پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے کے تسلسل میں فیصلہ سنا دیا۔ یہ فیصلہ ملکی نظام معیشت میں حُرمت ِسود کو فیصلے کی حد تک یقینی بناتا ہے۔ فیصلے پر اخبارات و جرائد میں اور دیگر ذرائع ابلاغ پر داد و تحسین اور نقد و جرح کا عمل جاری ہے۔
یہ فیصلہ چونکہ ملکی آئین و قانون کے مطابق ہے، اس لیے قرآن و سنت، اصولِ فقہ، عمرانی علوم اور اسلامی علوم کے ماہرین کی آراء اس میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ ملکی معیشت، معاشرتی تعلقات، قانون بین الممالک، شماریات، تجارت، اکاؤنٹنگ، وفاق اور صوبوں کے تعلقات اور ایسے کئی شعبوں کے ماہرین بھی اس فیصلے سے لاتعلق نہیں ہیں، لہٰذا وہ بھی تحریر و تقریر کے ذریعے اپنی اپنی آراء دے رہے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل ضروری ہے کہ اس فیصلے کا مختصر سا پس منظر بیان کر دیا جائے تاکہ قارئین ماضی کے پورے عدالتی عمل سے بخوبی واقف ہو جائیں۔
حُرمتِ سود پر پہلا فیصلہ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۴ نومبر ۱۹۹۱ء کو دیا تھا، جس میں سود کی تمام شکلوں کو حرام قرار دیتے ہوئے حکومت کو متعلقہ قوانین میں ترمیم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ آئینی اعتبار سے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ اگر وفاقی یا کسی صوبائی قانون کو متاثر کرتا ہو تو متعلقہ حکومت چھ ماہ کے اندر فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتی ہے۔ ورنہ وہ قانون غیر مؤثر ہو جاتا ہے اور فیصلہ نافذ ہوجاتا ہے۔فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں کی جاتی ہے۔ اس پانچ رکنی بینچ کے لیے آئینی تقاضا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تین مسلم ججوں کے ساتھ دو عالم جج بھی ہوں۔ اپیل ہوجانے پر غیر مؤثر قرار دیا گیا قانون مؤثر رہتا ہے اور نئے فیصلے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے۱۹۹۱ء کے فیصلے کے بعد ایسے ہی ہوا۔ شریعت اپیلٹ بینچ نے اس اپیل پر آٹھ سال بعد ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ءکو فیصلہ دیا۔ بینچ نے حکومت کو متعلقہ قوانین میں ڈیڑھ سال کے اندر ترمیم کرنے کی مہلت دے کر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت تھی۔
جنرل مشرف حکومت نے شریعت اپیلٹ بینچ تحلیل کر کے نیا بینچ بنایا، جس میں نئے جج تھے۔ بینچ میں سماعت کے دوران میں کئی پہلے سے طے شدہ امور پر گفتگو کا آغاز نئے سرے سے ہوا۔ یوں سماعت کا دورانیہ بڑھتا گیا، حالانکہ اپیل میں تفصیل کے بجائے چند متعین نکات پر بحث ہوا کرتی ہے۔ طویل سماعت کے دوران میں سابقہ اصل بینچ کی دی گئی ڈیڑھ سالہ مدتِ مہلت ختم ہوگئی۔ لہٰذا حکومت کو قوانین میں ترمیم کے لیے اس نئے بینچ نے ایک سال کا مزید وقت دیا۔ یہ وقت ختم ہونے کے قریب پہنچا تو بینچ نے کچھ نکات کو نشان زد کرتے ہوئے اس ہدایت کے ساتھ مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کو واپس بھیج دیا کہ ’’ان نکات کو ازسرنو دیکھا جائے‘‘۔
۱۹۹۱ء کے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو ۱۹۹۹ء کے اصل بینچ نے برقرار رکھا تھا۔ یہ دونوں فیصلے چند متعین نکات کے گردا گرد تھے، لیکن ۲۰۰۲ء میں نئے شریعت اپیلٹ بینچ نے مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کو واپس بھیجتے وقت یہ دروازہ کھول دیا کہ ’’مقدمے کے فریقوں نے جو امور شریعت اپیلٹ بینچ کے سامنے رکھے ہیں، وفاقی شرعی عدالت میں از سر نو سماعت میں وہ نئے امور بھی سامنے لاسکتے ہیں‘‘۔ اس حکم پر وفاقی شرعی عدالت میں مقدمے کی سماعت از سر نو شروع ہوکر ۲۰برسوں تک پھیل گئی، جس کی بڑی وجہ بعض فریقوں کی طرف سے اٹھائے گئے نئے نئے نکات تھے، حتیٰ کہ زیر نظر فیصلہ ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو سنا دیا گیا۔
