امریکا نے افغانستان سے فوجوں کی واپسی کا اعلان کرکے فی الحال امن مذاکرات اور طالبان کو منوانے کا ٹھیکہ ترکی کے سپرد کیا ہے۔ اس سلسلے میں ۲۴؍اپریل ۲۰۲۱ءکو استنبول میں مشترکہ اجلاس کا اعلان کیا گیا، مگر طالبان نے اس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیا، جس سے یہ اجلاس فی الحال ملتوی کر دیا گیا ہے۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ امریکا، قطر اور ترکی کی مدد سے کسی ایسے معاہدے کے خد و خال تیار کرنے میں مصروف ہے، جس سے شام کی طرز پر افغانستان میں جنگ بندی عمل میں لائی جاسکے اور زمینی صورتِ حال کو جوں کا توں رکھا جائے ۔ گویا جس فریق کو جس علاقے پر برتری یا کنٹرول حاصل ہو، اس کو تسلیم کرکے اور چھیڑے بغیر مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور پھر ایک طرح سے افغانستان کو اپنے حال پر یا وقت کے دھارے پر چھوڑ دیاجائے ۔ پاکستان کے ذریعے طالبان کے لیڈروں کو بتایا گیا ہے کہ ’’کابل کی اشرف غنی کی حکومت کے پاس تو بس ۳۳ فی صد علاقے کا کنٹرول ہے، ۱۹ فی صد علاقہ طالبان کے براہِ راست قبضے میں ہے اور ملک کا بقیہ ۴۸ فی صد علاقہ حالت جنگ میں ہے، جہاں آئے دن زمینی صورت حال تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے تنازعے کو منجمد کرنا ان کے مفاد میں بھی ہے‘‘۔
فی الحال امریکا اشرف غنی کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوا ہے کہ اس کا وجود مذاکرات کی پیش رفت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ ویسے اس حقیقت کا ادراک امریکا کو ۲۰۱۹ء میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہی ہوگیا تھا ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق طے پایا تھا کہ ’’ستمبر میں جو متنازعہ صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے، ان کو کالعدم کرکے ایک وسیع البنیاد یا غیر جانب دار اشخاص پر مشتمل ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جو بعد میں طالبان کے ساتھ دیگر امو ر پر گفت و شنید کرکے معاملات طے کرکے غیر ملکی افواج کے انخلا کا راستہ ہموار کرے گی‘‘ ۔تاہم دوحہ معاہدے پر دستخط کرنے سے صرف ۱۰روز قبل افغانستان کے الیکشن کمیشن نے اچانک ۱۸ فروری ۲۰۲۰ءکو اشرف غنی کو صدارتی انتخابات میں فاتح قرار دے دیا۔ اس سے پانچ روز قبل بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اچانک ایک خصوصی طیارے سے کابل پہنچے تھے۔ انھوں نے اشرف غنی کو دوحہ میں جاری مذاکرات اور امریکا کے طالبان کے ساتھ معاہدے کے خد و خال سے آگاہ کرکے بتایا کہ اس کے بعد آپ کی حکمرانی کا جواز ختم ہوجائے گا ۔ اسی لیے الیکشن کمیشن کو ہدایت کریں کہ وہ دوحہ میں اس معاہدے کے اعلان سے قبل ہی نتائج کا اعلان کرے ، تاکہ آپ کی حکومت کی آئینی حیثیت برقرار رہ سکے ۔
اشرف غنی کا ابھی تک اصرار ہے کہ وہ حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے ، مگر عبوری انتظامیہ کے ذریعے جلد ہی انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ ان انتخابات میں وہ شرکت نہیں کریں گے ۔ تاہم، ۳کروڑ ۵۰ لاکھ آبادی والے ملک میں جہاں صرف ۹۶ لاکھ افراد رجسٹرڈ ووٹر ہیں اور ان میں سے بھی ۱۹ فی صد ہی ووٹ ڈالنے پولنگ بوتھ تک آتے ہیں۔ اس سے ان انتخابات کی اخلاقی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
