تقریباً ایک صدی قبل شروع ہونے والی حقوقِ نسواں کی تحریکیں آج بہت بلند آہنگ ہوچکی ہیں۔ حکومتیں بھی بڑی حد تک ان سے وابستہ این جی اوز کی پابند ہو چکی ہیں۔ پارلیمنٹ سے لے کر تعلیمی اداروں اور کاروباری شعبہ جات تک میں ان کی سفارشات، قانون بن کر نافذ ہو رہی ہیں۔ ’خواتین کی خوداختیاری‘ سے منسوب ادارہ ’سیڈا‘ (CEDAW) اقوامِ متحدہ کے تحت کام کر رہا ہے، اور اس کے اعلامیوں یا کنونشنز کے تحت حکومتیں کئی ایک اقدامات کرنے کی پابند ہو چکی ہیں۔ بے شک ان میں کئی مثبت قوانین بھی بنے ہیں، لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے مسلم معاشروں پر اثرات کس نوعیت کے ہیں؟ گھر اور خاندان کیسے متاثر ہوتے ہیں؟ ملکوں کی مجموعی معیشت پر یہ کس طرح اثرانداز ہوئے ہیں؟ تہذیب اسلامی کو انھوں نے کس طرح متاثر کیا ہے؟ مسلم ممالک کے باشعور طبقے اور سوچ بچار کرنے والے اداروں کو اعداد و شمار کے ساتھ یہ جائزے مرتب کرنے چاہییں۔ یہ ضروری نہیں کہ تمام اثرات کو منفی انداز میں دیکھا جائے، لیکن ایک حقیقت پسندانہ جائزہ ضروری ہے۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے کئی کئی روزہ کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ طویل بحث، مباحثے ہوتے ہیں۔ الفاظ کا محتاط اور شاطرانہ چناؤ کیا جاتا ہے۔اہداف (Goals) مقرر کیے اور ان پر عمل درآمد کے لیے نقشہ گری کی جاتی ہے، پھر این جی اوز کے ذریعے مقتدر طبقے میں بھر پور لابنگ کی جاتی ہے اور ان اہداف کے حصول کے لیے قانون سازی کی خاطر فضا بنائی جاتی ہے۔ اس سارے عمل پر اربوں کا خرچ ہوتا ہے۔ شرکا کو مہنگے ہوٹلوں میں کئی کئی دن ٹھیرایا جاتا ہے اور کھلے دل سے کرایے خرچ کیے جاتے ہیں۔ مرضی کی قانون سازی کے لیے راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں (حکومتیں جن کی مقروض ہوتی ہیں) کے ذریعے قرضوں کو بعض طریقوں سے ان قوانین پر عمل درآمد کے ساتھ مشروط کیا جاتا ہے۔میڈیا کا بھرپور انداز میں استعمال کیاجاتا ہے اور اپنے مقاصد کو پُرکشش (گلیمرائز) انداز میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے، تاکہ وہ عام لوگوں کی زبان بھی بن جائیں اور مطالبہ بھی۔ کاروباری اداروں کے ذریعے ان کی عملی شکلیں پیش کی جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں آج عورت نہ صرف ہر شاپنگ مال پر سیلز گرل بن کے کھڑی ہے بلکہ فاسٹ فوڈ کو گھر پہنچانے کے لیے موٹر سائیکل رائیڈر بھی بن گئی ہے، اور اسے فخریہ انداز میں یہ کہہ کر پیش کیا جاتا ہے کہ:’’ ہم نے عورت کی معاشی برتری و خود اختیاری کے سلسلے میں عملی قدم اٹھایا ہے‘‘۔
