قرآنِ مجید میں یہ تذکرہ ضرور کیا گیا ہے کہ حضرت موسٰی کو اَزخود احساس ہوا کہ واقعی مجھ سے خطا ہوئی، لہٰذا بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا کہ:
رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاَخِيْ وَاَدْخِلْنَا فِيْ رَحْمَتِكَ ۰ۡۖ وَاَنْتَ اَرْحَـمُ الرّٰحِمِيْنَ۱۵۱ۧ (الاعراف ۷:۱۵۱) اے میرے رب، میری مغفرت فرما اور میرے بھائی کی بھی اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرمادے اور تو ارحم الراحمین ہے۔
اس مثال سے معلوم ہوا کہ توہین رسولؐ پر اَزخود احساسِ ندامت، توبہ اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دُعا کو کافی ہونا چاہیے۔
یہ اصول اگرچہ حضرت موسٰی کے واقعے میں آیا ہے، لیکن یہ ہرمسلمان کے لیے بھی عام ہے کہ اگر توہین رسالت کی نیت و قصد نہ ہو، اور توہین کا فعل شدتِ جذبات میں سرزد ہو، اور بعد میں اَزخود احساسِ ندامت، یا کسی کے توجہ دلانے پر توبہ و استغفار کرلے، تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا مستحق ہے۔ احناف کا توہین رسالت کی وجہ سے ارتداد میں یہی موقف ہے کہ توبہ و استغفار سے معافی مل جائے گی۔
امام ابن قیم الجوزیہ نے اپنے شیخ ابن تیمیہؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ اکثر یہ فرماتے تھے کہ سچے وفادار اور مخلص محب کو بسااوقات اس کی عظیم خدمات، وفاداری اور قربانی و ثابت قدمی کی وجہ سے بہت کچھ معاف کر دیا جاتا ہے، اور پھر فرماتے: حضرت موسٰی کو نگاہ میں لائو، اللہ تعالیٰ کے کلامِ الٰہی پر مشتمل ان تختیوں کو پھینک دیا، جنھیں وہ کوہِ طور سے لے کر آئے تھے، وہ اَلواح ٹوٹ گئیں اور اپنے جیسے اللہ تعالیٰ کے نبی، اپنے حقیقی بڑے بھائی حضرت ہارون ؑ کی داڑھی کو پکڑ کر کھینچا۔{ FR 785 }
حضرت موسٰی نے معراج کی رات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو احکامِ نماز میں تبدیلی کی درخواست کے لیے بار بار اللہ تعالیٰ کے پاس واپس بھیجا۔ اللہ رب العالمین نے یہ سب کچھ نہ صرف یہ کہ برداشت کیا، بلکہ منصب ِ نبوت و رسالت کے ساتھ، محبت و اِکرام کا تعلق بھی برقرار رکھا۔ وجہ یہ تھی کہ آپ نے خدا کے سب سے بڑے باغی ، فرعون کے دربار میں دعوت و حق گوئی اور مصری قبطیوں کے ساتھ اپنی قوم بنی اسرائیل میں بھی دعوت الی اللہ کا کام عمدہ طریق سے کیا۔ ان جلیل القدر خدمات کے مقابلے میں ان جوشیلی حالتوں کا کوئی وزن نہیں تھا، جیساکہ شاعر کہتا ہے:
وَاِذَا الْحَبِیْبُ أَتَی بِذَنْبٍ وَاحِدٍ - جَاءَتْ مَحَاسِنُہُ بِأَلْفِ شَفِیْعِ
[جب کسی محبوب شخصیت سے کبھی کوئی کوتاہی سرزد ہوجائے، تو اس کا پورا کارنامہ زندگی، خوبیاں اور سابقہ خدمات، ہزار سفارش کنندہ کے طور پر آجاتے ہیں]۔{ FR 787 }
کبھی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اسلام قبول کرتے وقت، اپنی جہالت و ناواقفی کی وجہ سے ایسے الفاظ استعمال کر گزرے، جو درحقیقت اسلام قبول کرتے ہوئے نہیں کہے جاتے، اور اپنی جگہ وہ کلماتِ کفر ہیں۔ لیکن چونکہ ایمان لانا اور اسلام قبول کرنا مقصود تھا، اس لیے شریعت نے اس غلطی کو نظراندازکرکے ایمان کے حق میں قبول کرلیا، جیساکہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے حوالے سے ہے، کہ انھوں نے قبیلہ بنوجذیمہ کو اسلام کی دعوت دی۔ انھوں نے اسلام قبول کرنے کے لیے صَبَانَا صَبَانَا ، یعنی ’ہم صائبی ہوئے‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ حضرت سالم، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انھوں نے بیان کیا کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کو بنوجذیمہ کی طرف بھیجا۔ حضرت خالدؓ نے انھیں دعوت دی تو انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی، مگر اپنی زبان سے انھوں نے ہم مسلمان ہوگئے کہنے کو اچھا نہ سمجھا، اور یوں کہنے لگے کہ: ’’ہم نے اپنا دین چھوڑ دیا‘‘ مگر حضرت خالدؓ انھیں قتل و قید کرنے لگے اور قیدیوں کو ہم میں سے ہر ایک کے حوالے کر دیا۔ ایک دن حضرت خالدؓ نے ہمیں اپنے اپنے قیدی قتل کردینے کا حکم دیا، تو میں نے کہا: ’’اللہ کی قسم! نہ میں اپنے قیدی کو اور نہ میرے ساتھی اپنے اپنے قیدی کو قتل کریں گے، یہاں تک کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آگئے اور مَیں نے آپؐ سے یہ واقعہ ذکر کیا، تو آنحضرتؐ نے ہاتھ اُٹھا کر دو مرتبہ فرمایا: اے اللہ! میں خالد کے فعل سے بری ہوں۔{ FR 786 }
حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
فَقَالُوا صَبَأنَا وَأَرَادُوا اَسْلَمْنَا فَلَمْ یَقْبَلْ خَالِدٌ ذٰلِکَ مِنْھُمْ وَقَتَلَھُمْ بِنَاءً عَلَی ظَاہِرِ اللَّفْظِ فَبَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ فَأنْکَرَہُ فَدَلَّ عَلٰی اَنَّہُ یُکْتَفَی مِنْ کُلِّ قَوْمٍ بِمَا یُعْرَفُ مِنْ لُغَتِھِمْ وَقَدْ عَذَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیْدِ فِی اجْتِھَادِہِ وَلِذٰلِکَ لَمْ یَقد مِنْہُ { FR 788 } یعنی ان لوگوں نے صَبَأنَا کہہ کر اسلام قبول کرنا ہی مراد لیا تھا، لیکن خالدؓ نے اس ذومعنی لفظ کو قبول نہ کیا اور ظاہر لفظ کی بنا پر ان کو قتل کرنے کا حکم دیا۔جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے اس کو ناپسند کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہرقوم سے ان کی زبان میں معروف و متداول الفاظ کو انھی معنوں میں قبول کیا جائے گا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولیدؓ کو اجتہادی غلطی کی وجہ سے قصاص سے معاف کر دیا۔
اس قاعدے یا اصول کی مثال حضرت اسامہ بن زید اور بنوسلیم قبیلہ کے چرواہے کا قصہ ہے۔ حضرت اسامہؓ کا واقعہ امام مسلم نے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ جنگ میں بھیجا، توہم صبح صبح جہینہ کے علاقے میں پہنچ گئے۔ میں نے وہاں ایک آدمی کو پایا۔ اس نے کہا: لا الٰہ الا اللہ ، میں نے اسے قتل کر دیا۔ پھر میرے دل میں کچھ خلجان سا پیدا ہوا، کہ میں نے مسلمان کو قتل کیا یا کافر کو؟ میں نے اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’کیا اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کر دیا‘؟ میں نے عرض کیا: ’اے اللہ کے رسولؐ! اس نے تو یہ کلمہ تلوار کے ڈر سے پڑھا تھا‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا کہ اس نے دل سے کہا تھا یا نہیں؟‘ آپؐ بار بار یہی کلمات دہراتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ تمنا ہونے لگی کہ کاش! میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔{ FR 789 }
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بنوسلیم کا ایک آدمی بکریوں کا ریوڑ لے کر صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کے قریب سے گزرا اور ان کو سلام کیا ، تو انھوں نے یہ سوچ کر کہ اس نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے سلام کیا ہے، وہ اُٹھے اور اسے قتل کر دیا اور اس کا بکریوں کا ریوڑ مالِ غنیمت کے طور پر ہانک کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیْلِ اللہِ فَتَبَیَّنُوا وَلَا تَقُولُوْا لِمَنْ اَلْقَی اِلَیْکُمْ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّن فَمَنْ اللہُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوا اِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا { FR 790 } اے ایمان والو! جب تم زمین میں کہیں نکلو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تمھیں سلام کرے اس کو یہ مت کہو کہ تم مومن نہیں ہو، تم دُنیوی مال و متاع کی طلب میں ہو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بے حدوحساب غنائم ہیں۔ آخر تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے، اب تحقیق کرلیا کرو، جو تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔
اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کا ظاہری دعویٰ ایمان قبول فرمایا اور ان کی نیتوں یا دلی ارادوں کی کھوج میں نہیں پڑے اور پورے عہد نبوت میں منافقین کا شمار مسلمانوں میں ہی ہوتا رہا۔ وہ جہاد، نماز، روزہ، سب عبادات میں بطورِ مسلمان حصہ لیتے تھے، اس لیے کہ مسلمان ظاہر کو دیکھ کر معاملہ کرنے کے پابند ہیں۔ باطن اور نیت یا قصد اور ارادے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا چاہیے۔{ FR 791 }
عقیدہ و ایمان کی طرح عدالتی اُمور میں بھی قاضی اور جج یا ثالث حضرات بھی اسی قاعدے کے پابند ہیں کہ ظاہری دلیل کی روشنی میں قاضی جس چیز پر مطمئن ہوجائے، اسی کے مطابق فیصلہ کردے، اگرچہ وہ حقیقی صورتِ حال کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ اس ہدایت کو سیّدہ اُمِ سلمہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ آپؐ نے فرمایا: ’’میں بھی انسان ہوں۔ میرے پاس مقدمے کے فریقین اپنی باتیں پیش کرتے ہیں ،تو ان میں سے کوئی زبان آور ہوسکتا ہے، جو محض اپنے زورِ بیان سے مجھے اپنی سچائی کا قائل کرلے اور مَیں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، تو ایسی صورت میں اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ مَیں اس کے لیے جہنم کی آگ کے ٹکڑے کا فیصلہ کر رہا ہوں۔ اب اس کی مرضی کہ وہ اسے لے یا اس کو صاحب ِ حق کے لیے چھوڑ دے۔{ FR 792 }
جب کسی انسان کے قولی و فعلی تصرف میں کفرو فسق کا احتمال پایا جائے، تو فوراً اس پر فتویٰ لگانے کے بجاے، اس سے اس کی نیت اور ارادے کے متعلق پوچھنا ضروری ہے۔ اپنی نیت اور ارادے کے بارے میں وہ خود ہی بتاسکتا ہے۔ کسی دوسرے شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کی نیت بتائے۔ اگر متعلقہ شخص پوچھے جانے پر کفروضلال والا موقف قبول کرلے تو معاملہ واضح ہوگیا۔ اگر تردید کردے تو اس کی تردید معتبر ہوگی اور قبول کی جائے گی۔ البتہ اگر وہ خاموش رہے یا اس سے رابطہ ممکن نہ ہو، تو وہ خاموش شمار ہوگا اور اس کی جانب کفرو ضلال کی نسبت درست نہ ہوگی، کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ: لَا یُنْسَبُ اِلٰی سَاکِتٍ قَوْلٌ { FR 793 }’’خاموش کی طرف کوئی بات منسوب نہیں کی جائے گی‘‘۔
اس کی دلیل حضرت قیس بن سعدؓ کی حدیث ہے کہ: مَیں حیرہ (کوفہ کے قریب ایک جگہ) آیا، تو میں نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ان کے مقابلے میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ آپؐ کو سجدہ کیا جائے۔ پھرجب مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مَیں نے کہا: مَیں حیرہ گیا تھا اور مَیں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں اور آپؐ ان کے مقابلے میں اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم آپؐ کو سجدہ کریں۔ آپؐ نے پوچھا: بھلا کیا جب میری قبر پر تُو آئے گا، کیا تُو سجدہ کرے گا؟ مَیں نے کہا: ’نہیں ‘۔تو آپؐ نے فرمایا: تو پھر زندگی میں بھی کسی کو سجدہ نہ کرو۔{ FR 794 }
دوسری دلیل حضرت معاذ بن جبلؓ کا واقعہ ہے جس کو حضرت عبداللہ بن اوفی بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذؓ جب شام سے آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا تو آپؐ نے فرمایا: معاذؓ! یہ کیا؟ عرض کیا: مَیں شام گیا تو دیکھا کہ اہلِ شام اپنے مذہبی اور عسکری رہنمائوں کو سجدہ کرتے ہیں تو میرے دل کو اچھا لگا کہ ہم آپؐ کے ساتھ ایسا ہی کریں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: آیندہ ایسا نہ کرنا، اس لیے کہ اگر مَیں کسی کو حکم دیتا کہ غیراللہ کو سجدہ کرے تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ خاوندکو سجدہ کرے۔{ FR 795 }