چونکہ ناٹو اتحاد کے تحت ترکی کے۶۰۰ فوجی افغانستان میں مقیم ہیں ، اس لیے امریکا چاہتا ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد لیبیا اور شام کی طرح ترکی افغانستان کی سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھال لے ۔ اس لیے یورپی یونین سے لے کر بھارت تک اس وقت ترکی کی ناز برداری کرکے افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری اور اثاثوں کی حفاظت کی گارنٹی چاہتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں تاجکستان کے دارالحکومت دو شنبہ میں ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ کے موقعے پر بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے ترکی کے اپنے ہم منصب میولوت چوشوولوسے اپیل کی کہ ’’ہمارے اقتصادی پروجیکٹس کو طالبان کی پیش قدمی کے دوران کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے‘‘۔ فی الحال ترکی نے فوجوں کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ ابھی تک انقرہ میں ایسی ذمہ داری قبول کرنے کے مضمرات پر غور و خوض جاری ہے ، کہ کہیں ہمارا حشر ۱۹۸۷ء میں بھارت کی اُس امن فوج جیسا نہ ہو، جو ۱۹۸۷ء میں تقریباً ان ہی حالات میں سری لنکا میں حکومت اور تامل علیحدگی پسندوں کی مشترکہ اپیل پر امن قائم کرنے گئی تھی، مگر جلد ہی تامل ٹائیگرز کے ساتھ ان کی جھڑپیں شروع ہو گئیں اور بعد میں کولمبو کی حکومت بھی ان کے خلاف برسرِپیکار ہو گئی ۔
مغربی ممالک کا خیال ہے کہ چونکہ ترکی کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں ، اس لیے کابل میں کسی مستحکم اور پائیدار حکومت کے قیام تک اس کی فوج کی تعیناتی طالبان برداشت کرلیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت نیز سابق شمالی اتحاد کے اکثر رہنمائوں بشمول رشید دوستم اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں ۔ دوسری طرف طالبان کی پیش قدمی سے خوف زدہ اشرف غنی، بھارت اور افغانستان میں اس کے حوارین ایک بار پھر پاکستان کو کٹہرے میں لانے کی کوششیں کررہے ہیں اور ڈو مور اور مغربی ممالک کے ذریعے پاکستان پر دبائو بڑھانے کی فکر میں ہیں ، تاکہ وہ طالبان کی مدد کرنے سے باز رہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر ۲۰۱۹ء میں ہی امریکا کو ادراک ہو گیا تھا کہ اشرف غنی کی حکومت مذاکرات اور امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، تو ۲۰۲۱ءتک اس انتظامیہ کو بے دخل کرنے کےلیے کیوں انتظار کرایا گیا؟ کسی اتفاق رائے والی حکومت کا قیام عمل میں لائے بغیر فوجوں کے انخلا کا اعلان کرانا ملک کو ایک بار پھر شدید خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے مترادف تو نہیں ہے؟ ;
ان سوالات کا جواب یہی ہے کہ ۱۸۳۹ء سے ہی افغانستان میں یہی تاریخ بار بار دہرائی جاتی رہی ہے اور مغربی ممالک پچھلی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
کسی غیر جانب دار اور اتفاق رائے والی حکومت کے قیام کے بغیر امریکی فوجوں کے انخلا سے۱۹۸۸ء کے ’جنیوا معاہدے‘ کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ، جس کی رو سے سوویت فوجیں اپنے زخم چاٹتے ہوئے افغانستان سے واپس تو ہو گئیں ، مگر پیچھے ایک میدان کارزار چھوڑ کر چلی گئیں ۔ پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق، جو اس معاہدے کی تشکیل اور مذاکرات میں شامل تھے، اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی طرف سے واضح ہدایات تھیں ، کہ ’’کابل میں صدر نجیب اللہ کی کمیونسٹ حکومت کو بے دخل کرکے ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام تک، کسی بھی صورت میں سوویت فوجوں کا انخلا نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ مگر امریکا بھی اس وقت افغانستان میں ’جنیوامعاہدے‘ پر دستخط ثبت کرنے کےلیے بے چین تھا۔ اس کے خیال میں کابل میں پاکستان کی حمایتی اسلامی حکومت کے بدلے ایک لولی لنگڑی کمیونسٹ حکومت اس کے مفادات کےلیے بہتر ہے۔ امریکیوں کو خدشہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق کہیں افغانستان کو بنیاد بنا کروسطی ایشیا کو اسلامی رنگ میں رنگ نہ دیں ، کیونکہ جلد ہی سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور وسطی ایشیا کے ممالک آزاد ہونے والے تھے ۔ ’جنیوا معاہدے‘ پر دستخط کرنے کےلیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کےلیے امریکا نے ۱۲۰دن تک امداد پر پابندی بھی لگائی تھی۔