اس فیصلے کا اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ عدالت نے اپنے ۱۹۹۱ء کے اور پھر شریعت اپیلٹ بینچ کے ۱۹۹۹ء کے فیصلے سے انحراف نہ کرتے ہوئے سود کی تمام شکلوں کو خلافِ اسلام قرار دینا، برقرار رکھا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ’’سود کو انٹرسٹ (Interest) کہا جائے یا نفع، یا کسی قانون میں اسے کچھ اور کہا گیا ہو، اس کی تمام صورتیں حرمت سود کے زمرے میں آتی ہیں۔ قانون اور بنکاری صنعت میں اس کی کوئی بھی اصطلاح مستعمل ہو، سب حرام ہیں‘‘۔ اس تفصیل میں سود کا ایک اور انگریزی نام ’یوژری‘ (Usuary) بھی شامل ہے۔ قارئین کے لیے یہ وضاحت دلچسپی کا باعث ہوگی کہ سودی لین دین کے فریقین کے مابین لین دین کی عمومی شکلوں پر شرح سود حکومتی یا ریاستی بنک کی مقررہ حدود کے اندر ہو تو اسے ’سود‘، ’منافع‘ یا ’انٹرسٹ‘ کہتے ہیں، لیکن حکومت یا مرکزی بنک کی مقررہ شرح سود سے زیادہ سود پر لین دین پر اتفاق ہو تو اس اضافہ شدہ شرح کو ’یوژری‘ کہتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے یوژری سمیت ان تمام سودی اقسام کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے کر ان کے لین دین سے روک دیا ہے۔یہ اس فیصلے کا سب سے مستحسن حصہ ہے۔
شریعت اپیلٹ بینچ کی طرف سے مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت کو از سر نو غور کے لیے بھیجا گیا تو نیا فیصلہ آنے میں بیس سال لگے۔ اس طویل مدت کو شرعی عدالت یوں باعثِ اطمینان قرار دیتی ہے کہ اس مدت میں متوازی عمل کے ذریعے اسلامی بنکاری اور بلاسود بنکاری کو اتنا فروغ ملا کہ اس کے نظری مباحث، عملی حقیقت کے رُوپ میں ڈھل گئے۔ اسی عرصے میں علمی مطالبات، عملی شکل اختیار کر گئے۔ عدالت کے خیال میں ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۹ء کے دو فیصلوں کے نتیجے میں ٹھوس علمی بنیادوں پر وہ بہترین لٹریچر تیار ہوا، جس کی ستائش نہ صرف ملک بھر میں بلکہ بیرون ملک میں بھی کی گئی۔ نتیجہ یہ کہ بعض سوالات کی نوعیت بدل کر رہ گئی۔ مثلاً یہ سوال کہ ’کیا پاکستان میں اسلامی بنکاری عملاً ممکنات میں سے ہے یا نہیں؟‘ یوں غیرمتعلق ہوچکا ہے کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے جواب کے مطابق اسلامی بنکاری عملی طور پر معرض وجود میں آکر علما کی نگرانی میں بحسن وخوبی کام کر رہی ہے۔ عدالت کے خیال میں اس ۲۰ سالہ عرصے میں متعدد حل طلب امور، غیر متعلق ہو چکے ہیں ( پیرا -۹)۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ اسٹیٹ بنک نے اپنے جواب میں اوّل تو ان متعدد اہل علم کی آراء کے بنیادی مآخذ نہیں بتائے، جن پر بنک کے جواب کا انحصار تھا، بلکہ اس نے دوسرے درجے کے مآخذ کا سہارا لے کر جواب دیا( پیرا -۱۲)۔ بنک نے جو نظری نقطۂ نظر اختیار کیا، اپنے عملی اقدامات کا ذکر کرتے وقت وہ اس سے الگ نقطۂ نظر اپناتا نظر آیا۔ اسٹیٹ بنک، اسلامی بنکاری کے ان مختلف طریقوں کا ذکر کرتا ہے جو ملک میں رائج ہیں۔ لیکن نظری گفتگو کرتے وقت بنک نے جن ثانوی حوالہ جات کا سہارا لیا ، وہ یا تو کسی اسکالر کے مقالے سے لیے گئے تھے یا وہ کسی کتاب میں محض بطور حوالہ ملتے ہیں۔ اس پر مزید اضافہ یہ کہ بنک نے جن فاضل اہل علم کے سہارے اپنے جواب کی بنیاد رکھی، ان میں سے مفتی عبدہٗ اور رشید رضا دونوں مصلحین ہیں، فقیہ نہیں۔ ان دونوں معزز مصلح رہنماؤں نے فقہ اور شریعت کے باریک اور پیچیدہ امور میں اوّل تو کبھی حتمی رائے نہیں دی اور اگر دی تو اس رائے کا مرتبہ ایسا نہیں کہ انھیں عہدحاضر کے پیچیدہ فنی امور میں پیش نظر رکھا جائے۔ رہے باقی فاضل اہل علم کے حوالہ جات تو وہ علمی اعتبار سے یونی ورسٹیوں کے طالب علموں کی پڑھائی میں تو کام آتے رہے ہیں، پیچیدہ اور عملی امور میں ان کا لیا جانا محل نظر ہے۔
۳۱۸صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے آخری حصے میں چند حقائق بیان کرتے ہوئے عدالت نے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل اور اسٹیٹ بنک کے وکیل سے ہمارا سوال تھا کہ روایتی سودی نظام کو مکمل بلاسود اقتصادی نظام میں تبدیل کرنے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بنک کو کتنا وقت درکار ہے؟ جواب میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ’’گورنر اسٹیٹ بنک، وزیر خزانہ اور دیگر متعلقہ اداروں سے مشاورت کے بعد اس سوال کا جواب دیا جائے گا۔ لیکن متعدد تاریخیں گزرنے کے باوجود اٹارنی جنرل نے نہ صرف اس سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ یہ اصرار کیا کہ اس ضمن میں عدالت کوئی حتمی تاریخ نہ دے۔ تب عدالت نے ماہرین معاشیات اور دیگر ماہرین سے یہی استفسار کیا۔ ان ماہرین کی رائے میں تین سے دس سالہ مدت ایسی تھی، جس میں ملک میں مکمل بلاسود اقتصادی نظام قائم ہو سکتا ہے۔
ایک درمیانی رائے سابق وفاقی سیکرٹری وزارتِ خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود صاحب کی تھی، جسے عدالت نے اختیار کر لیا کہ یہ کام پانچ سالہ مدت میں ممکن ہے۔ تاہم، عدالت نے اٹارنی جنرل کی یہ درخواست تسلیم نہیں کی کہ کوئی حتمی تاریخ نہ دی جائے بلکہ قرار دیا کہ حتمی تاریخ مقرر کرنا نفاذِ شریعت کے لیے دستوری تقاضا ہے (پیرا-۱۳۶ )۔
