ڈاکٹر حسین احمد پراچہ | مئی ۲۰۲۱ | تعلیم و تعلّم، پاکستانیات
ہمارے ہاں بھی بہت عجیب معاملہ ہے۔ یہاں کوئی بھی شخص محض اپنے ذاتی ذوق کی تسکین کے لیے طے شدہ آئینی و قومی امور پر نقطۂ اعتراض اٹھا دیتا ہے اور عدالت جا پہنچتا ہے۔ وزیراعظم نے اس قوم کو یکساں نصابِ تعلیم کا خواب دکھایا۔ پھر تقریباً اڑھائی برس تک وزارتِ تعلیم کے افسروں اور ماہرین تعلیم نے اس مقصد کے لیے شب و روز کوششیں کیں۔ اور جیسے ہی یہ قومی نصاب آخری مراحل پر پہنچا ہے تو ہم وطن مذہبی اقلیتوں کے کچھ نمایندوں نے عدالت میں رٹ دائر کردی کہ ’’وزارتِ تعلیم کے مجوزہ نصابِ تعلیم میں اسلامی تعلیمات کو انگریزی اور اردو جیسے لازمی مضامین کا بھی حصہ بنایا گیا ہے۔ ہمارے نقطۂ نظر کے مطابق حمدونعت کو اردو نصاب میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے‘‘۔ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ یہ مسئلہ غیرمسلم اقلیت کا نہیں، مٹھی بھر سیکولر حضرات اور مراعات یافتہ اقلیت کا ہے، جو اپنے بچوں کو قومی نصاب نہیں غیرملکی نصاب پڑھانا چاہتی ہے تاکہ گذشتہ عشروں کی طرح اُن کے بچوں کی امتیازی شان اور پہچان الگ رہے۔
روزنامہ جنگ [۵؍اپریل ۲۰۲۱ء] میں محترم تجزیہ نگار انصار عباسی کے مطابق وزارتِ تعلیم کے ایک افسر نے بتایا ہے کہ ’’ایک طبقہ جان بوجھ کر کنفیوژن پھیلاکر، لازمی مضامین میں سے اسلامی نصاب نکالنے کی کوشش میں ہے‘‘۔ افسر موصوف نے کہا کہ ’’قرآنِ پاک صرف مسلمان طلبہ کو پڑھایا جائے گا، جب کہ لازمی مضامین میں شامل حمدونعت بھی صرف مسلمان طلبہ کے لیے ہی لازم ہوگی، جب کہ غیرمسلم طلبہ کے لیے نصاب کا یہ حصہ پڑھنا لازم نہ ہوگا، اور نہ اس بارے میں ان سے کوئی سوال پوچھا جائے گا‘‘۔ افسر وزارتِ تعلیم کی نمایندگی کرنے سپریم کورٹ میں گئے ہوں گے، جہاں وہ سپریم کورٹ کو مطمئن نہیں کر سکے۔ کیا ہمارے اعلیٰ بابوؤں کو اتنا بھی علم نہیں کہ حمدونعت اور مثنوی و مرثیہ اردو شاعری کے اہم ترین اجزا ہیں۔ مسلمان ہی نہیں، ہندو، سکھ اور دیگر ادیان سے تعلق رکھنے والے اردو شعرا نے نہایت اعلیٰ پائے کی ادبی نعتیں اور کئی حمدیہ نظمیں تخلیق کی ہیں۔ ان ادب پاروں کو اردو لٹریچر میں نہایت نمایاں مقام حاصل ہے۔یہ حمدونعت کے ادبی شاہکار مسلم و غیرمسلم طلبہ کے لیے یکساں طور پر ضروری ہیں۔ دلورام کوثری کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
کچھ عشقِ محمد میں نہیں شرطِ مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلبگارِ محمد
اُردو کی مشہور مثنوی ’گلزار نسیم‘پنڈت دیاشنکر نسیم کی لکھی ہوئی ہے۔ اس مثنوی کا آغاز حمدباری تعالیٰ اور نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے۔
سکھ شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
امریکا میں مقیم چند دوستوں سے امریکا کے سرکاری اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصابِ تعلیم کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ’’ہر امریکی بچے کو ایلیمنٹری اور جونیئر وسینئر ہائی سکول میں امریکا کی تاریخ کے اہم واقعات اور امریکا کے ہیروز کے بارے میں بہت کچھ پڑھایا جاتا ہے۔ اسکولوں کے لازمی مضامین میں بائبل کو بطورِ تاریخ، کلچر، لٹریچر اور ’اخلاقیات‘ پڑھایا جاتا ہے؛ البتہ بطورِ مذہب بائبل الگ پڑھائی جاتی ہے‘‘۔
