تقریباً ایک صدی قبل شروع ہونے والی حقوقِ نسواں کی تحریکیں آج بہت بلند آہنگ ہوچکی ہیں۔ حکومتیں بھی بڑی حد تک ان سے وابستہ این جی اوز کی پابند ہو چکی ہیں۔ پارلیمنٹ سے لے کر تعلیمی اداروں اور کاروباری شعبہ جات تک میں ان کی سفارشات، قانون بن کر نافذ ہو رہی ہیں۔ ’خواتین کی خوداختیاری‘ سے منسوب ادارہ ’سیڈا‘ (CEDAW) اقوامِ متحدہ کے تحت کام کر رہا ہے، اور اس کے اعلامیوں یا کنونشنز کے تحت حکومتیں کئی ایک اقدامات کرنے کی پابند ہو چکی ہیں۔ بے شک ان میں کئی مثبت قوانین بھی بنے ہیں، لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے مسلم معاشروں پر اثرات کس نوعیت کے ہیں؟ گھر اور خاندان کیسے متاثر ہوتے ہیں؟ ملکوں کی مجموعی معیشت پر یہ کس طرح اثرانداز ہوئے ہیں؟ تہذیب اسلامی کو انھوں نے کس طرح متاثر کیا ہے؟ مسلم ممالک کے باشعور طبقے اور سوچ بچار کرنے والے اداروں کو اعداد و شمار کے ساتھ یہ جائزے مرتب کرنے چاہییں۔ یہ ضروری نہیں کہ تمام اثرات کو منفی انداز میں دیکھا جائے، لیکن ایک حقیقت پسندانہ جائزہ ضروری ہے۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے کئی کئی روزہ کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ طویل بحث، مباحثے ہوتے ہیں۔ الفاظ کا محتاط اور شاطرانہ چناؤ کیا جاتا ہے۔اہداف (Goals) مقرر کیے اور ان پر عمل درآمد کے لیے نقشہ گری کی جاتی ہے، پھر این جی اوز کے ذریعے مقتدر طبقے میں بھر پور لابنگ کی جاتی ہے اور ان اہداف کے حصول کے لیے قانون سازی کی خاطر فضا بنائی جاتی ہے۔ اس سارے عمل پر اربوں کا خرچ ہوتا ہے۔ شرکا کو مہنگے ہوٹلوں میں کئی کئی دن ٹھیرایا جاتا ہے اور کھلے دل سے کرایے خرچ کیے جاتے ہیں۔ مرضی کی قانون سازی کے لیے راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں (حکومتیں جن کی مقروض ہوتی ہیں) کے ذریعے قرضوں کو بعض طریقوں سے ان قوانین پر عمل درآمد کے ساتھ مشروط کیا جاتا ہے۔میڈیا کا بھرپور انداز میں استعمال کیاجاتا ہے اور اپنے مقاصد کو پُرکشش (گلیمرائز) انداز میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے، تاکہ وہ عام لوگوں کی زبان بھی بن جائیں اور مطالبہ بھی۔ کاروباری اداروں کے ذریعے ان کی عملی شکلیں پیش کی جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں آج عورت نہ صرف ہر شاپنگ مال پر سیلز گرل بن کے کھڑی ہے بلکہ فاسٹ فوڈ کو گھر پہنچانے کے لیے موٹر سائیکل رائیڈر بھی بن گئی ہے، اور اسے فخریہ انداز میں یہ کہہ کر پیش کیا جاتا ہے کہ:’’ ہم نے عورت کی معاشی برتری و خود اختیاری کے سلسلے میں عملی قدم اٹھایا ہے‘‘۔
اقوامِ متحدہ نے اس کے لیے ایک کمیشن Commission on the Status of Women کے نام سے ۱۹۴۶ء میں قائم کر دیا تھا، جو مختلف ممالک کے حکومتی نمایندوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کا مقصد معاشرے میں خواتین کو برابری اور مؤثر حیثیت دلوانا ہے۔ اس کمیشن کا ہرسال اجلاس ہوتا ہے، جس میں حکومتی نمایندوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی معاشی اور سماجی کونسل میں رجسٹرڈ این جی اوز کے نمایندے بھی شریک ہوتے ہیں، اپنی کارکردگی رپورٹیں پیش کرتے ہیں، اور آیندہ سال کے لیے نیا منصوبہ لے کر جاتے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں اس کمیشن کے تریسٹھویں اجلاس کا مرکزی عنوان: ’’صنفی برابری کےلیے محفوظ معاشرتی نظام، پاےدار بنیادی ڈھانچے کا قیام،اور عورتوں کی پبلک اور لیبرسروسز تک رسائی‘‘ تھا۔
اجلاس CSW63 [Commission on the Status of Women] میں شرکت کے لیے پاکستان سے ہم نے چھے خواتین کا وفد تیار کیا، لیکن صرف دو ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں، جن میں ایک راقمہ اور دوسری بہن عائشہ سید تھیں۔ ۹ مارچ کو ہم کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکا روانہ ہوئے۔ یہ سفر بذات خود تہذیبی جنگ کا ایک عنوان نظر آرہا تھا۔ عورت کی پردے، لباس، اللہ و رسولؐ کے احکام سے رُوگردانی اور آزادی کی گواہیاں اسلام آباد ایئرپورٹ سے شروع ہوگئیں۔ہوائی جہاز میں ایئر ہوسٹسوں کی برہنہ ٹانگیں اور ابو ظہبی ایئر پورٹ پر مسلمان عورت کی حد کو چھوتی ہوئی بے باکی اس رویے پر مہر تصدیق ثبت کر رہی تھی۔
نیویارک کے جس حصّے میں اقوام متحدہ کا مرکزی دفتر ہے وہ بہت گنجان آباد علاقہ ہے۔ اقوام متحدہ کی بلڈنگ میں داخل ہونے اور گراؤنڈ پاس حاصل کرنے کے لیے طویل قطار میں کھڑا ہونا پڑا۔ تقریباً ڈیڑھ دوگھنٹے میں یہ کام مکمل ہوا۔ تہہ در تہہ سکیورٹی اور چھانٹی کے بعد کانفرنس ہال کے اندر داخل ہوئے۔ دنیا بھر سے تقریباً ۴ سے ۵ہزار این جی اوز کے نمایندے شریک تھے۔ مختلف قسم کے معلوماتی اور تعارفی ڈیسک لگے ہوئے تھے۔
یہاں نجی سطح پر بہنوں نے ہمارے لیے رہایش کا انتظام کر رکھا تھا۔ ہم اس رہایش گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ عائشہ بہن کے بھتیجے کے ہمراہ وہاں پہنچے تو بہنیں منتظر تھیں جوبہت ہی پرتپاک طریقے سے ملیں۔ جنھوں نے ایک بہت آرام دہ اپارٹمنٹ میں بہترین میزبانی کا حق ادا کیا۔ اگلی صبح پیدل چلتے ہوئے یو این او کے آفس پہنچے اور پھر مرکزی ہال میں پہنچے۔
آج کے سیشن میں دنیا بھر سے آئی ہوئی با اثر خواتین، یعنی مختلف ممالک کی صدور اور وزراے اعظم کے ساتھ نشست تھی۔ دوسری نشست دوسرے وزرا اور مختلف عہدے دار خواتین کے ساتھ تھی۔ ان نشستوں کے تقریباً تین سیشن ہوئے۔ پہلا سیشن حکمران خواتین کے ساتھ، دوسرا سیشن وزرا کے ساتھ، اور تیسرا سیشن معاشرے کی دیگر نمایاں اور مختلف عہدوں پر فائز خواتین کے ساتھ تھا۔ اس میں خوشی کی یہ بات تھی کہ حکمران خواتین میں سے اکثر کے انداز ِگفتگو میں توازن تھا۔ بھارت کی ایک خاتون نے ایک اسکالر کا یہ قول دُہرایا کہ خواتین کو Push back against the push backs کرنا چاہیے ’’یعنی کوئی آپ کو روکتا ہے تو آپ اُسے روک دیں‘‘۔ مراد یہ ہے کہ جتنی بھی رکاوٹیں ہیں ان کودور کریں اور آگے بڑھیں اور اپنے لیے معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کریں۔ ایک خاتون نے بڑے مناصب پر فائز عورتوں کے حوالے سے کہا : ’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت تبدیلی آ چکی ہے اور دس ممالک ایسے ہیں کہ جہاں پر مکمل طور پر صنفی برابری (Gender Equality) حاصل کرلی گئی ہے‘‘۔ اگرچہ ان دس ممالک کے نام نہیں بتائے۔ اسی طرح یورپی یونین کی خاتون نے یہ جملہ ادا کیا:I don’t say better than he, but as he can do you can do it یعنی ، ’’ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم مردوں سے بہتر ہیں، لیکن جو کچھ مرد کرسکتا ہے وہ ہم بھی کر سکتے ہیں‘‘۔پھر ایک خاتون نے کہا: If I win doesn’t mean you lose کہ ’’اگر عورت آگے آتی ہے، تو اس کایہ مطلب نہیں کہ مرد پیچھے رہ رہا ہے‘‘۔اس طرح کے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ ان میں تمام خواتین انتہا پسند نہیں ہیں بلکہ توازن رکھنے والی خواتین بھی موجود ہیں۔
اس بات پر بہت زور دیا گیا کہ:’’ خواتین کے لیے ہر میدان میں کوٹہ مخصوص کیا جائے‘‘۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سی صلاحیتیں مرد میں زیادہ ہوتی ہیں، اسی لیے مادر پدر آزاد ماحول کے باوجود صنف کی بنیاد پر کوٹہ چاہیے، صلاحیت کی بنیاد پر نہیں۔ گوئٹے مالا کی وزیر نے کہا کہ: ’’ہماری ۷۰فی صد آبادی ۲۹سال سے کم عمر ہے اور ہم گوئٹے مالا میں Gender Equality (صنفی برابری) کی نہیں بلکہ Gender Equity (صنفی توازن)کی بات بھی کرتے ہیں‘‘۔ تیونس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ: ’’اب تک ہم خواتین کے ۳۰پراجیکٹس کر چکے ہیں۔ ہم ہر گاؤں میں خواتین کو معاشی حقوق دیتے ہیں جہاں ہم نے ٹکنالوجی بھی پہنچائی ہے۔ زچگی کی چھٹی ہم ماں اور باپ دونوں کو دیتے ہیں‘‘۔ مالدیپ نے رپورٹ میں بتایا کہ: ۱۹۶۸ء میں مالدیپ میں ماؤں کی شرح اموات ۱۸۶ء۴ فی ہزار تھی اور ۲۰۱۷ء میں ۶ء۸فی ہزار ہوچکی ہے‘‘۔ واقعی یہ بہت ہی شان دار کامیابی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ: ’’مالدیپ میں ٪۲۵ فی صد وزارتیں خواتین کے پاس ہیں اور معاشی افرادی قوت میں ۳۷ فی صد خواتین ہیں‘‘۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ لیبر فورس میں اتنی زیادہ خواتین ڈال کر قوم نے کیا حاصل کیا ہوگا؟
