو وہ نماز کو دوہرانا ضروری قرار دیتے ہیں۔ اسحاق کہتے تھے: امام ہو یا مقتدی، اگر تشہد سے فارغ ہوجائے تو درود پڑھے، ایسا نہ کرنے سے اس کی نمازنہیں ہوگی۔ بعد میںیہ بھی کہا: اگر بھولے سے چھوڑ دیا تو امید کرتے ہیں کہ نماز ہوجائے گی۔ (الأوسط، ج۳،ص۲۱۳)
اس اختلاف کا اثر اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب کوئی بھولے سے یا جان بوجھ کر وہ عمل چھوڑ دے۔ جب تک سب لوگ اس عمل پر کار بند رہتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا کہ کون اس عمل کو سنت سمجھ کر کر رہا ہے اور کون واجب مان کر کررہا ہے۔
فقہی احکام متعین کرنے کا کام بھی اہم تھا، اور فقہا نے یہ عظیم ذمہ داری انجام دی۔ تاہم، ان کی جانب سے بسا اوقات غیر محتاط اور شدت پسندانہ رویے بھی سامنے آئے، اور اس طرح کے رویوں نے اختلافات کی جڑوں کو گہرا کرنے میں بڑا کردارادا کیا۔ اس شدت پسندی کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ نماز کا ایک عمل کسی ایک فقیہ کے یہاں واجب کی حد تک مطلوب ہوجائے، اور وہی عمل دوسرے فقیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی کی حد تک غیرمطلوب ہوجائے۔ حالاںکہ معاملے کی حقیقت صرف یہ ہو تی ہے کہ اس عمل کو نہ کرنا اور کرنا دونوں درست ہوتے ہیں۔
بہت سے فقہا فریق مقابل کی ثابت شدہ حدیثوں کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ وہ ہیں تو ثابت مگر منسوخ ہیں۔ اس رویے کے بڑے نقصانات ہیں۔ ایک تو صحیح حدیثوں سے ثابت احکام کو محض اپنے اجتہاد سے منسوخ قرار دے دینا ایک بڑی جسارت ہے۔ دوسرے جس عمل کو منسوخ مان لیا اسے نماز میں کرنے کو مکروہ اور مکروہ تحریمی قرار دینا پڑتا ہے، جب کہ اسی حدیث کی بنا پر وہی عمل ان دوسرے لوگوں کے یہاں سنت قرار پاتا ہے، جو اس حدیث کو منسوخ نہیں مانتے ہیں۔ اگر ہم تواتر عملی کی دلیل کو رہنما مان لیتے ہیں، تو اس دلدل سے باہر نکل آتے ہیں، اور کسی حدیث کو منسوخ ماننے کی ضرورت نہیں رہتی ، اور نہ کسی ایسے عمل کو مکروہ کہنا پڑتا ہے جسے دوسرے فقہا سنت کہتے ہوں ، بلکہ تواتر عملی کی بنیاد پر دونوں کے موقف عین سنت قرار پاتے ہیں۔
اس وقت اُمت میں نمازوں کے جو طریقے رائج ہیں، وہ وہی ہیں جو دوسری صدی ہجری میں فقہ کی تدوین کے وقت ریکارڈ کیے گئے۔ ان طریقوں میں کہیں آپس میں مکمل اتفاق ہے تو کہیں اختلاف بھی ہے، لیکن یہ اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں بلکہ تنوع کا اختلاف ہے۔ اگر کہیں تضاد نظر آتا ہے تو وہ فقہا کے نقطۂ نظر کی بات ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقے یا تو خود اختیار فرمائے، یا مختلف طریقوں سے نماز پڑھنے کی گنجایش رکھی اور اس کی اجازت دی۔ وہ مختلف طریقے مختلف علاقوں میں الگ الگ رائج ہوکر فقہا اور ائمہ اربعہ تک ایک زبردست عملی تواتر کے ساتھ پہنچے، اور اس طرح فقہا کے ذریعے ان کی تدوین عمل میں آئی۔
نماز کے طریقے تو اصلاً عملی تواتر کے ذریعے پہنچے، اور اس لیے ان کی حیثیت مسنون طریقوں کی ہے۔ ساتھ ہی ان کے سلسلے میں روایتیں بھی آئیں۔ ان روایتوں کے مختلف درجے ہوسکتے ہیں، لیکن یہ نماز کے طریقوں کی اصل دلیل نہیں ہیں۔ اصل دلیل تو عملی تواتر ہے۔ان روایتوں میں جو صحیح ہیں، وہ سر آنکھوں پر، لیکن نماز کے تمام ریکارڈ شدہ طریقے خواہ ان کے حق میں روایتیں دستیاب ہوں یا نہ ہوں، یا روایتیں تو ہوں لیکن ضعیف ہوں، وہ سب طریقے بہرصورت یکساں طور سے مسنون اور افضل کے حکم میں ہوں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے ان مسنون طریقوں میں سے جس طریقے پر چاہے عمل کرے، خواہ وہ کسی مسلک سے تعلق رکھتا ہو۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی طریقۂ نماز کو تنقید کا نشانہ بنائے۔کیوںکہ یہ سب طریقے عملی تواتر کی قطعی دلیل سے ثابت ہیں۔
