میں چند گزارشات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کروں گا۔پچھلے چھے عشروں پر پھیلے سیاسی سفر کے دوران میں مَیں نے ریاست کے تقریباً ہرشہر و دیہات میں جس بات کی باربار تلقین کی ہے، آج ایک بار پھر اپنی قوم کے ذی حس اور باشعور عوام کے ذہن کے دریچوں پر دستک دینے کے لیے مجبور ہوں۔ شاید سنجیدگی سے غوروخوض کر کے اس میں چھپے اُس دردوکرب کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کر کے مجھ سمیت ہم سب کو محاسبہ کرنے کے لیے آمادہ کرسکیں۔
عالمِ اسلام کی تباہ حالی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تفصیلات مجھ سے بہتر آپ حضرات جانتے ہیں کہ اسلام دشمنوں کے اسلحہ اور گولہ بارود کے ذخائر اور نت نئے مہلک ترین ہتھیاروں کی آزمایش اور ٹیسٹنگ کے لیے اگر کرئہ ارض میں کوئی تجربہ گاہ (testing lab) ہے تو وہ ارضِ مسلم ہی ہے۔ اگر اس تحقیقاتی اور تجرباتی عمل کے لیے کوئی مخلوق چاہیے، تو وہ بھی ملت اسلامیہ ہی ہے جوکٹتی بھی ہے، مرتی بھی ہے، زندہ درگور بھی ہوتی ہے۔ جس کی ہنستی کھیلتی بستیاں پلک جھپکنے میں ہی کھنڈرات میں تبدیل کر دی جاتی ہیں، جن میں ہزاروں معصوم اور بے گناہ کلمہ گو مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ سڑک کنارے اور کھیت کھلیانوں میں ان بے گوروکفن لاشوں پر ماتم کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔
میانمار (برما)کی وحشت ناک ہلاکتوں کے بعد وہاں کی چھوٹی سی مسلم آبادی کو اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا اور ایغور مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ رمضان میں مسلمانوں کو زبردستی دن کے اُجالے میں کھلایا اور پلایا جاتا رہا ہے۔ مردوں کی داڑھی منڈوائی جاتی رہی ہے۔ خواتین کو پردہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور مساجد کو مسمار کرکے مسلمانوں کو سالہا سال تک قیدخانوں میں رکھا جاتا ہے، لیکن باہر کی دنیا کو اس ظلم اور سفاکیت کی بھنک بھی پڑنے نہیں دی جاتی۔ کوئی خبر رساں ایجنسی ان حالات کو منظرعام پر لانے کے لیے تیار نہیں ۔ صرف اس لیے کہ کہیں مظلوموں کی بات کرکے ظالموں اور جابروں کی دشمنی مول نہ لینی پڑے۔ غیروں سے تو کوئی توقع نہیں، لیکن جسد ِ واحد کا دعویٰ کرنے والی ملّت بھی مصلحتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک باہمی سرپٹھول اور ملکی مفادات میں دشمنوں کا چارا بن کر رہ گئے ہیں۔ عالمی برادری اور مسلم ممالک کے ادارے کاغذی گھوڑے دوڑا کر اعلامیہ جاری کرنے کے علاوہ شاید ہی کوئی ٹھوس اور عملی اقدام اُٹھانے کی ہمت کرتے ہیں، بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ ذکر بھی نہ ہی آئے تو اچھا ہے۔ جس کے نتیجے میں دشمن شہ پاکر اور زیادہ خطرناک منصوبے بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
برادرانِ ملّت! ہم انگریز کی غلامی سے نکلنے کے بعد پھر بھارت کی غلامی میں پچھلے ۷۲برسوں سے غلامی کی آہنی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہرشہر اور گائوں میں تباہی و بربادی اور خون خرابے سے ہماری داستان لہو رنگ ہوچکی ہے۔ ہمارے ناعاقبت اندیش سیاسی لیڈر، بڑے ملک سے رشتے کے لالچ میں ہماری غیرت، ہماری پہچان، ہماری شناخت، ہمارے ایمان اور ہمارے کلچر کو دائو پر لگا کر خود اقتدار اور دولت کے مزے لوٹتے رہے۔ بھارت میں صدیوں سے بسنے والے مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ہورہی ہے۔ کبھی گائورکھشا کے نام پر، کبھی دیش بھگتی کے نام پر، کبھی لوّجہاد کے نام پر اور کبھی کسی اور نام پر تڑپایا اور ترسایا جارہا ہے۔ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو ہرلمحے اور ہرموقعے پر اپنی وفاداری ثابت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