چنانچہ، ان متعدد ماہرین معاشیات اور دیگر شعبہ جات کے ماہرین کی آراء پر انحصار کرتے ہوئے عدالت نے اگر پانچ سال کی مدت مقرر کر دی ہے تو بظاہر اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن خدشہ موجود ہے کہ اس مدت میں حکومتوں نے اگر فیصلے پر عمل درآمد کی طرف رخ ہی نہ کیا اور اختتام مدت کے آخری ایام میں معذرت خواہانہ اپیل کر دی گئی تو گویا لوڈو کے کھیل کی طرح ننانوے سے نیچے ایک پر آنا پڑے گا۔لہٰذا، اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے ایک بااختیار عدالتی کمیشن کا قیام ضروری ہے۔
جولائی ۲۰۱۷ءمیں ’پانامہ پیپر‘ سے متعلق سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا تو اسی فیصلے کے مطابق عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ کے ایک جج مقرر ہوئے،جنھوں نے اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی مکمل نگرانی کر کے معزول وزیراعظم نواز شریف کو جیل بھیج کر دم لیا۔
۲۰۱۴ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی صاحب نے متعلقین تعلیم اور ماہرین تعلیم کو سنے بغیر تعلیم سے متعلق ایک فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ اصولِ قانون اور عدالتی روایات سے انحراف کی ایک بدنما مثال تھا۔ لہٰذا، اس پر عمل درآمد ہونا ممکن نہیں تھا۔ شاطر این جی اوز اور اقلیتی رہنماؤں نے موقعے کا انتظار کیا، تاوقتیکہ ان کے ہم خیال چیف جسٹس صاحب نے سپریم کورٹ کی باگ ڈور سنبھال لی تو وہ ۲۰۱۹ء میں سپریم کورٹ جا پہنچے اور پانچ سال پرانے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے،پولیس کے ایک سابق اعلیٰ افسر شعیب سڈل پر مشتمل یک رکنی کمیشن مقرر کرایا، جنھوں نے وہ نامعقول سفارشات پیش کیں کہ جن سے مسلمانوں کے سینے تو چھلنی ہوئے ہی تھے، خود غیرمسلم بھی مسلمانوں کی تائید و حمایت کے لیے آن کھڑے ہوئے۔(اس بحث کے لیے دیکھیے راقم کے دو مضامین عالمی ترجمان القرآن ،مئی، جون ۲۰۲۱ء)
یہاں پر مذکورہ حوالے کو دُہرانے کا مقصد یہ ہے کہ عدالتیں اپنے فیصلوں پر عمل کرانے کے لیے ماضی میں کمیشن مقرر کرتی رہی ہیں۔ لہٰذا، اس موقعے پر وفاقی شرعی عدالت سے بجا طور پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے اس انتہائی اہم فیصلے پر عمل درآمد کرانے اور حکومتی اقدامات پر نظر رکھنے کے لیے ایسا ہی ایک بااختیار کمیشن مقرر کرے گی، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔یہ کام اب بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا، وفاقی شرعی عدالت سے اب یہ درخواست اور توقع ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے مناسب افراد پر مشتمل ایک بااختیار کمیشن مقرر کرے۔
دوسری اس سے بھی زیادہ اہم وجہ یہ کہ عدالت نے خود اپنے فیصلے میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’حکومتی ایوانوں سے عدالت کو کبھی کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ عدالت نے ملکی معیشت کو شرعی سانچے میں ڈھالنے کے لیے اٹارنی جنرل اور اسٹیٹ بنک کو متعدد مواقع دیئے کہ وہ بتائیں کہ یہ کام کتنے عرصے میں ممکن ہے؟ اس کا جواب تو دینا رہا ایک طرف، اٹارنی جنرل نے اصرار کیا کہ عدالت اس کام کے لیے کوئی حتمی تاریخ بھی نہ دے‘‘۔حکومتی سطح پر اس رویے کی بنیاد پر انتظامیہ کی جانب سے کسی اچھی اُمید کا باندھنا بظاہر ممکن نہیں نظر آتا، اسی لیے تنفیذ کے لیے عدالتی نگرانی ضروری ہے۔
اب ذرا حرمت سود پر عدالتی فیصلوں پر مختلف حکومتوں کے رویوں کا جائزہ ایک بار پھر لیجیے:
۱۹۹۱ء میں عدالت نے حرمت سود پر ایک بھرپور فیصلہ دیا تو حکومت اپیل میں چلی گئی۔ ۱۹۹۹ء میں شریعت اپیلٹ بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تو ایک دوسری طرح کی حکومت نے بھی نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی۔ اس نئی فوجی حکومت نے فیصلہ سنانے والا بینچ تحلیل کر کے نیا بینچ قائم کر دیا۔ فوجی حکومت کے اس پسندیدہ نئے بینچ کو انحراف پر مبنی فیصلہ دینے کی جسارت تو نہیں ہوسکی، لیکن اس نے ۲۰۰۲ء میں مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت کو اَز سرنو غور کے لیے بھیج دیا۔ پھر اگلے ۲۰برسوں میں چار سیاسی جماعتوں کے ۹ وزرائے اعظم آئے، لیکن معلوم ہوا کہ کوچۂ اقتدار میں حرمت سود کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ ان حالات میں اور سابقہ عدالتی نظائر کے پیش نظر وفاقی شرعی عدالت سے یہ توقع رکھنا فطری تقاضا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے ایک بااختیار کمیشن مقرر کرے، جس کی سفارشات پر حکومتیں عمل درآمد کرنے کی پابند ہوں۔ یہ کمیشن، عدالت کی صوابدید پر اپنی سہ ماہی، ششماہی یا سالانہ رپورٹ وفاقی شرعی عدالت کو پیش کرکے مزید رہنمائی لینے کا پابند ہونا چاہیے۔
