مئی ۲۰۲۱

فہرست مضامین

گیارہ مئی۱۹۵۳ء

پروفیسر خورشید احمد، میاں طفیل محمد، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | مئی ۲۰۲۱ | یادداشت / تحریک اسلامی

Responsive image Responsive image

گیارہ مئی ۱۹۵۳ء، جب مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو مارشل لا عدالت نے سزائے موت سنائی، جو بعد میں عوامی اور عالمی دبائو کے سبب عمرقید بامشقت میں تبدیل ہوگئی۔ ۶۸برس بعد اس خبر سے منسلک جذبات، احساسات اور اُمور کو مولانا مودودی کے چند قریبی رفیقوں کی زبانی پیش کیا جارہا ہے۔ (س م خ)]

  • میاں طفیل محمد

ہم لاہور جیل کے ’دیوانی گھروارڈ‘ کے صحن میں مولانا مودودی کی امامت میں نمازِ مغرب ادا کررہے تھے، جب پندرہ بیس افراد اور وارڈر صحن میں داخل ہوئے۔ نماز کے بعد ہم آنےوالوں کی طرف متوجہ ہوئے۔

ایک افسر ، جس کے ہاتھ میں فائل تھی، پوچھا: ’’ملک نصراللہ خان عزیز؟‘‘

ملک نصراللہ صاحب نے کہا: ’’مَیں ہوں‘‘۔

’’آپ کو روزنامہ تسنیم ۵مارچ ۱۹۵۳ء میں مولانا مودودی کا بیان چھاپنے کے جرم میں تین سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے‘‘۔

پھر اسی افسر نے پوچھا : ’’سیّد نقی علی؟‘‘

نقی علی صاحب نے کہا: ’’مَیں ہوں‘‘۔

’’آپ کو مولانا مودودی کا پمفلٹ قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میں نو سال قید سخت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔

پھر وہ افسر مولانا مودودی کی طرف متوجہ ہوا:

آپ کو قادیانی مسئلہ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے… آپ چاہیں تو سات دن کے اندر [پاکستان کی مسلح افواج کے]کمانڈر انچیف [جنرل محمد ایوب خان] سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں‘‘۔

مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا:

’’مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے‘‘۔

جیل کے ا فسروں نے ان تینوں حضرات سے کہا: ’’آپ لوگ جلدی تیار ہوجائیں۔ ملک نصراللہ خان اور سیّد نقی علی سزایافتہ قیدیوں کی بارک میں جائیںگے اور مولانا مودودی پھا نسی گھر میں‘‘۔

مولانامودودی صاحب نے جیل کے افسروں سے دریافت کیا: ’’کیا اپنا بستر اور کتب وغیرہ ساتھ لے لوں؟‘‘

انھوں نے جواب دیا کہ ’’بس ایک قرآنِ مجید چاہیں تو لے لیں اور کچھ نہ لیں۔ بستر، کپڑے آپ کو وہاں مل جائیں گے‘‘۔

چنانچہ مولانا نے چپل کے بجائے اپنا جوتا اور کپڑے کی ٹوپی کے بجائے اپنی قراقلی پہنی اور ہم لوگوں سے گلے مل کر اس طرح سے روانہ ہوگئے کہ گویا کوئی بات ہی نہیں۔ معمولاًایک احاطے سے دوسرے احاطے کی طرف جارہے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد ایک وارڈر آیا اور وہ مولانا کی ٹوپی،قمیص، پاجامہ اور جوتا سب کپڑے واپس دے گیا۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ’’انھیں جیل کے قاعدے کے مطابق کھدر کا کُرتا اور آزاربند کے بغیر کھدر کاپاجامہ اور پھانسی گھر میں فرشی ٹاٹ کا بستر دے دیا گیا ہے۔ وہاں وہ اپنے کپڑے اور آزاربند والا پاجامہ رکھ بھی نہیں سکتے‘‘۔

سزائے موت کے اس انتہائی فیصلے سے پوری جیل پر ایک دہشت اور خاموشی طاری تھی اور اب رات کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ دیوانی گھر وارڈ میں مولانا امین احسن اصلاحی، چودھری محمد اکبر اور مَیں، یعنی تین آدمی ہی رہ گئے تھے۔

مولانا مودودی صاحب کے ان پارچات کا آنا تھا کہ ان کو دیکھتے ہی مولانا امین احسن اصلاحی صاحب پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ ان پارچات کو کبھی آنکھوں سے لگاتے اور کبھی سینے سے اور کبھی سر پر رکھتے۔ زاروقطار روتے ہوئے فرمایا: ’’مودودی کو مَیں بہت بڑا آدمی سمجھتا تھا، لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ خدا کے ہاں اس کا اس قدر بلند مرتبہ ہے‘‘۔

ان کو دیکھ کر چودھری محمد اکبر صاحب بھی دھاڑیں مارمار کر رونے لگے، اور معاً مجھے بھی یہ احساس ہوا کہ پھانسی کے حکم کے کسی عدالت کے رُوبرو قابلِ اپیل نہ ہونے اور مولانا مودودی کی طرف سے رحم کی اپیل کی پیش کش کو صاف مسترد کردینے کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟

یہ احساس ہوتے ہی مَیں بیرک سے نکل کر صحن کے ایک کونے میں چلا گیا اور پھر ہچکی بندھ گئی۔ رات کا بیش تر حصہ اسی حالت میں کٹ گیا۔

اگلے روز جیل کے وارڈروں کی زبانی مولانا مودودی کی رات بھر کی کیفیت یہ معلوم ہوئی کہ وہ پھانسی گھرگئے۔ پھا نسی کے مجرموں والے کپڑے انھوں نے زیب تن کیے۔ کوٹھڑی کے جنگلے سے باہر رکھی ہوئی پانی کی گھڑیا سے وضو کیا، عشاء کی نماز پڑھی اور زمین پر بچھے ہوئے دوفٹ چوڑے اور ساڑھے پانچ فٹ لمبے ٹاٹ کے بستر پر پڑ کر ایسے سوئے کہ رات بھر ان کے خراٹے سن سن کر پہرے دار حیرت میں ڈوبے رہے کہ ’’یااللہ، عجیب شخص ہے جو پھانسی کا حکم پاکر ایسا مدہوش ہوکے سویا ہے کہ گویا اس لمحے اس کے سارے فکر اور تردّد دُور ہوگئے ہیں‘‘۔

  • مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی

[سزائے موت سنائے جانے سے چار روز پہلے فوجی عدالت میں ۷مئی ۱۹۵۳ء کو اپنے بیان کے ابتدائی حصے میں مولانا مودودیؒ نے بتایا]:

۲۷اور ۲۸مارچ [۱۹۵۳ء] کی شب کو میرے مکان پر اچانک چھاپہ مارا گیا اور نہ صرف مجھے گرفتار کیا گیا بلکہ پولیس نے میرے مکان کی اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر کی پوری تلاشی لینے کے بعد میرے ذاتی حسابات اور جماعت کے حسابات کےتمام رجسٹروں پر، اور میرےاور جماعت کے دوسرے کاغذات پر قبضہ کرلیا۔ نیز جماعت کے بیت المال کی پوری رقم بھی اپنی تحویل میںلے لی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ شہرلاہور میں جماعت اسلامی کے بارہ ذمہ دار کارکنوںکو بھی اسی رات گرفتار کیا گیا۔

اس کے بعد ایک مہینہ چھے دن تک جماعت کے حسابات اور دوسرے ریکارڈ کو خوب اچھی طرح خوردبین لگالگا کر دیکھا گیا۔ مجھ پر اور جماعت کے دوسرے کارکنوں پر قلعہ لاہور میں لمبا چوڑا Interrogation ہوتا رہا۔ جس کے سوالات کا انداز صاف بتارہا تھا کہ تحقیقات اس بات کی کی جارہی ہیں کہ جماعت کے فنڈز کہاں سے فراہم ہوتے ہیں، اور بیرونی حکومتوں سے تو جماعت کا تعلق نہیں ہے؟ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد اب اس عدالت کے سامنے دومقدمے میرے خلاف پیش کیے گئے ہیں،[۱] جن میں سے ایک [پمفلٹ] قادیانی مسئلہ کی اشاعت کے متعلق اور دوسرا میرے ان بیانات کے متعلق ہے، جو آخر فروری اور ۷مارچ ۵۳ء کے درمیان مَیں نے پریس کو دیئے۔

اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دراصل مقصد تو مجھ پر اور جماعت اسلامی پر کچھ دوسرے ہی سنگین الزامات لگانا تھا، مگر جب کوئی چیز ایسی ہاتھ نہ آئی ،جن پر گرفت کی جاسکتی تو اب مجبوراً یہ دو مقدمے بنا کر پیش کیےگئے ہیں۔ ورنہ ظاہرہے کہ اگر میرے ’گناہ‘ صرف وہی دو تھے جو پیش کیے جارہے ہیں، تو ان میں سے کسی کے لیے بھی جماعت کے حسابات اوردوسرے ریکارڈ پر اور جماعت کے بیت المال پر قبضہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں تھی۔

جماعت اسلامی نے ابتدا سے آج تک اپنے سامنے ایک ہی نصب العین رکھا ہے، اور وہ یہ ہے کہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی پہلوئوں سمیت اسلام کے اصولوں پر قائم کیا جائے۔ اس نصب العین کے لیے اپنی جدوجہد میں آج تک جماعت اسلامی نے کبھی کوئی غیر آئینی اور فساد انگیز طریق کار اختیار نہیں کیا.....

  • نعیم صدیقی

رات ہی رات میں تقریباً ساری جیل میں یہ خبر پھیل گئی تھی، مگر ہم اس خبر سے بالکل بے خبررہے،یا بے خبر رکھے گئے۔

میں سوچ رہا تھا کہ ، آہ! کیا آخری گھڑی آگئی؟ کیا دین کے دیے اب یہاں گُل کر دیے جائیں گے؟ کیا واقعی ہمارے ملک میں دشمنانِ دین کی حقیر اقلیت کے نمایندے اتنی قوت رکھتے ہیں کہ مولانا مودودی کےگلے میں پھانسی کا پھندہ ڈال دیں؟

مگر معلوم نہیں کیسے،اگلے ہی لمحے دل میں نئے جذبے نے کروٹ لی، خیال آیا کہ یہ لوگ مولانا مودودی کو پھانسی دے بھی ڈالیں، تو کیا یہ مودودی کے پیغام اور فکر کو بھی پھانسی دے سکتے ہیں جو گھر گھر پہنچ چکا ہے، اور جس نے نوجوان نسل کو مغرب کی مرعوبیت سے نکال کر دین حنیف کے حلقۂ اثر میں لے لیا ہے۔ اب مودودی کا پیغام موجودہ دور کی تاریخ کی رگوں کے اندر اُتر چکا ہے۔ اس کے خیالات اس کے مخالفین تک کے ذہنوں میں بولتے ہیں۔ اس کی اصطلاحات، اس سے حسد کی آگ میں جلنے والوں تک کا جزوِ دماغ ہوچکی ہیں۔ اس کی آواز کی گونج اب دُور دُور تک سنائی دیتی ہے۔ جس تحریک کو اس نے اپنے پسینے سے پرورش دی ہے، اگر اس کی جڑوں کو اس کے خون کے قطروں سے سیراب کردو گے، تو وہ آناًفاناً ایک تناور درخت بن جائےگی۔ اس کی موت، اس کے پیغام کو زندہ تر کردےگی۔

یہ سوچتے سوچتے ہم ’دیوانی گھر‘ کے پاس آپہنچے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ مولانا اصلاحی، چودھری محمداکبر، میاں طفیل محمد سبھی دروازے پرآگئے۔ تاثرات کا دوطرفہ یہ عالم تھا کہ نہ ہم بات میں پہل کرنا چاہتے تھے اور نہ وہ حضرات اس ذکر کو چھیڑناچاہتے تھے۔ ہماری نگاہوں ہی نگاہوں نے استفسار کیا اور ان کی نگاہوں ہی نگاہوں نے خبر کی تصدیق کردی۔

  • صادق حسین

[۱۲مئی ۵۳ء کی صبح، امیر جماعت کراچی کی حیثیت سے بیان دیا]:

’’اگر اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ ’جرم‘ ہے ، تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ’اسی جرم‘ کے ارتکاب کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ ہم دو ٹوک الفاظ میں واضح کردینا چاہتے ہیں کہ نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد کو پُرمن اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے ان شاء اللہ آخری سانس تک جاری رکھا جائےگا، چاہے اس راہ میں کسی قسم کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے‘‘۔

  • سیّد عمر فاروق مودودی

۱۲مئی کی صبح، اباجان نے جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:

بیٹا، ذرا نہ گھبرانا۔ اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کرلیا ہے، تو بندہ بخوشی اپنے ربّ سے جاملے گا۔ اور اگر اس کا ابھی حکم نہیں، تو پھر چاہے یہ اُلٹے لٹک جائیں، مجھ کو نہیں لٹکا سکتے۔

محترم شیخ سلطان احمد صاحب کے ہمراہ یہ ملاقات ہوئی تھی، ان سے مخاطب ہوکر اباجان نے کہا:’’بھائی، میرا مسلک آپ کو معلوم ہے۔ میرے نزدیک ان لوگوں سے، جو میرا اصل جرم خوب جانتے ہیں، معافی کا طلب گار بننے سےیہ زیادہ قابلِ برداشت ہے کہ آدمی پھانسی پر لٹک جائے‘‘۔

مزید فرمایا: ’’زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچاسکتی۔ اور اگروہاں فیصلہ نہیں ہوا تو دُنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔

  • پروفیسر خورشید احمد

میں اس زمانے میں بطور طالب علم ایم اے کی تیاری کے لیے، اسلامی جمعیت طلبہ سے، جس کی کراچی کی شاخ اور حلقہ سندھ کا مَیں ناظم تھا، ۲۴دن کی چھٹی لے کر پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھنے میں لگا ہوا تھا کہ اسی دوران ۱۲مئی کی صبح روزنامہ Dawn گھر آیا، تو اس کے صفحۂ اوّل پر نمایاں سرخی تھی: Maududi to Die

میرے لیے سزا کی اطلاع کا ذریعہ اخبار کی یہی خبر تھی۔ جس وقت میں نے یہ خبر پڑھی تو پہلا تاثر یہ تھا کہ ’’یہ خبر غلط ہے، ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔ پھر خیال آیا: ’’یہ تم کیا کہتے ہو، جفاکار اقتدار نے منصوبے تو ہمیشہ ایسے ہی بنائے ہیں‘‘۔ پھر دل بیٹھنے لگا تو آنکھوں کی برکھا نے دل کا ساتھ دیا۔

کیفیت عجیب تھی، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟___ اور عقل کہتی تھی کہ ’’ہاں، کیوں نہیں ہوسکتا۔ بارہا ایسا ہوا ہے اور اگر آج بھی یہی ہونے جارہا ہے، تو کون سی عجیب بات ہے‘‘۔ لیکن دل کہتا تھا کہ ’’نہیں، ایسا ہونہیں سکے گا، وہ ملک جو اسلام کے نام پر بناہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ اس میں اسلام کے ایک خادم کو پھانسی دے دی جائے؟‘‘

انھی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا کہ والدہ محترمہ نے پکارا۔ میری آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر وہ بہت زیادہ پریشان ہوگئیں۔ پوچھا: ’’کیا ہوا ہے؟‘‘ مجھے زبان سے الفاظ ادا کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو میں نے لرزتے ہاتھ سے اخبار ان کے آگے کر دیا،اور انھوں نے پڑھ لیا۔

کتابیں بند کرکے میں نے کپڑے بدلے اور اجازت لے کر باہر نکلنے لگا تو والدہ سخت پریشانی کے عالم میں مجھ سے باربار پوچھ رہی تھیں: ’’کیا کرنا ہے؟‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیںتھا، مگر تحت الشعور میں جگر مراد آبادی کے یہ اشعار تھے:

یہ سنتا ہوں کہ پیاسی ہے بہت خاکِ وطن ساقی

خدا حافظ چلا میں باندھ کر دارورسن ساقی

سلامت تُو ،ترا میخانہ ، تیری انجمن ساقی

مجھے کرنی ہے اب کچھ خدمت دار و رَسن ساقی

اسلامی جمعیت طلبہ کے دفتر ۲۳، اسٹریچن روڈ پر خرم، راجا، منظور، عمر، انور، مرغوب، محمد میاں دوسرے احباب سے ملاقات ہوئی۔ سب ایک جیسے ذہنی اور جذباتی سفر میں وہاں جمع ہوگئے تھے۔ چندمنٹ کی گفتگو کے بعد منصوبہ یہ بنا کہ عوام سے ہڑتال کی درخواست کی جائے اور ہم سب اس کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ لوگ بھی عجیب عالم میں تھے۔ یہ جذبات و احساسات میں یگانگت کا عالم تھا۔ ہمیں ہڑتال کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کرنا پڑی۔ ہم جہاں جاتے، لوگوں کو پہلے ہی سےآمادہ پاتے۔ پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ یہ احتجاج کا پہلا بھرپور اظہار تھا۔ داعی تحریک اسلامی کے لیے اس سزا کے اعلان نے فکروعمل کی یکسوئی کا جوسوال پیش کیا تھا، ہم سب یکسوئی کے ساتھ اس کا جواب دینے کے لیے ہم قدم اور یک زبان تھے۔

ہم وطنوں کے جس سوال کا ہم سامنا کررہے تھے، وہ یہ تھا کہ ’’مولانا مودودی کے لیے یہ سزا کیوں؟ اور اگر اسلامی نظام کا مطالبہ ہی اس سزا کی بنیاد ہے تو پھر مولانا یہ سزا پانے والے پہلے فرد تو ہوسکتے ہیں آخری کیوں کر ہوں گے؟‘‘

  • مولانا عبدالرحیم

میں ڈھاکا میں دفتر جماعت سے دو تین میل دُور مقیم تھا، اور جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کا قیم تھا، جب کہ امیرچودھری علی احمد خان صاحب تھے، جو مارشل لا کےتحت مولانا محترم کی گرفتاری کی خبرسننے کےبعد مغربی پاکستان تشریف لےگئے تھے اور ابھی تک واپس نہیں آسکے تھے کہ ۱۲مئی کی صبح کو ہمیں یہ خبر ملی۔یہ خبر ہم میں سب سے پہلے مولانا عبدالرحمٰن صاحب نے ریڈیو پر سنی اور فوراً دفتر میں پہنچے۔ وہاں منیرالزمان صاحب یہ اطلاع ملتے ہی میری طرف روانہ ہوگئے۔