گذشتہ صدیوں میں نماز کے طریقوں کو لے کر اُمت میں بہت زیادہ جھگڑے ہوئے، مسجدوں میں مارپیٹ اور خون خرابہ ہوا، مسجدیں تقسیم ہوئیں، اُمت میں فرقہ بندی بڑھی اور فرقہ بندی کے کڑوے پھل پوری اُمت نے چکھے، اور آج تک چکھ رہی ہے! اس وقت بھی دنیا میں مختلف لوگ تصحیح نماز کی تحریک چلارہے ہیں۔ ان کا یہ دعوی ہے کہ اُمت نماز کے جس طریقے پر قائم ہے وہ رسولؐ اللہ کے طریقے کے مطابق نہیں ہے۔ اس طرح کی تحریکوں سے اختلافات میں شدت آرہی ہے اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔ کہیں لوگوں کاخود اپنی نمازوں سے اعتماد اٹھ رہا ہے، تو کہیں یہ خیال پنپ رہا ہے کہ ہمارے باپ دادا غلط طریقے پر نماز پڑھتے تھے، یا ہمارے آس پاس کے لوگوں کی نمازیں درست نہیں ہیں۔ کہیں اپنی نمازوں پر بے اطمینانی بڑھ رہی ہے، تو کہیں احساس برتری پیدا ہورہا ہے کہ صرف ہم اللہ کے رسول کی نماز پر عمل پیرا ہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے، اور اس کی واحد وجہ اس طریقے سے ناواقفیت ہے جس طریقے سے اُمت کو نماز ملی ہے۔ یاد رہے کہ اُمت کو نمازاماموں اور راویوں کے ذریعے نہیں ملی ہے، اس لیے راویوں کی روایتوں کا حوالہ دے کر یا اماموں کے مسلک کا حوالہ دے کر کسی بھی طریقۂ نماز کو غلط قرار دینا صحیح نہیں کہا جاسکتا۔
جس طرح قرآن مجید کی کسی آیت کو قرآن کی آیت ثابت کرنے کے لیے کسی روایت یا کسی خاص امام کی تائید کی ضرورت نہیں ہے، اسی طرح نماز کے کسی بھی عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کسی روایت کی یا کسی خاص امام کی تائید کی ضرورت نہیں ہے۔اُمت کو قرآن مجید جس عظیم تواتر سے ملا ہے، نماز بھی اسی عظیم تواتر سے ملی ہے۔اس لیے یہ ماننا چاہیے کہ اُمت کے تمام گروہ نماز کے جس جس طریقے پر عمل پیرا ہیں، وہ سب طریقے درست ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ایک دین کے طور پر ہمارے لیے پسند کیا، اس کو مکمل کیا، اور اس کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے محفوظ بھی کیا، کہ ہر دور کے انسانوں کے لیے دین حق کا یہ راستہ موجود رہے۔ دین حق محفوظ ہے، یہ ہمارا عقیدہ ہے۔اسی عقیدے کی ایک شق یہ بھی ہے کہ نماز جسے دین کا ستون بتایا گیا ہے، جو اسلام کا اہم رکن ہے، جو عبادت کا بہترین طریقہ ہے، وہ بھی بلاشبہہ محفوظ ہے۔ ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال آنا چاہیے، نہ ہماری کسی گفتگو سے یہ تاثر ملنا چاہیے کہ صحابہ کرامؓ یا تابعین یا ان کے بعد والی نسل میں جو کہ فقہا ومحدثین کا زمانہ تھا اُمت کے کسی قابل لحاظ حصے کو نماز کے ظاہری احکام سے صحیح واقفیت نہیں تھی، یا یہ کہ ان تک نماز صحیح صورت میں نہیں پہنچ سکی تھی۔
واقعہ یہ ہے کہ جس زمانے میں فقہ کی تدوین ہوئی، اور ہر چیز باقاعدہ تحریری ریکارڈ میں لائی گئی، اس زمانے میں پوری اُمت نماز سے اچھی طرح واقف تھی، اور ان کے درمیان نماز اپنی تمام جزئیات کے ساتھ پوری طرح محفوظ تھی۔
قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہے، اور اس پر تدبر اور عمل کی ذمہ داری انسانوں پر عائد کی ہے، جو جس قدر تدبراور عمل کرے گا، اسی قدر قرآن مجید سے فیض یاب اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہوگا۔ اسی طرح نماز کے طریقے کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہے۔اس میں باہم جنگ وجدال لاحاصل ہے۔ انسانوں کی ذمہ داری تو اس طریقے میں کیفیت کا رنگ بھرنا ہے۔ یہی اصل مقابلے کا میدان ہے۔ نماز پڑھتے ہوئے جو خشوع اور انابت میں آگے بڑھے گا وہ اللہ سے زیادہ قریب ہوگا، کہ نماز اللہ سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے، واسجد واقترب۔
عقل ومنطق کا بھی تقاضا ہے، اور سنت کے فہم اور اس سے غیر مشروط محبت کا بھی تقاضا ہے کہ نماز کی ظاہری شکل کو اختلاف کا موضوع نہ بنایا جائے۔ دورِ اوّل سے منقول نماز کے تمام طریقوں کو درست اور مسنون مانا جائے، اور ایک دوسرے کی نماز کو قدر اور احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔
اُمت کی موجودہ صورت حال فوری توجہ کی طالب ہے۔ ضرورت ہے کہ اُمت کے تمام اہل علم ودانش اورسارے ارباب تعلیم و تربیت مل کر ایک زوردار تحریک چلائیں کہ لوگوں کی نمازوں کے اندر خشوع اور انابت کی کیفیت پیدا ہو۔ نماز کی روح تک ان کی رسائی ہو۔ نماز کے زیر سایہ فرد اور معاشرے کی بہترین تعمیر ہو۔ نماز کے ذریعے اُمت میں اتحاد واتفاق کی فضا ہموار ہو۔نماز کی بدولت اللہ سے قرب حاصل ہو اور نماز کی مدد سے اُمت کی عظمت رفتہ اور متاع گم شدہ کی بازیافت ہو۔
درحقیقت اسی راہ پر چل کر ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے، آمین!