یہاں ایک کہاوت یاد آتی ہے کہ: ’’کسی شخص نے گائے کو ، ہل میں جوت رکھا تھا اور بیل درخت کے نیچے آرام کر رہا تھا۔ ایک فرد پاس سے گزرا تو اُس نے کہا کہ ’’بھائی یہ کیا کر رہے ہو، تم نے گائے کو جوتا ہوا ہے؟‘‘ تو اُس نے جواب دیا کہ: ’’یہ بہت شور مچاتی تھی کہ میرے حقوق بیل کے برابر کرو۔ میں نے اس کو جوتا ہے تو بہت خوش ہے‘‘۔ اُس نے پوچھا : ’’بیل کیا کرتا ہے؟‘‘ کہا کہ: ’’بیل تو درخت کے نیچے بیٹھ کر آرام کرتا ہے، گائےکے حقوق کے لیے پُرزور آواز اٹھاتا اور خوش ہوتا ہے‘‘___ چنانچہ یہاں بھی فخر سے بتا یا جا رہا ہے کہ لیبر فورس میں ٪۳۷ فی صد خواتین ہیں، یعنی وہ اینٹیں بھی اٹھاتی ہوںگی، سڑکیں بھی بناتی ہوںگی اور نا معلوم کیا کیا لیبر فورس کے کام کرتی ہوںگی اور کن حالات میں ہوںگی؟ ساتھ گھر میں کھانا، کپڑے، صفائی اور بچوں کی نگہداشت بھی۔ ایک بات انھوں نے اچھی کہی کہ کام کرنے والی ماؤں کو ہم چھے ماہ کی زچگی کی چھٹی، مع تنخواہ دیتے ہیں‘‘۔ مراکش کی خاتون نے درود شریف سے آغاز کیا۔ فلسطین کی خاتون نے بتایا کہ: فلسطین کی ۷۰ فی صد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے تو ہم اپنے اہداف کیسے پورے کریں؟‘‘
دوپہر تک مختلف ممالک کے رپورٹ سیشن میں شرکت کی۔ اسی دوران نماز کا وقت ہو گیا۔ پہلے روز دونوں نمازیں جمع کر کے اپارٹمنٹ میں پڑھی تھیں۔ آج ہم نے سوچا کہ ہمیں تلاش کرنا چاہیے یہاں کہیں نماز کے لیے جگہ ہوگی۔ ہم نے استقبالیہ سے عبادت کی جگہ (Prayer Room) کا پوچھا، تو وہ خاتون ہمیں نیلے شیشوں والے ایک کمرے تک چھوڑ آئی۔ اندر چند افریقی بھائی اور بہنیں نماز کی تیاری کر رہے تھے۔ انھوں نے جماعت کا اہتمام کیا، آگے مرد اور پیچھے خواتین کھڑی ہوگئیں۔ پھر آیندہ دنوں میں بھی ہم وہاں نمازیں پڑھتے رہے۔ ایک دن وہاں پر ایک عیسائی خاتون کو بہت دیر تک عبادت میں بڑے خشوع و خضوع کی حالت میں دیکھا۔
اقوام متحدہ کے پروگراموں کے علاوہ این جی اوز بھی اپنے اپنے پروگرام کرتی ہیں اور کچھ پروگرام یو این او کے مختلف اداروں کے تحت ہوتے ہیں۔ انھیں ’متبادل سرگرمی‘کہا جاتا ہے۔ زیادہ پروگرام ’عورت کے معاشرتی تحفظ اور معاشی خود مختاری‘ اور ’صنفی برابری‘ پر ہی تھے۔ ساتھ ہی تیسرا عنوان ’جنسی تشدد اور اس کی روک تھام‘ بھی تھا۔ ایک جگہ معذور خواتین کی بحالی یا معاشی زندگی پر پروگرام ہو رہا تھا۔ایک پروگرام ’نقد رقوم کی منتقلی سے خواتین کی زندگیاں بدلنا‘ تھا۔ یہ عنوان دیکھ کر اس بڑے کمرے میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہاں فلم انڈسٹری کی خواتین زیادہ تھیں اور میڈیا کے ذریعے زندگیاں بدلنے پر بات ہورہی تھی۔ جب ہم داخل ہوئے تو پورا کمرہ بھر چکا تھا۔ تھوڑی دیر پیچھے کھڑے رہے ، تو پروگرام انتظامیہ کی ایک خاتون آئی اور ہمیں اشارہ کیا کہ میرے ساتھ آئیں۔ وہ ہمیں اگلی سیٹوں پر لے گئی اور وہاں اُس نے اپنی کچھ خواتین کو اٹھایا اور ہمیں جگہ دی۔ ہم نے دیکھا کہ جن کو اٹھایا تھا وہ نیچے بیٹھ گئیں، حالانکہ ہم نے بہت کہا کہ انھیں مت اُٹھائیں۔
اس کے بعد اگلے دن کانفرنس میں آئے تو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹو نیو گوٹرس کے ساتھ سوال جواب کا سیشن تھا۔ بہت زیادہ سوال کیے جا رہے تھے۔ اس سیشن کی دل چسپ بات یہ تھی کہ ’طاقت وَر خواتین‘ کے خلاف لوگ شکایات کا انبار لگا رہے تھے۔ بنگلہ دیش کے بارے میں یہ بات رکھی گئی کہ وزیراعظم حسینہ واجد، سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے ساتھ بُرا سلوک کر رہی ہے اور انھیں اتنے عرصے سے قید میں رکھا ہوا ہے۔ گویا یہ ثابت ہو رہا تھا کہ عورت اگر طاقت وَر (Empowered) ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک بھی کرے گی یا اُن کے حقوق دلوائے گی۔
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے سوا تمام مسلم ممالک اور شمالی افریقہ میں بھی بیش تر ملکوں میں اقوام متحدہ، امریکا اور مغربی ممالک کے نزدیک مسلمان عورت کو معاشی استحکام حاصل نہیں ہے۔ ان کے خیال میں ’عورت جب تک خود نہ کمائے وہ مفلس ہے‘۔ انھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان خواتین کو گھر کی ملکہ بنایا ہے اور اکثریتی مسلمان گھرانوں کی عورتیں کوئی نوکری کیے بغیر بھی والدین اور شوہرو ں کے گھروں میں تمام میسر سہولیات کے ساتھ رہتی ہیں۔ البتہ مسئلہ وہاں پر پیدا ہوتا ہے کہ جہاں اسلام کی تعلیمات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار وومن ججز (AWJ) کے تحت پروگرام تھا کہ: ’’عورت کے بارے میں شعبۂ قانون کی خواتین اہداف کیسے حاصل کریں؟‘‘ عملاً ہر پروگرام میں قانون سازی پر زور تھا کیو ںکہ قانون سازی کے بعد ساری قوم کو پابندی کرنی پڑتی ہے چاہے، کوئی متفق ہو یا نہ ہو۔
سعودی عرب میں ’قومی پالیسیوں کی تشکیل میں خواتین کے تحقیقاتی ادارے کا کردار‘ میں بتایا گیا کہ: ’’سعودیہ میں خواتین کی ترقی کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے‘‘۔ گویا کہ اقوام متحدہ، مسلم ممالک کو اپنی مرضی کے ایجنڈے بنانے اور نفاذ کی سطح تک لے آئی ہے۔
افغانی خواتین کےلیے چیلنجز اور ترقی کے مواقع پر بھی ایک پروگرام تھا، جس کا اہتمام افغانستان اور ناروے نے کیا تھا۔اسی طرح شام اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں متاثرہ خواتین کی بہبود اور سماجی تحفظ پر بھی پروگرام رکھے گئے۔
اقوام متحدہ کے نوجوانوں سے متعلق اداروں اور لڑکیوں کے بارے میں کئی ورکنگ گروپس کے تحت، حکومتوں اور اقوام متحدہ کے سینئر افسران کے ساتھ مکالمے کا اہتمام کیا گیا تھا، جس کاعنوان تھا: Take a Hot seat۔ یہ یو این ویب ٹی وی پر براہ راست بھی نشر ہو رہا تھا۔ یہاں سب کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ صرف دعوت نامے کے ذریعے سے جا سکتے تھے۔
اسی طرح ایک نیا عنوان سننے کو ملا، جس کے تحت ایک میلہ منعقد کیا گیا تھا: Gender inclusive Language Fair (غیر صنفی زبان و کلام)۔ تفصیل یہ ہے کہ: ’’عام استعمال ہونے والی روز مرہ کی زبان سے وہ تمام الفاظ ختم کیے جائیں یا بدل دیے جائیں، جو کسی بھی طرح مرد کی برتری ثابت کرتے یا کسی جنس کو ظاہر کرتے ہیں، مثلاً Mankind, Chairman, Man power
, Manmade, congress men, Ladies and gentlemen, girls and guys وغیرہ۔ ان کی جگہ غیر جانب دار (neutral) الفاظ لائے جائیں، مثلاًYou Guys (اے جوانو!)کے بجاے You all (آپ تمام)، Chairman کی جگہ Chair اور جہاں یہ الفاظ میسر نہ ہوں Self-inclusive language ، یعنی صیغہ متکلم استعمال کیا جائے ’ہم‘ ،’سب‘، ’ہمارا‘ وغیرہ۔ اس ضمن میں Gender inclusive Charts متعارف کروائے گئے جو انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ ان چارٹوں میں جو رنگ استعمال کیے گئے وہ ’ہم جنس زدگان‘ (LGBTs) کی کلر اسکیم ہے۔
گویا اس کے ڈانڈے وہاں جا کر ملتے ہیں کہ: ’’خاندان جب عورت اورعورت، مرد اور مرد پر بھی مشتمل ہوگا تو پھر جنسی تفریق کیوں؟ بس سب ایک ہیں ، جب اور جیسے چاہیں اپنا خاندان بنا سکتے ہیں۔ عورت اور عورت جا کر بنک سے مرد کے تولیدی جرثومے (sperms) حاصل کرلے اور بچہ پیدا کرلے۔ مرد+مرد کسی بھی عورت کا رحم (uterus) کرائے پر حاصل کریں (جو ان ممالک میں آسانی سے مل جاتے ہیں) اور اپنے لیے بچے پیدا کر لیں‘‘۔ اسی طرح بچوں کو گود لینا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ خاص طور پر اب تو بہت سے مہاجر، یتیم اور لاوارث بچے شام، عراق، برما اور دیگر مسلم ممالک سے انسانی ہمدردی کے تحت این جی اوز مغربی ممالک میں منتقل کر رہی ہیں، جو ان خاندانوں میں پل رہے ہیں، اور بہت سے بچے وہاں رہنے والے مسلمان گھرانوں کے ہیں جنھیں والدین کی طرف سے ذرا بھی ڈانٹ ڈپٹ ہوتی ہے تو چھین کر ایسے لوگوں کو دے دیے جاتے ہیں۔
