نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا غزوہ، غزوئہ بدر ہے۔ ’غزوہ‘ عربی کا لفظ اور ’غزو‘ سے ماخوذ ہے۔ اس کا مفہوم ہے طلب کرنا ،قصد کرنا، ' کسی گروہ سے لڑائی کے لیے جانا۔اسی سے اردو میں عام مستعمل لفظ ’غاز ی‘ ہے۔ اسی سے مغز ی الکلام ہے،جس کا معنی کلام کا نچوڑ اور خلاصہ ہے ۔ مغازی سے مراد نبی کریم ؐ کی جنگی سیرت بھی ہے۔ غزوہ اصطلاحاً ایسی جنگ کو کہتے ہیں، جس میں حضور ؐ نے شرکت فرمائی،چاہے مسلح جنگ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ۔
علما مغازی و سیر کے نزدیک غزوات رسول کی تعداد ۲۷ہے، جن میں سے صرف ۹غزوات میں قتال پیش آیا ۔ آپ نے تقريبًا ۷۰ سرایا میں صحابہ کرام ؓ کو روانہ فرمایا۔ جن میں سے بعض کا مقصد جہاد کرنا اور بعض کا مقصد دعوت اسلام پیش کرنا تھا۔ غزوئہ بدر کی تفصیل وواقعات تو لوگ پڑھتے ہیں، لیکن اسباق کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ یہاں اس پہلو پر روشنی ڈالیں گے:
غزوۂ بدر تاریخِ اسلام کا اہم ترین واقعہ ہے، ' جو حق وباطل کے درمیان ایک کش مکش کے نتیجے کے طور پر معرضِ وجود میں آیا اور ایک عظیم الشان عالمگیر انقلاب کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ اس عظیم تاریخی غزوہ کے سب سلسلہ وار واقعات و اسباب کا گہری نظر سے جائزہ لیاجائے تو اِس میں علم و حکمت '، عبرت و موعظت ' اور احکامِ شریعت کا ایک گراںقدر خزینہ ملتا ہے؛ جس کا ایک ایک نکتہ اُمتِ مسلمہ کے لیے فلاحِ دارین کے سفر میں مشعلِ راہ کا کام دے سکتاہے ۔
حق وباطل '، خیر وشر،اسلام وجاہلیت کی حریفانہ کش مکش اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود انسان کا اپنا وجود۔ حق و باطل کا پہلا تصادم جنت میں ہوا تھا، جہاں آدمؑ وحوا ؑحق و صداقت کے علَم بردار ' اور شیطان ملعون ' شر و باطل کا نمایندہ تھا۔اس ٹکراؤ کے بعد اللہ تعالی نے اپنے اصل منصوبۂ تخلیق کے مطابق دونوں متحارب فریقوں کو کرۂ ارض پر اتار کر معرکہ آرائی کے لیے ایک وسیع و عریض میدانِ کارزار مہیا کردیا، جہاں خیر وشر کی طاقتوں کے مابین کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔
غزوۂ بدر بھی درحقیقت ' جنت سے شروع ہونے والے اسی معرکۂ خیر وشر کی ایک اہم کڑی تھی۔قرآن مجید نے اُس دِن کو جس میں یہ فیصلہ کن معرکہ پیش آیا، دو ناموں سے ذکر کیا ہے :
۱- یوم الفرقان: یعنی حق و باطل کے درمیان خطِ امتیاز کھینچنے کا دِن۔
۲- یوم التقی الجمعان: حق و باطل کے دو لشکروں کے تصادم اور ٹکراؤ کا دِن۔
اِس لحاظ سے یہ واحد ایسا معرکۂ حق و باطل ہے جس میں کفر و شر ک کے مدار المہام اِبلیسِ لعین نے بھی شرکت کی ' اور اپنے پیرو کاروں کو برملا یہ تسلی دی کہ میں تمھارے ساتھ ہوں ۔ قرآنِ مجید نے غزوئہ بدر میں اِس شرکت کا تذکرہ اِن الفاظ میں کیاہے:
وَاِذْ زَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ۰ۚ فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْہِ وَقَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللہَ۰ۭ وَاللہُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۴۸ۧ (الانفال ۸:۴۸)اور شیطان نے ان کے کرتوت ان کی نظروں میں مزین کردیئے اور کہنے لگا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔ میں تمھارے ساتھ ہوں۔پھر جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو وہ الٹے پاؤں بھاگ نکلا۔ کہنے لگا: میں تم سے بری الذمہ ہوں اور جو کچھ دیکھ رہاہوں وہ تم نہیں دیکھ رہے '۔ مجھے تو اللہ تعالیٰ سے ڈر لگ رہا ہے ' اور اللہ کی سزا بہت سخت ہے۔
غزوۂ بدر کا پہلا سبق یہ ہے کہ دشمن کی معاشی و اقتصادی قوت کو سب سے پہلے ضرب لگا کر تباہ کیا جائے '۔ جنگ ایک ایسا عمل ہے جسے شروع کرنا یا جاری رکھنا بے پناہ مالی و اقتصادی وسائل کا متقاضی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتصادی و مالی لحاظ سے کمزور و پسماندہ ممالک جنگ کا جھٹکا برداشت نہیں کرسکتے۔ جنگی حکمتِ عملی کا تقاضاہے کہ دشمن کی اقتصادی قوت کو مفلوج کردیاجائے تاکہ وہ میدانِ جنگ میں اترنے کی ہمت ہی نہ کرسکے '۔
نبی کریم ؐ نے بھی مدنی دور میں یہی حکمتِ عملی ' اپنے دشمنوں کے خلاف اختیار کی تھی۔ ' بخاری اور مسلم کی روایت کردہ صحیح حدیث میں ہے کہ یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے رئیس ' ثمامہ بن اثال ؓ حنفی ' گرفتار ہوکر مدینہ منورہ لائے گئے ' تو نبی کریم ؐ کے حسنِ سلوک سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے اور نبی کریم ؐ کی اجازت سے عمرہ کرنے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ ' دورانِ طواف کفار قریش کو معلوم ہوا کہ انھوں نے آبائی دین ترک کردیاہے تو انھیں طعنے دینے لگے:تم بھی بے دین ہوگئے؟ تو کہا کہ میں بے دین ہرگز نہیں ہوا بلکہ حضرت محمد ؐ پر ایمان لاکر مسلمان ہوا ہوں۔ پھر انھوں نے قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:خدا کی قسم! جب تک اللہ کے رسول ؐ اجازت نہیں دیںگے، یمامہ سے گندم کا ایک دانہ تمھارے لیے نہیں آئے گا۔ ' تم نے طوافِ کعبہ میں رکاوٹ ڈالی، میں تمھارا غلہ بند کردوںگا!چنانچہ وہ عمرہ سے واپس اپنے علاقہ میں پہنچے تو خوراک ' گندم وغیرہ کی فراہمی بند کردی اور مکہ میں قحط کی سی صورت حال پیدا ہونے لگی۔ قریش کی ساری اکڑفوں ہوا ہوگئی اور نبی کریم ؐ کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوگئے، اور نبی کریم ؐ سے ثمامہ بن اثال ؓ کے نام تحریری حکم جاری کروایا کہ ان کا غلہ و خوراک کی فراہمی بحال کردو۔ ' چنانچہ ثمامہ ؓ نے تعمیلِ حکم میں فوراً غلے کی فراہمی بحال کردی۔
اقتصادی بائیکاٹ کی ایک دلیل حضرت سعد بن معاذؓ کا واقعہ بھی ہے۔ ' وہ ایک مرتبہ فتح مکہ سے قبل ' سفر مکہ پر تشریف لے گئے اور اپنے قدیم دوست امیہ بن خلف کے ہاں قیام کیا۔ جن سے طے ہوا کہ طوافِ کعبہ ایسے وقت میں کیا جائے جب عام لوگ نہ ہوں تاکہ انھیں کوئی اذیت نہ پہنچے۔ چنانچہ عین دوپہر کے وقت شدید دھوپ میں جب وہ طواف کر رہے تھے تو اچانک ابو جہل نے ان کو دیکھ لیا اور پھٹ پڑا :تم لوگوں نے محمد کو حفاظت اور پناہ مہیا کر رکھی ہے ! اور یہاں ہمارے شہر میں آکر اتنے اطمینان سے طواف بھی کر رہے ہو؟انھوں نے کہا: ہاں کر رہا ہوں۔ ' پھر دونوں میں تلخ کلامی ہونے لگی، تو امیہ بن خلف نے حضرت سعدبن معاذؓ سے کہا: ابو الحکم وادیٔ مکہ کے سردار ہیں۔ ' ان کے سامنے اپنی آواز اونچی مت کرو۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے اس پر بڑے پُراعتماد لہجے میں کہا: اگر تم نے مجھے طوافِ بیت اللہ سے روکا تو میں تمھارا شام کا تجارتی راستہ بند کردوں گا۔
علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خبری ترسیل کے نظام کو فعال بنایا کہ قریش کے تجارتی قافلوں کی آمد و رفت اور نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔ چنانچہ آپ ؐ کو اطلاع دی گئی کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ شام سے کافی مالٍ تجارت لے کر واپس آرہاہے تو آپؐ نے لوگوں سے فرمایا:شاید اللہ تعالیٰ اس قافلے کو غنیمت کے طور پر ہمیں عنایت کردے۔ اس پر کچھ لوگ نکلے اور کچھ پیچھے رہ گئے کیونکہ صرف تجارتی قافلہ کو روکنا مقصود تھا، ' جس کے لیے کسی بڑی قوت کی ضرورت نہ تھی۔ مسلمانوں کی اِس خواہشِ قافلۂ تجارت کا ذکر قرآن مجید نے بھی کیا ہے:
(ترجمہ) ذرا وہ وقت بھی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرما رہے تھے کہ دونوں گروہوں، تجارتی قافلہ اور لشکر میں سے ایک ضرور تمھارے ہاتھ لگے گا اور تم دل سے یہ چاہ رہے تھے کہ وہ تمھارے ہاتھ لگے جو کِیل کانٹے سے لیس نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے فیصلوں سے حق کا بول بالا کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔(الانفال۸:۷)
دشمن کے تجارتی و اقتصادی مفادات کو ضرب لگانے کا سلسلہ نبی کریم ؐ نے جاری رکھتے ہوئے ' کئی فوجی مہمات محض اس مقصد سے روانہ فرمائیں کہ قریش کے تجارتی قافلوں کوروکیں، ان کا تجارتی مال قبضے میں لیں۔ ' اِ س کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کا معمول کا تجارتی راستہ جو آسان او ر قریب تھا اور مدینہ منورہ کی مغربی جانب سے گزرتاتھا، بالکل بند ہوکر رہ گیا۔ چنانچہ اب قریش نے مدینہ منورہ سے ہٹ کر ذرا دُو ر بجانبِ مشرق لیکن نسبتاً محفوظ راستہ اپنے تجارتی قافلوں کے لیے منتخب کیا تو نبی کریم ؐ کے خبررسانی کے نظام نے فوراً اطلاع دی اور نبیؐ نے نئے راستے پر بھی چھاپہ مار پارٹیاں بھیجنا شروع کردیں۔ 'انھی مہمات میں سے ایک مہم حضرت زید بن خالد ؓ کی سر کردگی میں روانہ کی گئی، جنھوں نے قریش کے تجارتی قافلے پرچھاپہ مارا، جو مدینہ منورہ کی مشرقی جانب سے ہوتاہو ا بچ کر نکلنا چاہ رہا تھا۔ حضرت زید ؓ کے اچانک چھاپہ سے وہ سخت گھبرائے۔ ان کا سارا مال و اسباب مسلمانوں نے قبضہ میں لے لیا۔ ' اس طرح شام کے ساتھ قریش کی تجارت تقریباً بند ہوکر رہ گئی۔
اس لیے سنتِ جہاد ' یہ ہے کہ مسلم امت، عوام، مجاہدین ' اور حکومت، برسرِجنگ دشمن کی اقتصادی طاقت اور معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کریں اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس کے نتیجے میں دشمن کو کوئی معاشی فائدہ یا اقتصادی مفاد حاصل ہوسکے۔ بر سرِ جنگ دشمن کے ساتھ ہر قسم کی تجارت ' یا دشمن کی افرادی قوت کو روزگار مہیا کرنایہ سب کام شرعاً ممنوع ہوجائیں گے‘‘۔اگر مسلمان ممالک یہ اہتمام کریں کہ اسلام اور مسلمانوں سے کھلی دشمنی رکھنے والے ممالک کے ساتھ درآمدی یا برآمدی تجارت نہیں کریں گے تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ اُن کی اقتصادی قوت کمزور ہونا شروع ہوجائے گی۔
فتح کا دارو مدار محض افواج کی کثرت ِ تعداد، ' عمدہ اسلحہ اور بہتر تیاری پر نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے فتح سے نواز دے اور جسے چاہے شکست سے دوچار کردے '۔ اگر فتح و کامیابی کثرتِ تعداد و اسلحہ پر موقوف ہوتی تو غزوئہ بدر میں لازما ًقریش کو فتح نصیب ہوتی کیونکہ لشکرِ اسلام کے مقابلے میں اُن کی تعداد تین گنا تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں بدترین شکست سے دوچار کیا۔ غزوئہ بدر میں یہ ایک بڑا سبق ہے جسے قرآن نے بھی اِن الفاظ میں بیان کیا:
(ترجمہ) یہ نزول ملائکہ تمھارے لیے صرف خوش خبری ' اِطمینانِ قلب کا ذریعہ ہے ' اور فتح ونصرت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو غالب و حکمت والا ہے۔(الانفال۸:۱۰)
غزوۂ بدر کوئی واحد مثال نہیں ہے، جس میں مٹھی بھر گروہ نے لشکرِ جرار پر فتح پائی ہو۔ فرمایا:
كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۲۴۹ (البقرہ۲:۲۴۹)بارہا ایسا ہواہے کہ ایک چھوٹی سی جماعت بڑی جماعت پر غالب آئی ہے اور اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے۔
غزوۂ بدر میں سبق کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں دشمن کی تعداد، 'اسلحہ، 'پڑاؤ ،نقل و حرکت اور عزائم وغیرہ کے بارے میں تازہ ترین اِطلاعات حاصل کرنے کے لیے خبررسانی کے نظام کو نہ صرف یہ کہ استعمال میں لایا گیا بلکہ نبی کریم ؐ نے بنفسِ نفیس اِس نظام میں شرکت فرما کر بہترین اسوہ قائم کیا۔ عسکری اور جہاد کے بارے میں اطلاعاتی و مخابراتی کارکنان کو شوق و ترغیب دلائی اور بذاتِ خود سرپرستی کرکے اس کی اہمیت کی جانب متوجہ کیا۔
نبی کریم ؐ، اللہ تعالیٰ کے سچے رسول تھے۔ آپؐ انسانی نفسیات سے گہری واقفیت رکھنے والے اور بہترین تنظیمی و عسکری صلاحیتوں کے مالک بھی تھے۔ مدینہ سے جہاد پرروانہ ہوتے وقت آپؐ نے اُس زمانے کے معروف حربی تنظیمی اصولوں کے مطابق اپنے لشکر کو ترتیب دیا، مناسب فرد کو مناسب جگہ ذمہ داری پر متعین کیا۔ پرچم عطا فرمائے۔ ' مختلف افراد اور قبائل میں مختلف ذمہ داریاں اِس طریقے سے تقسیم کیں کہ سب قبائل اور گروہوں کے ساتھ ساتھ افراد میں بھی اِحساسِ شراکت پیدا ہوا۔ آنحضوؐر زمانہ قبل از نبوت میں تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود کی تنصیب کے تنازعے کو حل کرکے عوام الناس میں حکمت وتدبر اور دانش مندی کے اونچے مرتبہ پر فائز تھے۔
نبی اکرم ؐ غزوئہ بدر کے لیے مدینہ منورہ سے نکلے تو حضرت عبد اللہؓ بن اُمِ مکتومؓ کو مسجد نبوی کا امام اور حضرت ابو لبابہؓ بن عبد المنذر کو مدینہ منورہ کا امیر مقررکیا۔ اس سے اسلام کی نظر میں اجتماعیت کی اہمیت و مقام معلوم ہوتاہے۔ در حقیقت اسلام نے ہر معاملے میں اجتماعیت کو ملحوظ رکھا ہے۔ عبادات میں نماز کی اجتماعی شان نمازِ باجماعت سے عیاں ہے۔ حتیٰ کہ آپؐ نے فرمایا: تین آدمی سفر پر نکلیں تو اپنے میں سے کسی ایک کو امیر مقررکرلیں۔
نبی کریم ؐ نے غزوئہ بدر میں افراد کار کی شدید کمی کے باوجود حضرت حذیفہؓ بن یمان اور ان کے والد کو محض اس لیے واپس کردیاکہ وہ قریش سے یہ وعدہ کرچکے تھے کہ ان کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہوںگے۔ رسول اکرم ؐ کے اس طرزِ عمل سے ایفائے عہد کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ آپؐ نے ساری حیاتِ طیبہ کے دوران اس اصول کی پابندی کی۔ ' صلحِ حدیبیہ کے موقعے پر حضرت ابو جندل ؓ اور بعد میں ابو بصیر ؓنہایت مظلومیت کی حالت میں قریش کی قید سے نکل کر مسلمانوں تک پہنچنے میں بمشکل کامیاب ہوئے اور بار بار عاجزانہ درخواستیں کیں کہ اُن کو قریش کے حوالہ نہ کیا جائے، لیکن باوجود اس کے کہ خود آپؐ کو ان پر ترس آتا تھا۔ لیکن آپؐ نے رحمت للعالمین اور نبی رؤف و رحیم ہونے کے باوجود معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے، ان کو واپس قریش کے حوالے کردیا۔یہ در اصل عملی تعلیم تھی کہ وعدہ اگر دشمن سے بھی کیاجائے تو اسے نبھانا اور پورا کرنا لازم ہے ۔ بالخصوص اگر عہد یا معاہدہ بین الاقوامی سطح پر غیر مسلموں کے ساتھ ہو تو اس کی پابندی نہایت ضروری ہے اور ایک اِسلامی ریاست کے خارجہ پالیسی کا طرۂ امتیاز ہی ایفائے عہد اور معاہدات کی پابندی ہونا چاہیے۔
