نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا غزوہ، غزوئہ بدر ہے۔ ’غزوہ‘ عربی کا لفظ اور ’غزو‘ سے ماخوذ ہے۔ اس کا مفہوم ہے طلب کرنا ،قصد کرنا، ' کسی گروہ سے لڑائی کے لیے جانا۔اسی سے اردو میں عام مستعمل لفظ ’غاز ی‘ ہے۔ اسی سے مغز ی الکلام ہے،جس کا معنی کلام کا نچوڑ اور خلاصہ ہے ۔ مغازی سے مراد نبی کریم ؐ کی جنگی سیرت بھی ہے۔ غزوہ اصطلاحاً ایسی جنگ کو کہتے ہیں، جس میں حضور ؐ نے شرکت فرمائی،چاہے مسلح جنگ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ۔
علما مغازی و سیر کے نزدیک غزوات رسول کی تعداد ۲۷ہے، جن میں سے صرف ۹غزوات میں قتال پیش آیا ۔ آپ نے تقريبًا ۷۰ سرایا میں صحابہ کرام ؓ کو روانہ فرمایا۔ جن میں سے بعض کا مقصد جہاد کرنا اور بعض کا مقصد دعوت اسلام پیش کرنا تھا۔ غزوئہ بدر کی تفصیل وواقعات تو لوگ پڑھتے ہیں، لیکن اسباق کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ یہاں اس پہلو پر روشنی ڈالیں گے:
غزوۂ بدر تاریخِ اسلام کا اہم ترین واقعہ ہے، ' جو حق وباطل کے درمیان ایک کش مکش کے نتیجے کے طور پر معرضِ وجود میں آیا اور ایک عظیم الشان عالمگیر انقلاب کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ اس عظیم تاریخی غزوہ کے سب سلسلہ وار واقعات و اسباب کا گہری نظر سے جائزہ لیاجائے تو اِس میں علم و حکمت '، عبرت و موعظت ' اور احکامِ شریعت کا ایک گراںقدر خزینہ ملتا ہے؛ جس کا ایک ایک نکتہ اُمتِ مسلمہ کے لیے فلاحِ دارین کے سفر میں مشعلِ راہ کا کام دے سکتاہے ۔
حق وباطل '، خیر وشر،اسلام وجاہلیت کی حریفانہ کش مکش اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود انسان کا اپنا وجود۔ حق و باطل کا پہلا تصادم جنت میں ہوا تھا، جہاں آدمؑ وحوا ؑحق و صداقت کے علَم بردار ' اور شیطان ملعون ' شر و باطل کا نمایندہ تھا۔اس ٹکراؤ کے بعد اللہ تعالی نے اپنے اصل منصوبۂ تخلیق کے مطابق دونوں متحارب فریقوں کو کرۂ ارض پر اتار کر معرکہ آرائی کے لیے ایک وسیع و عریض میدانِ کارزار مہیا کردیا، جہاں خیر وشر کی طاقتوں کے مابین کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔
غزوۂ بدر بھی درحقیقت ' جنت سے شروع ہونے والے اسی معرکۂ خیر وشر کی ایک اہم کڑی تھی۔قرآن مجید نے اُس دِن کو جس میں یہ فیصلہ کن معرکہ پیش آیا، دو ناموں سے ذکر کیا ہے :
۱- یوم الفرقان: یعنی حق و باطل کے درمیان خطِ امتیاز کھینچنے کا دِن۔
۲- یوم التقی الجمعان: حق و باطل کے دو لشکروں کے تصادم اور ٹکراؤ کا دِن۔
اِس لحاظ سے یہ واحد ایسا معرکۂ حق و باطل ہے جس میں کفر و شر ک کے مدار المہام اِبلیسِ لعین نے بھی شرکت کی ' اور اپنے پیرو کاروں کو برملا یہ تسلی دی کہ میں تمھارے ساتھ ہوں ۔ قرآنِ مجید نے غزوئہ بدر میں اِس شرکت کا تذکرہ اِن الفاظ میں کیاہے:
وَاِذْ زَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ۰ۚ فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْہِ وَقَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللہَ۰ۭ وَاللہُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۴۸ۧ (الانفال ۸:۴۸)اور شیطان نے ان کے کرتوت ان کی نظروں میں مزین کردیئے اور کہنے لگا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔ میں تمھارے ساتھ ہوں۔پھر جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو وہ الٹے پاؤں بھاگ نکلا۔ کہنے لگا: میں تم سے بری الذمہ ہوں اور جو کچھ دیکھ رہاہوں وہ تم نہیں دیکھ رہے '۔ مجھے تو اللہ تعالیٰ سے ڈر لگ رہا ہے ' اور اللہ کی سزا بہت سخت ہے۔