 منیر الزماں صاحب کے اس وقت آنے پر مجھے کچھ اچنبھا سا محسوس ہوا۔ باہر نکلا تو انھوں نے کہا: ’’ریڈیو سے اعلان ہوا ہے کہ مولانا مودودی کو موت کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے اور یہ فیصلہ فوجی عدالت نے…‘‘۔ منیرالزمان صاحب کچھ اور بھی کہہ رہے تھے، لیکن میرے لیے یہ خبر ’’مولانا مودودی کو موت کی سزا‘‘ پر آکر ختم ہوچکی تھی کہ یہ ایک مکمل خبر تھی۔ آگے میں کچھ نہ سننا چاہتا تھا اور نہ کچھ سنائی دیا۔ منیرالزمان صاحب میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں فوراً سنبھل گیا۔

اب ہم دفتر جماعت اسلامی کی طرف آرہے تھے۔ اس لمحے ایک دم بہت سے سوالات ذہن میں آگئے: کیا تحریک اسلامی اسی لیے اُٹھی تھی کہ یوں ختم کردی جائے؟ کیاداعی تحریک کی زندگی کا خاتمہ واقعی اس قدر قریب آگیا ہے؟ کیا یہ فیصلہ نافذ ہوکر رہے گا؟ یہ سوالات یکے بعد دیگرے تیزی سے یلغار کر رہے تھے۔ لیکن میرے اندر کی معلوم نہیں کون سی دُنیا سے، ہربار اور ہرسوال کا جواب ’نہیں‘ کی صورت میں پلٹ رہا تھا۔ دل و دماغ کا یہی جواب تھا کہ ’’ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔

اس روز مولانا ظفر احمدعثمانی صاحب اورمولانا مفتی دین محمد صاحب ڈھاکا میں موجود تھے۔ ہم ان کے پاس گئے۔ انھیں یہ اطلاع مل چکی تھی اور ان کے احساسات کا عالم بھی وہی تھا جو ہمارا تھا۔ مولانا ظفراحمد عثمانی صاحب کے الفاظ تھے: ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم جیسے لوگ دُنیا میں رہیں اور سیّد کا گلا کاٹ دیا جائے۔ اگر ایسا ہونے جارہا ہے تو ہم اپنی گردنیں پیش کردیں گے‘‘۔

عشاء کے بعد مولانا مفتی دین محمد صاحب کی صدارت میں ڈھاکا شہر کی سب سے بڑی مسجد میں احتجاجی جلسۂ عام ہوا۔اس جلسے میں مولانا ظفراحمد عثمانی صاحب اور میری تقریر کے بعد سزائے موت کی تنسیخ کے لیے قرارداد منظور ہوئی اور اعلان ہوا کہ ’’۱۴مئی کو پلٹن میدان میں جلسہ ہوگا‘‘۔

چاٹگام، کھلنا، کشتیا، باری سال اور دوسرے مقامات پر بھی جماعت کے کارکنان احتجاج میں مصروف کار تھے۔ دن تاریکی میں داخل ہوچکا تھا مگر نگاہیں بدستور روشنی کی راہ ڈھونڈ رہی تھیں۔

  • سیّد صدیق الحسن گیلانی

مولانامودودی صاحب کو پھانسی کی سزا کی خبر ہمیں ملتان جیل میں ملی، اور چندسیکنڈ کے اندر پوری جیل میں پھیل گئی۔ خبر کانوں میں پہنچنےکے بعد پہلے دل پر اثرانداز ہوئی اور پھر دماغ پر۔  دل نے کہا: ’’اب جینابے کار ہے‘‘۔ دماغ نے سوچنے کی کوشش کی: ’’اب کیا ہونا چاہیے؟‘‘

پھر ایسامعلوم ہواجیسے جیل کی دیواریں بلندہونا شروع ہوگئی ہیں، اور میں بے بسی کے عالم میں ڈوب رہاہوں، اور یہ تاثر اتنا شدید تھا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ اسی دوران گوجرانوالہ کے ایک قیدی محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب آئے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، ہمدردی بھری نگاہوں سے دیکھا، اور مجھے کچھ کہے بغیر وہیں کھڑے قیدیوں کی طرف متوجہ ہوکر کمال درجہ یقین سے مختصراً خطاب فرمایا:

جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے درجات کو بلند کرتاہے تو اس پر بظاہر آفتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس شخص کو بخیروخوبی آفتوں سے نکال لیتاہے اور ظالموں کا ظلم اس شخص کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ہمیں خضوع و خشوع سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا مانگنا چاہیے۔ سب دیکھیں گے کہ ظالموں کی رُسوائی کاانتظام ہوگا اورمولانا مودودی دین کی خدمت کے لیے بچ جائیں گے۔

ہم دُعا میں مشغول ہوگئے۔ ایسی کیفیت میں دُعا کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں حاضری کا احساس ہوا، اور پھر جیسے زخموں پر کوئی مرہم رکھ کر کہہ رہا ہو کہ ’’زندگی اور موت تواللہ تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھی ہے، اگر یہ اختیار انسانوں کے پاس ہوتا تو دنیا میں انسان ہوتے ہی کہاں؟‘‘

  • پروفیسر غلام اعظم

کشتیا ٹائون میں ’پاکستان تمدن مجلس‘ کی سالانہ کانفرنس ہورہی تھی کہ یہ خبر وہاں پہنچی: ’’فوجی عدالت نے مولانا مودودی کو سزائے موت سنا دی ہے‘‘۔  میں اس سزا کے پس منظر اور سزا پانے والے کی شخصیت سے بھی لاعلم تھا اور اس سے بھی بے خبر تھا کہ جماعت اسلامی نام کی کوئی تحریک موجود ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کام کررہی ہے۔ صرف مکتبہ جماعت اسلامی کا نام سن رکھا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ یہ دین کی خدمت کرنے والا کوئی اشاعتی ادارہ ہے۔

جس وقت مولانا مودودی صاحب کے لیے سزائے موت کے فیصلے کی خبر ’پاکستان تمدن مجلس‘ کے اجلاس میں پہنچی، جس کا مَیں کا رکن تھا، تو مجلس کے بعض ارکان: جناب ابوالقاسم، مولانا سخاوت الانبیاء اور مولانا عبدالغفور صاحبان نے اپنی تقاریر میں اسلامی دستور کے لیے جماعت اسلامی کی مہم اور خدمات کا ذکر کیا۔ اس طرح مجھے جماعت اسلامی پاکستان، مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے مشن کے بارے میں چند سرسری سی معلومات حاصل ہوئیں۔