نبی کریم ؐ غزوۂ بدر کے لیے مدینہ منورہ سے باہر نکل چکے تھے کہ عرب کا مشہور قوی الجثہ ' طاقت ور ' پہلوان حاضر ہوا اور پیش کش کی وہ بھی آپؐ کے ساتھ جنگ میں شریک ہوکر قریش کے خلاف لڑنا چاہتاہے ۔ نبی ؐ نے اُس کی پیش کش قبول نہ فرمائی اور حکمت کے ساتھ اس کے سامنے اِسلام قبول کرنے کی دعوت پیش کی اور مسلمان ہوجانے کی صورت میں جنگ میں شرکت کا موقع دینے کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ اُس شخص نے اِسلام قبول کرلیا اور پھر جہاد میں شرکت کی ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ غزوئہ بدر حق وباطل کے مابین پہلا فیصلہ کن معرکہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چاہتے تھے کہ مجاہدین حق کے لشکر میں باطل کی آمیزش کسی بھی انداز میں واقع ہو۔ کسی غیر مسلم قوت کے خلاف جہاد میں ' کسی دوسری غیر مسلم قوت سے کسی بھی طر ح کی امداد حاصل کرنا شرعا اگرچہ ناجائز نہیں تھا، لیکن نبی کریم ؐ، غزوئہ بدر کے نظریاتی پہلو کو نکھارنے کی خاطر کسی غیر مسلم کو اس میں شرکت کی اجازت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔
غزوۂ بدر کے موقع پر نبی کریم ؐ نے بچوں او ر نابالغوں کو جنگ میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی ' اور سب کم عمر بچوں کو واپس کردیا، اِلا یہ کہ کسی نے رضاکارانہ اپنی خدمات پیش کرکے شرکت پر اصرار کیا تو آنحضور ؐ نے بعض حالتوں میں اجازت دی۔ عام قاعدہ اور اصول یہی تھا کہ کم عمر بچوں کو جنگ میں شریک نہ کیاجائے۔ یورپی معاشرہ چودہ صدیاں بعد اگر بچوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کاغذی معاہدوں تک پہنچ سکا ہے تو نبی رحمتؐ نے غزوئہ بدر میں ہی بچوں کے حقوق کی عملاً حفاظت کی بہترین مثال قائم کی جس کی پابندی نبی کریم ؐ کے امتی ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔
تاہم، جو نوجوان سنِ شعور و تمیز کو پہنچ جائیں اور جہاد کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے '، 'محض رضائے الٰہی کے لیے حصہ لینا چاہیں، تو انھیں اجازت دی گئی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی معاملات میں بچوں کی بھی ' بہرحال ایک اہمیت ہے اور بعض اوقات یہ ایسے کارنامے سرانجام دیتے ہیں جو بڑوں کے بس میں بھی نہیں ہوتے اور نوجوان تو بہرحال ہراوّل دستہ ہیں۔
اسلام دین فطرت و رحمت ہے اور اپنے پیروکاروں پر سختی و تنگی کرنا نہیں چاہتابلکہ صاحبِ عذر 'کمزوروں اور بیماروں کو اپنے احکامات میں ہر ممکن ' مناسب رعایتیں دیتاہے۔ جملہ شرعی احکامات میں انسان کی تمام فطری کمزوریوں اور مجبوریوں کی بھرپور رعایت دیتا ہے اور ایسے تمام افراد کو جہاد میں شرکت کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے جو بیمار یا معذور ہوں یا دوسری کسی واقعی مجبوری میں گرفتار ہونے کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہو سکتے ہوں۔ ' اسی وجہ سے غزوئہ بدر میں نبی کریم ؐ نے دو نابینا صحابہ کرامؓ ابواحمد عبد بن جحش اور ابن اُمِ مکتوم رضی اللہ عنہما کو شرکت سے استثنا دیا،اور حضرت عبد اللہ بن اُمِ مکتوم ؓ کو مسجد نبوی کا امام مقررکردیا۔
میدانِ عمل میں بھی آپ ؐ نے مساوات اور برابری کابے مثال نمونہ پیش کیا۔ ' ہر موقعے پر صحابہ کرام ؓ کے شانہ بشانہ کام کیا ' اور اپنے لیے کبھی کوئی امتیازی حیثیت پسند نہ کی۔ ' غزوئہ بدر میں آپ کے ساتھ سواری کی باری میں دو صحابی حضرت علی بن ابی طالبؓ اور حضرت مرثد بن ابی مرثد ؓ شریک تھے۔ دونوں نے اپنی باری پر نبی ؐ کو سوار ہونے کی پیش کش کی، جو آپ ؐ نے قبول نہ کی اور فرمایا:تم جسمانی قوت و طاقت میں مجھ سے زیادہ ' یا بڑھ کر نہیں ہو اور میں اخروی اجر سے بے نیاز و مستغنی بھی نہیں ہوں۔ اس لیے میں اپنی باری پر پیدل چلوں گا۔ ' حالانکہ اس وقت آپ کی عمر ۵۵برس تھی۔ آپ کا یہ نمونہ دیکھ کر ساتھیوں کے جوش و جذبے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں اور جس فوج یا لشکر کا قائد رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر عملاً ' مصائب و تکالیف برداشت کرے، اس کے ساتھی میدان جنگ میں کبھی پیچھے نہیں رہ سکتے۔ آپ ؐ کی اسی تواضع، ' انکساری، ' مساوات ' و برابری کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرامؓ آپؐ کے ایک اشارے کے منتظر رہتے تھے،اور احکام و ارشاداتِ عالیہ کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑتے تھے۔
اجتماعی امور میں مشاورت انسانی اقدار میں سے ایک بہترین قدر ہے، جس کو اسلام نے صرف برقرار ہی نہیں رکھا بلکہ اس بارے میں مفصل احکامات و ضوابط بھی عنایت فرمائے ہیں: شوریٰ کامقصدیہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں کوئی شخص انفرادی سوچ و ارادے کے تحت قدم نہ اٹھائے، جب تک سب متعلقہ لوگوں سے مشاورت نہ کرلے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک فرد کے مقابلے میں کئی افراد کی رائے کے درست اور اقرب الی الصواب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ' پھر یہ کہ مشاورت میں زیر بحث معاملات کے تمام مثبت اور منفی پہلو کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ خوبیاں اور مثبت پہلو، شرکائے شوریٰ کو حوصلہ دیتے ہیں،جب کہ مشکلات اور رکاوٹوں کا حل تلاش کیا جاتاہے۔ اس طرح ایک معاملے کوجب کئی افراد مختلف انداز نظر سے دیکھتے اور مل کر سوچتے ہیں تو اس کا کوئی پہلو بھی تشنہ اور مخفی نہیں رہتا۔ ' اس لیے اسلام کی ہدایت یہ ہے کہ اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی معاملات میں بھی مشاورت کا اصول اپنایا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ اس اصول کی پابندی فرمائی۔
غزوئہ بدر کے موقعے پر نبی کریم ؐ نے مدینہ منورہ سے باہر نکل کر ' قافلۂ تجارت کے ہاتھ سے چھوٹ جانے پر ' اور لشکر ِ کفار سے جنگ کے معاملہ میں صحابہ کرامؓ بالخصوص انصار سے مشورہ کیا۔ ' پھر میدانِ بدر میں لشکر کے پڑاؤ کے سلسلے میں حضرت خباب بن المنذر کا ماہرانہ مشورہ قبول فرمایا۔ پھر آپ ؐ نے اسیرانِ قریش جو جنگ ِ بدر میں گرفتار ہوئے تھے، ان ' کے مسئلے میں صحابہ کرامؓ بالخصوص دستیاب اہل الرائے حضرات سے مشورہ کیا۔آپؐ کا یہ طرزِ عمل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اجتماعی معاملات بالخصوص عسکری امور میں مشاورت ضروری ہے۔
حضرت حباب بن المنذر ؓ نے اپنی رائے جس خلوص سے پیش کی، وہ ' ایک مسلمان کے لیے اتباع کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے یہ معلوم کیا کہ جس جگہ آپ ؐ نے پڑاؤ کیا ہے، ' آیا اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا ہے جس کی تعمیل شرطِ اِیمان ہے اور اس سے سرِ مُو سرتابی کی گنجایش نہیں ہے یا محض جنگی تدبیر اور حکمت عملی کے تحت ' از خود اپنی رائے سے اس جگہ کا انتخاب کیا ہے؟ جب نبی ؐ نے فرمایا کہ یہ محض رائے ہے، ' وحی پر مبنی کوئی فیصلہ یا قطعی حکم نہیں ہے، تب حضرت خباب بن المنذر ؓ نے اپنی رائے پیش کرنے کی جرأت کی ۔ ان کا یہ طرزِ عمل نبوی تربیت کا نتیجہ تھا۔ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور عام مسلمان ' اپنی عمومی زندگی میں اس قاعدہ کلیہ اور شرعی اصول کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے تھے کہ جن معاملات میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کاحکم یا فیصلہ سامنے آجاتا یا معلوم ہوجاتا، تو غیر مشروط طور پر مانتے اوربلا چون و چرا سرِ اطاعت و تسلیم خم کرتے تھے۔ ' فوری طور پر اگر اس کی حکمتیں سمجھ نہ آتیں اور فوائد معلوم نہ ہوتے تب بھی حکم بجا لاتے۔
حضرت حباب بن المنذر ؓکے واقعے میں ایک تربیتی نکتہ آداب مشاورت سے متعلق یہ بھی ہے کہ اپنی ایمان دارانہ رائے اور مخلصانہ مشورہ کو متعلقہ لوگوں تک پہچانے میں بخل ، سستی یا کاہلی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ جہاں ضرورت محسوس کرے از خود ' بغیر طلب کیے آگے بڑھ کرخیر پرمبنی رائے اور مشورہ پیش کردینا چاہیے۔قائدین ' کوبھی چاہیے کہ معاشرے کے سمجھ دار، ' اہل الرائے اور ماہرین سے متعلقہ معاملات میں مشاورت کرتے رہیں اور جب ان میں کوئی از خود بغیر طلب کیے اپنی رائے یا مشورہ پیش کرے تو اسے خندہ پیشانی سے قبول کرے۔ متعلقہ مشیر اور ماہر کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے قائد و سالار ' اور افسرِ بالا کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھے اور پورے ادب و احترام سے اپنی رائے دلائل کے ساتھ پیش کرے اور یہ نہ سمجھے کہ میری رائے ہی حتمی طور پر درست اور صحیح ہے اور اس پر لازماً عمل ہونا چاہیے بلکہ اُسے اپنی رائے دلیل کے ساتھ پیش کرنے کوشش کرنا چاہیے۔
غزوئہ بدر سے پہلے والی ساری رات، نبی کریم ؐ نے جاگ کر ' اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں عاجزی کے ساتھ روتے ہوئے گزاری۔ آپؐ ساری رات لشکرِاِسلام کی فتح و نصرت کی دعائیں کرتے رہے ۔ آپؐ سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا گیا تھا اور آپؐ کو کامل یقین تھاکہ اللہ تعالیٰ کی مدد ضرور آئے گی اور یقینا فتح حاصل ہوگی، لیکن چونکہ آپؐ عبدیت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، اس لیے اس نازک اور مشکل وقت میں آپؐ پر خشوع و خضوع کی بہترین کیفیت طاری ہوگئی۔ اس طرح گویا آپ ؐ نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی کہ دعوت ِ حق کے مجاہدین کو چاہیے کہ جس قدر ممکن ہو اسباب و وسائل مہیا کریں۔ پھر جو دستیاب ہوسکیں، انھیں بھرپور طریقے سے استعمال کریں لیکن اس کے باوجود ان کا بھروسا مادی اسباب و و سائل پر نہیں ہوناچاہیے، بلکہ اصل اعتماد اور بھروسا اللہ تعالیٰ اور اس کی مدد و نصرت پر ہوناچاہیے، کیونکہ سب کچھ اسی کی عنایت و توفیق سے ہوتاہے۔ اگر اس کی مشیت نہ ہو تو تمام اسباب و وسائل کے ہوتے ہوئے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و توفیق اور مدد و نصرت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ دعا ہے۔ دعا مومن کا سب سے مضبوط اور مؤثر ہتھیار ہے، جو ہر مشکل گھڑی میں اُس کے کام آتاہے۔
غزوۂ بدر میں رسولؐ اللہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نہایت خشوع و خضوع ' اور عاجزی و انکساری کے ساتھ ' اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت اور مدد کی دعائیں مانگیں۔ ' اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعائیں قبول فرما کر غیبی مدد و نصرت عطا فرمائی۔
غزوۂ بدر میں عین میدان جنگ میں ' صف آرائی کے موقعے پر نبی کریم ؐ نے حضرت سواد بن غزیہ انصاری ؓ کے مطالبے پر خود کو قصاص کے لیے پیش کیاکہ اپنا بدلہ مجھ سے لے لیں۔ اس میں آج کے قائدین، ' کمانڈروں ' اور حکمرانوں کے لیے چشم کشا اسباق پوشیدہ ہیں۔
اس سے پتہ چلا کہ حقوق العباد، بالفاظِ دیگر:انسانی حقوق کا معاملہ بے حد اہم ہے۔ کسی بھی انسان کا شخصی حق اس وقت تک ساقط نہیں ہوتا جب تک صاحبِ حق معاف نہ کردے یا ادائیگی نہ کردی جائے۔ یہ ادائیگی و بہم رسانی طلب کیے جانے پر ہر حال میں ہوگی اور انسانی حقوق کسی حالت و صورت میں معطل و ساقط نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ خالقِ کائنات کا عطیہ و ہبہ ہیں، کسی انسان کے عطا کردہ نہیں ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں ایک عام فرد اور جوان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیرمعمولی اور ہنگامی ' ایمرجنسی حالات میں بھی اپنا حق سربراہِ حکومت و مملکت اور مسلح افواج کے کمانڈر اِنچیف سے بھی سے طلب کرسکتاہے ۔
جس شخص سے کسی حق کی ادائیگی ' یا شکوہ شکایت کی تلافی مطلوب ہے ، اُسے خوش دلی اور خندہ پیشانی سے متعلقہ اتھارٹی کے ذریعے یا از خود براہ ِ راست ' مظلوم یا متأثرہ پارٹی کو اس کا حق دے دینا چاہیے۔ اگر اس سلسلہ میں عدلیہ یا کسی دوسرے ادارے کے سامنے پیش ہوناپڑے ' تو مضائقہ نہیں اور قانون و عدالت کے سامنے پیشی سے کسی کو بھی استثناء یا قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے کیونکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔
کسی بھی کام کو بہتر ین اور اچھے انداز میں کروانے کااس سے زیادہ بہتر کوئی نسخہ نہیں کہ اس کے لیے کوئی انعام مقرر کردیاجائے۔ ' انسانی فطرت و نفسیات اور انسانوں کی تنظیم و مینجمنٹ کا اِدراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ افراد ِ اِنسانی کو ایک لڑی میں پرونا اور اُن سے کوئی بڑا کام لینا ' کتنا مشکل کام ہے۔ لیکن یہی مشکل کام ' انعامات اور حسنِ کارکردگی پر حوصلہ افزائی سے آسان اور بہترین صورت میں سر انجام پاتاہے۔ دشمن کے ساتھ جنگ کی صورت میں تو ویسے بھی ہر آدمی اپنی اور اپنے متعلقین نیز مال و جایداد کی حفاظت اور حملہ آور دشمن سے مقابلے کے جذبات سے بھرا ہوتاہے۔ ایسے میں اگر اُسے مزید حوصلہ افزائی و امید دلائی جائے تو یقینا اس کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے '۔ جنگ ِ بدر میں نبی کریم ؐ نے اسی انسانی نفسیات و اصولِ تنظیم کو پیش نظر رکھا۔ آپ ؐ نے بہادری وحسنِ کارکردگی پر انعامات کا پیشگی اِعلان کیا۔رسولؐ اللہ نے غزوئہ بدر کے موقعے پر اپنے اِعلان سے صحابہ کرامؓ میں زبردست جوش وخروش پیدا کردیا اور وہ اس ولولے کے ساتھ دشمن پر جھپٹے کہ صفوں کی صفیں الٹ دیں اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتحِ عظیم سے نوازا ۔
