۲۰۱۴ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی نے پشاور میں ایک چرچ پر دہشت گرد حملے کے بعد اَزخود نوٹس لیا۔ یہ نوٹس ’جسٹس ہیلپ لائن‘ نامی این جی اوز کی درخواست پرلیا گیا تھا۔ اقلیتی برادری کی چند دیگردرخواستوں کو یکجا کرکے چیف جسٹس نے صرف سرکاری حکام کو بلایا، تین رکنی بنچ بنایا،جس میں خود ان کے علاوہ جسٹس عظمت سعید اور جسٹس مشیرعالم تھے۔ ۱۹جون ۲۰۱۴ء کو انھوں نے اس نوٹس کی سماعت کی اور ایک ایسا فیصلہ سناڈالا، جس کے متاثرین ۹۶ فی صد مسلمان تھے۔ لیکن ان کے کسی نمایندے کو نہ تو سنا گیا، نہ بلایا گیا اور نہ انھیں علم ہوا کہ ان کی پشت پر کیا خنجر آبدار گھونپا جارہا ہے۔چرچ پر مذکورہ دہشت گردانہ حملے کا کوئی مجرم نہیں پکڑا گیا تھا۔
اس سماعت میں عدالت کے اندر کے تمام حاضرین نے اَزخود یہ فرض کرلیا کہ ’’دہشت گرد چونکہ موجودہ نظامِ تعلیم کی پیداوار ہیں، لہٰذا اس نظامِ تعلیم کو بدل دیا جائے‘‘۔ معلوم نہیں یہ فرض کرنے کی بنیاد کیا تھی؟ کیا دہشت گرد غیرملکی نہیں ہوسکتے ہیں؟ ممکن ہے وہ ہندستان سے آئے تھے؟ کیا وہ واقعی مسلمان تھے؟ کیا یہ حملہ خود مسیحیوں کے دوگروہوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ تو نہیں ہے؟ کیا اس میں خاندانی یا ذاتی دشمنی کا کوئی عنصر تو نہیں ہے؟ یہ وہ چند ممکنہ سوالات ہیں، جن کا جواب تلاش کرکے ہی کوئی نتیجہ نکالا جاسکتا تھا۔ لیکن معزز عدالت نے سرسری سی سماعت میں اتنا بڑا فیصلہ سناڈالا کہ ا س کے نتائج تصور میں لاتے ہوئے دل ڈوبنے لگتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بس یہ فرض کرلیا کہ ’’تمام دہشت گرد پاکستانی مسلمان تھے اور دہشت گردی کا سبب تعلیمی نصاب ہے‘‘۔اس فیصلے کے منفی اثرات مسلم نسل کشی کی شکل میں مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں۔
اسی حکم نامے میں عدالت نے پولیس سروس کے ایک معروف افسر ڈاکٹر شعیب سڈل کی قیادت میں کمیشن مقرر کیا، جس کے ذمے عدالتی حکم نامے پر عمل درآمد کرانا تھا۔ کمیشن کی معاونت کے لیے ایک چاررکنی کمیٹی مقرر کی گئی، جس کے ارکان تھے: ڈاکٹر شعیب سڈل، ڈاکٹر رمیش کمار، کوئی ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور خود معزز چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی کے معزز صاحبزادے جناب ثاقب جیلانی۔ جسٹس جیلانی فیصلہ سنانے کے سترہ دن بعد ریٹائر ہوگئے۔ یہ کمیٹی اور کمیشن گزشتہ سات سال سے کام کررہے ہیں۔ اس عرصے میں ملکی تعلیمی نظام اور مسلمانوں کی نسل کشی کا کیا بندوبست ہورہا ہے؟ اس کی کچھ تفصیل آپ آیندہ سطور میں پڑھیں گے۔