اقوامِ متحدہ نے اس کے لیے ایک کمیشن Commission on the Status of Women کے نام سے ۱۹۴۶ء میں قائم کر دیا تھا، جو مختلف ممالک کے حکومتی نمایندوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کا مقصد معاشرے میں خواتین کو برابری اور مؤثر حیثیت دلوانا ہے۔ اس کمیشن کا ہرسال اجلاس ہوتا ہے، جس میں حکومتی نمایندوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی معاشی اور سماجی کونسل میں رجسٹرڈ این جی اوز کے نمایندے بھی شریک ہوتے ہیں، اپنی کارکردگی رپورٹیں پیش کرتے ہیں، اور آیندہ سال کے لیے نیا منصوبہ لے کر جاتے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں اس کمیشن کے تریسٹھویں اجلاس کا مرکزی عنوان: ’’صنفی برابری کےلیے محفوظ معاشرتی نظام، پاےدار بنیادی ڈھانچے کا قیام،اور عورتوں کی پبلک اور لیبرسروسز تک رسائی‘‘ تھا۔
اجلاس CSW63 [Commission on the Status of Women] میں شرکت کے لیے پاکستان سے ہم نے چھے خواتین کا وفد تیار کیا، لیکن صرف دو ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں، جن میں ایک راقمہ اور دوسری بہن عائشہ سید تھیں۔ ۹ مارچ کو ہم کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکا روانہ ہوئے۔ یہ سفر بذات خود تہذیبی جنگ کا ایک عنوان نظر آرہا تھا۔ عورت کی پردے، لباس، اللہ و رسولؐ کے احکام سے رُوگردانی اور آزادی کی گواہیاں اسلام آباد ایئرپورٹ سے شروع ہوگئیں۔ہوائی جہاز میں ایئر ہوسٹسوں کی برہنہ ٹانگیں اور ابو ظہبی ایئر پورٹ پر مسلمان عورت کی حد کو چھوتی ہوئی بے باکی اس رویے پر مہر تصدیق ثبت کر رہی تھی۔
نیویارک کے جس حصّے میں اقوام متحدہ کا مرکزی دفتر ہے وہ بہت گنجان آباد علاقہ ہے۔ اقوام متحدہ کی بلڈنگ میں داخل ہونے اور گراؤنڈ پاس حاصل کرنے کے لیے طویل قطار میں کھڑا ہونا پڑا۔ تقریباً ڈیڑھ دوگھنٹے میں یہ کام مکمل ہوا۔ تہہ در تہہ سکیورٹی اور چھانٹی کے بعد کانفرنس ہال کے اندر داخل ہوئے۔ دنیا بھر سے تقریباً ۴ سے ۵ہزار این جی اوز کے نمایندے شریک تھے۔ مختلف قسم کے معلوماتی اور تعارفی ڈیسک لگے ہوئے تھے۔
یہاں نجی سطح پر بہنوں نے ہمارے لیے رہایش کا انتظام کر رکھا تھا۔ ہم اس رہایش گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ عائشہ بہن کے بھتیجے کے ہمراہ وہاں پہنچے تو بہنیں منتظر تھیں جوبہت ہی پرتپاک طریقے سے ملیں۔ جنھوں نے ایک بہت آرام دہ اپارٹمنٹ میں بہترین میزبانی کا حق ادا کیا۔ اگلی صبح پیدل چلتے ہوئے یو این او کے آفس پہنچے اور پھر مرکزی ہال میں پہنچے۔
آج کے سیشن میں دنیا بھر سے آئی ہوئی با اثر خواتین، یعنی مختلف ممالک کی صدور اور وزراے اعظم کے ساتھ نشست تھی۔ دوسری نشست دوسرے وزرا اور مختلف عہدے دار خواتین کے ساتھ تھی۔ ان نشستوں کے تقریباً تین سیشن ہوئے۔ پہلا سیشن حکمران خواتین کے ساتھ، دوسرا سیشن وزرا کے ساتھ، اور تیسرا سیشن معاشرے کی دیگر نمایاں اور مختلف عہدوں پر فائز خواتین کے ساتھ تھا۔ اس میں خوشی کی یہ بات تھی کہ حکمران خواتین میں سے اکثر کے انداز ِگفتگو میں توازن تھا۔ بھارت کی ایک خاتون نے ایک اسکالر کا یہ قول دُہرایا کہ خواتین کو Push back against the push backs کرنا چاہیے ’’یعنی کوئی آپ کو روکتا ہے تو آپ اُسے روک دیں‘‘۔ مراد یہ ہے کہ جتنی بھی رکاوٹیں ہیں ان کودور کریں اور آگے بڑھیں اور اپنے لیے معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کریں۔ ایک خاتون نے بڑے مناصب پر فائز عورتوں کے حوالے سے کہا : ’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت تبدیلی آ چکی ہے اور دس ممالک ایسے ہیں کہ جہاں پر مکمل طور پر صنفی برابری (Gender Equality) حاصل کرلی گئی ہے‘‘۔ اگرچہ ان دس ممالک کے نام نہیں بتائے۔ اسی طرح یورپی یونین کی خاتون نے یہ جملہ ادا کیا:I don’t say better than he, but as he can do you can do it یعنی ، ’’ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم مردوں سے بہتر ہیں، لیکن جو کچھ مرد کرسکتا ہے وہ ہم بھی کر سکتے ہیں‘‘۔پھر ایک خاتون نے کہا: If I win doesn’t mean you lose کہ ’’اگر عورت آگے آتی ہے، تو اس کایہ مطلب نہیں کہ مرد پیچھے رہ رہا ہے‘‘۔اس طرح کے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ ان میں تمام خواتین انتہا پسند نہیں ہیں بلکہ توازن رکھنے والی خواتین بھی موجود ہیں۔
اس بات پر بہت زور دیا گیا کہ:’’ خواتین کے لیے ہر میدان میں کوٹہ مخصوص کیا جائے‘‘۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سی صلاحیتیں مرد میں زیادہ ہوتی ہیں، اسی لیے مادر پدر آزاد ماحول کے باوجود صنف کی بنیاد پر کوٹہ چاہیے، صلاحیت کی بنیاد پر نہیں۔ گوئٹے مالا کی وزیر نے کہا کہ: ’’ہماری ۷۰فی صد آبادی ۲۹سال سے کم عمر ہے اور ہم گوئٹے مالا میں Gender Equality (صنفی برابری) کی نہیں بلکہ Gender Equity (صنفی توازن)کی بات بھی کرتے ہیں‘‘۔ تیونس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ: ’’اب تک ہم خواتین کے ۳۰پراجیکٹس کر چکے ہیں۔ ہم ہر گاؤں میں خواتین کو معاشی حقوق دیتے ہیں جہاں ہم نے ٹکنالوجی بھی پہنچائی ہے۔ زچگی کی چھٹی ہم ماں اور باپ دونوں کو دیتے ہیں‘‘۔ مالدیپ نے رپورٹ میں بتایا کہ: ۱۹۶۸ء میں مالدیپ میں ماؤں کی شرح اموات ۱۸۶ء۴ فی ہزار تھی اور ۲۰۱۷ء میں ۶ء۸فی ہزار ہوچکی ہے‘‘۔ واقعی یہ بہت ہی شان دار کامیابی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ: ’’مالدیپ میں ٪۲۵ فی صد وزارتیں خواتین کے پاس ہیں اور معاشی افرادی قوت میں ۳۷ فی صد خواتین ہیں‘‘۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ لیبر فورس میں اتنی زیادہ خواتین ڈال کر قوم نے کیا حاصل کیا ہوگا؟
یہاں ایک کہاوت یاد آتی ہے کہ: ’’کسی شخص نے گائے کو ، ہل میں جوت رکھا تھا اور بیل درخت کے نیچے آرام کر رہا تھا۔ ایک فرد پاس سے گزرا تو اُس نے کہا کہ ’’بھائی یہ کیا کر رہے ہو، تم نے گائے کو جوتا ہوا ہے؟‘‘ تو اُس نے جواب دیا کہ: ’’یہ بہت شور مچاتی تھی کہ میرے حقوق بیل کے برابر کرو۔ میں نے اس کو جوتا ہے تو بہت خوش ہے‘‘۔ اُس نے پوچھا : ’’بیل کیا کرتا ہے؟