ان دنوں میں رنگ پور کالج میں پڑھا رہا تھا۔ چونکہ شروع سے دینی ذوق رکھتا تھا، اس لیے تبلیغی جماعت اور تمدن مجلس دونوں سے منسلک تھا۔ تبلیغی جماعت میں سیاسیات، معاشیات اور زندگی کے دوسرے شعبوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا اور تمدن مجلس میں باقی سب موضوعات تھے،  مگر نماز، روزے کی کمی تھی۔ میں ان دونوں سے وابستہ ہوکر اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کررہا تھا۔ کسی بڑے تعارف کے بغیر ایک عام مصنف کے طور پرمولانا مودودی کے خطبے ’دینِ حق‘ کا بنگلہ ترجمہ پڑھ چکا تھا۔ سزائے موت کی خبر سننے کے اگلے چند ماہ کے دوران مولانا مودودی صاحب کی کچھ مزید کتابیں پڑھیں۔ چونکہ کالج کی میلادکمیٹی کا صدرتھا، اس لیے مَیں نے جلسوں میں مٹھائی کے بجائے اسلامی لٹریچر کی تقسیم کے سلسلے کا آغاز کیا۔

رنگ پور ہی میں ۱۹۵۴ء میں مولانا عبدالخالق صاحب سے جمعہ کے روز ایک مسجد میں ملاقات ہوئی۔ اعلان ہوا کہ جماعت اسلامی کی طرف سے مولانا عبدالخالق صاحب اورتبلیغی جماعت کی طرف سے غلام اعظم خطاب کریں گے۔ مولانا عبدالخالق صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہمیں اسلام کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اسلام کو جس کش مکش سے گزرنا پڑرہاہے، اس میں ہمیں اپنے بنیادی فرض کو سمجھنا چاہیے‘‘۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’پہلے لوگوں کو صحیح کلمہ توپڑھنا بتایئے ،پھرانھیں اسلامی کتاب پڑھایئے‘‘۔

لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوگئی۔مولانا عبدالخالق صاحب نے رخصت ہونے سے پہلے مجھے دو سوالات پر غور کرنے کی دعوت دی:

پہلا سوال یہ تھا کہ ’’آپ بھی کلمۂ طیبہ اور کلمۂ شہادت کی تبلیغ کرتے ہیں ، ہم بھی کرتے ہیں۔ لیکن کوئی مصلح تودرکنار کوئی نبی بھی ایسا نہیں تھا کہ اس نے دین کی دعوت دی ہو اور وقت کےاقتدار نے اسے برداشت کرلیا ہو۔ مگر آپ جو دعوت دیتے ہیں کوئی اقتدار اور کوئی صاحب ِ اقتدار اس سے کبھی برافروختہ نہیں ہوا؟ ذرا سوچیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘

ان کا دوسرا سوال یہ تھا کہ ’’آج بھی جب دین کی مؤثر دعوت دی جاتی ہے توہرقوت اسے کچلنے کے لیے آگے بڑھنے لگتی ہے۔ آپ تمام حقائق کا مطالعہ کرکے بتائیں کہ مولانا مودودی کے لیے پہلے سزائے موت اور پھر موت کی سزا عمرقید بامشقت میں بدلنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟‘‘

مولانا عبدالخالق صاحب تو چلتے ہوئے سوال کرکے چلے گئے، لیکن میں بے چینی کے سمندر میں جاگرا۔ جوچیز مجھے بار بار بے چین کر رہی تھی، وہ یہ کہ اگر میں اب تک حق کی جدوجہد کے لیے وقف رہا ہوں توایسا کیوں ہے کہ سارے سفر میں ایک کانٹا بھی میرے پائوں میں نہیں چبھا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ باطل نے مجھے ایک بے ضرر انسان سمجھ کر میرے کام سے یہ سمجھوتہ کرلیا ہے کہ ’’مجھے نہ چھیڑو، مجھے میری راہ پر چلنے دو، میں تم سے کوئی واسطہ نہیں رکھوں گا؟‘‘ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ جسے باطل بے ضرر سمجھ لے وہ حق کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اگر میری موجودہ مصروفیات اور جدوجہد ہی حق کو سربلندکرنے کا ذریعہ ہوسکتی ہے تو باطل نے مجھے نظرانداز کیسے کر دیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ان سوالات اور پھر داخلی دُنیا میں جوابات نے میری نیند اچاٹ کر دی۔ بھوک پیاس کسی چیز کا خیال نہ رہا۔ پندرہ دن اسی حالت میں گزر گئے۔ میری بے اطمینانی اور پریشانی کی حالت دیکھ کر جب تین چار احباب نے مجھ سے گفتگو کی اور میں نے اپنے دل کا درد  ان کے سامنے رکھا، تو وہ بھی اسی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔

اسی دوران ایک روز مولانا عبدالخالق صاحب کا مختصر سا خط آیا کہ ’’جماعت اسلامی کی دوروزہ کانفرنس گائے باندھا کے مقام پر منعقد ہورہی ہے، آپ اس میں شرکت کریں‘‘۔میں کانفرنس میں شریک ہوا۔کانفرنس ختم ہوئی تو اسی کمرے میں مختلف حضرات سے گفتگو شروع ہوئی۔ رات کے تین بج گئے تو باقی گفتگو کو نمازِفجر کےبعد تک ملتوی کرکے سونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ دوسرے حضرات سوگئے، لیکن میری نیند ایک بار پھر اُچاٹ ہوچکی تھی۔

اسی کمرے میں جماعت اسلامی کے ایک معمر رکن شیخ امین الدین صاحب (بہار) بھی موجود تھے۔ وہ میری حالت کو دیکھ رہے تھے۔جب کروٹیں بدل بدل کر کسی طرح نیند نہ آئی تو مَیں اُٹھا اور تہجد پڑھنے لگا۔ دُعا کے وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں باربار کہہ رہا تھا:

’’یااللہ! میری رہنمائی کر۔ یااللہ! میری رہنمائی کر‘‘۔

نمازِ فجر کے بعد جب ہم سب گفتگو کے لیے اکٹھے ہوئے تو شیخ امین الدین صاحب نے  کوئی بات کیے بغیر میرے سامنے متفق کا فارم رکھ دیا۔ میں نے پڑھا اور بلاتامل فارم پُرکرکے دستخط کردیئے۔ یہ ۲۲؍اپریل ۱۹۵۴ء کا دن تھا۔ اس کے بعد سب کچھ بہت تیزی سے ہوتا چلا گیا۔ میں نے وہیں سے ’پاکستان تمدن مجلس‘ کو استعفیٰ بھیج دیا۔ پھر جماعت کے ایک پندرہ روز تربیتی پروگرام میں شرکت کی۔ متفق بننے کے ڈیڑھ ماہ کے دوران میں رکنیت کی درخواست تحریر کی۔