کہا جا سکتا ہے کہ ’’موجودہ زیر نظر فیصلے کا کوئی متاثرہ فریق شریعت اپیلٹ بینچ میں اپیل کر گزرا تو عمل درآمد کمیشن کا کام موقوف ہو جائے گا۔
یہ اعتراض بے وزن ہے۔ آئینی طور پر حکومت اور انتظامیہ، ملک سے سود ختم کرنے کی پابند ہے۔ یہ کام بے دلی سے کیا جائے تو اس میں وقت زیادہ تو لگ سکتا ہے، لیکن ریاست و حکومت کے کندھے سے بوجھ نہیں ہٹ سکتا۔ مذکورہ اپیل کی صورت میں عمل درآمد کمیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بشرطیکہ عدالت اس کمیشن کے مقاصد کو فیصلے سے منسلک کرنے کے ساتھ ساتھ اسے آئینی ذمہ داری کی چھتری تلے لے آئے۔ یوں اپیل کی صورت میں کمیشن کے کام کا صرف وہ معمولی سا حصہ متاثر ہوگا جو فیصلے سے متعلق ہوگا۔ عدالت نے اس بااختیار عمل درآمد کمیشن کو اگر باریک بینی اور سوجھ بوجھ کے ساتھ آئینی وظائف بھی سونپ دیئے، تو اپیل پر فیصلہ آنے تک یہ کمیشن بڑا مفید علمی اور عملی کام نمٹا چکا ہوگا۔ علاوہ ازیں اپیل کی سماعتوں کے دوران میں دیگر کے ساتھ کمیشن کی آراء بھی بڑی سودمند اور وقعت کی حامل ہوں گی، جو شریعت اپیلٹ بینچ کو فیصلہ کرنے میں خوب سہولت فراہم کریں گی۔امید ہے کہ معزز عدالت ان معروضات پر غور کرے گی۔
فیصلے کے آخری حصے میں عدالت نے اپنی گذشتہ بحث کے نتائج نکال کر احکام جاری کیے ہیں۔ حکومت کو مہلت عمل دیتے ہوئے پیراگراف ۱۳۳ میں دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل ۲۰۳-ڈی کا سہارا لیا جس میں عدالت کو وہ تاریخ مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہے، جس تک وہ حکومت کو یہ مہلت دیتی ہے کہ وہ ضروری اقدامات کرے۔ اس کے بعد قانون کے بجائے عدالتی حکم مؤثر ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف یہی دستور حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ چھ ماہ کے اندر فیصلے کے خلاف شریعت اپیلٹ بینچ میں اپیل کرے۔ اپنے اس فیصلے میں عدالت نے پندرہ قوانین یا بعض حصوں کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دے کر فیصلہ دیا کہ یکم جون ۲۰۲۲ء سے یہ قوانین یا ان کے حصے غیر مؤثر ہو جائیں گے۔ اگلے ہی جملے میں عدالت نے حکومتوں کو ان قوانین کو ۳۱دسمبر ۲۰۲۲ء تک تعلیمات اسلامی سے ہم آہنگ کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ حکومت یہ قانون سازی مؤثر بہ ماضی (Retrospectively) بھی کر سکتی ہے۔
جہاں تک قوانین کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کی عدالت کی مدتِ مہلت کا تعلق ہے، تو یہ مدت حکومت کو حاصل دستوری مدت اپیل (چھ ماہ) سے قدرے زائد، یعنی آٹھ ماہ تک پھیلادی گئی ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف حکومت چھ ماہ کے اندر اپیل کرتی ہے تو فیصلہ غیرمؤثر ہو جائے گا۔ اب فرض کریں کہ حکومت چھ ماہ کے آخری ہفتے میں جاکر کہیں اپیل کرتی ہے تو اپیل کے ساتھ ہی فیصلہ امتناع کی نذر ہو جائے گا اور ماضی میں ایسے ہوتارہا ہے۔ لیکن اس بار زیرنظر فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ ۳۳ دن بعد پندرہ اہم اور معیشت کے لیے رگ جان جیسے قوانین غیر مؤثر ہو جائیں گے۔ گویا ان پندرہ قوانین کی درجنوں شقیں فیصلے کے صرف ۳۳ دن بعد غیر مؤثر ہو جائیں گی۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ حکومت کو ملی ہوئی چھ ماہ کی دستوری مدت اپیل کہاں گئی؟
گویا حکومت کے خیال میں اگر فیصلہ لائق اپیل ہے تو اسے ہر قیمت پر صرف ۳۳دن کے اندر اپیل کرنا ہوگی جو بجائے خود چھ ماہ کی دستوری رعایت کے برعکس ہے۔عدالت نے ان دوتاریخوں میں تطابق پیدا کرنے کی خاطر بالوضاحت کہا ہے کہ ’’حکومت مؤثر بہ ماضی قانون سازی کر سکتی ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ اگر حکومت نے آخری دنوں، یعنی دسمبر ۲۰۲۲ء میں غیر مؤثر قوانین کی جگہ نئی قانون سازی کی تو وہ یکم جون ۲۰۲۲ء سے مؤثر ہو سکتی ہے۔ واپس آئیے! حکومت واقعتاً چھ ماہ تک نہ اپیل کرتی ہے اور نہ یکم جون ۲۰۲۲ء تک ان قوانین کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرتی ہے تو ۳۳ دن بعد یکم جون ۲۰۲۲ء سے ملک بھر میں جو ممکنہ مالیاتی افراتفری مچ سکتی ہے اس بارے میں کسی کو کچھ پتا نہیں اور نہ عدالت نے اپنے فیصلے میں اس بارے میں کچھ واضح کیا ہے۔