‘‘ کہا کہ: ’’بیل تو درخت کے نیچے بیٹھ کر آرام کرتا ہے، گائےکے حقوق کے لیے پُرزور آواز اٹھاتا اور خوش ہوتا ہے‘‘___ چنانچہ یہاں بھی فخر سے بتا یا جا رہا ہے کہ لیبر فورس میں ٪۳۷ فی صد خواتین ہیں، یعنی وہ اینٹیں بھی اٹھاتی ہوںگی، سڑکیں بھی بناتی ہوںگی اور نا معلوم کیا کیا لیبر فورس کے کام کرتی ہوںگی اور کن حالات میں ہوںگی؟ ساتھ گھر میں کھانا، کپڑے، صفائی اور بچوں کی نگہداشت بھی۔ ایک بات انھوں نے اچھی کہی کہ کام کرنے والی ماؤں کو ہم چھے ماہ کی زچگی کی چھٹی، مع تنخواہ دیتے ہیں‘‘۔ مراکش کی خاتون نے درود شریف سے آغاز کیا۔ فلسطین کی خاتون نے بتایا کہ: فلسطین کی ۷۰ فی صد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے تو ہم اپنے اہداف کیسے پورے کریں؟‘‘
دوپہر تک مختلف ممالک کے رپورٹ سیشن میں شرکت کی۔ اسی دوران نماز کا وقت ہو گیا۔ پہلے روز دونوں نمازیں جمع کر کے اپارٹمنٹ میں پڑھی تھیں۔ آج ہم نے سوچا کہ ہمیں تلاش کرنا چاہیے یہاں کہیں نماز کے لیے جگہ ہوگی۔ ہم نے استقبالیہ سے عبادت کی جگہ (Prayer Room) کا پوچھا، تو وہ خاتون ہمیں نیلے شیشوں والے ایک کمرے تک چھوڑ آئی۔ اندر چند افریقی بھائی اور بہنیں نماز کی تیاری کر رہے تھے۔ انھوں نے جماعت کا اہتمام کیا، آگے مرد اور پیچھے خواتین کھڑی ہوگئیں۔ پھر آیندہ دنوں میں بھی ہم وہاں نمازیں پڑھتے رہے۔ ایک دن وہاں پر ایک عیسائی خاتون کو بہت دیر تک عبادت میں بڑے خشوع و خضوع کی حالت میں دیکھا۔
اقوام متحدہ کے پروگراموں کے علاوہ این جی اوز بھی اپنے اپنے پروگرام کرتی ہیں اور کچھ پروگرام یو این او کے مختلف اداروں کے تحت ہوتے ہیں۔ انھیں ’متبادل سرگرمی‘کہا جاتا ہے۔ زیادہ پروگرام ’عورت کے معاشرتی تحفظ اور معاشی خود مختاری‘ اور ’صنفی برابری‘ پر ہی تھے۔ ساتھ ہی تیسرا عنوان ’جنسی تشدد اور اس کی روک تھام‘ بھی تھا۔ ایک جگہ معذور خواتین کی بحالی یا معاشی زندگی پر پروگرام ہو رہا تھا۔ایک پروگرام ’نقد رقوم کی منتقلی سے خواتین کی زندگیاں بدلنا‘ تھا۔ یہ عنوان دیکھ کر اس بڑے کمرے میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہاں فلم انڈسٹری کی خواتین زیادہ تھیں اور میڈیا کے ذریعے زندگیاں بدلنے پر بات ہورہی تھی۔ جب ہم داخل ہوئے تو پورا کمرہ بھر چکا تھا۔ تھوڑی دیر پیچھے کھڑے رہے ، تو پروگرام انتظامیہ کی ایک خاتون آئی اور ہمیں اشارہ کیا کہ میرے ساتھ آئیں۔ وہ ہمیں اگلی سیٹوں پر لے گئی اور وہاں اُس نے اپنی کچھ خواتین کو اٹھایا اور ہمیں جگہ دی۔ ہم نے دیکھا کہ جن کو اٹھایا تھا وہ نیچے بیٹھ گئیں، حالانکہ ہم نے بہت کہا کہ انھیں مت اُٹھائیں۔
اس کے بعد اگلے دن کانفرنس میں آئے تو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹو نیو گوٹرس کے ساتھ سوال جواب کا سیشن تھا۔ بہت زیادہ سوال کیے جا رہے تھے۔ اس سیشن کی دل چسپ بات یہ تھی کہ ’طاقت وَر خواتین‘ کے خلاف لوگ شکایات کا انبار لگا رہے تھے۔ بنگلہ دیش کے بارے میں یہ بات رکھی گئی کہ وزیراعظم حسینہ واجد، سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے ساتھ بُرا سلوک کر رہی ہے اور انھیں اتنے عرصے سے قید میں رکھا ہوا ہے۔ گویا یہ ثابت ہو رہا تھا کہ عورت اگر طاقت وَر (Empowered) ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک بھی کرے گی یا اُن کے حقوق دلوائے گی۔