’عورت کی صحت‘ اقوام متحدہ کے تحت این جی اوز کے لیے اہم عنوان ہے۔ اس ضمن میں عورت کی تولیدی صحت اور زچگی کے وقت شرح اموات کو کم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔
ایک پروگرام ’خصوصی خواتین‘ کے بارے میں تھا۔ چین کی ایک خاتون جو خود بھی قوت گویائی سے محروم تھیں اس پروگرام کی روح رواں تھیں۔ وہ اشاروں سے تقریر کر رہی تھیں اور ان کی ترجمان لفظوں میں کمال کی ترجمانی کر رہی تھی۔
ایک پروگرام تھا: ’ماہانہ نسوانی آزمایش اور صحت کا معاملہ‘۔ اس عنوان کو دیکھ کر سمجھ میں آیا کہ پاکستان کی بیکن ہائوس نیشنل یونی ورسٹی میں لڑکیوں نے ایک سال پہلے جو گندا مظاہرہ کیا تھا، وہ انجانے اور ناسمجھی میں نہیں ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر عورت کی صحت کا ہر عنوان چوراہے پر ہی کیوں زیربحث آئے؟
اسی طرح ’خاندانی منصوبہ بندی‘ کی مختلف ایسوسی ایشنوں کے تحت پروگرام ہو رہے تھے۔ خاص طور پر ’اسقاط حمل‘ اور ’عورت کا حق‘ کے بارے میں۔ مثلاً: ایک عنوان تھا: ’اسقاط حمل کے حق میں، یک جا اور ہم آواز‘۔ پیغام یہ تھا کہ: ’’عورت کو ہر وہ حق دیں، جس کے تحت وہ خانگی، زچگی، مرد اور عائلی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر اپنی مرضی کی زندگی گزارے۔ اس کے لیے قانون سازی بھی کی جائے۔ رکاوٹ بننے والی ہر مذہبی اور سماجی آواز کو دبایا جائے‘‘۔
ایک اور عنوان عورت کی صحت کے حوالے سے ایڈز میں مبتلا ہم جنس زدگان، سیکس ورکرز (بدن فروشوں) اور اسی طرح کی دوسری خواتین کے بارے میں تھا کہ جن کو معاشرہ الگ تھلگ کردیتا ہے۔ ان کے تمام حقوق کی نگہداشت اور معاشرتی حقوق کی حفاظت کے لیے کیا اقدام کیا جائے؟ حکومتوں کی ذمہ داری ہو کہ وہ ان کےلیے قانون سازی کریں۔
ایک پروگرام کا عنوان تھا: Let’s talk about sex work (آئیے، قحبہ گری کی بات کریں)۔ مطلب یہ کہ عورت کو اس گھنائونے کاروبار کی آزادی دی جائے، ایسی عورتوں کی مدد کی جائے کہ وہ گھر سے باہر کتنے مردوں کے کام آ سکتی ہے؟ اس کام کو کیسے بہتر بنا سکتی ہے؟ جنسی کاروبار سے کیسے، کتنا زیادہ کما سکتی ہے؟ اس کے لیے قانون سازی کی جائے۔
دوسری جانب پروگرام ’کم عمری کی شادی کو کیسے روکا جائے؟‘کے بارے میں تھا۔ بلاشبہہ کوئی بھی مذہب یا معاشرہ بہت چھوٹی عمر کی شادی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، لیکن یہاں تو ایجنڈا ہی کچھ اور ہے جو تمام عنوانات سے ظاہر ہے۔
’جاے ملازمت پر عورت کو ہراساں کیا جانا‘ ایک مستقل عنوان ہے۔معاشرے کے ہرطبقے کے خلاف، ہر طرح کا تشدد قابل مذمّت ہے، خصوصاً عورت اور بچوں پر تشدد کی کسی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی، لیکن وہاں کنونشن کے عنوان بہت دل چسپ تھے مثلاً: ’پارلیمنٹ میں منتخب خواتین کو ہراساں کیا جانا‘۔پارلیمنٹ میں پہنچنے والی خواتین سے زیادہ با اثر اور طاقت ور اور کون ہوگا؟ لیکن اگر ان کو بھی جنسی سراسیمگی کا خوف ہے تو گویا عورت کا اقتدار بھی اس کو تشدد اور سراسیمگی سے بچانے والا نہیں ۔ پھر وہ کیا عوامل ہوںگے جو عورت کو تحفظ اور عزت فراہم کریں گے؟ حیرت ہے اس انسان پر، جو پھر بھی اپنے مالک کی طرف نہیں پلٹتا اور اس بات پر غور نہیں کرتا کہ عورت اور معاشرے کے ہر فرد کے لیے اس نے کون سے حفاظتی قلعے بنائے ہیں؟ کن عورتوں کو محصنات قرار دیا ہے؟ معاشرتی استحکام کے لیے، معاشرتی قدروں کے لیے اس نے کون سے اصول وضوابط بنائے ہیں کہ ایک عورت کو لمبا سفر تن تنہاکرنے کے باوجود کسی سراسیمگی اور عدم تحفظ کے خوف سے نجات کی بشارت دی گئی ہے۔
سات نارڈک ممالک (ناروے، سویڈن، فن لینڈ، آئس لینڈ، ڈنمارک وغیرہ) کے وزرا پر مشتمل گروپ کے زیربحث عنوان تھا:The Gender effect on leave and care policies, stronger with dads involved ، یعنی: ’چھٹیوں کے دوران دیکھ بھال کی پالیسیوں پر صنفی اثرات، باپ کی شمولیت سے زیادہ مضبوط‘۔ بظاہر عنوان سے لگتا تھا زچگی کی چھٹیاں ماں کے ساتھ باپ کو بھی دی جائیں تاکہ دونوں مل کر بچے کی اور ایک دوسرے کی دیکھ بھال کریں۔ لیکن تفصیلات کے مطابق یہ تھا کہ وزرا کا گروپ یہ وضاحت کرے گا کہ: ’’مرد، بچوں کی دیکھ بھال میں زیادہ ہاتھ بٹاسکیں اور عورت لیبر مارکیٹ میں زیادہ مشغول ہوسکے، جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر اقتصادی خوش حالی اور معاشرتی فلاح میں بہتری ہوسکے‘‘ یعنی معاشرے کا پہیہ اُلٹا گھمانے کی تیاریاں۔ سُن ، پڑھ اور زیربحث دیکھ کر دماغ چکّرا گیا۔ان ممالک کے وزرا نے اپنے اپنے ملک میں اس پالیسی پر عمل درآمد کی رپورٹیں پیش کیں۔ غور کریں ان معاشروں کا مستقبل کیا ہوگا، جہاں عورتیں مزدوری کریں گی، مرد بچے سنبھالیں گے؟
گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے معاشی و سماجی تحفظ پر بتایا گیا کہ دنیا بھر میں ان کی اُجرتیں کم ہیں اس پر غور کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ’گھریلو کام کی اُجرت‘ پر زور دیا گیا کہ گھریلو خواتین، یعنی بیویوں (House wife’s) کو گھر کے کام کی بھی اُجرت دی جائے، یعنی گھر کو بھی کاروباری ادارہ بنا دیں اور احسان، محبت، ایثار ختم کر دیں۔ عورت، شوہر اور بچوں کے جو کام کرے اس کی تنخواہ دی جائے، یعنی ممتا کا گلا گھونٹ دیں، زوجیت کا بھی بل لیا جائے۔کاش! یہ عورتیں اور مرد جان سکیں کہ اللہ نے تو حکم دیا ہے کہ عورت کی ہر ضرورت کا کفیل مرد ہوگا۔ اپنی آمدن کے مطابق اس کو گھر اور ذاتی استعمال کے لیے بن مانگے خرچ دےگا، تاکہ میاں بیوی میں اس سے محبت اور اعتماد پروان چڑھے اور وہ اعتماد سے نئی نسل کی پرورش کریں۔
انسانی سمگلنگ (Human Trafficking)کی روک تھام پر بھی پروگرام کیے گئے۔
ایک عنوان میں:’ماؤں کے لیےمعاشرتی تحفظ میں بہتری‘ لانے کا سوال اُٹھایا گیاتھا۔ یہ اچھا عنوان تھا، لیکن فکر مندی والی بات یہ تھی کہ آج ماں کو بھی اس کی ضرورت پیش آ گئی کہ اس کو بھی سوشل پروٹیکشن دی جائے۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ اسلام میں ماں کے جتنے سماجی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق دیے گئے ہیں وہ ہم دنیا تک پہنچا سکیں اور انھیں اسلام کا یہ روشن چہرہ دکھا سکیں۔ دنیا کو بتا سکیں کہ اسلام کا سافٹ امیج وہ نہیں ہے، جو آج کے دین سے بیزار لوگ ناچ گانے کی شکل میں دکھا رہے ہیں۔ دراصل سافٹ امیج یہ بہترین قوانین ہیں، جن میں عورت کو مختلف معاشرتی حیثیتوں میں جو تحفظ اللہ نے دیا ہے وہ مرد سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اجلاس میں شرکت کے بعد (اور اس سے پہلے ان ایجنڈوں کو سمجھتے ہوئے) جو چیزیں ذہن میں آ رہی ہیں اور اللہ کے دین کے داعی کی حیثیت سے جو ہماری ذمہ داریاں بنتی ہیں، ان کو ترتیب دیں۔ ایک جانب ہم ان مختلف ایجنڈوں کو سمجھ سکیں اور دوسری جانب ہم اقدامی طور پر وہ ایجنڈا جو اللہ تعالیٰ نے انسانیت اور عورت کی فلاح کے لیے دیا ہے، اس کو آگے بڑھا سکیں۔ اس معرکۂ حق و باطل میں ہم آنکھیں بند کرکے نہیں رہ سکتے۔نقطہ وار چند باتیں عرض ہیں:
اہم بات یہ ہے کہ تہذیبی جنگ صرف 'عورت کا عنوان نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام ایجنڈوں کے اصل اور مرکزی کردار مرد ہی ہیں جو منصوبہ ساز ہیں۔ مسلم دنیا میں جب تک مرد اس معرکے میں اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح سمجھ کر ادا نہیں کرتے، تنہا عورتیں اس کامقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اسلامی تحریکوں کے سربراہوں کو اس تہذیبی جنگ کا فہم حاصل کرنا اور پھراس کے مطابق منصوبہ سازی کرنا ہو گی۔ یہ انسانیت کی فلاح اور اسلامی اقدار کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
یہ وہ چراغ ہے‘ جس کی حفاظت و نصرت کا وعدہ خود رب کریم نے کیا ہے۔ جب بھی طاغوت کی پھونکیں اس کو گل کرنے کے لیے حرکت میں آتی ہیں‘ رب کریم اس کی لو بڑھانے کا کام خود کرتا ہے۔ کبھی امام غزالی ؒ، ابن تیمیہؒ، مجدد الف ثانی ؒ اور شاہ ولی ؒ اللہ کے روپ میں علم کے ہتھیاروں سے لیس اور کبھی محمد بن عبدالوہاب‘ سید احمد شہیدؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی صورت میں علم‘ تحریک اور جہاد کے ہمہ پہلو مظہر کی صورت میں ان کا پیغام‘ عمل کے سانچے میں ڈھلے لاکھوں افراد کی صورت میں متحرک‘ شرار بولہبی سے برسرپیکار و مصروف جہاد نظر آ رہا ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، صدی کے نہیں بلکہ صدیوں کے انسان اور صدیوں تک انسانوں کے محسن ہیں۔ ان شاء اللہ! اس چراغ سے جتنے چراغ جلے‘ جتنی ضو پھیلی اور اس میں جتنے بھٹکے ہوئوں کو راہِ ہدایت نظر آئی‘ ہم سب ان کے احسان مند ہیں اور انھی میں وہ طبقۂ نسواں بھی ہے‘ جو ایک طرف جدید تعلیم یافتہ‘ دین دار اور باحجاب خواتین پر مشتمل ہے جو زندگی کے مختلف میدانوںمیں اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں۔ دوسری جانب وہ لاکھوں گھریلو خواتین ہیں‘ جو اسی چراغ کی روشنی میں اپنے مردوں کی قوامیت پر ’آمنا و صدقنا‘ کہتے ہوئے ایک حیات طیبہ بسر کر رہی ہیں اوراپنے نونہالوں کی تربیت کا فریضہ اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کر رہی ہیں۔
عورت‘ نوع انسانی کی تعمیر کا پہلا مکتب ہے۔یہی وجہ ہے کہ عورت زمانے کے اکثر ادوار میں سازشوں کا شکار رہی اور اکثر مذاہب میں مظلوم بھی رہی۔ حقوق انسانی سے تہی دامن‘ شرف انسانی سے فارغ بلکہ حق زندگی سے محروم جس کی گواہی خود قرآن نے دی: وَ اِذَا الْمَؤْدَۃُ سُئِلَت o بِاَیِّ زَنْبٍ م قُتِلَتْo (التکویر۸۱:۸-۹) ’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے نجات دہندہ بن کر بھی آئے‘ اور ان کو سربلندی بھی عطافرمائی۔ بیٹی کو زندہ گاڑنے کے بجائے اسے اپنے جسم کا حصہ اور جگر کا ٹکڑا قرار دیا۔ ماں کے قدموں میں جنت قرار دی اور نیک بیوی کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا۔ باپ‘ شوہر‘ بھائی‘ بیٹا ہر رشتے میں مرد کو اس کا محرم اور محافظ قرار دیا۔ خطبہ حجۃالوداع کے منشور انسانیت میں عورت کے حقوق کا خیال رکھنے کی خاص طور پر تاکید فرمائی۔ لیکن صد افسوس‘ آج کفار و مغرب کو تو چھوڑیے خود مسلمان عورت ایک مرتبہ پھر ایک دوراہے پر کھڑی کر دی گئی ہے۔ بات محض حقوق کی نہیں کہ وہ تو اہلِ مغرب نے بھی ادا نہ کیے‘ بلکہ اس کے مقام اور دائرہ عمل کو متنازع بنانے کی ہے۔
ایک جانب مغرب زدہ میڈیا ہے الحاد پرست میڈیا‘ جس نے عورت کی عزت و حرمت اور حیا و پاک دامنی کو داغ داغ کر دیا ہے۔ دوسری جانب مخصوص ایجنڈے پر عامل این جی اوز ہیں‘ جو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے تحت ڈالروں کے عوض‘ تہذیب و ثقافت کا رخ دین سے لادینی اور حیا سے بے حیائی کی طرف موڑ دینے کے لیے دن رات ایک کر رہی ہیں۔ تیسری جانب ایک طبقہ علما سوء کا بھی ہے جو ہر دور میں باطل کی سرپرستی کے لیے آموجود ہوتا اور خود کو عقلِ کل سمجھتے ہوئے قرآنی آیات پر عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور آیات قرآنی کو نئے نئے معنی پہنا کر طاغوت اور خدا سے باغی لوگوں کی خدمت بجا لاتا ہے۔ وہ ہر ایسی چیز کے لیے اسلام کا دامن وسیع کر دینا چاہتے ہیں‘ جسے مغرب نواز طبقہ پسند کرتا ہے۔ مسلمان خواتین ان حالات میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہیں کہ بحیثیت عورت ہمارا اصل مقام کیا ہے؟معاشرے میں ہماری حیثیت کیا ہے؟ کیا واقعی ہم ثانوی ہیں؟ کیا گھرداری اور بچوں کی پرورش واقعی دوسرے درجے کا ایک بے کار کام ہے؟ کیا تعلیم اور ووٹ ہمارا حق نہیں؟ کیا رزق حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہمارا شامل ہونا گناہ ہے؟ ہمارا دائرہ عمل کون سا ہے؟ اور کون سے میدان کار ہمارے لیے درست ہیں؟ اور کہاں ممانعت کی حدبندی ہے؟
بہرحال آج کی باشعور مسلمان عورت ‘ سید مودودی ؒکے جلائے ہوئے چراغوں کی روشنی میں نہ صرف ان سوالوں کے جوابات پا چکی ہے‘ بلکہ پورے اطمینان قلب کے ساتھ دین دار عورت ان چیلنجوں سے نبرد آزما بھی ہو رہی ہے۔ اگرچہ یہ چیلنج مختلف النوع اور کثیر تعداد میں ہیں‘ لیکن ان کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے شان دار لٹریچر میں ہمہ پہلو اور وسیع معلومات کے خزانے اور رہنمائی کا مکمل سامان موجود ہے۔
خواتین کی حیثیت اور مقام سے لے کر دقیق فقہی مسائل تک‘ سبھی کچھ مولانا کے لٹریچر میں مل جاتا ہے اور پیش کیا جا سکتا ہے‘تاہم میں اپنی گفتگو کا دائرہ تحریک مساوات مرد و زن کے تناظر میں ’’عورت کا صحیح دائرہ کار‘‘ تک محدود رکھوں گی۔ میری کوشش ہو گی کہ گفتگو مولانا کی زبان میںہو اور اس ضمن میں نہ صرف ان کا نقطۂ نظر سامنے رکھا جائے‘ بلکہ یہ واضح کیا جائے کہ اس میدان میں انھوں نے ’مدنیت صالحہ‘ کی کتنی بڑی خدمت سرانجام دی ہے۔
اس تمدن میں وہ بنیادی اہمیت ’تاسیس خاندان‘ کو دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں: ’’انسان کے دل میں اولاد کی محبت تمام حیوانات سے زیادہ رکھی گئی ہے --- اس شدید جذبۂ محبت کی تخلیق سے فطرت کا مقصد صرف یہی ہو سکتا ہے کہ عورت اور مرد کے صنفی تعلق کو ایک دائمی رابطے میں تبدیل کر دے۔ پھر اس دائمی رابطے کو ایک خاندان کی ترکیب کا ذریعہ بنائے۔ پھر خونی رشتوں کی محبت کا سلسلہ بہت سے خاندانوں کو مصاہرت کے تعلق سے مربوط کرتا چلا جائے‘ پھر محبتوں اور مجبوبوں کا اشتراک ان کے درمیان تعاون اور معاملت کا تعلق پیدا کر دے‘ اور اس طرح ایک معاشرہ اور ایک نظام تمدن وجود میں آ جائے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۴۱)
یہ صالح معاشرہ انسان کو محض اس کی عقل یا حیوانی جبلت پر نہیں چھوڑ دیتا بلکہ اس معاملے میں انسان کی رہنمائی کرتے ہوئے ایسا نظام وضع کرتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو انسانیت کے لیے ایثار پر آمادہ کیا جائے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: ’’تمدن کے وسیع کارخانے کو چلانے کے لیے جن پرزوں کی ضرورت ہے وہ خاندان کی اس چھوٹی سی کارگاہ میں تیار کیے جاتے ہیں --- زمین پر اپنی زندگی کا پہلا لمحہ شروع کرتے ہی بچے کو خاندان کے دائرے میں محبت‘ خبرگیری‘ حفاظت اور تربیت کا وہ ماحول ملتا ہے‘ جو اس کے نشوونما کے لیے آبِ حیات کا حکم رکھتا ہے۔ خاندان ہی میں بچے کو وہ لوگ مل سکتے ہیں جو اس سے نہ صرف محبت کرنے والے ہوں‘ بلکہ جو اپنے دل کی امنگ سے یہ چاہتے ہوں کہ بچہ جس مرتبے پر پیدا ہوا ہے اس سے اونچے مرتبے پر پہنچے۔ دنیامیں صرف ماں اور باپ ہی کے اندر یہ جذبہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو ہر لحاظ سے اپنے سے بہتر حالت میں اور خود اپنے سے بڑھا ہوا دیکھیں ---- ایسے مخلص کارکن (labourers) اور ایسے بے غرض خادم (workers) تم کو خاندان کی اس کار گاہ کے باہر کہاں ملیں گے‘ جو نوع انسانی کی بہتری کے لیے نہ صرف بلا معاوضہ محنت صرف کریں‘ بلکہ اپنا وقت‘ اپنی آسایش‘ اپنی قوت و قابلیت اور اپنی محنت کا سب کچھ اس خدمت میں صرف کر دیں۔ جو اس چیز پر اپنی ہر قیمتی چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہوں‘ جس کا پھل دوسرے کھانے والے ہوں؟ کیا اس سے زیادہ پاکیزہ اور بلند ترین ادارہ انسانیت میں کوئی دوسرا بھی ہے‘‘ (ایضاً‘ص ۱۵۳ - ۱۵۴)۔ ’’صنفی میلان کو خاندان کی تخلیق اور اس کے استحکام کا ذریعہ بنانے کے بعد اسلام خاندان کی تنظیم کرتا ہے‘ اور یہاں بھی وہ پورے توازن کے ساتھ قانون فطرت کے ان تمام پہلوئوں کی رعایت ملحوظ رکھتا ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۲۳۲)