غزوۂ بدر کا پہلا سبق یہ ہے کہ دشمن کی معاشی و اقتصادی قوت کو سب سے پہلے ضرب لگا کر تباہ کیا جائے '۔ جنگ ایک ایسا عمل ہے جسے شروع کرنا یا جاری رکھنا بے پناہ مالی و اقتصادی وسائل کا متقاضی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتصادی و مالی لحاظ سے کمزور و پسماندہ ممالک جنگ کا جھٹکا برداشت نہیں کرسکتے۔ جنگی حکمتِ عملی کا تقاضاہے کہ دشمن کی اقتصادی قوت کو مفلوج کردیاجائے تاکہ وہ میدانِ جنگ میں اترنے کی ہمت ہی نہ کرسکے '۔
نبی کریم ؐ نے بھی مدنی دور میں یہی حکمتِ عملی ' اپنے دشمنوں کے خلاف اختیار کی تھی۔ ' بخاری اور مسلم کی روایت کردہ صحیح حدیث میں ہے کہ یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے رئیس ' ثمامہ بن اثال ؓ حنفی ' گرفتار ہوکر مدینہ منورہ لائے گئے ' تو نبی کریم ؐ کے حسنِ سلوک سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے اور نبی کریم ؐ کی اجازت سے عمرہ کرنے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ ' دورانِ طواف کفار قریش کو معلوم ہوا کہ انھوں نے آبائی دین ترک کردیاہے تو انھیں طعنے دینے لگے:تم بھی بے دین ہوگئے؟ تو کہا کہ میں بے دین ہرگز نہیں ہوا بلکہ حضرت محمد ؐ پر ایمان لاکر مسلمان ہوا ہوں۔ پھر انھوں نے قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:خدا کی قسم! جب تک اللہ کے رسول ؐ اجازت نہیں دیںگے، یمامہ سے گندم کا ایک دانہ تمھارے لیے نہیں آئے گا۔ ' تم نے طوافِ کعبہ میں رکاوٹ ڈالی، میں تمھارا غلہ بند کردوںگا!چنانچہ وہ عمرہ سے واپس اپنے علاقہ میں پہنچے تو خوراک ' گندم وغیرہ کی فراہمی بند کردی اور مکہ میں قحط کی سی صورت حال پیدا ہونے لگی۔ قریش کی ساری اکڑفوں ہوا ہوگئی اور نبی کریم ؐ کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوگئے، اور نبی کریم ؐ سے ثمامہ بن اثال ؓ کے نام تحریری حکم جاری کروایا کہ ان کا غلہ و خوراک کی فراہمی بحال کردو۔ ' چنانچہ ثمامہ ؓ نے تعمیلِ حکم میں فوراً غلے کی فراہمی بحال کردی۔
اقتصادی بائیکاٹ کی ایک دلیل حضرت سعد بن معاذؓ کا واقعہ بھی ہے۔ ' وہ ایک مرتبہ فتح مکہ سے قبل ' سفر مکہ پر تشریف لے گئے اور اپنے قدیم دوست امیہ بن خلف کے ہاں قیام کیا۔ جن سے طے ہوا کہ طوافِ کعبہ ایسے وقت میں کیا جائے جب عام لوگ نہ ہوں تاکہ انھیں کوئی اذیت نہ پہنچے۔ چنانچہ عین دوپہر کے وقت شدید دھوپ میں جب وہ طواف کر رہے تھے تو اچانک ابو جہل نے ان کو دیکھ لیا اور پھٹ پڑا :تم لوگوں نے محمد کو حفاظت اور پناہ مہیا کر رکھی ہے ! اور یہاں ہمارے شہر میں آکر اتنے اطمینان سے طواف بھی کر رہے ہو؟انھوں نے کہا: ہاں کر رہا ہوں۔ ' پھر دونوں میں تلخ کلامی ہونے لگی، تو امیہ بن خلف نے حضرت سعدبن معاذؓ سے کہا: ابو الحکم وادیٔ مکہ کے سردار ہیں۔ ' ان کے سامنے اپنی آواز اونچی مت کرو۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے اس پر بڑے پُراعتماد لہجے میں کہا: اگر تم نے مجھے طوافِ بیت اللہ سے روکا تو میں تمھارا شام کا تجارتی راستہ بند کردوں گا۔
علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خبری ترسیل کے نظام کو فعال بنایا کہ قریش کے تجارتی قافلوں کی آمد و رفت اور نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔ چنانچہ آپ ؐ کو اطلاع دی گئی کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ شام سے کافی مالٍ تجارت لے کر واپس آرہاہے تو آپؐ نے لوگوں سے فرمایا:شاید اللہ تعالیٰ اس قافلے کو غنیمت کے طور پر ہمیں عنایت کردے۔ اس پر کچھ لوگ نکلے اور کچھ پیچھے رہ گئے کیونکہ صرف تجارتی قافلہ کو روکنا مقصود تھا، ' جس کے لیے کسی بڑی قوت کی ضرورت نہ تھی۔ مسلمانوں کی اِس خواہشِ قافلۂ تجارت کا ذکر قرآن مجید نے بھی کیا ہے:
(ترجمہ) ذرا وہ وقت بھی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرما رہے تھے کہ دونوں گروہوں، تجارتی قافلہ اور لشکر میں سے ایک ضرور تمھارے ہاتھ لگے گا اور تم دل سے یہ چاہ رہے تھے کہ وہ تمھارے ہاتھ لگے جو کِیل کانٹے سے لیس نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے فیصلوں سے حق کا بول بالا کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔(الانفال۸:۷)