رسولؐ اللہ اور آپؐ کے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی جانوں اور مالوں کا سودا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ' جنت کے عوض کر چکے تھے۔ ' انھوں نے اپنی وفاداریوں کا مرکز و محور اللہ اور اس کے رسول ؐ کو بنا لیا تھا۔ ' دین و اِیمان اور عقیدے کے رشتہ کے علاوہ سب رشتوں 'ناتوں اور تعلقات کو ثانوی حیثیت ہی نہیں دی بلکہ ان کو مکمل طور پر ختم کردیاتھا۔ اسی لیے تو مصعب بن عمیر ؓ غزوئہ بدر کے موقعے پر اپنے حقیقی بھائی ابوعزیز کو مخاطب کر کے کتنی سچی اور کھری بات کہتے ہیں: تم نہیں بلکہ تمھیں گرفتار کرنے والے صحابی محرز ابو الیسر میرے بھائی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے بیٹے عبد الرحمٰن کو قتل کرنے دوڑے۔ ' حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو اپنے ہاتھوں جہنم رسید کیا۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓنے اپنے والد عبد اللہ بن الجراح کو قتل کرکے ' ثابت کیا کہ ایمان کا تعلق ہی اصل اور حقیقی تعلق ہے، اور اسی تعلق کی بنیاد پر اُن کی دوستیاں اور دشمنیاں ہیں۔ ' اگر اپنے حقیقی رشتہ دار، ' ماں باپ، 'اولاد، میاں ' بیوی یا پورا قبیلہ برادری بھی کفار اور دشمنانِ دین کی صف میں ہوتے تو اُن سے قطعِ تعلق میں تاخیر نہیں کرتے تھے۔ یہی ایمان مطلوب ہے اور ایسے لوگ ہی قرآن کی زبان میں ’حزب اللہ‘ کے ارکان شمار ہوتے ہیں۔
نبی کریم ؐ پر پہلی وحی إقرأ کے الفاظ میں نازل ہوئی،جس میں پڑھنے کا حکم دیاگیاتھا۔ اس سے اِسلام کی نظر میں تعلیم اور خواندگی کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ نبی کریم ؐ نے غزوئہ بدر میں قید ہوکر آنے والے کفار سے جو فدیہ نہیں دے سکتے تھے، ' انصار کے بچوں کی تعلیم اور لکھائی پڑھائی سکھانے کا جو کام لیا، اس سے ایک طرف آپ کی رحمت و شفقت اور مثبت و مفید سوچ کا اِظہار ہوتاہے، ' وہیں آپؐ کی نظر میں خواندگی اور تعلیم کی اہمیت کا پتہ بھی چلتاہے۔ آپؐ نبی اُمی ضرور تھے لیکن اُمت کی تعلیم و خواندگی کی بہت فکر کرتے تھے ۔
ابو العاص بن الربیع کو فدیہ سے مستثنیٰ قرار دینے کی جو بات آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمائی، اس میں اپنے ساتھیوں کی تالیفِ قلب کے ساتھ ساری امت کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے کہ امت کے حکمرانوں ' اور بیت المال کے منتظمین سمیت کسی بھی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ بیت المال کو اپنے ذاتی و شخصی یا خاندانی مفادات کے لیے استعمال کرے۔ یہ بیت المال عامۃ الناس کی ملکیت ہے اور اس میں تصرف کے لیے مالک کی اجازت ضروری ہے، ورنہ اس کا تصرف خیانت میں شمار ہوگا۔
غزوئہ بدر، تاریخِ اسلام کا عظیم ترین سنگ ِ میل ہے۔ اس عظیم الشان غزوہ سے منسوب یہ چند اسباق ہمیں متوجہ کرتے ہیں کہ اسلامی تاریخ اور سیرتِ مطہرہؐ کے تمام واقعات اپنے اندر درس و رہنمائی کا ایک اَنمول خزانہ رکھتے ہیں۔
قرآن مجید ، تواریخ یا کہانیوں کی کتاب نہیں، لیکن اس میں تاریخ کے ان حقائق کا تذکرہ ہے، جن کے معلوم کرنے کا دوسرا کوئی ذریعہ انسانوں کو دستیاب نہیں ہے۔ قرآن مجید میں مذکور تاریخی واقعات اور ماضی کی تاریخ، سب سے زیادہ قابل اعتماد اور ثابت شدہ تاریخی حقائق ہیں ۔ قرآن مجید کا تاریخی واقعات وحقائق اور قوموں نیز شخصیات کے احوال بیان کرنے کا ایک منفرد اور خاص انداز ہے۔یہ حقائق و واقعات زمان ومکان اور غیر متعلقہ تفصیلات کے حوالے سے بالعموم خاموش ہیں ۔
قرآنی قصوں، حکایات اور واقعات کے کچھ مخصوص اور متعین اغراض ومقاصد ہیں، جن کو پیش نظر رکھ کر وقتاً فوقتاً یہ قصے اور واقعات قرآن نے پیش کیے:
•وحی ورسالت کا اثبات کہ خالقِ کائنات نے انسان کی رہنمائی کے لیے نبوت ورسالت کا سلسلہ قائم کیا اور ہمیشہ پیغمبر مبعوث فرمائے۔
• انبیا کرام ؑاور ان کے بعد امت کے علما وصالحین نے دعوت الیٰ اللہ کا کام جانفشانی سے سرانجام دیا، اور اس مقصد کے لیےدستیاب مختلف وسائل کو اختیار کیا۔
• انبیا کرامؑ کی دعوت پرایمان لانے والے پیروکاروں کے اچھے انجام اور مخالفین کے عبرت ناک انجام کا بیان بھی ان قصوں سے مقصود ہے ۔
• اللہ تعالیٰ کے وعدوں،وعید،تبشیر اور اِنذار کا بیان۔
• انبیا کرامؑ اور اولیاء اللہ پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا تذکرہ ۔
• حق وباطل کے درمیان ازل سے جاری کشمکش میں، دشمن شیطان کے حربوں اور دشمنیوں سے واقفیت فراہم کرنا۔
• انبیا کرامؑ کےمعجزات کے ذریعے نبیوں کی صداقت،اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان۔
’اصحاب الاخدود‘کے واقعے کی تربیتی اور دعوتی اہمیت اور دیگر کئی مقاصد کے پیشِ نظر اس کو قرآن مجید اور حدیث دونوں میں بیان کیا گیا۔ دوسرے یہ کہ اس کے راوی، صحابہ کرامؓ میں سے وہ لوگ ہیں، جو خود مکہ مکرمہ میں مشرکین مکہ کے شدید ظلم وستم اور تشدد کا شکار بنتے رہے۔
پہلے اور اصل راوی حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ ہیں ، جن کو قریش بہت ستاتے تھے، جسمانی اذیت کے علاوہ ،ہجرت مدینہ کے وقت ان کے مال وجایداد پر قبضہ کرلیا۔بے سروسامانی کی حالت میں آپ کی آمد قبا میں ہوئی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش خبری دی: رَبِحَ الْبَیْعْ أَبَایَحْیٰی، ابویحییٰ! { FR 651 }کامیاب تجارت کرکے آئے ہو۔
اس قصے کا ایک حصہ حضرت خبابؓ بن الارتّ سے روایت ہواہے۔ یہ ایک قریشی عورت کے غلام تھے، جو لوہے کی گرم سلاخوں پر ان کو لٹاتی تھی یہاں تک کہ ان کے جسم ، پشت کی چربی سے وہ سلاخیں بجھ جاتی تھیں۔ ایک مرتبہ کعبہ کے سائےمیں بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:’’یارسولؐ اللہ! آپؐ ہماری مدد ونصرت کے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم سے پہلی امتوں میں گڑھا کھود کر ایک مسلمان فرد کو اس میں ڈال دیا جاتا پھر لوہے کی کنگھیو ں سے ہڈیوں تک اس کا گوشت نوچ لیا جاتا تھا۔ اس کے سر پر آرا رکھ کر اس کے جسم کو دو حصوں میں چیر ڈالا جاتا، اور وہ اپنے دین سے نہیں پھرتا تھا‘‘۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، حدیث: ۳۴۳۶)
اسی طرح یہ ابتدا سے آخر تک مجسمِ دعوت قصہ ہے، جس میں دعوتی ترجیحات واوّلیات کی وضاحت اور مراحلِ دعوت میں فطری ارتقا ہے۔ابتدا میں صرف ایک شخص، رازداری، خفیہ دعوت، پھر علانیہ دعوت کے عمل سے گزرتا ہے، اور پھر بڑے پیمانے پر لوگ دعوت قبول کرلیتے ہیں، دعوت کے کارکنان وتنظیمات کے لیے ایک کامیاب تجربہ بطور نمونہ ومثال پیش کردیا گیا ہے، جس سےفکری وعملی تبدیلی پر مشتمل مکمل دعوت، اس کی اہمیت، ترجیحات، انفرادی واجتماعی دعوت کے مختلف مراحل میں واضح اور بہترین رہنمائی ملتی ہے۔
ہمیشہ دعوت کے نتیجے میں افرادبتدریج تبدیل ہوتے ہیں۔ قلیل تعداد آہستہ آہستہ مرور زمانہ سے کثیر تعداد میں تبدیل ہوتی ہے اوربالآخر تبدیلی مکمل ہوجاتی ہے، جب کہ اس قصے میں ابتدا سے آخر تک انقلاب اورتبدیلی کے صرف تین کردار ہیں۔
اس قصے کے بارے ایک روایت کے مطابق، نجران میں منسوب جگہ کا مَیں مشاہدہ کرچکا ہوں، جہاں مقامی لوگ نوجوان کے مدفن کو حضرت عمرؓ کے دور میں کھولے جانے کا واقعہ ذکر کرتے ہیں ۔
قرآن مجید نے اس قصہ کا ذکر مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے دور میں نازل ہونے والی سورۂ بروج میں کیا:
وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ۱ۙ وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ۲ۙ وَشَاہِدٍ وَّمَشْہُوْدٍ۳ۭ قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ۴ۙ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ۵ۙ اِذْ ہُمْ عَلَيْہَا قُعُوْدٌ۶ۙ وَّہُمْ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُہُوْدٌ۷ۭ وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللہِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ۸ۙ الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ۹ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ۱۰ۭ (البروج۸۵:۱-۱۰) قسم ہے برجوں والے آسمان کی، اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے (یعنی قیامت)، اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی۔ مارے گئے ایندھن بھری آگ کی خندق والے،جب کہ وہ اس پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور جو کچھ وہ اہل ایمان کے ساتھ کررہے تھے اسے دیکھ رہے تھے۔ اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی صرف اس وجہ سے تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے، جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، اور اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومنہ عورتوں پر ظلم و ستم توڑا، پھر اس سے تائب نہ ہوئے، یقینا ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور جلائے جانے کی سزا ہے۔
امام ترمذی، مسلم، ا حمدبن حنبل، محمد بن جریر طبری، اور کئی دیگر محدثین٭ نے حضرت صہیب بن سنان رومیؓ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد کچھ کلمات اس طرح دُہرا رہے ہوتے کہ ہمیں ہونٹ حرکت کرتے نظر آتے لیکن بات سمجھ نہ پاتے۔ پوچھا گیا تو آپؐ نےایک نبی کا واقعہ بیان کیا کہ وہ ایک مرتبہ اپنی فوج کی قوت پر کہنے لگے: ان کا مقابلہ کون کرسکتاہے؟! تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تین میں سے کسی ایک کا اختیار دیا، یعنی بیرونی دشمن کا تسلط وغلبہ، بھوک وقحط، یا موت۔ انھوں نے اپنی قوم کے مشورے سے موت کو منتخب کیا، جس پر ان کے ۷۰ ہزار آدمی تین روز میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ تم جو مجھے ہونٹ ہلاتے دیکھتے ہو،میں اسی واقعے کو یاد کرکے اللہ سے یہ دعا کرتاہوں:اللّٰہُمَّ بِکَ أُقَاتِلُ وَبِکَ أُصَاوِلُ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ، یعنی اے اللہ! میں تو تیری مدد وتوفیق سے ہی دشمن سے لڑتاہوں، اور برائی سے بچ کر نیک کام کرلینا اللہ ہی سے وابستگی اور اس کی توفیق سے ہے ۔
٭ مثلاً: l مصنف عبد الرزاق ۵/۴۲۰، کتاب المغازی، حدیث:۹۷۵۱، المؤلف: ابو بکر عبدالرزاق (م:۲۱۱ـ)المحقق: حبیب الرحمٰن الاعظمی، بیروت، ۱۴۰۳ھ، الاجزاء: ۱۱، l الآحاد والمثانی ۱/۲۱۹، الحدیث:۲۸۷،المؤلف: ابوبکر بن ابی عاصم احمد الشیبانی (م:۲۸۷) المحقق: باسم فیصل احمد، – الریاض، ۱۴۱۱ھ، l مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار۶/۱۸، l مسند صہیب بن سنان، الحدیث:۲۰۹۰، المؤلف: ابوبکر احمد بن عمرو المعروف بالبزار (م:۲۹۲) المحقق: محفوظ الرحمٰن زین الله، المدینۃ المنورۃ، ۱۹۸۸ء، l الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان۳/۱۵۴-۱۵۷، الحدیث:۸۷۳، المؤلف: محمد بن حبان (م:۳۵۴) مرتبہ: الامیر علاء الدین الفارسی (م:۷۳۹) بیروت،۱۹۸۸ء، الاجزاء:۱۸، l الطبرانی فی المعجم الکبیر۸/۴۱-۴۲، الحدیث: ۷۳۱۹- ۷۳۲۰، المؤلف: سلیمان بن احمد الطبرانی (م:۳۶۰) المحقق: حمدی بن عبد المجید السلفی، – القاھرۃ، الاجزاء:۲۵ l البیہقی فی شعب الایمان۳/۱۷۴، الحدیث:۱۵۱۸، المؤلف: احمد بن الحسین البیہقی (م:۴۵۸) المحقق: الدکتور عبد العلی عبد الحمید حامد، ریاض، ۲۰۰۳ء، الاجزاء:۱۴ (۱۳، ومجلد للفہارس)l النسائی فی السنن الکبریٰ۱۰/۳۲۹، الحدیث:۱۱۵۹۷، المؤلف: ابو عبد الرحمٰن النسائی (م:۳۰۳) المحقق: حسن عبد المنعم شلبی، بیروت، ۲۰۰۱م، الاجزاء: (10 و 2 فہارس)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے: تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میرا علم میرے ساتھ ہی دفن نہ ہوجائے، اس لیے آپ میرے پاس ایک ذہین،علم کے شوقین لڑکے کو بھیجیں تاکہ میں اسے اپنا علم/جادو سکھا سکوں ۔ اس پر بادشاہ نے ایک لڑکا جادو سیکھنے کے لیے اس کے پاس بھیج دیا۔ جب اس لڑکے نے اس کے پاس جانا شروع کیا تو راستے میں ایک عیسائی عبادت گاہ (صومعہ) میں ایک راہب تھا۔ – ان عبادت گاہوں والے اس وقت کے مسلمان تھے۔ وہ لڑکا اس راہب کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سننے لگا، جو اسے پسند آئیں۔ پھر جب بھی وہ جادوگر کے پاس آتا اور راہب کے پاس سے گزرتا تو اس کے پاس بیٹھتا اور اس کی باتیں سنتااور مختلف سوالات کرتا رہتا۔ ایک عرصے تک اس کا یہی معمول رہا اور بالآخر راہب نے یہ کہہ کر اسے بتادیاکہ میں تو اللہ کا بندہ ہوں۔ اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ اب وہ لڑکا جادوگر کے پاس جاتے ہوئے، راستے میں راہب کے پاس بیٹھ جانے کی وجہ سے جادوگر کے پاس تاخیر سے پہنچتا۔ دیر سے آنے کی وجہ سے وہ اس کو مارتا اور لڑکے کے گھر والوں کو بھی بتا دیا کہ یہ تو میرے پاس بہت کم حاضر ہوتا ہے ۔ اس لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی تو راہب نے کہا کہ اگر تجھے جادوگر مارنے لگے تو کہہ دیا کر کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب تجھے گھر والوں سے پٹائی کا ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا۔