ہم نے اس نکتے پر نہایت منجھے ہوئے قانون دانوں اور فیصلے سے براہ راست متعلق چند ماہرین معیشت اور ماہرین مالیات سے طویل تبادلہ خیال کیا، لیکن سب نے فیصلے کے اس حصے کی کوئی شافی وضاحت دینے سے معذوری ظاہر کی۔ یہ دو تاریخیں، یعنی یکم جون ۲۰۲۲ء اور ۳۱دسمبر ۲۰۲۲ء ملک کے ۱۵ قوانین یا ان کے حصوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان پندرہ قوانین میں سے ہر قانون یا اس کے حصے پر الگ الگ گفتگو کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف حکومت میں وفاقی وزیر خزانہ جناب مفتاح اسماعیل نے فیصلے کا خیر مقدم تو کیا ہے، لیکن شاید اسی لیے یہ اضافہ بھی کر دیا کہ ’’حکومت عدالت سے مزید رہنمائی حاصل کرے گی‘‘۔اس مبہم صورت حال میں مذکورہ بالا ۱۵ممکنہ طور پر کالعدم قوانین یا ان کے حصوں پر الگ الگ رائے زنی کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے، تا وقتیکہ یکم جون ۲۰۲۲ء گزر جائے اور فیصلے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں یا وفاقی شرعی عدالت از خود یا حکومت کی درخواست پر ان دو تاریخوں میں کوئی تطابق پیدا کردے۔
وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ مفصل نقد و جرح کا تقاضا کرتا ہے۔ بہرحال، اس مختصر مضمون میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ فیصلے کو بنظر استحسان دیکھتے ہوئے اس کے اہم، توجہ طلب اور تشریح طلب نکات پر پہلے نظر ڈالی جائے۔ یہاں پر قارئین کو دو باتوں کی طرف توجہ دلانا سود مند اور مفید ہوگا:
۱- عدالتیں ہمیشہ آئین، قانون، واقعات اور شواہد پر انحصار کرتے ہوئے فیصلے سناتی ہیں۔ اس عمل میں طویل مدت لگے تو عدالت اس کی کسی حد تک ذمہ دار تو ہوسکتی ہے، مگر بڑی حد تک نہیں۔ حرمت سود کے خواہش مند حلقوں کے لیے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۹۱ء میں اور ۲۰۲۲ء میں ایک ہی فیصلہ دیا۔ حالانکہ ۳۱ سال کے وقفے میں عدالت کے جج تبدیل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو علیٰ حالہ برقرار رکھا۔ گمان غالب ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے اپنے وضع کردہ شریعت اپیلٹ بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو بدلنے کے بجائے ان کی توقعات کے برعکس اسے وفاقی شرعی عدالت کو واپس تو بھیج دیا، لیکن فیصلہ بدلنے کی ہمت اس بینچ میں بھی نہیں تھی۔ لہٰذا اللہ سے دعا کی جانی چاہیے کہ اس مستحسن فیصلے سے آیندہ خیر ہی نکلے۔
۲- عدالتی عمل میں حکومتوں کا رویہ دیکھا جائے تو ان سب میں سیاسی عدم یکسانیت اور بُعد المشرقین ہوتے ہوئے بھی آپ کو یکسانیت اور ہم آہنگی نظر آئے گی۔ ۱۹۹۱ء میں عدالتی فیصلے پر مسلم لیگ کی نواز شریف حکومت نے اپیل کی۔ ۱۹۹۹ء میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے شریعت اپیلٹ بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی اور اسی نے اپنی پسند کا نیا شریعت اپیلٹ بینچ بنادیا۔ ۲۰۰۲ء سے ۲۰۲۲ء تک متعدد سیاسی حکومتوں کے متعدد اٹارنی جنرل آئے۔ عدالت سب سے مسلسل کہتی رہی کہ حکومت اسلامی نظام اقتصاد کی کوئی حتمی تاریخ دے۔ سب نے نہ صرف حتمی تاریخ نہ دے کر، مل جل کر دو عشرے ضائع کیے بلکہ سبھی اٹارنی جنرل مصر رہے کہ عدالت بھی کوئی حتمی تاریخ نہ دے۔ تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر عہد کے کوچۂ اقتدار میں حرمت سود کا یا تو کوئی تصور ہی نہیں یا یہ تصور نہایت دھندلا سا ہے۔(iqbal.malik888@mail.com)
پاکستان سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس [۱۱دسمبر ۲۰۱۳ء- ۵جولائی ۲۰۱۴ء] تصدق حسین جیلانی صاحب نے ۲۰۱۴ء میں اپنے فیصلے کے ذریعے، ۹۶ فی صد مسلمانوں کی راہوں میں جوکانٹے بوئے ہیں وہ آنے والی نسلوں کو اپنی پلکوں سے چننا پڑیں گے۔ مذکورہ فیصلے میں یک طرفہ منظرکشی کی گئی تھی، حقائق سے اس کا معمولی سا تعلق نہیں ہے۔چیف جسٹس جیلانی صاحب اگر اَزخودنوٹس کےتمام فریقوں کو توجہ سے سن لیتے تو آج سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد صاحب کو وہ مشکلات نہ دیکھناپڑتیں،جو ملک بھرمیں نظرآرہی ہیں۔