پاکستان چونکہ اس معاہدہ کو تسلیم کرنے پر ہچکچا رہا تھا، کہ اسی دوران ۱۰؍اپریل ۱۹۸۸ء کو راولپنڈی شہر کے قلب میں افغان مجاہدین کےلیے مخصوص اوجڑی کیمپ کے ایمو نیشن ڈپو میں خوفناک دھماکا ہوا ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہروں پر راکٹوں اور میزائیلوں کی بارش ہوئی، جس میں کم از کم۱۰۰؍ افراد ہلاک ہو گئے ۔ اس کے چار دن بعد، یعنی ۱۴؍اپریل کو جنیوا میں پاکستان، افغانستان، امریکا،سوویت یونین اور اقوام متحدہ کے مندوبین نے معاہدے پر دستخط کرکے سوویت فوجوں کے انخلا پر رضامندی ظاہر کی ۔
صدر ضیاء الحق نے اگرچہ اس کا خیر مقدم کیا، مگر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کو دیئے گئے انٹرویو میں وہ اپنی ناراضی چھپا نہیں سکے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’آخر پاکستان کس طرح نجیب اللہ حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کرسکتا ہے، جس کے ہاتھ افغانیوں کے خون سے رنگین ہیں؟‘‘ دستاویزات کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے نجیب اللہ کے بغیر دیگر کمیونسٹ لیڈرو ں اور مجاہدین پر مشتمل ایک عبوری حکومت کی تجویز بھی پیش کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس حکومت کے قیام کے بعد ہی ’جنیوا معاہدے‘ پر دستخط ہونے چاہییں۔ یہ امرواقعہ ہے کہ مجاہدین کمانڈروں یونس خالص اور گلبدین حکمت یار نے بڑے اصرار سے کمیونسٹوں کے ساتھ اقتدار میں شریک ہونے سے انکار کردیا تھا، مگر پاکستانی افسر بتاتے ہیں کہ نجی ملاقاتوں میں ان دونوں لیڈران نے آخرکار نرمی دکھائی تھی۔
’جنیوامعاہدے‘ کے فوراً بعد ہی پاکستان میں واقعات کا ایک تسلسل شروع ہوا ۔ ایک ماہ بعد، یعنی مئی میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا گیا اور پھر اگست میں خودجنرل ضیاء الحق طیارہ حادثے میں پُراسرار موت سے دوچار ہوگئے ۔ اس کے ساتھ ہی کابل پر قبضہ کرنے کےلیے کمیونسٹوں اور مجاہدین کے درمیان افغانستان میں جنگ کا آغاز ہوگیا ۔ ۱۹۹۲ء میں مجاہدین نے کابل کو فتح تو کرلیا، مگر اس کے بعد وہ اگست ۱۹۹۴ء تک آپس میں برسرپیکار رہے، تا آنکہ طالبان نے آکر ان سبھی گروپوں کو شکست دیتے ہوئے کابل پر قبضہ کرلیا ۔
اس سے قبل ۱۹۹۳ء میں مسجد الحرام میں مجاہدین لیڈروں نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی اور طے پایا تھا کہ اگلے ۱۸ماہ تک برہان الدین ربانی بدستور صدر رہیں گے اور گلبدین حکمت یار ان کے وزیر اعظم کے طور پر حکومت سنبھا ل لیں گے ۔ یہ معاہدہ سحری کے وقت مسجد الحرام میں سعودی فرمانروا شاہ فہد اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں طے پایا تھا اور اس کو مزید تقدس فراہم کرنے کےلیے اس کی ایک کاپی خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کی گئی۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ’’ چونکہ یہ معاہدہ، اسلام کی مقدس ترین جگہ پر طے پایا ہے، اسی لیے کسی کو اس کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہیں ہوگی ۔ اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو وہ اللہ کو جواب دہ ہوگا‘‘۔ مگر اس معاہدے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی، کہ خانہ جنگی میں ایک بار پھر شدت آگئی ۔ افغانستان جسٹس رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۴ءکے پہلے چھے ماہ میں ہی کابل میں ۲۵ہزار افراد ہلاک ہوگئے ۔ آئے دن شہر پر راکٹوں کی بارش ہو رہی تھی، جو اگست ۱۹۹۴ءکو طالبان کی آمد کے بعد ہی تھم سکی ۔ ۲۰۰۱ء کے آخر میں امریکی افواج نے طالبان کو کابل بدر کردیا ۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ۲۰۲۰ء میں امریکی خصوصی نمایندے زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے، تقریباً ۱۹سال قبل اپریل ۱۹۹۸ء کو امریکا کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن یہی کچھ طالبان رہنما ملا عمر سے منوا چکے تھے ۔ رائے گٹمین کی کتاب How We Missed the Story: Osama bin Laden, the Taliban, and the Hijacking of Afghanistan میں درج ہے کہ’’ طالبان نے نہ صرف جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی، بلکہ شمالی اتحاد کے ساتھ وہ گفت و شنید کےلیے بھی تیار ہو گئے تھے ۔ پاکستانی سفیر کی موجودگی میں رچرڈسن نے طالبان سے منوا لیا کہ ملک میں خواتین کےلیے تعلیمی ادارے کھل جائیں گے اور ہیلتھ ورکروں اور ڈاکٹروں کو خواتین کا معائنہ کرنے اور علاج کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس میں خواتین سے متعلق دیگر حقوق کی بھی باتیں درج تھیں‘‘ ۔ اور اب ۱۹ سال کے بعد ڈیڑھ لاکھ افغانوں کی ہلاکت، جس میں ڈھائی ہزار سے زیادہ امریکی فوجی بھی شامل ہیں اور دو اعشاریہ ۲۶۱کھرب ڈالر جھونکنے کے بعد دوحہ میں بھی تقریباً انھی باتوں کا اعادہ کیا گیا ۔
افغانستان میں یہ تاریخ دُہرانے کی شروعات ۱۸۳۹ءکی پہلی برطانوی فوج کشی سے ہوئی تھی ۔ اس فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو اقتدار سے ہٹانا اور اس کی جگہ پر اپنے حلیف شاہ شجاع کو تخت پر بٹھانا تھا ۔ یہ ہدف آسانی کے ساتھ پورا تو ہو گیا، مگر جلد ہی سردیوں کی آمد پر افغانیوں نے برطانوی فوجوں کا ایسا قتل عام کیا ، جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ہے ۔ برطانوی فوجوں نے کمک بلاکر اس کا بھر پور بدلہ چکایا ۔ کابل اور اس کے گر دو نواح میں کشت و خون کا بازار گرم کردیا۔ مؤرخ ولیم ڈال رمپل اپنی کتاب Return of a King: The Battle for Afghanistan میں رقم طراز ہیں کہ ’’اس قتل عام اور اجتماعی عصمت دری پر خود کئی برطانوی افسران بعد میں شرمسار تھے۔ خون ریزی کے طوفان کے بعد اب سوال تھا کہ کابل کے تخت پر کس کو بٹھایا جائے؟ شاہ شجاع کو قتل کردیا گیا تھا۔ قرعہ فال پھر دوست محمد کے نام نکلا، جس کو ہٹانے کےلیے تین سال قبل فوج کشی کی گئی تھی ۔ ۲۰ہزار فوجی گنوانے اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کے بعد بادشاہ دوست محمد کو باعزت طریقے سے واپس کابل بلا کر برطانیہ نے اقتدار اس کے حوالے کردیا ۔ برطانوی فوج کشی، سوویت یونین کے قبضے اور پھر امریکی فوجی مداخلت اور اب انخلا کسی قدیم یونانی ٹریجڈی تھیٹر کی داستان معلوم ہوتی ہے۔
بڑا سوال یہ ہے کہ کیا امریکی فوجوں کے انخلا سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوپائے گا یا یہ بدنصیب ملک مزید گرداب میں گھر جائے گا؟ آخر مغربی طاقتیں بار بار کیوں ایک ہی بل میں ہاتھ ڈالتی ہیں اور ہلاکتوں کے طوفان کے بعد پھر گھوم کر اسی نکتے پر لوٹ آتی ہیں؟ افغانستان میں ایک عوامی مستحکم حکومت کے قیام کے بدلے وہ آخر کیوں کرپٹ اور کمزور حکمرانوں کی پشت پناہی کرتے ہیں؟ ; ان کی اس حکمت عملی نے ایشیا کے اس دل کو بیمار کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس دل کو صحت مند بنانے کےلیے ضروری ہے کہ افغان عوام کو بلالحاظ قبائلی اور نسلی وابستگیوں کے با اختیار بنایا جائے ۔ انتخابات کے عمل کو شفاف اور پوری آبادی اور ملک سے باہر مہاجرین کو اس میں شامل کرایا جائے ۔ مزید یہ کہ پڑوسی ممالک کے جائز مفادات کا خیال رکھ کر ہی افغانستان کو مستحکم اور محفوظ بنایا جاسکتا ہے ۔ ایک مستحکم افغانستان یقینا براعظم ایشیا کے عروج کا نقیب ہوگا ۔