۲۰۱۹ء کے بھارتی انتخابات میں مسلمانوں کے قاتلوں کو پارلیمنٹ میں پہنچاکر بھارت کے ’ہندو توا‘ کے پرچارکوں نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ یہ ملک مستقبل قریب میں خالصتاً ایک ہندو راشٹر بننے جارہا ہے، جس میں جمہوریت کے نام پر اکثریتی راج ہوگا جو اقلیتوں کو اپنی مرضی کے مطابق ہی زندگی گزارنے پر مجبور کر دے گا۔ اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کو اکثریتی رنگ میں رنگ کر ہی رہنے کی آزادی دی جائے گی۔ اگرچہ سیکولرازم کے پردے میں بھی بھارتی مسلمانوں کو تقسیم ہند کے وقت ہجرت کے بجاے اسی ملک میں رہنے کی سزا اور قیمت اپنے لہو سے چکانی پڑی ہے۔ لیکن پچھلے کئی برسوں سے ملک کی پوری پوری مشینری اور فوجی قوت سے ہر اُس آواز کو اُبھرنے سے پہلے ہی دبایا جارہا ہے جس سے چہارسُو خوف و دہشت کے ماحول میں اس چھوٹی سی اقلیت کو تڑپنے اور ترسنے کے لیے بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ اس ذلّت آمیز برتائو کے باوجود کچھ مسلمان تان کر دوقومی نظریے کو ٹھکرا کر اس ملک میں رہنے کو ترجیح دینے پر فخر محسوس کرتے ہیں___ واحسرتًـا۔
برادرانِ ملّت! اسی گھٹاٹوپ اندھیرے میں ہماری بدنصیب ریاست پر ایک انجانے خوف اور دہشت کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔ قابض طاقتوں کے نزدیک ریاست جموں و کشمیر کے رستے ہوئے ناسور کا ایک ہی حل ہے کہ یہاںان خصوصی دفعات کو جو پچھلے ۷۲سال سے صرف کاغذوں پر ہی نظر آرہی ہیں، ان کو مٹاکر یہاں کی آبادی کا اس قدر تناسب تبدیل کیا جائے، کہ یہاں غصب شدہ حقوق کی بازیابی کی کوئی مؤثر آواز جڑپکڑنے سے پہلے ہی اُکھاڑ پھینکی جاسکے۔
ریاست کے سیاسی شطرنج کے ماہر کھلاڑی مختلف بہانوں سے اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔ کبھی اٹانومی کے نام پر اور کبھی سیلف رول کا راگ الاپ کر یہاں کے لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ اب بہت جلد دفعہ اے-۳۵ اور ۳۷۰ کی بیساکھیوں کے سہارے یہ شاطر لوگ اقتدار حاصل کرنے کی تاک میں بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ان خصوصی دفعات کو ان ہی ابن الوقت سیاسی بہروپیوں نے کھوکھلا کرکے بھارت کی غلامی کی زنجیروں کو اس قدر مضبوط اور مستحکم بنانے میں اپنا گھنائونا کردار ادا کیا، ورنہ بھارتی حکمرانوں کی کیا مجال تھی کہ یہاں کے عوام کو بکائو مال سمجھ کر، ہرایک کی بولی لگا کر، ان کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کو اپنا فرضِ عین اور دیش بھگتی کی سند سمجھ کر اسی کے بدلے اکثریتی ووٹ اور سپورٹ حاصل کرتے۔
عزیزانِ ملّت ! میں آپ سب سے دردمندانہ درخواست کر رہا ہوں کہ خدارا! اپنا نہ سہی اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے، اپنے لخت جگروں کے لہو سے مزین تحریک کے وارث بن کر پوری یکسوئی اور یک جہتی کے ساتھ اس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا مؤثر اور مثبت کردار ادا کریں۔ مختلف نعروں کے سراب میں بہہ جانے یا ہر ایک کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر، بہت سے افراد تو کسی سے بھی وفا نہ کرنے کے جرمِ عظیم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اس طرح ٹکڑوں میں بٹ کر شکاری کے لیے تر نوالہ بنتے ہوئے، دشمن کا کام آسان بنا دیتے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ اپنے بندوں سے خود کہتا ہے کہ جو بھی عہد کرو اُس کو پورا کرو۔ وہ عہد جو انسان اپنے ربّ سے کرتا ہے یا انسان انسان سے کرے۔ ہم اپنی نمازوں میں دن میں پانچ مرتبہ یہ عہد نبھانے کا اقرار کرتے ہیں۔ کیا ہم ایک بار بھی اس پر عمل کرتے ہیں؟ بندگانِ شکم کی پست سطح سے اُوپر اُٹھ کر اشرف المخلوقات کی بلند سطح پر آکر ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔ ہمیں ریوڑ کی طرح اپنے پیچھے پیچھے چلانے والوں کو حق و صداقت کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا اور میزانِ حق و باطل میں جس کے حق کا پلڑا بھاری ہوگا، قدمے، درمے، سخنے، ہرسطح اور ہرقدم پر، مقدور بھر اور استطاعت کے مطابق اس کا ساتھ دینا ہوگا، اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مربوط اور مضبوط طاقت بن کر دشمن کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بے روح نمازوں اور بے اثر دُعائوں سے زیادہ کچھ حاصل ہونے کی کوئی اُمید نہیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین یارب العالمین!