اسی دوران ایک مرتبہ ایک درندے نے لوگوں کا راستہ روک لیا کہ ان کا گزرنا مشکل ہورہاتھا۔ جب لڑکا اس طرف آیا تو اس نے کہا کہ میں آج جاننا چاہوں گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے؟ اور پھر ایک پتھر پکڑا اور کہنے لگا: ’’اے اللہ، اگر تجھے جادوگر کے معاملے سے راہب کا معاملہ زیادہ پسند یدہ ہے تو اس درندے کو مار دے تاکہ لوگوں کا آنا جانا ہو‘‘۔ اور پھر پتھر سے درندے کو مار دیا اور لوگ گزرنے لگے۔پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اور اسے یہ خبر دی تو راہب نے اس لڑکے سے کہا: اے میرے بیٹے! آج تو مجھ سے افضل ہے کیونکہ تیرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جس کی وجہ سے تو عنقریب ایک مصیبت میں مبتلا کردیا جائے گا۔ پھر اگر تو کسی مصیبت میں مبتلا کردیا جائے تو کسی کو میرا نہ بتانا۔ وہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو صحیح کردیتا تھا بلکہ لوگوں کا بیماری سے علاج بھی کردیتا تھا ۔اسی دوران بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہوگیا۔ اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت سے تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور اسے کہنے لگا: اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحفے جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ سارے تمھارے لیے ہیں۔ اس لڑکے نے کہا ’’میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا، شفا تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ اگر تو اللہ پر ایمان لے آئے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تجھے شفا دے دے‘‘۔ لڑکے نے اس کے لیے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرما دی۔ نتیجے میں وہ شخص اللہ پر ایمان لے آیا۔
وہ آدمی اپنے معمول کے مطابق بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ کس نے تجھے تیری بینائی واپس لوٹا دی؟ اس نے کہا: میرے ربّ نے۔ بادشاہ نے کہا: کیا میں نے؟اس نے کہا: نہیں ، اللہ نے جو میرا اور تیرا دونوں کا رب ہے ۔ بادشاہ نے کہا: کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی ربّ بھی ہے؟ اس نے کہا : ہاں۔ اب بادشاہ اس کو پکڑ کر عذاب دینے لگا تو اس نے بادشاہ کو اس لڑکے کے بارے میں بتادیا۔ اس لڑکے کولایا گیا تو بادشاہ نے اس سے کہا: ’’اے بیٹے ! کیا تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو بھی شفا دینے لگ گیا ہے اور ایسے ایسے کرتا ہے ؟‘‘ لڑکے نے کہا: ’’میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا، شفا تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے‘‘۔
بادشاہ نے اسے پکڑ کر سخت تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ اس نے راہب کے بارے میں بادشاہ کو بتادیا۔ راہب کو پکڑ کر لایاگیا، تو اس سے کہا گیا: ’’تو اپنے اس دین سے پھر جا‘‘۔ راہب نے انکار کردیا۔ پھر بادشاہ نے آرا منگوایا اور اس راہب کے سر پر رکھ کر اس کا سر چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ پھر بادشاہ کے ہم نشین کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا گیا کہ ’’تو اپنے دین سے پھر جا‘‘۔ اس نے بھی انکار کردیا۔ بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرا رکھ کر سر کو چیر کر اس کے دوٹکڑے کروا دئیے۔
پھر اس لڑکے کو بلوایا گیا۔ وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جا۔ اس نے بھی انکار کردیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ لوگوں کے حوالے کرکے کہا: ’’اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ۔ اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کر دے تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا‘‘ ۔
چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے دعا کرتے ہوئےکہا: ’’اے اللہ تو مجھے ان سے بچانے کے لیے کافی ہے جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے‘‘۔ اس پہاڑ پر فوراً ایک زلزلہ آیا، جس سے بادشاہ کے وہ سارے کارندے گرگئے اور وہ لڑکاچلتے ہوئے واپس بادشاہ کی طرف آگیا ۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ ’’تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟‘‘ لڑکے نے کہا: ’’اللہ پاک نے مجھے ان سے بچا لیا ہے‘‘۔
بادشاہ نے پھر اس لڑکے کو اپنے کچھ دیگر لوگوں کے حوالے کر کے کہا: ’’اگر یہ اپنے دین سے نہ پھرے تو اسے ایک چھوٹی کشتی میں لے جا کر سمندر کے درمیان میں پھینک دینا‘‘۔ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو لے گئے تو اس لڑکے نے پھر دعا کی اورکہا :’’اے اللہ تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے‘‘۔ پھر وہ کشتی بادشاہ کے ان کارندوں سمیت الٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہوگئے اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف واپس آگیا ۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا: ’’تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا ؟‘‘ اس نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا ہے‘‘۔
پھر اس لڑکے نے بادشاہ سے کہا: ’’تو مجھے قتل نہیں کرسکتا، جب تک کہ اس طرح نہ کر جس طرح کہ میں تجھے حکم دوں‘‘۔ بادشاہ نے کہا: ’’وہ کیا ؟‘‘ اس لڑکے نے کہا: ’’سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ۔ پھر میرے ترکش سے ایک تیر کو پکڑو پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں رکھ کر یہ کہو: ’’اس اللہ کے نام سے، جو اس لڑکے کا ربّ ہے۔ پھر مجھے تیر مارو۔ اگر تم اس طرح کرو، تو مجھے قتل کرسکتے ہو ‘‘۔
پھر بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکا دیا۔ پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا۔ پھر اس تیر کو کمان میں رکھ کر کہا: ’’اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا ربّ ہے‘‘۔پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا تو وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں جا گھسا ۔ لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مرگیا۔ اس پر سب لوگوں نے بیک آوازکہا: ’’ہم اس لڑکے کے ربّ پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے ربّ پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے ربّ پر ایمان لائے‘‘۔
بادشاہ کو اس کی خبر دی گئی اور اس سے کہا گیا: ’’تجھے جس بات کا ڈر تھا، اب وہی بات آن پہنچی کہ سب لوگ لڑکے کے ربّ ، اللہ پر ایمان لے آئے‘‘۔
تو پھر بادشاہ نے گلیوں کے دھانوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا۔ خندقیں کھودی گئیں، تو ان خندقوں میں آگ جلا دی گئی۔ بادشاہ نے کہا: ’’جو آدمی اپنے دین سے پھر جائے گا تو میں اس کو چھوڑ دوں گا،اور جو اپنے قدیم دین پر واپس نہیں آئے گا اس کو میں اس آگ کی خندق میں ڈلوا دوں گا‘‘۔ چنانچہ تیزی کے ساتھ مسلمانوں کو دہکتی ہوئی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ اسی دوران ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ ایک دودھ پیتا بچہ بھی تھا۔ وہ عورت خندق میں گرنے سے گھبرائی تو اس کے بچے نے کہا: ’’اے امی، صبر کر، کیونکہ تو حق پر ہے‘‘۔
اس نوجوان کو شہادت کے بعد دفن کیاگیا۔ کہتے ہیں کہ حضرت عمرفاروقؓ کے عہدخلافت میں اس کی قبر کشائی کی گئی، تو اس کی انگلی کنپٹی کی اسی جگہ پر تھی جہاں اس کو تیرلگاتھا۔
اس قصے کی خوب صورتی،کثرتِ دروس،شدتِ تاثیر کونظر میں رکھیں، تو کہاجا سکتاہے کہ دنیا کا کوئی عظیم ادیب بھی اتنے خوب صورت انداز میں اس کو نہیں لکھ سکتا تھا، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو امت کی رہنمائی کے لیے بیان فرمایا۔
ہمارے عوام بالعموم اور نوجوان نسل بالخصوص آج کل سوشل وپرنٹ میڈیا کے لچر وبیہودہ ڈراموں،افسانوں، کہانیوں اورناولوں میں اپنے قیمتی اوقات ہی نہیں صحت ومال اور اخلاق و کردار بھی برباد کر رہی ہے۔ ایسے میں شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ صاحب ایمان باغیرت مسلمان، عوام الناس اورنوجوان نسل کی تربیت کے لیے ان قرآنی ونبوی قصوں کو کام میں لائیں ۔
اس قصّے میں نوجوان کے لیے ’غلام‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جو عربی میں دودھ چھڑانے کے بعد سے سن تمیز تک کی عمر کے بچوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آج بھی ہم اس بچے سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔
اس واقعے کے زمانے کے متعلق حدیث میں تین الفاظ ’قبلکم‘ اور ’راھب‘ اور ’صومعۃ‘ اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کا ہے ۔ البتہ اس کی سب عبرتیں، حکمتیں اور رہنمائی زمان ومکان اور قومیتوں کی حدود وقیود سے ماورااور قیامت تک کے لیے ہے :
۱- جابربادشاہوں اور ظالم حکمرانوں کی اولین ترجیح عوام کی خیر خواہی اور خدمت نہیں بلکہ عوام کواپنا غلام اور ماتحت سمجھ کر، اقتدار وسلطنت کا تحفظ سب سرگرمیوں کا مرکز ومحور ہوتاہے،جس کے لیے وہ ہر حربہ حتیٰ کہ جادو ٹونہ بھی اختیار کرتے ہیں ۔
۲- عالم یا کسی فن کے ماہر کو اگر ہونہار اور ذہین شاگرد میسر نہ ہوسکیں تو اس کا علم وفن اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتا ہے ۔
۳- حصول علم کا بہترین زمانہ بچپن کاعرصہ ہے۔
– ۴-یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم مشیت اور تدبیر تھی کہ عالم دین کی مجلس کا مقام،اس بچے اور جادوگر کے راستے میں تھا کہ جب ہونہار بچہ وہاں سے گزرے تو بیٹھ کر عالم دین سے سیکھے۔
– ۵-کوئی زمانہ اور ملک، ایمان اور علم نافع رکھنے والے علمائے ربانیین سے خالیٰ نہیں رہا۔
–۶- حُسن اخلاق اور شیریں کلامی کی بہت اہمیت ہے۔داعی اہل ایمان،صالحین اورعلما بالعموم حسن اخلاق اور شیریں کلامی سے عامۃ الناس کے دل ودماغ کو فتح کرلیتے ہیں ۔
–۷- فہم سلیم اور علم نافع میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ انسان کوایک حلاوت و استقامت بخشتا ہے۔ عالمِ دین کی علم ومعرفت پر مبنی گفتگو کا اثر تھا کہ نوجوان نے گھر والوں اور جادوگر کی شدید مار پٹائی کے باوجود عالم دین کی مجلس نہیں چھوڑی۔ وہ آتے جاتے اس مجلس میں ضرور بیٹھتا۔
۸- عالم دین نے اس نوجوان کو رازداری کی غرض سے جادوگر اور اپنے والدین کے سامنے غلط بیانی کا مشورہ دیا۔ یہ اضطرار کی کیفیت تھی کہ اہل ایمان بہت کم اور مظلوم تھے۔ اس کا مشورہ ’توریہ‘ اور ’معاریض‘ کی قسم سے تھا، جس کی شریعت نے گنجایش دی ہے ۔
۹- یہ نوجوان عالم دین کے پاس بیٹھتا ، مگر شاہی فرمان کی وجہ سے جادوگر کے پاس بیٹھنے پر بھی مجبور تھا۔ لیکن اس نے درندے کے واقعے کو اپنے دلی اطمینان اور مستقبل کی راہ متعین کرنے کے لیے ایک کسوٹی کے طور پر استعمال کیا۔
۱۰- اللہ جلّ جلالہ، اپنے نیک اور صالح بندوں کی دعا قبول کرتا ہے اور ان کے ہاتھ پر ایسی کرامات کا ظہور ہوتاہے، جس سے حق کے مخالفین پر واضح ہوتا ہے کہ وہ حق پر ہیں ۔
۱۱- درندہ جانور کے واقعے اور موقعے پر موجود لوگوں کو اس نوجوان کی کرامت واضح نظر آئی، اور ان کو یقین ہوگیا کہ وہ ایک ممتاز مقام کا مالک ہے ۔
۱۲- شاگرد مشکل امور میں رہنمائی کے لیے اپنے شیخ کے علم، حکمت اور تجربہ سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ نوجوان نے درندے کا راستہ روکنے کا واقعہ شیخ کو بتاکر ہدایات ورہنمائی طلب کی۔
۱۳- کبھی شاگرد، اپنے شیخ سے زیادہ ممتاز مقام حاصل کرلیتاہے: ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۴ (الجمعة۶۲:۴) ’’یہ اس کا فضل ہے ،جسے چاہتا ہے دیتا ہے ،اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے‘‘۔ عالمِ دین نے نوجوان کی زبان سے جانور کا واقعہ سن کر اعتراف کیا کہ وہ شیخ سے زیادہ بہتر وافضل ہے حالانکہ وہ اسی کا سکھا یا پڑھایا تھا۔
۱۴- اہلِ صدق واخلاص کی دل چسپی شہرت اور ریاست میں نہیں بلکہ خیر وحق کی نشرواشاعت میں ہوتی ہے۔ وہ ان کے ذریعے سے ہو یا کسی دوسرے کے ہاتھ سے۔
–۱۵- اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ وہ کسی شیخ کو ایسا شاگرد نصیب کردے، جو اس کے علم وفضل اور دعوت کےپھیلانے میں مددگار ثابت ہو۔
۱۶-عالم دین نے اپنے علم وحکمت کی بنا پر اس کو بتادیا کہ عوام الناس جب گمراہی میں مبتلا ہوں تو ایسے میں سچے اورمخلص داعی آزمایشوں کا شکار ہوتے ہیں ۔
۱۷- مومن جان بوجھ کر کبھی اپنے آپ کو آزمایش اور امتحان میں نہیں ڈالتا۔ اسی لیے اس عالمِ دین نے رازداری کی تاکید کی۔ اس احتیاط کے باوجود اگر مسلمان آزمایشوں میں گھر جائے تو اللہ تعالیٰ سے صبر وثبات کی توفیق طلب کرنا چاہیے۔
۱۸- اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو مستجاب الدعوٰۃ بنایا، تو اس نے اس خصوصیت کو دعوت الیٰ اللہ کے لیے استعمال کیا۔ اس کے برعکس جعلی پیروںاور اپنے منہ سے مشایخ کہلوانے والے ایسی خصوصیات کو اپنی شخصی اغراض ومفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔
۱۹-نوجوان کوئی نذرانہ ،ہدیہ قبول نہیں کرتاتھا۔اس کی اوّلین ترجیح لوگوں کی ہدایت ہوتی تھی۔
۲۰- نوجوان لوگو ں کے لیے شفا کی دعا کرتے وقت ہی بڑی وضاحت سے ان کو بتادیتا کہ وہ شفا کا مالک نہیں ہے ، بلکہ شفا صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ، وہی شفا دیتا ہے ۔ اس طرح جس دروازہ سے شیاطین جِن وانس داخل ہوکر سادہ لوح لوگوں کے ایمان وعقائد پر ڈاکا ڈالتے اور غلط عقائد کی ترویج کرتے ہیں ، اس کوابتدا ہی میں بند کردیتا۔
۲۱- بادشاہ کےنابینا ہم نشین نے جب کہا کہ ’’اس کے ربّ نے میری بصارت دوبارہ لوٹائی ہے‘‘ تو بادشاہ نے تعجب سے خوش ہو کر پوچھا: میں نے؟!‘‘ یہ اہل کفر والحادکے کھلے تضاد و تناقض کی واضح دلیل ہے ۔ وہ کیسا ربّ ہے جو لوگوں کو صحت وشفا بخشے اور اس کو خود اس کا علم وادراک نہ ہو؟
۲۲- بادشاہ نے یہ سوچ کر کہ کہیں حقیقت کے ظہور سے اس کی خدائی اورسلطنت کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔ ظلم ،جبر اور تشدد کے حربے اختیار کرنے میں کچھ بھی دیر نہیں کی۔
۲۳-بادشاہ نے نوجوان کو ورغلانےاورگمراہ کرنےکی اپنی سی کوشش کی۔ اس کی کرامت کو جادوگر سے سیکھے جادو کی طرف منسوب کیا،لیکن نوجوان نے موقعے پر ہی اس جھوٹے دعوے کو ردکردیا اور صاف بتادیا کہ ’’مَیں شفا دینے کی قدرت نہیں رکھتا۔ شافی، اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ‘‘۔ اس پر بادشاہ فوراً جبروتشدد پر دوبارہ اتر آیا،ایک کم عمر،معصوم وبے گناہ نوجوان پر!