دشمن کے تجارتی و اقتصادی مفادات کو ضرب لگانے کا سلسلہ نبی کریم ؐ نے جاری رکھتے ہوئے ' کئی فوجی مہمات محض اس مقصد سے روانہ فرمائیں کہ قریش کے تجارتی قافلوں کوروکیں، ان کا تجارتی مال قبضے میں لیں۔ ' اِ س کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کا معمول کا تجارتی راستہ جو آسان او ر قریب تھا اور مدینہ منورہ کی مغربی جانب سے گزرتاتھا، بالکل بند ہوکر رہ گیا۔ چنانچہ اب قریش نے مدینہ منورہ سے ہٹ کر ذرا دُو ر بجانبِ مشرق لیکن نسبتاً محفوظ راستہ اپنے تجارتی قافلوں کے لیے منتخب کیا تو نبی کریم ؐ کے خبررسانی کے نظام نے فوراً اطلاع دی اور نبیؐ نے نئے راستے پر بھی چھاپہ مار پارٹیاں بھیجنا شروع کردیں۔ 'انھی مہمات میں سے ایک مہم حضرت زید بن خالد ؓ کی سر کردگی میں روانہ کی گئی، جنھوں نے قریش کے تجارتی قافلے پرچھاپہ مارا، جو مدینہ منورہ کی مشرقی جانب سے ہوتاہو ا بچ کر نکلنا چاہ رہا تھا۔ حضرت زید ؓ کے اچانک چھاپہ سے وہ سخت گھبرائے۔ ان کا سارا مال و اسباب مسلمانوں نے قبضہ میں لے لیا۔ ' اس طرح شام کے ساتھ قریش کی تجارت تقریباً بند ہوکر رہ گئی۔
اس لیے سنتِ جہاد ' یہ ہے کہ مسلم امت، عوام، مجاہدین ' اور حکومت، برسرِجنگ دشمن کی اقتصادی طاقت اور معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کریں اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس کے نتیجے میں دشمن کو کوئی معاشی فائدہ یا اقتصادی مفاد حاصل ہوسکے۔ بر سرِ جنگ دشمن کے ساتھ ہر قسم کی تجارت ' یا دشمن کی افرادی قوت کو روزگار مہیا کرنایہ سب کام شرعاً ممنوع ہوجائیں گے‘‘۔اگر مسلمان ممالک یہ اہتمام کریں کہ اسلام اور مسلمانوں سے کھلی دشمنی رکھنے والے ممالک کے ساتھ درآمدی یا برآمدی تجارت نہیں کریں گے تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ اُن کی اقتصادی قوت کمزور ہونا شروع ہوجائے گی۔
فتح کا دارو مدار محض افواج کی کثرت ِ تعداد، ' عمدہ اسلحہ اور بہتر تیاری پر نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے فتح سے نواز دے اور جسے چاہے شکست سے دوچار کردے '۔ اگر فتح و کامیابی کثرتِ تعداد و اسلحہ پر موقوف ہوتی تو غزوئہ بدر میں لازما ًقریش کو فتح نصیب ہوتی کیونکہ لشکرِ اسلام کے مقابلے میں اُن کی تعداد تین گنا تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں بدترین شکست سے دوچار کیا۔ غزوئہ بدر میں یہ ایک بڑا سبق ہے جسے قرآن نے بھی اِن الفاظ میں بیان کیا:
(ترجمہ) یہ نزول ملائکہ تمھارے لیے صرف خوش خبری ' اِطمینانِ قلب کا ذریعہ ہے ' اور فتح ونصرت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو غالب و حکمت والا ہے۔(الانفال۸:۱۰)
غزوۂ بدر کوئی واحد مثال نہیں ہے، جس میں مٹھی بھر گروہ نے لشکرِ جرار پر فتح پائی ہو۔ فرمایا:
كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۲۴۹ (البقرہ۲:۲۴۹)بارہا ایسا ہواہے کہ ایک چھوٹی سی جماعت بڑی جماعت پر غالب آئی ہے اور اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے۔
غزوۂ بدر میں سبق کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں دشمن کی تعداد، 'اسلحہ، 'پڑاؤ ،نقل و حرکت اور عزائم وغیرہ کے بارے میں تازہ ترین اِطلاعات حاصل کرنے کے لیے خبررسانی کے نظام کو نہ صرف یہ کہ استعمال میں لایا گیا بلکہ نبی کریم ؐ نے بنفسِ نفیس اِس نظام میں شرکت فرما کر بہترین اسوہ قائم کیا۔ عسکری اور جہاد کے بارے میں اطلاعاتی و مخابراتی کارکنان کو شوق و ترغیب دلائی اور بذاتِ خود سرپرستی کرکے اس کی اہمیت کی جانب متوجہ کیا۔