چند اُمور تو انتظامیہ کی وضاحت پر نمٹا دیئے گئے۔ اس اَزخود نوٹس میں نہ تو نصابِ تعلیم کا ذکر تھا، اور نہ محکمہ تعلیم کی طرف سے کوئی نمایندہ پیش ہوا۔ تاہم، یہ امر باعث ِتعجب ہے کہ فیصلے میں جسٹس جیلانی اقلیتی آبادیوں یامسلمانوں سے انصاف کرنے کےبجائے این جی او اور ان کے نمایندوں کے رضاکار وکیل کاکردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا لازم ہے کہ فیصلے کے بنیادی نکات کو دیکھا جائے:
یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ یہ پولیس فورس قائم کرنا وفاق کی ذمے داری ہے یا صوبوں کی؟ اور سیکشن ۲۹۵ میں کیا خرابی ہے جو بلاتفریق مذہب تمام عبادت گاہوں کو یکساں نظر سے دیکھتا ہے۔ کیا چیف جسٹس جیلانی صاحب کو وہ سیکڑوں مساجد نظر نہیں آئیں، جو اس ’جنگ‘ میں برباد ہوئیں؟ ان کے لیے کیوں نہ ایک الگ فورس بنائی جائے؟ مبینہ طور پر خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے واقعات کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ اس کے لیے الگ فورس کیوں نہ بنائی جائے؟ ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج میںذرا سی غفلت ہوجائے تو لواحقین ڈاکٹروں اور نرسنگ اسٹاف کو پیٹنا شروع کردیتے ہیں تو ہسپتالوں میں میڈیکل خدمات انجام دینے والے اس عملے کے تحفظ کے لیے کیوں الگ فورس نہ بنائی جائے؟ یہاں تمام عبادت گاہوں کے لیے عدالت کا اتنا حکم کافی تھا کہ صوبے اس پرگہری نظررکھیں۔ لیکن سماجی اُمور کو نظرانداز کرکے جسٹس جیلانی عدالتی حدود سے نکل کر انتظامی حدود میں داخل ہوگئے۔
جناب چیلارام کے بیان کے باوجود میرے دل میں یہ وہم تھا کہ سرکاری ادارے میں موجود اور حکومت سے قریب لوگ شاید کھل کر بات نہیں کرسکتے۔ یہ سوچ کر میں نے مذہبی اقلیتی برادری کے قدآور رہنمائوں سے رابطہ کرکے یہ سوال پوچھا:
وفاقی وزارتِ تعلیم کے نئے متفقہ نصاب کے مضامین اُردو ، مطالعہ پاکستان، تاریخ اور انگریزی میں نعت، حمد، اللہ ،رسولؐ، خلفائے راشدینؓ اور اسلامی تعلیمات پر مبنی نصاب پر کیا آپ کو بحیثیت اقلیتی رہنما کوئی اعتراض ہے ؟
سوال کے جوابات جو حاصل ہوئے ،وہ من و عن آپ کی نذر ہیں:
ڈاکٹر کھنگھارانی صوبہ سندھ کےمعروف شہرمٹھی (ضلع تھرپارکر) میں مقیم ہیں اور ’پاکستان دلت سالیڈیرٹی نیٹ ورک‘ کے کنوینر ہیں۔ موصوف جنوبی ایشیا کے معروف ادارے ’ایشین دلت رائٹس فورم‘ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے پاکستان سے ممبر ہیں۔آپ ’انٹرنیشنل دلت سالیڈیرٹی نیٹ ورک‘ کے بورڈ میں پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے اس بورڈ کے ممبر ہیں۔ انھیں پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا سول ایوارڈ ’نشانِ امتیاز‘ بھی مل چکا ہے۔ انھوں نے ہمارے سوال کا جامع جواب دیا (جو آپ ’یوٹیوب‘ پر سن سکتے ہیں)۔ یہاں ان کے جواب کا خلاصہ تین نکات میں پیش کر رہے ہیں، جنھیں دُہرا کرکے اُن سے تصدیق حاصل کی۔ ’سڈل کمیشن‘ کی سفارشات پر بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا: ’’یہ[سفارشات] تعصب پر مبنی ہیں‘‘۔ ان کا جواب ملاحظہ ہو:
۱- پاکستان مسلمانوں نے بنایا تھا، لہٰذا اس کی ۹۷ فی صدآبادی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق اپنا نظامِ تعلیم مرتب کرے۔ ہم غیرمسلموں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ غیرمسلم اقلیتوں کے لیے نفرت انگیز مواد نہیں ہونا چاہیے۔
۲- تقسیم ہند کے بعد اقلیتوں کو یہ اختیار مل گیا تھا کہ وہ پاکستان میں رہیں یا ہندستان میں، کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر مسلمانوں نے بنا یاتھا۔ اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے لاکھوں لوگ ہندستان ہجرت کرگئے۔ اب یہاں رہ جانے والے غیرمسلم یہ حقیقت قبول کرکے یہاں مقیم ہیں کہ ہم نے اکثریتی آبادی کے ساتھ رہنا ہے اور اکثریتی آبادی کو ملکی نظام اپنی خواہشات پر ترتیب دینے کا حق حاصل ہے۔ ہمیں اور لاکھوں افراد پر مشتمل ہماری اقلیتی آبادی کو اس نصاب پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