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے سوا تمام مسلم ممالک اور شمالی افریقہ میں بھی بیش تر ملکوں میں اقوام متحدہ، امریکا اور مغربی ممالک کے نزدیک مسلمان عورت کو معاشی استحکام حاصل نہیں ہے۔ ان کے خیال میں ’عورت جب تک خود نہ کمائے وہ مفلس ہے‘۔ انھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان خواتین کو گھر کی ملکہ بنایا ہے اور اکثریتی مسلمان گھرانوں کی عورتیں کوئی نوکری کیے بغیر بھی والدین اور شوہرو ں کے گھروں میں تمام میسر سہولیات کے ساتھ رہتی ہیں۔ البتہ مسئلہ وہاں پر پیدا ہوتا ہے کہ جہاں اسلام کی تعلیمات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار وومن ججز (AWJ) کے تحت پروگرام تھا کہ: ’’عورت کے بارے میں شعبۂ قانون کی خواتین اہداف کیسے حاصل کریں؟‘‘ عملاً ہر پروگرام میں قانون سازی پر زور تھا کیو ںکہ قانون سازی کے بعد ساری قوم کو پابندی کرنی پڑتی ہے چاہے، کوئی متفق ہو یا نہ ہو۔
سعودی عرب میں ’قومی پالیسیوں کی تشکیل میں خواتین کے تحقیقاتی ادارے کا کردار‘ میں بتایا گیا کہ: ’’سعودیہ میں خواتین کی ترقی کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے‘‘۔ گویا کہ اقوام متحدہ، مسلم ممالک کو اپنی مرضی کے ایجنڈے بنانے اور نفاذ کی سطح تک لے آئی ہے۔
افغانی خواتین کےلیے چیلنجز اور ترقی کے مواقع پر بھی ایک پروگرام تھا، جس کا اہتمام افغانستان اور ناروے نے کیا تھا۔اسی طرح شام اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں متاثرہ خواتین کی بہبود اور سماجی تحفظ پر بھی پروگرام رکھے گئے۔
اقوام متحدہ کے نوجوانوں سے متعلق اداروں اور لڑکیوں کے بارے میں کئی ورکنگ گروپس کے تحت، حکومتوں اور اقوام متحدہ کے سینئر افسران کے ساتھ مکالمے کا اہتمام کیا گیا تھا، جس کاعنوان تھا: Take a Hot seat۔ یہ یو این ویب ٹی وی پر براہ راست بھی نشر ہو رہا تھا۔ یہاں سب کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ صرف دعوت نامے کے ذریعے سے جا سکتے تھے۔
اسی طرح ایک نیا عنوان سننے کو ملا، جس کے تحت ایک میلہ منعقد کیا گیا تھا: Gender inclusive Language Fair (غیر صنفی زبان و کلام)۔ تفصیل یہ ہے کہ: ’’عام استعمال ہونے والی روز مرہ کی زبان سے وہ تمام الفاظ ختم کیے جائیں یا بدل دیے جائیں، جو کسی بھی طرح مرد کی برتری ثابت کرتے یا کسی جنس کو ظاہر کرتے ہیں، مثلاً Mankind, Chairman, Man power
, Manmade, congress men, Ladies and gentlemen, girls and guys وغیرہ۔ ان کی جگہ غیر جانب دار (neutral) الفاظ لائے جائیں، مثلاًYou Guys (اے جوانو!)کے بجاے You all (آپ تمام)، Chairman کی جگہ Chair اور جہاں یہ الفاظ میسر نہ ہوں Self-inclusive language ، یعنی صیغہ متکلم استعمال کیا جائے ’ہم‘ ،’سب‘، ’ہمارا‘ وغیرہ۔ اس ضمن میں Gender inclusive Charts متعارف کروائے گئے جو انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ ان چارٹوں میں جو رنگ استعمال کیے گئے وہ ’ہم جنس زدگان‘ (LGBTs) کی کلر اسکیم ہے۔