اس تنظیم میں عورت کو گھر کی ملکہ بنایا گیا ہے۔ کسب مال کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے اور اس کے مال سے گھر کا انتظام کرنا اس کا کام ہے۔ المراء ۃ راعیۃعلیٰ بیت زوجھا و ھُوَ مَسْئولَۃ‘ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکمران ہے۔ اور وہ اپنی حکومت کے دائرے میں اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے۔ مولانا کے نزدیک مرد اور عورت کے دائرہ عمل کا تعین کوئی سرسری بات نہیں ہے یا یہ محض ایک ایشو نہیں ہے‘ بلکہ یہ تمدن کی ایک بڑی اہم اور اساسی نوعیت کی بنیاد ہے۔ معاشرے کی تعمیر کو درست خطوط پر استوار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فطرت نے جس کے ذمے جو فرض لگا دیا ہے‘ وہ اسی کو ادا کرے۔ جہاں کوئی صنف اپنے حصے کا کام چھوڑ کر دوسری صنف کے کرنے کا کام سنبھالے گی‘ وہ خود بھی نقصان اٹھائے گی‘ اور معاشرہ بھی بری طرح اس کے نتائج کو بھگتے گا۔
مولانا مودودیؒ اس ضمن میں اسلام کی روح کو واضح کرتے ہوئے نہ کسی جدید تحریک سے مرعوب نظر آتے ہیں اور نہ قدیم تہذیب کے کسی ایسے اصول کو مانتے ہیں جو اسلام کی اصل روح سے ٹکراتا ہو۔ نہ جامد تقلید کے قائل ہیں‘ نہ ہر چلتے ہوئے سکّے کو اسلامی ثابت کرنے والوں کی مذمت سے گریز کرتے ہیں۔ چنانچہ ترقی کے نام پر عورت کو گھر سے باہر نکال کر کارخانوں میں لگا دینے اور تمدن کی ترقی کے اہم ترین کارخانے کو نظر انداز کر دینے کے بارے میں مولانا فرماتے ہیں: ’’یہ کہنا کہ ’پردے میں رہ کر عورت ملک کی ترقی میں معاون بننے کے بجاے رکاوٹ بنتی ہے‘ اس کے جواب میں‘ میں پوچھتا ہوں کہ ترقی میں آخر نئی نسلوں کو پرورش کرنا اور ان کو اچھی تربیت دینا بھی شامل ہے یا نہیں؟ وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے جس میں بچوں کو اول روز سے ماں اور باپ کی محبت نصیب نہ ہو اور پیدا ہوتے ہی بچوں کو وہ ادارے سنبھال رہے ہوں جن کے کار پرداز بہرحال ماں باپ کی جگہ نہیں لے سکتے۔ ان بچوں کو ابتدا ہی سے محبت کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ اور جن بچوں کو بچپن میں ماں باپ کی محبت نصیب نہیں ہوتی وہ حقیقت میں انسان بن کر نہیں اٹھتے۔ آج دنیا میں جو ظلم و ستم ہو رہا ہے اور کم سنی کے جرائم نے معاشرے کے لیے ایک پریشان کن مسئلہ پیدا کر دیا ہے‘ اس کا سبب یہی ہے کہ اب دنیا کی باگیں ان نسلوں کے ہاتھ میں آ رہی ہیں‘ جنھوں نے ماں باپ کی محبت نہیں دیکھی ہے۔ اور جہاں خون کے رشتوں تک میں محبت نہ ہو‘ وہاں انسانی محبت کا کیا سوال؟ ایسے انسان تو پھر خود غرضی کے پتلے اور آدمیت کے احساسات سے خالی ہی ہوں گے‘‘۔ (دین اور خواتین‘ ص۲۸)
’’یہ معلوم ہوتا ہے کہ ]مغرب میں[ خاندانی تعلق کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ باپ کا بیٹی سے اور بیٹی کا ماں سے اور بھائی کا بھائی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کچھ اسی چیز کا نتیجہ ہے کہ ملک کی ’ترقی‘ کا مفہوم صرف معاشی پیداوار کی ’ترقی‘ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کے لیے عورتوں اور مردوں‘ سب کو لا کر معاشی میدان میں کھڑا کر دیا گیا اور خاندانی نظام کے برباد ہونے کی کوئی پروا نہیں کی گئی۔ حالانکہ ترقی صرف معاشی پیداوار بڑھانے کا نام نہیں ہے۔ اگر عورتیں گھروں میں نئی نسل کو تربیت دیں‘ انسانیت سکھائیں‘ ان کے اندر اعلیٰ اخلاق اور خدا ترسی پیدا کرنے کی کوشش کریں تو یہ بھی ترقی ہی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ملک کی ترقی کا صرف یہی ایک ذریعہ نہیں ہے کہ مرد بھی کارخانوں میں جا کر کام کریں اور عورتیں بھی …] بلکہ[ ترقی کا یہ بھی ایک بڑا ذریعہ ہے کہ گھروں میں بچوں کو انسانیت کی تربیت دے کر تیار کیا جائے تاکہ وہ دنیا میں انسانیت کے رہنما بننے کے قابل بنیں‘ چرندے اور درندے بن کر نہ اٹھیں‘‘۔ (ایضاً‘ص ۲۹ - ۳۰)
ایک موقعے پر مغرب کے ایسے ہم نوا دانش وروں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: ’’یہ تعبیرات دراصل ایسے لوگوں نے کی ہیں جو قرآن سے نہیں بلکہ آپ لوگوں سے رہنمائی لیتے ہیں اور پھر قرآن کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ضرور اسی بات کو حق کہے‘ جسے آپ لوگ حق کہیں۔ ]یہ[ چیز میرے نزدیک منافقت اور بے ایمانی ہے۔ اگر میں ایمان داری کے ساتھ یہ سمجھتا کہ اس معاملے میں یا کسی معاملے میں بھی قرآن کا نقطۂ نظر غلط اور اہل مغرب کا صحیح ہے تو صاف صاف قرآن کا انکار کر کے آپ حضرات کے نظریے پر ایمان لانے کا اعلان کر دیتا اور یہ کہنے میں ہرگز تامل نہ کرتا کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔ یہی رویہ ہر مخلص اور راست باز آدمی کا ہونا چاہیے۔ (رسائل و مسائل‘ سوم‘ ص ۳۱ - ۳۲)
گویا مولانا مودودیؒ دو ٹوک انداز میں یہ بات واضح کرتے ہیں کہ عورت کا اصل دائرہ کار اس کا گھر ہے… اور اگرچہ خواتین اسلام نے بوقت ضرورت گھر سے نکل کر دیگر خدمات بھی انجام دی ہیں اور مولانا نے اس کی وضاحت مختلف مواقع پر کی ہے۔ حجاب پر گفتگو کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’حکم قرآنی کا منشا یہ نہیں کہ عورتیں گھر کے حدود سے قدم کبھی باہر نہ نکالیں۔ ضروریات کے لیے ان کو گھر سے نکلنے کی پوری آزادی ہے۔ مگر یہ اجازت غیر مشروط ہے نہ غیر محدود --- ضروریات سے مراد ایسی واقعی ضروریات ہیں جن میں نکلنا اور کام کرنا عورتوں کے لیے واقعی ناگزیر ہو‘‘۔ (اسلام اور مسلم خواتین‘ ص ۷۲)
دوسری جانب جنگ کے موقع پر حجاب کا یہ حکم کچھ رعایت اختیار کر جاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: ’’مسلمان جنگ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عام مصیبت کا وقت ہے۔ حالات مطالبہ کرتے ہیں کہ قوم کی پوری اجتماعی قوت دفاع میں صرف کر دی جائے‘ ایسی حالت میں اسلام خواتین کو عام اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگی خدمات میں حصہ لیں۔ مگر یہ حقیقت اس کے پیش نظر ہے کہ عورت جو ماں بننے کے لیے بنائی گئی ہے وہ سر کاٹنے اور خون بہانے کے لیے نہیں بنائی گی۔ اس لیے وہ عورتوں کو اپنی جان اور آبرو کی خاطر ہتھیار اٹھانے کی اجازت تو دیتا ہے مگر بالعموم انھیں فوجوں میں بھرتی کرنا اس کی پالیسی سے خارج ہے --- [تاہم] اسلامی پردے کی نوعیت کسی جاہلی رسم کی طرح نہیں ہے جس میں کمی بیشی نہ ہو سکتی ہو۔ جہاں حقیقی ضرورت پیش آ جائے وہاں اس کے حدود کم ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب ضرورت رفع ہو جائے تو حجاب کو پھر اپنی حدود پر قائم ہو جانا چاہیے‘ جو عام حالات کے لیے مقرر کیے گئے ہیں ۔ جس طرح یہ پردہ جاہلی نہیں ہے اس طرح اس کی تخفیف اور اس میں نرمی بھی جاہلی نہیں‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۷۳ - ۷۴)
ان چند سطروں سے مطلوبہ حدود اور دائرہ کار کی اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے‘جب کہ حجاب اور گھر بیٹھنے کا مفہوم‘ اور اس روایتی پردے کی نفی بھی ہو جاتی ہے جو بقول مولانا مودودیؒ: ’’ایک گروہ نے انھیں گھر کی چار دیواری میں اس طرح قید کر دیا کہ صوبہ بہار میں مسلمانوں کے قتل عام ]۱۹۴۶ئ[ کے وقت بھی ان کی عورتیں گھروں سے ڈولی کے بغیر نہ نکل سکیں۔ دوسرے گروہ نے اس قدر آزادی اختیار کر لی کہ اپنی عورتوں کو نیم برہنگی تک لے گئے۔ یہ دونوں طریقے غلط ہیں۔ اس وقت تو ملک میں حالات ایسے پیدا ہو رہے ہیں کہ عورتوں کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ بوقت ضرورت اپنی حفاظت خود کر سکیں‘ ایک جگہ سے دوسری جگہ خود منتقل ہو سکیں اور مصیبت کے وقت مردوں کے لیے بار اور رکاوٹ بننے کے بجاے ان کی قوت میں اضافہ کرنے کا موجب ہوں۔ میں یہ بھی مشورہ دوں گا کہ بھائی اپنی بہنوں کو اگر ممکن ہو سکے تو گھروں کے اندر سائیکل سواری بھی سکھا دیں تاکہ ضرورت کے وقت اس سے کام لیا جا سکے‘‘ (ایضاً‘ ص ۳۸ - ۳۹)۔ اور حقیقتاً یہی دائرہ کار اور پردے کا متوازن تصور ہے جو اسلام دیتا ہے۔ یہ دین فطرت کی روح ہے جسے مولانا مودودیؒ واضح کرتے ہیں۔