۱۹۵۴ء ہی میں میجر جنرل سکندر مرزا، مشرقی پاکستان کے گورنر [۲۹مئی - ۲۳؍اکتوبر] بن کر آئے۔ ان کی آمدسے پہلے تک وہاں جماعت اسلامی کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہواتھا۔ مگر سکندرمرزا صاحب نے آتے ہی یہ کام شروع کر دیا اور نچلی سطح تک مختلف کمیٹیاں بن گئیں۔ جماعت کے خلاف شکنجہ کسنےکے جس کام کا آغاز مرزا صاحب نے شروع کیا تھا، ان کی گورنری ختم ہونے کے بعد بھی وہ کام ایک ’مقدس ذمہ داری‘ کے طور پر خفیہ پولیس اور انتظامیہ نے جاری رکھا۔

مجھے کالج کے پرنسپل اور سینیر اساتذہ کی کمیٹی نے طلب کرکے کہا کہ ’’کالج چھوڑدو یا پھر جماعت کا کام چھوڑدو‘‘۔میرا جواب بہت واضح نفی میں تھا۔ فروری ۱۹۵۵ء میں مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری پر کالج میں ہنگامہ ہوگیا اورپھر ہڑتال۔ ۲۱طلبہ گرفتار کرلیے گئے۔ مجھے کالج سے الگ کر دیا گیا۔ ہنگامہ اور بڑھا تو کالج بند کر دیا گیا۔

جیل کے یہ دوماہ میرے لیے تربیت کا زمانہ ثابت ہوئے۔ اُدھر مولانا مودودی مغربی پاکستان کی کسی جیل میں عمر قید کاٹ رہے تھے، اِدھر مَیں مشرقی پاکستان کی ایک جیل میں اس مختصر مدت کی قید کا سامنا کر رہا تھا۔ ان لمحات نے مجھے مولانا مودودی کے بہت قریب کردیا تھا۔ اسی احساس کے تحت میں نے ان دنوں امیرجماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو خط میں لکھا: ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیل میں دیوارکے اِس طرف مَیں ہوں اور دوسری طرف مولانا مودودی ہیں‘‘۔

مَیں ابھی جیل ہی میں تھا کہ ایک روز سیّد اسعدگیلانی صاحب ملنے آئے اوربتایا: ’’آپ کو جماعت اسلامی کا رکن بنا لیا گیا ہے‘‘۔ اپریل ۱۹۵۵ء کے دوران جب جیل سے رہا ہوا، تو مجھے جماعت اسلامی راج شاہی ڈویژن کا قیم مقرر کردیا گیا۔ جون ۱۹۵۵ء میں، مَیں نے پہلی مرتبہ  مولانا مودودی کو دیکھا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ اتنا سادہ سا آدمی، اندر سے اتنا زبردست انسان بھی ہوسکتا ہے۔ یہ سادہ سا انسان وہی تو تھا، جس نے موت کے چہرے پر پوری بے خوفی کے ساتھ نگاہ ڈالی اور اس کی یہی بےخوفی ہم سب کا سرمایہ، سرمایۂ افتخار بن گئی۔

  • سیّد اسعد گیلانی

یہ ۱۵مئی ۱۹۵۳ء کی رات تھی۔ وزیراعظم پاکستان کا جہاز رات کو آٹھ بجے آنےوالا تھا، لیکن معلوم ہوا کہ وہ تاخیر سے آئے گا، یعنی رات بارہ بجے۔ کراچی کےعوام اپنی وارفتگی کے اظہار کے لیے ایئرپورٹ پر جمع تھے۔ ایک مطمئن اضطراب فضا میں لہریں پیدا کر رہا تھااور ایک بے چین طوفان سینوں میں مچل رہا تھا۔

اسٹارگیٹ سے ایئرپورٹ بلڈنگ تک سڑک کےدو طرفہ، تار کے ایک سوبائیس کھمبے تھے، جن میں ۶۶ فلڈ لائٹ پوسٹ تھے۔ ہرکھمبے پر بجلی کی لمبی لمبی فلورسنٹ ٹیوب لائٹ لگی ہوئی تھیں۔ انھی کھمبوں کے نیچے ۶۶طوفان پوشیدہ تھے۔ کسی کو خبر بھی نہ تھی کہ تھوڑی دیرمیں اس سڑک پر احتجاج کا ایک طوفان ٹھاٹھیں مارنے والا ہے: سنجیدہ، متین اور یادگار طوفان، زندہ، پُرجوش اور باعزم طوفان۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ کھمبوں کے ان روشن سایوں میں متفرق مقامات پر جومعزز شہری بکھرے بکھرے سے بیٹھے مطالعہ یا گفتگو کر رہے ہیں، یہ کتنے بڑے انقلابی، سرفروش اور مجاہد ہیں؟

آئینی اور جمہوری جدوجہد کے اس احتجاج کا بھی ایک ناظم تھا، اور وہ اسٹارگیٹ اور ایئرپورٹ بلڈنگ کے درمیان دو چکّرلگا چکا تھا اور اب صرف وزیراعظم کا انتظار تھا۔ ایئرپورٹ کے احاطے میں پولیس گردش کر رہی تھی۔ گیلری میں آدمیوں کا اضافہ ہورہا تھا۔ لکڑی کے جنگلے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی قطار لگ گئی تھی اور اب ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔

ایئرپورٹ کے اندرونی احاطے میں تمام کارکنوں کو، جو بیس گروپوں پر مشتمل تھے، ناظم نے کہہ دیا کہ ’’آپ اپنے اپنے بینرز کھول سکتے ہیں‘‘۔اور پھر اچانک یہاں سے وہاں تک سفید بینر، سرخ حروف کے ساتھ ہوا میں لہرانے لگے:

’’مولانا مودودی کو رہا کرو‘‘۔

’’مولانا مودودی کو سزا ،جمہوریت کا خون ہے‘‘۔

تاہم، ابھی یہ نعرے سینوں میں گنگ تھے۔ ایئرپورٹ گیلری میں حاضرین نے ہڑبونگ کے بجائے اپنے آپ کو ایک غیرمحسوس نظم کےتحت محسوس کیا: ایک سنجیدہ احساس ماحول پر چھایا ہوا تھا۔گیلری کے ساتھ مختلف ٹریڈ یونینوں اور انجمنوں کے جھنڈے عوامی احتجاج کی تائید کررہے تھے اور لوگ اس گوشے کی طرف متوجہ تھے، جس طرف کھلی جگہ کو میزوں، کرسیوں سے آراستہ کیا گیا تھا اور جہاں استقبالیہ کمیٹی کے صدر،وزیراعظم کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کرنے والے تھے۔