ان دونوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص سے کفروشرک کا احتمال رکھنے والے افعال کا صدور ہو، تو فتویٰ یا حکم لگانے میں جلدبازی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس سے اس کا قصد و ارادہ اور نیت معلوم کرنا ضروری ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کو فوراً کافرو مرتد قرار نہیں دیا بلکہ طلب کرکے ان سے حقیقی صورتِ حال کی وضاحت پوچھی۔ اسی واقعے کی طرف اللہ نے ارشاد فرمایا:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اگر میری راہ جہاد کرنے کے لیے اور میری رضاجوئی کی خاطر (وطن چھوڑ کر گھروں سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائو۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسولؐ کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلاوطن کرتے ہیں کہ مت اپنے رب، اللہ پر ایمان لائو۔ تم چھپا کر ان کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو، حالاںکہ جو کچھ تم چھپاکر کرتے اور جو علانیہ کرتے ہو، ہرچیز کو مَیں خوب جانتا ہوں۔ جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے، وہ یقینا راہِ راست سے بھٹک گیا۔(الممتحنہ۶۰:۱)
یہ آیات حضرت علی بن ابی طالبؓ کے بیان کے مطابق حضرت حاطبؓ کے بارے میں نازل ہوئی تھیں۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ: مجھے، زبیر اور مقداد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا اور آپؐ نے فرمایا: تم لوگ جائو، حتیٰ کہ (مقام) روضہ خاخ تک پہنچو۔ وہاں تمھیں ایک کجاوہ نشین عورت ملے گی، جس کے پاس ایک خط ہوگا، وہ خط اس سے لے لو۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھوڑے تیزی کے ساتھ ہمیں لے اُڑے ، حتیٰ کہ روضہ خاخ پہنچ گئے۔ وہاں ہمیں ایک کجاوہ نشین عورت ملی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس سے کہا کہ یا تو خط نکال دے، ورنہ ہم تیرے کپڑے اُتار (کر تلاشی) لیں گے، تو اس نے اپنی چوٹی میں سے خط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو اس میں لکھا ہوا تھا: ’حاطب بن ابی بلتعہ کی جانب سے مشرکین مکّہ کے نام‘۔ انھیں اس خط کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض معاملات (جنگ) کی اطلاع دے رہے تھے۔ رسولؐ اللہ نے حاطب سے فرمایا: حاطب !یہ کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: یارسولؐ اللہ! میرے بارے میں جلدی فیصلہ نہ فرمایئے۔ میں ایسا آدمی ہوں کہ قریش سے میرا تعلق ہے۔ میں ان کا حلیف ہوں اور مَیں ان کی ذات سے نہیں اور آپؐ کے ساتھ جو مہاجر ہیں، ان سب کےرشتہ دار ہیں جو ان کے مال، اولاد کی حمایت کرسکتے ہیں۔ چونکہ ان سے میری قرابت نہیں تھی، اس لیے میں نے چاہا کہ ان پر کوئی ایسا احسان کردوں، جس سے وہ میری رشتہ داری کی حفاظت کریں اور یہ کام میں نے اپنے دین سے پھر جانے اور اسلام لانے کے بعد کفر پر راضی ہونے کے سبب سے نہیں کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو، حاطب نے تم سے سچ سچ کہہ دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن مار دوں۔ آپؐ نے فرمایا:نہیں، نہیں کہ یہ بدر میں شریک تھے اور تمھیں کیا معلوم ہے؟ اللہ تعالیٰ نے حاضرین بدر کی طرف التفات کر کے فرمایا تھا کہ تم جو تمھارا جی چاہے، عمل کرو کہ مَیں تمھیں بخش چکا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی کہ اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنائو کہ تم ان سے اپنی محبت ظاہر کرو، فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیْلِ { FR 796 } [الممتحنہ ۶۰:۱] ’’وہ یقینا راہِ راست سے بھٹک گیا‘‘۔