۲۴- بادشاہ نوجوان اور نابینا شخص سے تشدد کے ذریعے راز معلوم کرنے میں کامیاب ضرور ہوا، لیکن اس کی کوئی دھمکی اور بہیمانہ طریقے سے قتل و غارت بھی ان کو دین حق سے نہ پھیر سکی۔
۲۵- عالمِ دین اور نابینا،شاہی ہم نشین کوآرے سے سر چیرتے ہی موت نے آلیاتھا، لیکن بادشاہ نے ان کے پورے جسم کو دوٹکڑوں میں چیردیا تاکہ لاش کی قطع وبرید اور مثلہ کے ذریعے اپنا غصہ ٹھنڈا کرے، اور عام لوگوں میں خوف ودہشت پھیلا کر ان کو دین اسلام سے دُور رکھ سکے۔
۲۶-جبر وتشدد کے ان سب حربوں کے باوجود نوجوان اپنے دین پر ثابت قدم رہا،اور انجام سے قطع نظر، دین حق کو چھوڑنے سے انکار کردیا۔
۲۷- نوجوان کے دیگر دوساتھیو ں کو بے دردی سے قتل کیا۔ بادشاہ نے اس سے بھی زیادہ ظالمانہ طریقے سے نوجوان کوقتل کیا تاکہ عام لوگوں کو دہشت کے ذریعے دین اسلام سے دُور رکھا جاسکے۔
۲۸- اللہ تعالیٰ نے نوجوان داعی کو دو مرتبہ یقینی موت سے بچایا کہ زندگی اور موت کےفیصلے ہی نہیں بلکہ نفع ونقصان کے اموربھی صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلٰی اَنْ یَضُرُّوْکَ بِشَیءٍ لَمْ یَضُرُّوکَ اِلَّا بِشَیءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ عَلَیْکَ…… (مسنداحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۶۶۹،عن عبداللہ بن عباسؓ)۔ ایمان کی اس پختگی کے نتیجے میں اعتماد اور ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے ۔ دنیا کے سب امکانات، اور دروازے بند نظر آئیں تو ہر در اورمشکل کی شاہ کلید صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
۲۹- نوجوان کو یقین ہوگیا کہ ظالم بادشاہ اس کو لازماً سزائے موت دے گا تو کیوں نہ موت کو بھی دعوت الیٰ اللہ اور اس کی سچائی کا ذریعہ بنایا جائے! قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۶۲ۙ(الانعام۶:۱۶۲) ’’کہو،میری نماز ، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا،سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے‘‘۔
۳۰- ’بادشاہ‘ کواس نوجوان کے احکام کی تعمیل ذلت آمیز رسوائی سے کرناپڑی، حالانکہ نوجوان کے مقاصد کو سمجھنے کے لیے، عقل ودانش کی کسی بڑی مقدار کی ضرورت نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی عقل پر پردہ ڈال دیا اور اس کی خدائی کے دعویٰ کو جھوٹا اور غلط ثابت کردیا۔
۳۱- نوجوان کے قتل کے طریقے نے ثابت کردیاکہ وہ اپنی دعوت میں سچا ومخلص تھا، اور اس کی دعوت حق تھی۔کیونکہ ظالم بادشاہ اپنے سب ہتھکنڈوں سے ایک نہتے نوجوان کو قتل نہ کرسکا، آخرکار اسی کے ربّ کا نام لے کر اس کو قتل کرنے میں کامیاب ہوسکا۔
۳۲- اس کے بعد ظالم بادشاہ نے ظلم وتشدد اور نسل کشی کے ایسےحربوں کو اختیار کیا، جن سے انسانیت اب تک واقف نہ تھی۔
۳۳- جب لوگوں کو نوجوان کے ایمان اور دین کی سچائی کا یقین ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کے ساتھ ایسی ثابت قدمی نصیب کی کہ موت کو گلے لگالیا اور ہدایت الٰہی کا راستہ نہیں چھوڑا۔
۳۴-آخر میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاتون کو ثابت قدمی بخشی اور اس کے دودھ پیتے نومولود کی گفتگو کے ذریعے اس کو معجزہ دکھایا۔
۳۵- اس قصے کا اصل ہیرو ایک نوجوان تھا، جو دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں اصل اہمیت علم نافع اور عمل صالح کو ہے، نہ کہ عمر وتجربے کو۔ اللہ تعالیٰ نے دعوت کی تاریخ میں نوجوانوں میں خیر وبرکت کی بے شمار مثالیں رکھی ہیں : ابراہیم وعیسیٰ ویحییٰ علیہم السلام، اصحابِ کہف اور صحابہ کرامؓ۔
۳۶- اس دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنی حکمت ومشیت سے اہل ایمان کو فتح ونصرت اور غلبہ عطا فرماتا ہے،تاکہ اللہ کی زمین میں خیروصلاح اور نیکی وتقویٰ عام ہو، اور اہل ایمان کو اقتدار وغلبہ دے کرآزمائیں کہ وہ کیسے کام کرتے ہیں؟ لیکن یہ غلبہ ہمیشہ کے لیے اور دائمی نہیں ہوتا، کبھی بلکہ اکثر ایسے ہوتا ہے کہ وقتی غلبہ اور فتح، اسلام دشمنوں،کفار ومشرکین کو ملتی ہے جس میں کئی حکمتیں ہیں:
معاندین ومخالفین کی رسی دراز کرنا، تاکہ خوب ادھم مچالیں۔
مومنین صالحین میں کھرے اور کھو ٹے، سچے و مخلص اور جھو ٹے منافقین کی تمیز اور پہچان۔
مومنین کی سیئات کا کفّارہ، درجات کی بلندی اور اجر عظیم عطا کرنا۔
اہل ایمان کو اگر کبھی کسی زمانے میں اس قسم کی صورت حال سے سابقہ پیش آئے تو یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سب فیصلے علم،حکمت، مصالح اور مقاصد پر مبنی ہوتے ہیں۔
یہ قصّہ اہل علم کو مزید غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔
قرآنِ مجید میں یہ تذکرہ ضرور کیا گیا ہے کہ حضرت موسٰی کو اَزخود احساس ہوا کہ واقعی مجھ سے خطا ہوئی، لہٰذا بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا کہ:
رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاَخِيْ وَاَدْخِلْنَا فِيْ رَحْمَتِكَ ۰ۡۖ وَاَنْتَ اَرْحَـمُ الرّٰحِمِيْنَ۱۵۱ۧ (الاعراف ۷:۱۵۱) اے میرے رب، میری مغفرت فرما اور میرے بھائی کی بھی اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرمادے اور تو ارحم الراحمین ہے۔
اس مثال سے معلوم ہوا کہ توہین رسولؐ پر اَزخود احساسِ ندامت، توبہ اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دُعا کو کافی ہونا چاہیے۔
یہ اصول اگرچہ حضرت موسٰی کے واقعے میں آیا ہے، لیکن یہ ہرمسلمان کے لیے بھی عام ہے کہ اگر توہین رسالت کی نیت و قصد نہ ہو، اور توہین کا فعل شدتِ جذبات میں سرزد ہو، اور بعد میں اَزخود احساسِ ندامت، یا کسی کے توجہ دلانے پر توبہ و استغفار کرلے، تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا مستحق ہے۔ احناف کا توہین رسالت کی وجہ سے ارتداد میں یہی موقف ہے کہ توبہ و استغفار سے معافی مل جائے گی۔
امام ابن قیم الجوزیہ نے اپنے شیخ ابن تیمیہؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ اکثر یہ فرماتے تھے کہ سچے وفادار اور مخلص محب کو بسااوقات اس کی عظیم خدمات، وفاداری اور قربانی و ثابت قدمی کی وجہ سے بہت کچھ معاف کر دیا جاتا ہے، اور پھر فرماتے: حضرت موسٰی کو نگاہ میں لائو، اللہ تعالیٰ کے کلامِ الٰہی پر مشتمل ان تختیوں کو پھینک دیا، جنھیں وہ کوہِ طور سے لے کر آئے تھے، وہ اَلواح ٹوٹ گئیں اور اپنے جیسے اللہ تعالیٰ کے نبی، اپنے حقیقی بڑے بھائی حضرت ہارون ؑ کی داڑھی کو پکڑ کر کھینچا۔{ FR 785 }
حضرت موسٰی نے معراج کی رات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو احکامِ نماز میں تبدیلی کی درخواست کے لیے بار بار اللہ تعالیٰ کے پاس واپس بھیجا۔ اللہ رب العالمین نے یہ سب کچھ نہ صرف یہ کہ برداشت کیا، بلکہ منصب ِ نبوت و رسالت کے ساتھ، محبت و اِکرام کا تعلق بھی برقرار رکھا۔ وجہ یہ تھی کہ آپ نے خدا کے سب سے بڑے باغی ، فرعون کے دربار میں دعوت و حق گوئی اور مصری قبطیوں کے ساتھ اپنی قوم بنی اسرائیل میں بھی دعوت الی اللہ کا کام عمدہ طریق سے کیا۔ ان جلیل القدر خدمات کے مقابلے میں ان جوشیلی حالتوں کا کوئی وزن نہیں تھا، جیساکہ شاعر کہتا ہے:
وَاِذَا الْحَبِیْبُ أَتَی بِذَنْبٍ وَاحِدٍ - جَاءَتْ مَحَاسِنُہُ بِأَلْفِ شَفِیْعِ
[جب کسی محبوب شخصیت سے کبھی کوئی کوتاہی سرزد ہوجائے، تو اس کا پورا کارنامہ زندگی، خوبیاں اور سابقہ خدمات، ہزار سفارش کنندہ کے طور پر آجاتے ہیں]۔{ FR 787 }
کبھی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اسلام قبول کرتے وقت، اپنی جہالت و ناواقفی کی وجہ سے ایسے الفاظ استعمال کر گزرے، جو درحقیقت اسلام قبول کرتے ہوئے نہیں کہے جاتے، اور اپنی جگہ وہ کلماتِ کفر ہیں۔ لیکن چونکہ ایمان لانا اور اسلام قبول کرنا مقصود تھا، اس لیے شریعت نے اس غلطی کو نظراندازکرکے ایمان کے حق میں قبول کرلیا، جیساکہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے حوالے سے ہے، کہ انھوں نے قبیلہ بنوجذیمہ کو اسلام کی دعوت دی۔ انھوں نے اسلام قبول کرنے کے لیے صَبَانَا صَبَانَا ، یعنی ’ہم صائبی ہوئے‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ حضرت سالم، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انھوں نے بیان کیا کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کو بنوجذیمہ کی طرف بھیجا۔ حضرت خالدؓ نے انھیں دعوت دی تو انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی، مگر اپنی زبان سے انھوں نے ہم مسلمان ہوگئے کہنے کو اچھا نہ سمجھا، اور یوں کہنے لگے کہ: ’’ہم نے اپنا دین چھوڑ دیا‘‘ مگر حضرت خالدؓ انھیں قتل و قید کرنے لگے اور قیدیوں کو ہم میں سے ہر ایک کے حوالے کر دیا۔ ایک دن حضرت خالدؓ نے ہمیں اپنے اپنے قیدی قتل کردینے کا حکم دیا، تو میں نے کہا: ’’اللہ کی قسم! نہ میں اپنے قیدی کو اور نہ میرے ساتھی اپنے اپنے قیدی کو قتل کریں گے، یہاں تک کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آگئے اور مَیں نے آپؐ سے یہ واقعہ ذکر کیا، تو آنحضرتؐ نے ہاتھ اُٹھا کر دو مرتبہ فرمایا: اے اللہ! میں خالد کے فعل سے بری ہوں۔{ FR 786 }
حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
فَقَالُوا صَبَأنَا وَأَرَادُوا اَسْلَمْنَا فَلَمْ یَقْبَلْ خَالِدٌ ذٰلِکَ مِنْھُمْ وَقَتَلَھُمْ بِنَاءً عَلَی ظَاہِرِ اللَّفْظِ فَبَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ فَأنْکَرَہُ فَدَلَّ عَلٰی اَنَّہُ یُکْتَفَی مِنْ کُلِّ قَوْمٍ بِمَا یُعْرَفُ مِنْ لُغَتِھِمْ وَقَدْ عَذَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیْدِ فِی اجْتِھَادِہِ وَلِذٰلِکَ لَمْ یَقد مِنْہُ { FR 788 } یعنی ان لوگوں نے صَبَأنَا کہہ کر اسلام قبول کرنا ہی مراد لیا تھا، لیکن خالدؓ نے اس ذومعنی لفظ کو قبول نہ کیا اور ظاہر لفظ کی بنا پر ان کو قتل کرنے کا حکم دیا۔جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے اس کو ناپسند کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہرقوم سے ان کی زبان میں معروف و متداول الفاظ کو انھی معنوں میں قبول کیا جائے گا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولیدؓ کو اجتہادی غلطی کی وجہ سے قصاص سے معاف کر دیا۔
اس قاعدے یا اصول کی مثال حضرت اسامہ بن زید اور بنوسلیم قبیلہ کے چرواہے کا قصہ ہے۔ حضرت اسامہؓ کا واقعہ امام مسلم نے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ جنگ میں بھیجا، توہم صبح صبح جہینہ کے علاقے میں پہنچ گئے۔ میں نے وہاں ایک آدمی کو پایا۔ اس نے کہا: لا الٰہ الا اللہ ، میں نے اسے قتل کر دیا۔ پھر میرے دل میں کچھ خلجان سا پیدا ہوا، کہ میں نے مسلمان کو قتل کیا یا کافر کو؟ میں نے اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’کیا اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کر دیا‘؟ میں نے عرض کیا: ’اے اللہ کے رسولؐ! اس نے تو یہ کلمہ تلوار کے ڈر سے پڑھا تھا‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا کہ اس نے دل سے کہا تھا یا نہیں؟‘ آپؐ بار بار یہی کلمات دہراتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ تمنا ہونے لگی کہ کاش! میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔{ FR 789 }
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بنوسلیم کا ایک آدمی بکریوں کا ریوڑ لے کر صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کے قریب سے گزرا اور ان کو سلام کیا ، تو انھوں نے یہ سوچ کر کہ اس نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے سلام کیا ہے، وہ اُٹھے اور اسے قتل کر دیا اور اس کا بکریوں کا ریوڑ مالِ غنیمت کے طور پر ہانک کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیْلِ اللہِ فَتَبَیَّنُوا وَلَا تَقُولُوْا لِمَنْ اَلْقَی اِلَیْکُمْ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّن فَمَنْ اللہُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوا اِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا { FR 790 } اے ایمان والو! جب تم زمین میں کہیں نکلو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تمھیں سلام کرے اس کو یہ مت کہو کہ تم مومن نہیں ہو، تم دُنیوی مال و متاع کی طلب میں ہو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بے حدوحساب غنائم ہیں۔ آخر تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے، اب تحقیق کرلیا کرو، جو تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔
اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کا ظاہری دعویٰ ایمان قبول فرمایا اور ان کی نیتوں یا دلی ارادوں کی کھوج میں نہیں پڑے اور پورے عہد نبوت میں منافقین کا شمار مسلمانوں میں ہی ہوتا رہا۔ وہ جہاد، نماز، روزہ، سب عبادات میں بطورِ مسلمان حصہ لیتے تھے، اس لیے کہ مسلمان ظاہر کو دیکھ کر معاملہ کرنے کے پابند ہیں۔ باطن اور نیت یا قصد اور ارادے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا چاہیے۔{ FR 791 }
عقیدہ و ایمان کی طرح عدالتی اُمور میں بھی قاضی اور جج یا ثالث حضرات بھی اسی قاعدے کے پابند ہیں کہ ظاہری دلیل کی روشنی میں قاضی جس چیز پر مطمئن ہوجائے، اسی کے مطابق فیصلہ کردے، اگرچہ وہ حقیقی صورتِ حال کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ اس ہدایت کو سیّدہ اُمِ سلمہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ آپؐ نے فرمایا: ’’میں بھی انسان ہوں۔ میرے پاس مقدمے کے فریقین اپنی باتیں پیش کرتے ہیں ،تو ان میں سے کوئی زبان آور ہوسکتا ہے، جو محض اپنے زورِ بیان سے مجھے اپنی سچائی کا قائل کرلے اور مَیں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، تو ایسی صورت میں اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ مَیں اس کے لیے جہنم کی آگ کے ٹکڑے کا فیصلہ کر رہا ہوں۔ اب اس کی مرضی کہ وہ اسے لے یا اس کو صاحب ِ حق کے لیے چھوڑ دے۔{ FR 792 }
جب کسی انسان کے قولی و فعلی تصرف میں کفرو فسق کا احتمال پایا جائے، تو فوراً اس پر فتویٰ لگانے کے بجاے، اس سے اس کی نیت اور ارادے کے متعلق پوچھنا ضروری ہے۔ اپنی نیت اور ارادے کے بارے میں وہ خود ہی بتاسکتا ہے۔ کسی دوسرے شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کی نیت بتائے۔ اگر متعلقہ شخص پوچھے جانے پر کفروضلال والا موقف قبول کرلے تو معاملہ واضح ہوگیا۔ اگر تردید کردے تو اس کی تردید معتبر ہوگی اور قبول کی جائے گی۔ البتہ اگر وہ خاموش رہے یا اس سے رابطہ ممکن نہ ہو، تو وہ خاموش شمار ہوگا اور اس کی جانب کفرو ضلال کی نسبت درست نہ ہوگی، کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ: لَا یُنْسَبُ اِلٰی سَاکِتٍ قَوْلٌ { FR 793 }’’خاموش کی طرف کوئی بات منسوب نہیں کی جائے گی‘‘۔