یوں تو یہ فیصلہ ’’ازخود نوٹس‘‘ پر چار فی صد اقلیتوں کے لیے تھا، لیکن اس فیصلے سے ۹۶ فی صد مسلمانوں کی نسلوں پر جو اثرات مرتب ہوں گے، ان کے بارے سوچ کر دل لرزتا ہے۔ اس سے بڑھ کر شرم ناک تماشا یہ ہے کہ مسلمانوں کو نہ اس مقدمے میں فریق بنایا گیا اور نہ انھیں سنا گیا۔ معزز عدالت نے حکم دیا کہ ’’اسکول اور کالج کے درجات پر ایسا مناسب نصاب تشکیل دیا جائے، جو مذہبی رواداری کی ثقافت کو فروغ دے‘‘۔ فیصلے میں ۱۹۸۱ء میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کا حوالہ دے کر لکھا ہے: ’’بچے کو مذہب اور اعتقاد کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے تعصب سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کی نشوونما، سمجھ داری، رواداری، افراد کے مابین دوستانہ روابط، امن اور آفاقی بھائی چارے ، مذہبی آزادی اور دوسرے اعتقاد کی تعظیم اور اس شعور کے ساتھ کی جائے گی کہ اس کی صلاحیتیں اور توانائی اپنے ساتھیوں کے لیے وقف ہوگی‘‘۔
فیصلے کی نقل فوراً متعلقہ اداروں کو بھیجی گئی۔ پنجاب حکومت نے تین مقامی ’دانش وروں‘ پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی، جس نے سفارشات مرتب کیں۔ تین مقامی اورمطلقاً غیرمعروف افراد کی ان سفارشات کو ۲فروری ۲۰۱۶ء کو پنجاب حکومت نے(جس کے سربراہ جناب شہباز شریف تھے) سرکاری و نجی یونی ورسٹیوں کو اس ہدایت کے ساتھ ارسال کیا کہ ’’ان سفارشات پر عمل کرکے بالوضاحت بتایا جائے کہ نصاب میں کیاترامیم کی گئیں اور جن کتب میں ترامیم کی گئیں، وہ کتب بھی منسلک کی جائیں‘‘۔ اسی پربس نہیں، یونی ورسٹیاں امتحانی سوالات بھی اب ان تین غیرمعروف افراد کے افکار کی روشنی ہی میںمرتب کیا کریں گی۔لیکن پہلے کمیٹی کی چند سفارشات پر ایک نظر ڈال لیجیے۔
’پاکستان اسٹڈیز انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں تحریک ِ خلافت میں گاندھی کے کردار پر معروضی انداز میں نظر ثانی کی جائے‘۔ یہ تعلیمی سفارش بھارت میں مودی حکومت کے کسی متعصب رہنما کی نہیں تھی، بلکہ مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں دی گئی تھی، جب لاہورکے کالجوں میں دوپروفیسرصاحبان اور ایک انتظامی افسر پر مشتمل کمیٹی نے ’رواداری اور روشن خیالی ‘کے فروغ کے لیے جو سفارشات مرتب کیں، یہ ان کی دیگ میں سے چاول کا ایک دانہ ہے۔ ملکی اور صوبائی سطح پر مختلف نصاب میں چند مزید مجوزہ تبدیلیاں ملاحظہ ہوں۔ بریکٹ میں ہمارا تبصرہ ہے:
۱- طلبہ کو پڑھایا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ مذاہب کی تنسیخ کے لیے نہیں آئے بلکہ ابراہیم، موسیٰ، داؤد، سلیمان اور عیسیٰ علیہم السلام کا پیغام وہی تھا، جو محمدؐ کا ہے۔[گویا یہودیت اور مسیحیت اپنی موجودہ شکل میں وہی مذاہب ہیں، جو مذکورہ پیغمبروںؑ کے تھے۔ اسے قرآنی آیات کی تحریف کہا جائے یا استخفاف؟]