اس واقعے سے معلوم ہوا کہ محض قیاسات و گمان اور جوش و جذبات کے زیراثر، کسی کے کفروارتداد کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کا خط لکھنے کا کیا مقصد تھا؟اس میں کئی احتمال موجود ہیں۔ اس کا اصل مقصد وہ بھی ممکن تھا جس کو انھوں نے خود بیان کیا کہ انھوں نے اسلام میں شک و تردّد یا ارتدداد کی وجہ سے نہیں لکھا، بلکہ صرف اپنے خاندان اور مفادات کو ایک طرح کا تحفظ مہیا کرنا مقصود تھا، یعنی یہ محض ایک غلطی اور لغزش کا ارتکاب تھا، کہ جس میں اسلام سے پلٹ جانے کا تصور بھی نہ تھا۔
ایک احتمال یہ بھی ہوسکتا تھاکہ نعوذ باللہ وہ دین و ایمان کو ترک کرکے کفروشرک اختیار کررہے ہیں۔ایسی صورت میں فیصلے کے لیے انھی کی طرف رجوع کر کے اصل صورتِ حال معلوم کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ یہی ہوا، ان کو بلا کر استفسار کیا گیا، اور انھوں نے جو مقصود اور نیت بتائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو قبول کرنے کا حکم دیا، اور اس ضمن میں حضرت عمرؓ کا جوش و غیرتِ ایمانی پر مبنی یہ موقف بھی تسلیم نہ کیا، کہ ان کا اسلام محض نفاق ہے جس پر یہ قابلِ گردن زدنی ہیں۔ رسولؐ اللہ نے نہ صرف یہ کہ اُن کا موقف قبول کیا بلکہ اُن کی سابقہ خدمات کا کھلے عام اعلان کیا، اور ایک ضمنی بشارت بھی دی کہ اللہ تعالیٰ نے بدر میں شرکت کے طفیل ان کی مغفرت فرما دی۔
حضرت حاطبؓ کے معاملے میں کفروارتداد کے مسئلے میں ملزم سے استفسار اور قصدونیت معلوم کرنے اور پھر اسی کے قول کو معیار ماننے کی یہ ایسی روشن مثال ہے، جس سے کوئی صاحب ِ ایمان انحراف کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات اس لیے مان لی تھی کہ آپؐ کو ان کی سچائی کا وحی کی بنیاد پر یقین ہوگیا تھا، نہ کہ اس وجہ سے کہ ان کے تصرف میں کوئی احتمال تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں کوئی تضاد نہیں۔ آپؐ نے ہمیشہ فیصلہ ظاہر پر ہی کیا۔ منافقین کے نفاق و کفر کو آپ یقینی طور پر جانتے تھے، لیکن آپؐ نے ہمیشہ ان کی جان بخشی ظاہر کی بنیاد پر کی، اور حضرت حاطب کی جان بخشی بھی ان کی بیان کردہ ظاہری صورتِ حال پر کی۔{ FR 797 }
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرزِعمل تقریباً پوری سیرت میں واضح نظر آتا ہے ، اور آپؐ کے اسی طرزِعمل سے فقہا و محدثین نے ایک شرعی قاعدہ اخذ کیا ہے، جو تقریباً سب فقہی مذاہب میں معتبر مانا جاتا ہے: نَحْنُ نَحْکُمْ بِالظَّاھِرِ وَاللہ یَتَوَلَّی السَّرَائِرَ [ہم ظاہر پر فیصلہ کرتے ہیں اور غیب کا علم اللہ کے پاس ہے]۔اس قاعدے کواکثر لوگوں نے مرفوع حدیث کے طور پر بیان کیا ہے، لیکن درست بات یہ ہے کہ یہ حدیث تو نہیں ہے لیکن اس میں بیان شدہ مضمون اہلِ علم کے ہاں متفق علیہ ہے اور یہ ایک قاعدے کے طور پر درست اور مسلّم ہے۔{ FR 798 }
حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ نے جو کچھ کیا، اس سے یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ عام اُمت کے افراد پر بھی اذیت کی کیفیت پیدا ہوئی تھی کہ ایک دفاعی راز دشمن کے علم میں لایا گیا ہے،لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدبازی اور فوری فیصلے کے بجاے ان کو بلایا، ان کا موقف سنا، صفائی کا بھرپور موقع دیا، جس میں انھوں نے اپنے مرتد ہونے کی تردید کی۔
اس طرح کی صورتِ حال میں تین ہی امکانات ہوتے ہیں:
تیسری صورت میں مشہور فقہی قاعدہ: لَا یُنْسَبُ اِلٰی سَاکِتٍ قَوْلٌ { FR 799 } [خاموش کی طرف کوئی بات منسوب نہیں کی جائے گی]کے مطابق اس کی طرف کوئی موقف منسوب کرنا درست نہ ہوگا، بلکہ دوسرے شرعی قاعدے: الاصْلُ بَقَاءُ مَا کَانَ عَلٰی مَا کَانَ [قاعدہ یہ ہے کہ چیز کو اپنی اصل حالت پر محمول کیا جائے گا]پر عمل کیا جائے گا کہ وہ مسلم تھا، اور کفریہ مفہوم کے محتمل تصرف کا کفریہ مفہوم اس نے قبول نہیں کیا۔ اس لیے وہ اپنی پہلی حالت ِ’ایمان‘ پر ہی شمار ہوگا۔