جہاں تک ’اخلاقیات‘ کا تعلق ہے تو اسلامی اور دیگر ادیان کی اقدار حتیٰ کہ سیکولر تعلیمات میں بھی کوئی خاص فرق نہیں۔ مثلاً انگلش یا اردو میں اعلیٰ اخلاقی اقدار اور آدابِ معاشرت کا تذکرہ اگر اسلامی تعلیمات و تاریخ کی روشنی میں کیا جاتا ہے تو اس پر کسی غیرمسلم کو کیونکر اعتراض ہوگا۔
حیرت ہے کہ وزارتِ تعلیم کے افسران اور ہمارے سیکولر دانشوروں کو اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے، جس میں مذہب، سائنس، تاریخ، فلسفہ اور بہت کچھ شامل ہوتا ہے۔ ادب پارہ تخلیق کرتے ہوئے شاعر یا ادیب غیرفطری طریقے سے اپنے تخلیقی شاہکار میں مذہبی و آسمانی حوالوں کا داخلہ بند نہیں کرتا اور نہ ایسا ممکن ہے۔ برنارڈشا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ تاریخِ عالم میں جتنی پرکشش شخصیت محمد مصطفیٰﷺ کی ہے اتنی کسی اور کی نہیں، اسی لیے میں محمد (ﷺ) کو ساری دنیا کا نجات دہندہ سمجھتا ہوں۔ اب برنارڈشا کا ڈراما پڑھاتے ہوئے، انگریزی کا ٹیچر اسلام کے بارے میں ڈرامہ نگار کے خیالات بتائے گا تو ان تاریخی ریمارکس پر کسی غیرمسلم طالب علم کو کیوںکر اعتراض ہوگا؟
کیا ہم انگلش لٹریچر پڑھتے ہوئے جان ملٹن [م: ۱۶۷۴ء]کا ادبی شاہکار Paradise Lost اوراطالوی دانش ور دانتے الیگیری [م:۱۳۳۱ء] کا Divine Comedy کا تخلیقی ادب پارہ اس لیے نہیں پڑھیں گے کہ وہ مسیحی تعلیمات و عقائد کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں؟ اپنے قومی اہداف کی روشنی میں ہر قوم اپنی تاریخ، اپنے کلچر اور اپنی مذہبی و تہذیبی اقدار کی عکاسی کرنے والا قومی نصابِ تعلیم تشکیل دیتی ہے، جس میں اپنے ہیروز کے عظیم کارناموں سے نئی نسل کو متعارف کروایا جاتا ہے۔
دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے اسکولوں کے لازمی مضامین میں اسلامی اقدار اور قومی و ملّی شخصیات کا تذکرہ شامل کیا گیا ہے۔ ہمارے اسکولوں میں اسلامیات کو بطورِ لازمی مضمون پڑھایا جاتا ہے، جب کہ غیرمسلموں کے لیے اخلاقی تعلیمات کا الگ نصاب موجود ہے۔ تاہم، جس چیز کو اقلیت کے کچھ نمایندے اور ہمارے بعض سیکولر دانش ور اسلامی تعلیمات قرار دے رہے ہیں، وہ شاعری، ادب اور ہمارا تہذیبی و تاریخی ورثہ اور ہمارے قابل فخر ہیروز کے کارنامے ہیں۔ ان سب چیزوں کو اگر لازمی مضامین سے نکال دیا جائے تو پھر باقی کیا بچے گا۔ وزارتِ تعلیم کو چاہیے کہ وہ قومی و ملّی شعور رکھنے والے ماہرین تعلیم کی رہنمائی میں عدالت عظمیٰ میں اپنے موقف کو منطقی دلائل کے ساتھ پیش کریں۔
یاد رہے جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں ایک یکساں نصابِ تعلیم مرتب کروایا تھا اور اسے تمام سرکاری و پرائیویٹ اسکولوں میں رائج کرنے کی مکمل تیاری بھی کرلی گئی تھی مگر مراعات یافتہ ’اقلیت‘ کو اکثریت والی تعلیم نامنظور تھی۔ اس بااثر اقلیت نے بڑی ’معصومیت‘ یا چالاکی سے غیرممالک سے آنے والے پاکستانی بچوں کے لیے غیرپاکستانی نصاب پڑھانے والے انگلش میڈیم سکول قائم کرنے کی اجازت لے لی۔ اس ’اجازت نامے‘ کی آڑ میں ہر طرف سے غیرملکی نصاب والے اسکولوں کا ایک سیلاب آگیا۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ یکساں قومی نصاب کے معاملے میں کسی کو شب خون مارنے کی اجازت نہ دیں۔