۲- ’’تحریک ِ پاکستان کا اَزسرنو معروضی جائزہ لے کر اس میں اقلیتوں کاکردار اُجاگر کیا جائے‘‘۔ [قیام پاکستان کے آٹھ برس بعد مسلم لیگ کے مرکزی رہنما جناب ظفراحمد انصاری نے واضح طور پر لکھا تھا: حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمان اور صرف مسلمان قوم کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہماری آبادی کے دوسرے عناصر خصوصاً ہندوقوم نے پاکستان کو وجود میں نہ آنے دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘‘ (Daily Dawn، ۲۳دسمبر ۱۹۵۵ء)]۔
۳- ’’یورپ میں تحریک احیائے علوم کی تفصیلات نصاب میں شامل ہوں‘‘[مغربی فکر کے مطابق یونانی عہد کے بعد انسانیت پر ایک تاریک دور (Dark Age) آیا جس کا خاتمہ، یورپی صنعتی انقلاب کے ذریعے ہوا۔ اس ’تاریک دور‘ میں اُن کے نزدیک بعثتِ رسولؐ، خلافت راشدہ اور مسلمانوں کے دوسرے عہد زریں بھی شامل ہیں،کہ جب عورت کو تحفظ، وقار اور جایداد میں حصہ ملا۔ کیا اب ہمارے بچے عہد نبوی اور خلافت ِ راشدہ کو عہد ِ ظلمات کے طور پر پڑھیں گے؟]
یہ نمونے کی چندسفارشات ہیں، جو پشاور میں ایک چرچ پر شرپسندوں کے دہشت گردانہ حملے کے ثمرات ہیں۔ امریکا اور ناٹو کی سرپرستی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اندازے کے مطابق ۸۰ہزار سے زیادہ، پاکستان کے مسلمان مارے گئے ہیں، مساجد اور درگاہیں تک تباہ ہوئی ہیں، اور بچوں اور نمازیوں تک کی لاشیں تڑپی ہیں، تاہم وہ صبر اور شکر کے ساتھ یہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ادھر ایک چرچ پر ستمبر۲۰۱۳ء میں اذیت ناک حملہ ہوا تو ملاحظہ ہو کہ ایک تسلسل کے ساتھ کیا کیا فیصلے کیے گئے، جن کا پاکستانی قوم کو احساس تک نہیں ہونے دیا گیا۔
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز میں کیا کیا بارودی سرنگیں بچھ رہی ہیں اور اس جمہوری ملک میں ۹۶ فی صد آبادی کو کچھ معلوم ہی نہیں کہ آنے والی نسلوں کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے؟ اس مقدمے میں تمام فریقوں یا کرداروں نے خودبخود یہ فرض کرلیا ہے کہ ’’چرچ پرحملہ آور، غلط نصابِ تعلیم کی پیداوار پاکستانی مسلم طلبہ تھے اور نصابِ تعلیم عدم برداشت پر مبنی ہے‘‘ (مگر اس مفروضے کا ایک بھی تائیدی ثبوت فیصلے میں درج نہیں)۔ چونکہ اس ’اَزخود نوٹس‘ کے تمام متاثرین غیرمسلم افراد تھے، اس لیے نہ تو مسلمانوں میں سےکسی کو بطور فریق سنا گیا، نہ کسی سطح کے تعلیمی نصاب کی جانچ پرکھ کی گئی اور نہ کسی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سے رابطہ کیا گیا۔
معزز چیف جسٹس صاحب نے فیصلہ تحریر کرتے وقت ان تمام حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے، جو عدلیہ کے لیے پوری دُنیا میں تسلیم شدہ ہیں۔ اسی فیصلے میں یہ حکم بھی موجود ہے کہ ’’ایک خاص تربیت یافتہ پولیس فورس تشکیل دی جائے، جو اقلیتی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے‘‘۔ معزز عدالت نے اس مختصر سے حکم کے مضمرات پر شاید غور نہیں کیا۔ کل کو نجی اسکولوں کے مالکان ’دہشت گردی‘ کے نام پر سپریم کورٹ میں چلے گئے تو ان کے لیے ایک نئی پولیس فورس کیوں نہ تشکیل دی جائے؟ فی الاصل عدلیہ کا کام ملکی قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوتا ہے نہ کہ انتظامی احکام جاری کرنا۔