نبی کریم ؐ، اللہ تعالیٰ کے سچے رسول تھے۔ آپؐ انسانی نفسیات سے گہری واقفیت رکھنے والے اور بہترین تنظیمی و عسکری صلاحیتوں کے مالک بھی تھے۔ مدینہ سے جہاد پرروانہ ہوتے وقت آپؐ نے اُس زمانے کے معروف حربی تنظیمی اصولوں کے مطابق اپنے لشکر کو ترتیب دیا، مناسب فرد کو مناسب جگہ ذمہ داری پر متعین کیا۔ پرچم عطا فرمائے۔ ' مختلف افراد اور قبائل میں مختلف ذمہ داریاں اِس طریقے سے تقسیم کیں کہ سب قبائل اور گروہوں کے ساتھ ساتھ افراد میں بھی اِحساسِ شراکت پیدا ہوا۔ آنحضوؐر زمانہ قبل از نبوت میں تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود کی تنصیب کے تنازعے کو حل کرکے عوام الناس میں حکمت وتدبر اور دانش مندی کے اونچے مرتبہ پر فائز تھے۔
نبی اکرم ؐ غزوئہ بدر کے لیے مدینہ منورہ سے نکلے تو حضرت عبد اللہؓ بن اُمِ مکتومؓ کو مسجد نبوی کا امام اور حضرت ابو لبابہؓ بن عبد المنذر کو مدینہ منورہ کا امیر مقررکیا۔ اس سے اسلام کی نظر میں اجتماعیت کی اہمیت و مقام معلوم ہوتاہے۔ در حقیقت اسلام نے ہر معاملے میں اجتماعیت کو ملحوظ رکھا ہے۔ عبادات میں نماز کی اجتماعی شان نمازِ باجماعت سے عیاں ہے۔ حتیٰ کہ آپؐ نے فرمایا: تین آدمی سفر پر نکلیں تو اپنے میں سے کسی ایک کو امیر مقررکرلیں۔
نبی کریم ؐ نے غزوئہ بدر میں افراد کار کی شدید کمی کے باوجود حضرت حذیفہؓ بن یمان اور ان کے والد کو محض اس لیے واپس کردیاکہ وہ قریش سے یہ وعدہ کرچکے تھے کہ ان کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہوںگے۔ رسول اکرم ؐ کے اس طرزِ عمل سے ایفائے عہد کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ آپؐ نے ساری حیاتِ طیبہ کے دوران اس اصول کی پابندی کی۔ ' صلحِ حدیبیہ کے موقعے پر حضرت ابو جندل ؓ اور بعد میں ابو بصیر ؓنہایت مظلومیت کی حالت میں قریش کی قید سے نکل کر مسلمانوں تک پہنچنے میں بمشکل کامیاب ہوئے اور بار بار عاجزانہ درخواستیں کیں کہ اُن کو قریش کے حوالہ نہ کیا جائے، لیکن باوجود اس کے کہ خود آپؐ کو ان پر ترس آتا تھا۔ لیکن آپؐ نے رحمت للعالمین اور نبی رؤف و رحیم ہونے کے باوجود معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے، ان کو واپس قریش کے حوالے کردیا۔یہ در اصل عملی تعلیم تھی کہ وعدہ اگر دشمن سے بھی کیاجائے تو اسے نبھانا اور پورا کرنا لازم ہے ۔ بالخصوص اگر عہد یا معاہدہ بین الاقوامی سطح پر غیر مسلموں کے ساتھ ہو تو اس کی پابندی نہایت ضروری ہے اور ایک اِسلامی ریاست کے خارجہ پالیسی کا طرۂ امتیاز ہی ایفائے عہد اور معاہدات کی پابندی ہونا چاہیے۔
نبی کریم ؐ غزوۂ بدر کے لیے مدینہ منورہ سے باہر نکل چکے تھے کہ عرب کا مشہور قوی الجثہ ' طاقت ور ' پہلوان حاضر ہوا اور پیش کش کی وہ بھی آپؐ کے ساتھ جنگ میں شریک ہوکر قریش کے خلاف لڑنا چاہتاہے ۔ نبی ؐ نے اُس کی پیش کش قبول نہ فرمائی اور حکمت کے ساتھ اس کے سامنے اِسلام قبول کرنے کی دعوت پیش کی اور مسلمان ہوجانے کی صورت میں جنگ میں شرکت کا موقع دینے کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ اُس شخص نے اِسلام قبول کرلیا اور پھر جہاد میں شرکت کی ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ غزوئہ بدر حق وباطل کے مابین پہلا فیصلہ کن معرکہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چاہتے تھے کہ مجاہدین حق کے لشکر میں باطل کی آمیزش کسی بھی انداز میں واقع ہو۔ کسی غیر مسلم قوت کے خلاف جہاد میں ' کسی دوسری غیر مسلم قوت سے کسی بھی طر ح کی امداد حاصل کرنا شرعا اگرچہ ناجائز نہیں تھا، لیکن نبی کریم ؐ، غزوئہ بدر کے نظریاتی پہلو کو نکھارنے کی خاطر کسی غیر مسلم کو اس میں شرکت کی اجازت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔
غزوۂ بدر کے موقع پر نبی کریم ؐ نے بچوں او ر نابالغوں کو جنگ میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی ' اور سب کم عمر بچوں کو واپس کردیا، اِلا یہ کہ کسی نے رضاکارانہ اپنی خدمات پیش کرکے شرکت پر اصرار کیا تو آنحضور ؐ نے بعض حالتوں میں اجازت دی۔ عام قاعدہ اور اصول یہی تھا کہ کم عمر بچوں کو جنگ میں شریک نہ کیاجائے۔ یورپی معاشرہ چودہ صدیاں بعد اگر بچوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کاغذی معاہدوں تک پہنچ سکا ہے تو نبی رحمتؐ نے غزوئہ بدر میں ہی بچوں کے حقوق کی عملاً حفاظت کی بہترین مثال قائم کی جس کی پابندی نبی کریم ؐ کے امتی ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔
تاہم، جو نوجوان سنِ شعور و تمیز کو پہنچ جائیں اور جہاد کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے '، 'محض رضائے الٰہی کے لیے حصہ لینا چاہیں، تو انھیں اجازت دی گئی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی معاملات میں بچوں کی بھی ' بہرحال ایک اہمیت ہے اور بعض اوقات یہ ایسے کارنامے سرانجام دیتے ہیں جو بڑوں کے بس میں بھی نہیں ہوتے اور نوجوان تو بہرحال ہراوّل دستہ ہیں۔
اسلام دین فطرت و رحمت ہے اور اپنے پیروکاروں پر سختی و تنگی کرنا نہیں چاہتابلکہ صاحبِ عذر 'کمزوروں اور بیماروں کو اپنے احکامات میں ہر ممکن ' مناسب رعایتیں دیتاہے۔ جملہ شرعی احکامات میں انسان کی تمام فطری کمزوریوں اور مجبوریوں کی بھرپور رعایت دیتا ہے اور ایسے تمام افراد کو جہاد میں شرکت کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے جو بیمار یا معذور ہوں یا دوسری کسی واقعی مجبوری میں گرفتار ہونے کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہو سکتے ہوں۔ ' اسی وجہ سے غزوئہ بدر میں نبی کریم ؐ نے دو نابینا صحابہ کرامؓ ابواحمد عبد بن جحش اور ابن اُمِ مکتوم رضی اللہ عنہما کو شرکت سے استثنا دیا،اور حضرت عبد اللہ بن اُمِ مکتوم ؓ کو مسجد نبوی کا امام مقررکردیا۔
میدانِ عمل میں بھی آپ ؐ نے مساوات اور برابری کابے مثال نمونہ پیش کیا۔ ' ہر موقعے پر صحابہ کرام ؓ کے شانہ بشانہ کام کیا ' اور اپنے لیے کبھی کوئی امتیازی حیثیت پسند نہ کی۔ ' غزوئہ بدر میں آپ کے ساتھ سواری کی باری میں دو صحابی حضرت علی بن ابی طالبؓ اور حضرت مرثد بن ابی مرثد ؓ شریک تھے۔ دونوں نے اپنی باری پر نبی ؐ کو سوار ہونے کی پیش کش کی، جو آپ ؐ نے قبول نہ کی اور فرمایا:تم جسمانی قوت و طاقت میں مجھ سے زیادہ ' یا بڑھ کر نہیں ہو اور میں اخروی اجر سے بے نیاز و مستغنی بھی نہیں ہوں۔ اس لیے میں اپنی باری پر پیدل چلوں گا۔ ' حالانکہ اس وقت آپ کی عمر ۵۵برس تھی۔ آپ کا یہ نمونہ دیکھ کر ساتھیوں کے جوش و جذبے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں اور جس فوج یا لشکر کا قائد رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر عملاً ' مصائب و تکالیف برداشت کرے، اس کے ساتھی میدان جنگ میں کبھی پیچھے نہیں رہ سکتے۔ آپ ؐ کی اسی تواضع، ' انکساری، ' مساوات ' و برابری کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرامؓ آپؐ کے ایک اشارے کے منتظر رہتے تھے،اور احکام و ارشاداتِ عالیہ کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑتے تھے۔