اس کی دلیل حضرت قیس بن سعدؓ کی حدیث ہے کہ: مَیں حیرہ (کوفہ کے قریب ایک جگہ) آیا، تو میں نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ان کے مقابلے میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ آپؐ کو سجدہ کیا جائے۔ پھرجب مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مَیں نے کہا: مَیں حیرہ گیا تھا اور مَیں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں اور آپؐ ان کے مقابلے میں اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم آپؐ کو سجدہ کریں۔ آپؐ نے پوچھا: بھلا کیا جب میری قبر پر تُو آئے گا، کیا تُو سجدہ کرے گا؟ مَیں نے کہا: ’نہیں ‘۔تو آپؐ نے فرمایا: تو پھر زندگی میں بھی کسی کو سجدہ نہ کرو۔{ FR 794 }
دوسری دلیل حضرت معاذ بن جبلؓ کا واقعہ ہے جس کو حضرت عبداللہ بن اوفی بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذؓ جب شام سے آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا تو آپؐ نے فرمایا: معاذؓ! یہ کیا؟ عرض کیا: مَیں شام گیا تو دیکھا کہ اہلِ شام اپنے مذہبی اور عسکری رہنمائوں کو سجدہ کرتے ہیں تو میرے دل کو اچھا لگا کہ ہم آپؐ کے ساتھ ایسا ہی کریں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: آیندہ ایسا نہ کرنا، اس لیے کہ اگر مَیں کسی کو حکم دیتا کہ غیراللہ کو سجدہ کرے تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ خاوندکو سجدہ کرے۔{ FR 795 }
ان دونوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص سے کفروشرک کا احتمال رکھنے والے افعال کا صدور ہو، تو فتویٰ یا حکم لگانے میں جلدبازی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس سے اس کا قصد و ارادہ اور نیت معلوم کرنا ضروری ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کو فوراً کافرو مرتد قرار نہیں دیا بلکہ طلب کرکے ان سے حقیقی صورتِ حال کی وضاحت پوچھی۔ اسی واقعے کی طرف اللہ نے ارشاد فرمایا:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اگر میری راہ جہاد کرنے کے لیے اور میری رضاجوئی کی خاطر (وطن چھوڑ کر گھروں سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائو۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسولؐ کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلاوطن کرتے ہیں کہ مت اپنے رب، اللہ پر ایمان لائو۔ تم چھپا کر ان کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو، حالاںکہ جو کچھ تم چھپاکر کرتے اور جو علانیہ کرتے ہو، ہرچیز کو مَیں خوب جانتا ہوں۔ جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے، وہ یقینا راہِ راست سے بھٹک گیا۔(الممتحنہ۶۰:۱)
یہ آیات حضرت علی بن ابی طالبؓ کے بیان کے مطابق حضرت حاطبؓ کے بارے میں نازل ہوئی تھیں۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ: مجھے، زبیر اور مقداد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا اور آپؐ نے فرمایا: تم لوگ جائو، حتیٰ کہ (مقام) روضہ خاخ تک پہنچو۔ وہاں تمھیں ایک کجاوہ نشین عورت ملے گی، جس کے پاس ایک خط ہوگا، وہ خط اس سے لے لو۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھوڑے تیزی کے ساتھ ہمیں لے اُڑے ، حتیٰ کہ روضہ خاخ پہنچ گئے۔ وہاں ہمیں ایک کجاوہ نشین عورت ملی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس سے کہا کہ یا تو خط نکال دے، ورنہ ہم تیرے کپڑے اُتار (کر تلاشی) لیں گے، تو اس نے اپنی چوٹی میں سے خط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو اس میں لکھا ہوا تھا: ’حاطب بن ابی بلتعہ کی جانب سے مشرکین مکّہ کے نام‘۔ انھیں اس خط کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض معاملات (جنگ) کی اطلاع دے رہے تھے۔ رسولؐ اللہ نے حاطب سے فرمایا: حاطب !یہ کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: یارسولؐ اللہ! میرے بارے میں جلدی فیصلہ نہ فرمایئے۔ میں ایسا آدمی ہوں کہ قریش سے میرا تعلق ہے۔ میں ان کا حلیف ہوں اور مَیں ان کی ذات سے نہیں اور آپؐ کے ساتھ جو مہاجر ہیں، ان سب کےرشتہ دار ہیں جو ان کے مال، اولاد کی حمایت کرسکتے ہیں۔ چونکہ ان سے میری قرابت نہیں تھی، اس لیے میں نے چاہا کہ ان پر کوئی ایسا احسان کردوں، جس سے وہ میری رشتہ داری کی حفاظت کریں اور یہ کام میں نے اپنے دین سے پھر جانے اور اسلام لانے کے بعد کفر پر راضی ہونے کے سبب سے نہیں کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو، حاطب نے تم سے سچ سچ کہہ دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن مار دوں۔ آپؐ نے فرمایا:نہیں، نہیں کہ یہ بدر میں شریک تھے اور تمھیں کیا معلوم ہے؟ اللہ تعالیٰ نے حاضرین بدر کی طرف التفات کر کے فرمایا تھا کہ تم جو تمھارا جی چاہے، عمل کرو کہ مَیں تمھیں بخش چکا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی کہ اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنائو کہ تم ان سے اپنی محبت ظاہر کرو، فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیْلِ { FR 796 } [الممتحنہ ۶۰:۱] ’’وہ یقینا راہِ راست سے بھٹک گیا‘‘۔
اس واقعے سے معلوم ہوا کہ محض قیاسات و گمان اور جوش و جذبات کے زیراثر، کسی کے کفروارتداد کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کا خط لکھنے کا کیا مقصد تھا؟اس میں کئی احتمال موجود ہیں۔ اس کا اصل مقصد وہ بھی ممکن تھا جس کو انھوں نے خود بیان کیا کہ انھوں نے اسلام میں شک و تردّد یا ارتدداد کی وجہ سے نہیں لکھا، بلکہ صرف اپنے خاندان اور مفادات کو ایک طرح کا تحفظ مہیا کرنا مقصود تھا، یعنی یہ محض ایک غلطی اور لغزش کا ارتکاب تھا، کہ جس میں اسلام سے پلٹ جانے کا تصور بھی نہ تھا۔
ایک احتمال یہ بھی ہوسکتا تھاکہ نعوذ باللہ وہ دین و ایمان کو ترک کرکے کفروشرک اختیار کررہے ہیں۔ایسی صورت میں فیصلے کے لیے انھی کی طرف رجوع کر کے اصل صورتِ حال معلوم کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ یہی ہوا، ان کو بلا کر استفسار کیا گیا، اور انھوں نے جو مقصود اور نیت بتائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو قبول کرنے کا حکم دیا، اور اس ضمن میں حضرت عمرؓ کا جوش و غیرتِ ایمانی پر مبنی یہ موقف بھی تسلیم نہ کیا، کہ ان کا اسلام محض نفاق ہے جس پر یہ قابلِ گردن زدنی ہیں۔ رسولؐ اللہ نے نہ صرف یہ کہ اُن کا موقف قبول کیا بلکہ اُن کی سابقہ خدمات کا کھلے عام اعلان کیا، اور ایک ضمنی بشارت بھی دی کہ اللہ تعالیٰ نے بدر میں شرکت کے طفیل ان کی مغفرت فرما دی۔
حضرت حاطبؓ کے معاملے میں کفروارتداد کے مسئلے میں ملزم سے استفسار اور قصدونیت معلوم کرنے اور پھر اسی کے قول کو معیار ماننے کی یہ ایسی روشن مثال ہے، جس سے کوئی صاحب ِ ایمان انحراف کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات اس لیے مان لی تھی کہ آپؐ کو ان کی سچائی کا وحی کی بنیاد پر یقین ہوگیا تھا، نہ کہ اس وجہ سے کہ ان کے تصرف میں کوئی احتمال تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں کوئی تضاد نہیں۔ آپؐ نے ہمیشہ فیصلہ ظاہر پر ہی کیا۔ منافقین کے نفاق و کفر کو آپ یقینی طور پر جانتے تھے، لیکن آپؐ نے ہمیشہ ان کی جان بخشی ظاہر کی بنیاد پر کی، اور حضرت حاطب کی جان بخشی بھی ان کی بیان کردہ ظاہری صورتِ حال پر کی۔{ FR 797 }
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرزِعمل تقریباً پوری سیرت میں واضح نظر آتا ہے ، اور آپؐ کے اسی طرزِعمل سے فقہا و محدثین نے ایک شرعی قاعدہ اخذ کیا ہے، جو تقریباً سب فقہی مذاہب میں معتبر مانا جاتا ہے: نَحْنُ نَحْکُمْ بِالظَّاھِرِ وَاللہ یَتَوَلَّی السَّرَائِرَ [ہم ظاہر پر فیصلہ کرتے ہیں اور غیب کا علم اللہ کے پاس ہے]۔اس قاعدے کواکثر لوگوں نے مرفوع حدیث کے طور پر بیان کیا ہے، لیکن درست بات یہ ہے کہ یہ حدیث تو نہیں ہے لیکن اس میں بیان شدہ مضمون اہلِ علم کے ہاں متفق علیہ ہے اور یہ ایک قاعدے کے طور پر درست اور مسلّم ہے۔{ FR 798 }
حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ نے جو کچھ کیا، اس سے یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ عام اُمت کے افراد پر بھی اذیت کی کیفیت پیدا ہوئی تھی کہ ایک دفاعی راز دشمن کے علم میں لایا گیا ہے،لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدبازی اور فوری فیصلے کے بجاے ان کو بلایا، ان کا موقف سنا، صفائی کا بھرپور موقع دیا، جس میں انھوں نے اپنے مرتد ہونے کی تردید کی۔
اس طرح کی صورتِ حال میں تین ہی امکانات ہوتے ہیں:
تیسری صورت میں مشہور فقہی قاعدہ: لَا یُنْسَبُ اِلٰی سَاکِتٍ قَوْلٌ { FR 799 } [خاموش کی طرف کوئی بات منسوب نہیں کی جائے گی]کے مطابق اس کی طرف کوئی موقف منسوب کرنا درست نہ ہوگا، بلکہ دوسرے شرعی قاعدے: الاصْلُ بَقَاءُ مَا کَانَ عَلٰی مَا کَانَ [قاعدہ یہ ہے کہ چیز کو اپنی اصل حالت پر محمول کیا جائے گا]پر عمل کیا جائے گا کہ وہ مسلم تھا، اور کفریہ مفہوم کے محتمل تصرف کا کفریہ مفہوم اس نے قبول نہیں کیا۔ اس لیے وہ اپنی پہلی حالت ِ’ایمان‘ پر ہی شمار ہوگا۔
قبل ازیں ہم حضرت معاذ ؓ اور دوسرے صحابہ کرامؓ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے کے واقعات، اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کا واقعہ نقل کرچکے ہیں۔ انھی واقعات اور نصوص جیسی بے شمار دلیلیں قرآن و سنت میں موجود ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ انسان کی نیت اور قصد و ارادے کو اس کے کفر و ایمان میں کسوٹی کا درجہ حاصل ہے۔
زیربحث معاملے کی وضاحت کے لیے ذیل میں چند مزید احادیث نقل کرتے ہیں:
وہ آدمی چلا گیا تو قوم میں سے ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت طلب کی جو کہ غالباً حضرت خالد بن ولیدؓ تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنِّیْ لَمْ أُومَرْ اَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ وَلَا أَشُقَّ بُطُوْنَھُمْ ، ’’مجھے کسی انسان کے دل میں اُتر کر دیکھنے یا لوگوں کے پیٹ پھاڑ کر حقیقت معلوم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا‘‘۔ پھر فرمایا: ’’اس آدمی کی نسل سے وہ قوم پیدا ہوگی جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے نہ اُترے گا۔ اہلِ اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑیں گے۔ وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے، جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ اگر مَیں ان کو پاتا تو انھیں قومِ عاد کی طرح قتل کرتا۔{ FR 800 }
امام نووی ؒاس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یعنی مجھے ظاہر کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم ہے، باطن اور اندرون کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا چاہیے‘‘۔{ FR 801 }
امام نووی فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کو قتل نہیں کیا، کیونکہ وہ بظاہر مسلمان تھے، اور رسولؐ اللہ کو ظاہر کے مطابق ہی فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور نیت و باطنی قصد کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑنے کی ہدایت دی گئی تھی۔{ FR 803 }
کفرو ایمان، شرک و توحید، بدعت و سنت کا باہمی تعلق تو اضداد پر مبنی ہے۔ لیکن قرآن و سنت پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایک ہی شخص میں بعض اوقات توحید کے ساتھ شرک، سنت کے ساتھ بدعت، ایمان کے ساتھ کفر، فسق و معصیت کے ساتھ طاعت و تسلیم بہ یک وقت جمع ہوتے ہیں۔ ایک ہی شخص میں باہمی متضاد ان چیزوں کا اجتماع ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسی شخصیات کا وجود پایا جاتا تھا، جن میں یہ تضادات جمع تھے اور آپؐ نے ایمان و توحید، سنت اور طاعت و تسلیم کو ان کے کفروشرک، بدعت، فسق و معصیت پر ترجیح دی اور اس کی اصل وجہ اور بنیاد ، دو باتیں تھیں:
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۴۵ وَقَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْرٰىۃِ ۰۠ وَاٰتَيْنٰہُ الْاِنْجِيْلَ فِيْہِ ہُدًى وَّنُوْرٌ۰ۙ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَہُدًى وَّمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِيْنَ۴۶ۭ وَلْيَحْكُمْ اَہْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فِيْہِ۰ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۴۷(المائدہ ۵:۴۵-۴۷) اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ پھر ہم نے ان پیغمبروںؑ کے بعد مریم ؑ کے بیٹے عیسٰی ؑ کو بھیجا۔ تورات میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا۔ اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات میں سے جو کچھ اس وقت موجودتھا اُس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خداترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔ ہمارا حکم تھا کہ اہلِ انجیل اُس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔
ان آیات میں، اپنے جھگڑوں کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام و قوانین کے مطابق نہ کرنے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق قرار دیا گیا ہے۔ اگر ظاہری مفہوم کو لیا جائے تو: ’’موجودہ زمانے میں اکثر مسلم ممالک کا عدالتی نظام اور قوانین نوآبادیاتی زمانے میں سامراجی حاکموں سے لیے گئے ہیں۔ اس لیے وہ دائرۂ ملّت سے خارج اور باہر ہوجاتے ہیں‘‘۔ اکثر تکفیریوں کا یہی موقف ہے کہ: ’’ مسلم ممالک کے حکمران دائرۂ ملّت سے خارج ہیں، اسی لیے ان کے خلاف جہاد و لڑائی واجب ہے‘‘۔ لیکن ان کا یہ موقف اس لیے درست نہیں کہ انھوں نے عملی اور اعتقادی کفر میں فرق نہیں کیا، حالاں کہ یہ فرق نصوص نے کیا اور صاحب ِوحی صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم قدم پر اس کو ملحوظ رکھا۔
اس آیت کی تفسیر میں مفتی مکہ مکرمہ اور مشہور مفسر تابعی حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
اِنَّہٗ لَیْسَ بِالْکُفْرِ الَّذِیْ تَذْھَبُوْنَ اِلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَیْسَ کُفْرًا یَنقِلُ عَنْ مِلَّۃٍ کُفْرٌ دُوْنَ کُفْرٍ { FR 805 } ان آیات میں وہ کفر مراد نہیں، جس کی طرف عام طور پر لوگوں کا ذہن جاتا ہے، اور اس سے وہ کفر بھی مراد نہیں جو دائرۂ ملّت سے خارج کردیتا ہے، بلکہ بڑے کفر سے کم درجے کا کفر، ظلم اور فسق مراد ہے۔
اس سلسلے میں یہ قاعدہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ کچھ اعمال و اقوال کو شریعت میں کفر قرار دیا گیا ہے اور ان کا حکم ہمیشہ یہی ہوگا اور ان کا مرتکب کافر ہوگا۔ یہ عمومی بات سو فی صد درست ہے۔ البتہ ان اعمال و اقوال کا کوئی متعین مرتکب یا فاعل ضروری نہیں کہ کافر ہوجائے، اس لیے کہ ان اعمال کے متعین مرتکب پر کفر کا حکم لگانے کے لیے کچھ شرائط کا وجود اور موانع کا عدم وجود لازمی قرار دیا گیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ایک حدیث میں شراب کے سلسلے میں دس افراد پر لعنت کی تصریح فرمائی جن میں: شراب، اس کو پینے والا، اس کا ساقی (پلانے والا)،فروخت کرنے والا ، خریدار، شراب ساز، جس کے لیے تیار کی گئی، نقل و حمل میں کام کرنے والا کہ جس کے لیے منتقل کی گئی، شامل ہیں۔ { FR 806 }