ایسے مسلمان دانشوروں کی کمی بھی نہیں‘ جوہر چلتے ہوئے سکے کو کھرا ہو یا کھوٹا‘ اسلامی سکہ ثابت کرنے پر قوت لگا دیتے ہیں۔ آئیے ہم دیکھیں کہ مولانا مودودیؒ مساوات مرد و زن پر کیسے روشنی ڈالتے ہیں: ’’اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان ہونے میں مرد اور عورت دونوں مساوی ہیں‘ دونوں نوع انسانی کے دو مساوی حصے ہیں۔ تمدن کی تعمیر اور تہذیب کی تشکیل اور انسانیت کی خدمت میں دونوں برابر کے شریک ہیں --- تمدن کی صلاح و فلاح کے لیے دونوں کی دماغی تربیت اور عقلی و فکری نشوونما یکساں ضروری ہے‘ تاکہ تمدن کی خدمت میں ہر ایک اپنا پورا پورا حصہ ادا کر سکے۔ اس اعتبار سے مساوات کا دعویٰ بالکل صحیح ہے اور ہر صالح تمدن کا فرض یہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی اپنی فطری استعداد اور صلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ ترقی کرنے کا موقع دے۔ ان کو علم اور اعلیٰ تربیت سے مزّین کرے‘ انھیں بھی مردوں کی طرح تمدنی و معاشی حقوق عطا کرے‘ اور انھیں معاشرت میں عزت کا مقام بخشے‘ تاکہ ان میں عزت نفس کا احساس پیدا ہو‘ اور ان کے اندر وہ بہترین بشری صفات پیدا ہو سکیں‘ جو صرف عزتِ نفس کے احساس ہی سے پیدا ہوسکتی ہیں‘‘۔ (پردہ‘ ص ۱۸۲)
’’لیکن مساوات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت اور مرد کا دائرہ عمل بھی ایک ہی ہو‘ دونوں ایک ہی سے کام کریں۔ دونوں پر زندگی کے تمام شعبوں کی ذمہ داریاں یکساں عائد کر دی جائیں۔ اس معاملے میں: ’’فطرت نے دونوں پر مساوی بار نہیں ڈالا ہے۔ ’بقائے نوع‘ کی خدمت میں تخم ریزی کے سوا اور کوئی کام مرد کے سپرد نہیں کیا گیا ہے‘ اس کے بعد وہ بالکل آزاد ہے۔ زندگی کے جس شعبے میں چاہے کام کرے۔ بخلاف اس کے اس خدمت کا پورا بار عورت پر ڈال دیا گیا ہے --- اس کے لیے حمل اور مابعد حمل کا پورا ایک سال سختیاں جھیلتے گزرتا ہے‘ جس میں وہ درحقیقت نیم جان ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے رضاعت کے پورے دو سال اس طرح گزرتے ہیں کہ وہ اپنے خون سے انسانیت کی کھیتی کو سینچتی ہے --- اس پر بچے کی ابتدائی پرورش کے کئی سال اس محنت و مشقت کے گزرتے ہیں کہ اس پر رات کی نیند اور دن کی آسایش حرام ہوتی ہے۔ وہ اپنی راحت‘ اپنے لطف‘ اپنی خوشی‘ اپنی خواہشات‘ غرض ہر چیز کو آنے والی نسل پر قربان کر دیتی ہے۔ جب حال یہ ہے تو غور کیجیے کہ عدل کا تقاضا کیا ہے۔ کیا عدل یہی ہے کہ عورت سے ان فطری ذمہ داریوں کی بجا آوری کا مطالبہ بھی کیا جائے جن میں مرد اس کا شریک نہیں ہے‘ اور پھر ان تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اس پر مرد کے برابر ڈال دیا جائے‘ جن کو سنبھالنے کے لیے مرد فطرت کی تمام ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے؟ اس سے کہا جائے کہ تو وہ ساری مصیبتیں بھی برداشت کر‘ جو فطرت نے تیرے اوپر ڈالی ہیں اور پھر ہمارے ساتھ آ کر روزی کمانے کی مشقتیں بھی اٹھا۔ سیاست‘ عدالت اور صنعت و حرفت اور تجارت و زراعت اور قیام امن اور مدافعت وطن کی خدمتوں میں بھی برابر کا حصہ لے۔ ہماری سوسائٹی میں آ کر ہمارا دل بھی بہلائے اور ہمارے لیے عیش و مسرت اور لطف و لذت کے سامان بھی فراہم کرے۔ یہ عدل نہیں ظلم ہے‘ مساوات نہیں صریح نامساوات ہے‘ عدل کا تقاضا تو یہ ہونا چاہیے کہ جس پر فطرت نے بہت زیادہ بار ڈالا ہے اس کو تمدن کے ہلکے اور سبک کام سپرد کیے جائیں اور جس پر فطرت نے کوئی بار نہیں ڈالا --- اسی کے سپرد یہ خدمت بھی کی جائے کہ وہ خاندان کی پرورش اور اس کی حفاظت کرے… اس میں عورت کے لیے ارتقا نہیں‘ انحطاط ہے --- اس میں عورت کے لیے کامیابی نہیں بلکہ ناکامی ہے۔ زندگی کے ایک پہلو میں عورتیں کمزور ہیں اور مرد بڑھے ہوئے ہیں۔ دوسرے پہلو میں مرد کمزور ہیں اور عورتیں بڑھی ہوئی ہیں۔ تم غریب عورتوں کو اس پہلو میں مرد کے مقابلے پر لاتے ہو‘ جس میں وہ کمزور ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہو گا کہ عورتیں ہمیشہ مردوں سے کم تر رہیں گی‘ تم خواہ کتنی ہی تدبیریں کر لو۔ ممکن نہیں ہے کہ عورتوں کی صنف سے ارسطو‘ ابن سینا‘ کانٹ‘ ہیگل‘ خیام‘ شکسپیر‘ سکندر‘ نپولین‘ صلاح الدین‘ نظام الملک طوسی اور بسمارک کی ٹکر کا ایک فرد بھی پیدا ہوسکے۔ البتہ تمام دنیا کے مرد چاہے کتنا ہی سر مار لیں‘ وہ اپنی پوری صنف میں سے ایک معمولی درجے کی ماں بھی پیدا نہیں کرسکتے‘‘۔ (ایضاً‘ص ۱۹۱-۱۹۵)
وہ کہتے ہیں:پردہ تقسیم عمل ہے‘ جو خود فطرت نے انسان کی دونوں صنفوں کے درمیان رکھ دی ہے اور اس میں تمدن کا ارتقا ہے۔ ایک صالح تمدن وہی ہو سکتا ہے جو اولاً اس فیصلے کو جو ںکا توں قبول کرے۔ پھر عورت کو اس کے صحیح مقام پر رکھ کر اسے معاشرت میں عزت و مرتبہ دے۔
’’عورتوں نے دھوکا کھا کر جب مردوں کے ساتھ برابری کا دعویٰ کیا‘ تو اس کے بعد اب مغرب میں ’لیڈیزفرسٹ‘ (پہلے خواتین) کا قصّہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ میں نے خود انگلستان میں (سفر کے دوران) دیکھا ہے کہ عورتیں کھڑی ہوتی ہیں اور مرد پروا تک نہیں کرتے۔ حالانکہ ہمارے ہاں ابھی تک مردوں میں یہ بات ہے کہ اگر ٹرین یا بس میں کوئی عورت کھڑی ہو تو مرد اٹھ جائے گا‘ اور اس سے کہے گا کہ ’آپ تشریف رکھیے‘۔ لیکن وہاں اب وہ کہتے ہیں کہ: تم برابر کی ہو۔ تمھیں پہلے بیٹھنے کا موقع مل گیا تو تم بیٹھ جاؤ‘ ہمیں موقع مل گیا تو ہم بیٹھ گئے۔ اب عورتیں دھکے کھاتی پھرتی ہیں اور کوئی ان کو پوچھتا تک نہیں۔ الا یہ کہ پوچھنے کی کوئی ’خاص‘ وجہ ہو‘‘۔ (دین اور خواتین‘ ص ۲۱ - ۲۲)
’’اسلام نے جو کچھ کیا ہے وہ یہ ہے کہ عورت پر وہی ذمہ داریاں ڈالی ہیں‘ جو فطرت نے اس پر ڈالی ہیں۔ اس کے بعد اس کو مردوں کے ساتھ بالکل مساویانہ حیثیت دی ہے۔ ان کے حقوق میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ ان کے لیے عزت کا وہی مقام رکھا ہے جو مرد کے لیے ہے۔ مسلمان عورتوں کو اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ اس معاشرے میں پیدا ہوئی ہیں جس سے بڑھ کر عورتوں کی عزت دنیا کے کسی معاشرے میں نہیں ہے۔ جائیے جا کر امریکہ اور انگلستان میں دیکھیے‘ عورت کا حال کیا ہے؟ کیسی مصیبت کی زندگی بسر کر رہی ہے؟ باپ کے اوپر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے‘ بیٹے پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ادھر وہ جوان ہوئی ادھر اس کا باپ اسے رخصت کر دیتا ہے: ’’جاؤ اور خود کما کر کھاؤ‘‘۔ اب اس کے بعد اسے اس سے کچھ بحث نہیں ہے کہ وہ کس طرح سے کما کر کھائے اور کس طرح زندگی بسر کرے۔ مغرب میں عورت اس بے بسی کی زندگی بسر کر رہی ہے‘ کہ اس پر ترس کھانے والا بھی کوئی نہیں ہے …یہاں باپ اپنی بیٹی کی ذمہ داری سے اس وقت تک سبک دوش نہیں ہوتا جب تک وہ اس کی شادی نہیں کر دیتا۔ شادی کر دینے کے بعد بھی وہ اس کی اور اس کی اولاد تک کی فکر رکھتا ہے۔ بھائی اپنی بہنوں کے پشت پناہ ہوتے ہیں۔ بیٹے ماؤں کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ (کچھ مثالوں کو چھوڑ کر عموماً) شوہر اپنی بیویوں کو گھر کی ملکہ بنا کر رکھتے ہیں۔ یہاں آپ کو آنکھوں پر بیٹھایا جاتا ہے اور آپ کی عزت کی جاتی ہے۔ وہاں بغیر اس کے کہ ]بے چاری عورت[ نیم برہنہ ہو کر مردوں کے سامنے ناچے ]اس[ کے لیے عزت کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اب اگر ہمارے ملک کی عورتیں ان حقوق پر قناعت نہیں کرنا چاہتیں جو اسلام ان کو دیتا ہے‘ اور وہی نتائج دیکھنا چاہتی ہیں جو مغرب میں عورت دیکھ رہی ہے‘ تو انھیں اس کا اختیار ہے۔ مگر یہ سمجھ لیجیے کہ اس کے بعد پھر پلٹنے کا موقع نہیں ملے گا۔… ]کیونکہ[ ایک معاشرہ جب بگاڑ کے راستے پر چل پڑتا ہے تو اس کی انتہا پر پہنچے بغیر نہیں رہتا اور انتہا پر پہنچنے کے بعد پلٹنا محال ہو جاتا ہے‘‘۔ (ایضاً‘ص ۲۳ -۲۴)