اور پھر مشرق سے ایک گونج سنائی دی ۔ سب نگاہیں اس طرف متوجہ تھیں۔ وہ آیا،وہ اُترا اور وہ شدید شور کے ساتھ رن وے کا چکر لگاکر دھاڑتا ہوا، گیلری کے عین سامنے نیم سرکاری استقبالیہ ہجوم کے قریب آکھڑا ہوا۔تو گویا گیلری میں ایک آگ سی لگ گئی۔ یہ آگ ان جذبات کے خرمن میں بھڑک اُٹھی تھی، جو دھیمی آنچ سے سلگ رہے تھے۔ جنھوں نے مولانا مودودی کی سزائے موت کی خبر سن رکھی تھی اور جسے اب چودہ سالہ قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

___  کیا ان کا ’جرم‘ مسلمانوں کے ملک میں اسلامی دستور کا مطالبہ کرنا تھا۔

___  کیا ان کا جرم ’ڈائرکٹ ایکشن‘ کے ہنگاموں سے جماعت اسلامی کو علیحدہ رکھنا تھا؟

ان ’جرائم‘ کے سوا تو ان کا جرم آج تک سننے میں نہ آیا تھا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مقتدر قیادت کے نزدیک ان کا کون سا جرم زیادہ سنگین تھا۔ بہرحال، اس طیارے کی آمد پر ان جذبات میں آگ لگ گئی، جو پہلے سے محض سلگ رہے تھے۔

اس زخم سے کون نہیں کراہ رہا تھا؟ کیا پورے ملک میں صف ماتم و احتجاج نہیں بچھ گئی تھی؟  کیا یوں محسوس نہیں ہورہا تھا کہ ملت اسلامیہ کے قلب پر ایک زبردست چوٹ لگائی گئی ہے؟ کتنے لوگ تھے جو اس الم ناک خبرسننے کے بعد روتےرہےتھے اور کتنے تھے جنھوں نے اپنے جذبات کے سامنے ضبط کے ہمالے کھڑے کیے رکھے تھے۔

لیکن جب وہ طیارہ آیا جس میں وزیراعظم صاحب آئے تھے، تو پھر مظلوموں کے منہ سے وہ چیز بلندہوئی جو ڈائنامیٹ دھماکے سے زیادہ تیز اور شدید تھی۔ ایک رو آئی اور ضبط کے سارے پیمانے بہہ گئے۔ جہاز کے دروازے کھلنے ہی والے تھے۔ استقبالیہ کمیٹی کے ارکان اپنی ٹائیوں کو درست کر رہے تھے۔ بینڈ سلامی دینےکے لیے ہوشیار باش تھا۔ استقبالیہ کمیٹی کے صدرصاحب جیب میں آخری بار سپاس نامہ ٹٹول رہے تھے۔ طیارے کے دروازے ابھی کھلے نہ تھے کہ اچانک ہجوم کے اس حصے میں سے، جو اس کونے میں سمٹ آیا تھا، ایک آواز بلند ہوئی:

’’مولانا مودودی کورہا کرو‘‘۔

یہ ایک پُردرد صدا تھی اور ضبط کابند بھک سے اُڑگیا تھا۔ یہ نعرہ موسلادھار بارش کا پیش خیمہ اور طوفان کی آمد کا پتا تھا۔ گیلری سے نعرے بلند ہوئے:

’’جمہوریت کا خون ___  بند کرو‘‘

 ’’اس ملک کو ___ تباہ نہ کرو‘‘

’’مولانا مودودی کو ___ رہا کرو‘‘۔

اب ساری فضا ان نعروں کی دھمک سے لرز رہی تھی۔ دروازے کھلے اوروزیراعظم محمدعلی بوگرہ صاحب جہاز سے اُتر کر لائوڈاسپیکر کے قریب پہنچے۔ دوسری طرف نعروں کی یلغار مسلسل بڑھ رہی تھی۔ گیلری کے دوسرے سرے تک طلبہ چارچار کی قطار میں، کچھ کچھ فاصلے پر ہاتھوں میں بینرز لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک طالب علم قیادت کر رہا تھا:

یہ نعرہ تھا اس متحرک طوفان کے لبوں پر۔ ایک شان دار نظم و ضبط اور انتہائی وارفتگی کے ساتھ یہ دستہ اس گوشے کی طرف بڑھ رہا تھا، جہاں وزیراعظم کے استقبال کا سامان تھا۔ یہ دستہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا گیلری کے اس کٹہرے سے جاملا، جہاں جناب وزیراعظم کے سامنے سپاس نامہ پڑھاجارہا تھا۔

طلبہ کے بعد ادیبوں کا ایک گروپ بڑی متانت، اور وقار سے نعرے لگاتا ہوا اس گوشے کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا۔ ان ادیبوں میں شاعر، طنزنگار، افسانہ نویس، دانش ور، مدیرانِ کرام اور نقادشامل تھے۔ یہ سبھی اہلِ قلم و حرف سمجھتے تھے کہ نئے ادب کا سوتا بند ہوا جارہا ہے، نئے تخیلات کو پھانسی دی جارہی ہے، نئی شاہراہِ زندگی پر بم باری کی جارہی ہے، اور وہ جو ایک حقیقی اشرف المخلوقاتی انقلاب کو نئے روپ میں لےکر اُبھر رہاتھا،اس کاراستہ روکا جارہا ہے۔ ادیب اپنے فن کےغدار ہوتے اگر آج احتجاج کے لیے جمع نہ ہوتے۔ ان کی تحریروں کی قوت اس نعرے میں سمٹ آئی تھی:

’’مولانا مودودی کی سزائے قید ___ جمہوریت کا خون ہے‘‘۔

یہ ادیب بالکل نہیں تسلیم کرتے کہ جمہوریت کا خون بہایا جائے۔ یہ ان کی اپنی زندگی کا معاملہ تھا، جس سے وہ ادب کے لطیف خیالات چنتے تھے۔ وہ بازارِادب کے سودےباز ادیب نہ تھے۔ وہ جو اپنی ادبی مجالس میں بلندآواز سے بات کرنے کو بھی خلافِ ادب سمجھتے تھے، یہاں پوری طاقت کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کررہے تھے۔

