اپریل کے ’اشارات‘: ’مسئلہ کشمیر اور سیّد علی گیلانی کا انتباہ‘ میں بہت واضح انداز سے حکومت ِ پاکستان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر رواداری میںکسی اقدام سے خبردار رہے۔اور پھر پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط صاحب اور افتخار گیلانی صاحب کے مضامین مسئلہ کشمیر کی حقیقی تصویر کو نمایاں کرنے کے ساتھ سالہا سال سے جدوجہد آزادیٔ کشمیر کے لیے اپنا لہو پیش کرنے والے سرفروشوں کے موقف کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔ محترم پروفیسر ابوالخیر کشفی اور جناب محمد سعودعالم کے مضامین، قرآنی فکر اور رہنمائی سے بھرپور ہیں۔
اسلامی افغانستان کے حوالے سے محترم حکمت یار کی گفتگو (اپریل ۲۰۲۱ء)بہت ہی مفید اور فکرانگیز ہے۔ البتہ ’مدیر کے نام‘ میں مجھے ڈاکٹر اسحاق منصوری صاحب کے اس تبصرے سے اختلاف ہے جو انھوں نے حبیب الرحمٰن چترالی صاحب کے مارچ میں شائع ہونے والے مضمون پر کیا ہے۔ چترالی صاحب کا مضمون ’اصطلاحات اور تحریف کاجادو‘اپنے اسلوب اور تجزیے کے تحت ایک احسن کوشش اور علمی دلائل سے بھرپور تحریر ہے۔ہمیں جدیدیت اور مابعد جدیدیت پر کھلی آنکھوں سے غور کرنا چاہیے کہ جس کے نقصانات انسانیت بھگت رہی ہے۔
’اصطلاحات اور تحریف کا جادو‘ مضمون میں دلائل سے ایک مضبوط اور متبادل موقف پیش کرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ فتنۂ فرعون و نمرود کی طرح یہ نیوورلڈ آرڈر ہےجس نے انسانیت کو موت اور زندگی کی کش مکش سے دوچار کر دیا ہے۔چترالی صاحب نے بہت سے سائنسی دلائل پیش کرتے ہوئے اور تھامس مالتھس کے آبادی کے کنٹرول کرنے کے قدیم فلسفے کو بڑے فتنوں کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔
مارچ کے شمارے میں پروفیسر خورشید احمد صاحب نے سچ کہا کہ ’پاکستان کے نظریاتی وجود ‘ کی بقا اسلامی نظریے، اسلامی تہذیب و تمدن و معاشرت، اسلامی معاشی نظامِ عدل کو خلوص اور ایمان کے ساتھ اختیار کرنے میں ہی ہے۔ یقینا پاکستان کی ترقی و فلاح اور محفوظ مستقبل انھی ابدی اخلاقی قوانین کے تابع ہونے میں ہے۔ لیکن افسوس ،عوام ہوں یا صاحبانِ اقتدار، غالب اکثریت اخلاقی تنزل کا شکارہے۔ اسی شمارے میں ’اصطلاحات اور تحریف کا جادو‘ علم میں اضافے کا باعث بنا۔ سارا شمارہ دل چسپ اور معلومات افزا ہے۔