تاریخ گواہ ہے کہ جن معاشروں نے رب کے دیے ہوئے اعزازات کی قدر نہ کی‘ وہ کس قدر رسوا ہوئے۔ وہ کس کس پاتال میں گرے۔ نہ عورتیں عورتیں رہیں‘ نہ مرد مرد رہے‘ نہ بچوں کو باپ ملے‘ نہ معاشرے کا تحفظ ملا --- نہ رشتے نہ احترام‘ نہ شفقت و محبت‘ بوڑھے بھی ترس رہے ہیں‘ بچے بھی بلک رہے ہیں۔ عورت اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہے۔ مرد اپنے حال پر پریشان ہے۔
کیا یہی وہ تصویر نہیں تھی جو مولانا مودودیؒ نے آج سے کئی برس قبل کھینچی تھی اور پکار پکار کر قوم کو ان کے نقش قدم پر چلنے سے روکنے کی سعی کی تھی۔ کتاب پردہ اٹھا کر دیکھیے ۔اس کا ایک ایک صفحہ اس حقیقت کا گواہ ہے کہ انھو ںنے کس کس طرح مثالوں سے قوم کو سمجھانے کی کوشش کی۔
قدیم معاشروں اور گزرے ہوئے مختلف ادوار میں عورت کی حیثیت کے بارے میں افراط و تفریط پر مبنی تصورات اور تباہ کاریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے‘ مولانا محترم کے ذوق سلیم پر کیا گزری ہو گی‘ مگر انھوں نے لکھا ‘کیونکہ ان کے دل میں اُمت کا درد اور معاشرے کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنے کی فکر تھی۔ ان کی نگاہیں آنے والی تباہ کاریوں کو بھانپ رہی تھیں اور وہ ان خطرات سے قوم کو آگاہ کررہے تھے۔ کاش ’ایسی آزادی‘ کی متوالی تمام خواتین کم از کم ایک بار لازماً اس کتاب کا مطالعہ کریں تو انھیں مغرب کے شاخ نازک پر بنے آشیانے کی سمجھ بھی آ جائے اور اسلام کے مضبوط معاشرتی نظام کا علم بھی ہو جائے اور تمدن کی شان اعتدال بھی واضح ہو جائے۔ بقول مولانا مودودیؒ: ’’بے اعتدالی اور افراط و تفریط کی اس دنیا میں صرف ایک نظام تمدن ایسا ہے‘ جس میں غایت درجے کا اعتدال و توازن پایا جاتا ہے۔ جس میں انسان کی جسمانی ساخت اور اس کی حیوانی جبلت ‘ اس کی انسانی سرشت اور اس کے فطری داعیات …ان میں سے ایک ایک چیز کی تخلیق سے فطرت کا جو مقصد ہے‘ اس کو اس طریقے سے پورا کیا گیا ہے‘ کہ دوسرے چھوٹے سے چھوٹے مقصد کو بھی نقصان نہیں پہنچتا‘ اور بالآخر یہ سب مقاصد مل کر اس بڑے مقصد کی تکمیل میں مددگار ہوتے ہیں جو خود انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ یہ اعتدال‘ یہ توازن‘ یہ تناسب اتنا مکمل ہے کہ کوئی انسان خود اپنی عقل اور کوشش سے اس کو پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ انسان کا وضع کیا ہوا قانون ہو اور اس میں کسی جگہ بھی یک رخی ظاہر نہ ہو‘ ناممکن ‘قطعی ناممکن! خود وضع کرنا تو درکنار‘ حقیقت یہ ہے کہ معمولی انسان تو اس معتدل و متوازن اور انتہائی حکیمانہ قانون کی حکمتوں کو پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتا۔(پردہ‘ ص ۲۱۰ - ۲۱۱)
مولانا مودودیؒ نے گھر اور گھر سے باہر عورت کی حیثیت اور ذمہ داریوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’دیکھیے‘ آپ کے خیال میں جو جدید تہذیب اور ماڈرن کلچر ہے‘ آپ سمجھتے ہیں کہ تہذیب اور ثقافت کا یہی ایک معیار ہے۔ اس معیار پر آپ دوسری ہر تہذیب و ثقافت کو پرکھتے ہیں۔ لیکن ہم اس کو نہیں مانتے۔ آپ اپنی جس تہذیب اور کلچر کو ’ماڈرن‘ کہہ کر اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک پس ماندہ اور فرسودہ چیز ہے اور یہ تباہ کر رہی ہے آپ کی پوری سوسائٹی کو اور آپ کے پورے نظام تمدن کو۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس ’ماڈرن کلچر‘ کو اپنی سوسائٹی میں لائیں اور اسے بھی تباہ کر لیں --- ہمارے نزدیک ترقی اور چیز ہے اور نام نہاد ماڈرن سوسائٹی کی بری عادات و اطوار اور چیز۔ ہم ترقی کے قائل ہیں اور وہ ہم ضرور کریں گے‘ لیکن اس شکل میں نہیں کہ جس طرح آپ کر رہے ہیں --- اس کے بجاے ہم اپنے اصولوں پر تعمیر و ترقی کریں گے اور وہی صحیح معنوں میں تعمیر و ترقی ہو گی --- اسلامی اصولِ معاشر ت کی رو سے عورت کا مقام اس کا گھر ہے اور اس میں مرد کی حیثیت نگران اور قواّم کی ہے۔ عورتوں کے تعلیم پانے کو ہم نہ صرف درست سمجھتے ہیں بلکہ ضروری سمجھتے ہیں۔ ہماری خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بھی بنیں گی‘ لیکن وہ عورتوں کا علاج کریں گی‘ مردوں کا نہیں۔ ]غرضیکہ[ مسلمان عورت سے ہم جو کام بھی لیں گے وہ اس کے گھر کے اندر اور عورتوں کی سوسائٹی کے اندر لیں گے۔ (اسلام‘ دور جدید کا مذہب‘ ص ۱۵ - ۱۷)
مولانا نے فرمایا:اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ان مجالس کی صحیح نوعیت اچھی طرح واضح کریں‘ جن کی رکنیت کے لیے عورتوں کے استحقاق پر گفتگو کی جا رہی ہے۔ ان مجالس کا نام ’’مجالس قانون ساز‘‘ رکھنے سے یہ غلط فہمی واقع ہوتی ہے کہ ان کا کام صرف قانون بنانا ہے اور پھر یہ غلط فہمی ذہن میں رکھ کر جب آدمی دیکھتا ہے کہ عہد صحابہ میں خواتین بھی قانونی مسائل پر بحث‘ گفتگو‘ اظہار رائے کرتی تھیں اور بسا اوقات خود خلفا ان سے رائے لیتے اور اس کا لحاظ کرتے تھے‘ توآج اسلامی اصولوں کا نام لے کر اس قسم کی مجالس میں عورتوں کی شرکت کو غلط کیسے کہا جا سکتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جو مجالس اس نام سے موسوم کی جاتی ہیں ان کا کام محض قانون سازی کرنا نہیں ہے‘ بلکہ عملاً وہی پوری ملکی سیاست کو کنٹرول کرتی ہیں۔ وہی نظم و نسق کی پالیسی طے کرتی ہیں۔ وہی مالیات کے مسائل طے کرتی ہیں اور انھی کے ہاتھ میں صلح و جنگ کی زمام کار ہوتی ہے۔ اس حیثیت سے ان مجالس کا مقام محض ایک فقیہہ اور مفتی کا مقام نہیں ہے‘ بلکہ پوری مملکت کے ’’قواّم‘‘ کا مقام ہے۔
’’قرآن اجتماعی زندگی میں یہ مقام کس کو دیتا ہے۔ ارشاد باری دیکھیے:’’مرد عورتوں پر قواّم ہیں‘ اس بنا پر کہ اﷲ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلتدی ہے اور اس بنا پر مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔ (النسا۴: ۳۴)
’’]کوئی کہہ سکتا ہے[ کہ یہ حکم تو خانگی معاشرت کے لیے ہے‘ نہ کہ ملکی سیاست کے لیے۔ مگر یہاں اول تو مطلقاً الرجال قوامون علی النساء کہا گیا ہے فی البیوت کے الفاظ استعمال نہیں ہوئے۔ جن کو بڑھائے بغیر اس حکم کو خانگی معاشرت تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ پھر اگر یہ بات مان بھی لی جائے‘ تو ہم پوچھتے ہیں کہ جسے گھر میں اﷲ نے قواّم نہ بنایا‘ بلکہ قنوت (اطاعت شعاری) کے مقام پر رکھا‘ آپ اسے تمام گھروں کے مجموعے ‘یعنی پوری مملکت میں قنوت کے مقام سے اٹھا کر قوامیت کے مقام پر لانا چاہتے ہیں؟ گھر کی قوامیت سے مملکت کی قوامیت تو زیادہ بڑی اور اونچے درجے کی ذمہ داری ہے اور دیکھیے قرآن صاف الفاظ میں عورت کا دائرہ عمل یہ کہہ کر متعین کر دیتا ہے : اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ ٹھیری رہو اور پچھلی جاہلیت کے سے تبرج کا ارتکاب نہ کرو‘‘۔ (الاحزاب۳۳:۳۳)
’’آپ یہ فرمائیں گے کہ یہ حکم تو نبی کریم ؐ کے گھر کی خواتین کو دیا گیا تھا۔ مگر ہم یہ پوچھتے ہیں کہ آپ کے خیال مبارک میں کیا نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کے گھر کی خواتین کے اندر کوئی خاص نقص تھا‘ جس کی وجہ سے وہ بیرون خانہ کی ذمہ داریوں کے لیے نااہل تھیں؟ اور کیا دوسری خواتین کو اس لحاظ سے ان پر فوقیت حاصل ہے؟ پھر اگر اس سلسلے کی ساری آیات‘ اہل بیت نبوت کے لیے مخصوص ہیں‘ تو کیا دوسری مسلمان عورتوں کو تبرج جاہلیت کی اجازت ہے؟ --- اور کیا اﷲ اپنے نبیؐ کے گھر کے سوا ہر مسلمان کے گھر کو ’’رجس‘‘ میں آلودہ دیکھنا چاہتا ہے؟‘‘ (اسلامی ریاست‘ ص ۵۰۶ - ۵۰۸)