آپؐ نے ایک طرف تو شراب نوشی پر لعنت فرمائی،لیکن جب حضرت عبداللہؓ کا نام اور حمار لقب والے ایک متعین شخص کو بار بار جرمِ شراب نوشی میں آں حضوؐر کے سامنے پیش کیا گیا۔ تب بعض صحابہ کرامؓ نے ان پر لعنت بھیجی، تو آپؐ نے سختی سے منع فرمایا: لَا تَلْعَنُوہُ فَاِنَّہُ یُحِبُّ اللہَ وَرَسُوْلَہُ ’’اس پر لعنت مت بھیجو، کیونکہ یہ میرے علم میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ سے محبت رکھتا ہے‘‘۔{ FR 807 }
اسی طرح شدت مسرت میں اپنے آپ کو ربّ، اور اللہ تعالیٰ کو عبد قرار دینے والے مسافر کی حدیث، اور حضرت قیس بن سعدؓ کے حیرہ سے واپسی اور معاذ بن جبلؓ کے شام سے و اپسی پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے، اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کے دشمن کے لیے مخبری کے واقعات ہم نقل کرچکے ہیں، کہ کفروخیانت کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دائرۂ اسلام سے خارج نہیں کیا، کیونکہ شروط و موانع پر بھی آپؐ کی نظر تھی۔اس لیے عین ممکن ہے کہ کوئی فعل، شرعاً ثابت شدہ یقینی کفر، شرک، بدعت یا معصیت ہو، لیکن اس کا فاعل کسی شرط کے عدم وجود یا کسی مانع (رکاوٹ) کے وجود کی وجہ سے مسلم ہی رہے، کافر اور مرتد یا متبدع و عاصی نہ ہو۔ یعنی فعل اور فاعل کا حکم بالکل ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہوسکتا ہے۔
اب ہم ذیل میں ان شرائط و موانع کو بیان کریں گے:
lعقل اور ہوش و حواس: ان شرائط میں سب سے اوّلین شرط عقل و شعور اور ہوش و حواس کا موجود ہونا ہے اور اس کی ضد ’جنون‘ مانع، یعنی رکاوٹ ہے۔ گویا کسی مسلمان شخص کو کافر قرار دینے کے لیے اس کا عاقل ہونا شرط ہے جس کی عدم موجودگی میں مشروط کا وجود بھی کالعدم ہوگا اور عقل کی ضد ’جنون‘ تکفیر مسلم میں مانع ہے۔
اس مقالے میں کسی مسلمان کے کفروارتداد کا فیصلہ کرنے کے لیے شرعی قواعد و ضوابط اور اصول و مبادی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بطورِ خلاصہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
اصولاً ہرانسان مسلم ہے، اور اس کا دین اسلام ہے، کفربعد میں پیدا ہونے والا ایک عارض ہے۔ دین و ایمان کی حفاظت شریعت کا اوّلین اور سب سے اہم مقصد ہے۔ شریعت میں تکفیر کے لیے جلدبازی، بے احتیاطی پر سخت وعید آئی ہے، تو ایمان کا یقین کفر و ارتداد کے شک سے ختم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ جو بات یقینی طور پر ثابت ہو، وہ صرف یقین سے ہی ختم ہوسکتی ہے۔
شریعت کی نظر میں ایمان کی جو اہمیت ہے، اس کے پیش نظر شارع نے کبھی ظاہر حال کو ترک کرکے دل کی نیت کو، ایمان کی خاطر قبول کرلیا، اور کبھی ظاہری صورتِ حال اگر ایمان کے حق میں ہو، تو نیتوں کو ٹٹولنے یا دلوں میں اُترنے کے بجاے ظاہر کو قبول کرلیا۔
قول وفعل میں کفر و فسق کا احتمال ہو تو صاحب ِ قول سے اس کی نیت کا پوچھنا لازمی ہے اور انسان کی نیت کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے یا کوئی انسان خود اپنی نیت بتاسکتا ہے نہ کہ کوئی دوسرا۔
شارع نے نصوص میں اعتقادی اور عملی کفروشرک میں فرق رکھا ہے۔ جس کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ جب معاملہ کسی متعین شخص یا افراد کو کافر، مشرک قرار دینے کا ہو، تو اس مقصد کے لیے کچھ شروط کا وجود ضروری ہے، اور اسی طرح کچھ موانع کا نہ ہونا بھی لازمی ہے۔ تکفیر کے لیے لازمی ان شرائط و موانع میں عقل اور ہوش و حواس میں ہونا، بلوغت اور مکفرات کا علم ہونا، نیز یہ کہ اس نے اپنے آزاد ارادے و اختیار کے ساتھ ان کا ارتکاب کیا ہو۔ اور تاویل و اجتہادی خطا نہ ہو، قصد اور نیت بھی پائے جائیں۔
گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی مسلمان کے عقیدے اور دین و ایمان کا فیصلہ کرنا، صحافیوں، کالم نویسوں، ریڈیو یا ٹیلی ویژن کے اینکروں یا عامۃ الناس، شعلہ نوا مقرروں اور پُرجوش طلبہ کا کام نہیں بلکہ عام علما اور مفتی حضرات کو بھی اس میں حصہ نہیں لینا چاہیے، کیونکہ کفروایمان کے مسائل کا فیصلہ کرنے کے لیے اجتہادی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔
اور یاد رکھنا چاہیے کہ کسی قول و فعل یا رواج و عادت کو عمومی طور پر کفروشرک، یا فسق و فجور اور ظلم، یا بدعت، یا قابلِ لعنت و پھٹکار، یا گناہ تسلیم کرنے یا قرار دینے سے اس کے مرتکب کسی خاص یا متعین شخص کو کافر، مشرک یا فاسق، فاجر وظالم، یا ملعون یا بدعتی قرار دینا درست نہیں، جب تک کہ سابق بیان کردہ چند شرائط کا وجود اور چند موانع کا عدم وجود یقینی نہ ہو۔
اس ضمن میں کئی مزید قواعد اور اصول بھی بیان کیے جاسکتے ہیں، لیکن بیان شدہ اصول و ہدایات اس معاملے کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ کسی مسلمان کی تکفیر و تفسیق یا مشرک بدعتی کہنے میں جلدبازی کے بجاے، احتیاط اور معاملہ فہمی سے لے کر شریعت کے مقصد کو پیش نظر رکھا جائے کہ دینِ اسلام میں لانا اورداخل کرنا، اور پھر دین و ایمان کی حفاظت کرنا اصل مقصود ہے اور جلدبازی میں کسی کے عقیدے پر حکم لگانا درست نہیں۔(مکمل)
اس وقت امت مسلمہ میں بالعموم اور ہمارے ملک و معاشرے میں بالخصوص اسلام کے چاہنے،ماننے والوں اور لادین طبقے کے درمیان ایک کش مکش برپا ہے۔ سیکولر طبقات مسلمانوں کی عمومی زندگی سے ہی نہیں بلکہ ریاست اور اس کے اداروں سے بھی اسلام ، دینی علامات اورشعائر کو مٹانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ اسلام اوراُمت مسلمہ کی محترم و مقدس شخصیات کو نشانہ بنایا اور ان کی توہین وتضحيک کی جا رہی ہے۔ اس کام میں بڑی چالاکی سے سادہ لوح مسلمانوں کو لادین عناصر استعمال کررہے ہیں۔ اس لیے ایمان و کفرکی حدود سے لا علم حضرات کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔
دوسری طرف خود اسلام کے ماننے والوں کے درمیان بھی کوئی قابلِ رشک اتحاد و اتفاق نہیں پایا جاتا۔ فرقہ واریت کا زہر امت کے جسدِ واحد کوکھوکھلا کر رہا ہے ، ایک دوسرے کے خلاف تکفیر، تفسیق اور تضلیل کے فتاویٰ صادر ہو رہے ہیں اور فتنہ کی سی صورتِ حال واضح نظر آرہی ہے۔
اس فتنۂ تکفیر کی جڑیں قدیم ہیں، تاریخی لحاظ سے اُمت مسلمہ میں سب سے پہلا اور خطرناک ترین فتنہ تکفیر ہی کا تھا۔ قرنِ اوّل میں خوارج نے تکفیر و تفسیق میں غلو سے کام لیا، حتیٰ کہ انھوں نے حضرت علیؓ، حضرت معاویہؓ، حضرت عمرو ؓبن عاص کو بھی دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا، اور قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنانے کے لیے امن اور حُرمت کے شہر مکہ میں بیٹھ کر سازش تیار کی، اور منصوبے کے مطابق:
خوارج کے اس فتنہ تکفیر کے نتیجے میں اُمت مسلمہ تقسیم ہوئی، قتل و غارت اور ناحق خوںریزی سے ہزاروں بے گناہ لوگ اپنی جان و مال سے محروم ہوئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ خوارج کا وجود ختم ہوگیا، لیکن ان کی ’تکفیری فکر‘ آج تک ختم نہیں ہوئی۔ اسی ’تکفیری فکر‘ کی وجہ سے آج عالمِ اسلام کے کئی ممالک میں فساد اور خانہ جنگی اور ہیجان کی کیفیت برپا ہے۔ کفار و مشرکین نے مشکل وقت میں اپنے دشمن کو ختم کرنے کے لیے جن مسلمان ’حریت پسندوں‘ اور ’جاں بازوں‘ کی مدد کی تھی،وقت گزرنے اور اپنا ہدف پانے کے بعد انھی کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور آج ان کو ہرقسم کے ظلم و تعذیب اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ جواباً انھوں نے بھی دہشت گردی کی اس جنگ میں جارح مغربی ممالک کا ساتھ دینے والے مسلم حکمرانوں اور ان کے اداروں اور فورسز کے خلاف کھلی یا چھپی جنگ شروع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ: ’’ہم یہ مسلح جدوجہد ان لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں،جو مختلف وجوہ کی بناپر، مرتد ہوکر دائرۂ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں‘‘۔
اس صورتِ حال میں عوام الناس ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ طبقہ اور نیم خواندہ علما بھی واضح شرعی موقف کے معاملے میں پریشان فکری کا شکار ہیں۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ دین اسلام کی رہنمائی کو زیادہ واضح کیا جائے، کہ: کفر کیا ہے؟ اور تکفیر کے بنیادی اصول و ضوابط کیا ہیں؟ اور تکفیر کا حق کس کو حاصل ہے؟ انھی سوالات کا جواب اس تحریر میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مختصر طور پر ان بنیادی اصول و قواعد کو بیان کیا گیا ہے، جن کو کسی مسلمان شخص کے ایمان اور کفروارتداد کے متعلق راے قائم کرتے وقت ملحوظ رکھنا شرعاً ضروری ہے۔
اوّلین قاعدہ یہ ہے کہ کسی شخص کے کفروایمان کا فیصلہ کرنے کا اختیاربھی شارع کا حق ہے۔ کسی مسلمان کے عقیدہ، ایمان و کفر کا فیصلہ، کسی صورت میں کسی کی ذاتی خواہش، سوے ظن، غلط فہمی، تعصب یا دشمنی کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح کسی مسلمان کی تکفیر یا اس کو مشرک، بدعتی یا فاسق و فاجر قرار دینے یا کسی کے کفر و ایمان کا فیصلہ کرنے کا حق و اختیار عوام الناس ، دین سے ناواقف لوگوں،یا میڈیا کو نہیں دیا گیا، بلکہ صرف راسخ اہلِ علم اور افتا کے منصب پر فائز افراد بھی مضبوط شرعی دلائل کی بنیاد پر ہی کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں:
اُمت مسلمہ کے اسلاف میں تکفیر و تفسیق کا طریقہ نہیں تھا۔ وہ اس ضمن میں ان ارشاداتِ نبویؐ کی وجہ سے بہت احتیاط سے کام لیتے تھے، جن میں کسی کی تکفیر میں جلدبازی اور بے احتیاطی کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ اس ضمن میں کئی صحابہ کرامؓ سے روایات آئی ہیں، جن میں حضرت انس بن مالکؓ{ FR 764 } حضرت ابوذر غفاریؓ { FR 766 }حضرت ثابت بن ضحاکؓ{ FR 767 } حضرت ابوہریرہؓ{ FR 768 } حضرت عبداللہ بن عمرؓ { FR 769 }، حضرت ابوسعید خدریؓ شامل ہیں۔{ FR 771 }
امام ابن الوزیر صنعانی، محمد بن ابراہیم بن علی (م:۸۴۰ھ) مسلمانوں کی تکفیر سے ممانعت والی احادیث کو ’متواتر‘ قرار دیتے ہیں۔{ FR 772 }
حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ: میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنا: لَا یَرْمِی رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوْقِ وَلَا یَرْمِیْہِ بِالْکُفْرِ اِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَیْہِ اِنْ یَکُنْ صَاحِبُہُ کَذٰلِکَ { FR 773 } ’’جس شخص نے بھی کسی کو فسق و فجور اور کفر کا الزام دیا ، اگر وہ اس طرح نہ ہو تو یہ بات خود کہنے والے پر لوٹ آئے گی‘‘۔
دوسرا اہم قاعدہ یہ ہےکہ ہر انسان فطرتاً اور پیدایشی طور پر مسلمان ہے۔ اس کے جدامجد حضرت آدم ؑ، اللہ رب العالمین کے فرماں بردار مسلم تھے۔ نوعِ انسانی کی جانب، اللہ تعالیٰ کے اوّلین پیغمبر تھے۔ ان کی اولاد بھی اصلاً مسلم ہی تھی۔ بعد میں کفر وشرک اور معصیت میں مبتلا ہوکر لوگ اللہ تعالیٰ کے دین سے دُور ہوتے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا۰ۭ وَلَوْلَا كَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَھُمْ فِيْمَا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۱۹(یونس ۱۰:۱۹) سب انسان ایک ہی اُمت تھے، پھر ان میں اختلافات پیدا ہوئے، اور اگر تمھارے ربّ کا فیصلہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو ان لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ یہیں پر کردیا جاتا۔
حضرت آدمؑ زمین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث سب سے پہلے پیغمبر اور خلیفہ تھے:
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۰ۭ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ۰ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ۰ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۳۰(البقرہ ۲:۳۰) پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمھارے ربّ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’مَیں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔
قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ منصب ِ خلافت الٰہی، حضرت آدم ؑ کی اولاد کو بھی حاصل ہے، چنانچہ سورئہ انعام میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ۰ۡۖ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۶۵ (انعام ۶:۱۶۵، نیز ملاحظہ ہو قرآنی آیات: یونس۱۰:۱۴، النمل ۲۷: ۶۲، فاطر۳۵:۳۹) وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمایش کرے۔ بے شک تمھارا ربّ سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ (م:۱۹۷۹ء) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
اس آیت میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں:
ایک یہ کہ تمام انسان زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں، اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مملوکات میں بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور ان پر تصرف کے اختیارات بخشے ہیں۔
دوسرے یہ کہ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا ہی نے رکھا ہے۔ کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدود، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرف کے اختیارات دیے ہیں اور کسی کو کم چیزوں پر، کسی کو زیادہ قوت کارکردگی دی ہے اور کسی کو کم، اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں۔
تیسرے یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے۔ پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے، اور جس کو جو کچھ بھی خدا نے دیا ہے، اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے کس طرح خدا کی امانت میں تصرف کیا؟ کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا؟ اور کس حد تک اپنی قابلیت یا ناقابلیت کا ثبوت دیا؟ اسی امتحان کے نتیجے پر زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے۔{ FR 774 }
اور اس خلافت ِ الٰہی سے مقصود انسان کی تکریم و اعزاز ہے جیساکہ سورئہ بنی اسرائیل میں فرمایا: وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ (۱۷:۷۰)’’ہم نے آدم ؑ کی اولاد کو ایک تکریم و اعزاز بخشا ہے‘‘ کے علاوہ زمین کی آبادکاری و ترقی(جیساکہ سورئہ ہود ۱۱:۶۱ میں فرمایا: ہُوَاَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيْہَا ) اور اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین کی تنفیذ و تعمیل ہے۔