پھر یہ رو پھیلتی اور بپھرتی چلی گئی۔سب لوگ بھول گئے کہ کیمرے کس مقصد کے لیے لائے گئے تھے۔ استقبالیہ کمیٹی بھول گئی کہ بینڈ کا کیا مصرف تھا؟ لائوڈاسپیکر کس مرض کی دوا تھا؟ پولیس بے دست و پا تھی، پھول، ہار اور طرے محروم زیب گلو تھے۔ وہاں توایک ہی پکارتھی: ’’مولانا مودودی کو رہا کرو‘‘۔ ہرطرف ایک ہی نعرہ، ایک ہی جنون اور ایک ہی آواز انسانی احتجاج کا پُرشوکت مظاہرہ۔

ان مظاہرین نے خود بخود دو گروپوں کی شکل اختیار کرکے اس نعرے کو کورس کی شکل دے دی تھی:

ایک گروپ کہہ رہا تھا : ’’مولانا مودودی کو…‘‘

دوسرے گروپ کی پکار تھی: ’’رہاکرو…‘‘۔

یہ نعرے نہ بے اثر تھے، اور نہ بے معنی تھے۔ لگانے والے بھی اس کے مفہوم سے پوری طرح آگاہ تھے اور سننےوالے بھی پوری طرح سمجھ رہے تھے کہ جو لوگ یہ نعرے لگا رہے ہیں، یہ کرائے کے دل، دماغ اور زبان نہیں رکھتے۔

پولیس نے لاٹھیوں کی مدد سے وزیراعظم کے لیے راستہ بنانا شروع کر دیا تاکہ ایئرپورٹ بلڈنگ سے گزر کر اپنی کار تک جاسکیں۔ یہ دیکھ کر مظاہرین نے بھی اِدھر کا رُخ کیا اوراس طرح وہ سارا مظاہرہ بلڈنگ میں منتقل ہوگیا۔ وہ مظاہرے کےانتہائی عروج کا وقت تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پہاڑ کے دامن میں کسی عظیم چٹان کو اُڑایا جارہا تھا۔ یا شاید کسی سمندری جزیرے کے اندر اچانک آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ بندبلڈنگ میں انسانوں کے ہجوم نے ایک مضطرب چیخ کی شکل اختیار کرلی تھی۔ گویا آوازوں کی اس اجتماعی قوت کے زور سے وہ عمارت بھک سے اُڑ جانے والی تھی۔

طلبہ نے کاروں کوگھیر لیا تھا۔ وہ مسلسل نعرہ زن تھے:

’’امریکی حاکمیت ___ مُردہ باد‘‘

’’مولانا مودودی کو ___ رہا کرو‘‘۔

اب نعرے بلا کی شدت اختیار کرکے سارے ماحول کو محیط کیے ہوئے تھے۔ یہ بہتا ہوا سیل رواں تھا اور ایک طوفان کا تندوتیز دھارا تھا، جو ایئرپورٹ بلڈنگ سے اسٹارگیٹ تک بہہ رہا تھا۔ مظاہرے کا ناظم چند منٹ قبل دوڑتا ہوا بلڈنگ کے اسٹارگیٹ تک گیا تھا اور اس نے اشارہ کر دیا تھا کہ ’’وہ وقت آگیا ہے جس کے تم منتظر تھے‘‘۔

اب سڑک کا چپہ چپہ سراپا احتجاج تھا۔ گاڑیوں کے اس کارواں کا استقبال ایک میل تک اس طرح ہوا کہ ہرچند قدم پر روشنی کے کھمبے کے پاس فلڈلائٹ کے عین نیچے ایک لہراتا اور پھڑپھڑاتا بینر یاد دلا رہا تھا کہ ’’مودودی محض ایک گوشت پوست کا انسان نہیں ہے۔ وہ اس ملک کے قلب کی دھڑکن ہے،وہ اس ملّت کا دھڑکتا ہوا دل ہے، وہ بہار کا پیغام برہے، وہ تمنائے دل ہے، وہ شمع آرزو ہے، وہ نشانِ منزل ہے، وہ آنےوالے انقلاب کا داعی اور رہنما ہے، وہ ایک نظریہ ہے، وہ ایک اصول ہے، وہ ایک تحریک ہے۔ تم اسے یوں ملت سے چھین نہیں سکتے، تم تاریخ کے سینے پر لکھی تحریر مٹا نہیں سکتے، تم پوری ملت کی آواز کو دبا نہیں سکتے، تمھاری جہل پر مبنی ساری گھن گرج کو ملّت کی یلغار اپنی گونج میں دبا سکتی ہے۔ تم پانی میںتیرنے والی بے جڑ کائی ہو، تم درخت کے ٹوٹے ہوئے پتّے ہو، تم لہروں میں اُٹھنے والے بلبلے ہو، تم ملّت کے شعور اور قلب سے بہت دُور ہو‘‘۔

 پے بہ پے، لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ہوا احتجاج کا سمندر ایئرپورٹ بلڈنگ سے اسٹارگیٹ تک لہریں اُٹھا رہا تھا۔لیکن وہ اس راستے سے نہ آیا جس راستے کو اس کا انتظار تھا، وہ عوامی احتجاج کی تاب نہ لاتے ہوئے کسی دوسرے ویران راستے سے نکل گیا تھا۔

  _______________

حواشی

[۱]   l  ۳مئی ۵۳ء کو مولانا مودودی کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گیا۔ l  ۵مئی کو فوجی عدالت نے مارشل لا ریگولیشن نمبر۸ مع دفعہ ۱۵۳، الف تعزیرات کے تحت کارروائی کا آغاز کیا۔ l  ۷مئی  کو مولانا نے فوجی عدالت میں بیان دیا۔l  ۹مئی  کوگورنر جنرل نے مارشل لا کےفیصلوں اور اقدامات کے تحفظ [انڈیمنٹی]کا قانون جاری کیا اور ساتھ ہی مولانا مودودی کے مقدمے کی فوجی عدالتی سماعت ختم ہوگئی۔ l  ۱۱مئی ۱۹۵۳ء کو مولانا مودودی کے لیے سزا کا اعلان کردیا گیا۔ lعدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے مطابق ۲۸؍اپریل ۱۹۵۵ء کو رہائی عمل میں آئی۔ مرتب