اب یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس نقطۂ نظر کے باوجود اس وقت جماعت اسلامی کی خواتین پارلیمنٹ میں کیوں موجود ہیں؟ یہاں پر یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ خواتین ہرگز خوشی سے ان اداروں میں نہیں گئی ہیں۔ حالات نے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔ اور یہ تمام خواتین شرعی حدود و قیود کے ساتھ وہاں پر گئی ہیں اور تہذیب اسلامی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کا ابطال کرنے کا فرض ادا کررہی ہیں اور اسلامی معاشرے میں عورت کے اصل مقام کو واضح کرنے میں بھی پیش پیش ہیں۔
’’ان دونوں طاقتوں کے درمیان برپا کش مکش کے دوران جس طرح مردوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اسلام نما کفر کا ساتھ دیں گے یا حقیقی اسلام کی حمایت کریں گے‘ اسی طرح مسلمان خواتین کو بھی یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالیں گی۔ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کش مکش میں کیا کیا صورتیں پیش آئیں۔ بہرحال بہنوں اور ماؤں سے میں درخواست کروں گا کہ--- انھیں اس کش مکش میں اپنا پورا وزن حقیقی اسلام کے پلڑے میں ڈالنا ہو گا‘‘۔ (دین اور خواتین‘ ص ۱۶)
عام انتخابات کے موقع پر خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فر مایا: ’’اس وقت ہر مرد اور عورت پر فرض ہے کہ اٹھے اور ان لوگوں کے حق میں رائے ہموار کرے جو اس ملک میں صحیح اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں… جو تعلیم یافتہ خواتین اس ملک کو ایک اسلامی ملک دیکھنا چاہتی ہیں‘ انھیں اٹھنا چاہیے اور ان عورتوں کو سمجھانا چاہیے جو صورت حال کی نزاکت کا پورا احساس نہیں رکھتیں۔ اس معاملے میں آپ جتنی بھی کوشش کریں گی اﷲ تعالیٰ اجر عطا فرمائے گا۔ میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ لوگ عورتوں کے اجتماعات منعقد کریں۔عورتوں کے اندر جا کر کام کریں۔ انفرادی طور پر بھی جا کر عورتوں سے ملیں اور انھیں صورت حال سمجھائیں اور کوشش کریں کہ انتخابات میں عورتیں بھی اسلامی نظام اور پاکستان کی وحدت کے لیے اپنی رائے استعمال کریں۔
میں یہ بات اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو حقیر نہ سمجھیں۔ وہ مردوں کے ساتھ جدوجہد میں ہر محاذ پر قابل قدر خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ اس وقت اس جدوجہد کا ایک محاذ انتخابی معرکے کی صورت میں درپیش ہے۔ جس طرح مرد‘ مردانہ حلقوں میں کام کر رہے ہیں‘ عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے اپنے حلقے میں کام کریں‘ اور اپنا پورا وزن اسلامی طاقتوں کے پلڑے میں ڈالنے کی کوشش کریں‘‘۔ (اسلام اور مسلم خواتین‘ ص ۱۵ - ۱۷)
تعلیم یافتہ خواتین کے فرائض کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’تعلیم یافتہ خواتین پر ایک اور فرض عائد ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ مغرب زدہ طبقے کی خواتین پاکستان کی عورتوں کو جس گمراہی‘ بے حیائی اور ذہنی و اخلاقی آوارگی کی طرف دھکیل رہی ہیں اور جس طرح حکومت کے ذرائع و وسائل (سرکاری تقریبوں‘ اداروں اور ٹیلی ویژن) سے کام لے کر عورتوں کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں‘ ان کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا جائے۔ اس فتنے کا سدباب کرنے میں عورتوں کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔ خدا کے فضل سے ہمارے ملک میں ایسی خدا پرست خواتین کی کمی نہیں ہے‘ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ اور وہ ان بیگمات سے علم و ذہانت اور زبان و قلم سے طاقت میں کسی طرح کم نہیں ہیں۔ اب یہ ان کا کام ہے کہ آگے بڑھ کر ڈنکے کی چوٹ کہیں کہ مسلمان عورت اس ’’ترقی‘‘ پر لعنت بھیجتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے خدا اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ و سلم کی مقرر کی ہوئی حدیں توڑنی پڑیں‘‘۔ (ایضاً‘ص ۱۹)
’’عورتوں میں جو ذہنی‘ اخلاقی اور نفسیاتی بیماریاں پھیل رہی ہیں ان کا مقابلہ کرنا عورتوں کا کام ہے۔ وہ خواتین جو اسلام سے منحرف ہونا نہیں چاہتیں اگر اٹھ کھڑی ہوں تو اس فتنے کا مداوا اچھی طرح سے کیا جا سکتا ہے۔ جو لڑکیاں اعلیٰ درسگاہوں میں تعلیم پا رہی ہیں خدا کا شکر ہے کہ ان کی بڑی تعداد دین سے منحرف نہیں ہے۔ وہ خدا اور اس کے رسولؐ کو مانتی ہیں اور اسلامی احکام کی اطاعت اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ اگر وہ متحرک ہوں اور جو لڑکیاں غلط تہذیب سے متاثر ہو رہی ہیں اگر انھیں وہ سنبھالنے اور بچانے کی فکر کریں تو بہت جلد لڑکیوں کے اندر ایک اصلاحی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ جو خواتین دین کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں وہ آگے بڑھیں اور اس بگاڑ کا رخ موڑ دیں۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلے خود دین سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اسلامی لٹریچر کا پوری توجہ سے مطالعہ کریں‘ پھر میدان میں نکلیں۔ اور عورتوں کے لیے حلقہ ہاے درس قائم کرکے انفرادی ملاقاتوں اور آسان لٹریچر کے ذریعے اپنا کام کریں۔ اس طرح کالجوں اور مدرسوں میں تعلیم پانے والی لڑکیاں بھی اپنے فرض کو پہچانیں اور اپنی ہم جماعت لڑکیوں میں اس کام کا آغاز کریں‘‘۔ (ایضاً‘ص ۹ - ۱۰)
یہ چند سطریں پڑھ کر ہم بخوبی جان سکتے ہیں کہ ایک باشعور مسلمان عورت آج کے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کس طرح کرے۔ اس کا بنیادی دائرہ عمل ’گھر‘ اس کی بنیادی سرگرمیوں کا اصل محور ہے۔ اس کے لیے ایک متعین مقام و مرتبہ بھی ہے۔ وہ اﷲ کے مقرر کردہ دائرے کے اندر ہر طرح کی سرگرمیاں ادا کر سکتی ہے۔ اپنی طرف سے کسی ’’معاشرتی امام‘‘ یا رسم و رواج کو اس پر ناروا پابندیاں لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس کی تعلیم‘ نسلوں کی تربیت کے لیے ضروری ہے۔ مگر تعلیم کی نوعیت اور تعلیم گاہ کا ماحول درست ہونا اور درست کرنا ضروری ہے۔ اپنے فطری دائروں کے اندر ترقی کے مواقع حاصل کرنا اس کا حق ہے اور اﷲ کے مقرر کردہ دائرے سے اس کا باہر نکلنا‘ پوری قوم اور معاشرے میں بگاڑ کا موجب۔
اس وقت قوم کے تمام باشعور خواتین و حضرات کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاندانی نظام کو بچانے‘ معاشرتی بنیادوں اور مدنیت صالحہ کے تحفظ کے لیے اپنے اپنے حصے کا فرض ادا کریں۔ مغرب پرست این جی اوز ‘الحاد پرست میڈیا اور مفاد پرست حکمرانوں کی مسلط کردہ بے حیائی کی یلغار کا مقابلہ عملی‘ قولی اور علمی ہر طرح کے جہاد سے اﷲ کے حضور سرخروئی حاصل کریں۔ علما پر ایک بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ ان ’علما سوئ‘ کا مقابلہ کریں‘ جو پردے کو محض امہات المومنینؓ کے لیے خاص قرار دیتے ہیں‘ ریاست کو اسلامی نظام کے نفاذ سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ وہ جو زکوٰۃ‘ سود‘ جہاد اور اسوۂ حسنہ تک کے معنی بدل رہے ہیں۔
دعا ہے کہ اﷲ اس قوم میں محترم مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے سے جذبے والا مرد حق اور ’عالم حق‘ پھر پیدا کرے جو ان سارے محاذوں پر پھر سے مردہ سنتوں کو زندہ کر سکے۔ اور ہم خواتین کو بھی اس راہ میں ویسی ہی محنت کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی مولانا مودودیؒ کی طرح کہہ سکیں: ’’آج میری ہڈیاں بھی مجھ سے حساب مانگتی ہیں‘‘ --- اﷲ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے سارے حساب آسان کر دے۔ آمین ‘ثم آمین!