گویا اس کے ڈانڈے وہاں جا کر ملتے ہیں کہ: ’’خاندان جب عورت اورعورت، مرد اور مرد پر بھی مشتمل ہوگا تو پھر جنسی تفریق کیوں؟ بس سب ایک ہیں ، جب اور جیسے چاہیں اپنا خاندان بنا سکتے ہیں۔ عورت اور عورت جا کر بنک سے مرد کے تولیدی جرثومے (sperms) حاصل کرلے اور بچہ پیدا کرلے۔ مرد+مرد کسی بھی عورت کا رحم (uterus) کرائے پر حاصل کریں (جو ان ممالک میں آسانی سے مل جاتے ہیں) اور اپنے لیے بچے پیدا کر لیں‘‘۔ اسی طرح بچوں کو گود لینا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ خاص طور پر اب تو بہت سے مہاجر، یتیم اور لاوارث بچے شام، عراق، برما اور دیگر مسلم ممالک سے انسانی ہمدردی کے تحت این جی اوز مغربی ممالک میں منتقل کر رہی ہیں، جو ان خاندانوں میں پل رہے ہیں، اور بہت سے بچے وہاں رہنے والے مسلمان گھرانوں کے ہیں جنھیں والدین کی طرف سے ذرا بھی ڈانٹ ڈپٹ ہوتی ہے تو چھین کر ایسے لوگوں کو دے دیے جاتے ہیں۔
’عورت کی صحت‘ اقوام متحدہ کے تحت این جی اوز کے لیے اہم عنوان ہے۔ اس ضمن میں عورت کی تولیدی صحت اور زچگی کے وقت شرح اموات کو کم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔
ایک پروگرام ’خصوصی خواتین‘ کے بارے میں تھا۔ چین کی ایک خاتون جو خود بھی قوت گویائی سے محروم تھیں اس پروگرام کی روح رواں تھیں۔ وہ اشاروں سے تقریر کر رہی تھیں اور ان کی ترجمان لفظوں میں کمال کی ترجمانی کر رہی تھی۔
ایک پروگرام تھا: ’ماہانہ نسوانی آزمایش اور صحت کا معاملہ‘۔ اس عنوان کو دیکھ کر سمجھ میں آیا کہ پاکستان کی بیکن ہائوس نیشنل یونی ورسٹی میں لڑکیوں نے ایک سال پہلے جو گندا مظاہرہ کیا تھا، وہ انجانے اور ناسمجھی میں نہیں ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر عورت کی صحت کا ہر عنوان چوراہے پر ہی کیوں زیربحث آئے؟
اسی طرح ’خاندانی منصوبہ بندی‘ کی مختلف ایسوسی ایشنوں کے تحت پروگرام ہو رہے تھے۔ خاص طور پر ’اسقاط حمل‘ اور ’عورت کا حق‘ کے بارے میں۔ مثلاً: ایک عنوان تھا: ’اسقاط حمل کے حق میں، یک جا اور ہم آواز‘۔ پیغام یہ تھا کہ: ’’عورت کو ہر وہ حق دیں، جس کے تحت وہ خانگی، زچگی، مرد اور عائلی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر اپنی مرضی کی زندگی گزارے۔ اس کے لیے قانون سازی بھی کی جائے۔ رکاوٹ بننے والی ہر مذہبی اور سماجی آواز کو دبایا جائے‘‘۔
ایک اور عنوان عورت کی صحت کے حوالے سے ایڈز میں مبتلا ہم جنس زدگان، سیکس ورکرز (بدن فروشوں) اور اسی طرح کی دوسری خواتین کے بارے میں تھا کہ جن کو معاشرہ الگ تھلگ کردیتا ہے۔ ان کے تمام حقوق کی نگہداشت اور معاشرتی حقوق کی حفاظت کے لیے کیا اقدام کیا جائے؟ حکومتوں کی ذمہ داری ہو کہ وہ ان کےلیے قانون سازی کریں۔