قبل ازیں ہم حضرت معاذ ؓ اور دوسرے صحابہ کرامؓ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے کے واقعات، اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کا واقعہ نقل کرچکے ہیں۔ انھی واقعات اور نصوص جیسی بے شمار دلیلیں قرآن و سنت میں موجود ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ انسان کی نیت اور قصد و ارادے کو اس کے کفر و ایمان میں کسوٹی کا درجہ حاصل ہے۔
زیربحث معاملے کی وضاحت کے لیے ذیل میں چند مزید احادیث نقل کرتے ہیں:
وہ آدمی چلا گیا تو قوم میں سے ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت طلب کی جو کہ غالباً حضرت خالد بن ولیدؓ تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنِّیْ لَمْ أُومَرْ اَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ وَلَا أَشُقَّ بُطُوْنَھُمْ ، ’’مجھے کسی انسان کے دل میں اُتر کر دیکھنے یا لوگوں کے پیٹ پھاڑ کر حقیقت معلوم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا‘‘۔ پھر فرمایا: ’’اس آدمی کی نسل سے وہ قوم پیدا ہوگی جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے نہ اُترے گا۔ اہلِ اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑیں گے۔ وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے، جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ اگر مَیں ان کو پاتا تو انھیں قومِ عاد کی طرح قتل کرتا۔{ FR 800 }
امام نووی ؒاس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یعنی مجھے ظاہر کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم ہے، باطن اور اندرون کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا چاہیے‘‘۔{ FR 801 }
امام نووی فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کو قتل نہیں کیا، کیونکہ وہ بظاہر مسلمان تھے، اور رسولؐ اللہ کو ظاہر کے مطابق ہی فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور نیت و باطنی قصد کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑنے کی ہدایت دی گئی تھی۔{ FR 803 }
کفرو ایمان، شرک و توحید، بدعت و سنت کا باہمی تعلق تو اضداد پر مبنی ہے۔ لیکن قرآن و سنت پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایک ہی شخص میں بعض اوقات توحید کے ساتھ شرک، سنت کے ساتھ بدعت، ایمان کے ساتھ کفر، فسق و معصیت کے ساتھ طاعت و تسلیم بہ یک وقت جمع ہوتے ہیں۔ ایک ہی شخص میں باہمی متضاد ان چیزوں کا اجتماع ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسی شخصیات کا وجود پایا جاتا تھا، جن میں یہ تضادات جمع تھے اور آپؐ نے ایمان و توحید، سنت اور طاعت و تسلیم کو ان کے کفروشرک، بدعت، فسق و معصیت پر ترجیح دی اور اس کی اصل وجہ اور بنیاد ، دو باتیں تھیں:
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۴۵ وَقَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْرٰىۃِ ۰۠ وَاٰتَيْنٰہُ الْاِنْجِيْلَ فِيْہِ ہُدًى وَّنُوْرٌ۰ۙ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَہُدًى وَّمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِيْنَ۴۶ۭ وَلْيَحْكُمْ اَہْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فِيْہِ۰ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۴۷(المائدہ ۵:۴۵-۴۷) اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ پھر ہم نے ان پیغمبروںؑ کے بعد مریم ؑ کے بیٹے عیسٰی ؑ کو بھیجا۔ تورات میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا۔ اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات میں سے جو کچھ اس وقت موجودتھا اُس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خداترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔ ہمارا حکم تھا کہ اہلِ انجیل اُس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔
ان آیات میں، اپنے جھگڑوں کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام و قوانین کے مطابق نہ کرنے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق قرار دیا گیا ہے۔ اگر ظاہری مفہوم کو لیا جائے تو: ’’موجودہ زمانے میں اکثر مسلم ممالک کا عدالتی نظام اور قوانین نوآبادیاتی زمانے میں سامراجی حاکموں سے لیے گئے ہیں۔ اس لیے وہ دائرۂ ملّت سے خارج اور باہر ہوجاتے ہیں‘‘۔ اکثر تکفیریوں کا یہی موقف ہے کہ: ’’ مسلم ممالک کے حکمران دائرۂ ملّت سے خارج ہیں، اسی لیے ان کے خلاف جہاد و لڑائی واجب ہے‘‘۔ لیکن ان کا یہ موقف اس لیے درست نہیں کہ انھوں نے عملی اور اعتقادی کفر میں فرق نہیں کیا، حالاں کہ یہ فرق نصوص نے کیا اور صاحب ِوحی صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم قدم پر اس کو ملحوظ رکھا۔
اس آیت کی تفسیر میں مفتی مکہ مکرمہ اور مشہور مفسر تابعی حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
اِنَّہٗ لَیْسَ بِالْکُفْرِ الَّذِیْ تَذْھَبُوْنَ اِلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَیْسَ کُفْرًا یَنقِلُ عَنْ مِلَّۃٍ کُفْرٌ دُوْنَ کُفْرٍ { FR 805 } ان آیات میں وہ کفر مراد نہیں، جس کی طرف عام طور پر لوگوں کا ذہن جاتا ہے، اور اس سے وہ کفر بھی مراد نہیں جو دائرۂ ملّت سے خارج کردیتا ہے، بلکہ بڑے کفر سے کم درجے کا کفر، ظلم اور فسق مراد ہے۔
اس سلسلے میں یہ قاعدہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ کچھ اعمال و اقوال کو شریعت میں کفر قرار دیا گیا ہے اور ان کا حکم ہمیشہ یہی ہوگا اور ان کا مرتکب کافر ہوگا۔ یہ عمومی بات سو فی صد درست ہے۔ البتہ ان اعمال و اقوال کا کوئی متعین مرتکب یا فاعل ضروری نہیں کہ کافر ہوجائے، اس لیے کہ ان اعمال کے متعین مرتکب پر کفر کا حکم لگانے کے لیے کچھ شرائط کا وجود اور موانع کا عدم وجود لازمی قرار دیا گیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ایک حدیث میں شراب کے سلسلے میں دس افراد پر لعنت کی تصریح فرمائی جن میں: شراب، اس کو پینے والا، اس کا ساقی (پلانے والا)،فروخت کرنے والا ، خریدار، شراب ساز، جس کے لیے تیار کی گئی، نقل و حمل میں کام کرنے والا کہ جس کے لیے منتقل کی گئی، شامل ہیں۔ { FR 806 }
آپؐ نے ایک طرف تو شراب نوشی پر لعنت فرمائی،لیکن جب حضرت عبداللہؓ کا نام اور حمار لقب والے ایک متعین شخص کو بار بار جرمِ شراب نوشی میں آں حضوؐر کے سامنے پیش کیا گیا۔ تب بعض صحابہ کرامؓ نے ان پر لعنت بھیجی، تو آپؐ نے سختی سے منع فرمایا: لَا تَلْعَنُوہُ فَاِنَّہُ یُحِبُّ اللہَ وَرَسُوْلَہُ ’’اس پر لعنت مت بھیجو، کیونکہ یہ میرے علم میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ سے محبت رکھتا ہے‘‘۔{ FR 807 }
اسی طرح شدت مسرت میں اپنے آپ کو ربّ، اور اللہ تعالیٰ کو عبد قرار دینے والے مسافر کی حدیث، اور حضرت قیس بن سعدؓ کے حیرہ سے واپسی اور معاذ بن جبلؓ کے شام سے و اپسی پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے، اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کے دشمن کے لیے مخبری کے واقعات ہم نقل کرچکے ہیں، کہ کفروخیانت کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دائرۂ اسلام سے خارج نہیں کیا، کیونکہ شروط و موانع پر بھی آپؐ کی نظر تھی۔اس لیے عین ممکن ہے کہ کوئی فعل، شرعاً ثابت شدہ یقینی کفر، شرک، بدعت یا معصیت ہو، لیکن اس کا فاعل کسی شرط کے عدم وجود یا کسی مانع (رکاوٹ) کے وجود کی وجہ سے مسلم ہی رہے، کافر اور مرتد یا متبدع و عاصی نہ ہو۔ یعنی فعل اور فاعل کا حکم بالکل ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہوسکتا ہے۔