حضرت آدم ؑ کے بارے میں قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلم اور نبی تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے علم کے ساتھ اپنی خلافت سے نوازا۔ حضرت آدم ؑ کی اولاد نے اپنے والد سے وراثت میں ایمان کے ساتھ والد کی خلافت بمعنی جانشینی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی خلافت بمعنی نیابت پائی۔
ایک حدیث قدسی حضرت عیاض بن حمار مجاشعیؓ کی روایت سے بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز خطبہ دیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اِنِّیْ خَلَقْتُ عِبَادِی حُنَفَاءَ کُلَّھُمْ ، وَ اِنَّھُمْ أَتَتْھُمُ الشَّیَاطِیْنُ فَاجْتَالَتْھُمْ عَنْ دِیْنِھِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَیْھِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَھُمْ وَأَمَرَتْھُمْ اَنْ یُشْرِکُوا بِیْ مَا لَمْ اُنْزِلْ بِہِ سُلْطَانًـا { FR 784 }میں نے اپنے بندوں کو توحید پر یکسو اور مسلم پیدا کیا، اب شیاطین (جِنّ و انس) نے آکر ان کو ان کے اصل دین سے پھیر دیا، اور میرے حلال کردہ کو ان پر حرام کیا، اور ان کو میرے ساتھ ایسے شریک اور حصہ دار ٹھیرانے پر آمادہ کیا جن کے لیے مَیں کوئی سند (اتھارٹی) نازل نہیں کی تھی۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہربچہ اسلامی فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں، جس طرح جانور صحیح سالم عضووالا بچہ جنتا ہے، کیا تم اس میں سے کوئی عضو کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر حضرت ابوہریرہؓ نے یہ آیت آخر تک تلاوت کی: فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۰ۤۙ (الروم ۳۰:۳۰)’’پس اے قرآنِ مجید کے خطاب کو سننے والے یک سُو ہوکر اپنا رُخ اس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہوجائو اس فطرت پر، جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔{ FR 775 }
مولانا امین احسن اصلاحیؒ (م:۱۹۹۷ء) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’ الدین‘سے مراد اللہ کا حقیقی دین اسلام ہے جس کی دعوت اس کے تمام نبیوںؑ اور رسولوں ؑ نے دی اور جس کی تکمیل نبی اُمی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہوئی۔ یہی دین اللہ تعالیٰ کا اصلی دین ہے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)’’اصلی دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے‘‘۔ فِطْرَۃَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا (الروم ۳۰:۳۰)یعنی ’’ہر طرف سے کٹ کر اس دین فطرت کی پیروی کرو، جس پر فاطر فطرت نے لوگوں کو پیدا کیا ہے‘‘۔ یہ اس الدین کی صحت و صداقت کی دلیل بیان ہوئی ہے جس کی طرف یکسو ہونے کی اُوپر والے ٹکڑے میں ہدایت فرمائی گئی ہے، کہ یہ دین کوئی خارج کی چیز نہیں ہے جو تم پر اُوپر سے لادی جارہی ہو، بلکہ یہ عین تمھاری فطرت کا بروز اور تمھارے اپنے باطن کا خزانہ ہے، جو تمھارے دامن میں ڈالا جارہا ہے۔
اس سے واضح ہوا کہ جو فلسفی یہ کہتے ہیں کہ:انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک صفحہ سادہ اور تمام تر اپنے ماحول کی پیداوار اور الف و عادت کی مخلوق ہے، ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہترین ساخت اور بہترین فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اس کو خیروشر اور حق و باطل کی معرفت عطا فرمائی ہے اور نیکی کو اختیار کرنے اور بدی سے بچنے کا جذبہ بھی اس کے اندر ودیعت فرمایا ہے، لیکن اس کی یہ فطرت حیوانات کی جبلت کی طرح نہیں ہے کہ وہ اس سے انحراف نہ اختیار کرسکے بلکہ وہ اپنے اندر اختیار بھی رکھتا ہے، اس وجہ سے بسااوقات وہ اس دنیا کی محبت اور اپنی خواہشوں کی پیروی میں اس طرح اندھا ہوجاتا ہے کہ حق و باطل کا شعور رکھتے ہوئے نہ صرف باطل کی پیروی کرتا ہے بلکہ باطل کی حمایت میں فلسفے بھی ایجاد کرڈالتا ہے۔{ FR 776 }
اسلامی شریعت کو انسان کا دین و عقیدہ بہت عزیز ہے۔ اسی کی بنیاد پر اس کا حساب کتاب ہوگا۔ اسی لیے ایمان اور عقیدے کی حفاظت کو مقصود قرار دے کر بے شمار نصوص میں اس کی تاکید آئی ہے اور مقاصد ِ شریعت میں اس کو اوّلیت اور سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے، گویا سب سے پہلے دین و ایمان ہے کہ: جس کی خاطر انسان کی جان، مال، عقل اور عزت و آبرو بھی قربان۔
دین و ایمان کی طرف دعوت کی خاطر انبیاے کرام ؑ کو مبعوث فرمایا:
وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۚ وَالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِيْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۸ (الحدید ۵۷:۸)تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسولؐ تمھیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے اگر تم واقعی ماننے والے ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کفار و مشرکین کی ہدایت اور ایمان لانے کو بہت اہمیت دیتے، اور ہرممکن کوشش کرتے تھے، حتیٰ کہ اس بارے میں فکروسوچ اور محنت سے اپنے آپ کو گھلائے دے رہے تھے کہ ربِ کریم نے خود اس فکرمندی کو اپنی کتاب میں ثبت فرما دیا:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا۶ (الکہف ۱۸:۶) اے پیغمبرؐ! اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج و فکر کرکر کے اپنے تئیں ہلاک کردو گے؟
اور دین و ایمان کی دعوت تو انبیاء کرام، اولیا اور صلحاے اُمت کا طریقہ اور نقش قدم ہے:
قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۰ۭ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۱۰۸ (یوسف۱۲:۱۰۸) کہہ دو میرا راستہ تو یہ ہے کہ مَیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں (ازروئے یقین و بُرہان) سمجھ بوجھ کر۔ میں بھی (لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی۔ اور اللہ پاک ہے اور مَیں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
ان سب آیات و احادیث سے ثابت ہوا کہ ہرنومولود بچہ جو کسی انسان کے ہاں پیدا ہوا، اور بالخصوص اسلامی معاشرے میں پیدا ہونے والا ہر بچہ شریعت کی نظر میں فطرتاً مسلم ہے۔ جب ہرانسانی نومولود کا ایمان و اسلام یقینی طور پر ثابت ہوگیا تو اب ہم کہتے ہیں کہ شرعی قاعدہ یہ ہے:
فقہ کے مشہور پانچ بنیادی اور کُلی قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ ہے کہ: الْیَقِیْنُ لَا یَزُوْلُ بِالشَّکِ ، جس کا مفہوم یہ ہےکہ جب کوئی معاملہ یقینی طور پر منفی یا مثبت طور پر معلوم ہوجائے تو بعد میں آنے والے کسی بھی شک و تردّد سے وہ یقین ختم نہیں ہوگا۔{ FR 777 }
یہ قاعدہ فقہی مسائل (فقہ اصغر) کے علاوہ ایمانی و کلامی مسائل (فقہ اکبر) کو بھی محیط ہے۔ بالخصوص ہر وہ مسئلہ کہ جس میں شک و یقین کی دونوں جہتیں پائی جائیں تو شک کو چھوڑ کر یقین والی جہت کو ترجیح دی جائے گی، کیونکہ الشَّکُ اَضْعَفُ مِنَ الْیَقِیْنِ فَلَا یُعَارِضُہُ ثُبُوْتًا وَّعَدَمًا { FR 778 } ’’شک یقین سے بہرحال کمزور ہے، اس لیے ثبوت و عدم ثبوت دونوں میں اس کے مقابلے میں نہیں آسکتا‘‘۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے: اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ۰ۚ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔا۲۸ۚ (النجم۵۳:۲۸)’’یہ لوگ صرف ظن پر چلتے ہیں اور ظن یقین کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا‘‘۔
اس آیت میں یقینی طور پر ثابت شدہ چیز یعنی ’حق‘ کو چھوڑ کر، ظن و تخمین کے پیچھے چلنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ چوں کہ تکفیر کے نتیجے میں متاثر شخص کی زندگی ہی نہیں بلکہ اس کے خاندان اور معاشرے پر بہت ہی دُور رس اثرات اور بڑے پیمانے پر نتائج مترتب ہوتے ہیں، اس لیے صرف شک و شبہہ یا ظن کی بنیاد پر کسی مسلمان کی تکفیر درست نہیں۔ شریعت نے ادنیٰ شبہے کی بنیاد پر حدود کی سزائوں کو ساقط کر دیا، حالاں کہ حدود کی تنفیذ کے نتیجے میں انسان کی جان جاتی ہے، جب کہ کسی بھی شخص کا ایمان، اس کی زندگی اور جان کے مقابلے میں زیادہ قیمتی، مقدم اور افضل واولیٰ ہے۔ اس لیے محض شکوک و شبہات کی وجہ سے کسی مسلمان کی تکفیر کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
اسی قاعدہ کا ایک ذیلی قاعدہ یہ ہے: مَا ثَبَتَ بِیَقِیْنٍ لَا یَرْتَفْعُ اِلَّا بِیَقِیْنٍ { FR 779 } ’’جو بات یقینی طور پر ثابت ہو، وہ صرف یقین سے ہی ختم ہوسکتی ہے‘‘۔
اس لیے جس شخص کا مسلمان ہونا یقین کے ساتھ ثابت ہو، اس پر کفروارتداد کا حکم لگانے کے لیے یقینی اور پختہ دلیل کی ضرورت ہوگی۔ اسی لیے محقق اہلِ علم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ: ’’کسی کے کفروارتداد کے سو میں سے ننانوے احتمالات موجود ہوں، تب بھی شرعی نصوص کا تقاضا یہ ہےکہ صرف ایک احتمال کو ترجیح دے کر اس کو مسلمان شمار کیا جائے‘‘۔
شریعت کی نظر میں کسی بھی شخص کا ایمان و اسلام بہت اہم ، مطلوب و مقصود اور مقبول ہے ، خواہ وہ دل میں پوشیدہ ہی کیوں نہ ہو، جس پر کوئی انسان مطلع نہیں ہوسکتا۔ اس کی واضح دلیل حضرت عمار یاسرؓ کا واقعہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ذکر فرمایا:
مَنْ كَفَرَ بِاللہِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہِ۰ۚ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۱۰۶ (النحل ۱۶:۱۰۶) جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور دل اُس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس چیز نے دل کی رضامندی سے کفر کو قبول کرلیا اُس پر اللہ کا عذاب ہے۔
حضرت عمارؓ بیان فرماتے ہیں کہ: وہ مشرکین کے ہتھے چڑھ گئے اور اس وقت تک انھیں نہیں چھوڑا گیا، جب تک انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا بھلا کہہ کر ان کے باطل معبودوں کی تعریف نہیں کردی۔ جب نرغے سے نکل پائے تو روتے ہوئے بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے، تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: عمارؓ! کیا بات ہے؟ آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مشرکوں نے پکڑ لیا تھا اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میں نے آپ کی شان میں گستاخانہ کلمات نہیں کہہ دیے اور ان کے جھوٹے معبودوں کا ذکر خیر نہیں کر دیا۔ تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کہو، دل کی کیفیت کیا ہے؟ تو عرض کیا: دل ایمان پر مطمئن ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اگردوبارہ ایسی حالت میں گرفتار ہوجائو تو اسی طرح کرو۔{ FR 780 }
اس کی دوسری مثال شدت مسرت و فرحت میں، بغیر قصدو ارادے کے، کلماتِ کفر کا زبان پر جاری ہوجانا ہے، جیسے حضرات انس بن مالک، عبداللہ بن مسعود، نعمان بن بشیر، براء بن عازب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَـلّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہِ حِیْنَ یَتُوبُ اِلَیْہِ مِنْ اَحَدِکُمْ کَانَ عَلٰی رَاحِلَتِہِ بِاَرْضِ فَلَاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ وَعَلَیْھَا طَعَامُہُ وَشَرَابُہُ فَأَیِسَ مِنْھَا فَأَتَی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِی ظِلِّھَا قَدْ أَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِہِ فَبَیْنَا ھُوَ کَذٰلِکَ اِذَا ھُوَا بِھَا قَائِمَۃً عِنْدَہُ فَأَخَذَ بِخِطَامِھَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ : اَللّٰھُمَّ اَنْتَ عَبْدِی وَاَنَا رَبُّکَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ { FR 781 }
حضرت حارث بن سویدؓ سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس ان کی عیادت کے لیے حاضر ہوا ۔ وہ بیمار تھے تو انھوں نے ہمیں دو حدیثیں بیان کیں۔ انھوں نے کہا: میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ اپنے مومن بندے کی توبہ پر اس آدمی سے زیادہ خوش ہوتا ہے، جو ایک سنسان اور ہلاکت خیز میدان میں ہو اور اس کے ساتھ اس کی سواری ہو، جس پر اس کا کھانا پینا ہو، پھر وہ سو جائے، [لیکن] جب بیدار ہو تو دیکھے کہ اس کی سواری جاچکی ہے۔ وہ اس کی تلاش میں نکلے ،یہاں تک کہ اسے سخت پیاس لگے۔ پھر وہ کہے: میں اپنی جگہ پر سوجائوں یہاں تک کہ مرجائوں، پس اس نے اپنے سر کو اپنی کلائی پرمرنے کے لیے رکھا [لیکن جب]پھر بیدار ہوا تواس کی سواری اس کے پاس ہی کھڑی ہو اور اس پر اس کا زادِراہ اورکھانا پینا ہو۔ پھر زیادہ خوشی کی وجہ سے وہ یہ غلط کلمات کہہ دے: ’’اے اللہ! تو میرا بندہ اور مَیں تیرا رب ہوں‘‘ تو اللہ تعالیٰ مومن بندے کی توبہ پر اس آدمی کی سواری اور زادِ راہ ملنے کی خوشی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص ایسے کفریہ کلمات دہشت، ذہول و نسیان کی کیفیت میں، یا کسی علمی یا شرعی فائدے کی خاطر ذکر کرے تو اس پر کوئی گرفت نہیں۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس شخص کے کلمات کا ذکر کیا۔{ FR 782 }
توہینِ رسالت کے حوالے سے ظاہر حال کو ترک کرکے، دلی کیفیت اور قلبی نیت کو قبول کرنے کی ایک واضح مثال حضرت موسٰی کا قصہ ہے، جس کو خود قرآنِ مجید نے نقل کیا ہے:
اور موسٰی جب غصے اور رنج میں بھرے ہوئے اپنی قوم کی طرف پلٹے۔ آتے ہی انھوں نے کہا: ’’بہت بُری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد! کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے ربّ کے حکم کا انتظار کرلیتے؟‘‘ اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی (ہارون ؑ) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا۔ ہارون ؑ نے کہا: ’’اے میری ماں کے بیٹے! اِن لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مارڈالتے، پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر۔ تب موسٰی نے کہا: اے ربّ، مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے‘‘۔(الاعراف ۷:۱۵۰، ۱۵۱) …[پھر فرمایا:] ’’پھر جب موسٰی کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے وہ تختیاں اُٹھا لیں جن کی تحریر میں ہدایت اور رحمت تھی ان لوگوں کے لیے، جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں‘‘۔(الاعراف ۷:۱۵۴)
دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ: lموسٰی نے کوہِ طور سے ملنے والی، اللہ کے کلام کی اَلواح [تختیوں] کو نیچے پھینک دیا۔ وہ مقدس اَلواح گرنے کے بعد ٹوٹ گئیں۔ اس واقعہ کی تفصیل حدیث میں آئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ : لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ ، اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ أَخْبَرَ مُوسٰی بِمَا صَنَعَ قَوْمُہُ فِی الْعِجْلِ ، فَلَمْ یُلْقِ الْالْوَاحَ ، فَلَمَّا عَایَنَ مَا صَنَعُوا ، أَلْقَی الْالْوَاحَ فَانْکَسَرتْ { FR 783 }