ذرا اندازہ کیجیے کہ کتنی خاموشی اور تسلسل سے تبدیلیوں کی ایک رو چلتے چلتے مسلمانوں کی نسلوں کو لپیٹ میں لے آئی کہ جنھیں سماعت کے دوران میں سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ دہشت گرد، عالمی غنڈوں کے پروردہ ہیں۔ ان کا عامۃ الناس اور اسلام سے کیا تعلق؟ چرچ پر حملے کوجواز بنا کر ایک این جی او کی درخواست اور ازخودنوٹس پر سماعت میں، یہ سارا فیصلہ مفروضوں پر مبنی ہے۔
کیا چرچ پر حملے کے ملزمان کہیں پکڑے گئے؟ اگر ہاں تو کیا ان پر کوئی ایسی جرح ہوئی کہ جس میں انھوں نے اپنے اس فعلِ بدکو تعلیمی نظام کی پیداوار قرار دے کر کوئی اعتراف کیا ہو؟
کیا کسی نے نصاب کا جائزہ لے کر اس کے توجہ طلب پہلو اُجاگر کیے؟
ظاہر ہے یہ سب کچھ نہیںہوا۔ فیصلے میں معزز عدالت کے سامنے ایک اقلیتی عبادت گاہ پر حملے کے مرتکبین کی گرفتاری مسئلہ تھا، لیکن معزز جج صاحب نے نادیدہ اور نامعلوم مجرموں کو ’’اوّلاً خود بخود مسلمان فرض کرلیا‘‘۔ پھر یہ بھی فرض کیا کہ ’’ملکی نظام تعلیم ان مسلمانوں کی تربیت کاذمہ دار ہے‘‘۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ ’’نصابِ تعلیم تبدیل کیا جائے‘‘۔
اس اعلیٰ عدالتی قصّے میں کوئی ایک لطیفہ سرزد ہواتو اس کا ذکر کیا جائے، یہاں تو ایک سے بڑھ کر ایک والا معاملہ ہے۔یونی ورسٹیاں دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خودمختار ادارے ہیں۔ حکومتیں ان سے تحقیق کی درخواست تو کرسکتی ہیں، انھیں کوئی حکم نہیں دے سکتیں۔ حکم دینے کے لیے متعلقہ پارلیمان سے یونی ورسٹی کے ایکٹ میں ترمیم لازم ہے۔
اس زیرنظر فیصلے کے بعد حکومت پنجاب نے ۲۰۱۶ء میں لاہور کے تین مقامی کالجوں کے تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی سفارشات مرتب کرنے کے لیے قائم کی۔ ایک صاحب انتظامی عہدے دار ہیں اور تین میں سے صرف ایک پی ایچ ڈی ہیں۔یہ اصحاب علمی دُنیا میں کتنے معروف ہیں، اس سے بحث نہیں ہے۔ تاہم، عقل و دانش سے ماورا اس کمیٹی کے قیام کے فیصلے پر حیرت ضرور ہے کہ اب کالجوں کے ایم اے پاس حضرات اور انتظامی افسران، صفِ اوّل کی یونی ورسٹیوں کے پی ایچ ڈی پروفیسروں کے لیے ہدایت نامے مرتب کیا کریں گے۔ یہ یونی ورسٹیوں میں ’معیار کی بلندی‘ کے ثناخوانوں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔
اس سات سالہ عرصہ کی تفصیلات تو سامنے نہیں آسکیں، آخرکار مارچ ۲۰۲۱ء میں کمیشن نے عمل درآمد کی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے سامنے رکھی۔ کمیشن نے سفارش کی کہ اُردو، انگریزی، مطالعہ پاکستان اور ان جیسے دیگر مضامین میں سے حمد، نعت، نبی کریمؐ کا ذکر، خلفائے راشدینؓ اور تاریخ اسلام کے مشاہیر کا تذکرہ نکالا جائے کہ یہ آرٹیکل ۲۲ کے منافی ہے۔ کچھ دیگر مسیحی ماہرین تعلیم نے بھی اس کی تائید کی کہ مطالعہ پاکستان، سائنس اور اُردو اور انگریزی جیسے مشترک مضامین میں بھی اسلام موجود ہے جو آئین کے آرٹیکل ۲۲ کی خلاف ورزی ہے کہ جس کے تحت کسی شخص کو اس کے مذہب سے ہٹ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
معترضین کے سرفہرست اعتراضات ملاحظہ ہوں:’’طالب علم سے مشقی کام کرنے کو یوں کہا گیا ہے کہ وہ سوچ کر بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کون کون سی نعمتیں دی ہیں؟‘‘ اور یہ کہ 'اللہ تعالیٰ ہمارا مالک ہے، اس جملے کو درست تلفظ اور روانی سے پڑھیں‘‘۔ اسی طرح یہ کہ ’’اساتذہ بچوں سے نعت سنیں‘‘۔ ’’چوتھی جماعت کی انگریزی کی کتاب میں چاروں خلفائے راشدین کے بارے میں مضمون بھی قابلِ اعتراض ہے‘‘۔
ان جملوں میں لفظ ’اللہ‘ کا استعمال چند مسیحی افراد اور ان کے ’مسلمان وکلا‘ کو ناگوار ہے۔ واضح رہے کہ لفظ ’اللہ‘ بائبل کے عہدنامہ عتیق میں ’ایلوہ‘(Eloah) کہلاتا ہے، جو صدیوں کے زمانی اور نطقی تغیرات کے باعث عربی میں ’اللہ‘ ہے۔ ہمارے یہ چند مسیحی معززین اور ان کے مسلمان وکلا آتش پرستوں کے ہاں برتا جانے والا لفظ ’خدا‘ تو لینے کو تیار ہیں،کلمہ طیبہ سے لے کر سارے اسلامی ذخیرے کا مرکزی لفظ ’اللہ‘ سامنے آتے ہی ان کی رواداری اور وسعت قلبی کا جذبہ دھڑام سے نیچے گرجاتا ہے۔ گویا اب رواداری اور وسعت قلبی کا مظاہرہ اور الفاظ کا چنائو مسیحی آبادی کی خواہش پر صرف مسلمانوں کی طرف سے ہوا کرے گا۔ چیئرمین اقلیتی کمیشن شعیب سڈل صاحب کا فرمان ہے:’’اس مذہبی مواد کو نصاب سے نکالنا ہو گا‘‘۔
چونکہ ایک طے شدہ معاملے کو سپریم کورٹ نے بطورِ سماعت یہ مسئلہ ایوانِ عدل میں رکھا ہے، اس لیے انھیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے متفقہ آئین کے آرٹیکل ۳۱ کا انکار کس طرح کیا جائے گا جس کے تحت ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر مسلمانوں کے لیے تعلیمات اسلامی کا اہتمام کرے۔ مسیحی اور دیگر اقلیتی آبادی کے اطمینان کے لیے تو مسلمان ماہرین تعلیم کچھ نہ کچھ کر لیں گے، لیکن تعلیمی امور میں شعیب سڈل صاحب کی اس رائے کو کون مسلمان اہمیت دے گا جن کا تعلیمی اُمور سے رتی برابر تعلق نہیں ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کا موجودہ یکساں متفقہ نصاب بنیادی طور پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں کے درجنوں ماہرین تعلیم کی پالیسیوں اور انتظامی ذمہ داروں کا نتیجہ ہے، جس میں دیگر بہت سے سیاست دانوں اور ماہرین کی محنت بھی شامل ہے۔ عملی میدان میں جب کبھی اس نصاب کے حُسن و قبح سامنے آئے تو ماہرین تعلیم اسے بہتر بنا لیں گے۔ یہ کام ماہرین تعلیم اور کارپردازانِ سیاست کا ہے، جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے والے پولیس افسر کا نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسی متفقہ نصابِ تعلیم کے تحت پرائمری جماعتوں تک اقلیتی آبادی کی کتب تیار ہو چکی ہیں، جو پورے ملک میں چار فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ تمام اقلیتی آبادی ملک بھر میں منتشر اور پھیلی ہوئی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر شہروں اور قصبوں میں ہیں۔ مثال کے طور پر راولپنڈی کے سیکڑوں ہزاروں اسکولوں میں سے بمشکل تمام درجن بھر اسکولوں میں ایک دو غیرمسلم بچے ملیں گے۔ یہی حال ملک بھر کے اضلاع کا ہے۔ جہاں اپنی آبادی کے تناسب سے چند اسکولوں ہی میں اِکا دکا بچے ملتے ہیں۔ اسی لیے ماہرین تعلیم نے یہ نصاب ۹۶ فی صد مسلم آبادی کے لیے تیار کیا ہے۔ ان اِکا دکا غیرمسلم بچوں کے لیے بھی نصاب کا ہرحصہ پڑھنا لازم نہیں ہے، مثلاً مشقی کام میں جہاں استاد بچے سے نعت سنتا ہے تو وہیں یہ ہدایت موجود ہے کہ غیرمسلم بچے اس سے مستثنیٰ ہیں۔تاہم، صوبہ سندھ کے چند اضلاع میں ہم وطن ہندو طالب علموں کی تعداد مقابلتاً ذرا مختلف ہے۔ لیکن ان کے مذہبی اطمینان کا طریقہ اسی نصاب میں موجود ہے۔اقلیتی آبادی کی معتدل اور غالب اکثریت کو ان جملوں پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کے اس متفقہ مذہبی مواد کو نصاب سے نکلوانے کے درپے وہ چند لوگ ہیں، جو نہ تو مسیحی اور نہ مسلمانوں کے نمایندے ہیں۔ مسیحی اور دیگر اقلیتی آبادیوں کے بچے ہم سب کے بچے ہیں۔
اگر کوئی بچہ مسیحی ہے، تو اسے مسیحی تعلیمات دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور ریاست یہ ذمہ داری تمام اقلیتوں کی نصابی کتب تیار کرکے پوری کرچکی ہے۔ معمولی لفظی اختلاف کو لے کر اقلیتی آبادی کے یہ چند لوگ اور مخصوص این جی اوز سے ان کے چند مسلمان ہم نوا ، اگر سپریم کورٹ کے توسط سے چاروں صوبوں کے ماہرین تعلیم اور سیاست دانوں کے متفقہ نصاب سے اسلامی تعلیمات نکلوانے میں کامیاب ہوگئے، تو خدشہ ہے کہ آیندہ کسی وقت ۹۶فی صد مسلم آبادی اس پورے نظام کو لپیٹ کر رکھ دے گی اور اس طرح بے جا طورپر، معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی کا خرمن جل کر راکھ ہوجائے گا اور اس المیے کی ذمہ داری آج مسند انصاف پر بیٹھے جج حضرات پر ہوگی۔
یہ تلخ جملہ لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ دورانِ سماعت ۳۱مارچ ۲۰۲۱ء کو سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد صاحب سے منسوب یہ تبصرہ ذرائع ابلاغ پر مسلسل دُہرایا جاتا رہا: ’’۱۹۶۰ء کا نصاب نکال کر پڑھائیں، اس میں بہترین مذہبی ہم آہنگی تھی ‘‘۔