ایک پروگرام کا عنوان تھا: Let’s talk about sex work (آئیے، قحبہ گری کی بات کریں)۔ مطلب یہ کہ عورت کو اس گھنائونے کاروبار کی آزادی دی جائے، ایسی عورتوں کی مدد کی جائے کہ وہ گھر سے باہر کتنے مردوں کے کام آ سکتی ہے؟ اس کام کو کیسے بہتر بنا سکتی ہے؟ جنسی کاروبار سے کیسے، کتنا زیادہ کما سکتی ہے؟ اس کے لیے قانون سازی کی جائے۔
دوسری جانب پروگرام ’کم عمری کی شادی کو کیسے روکا جائے؟‘کے بارے میں تھا۔ بلاشبہہ کوئی بھی مذہب یا معاشرہ بہت چھوٹی عمر کی شادی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، لیکن یہاں تو ایجنڈا ہی کچھ اور ہے جو تمام عنوانات سے ظاہر ہے۔
’جاے ملازمت پر عورت کو ہراساں کیا جانا‘ ایک مستقل عنوان ہے۔معاشرے کے ہرطبقے کے خلاف، ہر طرح کا تشدد قابل مذمّت ہے، خصوصاً عورت اور بچوں پر تشدد کی کسی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی، لیکن وہاں کنونشن کے عنوان بہت دل چسپ تھے مثلاً: ’پارلیمنٹ میں منتخب خواتین کو ہراساں کیا جانا‘۔پارلیمنٹ میں پہنچنے والی خواتین سے زیادہ با اثر اور طاقت ور اور کون ہوگا؟ لیکن اگر ان کو بھی جنسی سراسیمگی کا خوف ہے تو گویا عورت کا اقتدار بھی اس کو تشدد اور سراسیمگی سے بچانے والا نہیں ۔ پھر وہ کیا عوامل ہوںگے جو عورت کو تحفظ اور عزت فراہم کریں گے؟ حیرت ہے اس انسان پر، جو پھر بھی اپنے مالک کی طرف نہیں پلٹتا اور اس بات پر غور نہیں کرتا کہ عورت اور معاشرے کے ہر فرد کے لیے اس نے کون سے حفاظتی قلعے بنائے ہیں؟ کن عورتوں کو محصنات قرار دیا ہے؟ معاشرتی استحکام کے لیے، معاشرتی قدروں کے لیے اس نے کون سے اصول وضوابط بنائے ہیں کہ ایک عورت کو لمبا سفر تن تنہاکرنے کے باوجود کسی سراسیمگی اور عدم تحفظ کے خوف سے نجات کی بشارت دی گئی ہے۔
سات نارڈک ممالک (ناروے، سویڈن، فن لینڈ، آئس لینڈ، ڈنمارک وغیرہ) کے وزرا پر مشتمل گروپ کے زیربحث عنوان تھا:The Gender effect on leave and care policies, stronger with dads involved ، یعنی: ’چھٹیوں کے دوران دیکھ بھال کی پالیسیوں پر صنفی اثرات، باپ کی شمولیت سے زیادہ مضبوط‘۔ بظاہر عنوان سے لگتا تھا زچگی کی چھٹیاں ماں کے ساتھ باپ کو بھی دی جائیں تاکہ دونوں مل کر بچے کی اور ایک دوسرے کی دیکھ بھال کریں۔ لیکن تفصیلات کے مطابق یہ تھا کہ وزرا کا گروپ یہ وضاحت کرے گا کہ: ’’مرد، بچوں کی دیکھ بھال میں زیادہ ہاتھ بٹاسکیں اور عورت لیبر مارکیٹ میں زیادہ مشغول ہوسکے، جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر اقتصادی خوش حالی اور معاشرتی فلاح میں بہتری ہوسکے‘‘ یعنی معاشرے کا پہیہ اُلٹا گھمانے کی تیاریاں۔ سُن ، پڑھ اور زیربحث دیکھ کر دماغ چکّرا گیا۔ان ممالک کے وزرا نے اپنے اپنے ملک میں اس پالیسی پر عمل درآمد کی رپورٹیں پیش کیں۔ غور کریں ان معاشروں کا مستقبل کیا ہوگا، جہاں عورتیں مزدوری کریں گی، مرد بچے سنبھالیں گے؟
گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے معاشی و سماجی تحفظ پر بتایا گیا کہ دنیا بھر میں ان کی اُجرتیں کم ہیں اس پر غور کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ’گھریلو کام کی اُجرت‘ پر زور دیا گیا کہ گھریلو خواتین، یعنی بیویوں (House wife’s) کو گھر کے کام کی بھی اُجرت دی جائے، یعنی گھر کو بھی کاروباری ادارہ بنا دیں اور احسان، محبت، ایثار ختم کر دیں۔ عورت، شوہر اور بچوں کے جو کام کرے اس کی تنخواہ دی جائے، یعنی ممتا کا گلا گھونٹ دیں، زوجیت کا بھی بل لیا جائے۔کاش! یہ عورتیں اور مرد جان سکیں کہ اللہ نے تو حکم دیا ہے کہ عورت کی ہر ضرورت کا کفیل مرد ہوگا۔ اپنی آمدن کے مطابق اس کو گھر اور ذاتی استعمال کے لیے بن مانگے خرچ دےگا، تاکہ میاں بیوی میں اس سے محبت اور اعتماد پروان چڑھے اور وہ اعتماد سے نئی نسل کی پرورش کریں۔
انسانی سمگلنگ (Human Trafficking)کی روک تھام پر بھی پروگرام کیے گئے۔
ایک عنوان میں:’ماؤں کے لیےمعاشرتی تحفظ میں بہتری‘ لانے کا سوال اُٹھایا گیاتھا۔ یہ اچھا عنوان تھا، لیکن فکر مندی والی بات یہ تھی کہ آج ماں کو بھی اس کی ضرورت پیش آ گئی کہ اس کو بھی سوشل پروٹیکشن دی جائے۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ اسلام میں ماں کے جتنے سماجی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق دیے گئے ہیں وہ ہم دنیا تک پہنچا سکیں اور انھیں اسلام کا یہ روشن چہرہ دکھا سکیں۔ دنیا کو بتا سکیں کہ اسلام کا سافٹ امیج وہ نہیں ہے، جو آج کے دین سے بیزار لوگ ناچ گانے کی شکل میں دکھا رہے ہیں۔ دراصل سافٹ امیج یہ بہترین قوانین ہیں، جن میں عورت کو مختلف معاشرتی حیثیتوں میں جو تحفظ اللہ نے دیا ہے وہ مرد سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اجلاس میں شرکت کے بعد (اور اس سے پہلے ان ایجنڈوں کو سمجھتے ہوئے) جو چیزیں ذہن میں آ رہی ہیں اور اللہ کے دین کے داعی کی حیثیت سے جو ہماری ذمہ داریاں بنتی ہیں، ان کو ترتیب دیں۔ ایک جانب ہم ان مختلف ایجنڈوں کو سمجھ سکیں اور دوسری جانب ہم اقدامی طور پر وہ ایجنڈا جو اللہ تعالیٰ نے انسانیت اور عورت کی فلاح کے لیے دیا ہے، اس کو آگے بڑھا سکیں۔ اس معرکۂ حق و باطل میں ہم آنکھیں بند کرکے نہیں رہ سکتے۔نقطہ وار چند باتیں عرض ہیں:
اہم بات یہ ہے کہ تہذیبی جنگ صرف 'عورت کا عنوان نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام ایجنڈوں کے اصل اور مرکزی کردار مرد ہی ہیں جو منصوبہ ساز ہیں۔ مسلم دنیا میں جب تک مرد اس معرکے میں اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح سمجھ کر ادا نہیں کرتے، تنہا عورتیں اس کامقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اسلامی تحریکوں کے سربراہوں کو اس تہذیبی جنگ کا فہم حاصل کرنا اور پھراس کے مطابق منصوبہ سازی کرنا ہو گی۔ یہ انسانیت کی فلاح اور اسلامی اقدار کی بقا کے لیے ضروری ہے۔