اب ہم ذیل میں ان شرائط و موانع کو بیان کریں گے:
lعقل اور ہوش و حواس: ان شرائط میں سب سے اوّلین شرط عقل و شعور اور ہوش و حواس کا موجود ہونا ہے اور اس کی ضد ’جنون‘ مانع، یعنی رکاوٹ ہے۔ گویا کسی مسلمان شخص کو کافر قرار دینے کے لیے اس کا عاقل ہونا شرط ہے جس کی عدم موجودگی میں مشروط کا وجود بھی کالعدم ہوگا اور عقل کی ضد ’جنون‘ تکفیر مسلم میں مانع ہے۔
اس مقالے میں کسی مسلمان کے کفروارتداد کا فیصلہ کرنے کے لیے شرعی قواعد و ضوابط اور اصول و مبادی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بطورِ خلاصہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
اصولاً ہرانسان مسلم ہے، اور اس کا دین اسلام ہے، کفربعد میں پیدا ہونے والا ایک عارض ہے۔ دین و ایمان کی حفاظت شریعت کا اوّلین اور سب سے اہم مقصد ہے۔ شریعت میں تکفیر کے لیے جلدبازی، بے احتیاطی پر سخت وعید آئی ہے، تو ایمان کا یقین کفر و ارتداد کے شک سے ختم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ جو بات یقینی طور پر ثابت ہو، وہ صرف یقین سے ہی ختم ہوسکتی ہے۔
شریعت کی نظر میں ایمان کی جو اہمیت ہے، اس کے پیش نظر شارع نے کبھی ظاہر حال کو ترک کرکے دل کی نیت کو، ایمان کی خاطر قبول کرلیا، اور کبھی ظاہری صورتِ حال اگر ایمان کے حق میں ہو، تو نیتوں کو ٹٹولنے یا دلوں میں اُترنے کے بجاے ظاہر کو قبول کرلیا۔
قول وفعل میں کفر و فسق کا احتمال ہو تو صاحب ِ قول سے اس کی نیت کا پوچھنا لازمی ہے اور انسان کی نیت کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے یا کوئی انسان خود اپنی نیت بتاسکتا ہے نہ کہ کوئی دوسرا۔
شارع نے نصوص میں اعتقادی اور عملی کفروشرک میں فرق رکھا ہے۔ جس کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ جب معاملہ کسی متعین شخص یا افراد کو کافر، مشرک قرار دینے کا ہو، تو اس مقصد کے لیے کچھ شروط کا وجود ضروری ہے، اور اسی طرح کچھ موانع کا نہ ہونا بھی لازمی ہے۔ تکفیر کے لیے لازمی ان شرائط و موانع میں عقل اور ہوش و حواس میں ہونا، بلوغت اور مکفرات کا علم ہونا، نیز یہ کہ اس نے اپنے آزاد ارادے و اختیار کے ساتھ ان کا ارتکاب کیا ہو۔ اور تاویل و اجتہادی خطا نہ ہو، قصد اور نیت بھی پائے جائیں۔
گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی مسلمان کے عقیدے اور دین و ایمان کا فیصلہ کرنا، صحافیوں، کالم نویسوں، ریڈیو یا ٹیلی ویژن کے اینکروں یا عامۃ الناس، شعلہ نوا مقرروں اور پُرجوش طلبہ کا کام نہیں بلکہ عام علما اور مفتی حضرات کو بھی اس میں حصہ نہیں لینا چاہیے، کیونکہ کفروایمان کے مسائل کا فیصلہ کرنے کے لیے اجتہادی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔
اور یاد رکھنا چاہیے کہ کسی قول و فعل یا رواج و عادت کو عمومی طور پر کفروشرک، یا فسق و فجور اور ظلم، یا بدعت، یا قابلِ لعنت و پھٹکار، یا گناہ تسلیم کرنے یا قرار دینے سے اس کے مرتکب کسی خاص یا متعین شخص کو کافر، مشرک یا فاسق، فاجر وظالم، یا ملعون یا بدعتی قرار دینا درست نہیں، جب تک کہ سابق بیان کردہ چند شرائط کا وجود اور چند موانع کا عدم وجود یقینی نہ ہو۔
اس ضمن میں کئی مزید قواعد اور اصول بھی بیان کیے جاسکتے ہیں، لیکن بیان شدہ اصول و ہدایات اس معاملے کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ کسی مسلمان کی تکفیر و تفسیق یا مشرک بدعتی کہنے میں جلدبازی کے بجاے، احتیاط اور معاملہ فہمی سے لے کر شریعت کے مقصد کو پیش نظر رکھا جائے کہ دینِ اسلام میں لانا اورداخل کرنا، اور پھر دین و ایمان کی حفاظت کرنا اصل مقصود ہے اور جلدبازی میں کسی کے عقیدے پر حکم لگانا درست نہیں۔(مکمل)