راقم نے یہی نصاب پڑھا تھا جو تقسیم سے پہلے متحدہ ہندستان میں فی الحقیقت اس وقت کے ہندو مسلمان دونوں کے لیے تھا۔ اس نصاب میں ہم طلبہ رام چندر، سیتا، لچھمن اور راون کی اساطیری داستانیں پڑھتے تھے۔ دیوالی، ہولی، دسہرہ اور کرسمس تہوار پوری طرح سے اس نصاب میں موجود تھے۔ کیا یہ اساطیری داستانیں مسلمان اپنے بچوں کو پڑھانے پر رضامند ہو جائیں گے؟
سچی بات تو یہ ہے کہ محترم چیف جسٹس سے منسوب یہ جملہ پڑھ سن کر یقین نہیں آیا کہ اقلیتی کمیشن کے مسلمان چیئرمین کے لیے نصاب میں لفظ ’اللہ‘ تک ناگوار ہو اور مسلمان بچوں کو جناب چیف جسٹس کے حکم پررام چندر، سیتا اور لچھمن کی وہ داستانیں پڑھائی جائیں، جن پر ملک کی ہندو آبادی کا بھی اتفاق نہیں ہے۔ ذرا سندھ کی ہندو آبادی میں سروے کرائیں۔ سو ہندوئوں میں آپ کو دس ہندو کہلوانے والے ملیں گے باقی خود کو دلت، بھیل، کوہلی اور دیگر شیڈولڈ کاسٹ کہلوانے پر مصر ہیں۔
سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں اسمبلیوں کے معزز ارکان اور دانش وروں سے دردمندانہ گزارش ہے کہ براہِ کرم ان بارودی سرنگوں پر نظر رکھا کریں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مضمرات پر ماہرین تعلیم غور کریں۔ یہ دینی و غیر دینی سیاست کا موضوع نہیں ہے۔ اس فیصلے کے مضمرات کے تدارک کا بندوبست کیا جائے۔ ورنہ وہ دن دُور نہیں جب طلبہ کتابوں میں خلافت ِ راشدہ کو ظلمات کے دور ہی کا ایک عہد پڑھیں گے۔ اور ۱۹۶۰ء کے نصابِ تعلیم کو امرت دھارا سمجھیں گے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ ہمیں واقعی رواداری اور عدم برداشت کی طرف لے جائے گا؟ ہمیں معاشرتی طبقات میں بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کی ضرورت ہے، مگر یہ فیصلہ اور پھر تعلیمی سفارشات طبقاتی خلیج کو اور گہرا کریں گی۔
آخر میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں گزارش کی جائے کہ اعلیٰ عدلیہ سے ضلعی عدالتوں تک کے تمام افسران دستورِ اسلامی جمہوری پاکستان کے بعد اگر کسی کتاب کو حرزِ جاں بنائیں تو وہ پاکستان کے سابق مسیحی جسٹس جناب اے آر کارنیلیس کی کتابLaw and Judiciary in Pakistan ہے۔ہرجج کو یہ کتاب اپنے سرہانے رکھنا چاہیے۔ اگر اس مسیحی جج ہی سے لی گئی رواداری اور وسعت قلبی کا ہلکا سا اثر بھی عدلیہ میں دیکھا گیا تو ملک کی کوئی اقلیت نہ مسلمانوں سے شاکی ہوگی، نہ نصابِ تعلیم پر نظر ڈالنے کی اس طرح ضرورت پیش آئے گی اور نہ عدالتوں کو بے سوچے سمجھے نامعلوم دہشت گردوں کو اسلامی نظامِ تعلیم کی پیداوار سمجھنا پڑے گا۔محترم چیف جسٹس صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی سپریم کورٹ کے ایک ہندو جج جناب رانا بھگوان داس، اسلامیات میں ایم اے تھے۔ وہ ہندو کے طور پر ہی دنیا سے رخصت ہوئے، لیکن اسلام انھوں نے وسعت ِ قلبی سے پڑھا، کوئی جبر اُن پر نہیں تھا۔