اجتماعی امور میں مشاورت انسانی اقدار میں سے ایک بہترین قدر ہے، جس کو اسلام نے صرف برقرار ہی نہیں رکھا بلکہ اس بارے میں مفصل احکامات و ضوابط بھی عنایت فرمائے ہیں: شوریٰ کامقصدیہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں کوئی شخص انفرادی سوچ و ارادے کے تحت قدم نہ اٹھائے، جب تک سب متعلقہ لوگوں سے مشاورت نہ کرلے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک فرد کے مقابلے میں کئی افراد کی رائے کے درست اور اقرب الی الصواب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ' پھر یہ کہ مشاورت میں زیر بحث معاملات کے تمام مثبت اور منفی پہلو کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ خوبیاں اور مثبت پہلو، شرکائے شوریٰ کو حوصلہ دیتے ہیں،جب کہ مشکلات اور رکاوٹوں کا حل تلاش کیا جاتاہے۔ اس طرح ایک معاملے کوجب کئی افراد مختلف انداز نظر سے دیکھتے اور مل کر سوچتے ہیں تو اس کا کوئی پہلو بھی تشنہ اور مخفی نہیں رہتا۔ ' اس لیے اسلام کی ہدایت یہ ہے کہ اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی معاملات میں بھی مشاورت کا اصول اپنایا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ اس اصول کی پابندی فرمائی۔
غزوئہ بدر کے موقعے پر نبی کریم ؐ نے مدینہ منورہ سے باہر نکل کر ' قافلۂ تجارت کے ہاتھ سے چھوٹ جانے پر ' اور لشکر ِ کفار سے جنگ کے معاملہ میں صحابہ کرامؓ بالخصوص انصار سے مشورہ کیا۔ ' پھر میدانِ بدر میں لشکر کے پڑاؤ کے سلسلے میں حضرت خباب بن المنذر کا ماہرانہ مشورہ قبول فرمایا۔ پھر آپ ؐ نے اسیرانِ قریش جو جنگ ِ بدر میں گرفتار ہوئے تھے، ان ' کے مسئلے میں صحابہ کرامؓ بالخصوص دستیاب اہل الرائے حضرات سے مشورہ کیا۔آپؐ کا یہ طرزِ عمل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اجتماعی معاملات بالخصوص عسکری امور میں مشاورت ضروری ہے۔
حضرت حباب بن المنذر ؓ نے اپنی رائے جس خلوص سے پیش کی، وہ ' ایک مسلمان کے لیے اتباع کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے یہ معلوم کیا کہ جس جگہ آپ ؐ نے پڑاؤ کیا ہے، ' آیا اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا ہے جس کی تعمیل شرطِ اِیمان ہے اور اس سے سرِ مُو سرتابی کی گنجایش نہیں ہے یا محض جنگی تدبیر اور حکمت عملی کے تحت ' از خود اپنی رائے سے اس جگہ کا انتخاب کیا ہے؟ جب نبی ؐ نے فرمایا کہ یہ محض رائے ہے، ' وحی پر مبنی کوئی فیصلہ یا قطعی حکم نہیں ہے، تب حضرت خباب بن المنذر ؓ نے اپنی رائے پیش کرنے کی جرأت کی ۔ ان کا یہ طرزِ عمل نبوی تربیت کا نتیجہ تھا۔ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور عام مسلمان ' اپنی عمومی زندگی میں اس قاعدہ کلیہ اور شرعی اصول کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے تھے کہ جن معاملات میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کاحکم یا فیصلہ سامنے آجاتا یا معلوم ہوجاتا، تو غیر مشروط طور پر مانتے اوربلا چون و چرا سرِ اطاعت و تسلیم خم کرتے تھے۔ ' فوری طور پر اگر اس کی حکمتیں سمجھ نہ آتیں اور فوائد معلوم نہ ہوتے تب بھی حکم بجا لاتے۔
حضرت حباب بن المنذر ؓکے واقعے میں ایک تربیتی نکتہ آداب مشاورت سے متعلق یہ بھی ہے کہ اپنی ایمان دارانہ رائے اور مخلصانہ مشورہ کو متعلقہ لوگوں تک پہچانے میں بخل ، سستی یا کاہلی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ جہاں ضرورت محسوس کرے از خود ' بغیر طلب کیے آگے بڑھ کرخیر پرمبنی رائے اور مشورہ پیش کردینا چاہیے۔قائدین ' کوبھی چاہیے کہ معاشرے کے سمجھ دار، ' اہل الرائے اور ماہرین سے متعلقہ معاملات میں مشاورت کرتے رہیں اور جب ان میں کوئی از خود بغیر طلب کیے اپنی رائے یا مشورہ پیش کرے تو اسے خندہ پیشانی سے قبول کرے۔ متعلقہ مشیر اور ماہر کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے قائد و سالار ' اور افسرِ بالا کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھے اور پورے ادب و احترام سے اپنی رائے دلائل کے ساتھ پیش کرے اور یہ نہ سمجھے کہ میری رائے ہی حتمی طور پر درست اور صحیح ہے اور اس پر لازماً عمل ہونا چاہیے بلکہ اُسے اپنی رائے دلیل کے ساتھ پیش کرنے کوشش کرنا چاہیے۔
غزوئہ بدر سے پہلے والی ساری رات، نبی کریم ؐ نے جاگ کر ' اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں عاجزی کے ساتھ روتے ہوئے گزاری۔ آپؐ ساری رات لشکرِاِسلام کی فتح و نصرت کی دعائیں کرتے رہے ۔ آپؐ سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا گیا تھا اور آپؐ کو کامل یقین تھاکہ اللہ تعالیٰ کی مدد ضرور آئے گی اور یقینا فتح حاصل ہوگی، لیکن چونکہ آپؐ عبدیت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، اس لیے اس نازک اور مشکل وقت میں آپؐ پر خشوع و خضوع کی بہترین کیفیت طاری ہوگئی۔ اس طرح گویا آپ ؐ نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی کہ دعوت ِ حق کے مجاہدین کو چاہیے کہ جس قدر ممکن ہو اسباب و وسائل مہیا کریں۔ پھر جو دستیاب ہوسکیں، انھیں بھرپور طریقے سے استعمال کریں لیکن اس کے باوجود ان کا بھروسا مادی اسباب و و سائل پر نہیں ہوناچاہیے، بلکہ اصل اعتماد اور بھروسا اللہ تعالیٰ اور اس کی مدد و نصرت پر ہوناچاہیے، کیونکہ سب کچھ اسی کی عنایت و توفیق سے ہوتاہے۔ اگر اس کی مشیت نہ ہو تو تمام اسباب و وسائل کے ہوتے ہوئے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و توفیق اور مدد و نصرت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ دعا ہے۔ دعا مومن کا سب سے مضبوط اور مؤثر ہتھیار ہے، جو ہر مشکل گھڑی میں اُس کے کام آتاہے۔
غزوۂ بدر میں رسولؐ اللہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نہایت خشوع و خضوع ' اور عاجزی و انکساری کے ساتھ ' اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت اور مدد کی دعائیں مانگیں۔ ' اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعائیں قبول فرما کر غیبی مدد و نصرت عطا فرمائی۔
غزوۂ بدر میں عین میدان جنگ میں ' صف آرائی کے موقعے پر نبی کریم ؐ نے حضرت سواد بن غزیہ انصاری ؓ کے مطالبے پر خود کو قصاص کے لیے پیش کیاکہ اپنا بدلہ مجھ سے لے لیں۔ اس میں آج کے قائدین، ' کمانڈروں ' اور حکمرانوں کے لیے چشم کشا اسباق پوشیدہ ہیں۔
اس سے پتہ چلا کہ حقوق العباد، بالفاظِ دیگر:انسانی حقوق کا معاملہ بے حد اہم ہے۔ کسی بھی انسان کا شخصی حق اس وقت تک ساقط نہیں ہوتا جب تک صاحبِ حق معاف نہ کردے یا ادائیگی نہ کردی جائے۔ یہ ادائیگی و بہم رسانی طلب کیے جانے پر ہر حال میں ہوگی اور انسانی حقوق کسی حالت و صورت میں معطل و ساقط نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ خالقِ کائنات کا عطیہ و ہبہ ہیں، کسی انسان کے عطا کردہ نہیں ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں ایک عام فرد اور جوان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیرمعمولی اور ہنگامی ' ایمرجنسی حالات میں بھی اپنا حق سربراہِ حکومت و مملکت اور مسلح افواج کے کمانڈر اِنچیف سے بھی سے طلب کرسکتاہے ۔
جس شخص سے کسی حق کی ادائیگی ' یا شکوہ شکایت کی تلافی مطلوب ہے ، اُسے خوش دلی اور خندہ پیشانی سے متعلقہ اتھارٹی کے ذریعے یا از خود براہ ِ راست ' مظلوم یا متأثرہ پارٹی کو اس کا حق دے دینا چاہیے۔ اگر اس سلسلہ میں عدلیہ یا کسی دوسرے ادارے کے سامنے پیش ہوناپڑے ' تو مضائقہ نہیں اور قانون و عدالت کے سامنے پیشی سے کسی کو بھی استثناء یا قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے کیونکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔
کسی بھی کام کو بہتر ین اور اچھے انداز میں کروانے کااس سے زیادہ بہتر کوئی نسخہ نہیں کہ اس کے لیے کوئی انعام مقرر کردیاجائے۔ ' انسانی فطرت و نفسیات اور انسانوں کی تنظیم و مینجمنٹ کا اِدراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ افراد ِ اِنسانی کو ایک لڑی میں پرونا اور اُن سے کوئی بڑا کام لینا ' کتنا مشکل کام ہے۔ لیکن یہی مشکل کام ' انعامات اور حسنِ کارکردگی پر حوصلہ افزائی سے آسان اور بہترین صورت میں سر انجام پاتاہے۔ دشمن کے ساتھ جنگ کی صورت میں تو ویسے بھی ہر آدمی اپنی اور اپنے متعلقین نیز مال و جایداد کی حفاظت اور حملہ آور دشمن سے مقابلے کے جذبات سے بھرا ہوتاہے۔ ایسے میں اگر اُسے مزید حوصلہ افزائی و امید دلائی جائے تو یقینا اس کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے '۔ جنگ ِ بدر میں نبی کریم ؐ نے اسی انسانی نفسیات و اصولِ تنظیم کو پیش نظر رکھا۔ آپ ؐ نے بہادری وحسنِ کارکردگی پر انعامات کا پیشگی اِعلان کیا۔رسولؐ اللہ نے غزوئہ بدر کے موقعے پر اپنے اِعلان سے صحابہ کرامؓ میں زبردست جوش وخروش پیدا کردیا اور وہ اس ولولے کے ساتھ دشمن پر جھپٹے کہ صفوں کی صفیں الٹ دیں اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتحِ عظیم سے نوازا ۔
رسولؐ اللہ اور آپؐ کے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی جانوں اور مالوں کا سودا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ' جنت کے عوض کر چکے تھے۔ ' انھوں نے اپنی وفاداریوں کا مرکز و محور اللہ اور اس کے رسول ؐ کو بنا لیا تھا۔ ' دین و اِیمان اور عقیدے کے رشتہ کے علاوہ سب رشتوں 'ناتوں اور تعلقات کو ثانوی حیثیت ہی نہیں دی بلکہ ان کو مکمل طور پر ختم کردیاتھا۔ اسی لیے تو مصعب بن عمیر ؓ غزوئہ بدر کے موقعے پر اپنے حقیقی بھائی ابوعزیز کو مخاطب کر کے کتنی سچی اور کھری بات کہتے ہیں: تم نہیں بلکہ تمھیں گرفتار کرنے والے صحابی محرز ابو الیسر میرے بھائی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے بیٹے عبد الرحمٰن کو قتل کرنے دوڑے۔ ' حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو اپنے ہاتھوں جہنم رسید کیا۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓنے اپنے والد عبد اللہ بن الجراح کو قتل کرکے ' ثابت کیا کہ ایمان کا تعلق ہی اصل اور حقیقی تعلق ہے، اور اسی تعلق کی بنیاد پر اُن کی دوستیاں اور دشمنیاں ہیں۔ ' اگر اپنے حقیقی رشتہ دار، ' ماں باپ، 'اولاد، میاں ' بیوی یا پورا قبیلہ برادری بھی کفار اور دشمنانِ دین کی صف میں ہوتے تو اُن سے قطعِ تعلق میں تاخیر نہیں کرتے تھے۔ یہی ایمان مطلوب ہے اور ایسے لوگ ہی قرآن کی زبان میں ’حزب اللہ‘ کے ارکان شمار ہوتے ہیں۔
نبی کریم ؐ پر پہلی وحی إقرأ کے الفاظ میں نازل ہوئی،جس میں پڑھنے کا حکم دیاگیاتھا۔ اس سے اِسلام کی نظر میں تعلیم اور خواندگی کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ نبی کریم ؐ نے غزوئہ بدر میں قید ہوکر آنے والے کفار سے جو فدیہ نہیں دے سکتے تھے، ' انصار کے بچوں کی تعلیم اور لکھائی پڑھائی سکھانے کا جو کام لیا، اس سے ایک طرف آپ کی رحمت و شفقت اور مثبت و مفید سوچ کا اِظہار ہوتاہے، ' وہیں آپؐ کی نظر میں خواندگی اور تعلیم کی اہمیت کا پتہ بھی چلتاہے۔ آپؐ نبی اُمی ضرور تھے لیکن اُمت کی تعلیم و خواندگی کی بہت فکر کرتے تھے ۔
ابو العاص بن الربیع کو فدیہ سے مستثنیٰ قرار دینے کی جو بات آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمائی، اس میں اپنے ساتھیوں کی تالیفِ قلب کے ساتھ ساری امت کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے کہ امت کے حکمرانوں ' اور بیت المال کے منتظمین سمیت کسی بھی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ بیت المال کو اپنے ذاتی و شخصی یا خاندانی مفادات کے لیے استعمال کرے۔ یہ بیت المال عامۃ الناس کی ملکیت ہے اور اس میں تصرف کے لیے مالک کی اجازت ضروری ہے، ورنہ اس کا تصرف خیانت میں شمار ہوگا۔
غزوئہ بدر، تاریخِ اسلام کا عظیم ترین سنگ ِ میل ہے۔ اس عظیم الشان غزوہ سے منسوب یہ چند اسباق ہمیں متوجہ کرتے ہیں کہ اسلامی تاریخ اور سیرتِ مطہرہؐ کے تمام واقعات اپنے اندر درس و رہنمائی کا ایک اَنمول خزانہ رکھتے ہیں۔