۳- ہم تو ویسے بھی مسلمانوں کی طرح اپنے مُردےدفناتے ہیں۔ اللہ، رسول، ان شاء اللہ، اللہ حافظ اور ایسے متعدد الفاظ ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ اسلام، اسلامی تعلیمات اور تاریخ اسلام کا مطالعہ ہماری اپنی ضرورت ہے۔ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں، اس ملک کا نظام اگر ہماری اولادیں نہیں جانیں گی تو مسلمانوں کو سمجھیں گی کیسے؟ سائیں! اپنے بچوں کو سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ملازمتوں کے لیے بھیجنے سے پہلے ہم خود انھیں اسلام اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں تاکہ دوسرے ملک میں انھیں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اسلامی تعلیمات سےآگاہی خود ہماری اپنی ضرورت ہے۔ موجودہ نصاب سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ڈاکٹرکھنگھارانی ۳۰لاکھ شیڈولڈ کاسٹ آبادی کے سیاسی رہنما اور دانشور ہیں۔ سیاسی رہنما کا زاویۂ نگاہ یقینا عوامی اُمنگوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ لیکن اس رہنمائی کو اگر تعلیم و تعلّم کا پیوند لگ جائے تو اس میں بہت وزن پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ہم نے جس اگلے اقلیتی رہنما سے رابطہ کیا، وہ جناب گنپت رائے بھیل تھے۔ موصوف اپنے زمانۂ طالب علمی میں میجر خورشیدقائم خانی سے متاثر ہوئے، جنھوں نے فوج سے مستعفی ہوکر اپنی زندگی دلت برادری کے لیے وقف کردی تھی۔ میجر صاحب نے ایک سندھی جریدہ دلت ادب جاری کیا تو گنپت رائے ان کے نائب مدیر رہے۔ ان کی وفا ت کے بعد رائے صاحب مدیر ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں اور مٹھی میں پڑھاتے ہیں۔ بھارتی دستور کے آرکیٹکٹ ڈاکٹر امبیدکر کی سوانح عمری ڈاکٹر امبیدکر کی زندگی کی جدوجہد از سعید شاہ غازی الدین کا آپ نے سندھی میں ترجمہ کیا اور ۲۰۱۳ء کے بعد سات برس تک سندھی جریدے سندھ ایکسپریس میں باقاعدگی سے لکھتے رہے۔
نصابِ تعلیم کے حوالے سے انھوں نے تفصیل سے جواب دیا جس میں دیگر اُمور بھی تھے۔ البتہ نصاب کی نسبت سے تو انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم ۳۰ لاکھ غیرمسلموں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اُردو، تاریخ، مطالعہ پاکستان، انگریزی کسی بھی مضمون میں اسلام اور اسلامی تاریخ کا نصاب میں ہوناضروری ہے۔ ان کی گفتگو بھی تین نکات کا احاطہ کرتی تھی:
۱- ۹۶/۹۷ فی صد آبادی کے اس مسلمان ملک میں اسلام کسی بھی شکل میں پڑھایا جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
۲- [گنپت صاحب کو شکوہ تھا کہ] شیڈولڈ کاسٹ برادری کے رہنما اور شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن کے صدر جوگندر ناتھ منڈل نے کانگرس کی ہندو قیادت کو چھوڑ کر اپنے ۲۱ساتھیوں اور چارسرکردہ اینگلوانڈین کے ہمراہ آل انڈیا مسلم لیگ کا ساتھ دے کر تحریک پاکستان میں شرکت کی تھی، لیکن تاریخ میں صرف مسلم لیگ کابیانیہ پڑھایا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہمارے ان رہنمائوں کا ذکر بھی نصابی کتب میں کیا جائے کہ انھوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دے کر تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔
۳- اُردو، انگریزی، تاریخ اور مطالعہ پاکستان کے نصاب میں اگر اللہ، رسول، نعت، حمد، اور تاریخ پاکستان آتے ہیں (جن سے غیرمسلم بچے ویسے بھی مستثنیٰ ہیں کہ وہ یہ چیزیں یاد کریں)تو اعلیٰ مسیحی [اور مشنری] تعلیمی اداروں میں کیا مسلمان بچے مسیحی مناجات اور مسیحی دُعائیہ کلمات میں شریک نہیں ہوتے؟دُور نہیں کراچی کے سینٹ پیٹرسن میں دیکھ لیں، میری بات کی تصدیق ہوجائے گی۔
مذکورہ بالا دونوں غیرمسلم رہنما محروم وسائل اور پسماندہ، لیکن اکثریتی ’دلت‘ طبقےسے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندومت کے ذات پات کے نظام میں یہ طبقہ کم ترین کہلاتا ہے۔ پاکستان میں یہ مذہبی اقلیت ہی ہندو اکثریت پر مشتمل ہے۔ اس کا نقطۂ نظر سامنے آنے پر مناسب سمجھاگیا کہ اعلیٰ برہمن اقلیتی ہندو کا نقطۂ نظر بھی سامنے آجائے۔ اعلیٰ ذات کے جس برہمن کا نام ذہن میں آیا، وہ پاکستان سپریم کورٹ کے سابق قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس (م:۲۰۱۵ء)تھے۔ کچھ عرصہ قبل کسی اور حوالے سے ان کی بیوہ سے فون پر میری بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہ اعلیٰ برہمن برادری سے وابستہ ایک گھریلو پردہ دارخاتون ہیں۔ انھوں نے اپنی طرف سے بات کرنے کا اختیار اپنےبھائی جناب سبھاش چندرکو دیا تھا۔
سبھاش چندر صاحب مکینیکل انجینئر ہیں اور پاک پی ڈبلیو ڈی میں اعلیٰ عہدےپر فائز رہ کر ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ کے زیرمطالعہ مذہبی کتب اُردو، سندھی یا انگریزی میں نہیں بلکہ ہندی رسم الخط میںہی ہیں۔ اس بات سے ان کی فعال مذہبی وابستگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ فون پر ان کے سامنے مذکورہ سوال رکھ کر یہ وضاحت کردی کہ ’’جواب میں جو موقف وہ اختیار کریں گے، اسے بیوہ جسٹس رانا بھگوان داس کا موقف بھی سمجھا جائے گا۔لہٰذا، آپ وہی جواب دیجیے جو محترمہ کے موقف کے قریب تر ہو۔اس وضاحت کے بعد سبھاش صاحب نے دونکاتی جواب دیا:
۱- ماضی میں پورا برصغیر ایک بڑی اور تہذیب یافتہہند ووحدت تھی۔ یہاں صرف مقامی لوگ تھے اور انتہائی امیراور مہذب تھے۔ ابتدائی طور پر گنوار حملہ آوروں نے برصغیر کی تہذیب کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ لیکن بعد میں آنےوالے حملہ آوروہ لوگ تھے، جنھوں نے تاج محل، قلعہ جات، باغات،مساجد وغیرہ بنا کر اس مقامی تہذیب میں مزیدنکھار پیدا کیا۔ یہ حملہ آور اب اس دھرتی کا حصہ بن گئے۔
۲- [اس سوال کے جواب میں کہ ’’بعض لوگ تاریخ، مطالعہ پاکستان، اُردو، انگریزی وغیرہ میں اسلام کے تذکرے کی مخالفت کررہے ہیں…‘‘ انھوں نے پورا سوال سنے بغیر بات سمجھتے ہوئے زور دے کر کہا:]’’نہیں نہیں، یہ غلط بات ہے۔ حمد، نعت اور ایسی دیگر چیزیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ البتہ اوور ڈوز نہیں ہونا چاہیے جیسے ’کفار نے یوں کہا، یا ’کفار بُرے ہوتے ہیں‘‘۔
[ہم نے وضاحت کی کہ ’یہ پرانے نصاب میں تھا، جسے نکال دیا گیا ہے‘۔ اور جب سوال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ کہا کہ حمد،نعت وغیرہ یاد کرنے یا امتحان سے غیرمسلم طلبہ مستثنیٰ ہیں تو ان کا جواب تھا:] ’’کیوں مستثنیٰ ہیں؟ حمد، نعت میں کیا خرابی ہے؟جناب یہ مسلم اکثریت کا ملک ہے اور مسلمان جب اپنے بچوں کو یہ پڑھاتے ہیں تو ہمارے بچے بھی پڑھ لیتے ہیں۔ جسٹس رانا بھگوان داس اسلامیات میں ایم اے تھے۔ آج کے ہندستانی بنگال کی ہر دل عزیز وزیراعلیٰ ممتابنیرجی اسلامی تاریخ میں ایم اے ہیں۔ صاحب! ان لوگوں کا مسئلہ کیا ہے؟‘‘
مذہبی اقلیتوں کے جن لوگوں کا ذکر سپریم کورٹ کے ۲۰۱۴ء کے فیصلے میں ہے، ان میں سے بیش تر کسی اقلیتی برادری کے نمایندے نہیں تھے۔ کون نہیں جانتا کہ پرویز مشرف کی ۱۷ویں آئینی ترمیم کے بعد اقلیتی آبادیوں کی حقیقی نمایندگی خواب بن کر رہ گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے ساتھ قربت کی بنیاد پر لوگوں کو منتخب کرتی ہیں، اقلیتیں انھیں خود منتخب نہیں کرتیں۔ ان اقلیتوں کی حقیقی نمایندگی کسی اسمبلی میں نہیں ہے۔ یہی حال سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے دیگر لوگوں کا ہے، جو ان کے مذہبی نمایندے تو ہیں لیکن حقیقی زندگی میں اقلیتی آبادیوں کے نمایندے دوسرے لوگ ہیں۔ کل سپریم کورٹ کو مسلمانوں کی نمایندگی مطلوب ہو تو کیا سپریم کورٹ مفتی عبدالقوی یا مولانا طاہر اشرفی کو اس نمایندگی کے لیے بلانے میں حق بجانب ہوگی؟
قارئین کے سامنے اقلیتی کمیشن کے چیلارام کی رائے آچکی ہے۔ ۳۰لاکھ دلت آبادی کے چوٹی کے دو نمایندوں کی رائے بھی دی جاچکی ہے۔اعلیٰ ذات کے اعلیٰ ہندو عہدے دار کی رائے بھی آپ کے سامنے ہے۔ اسی طرح چیف جسٹس جیلانی نے جو فیصلہ سنایا تھا ، اس کے بارے میں بھی مختصراً آپ پڑھ چکے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مسئلہ چرچ پر حملے سے شروع ہوا، جس میں دیگر اُمور شامل کرلیے گئے۔ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ نصاب سے نفرت انگیزمواد نکالا جائے۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے فیصلے کا رُخ صوبوں کے متفقہ نصاب ِ تعلیم کی طرف موڑ دیاہے۔ حالانکہ نئے نصاب میں قابلِ اعتراض مواد موجود نہیں ہے بلکہ پانچوں بڑی اقلیتوں کے لیے الگ نصابی کتب ہیں۔ یہ نصاب تو مسلمانوں کے لیے ہے جس سے اقلیتوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
اس یک طرفہ فیصلے پر سپریم کورٹ نے عمل درآمد کر نے کا کہا تو صوبائی حکومتیں عمل درآمد کی پابند ہوں گی۔ نصاب سے اسلامی مواد نکال دیا جائے گا۔جسٹس جیلانی کا فیصلہ بھی جسٹس محمدمنیر کے فیصلے کی طرح قومی اور تہذیبی مستقبل پر گہرے اثرات کا حامل ہوگا۔ متحرک سیکولر این جی اوز یہی سمجھیں گی کہ وہ ملک کو سیکولر بنانے کے لیے، سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ملک کی ۹۶ فی صد اکثریت کی بے چارگی کا احساس وقت کےساتھ گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ مقدمے کے نام نہاد مسلمان فریق ایک طرف رہیں گے، مگر مسلمانوں کے غیظ و غضب کارُخ اقلیتوں کی طرف ہوگا ۔ مذہبی ہم آہنگی کے بجائے مذہبی منافرت کا بازار گرم ہوگا اور کسی بھی وقت سانحہ گوجرہ جیسے اندوہناک اور شرمندگی کا باعث بننے والے واقعات وقوع پذیر ہوسکتے ہیں۔
اس آگ کو بھڑکانے کا سبب مخصوص فکر اور ایجنڈے کی حامل این جی اوز ہی ٹھیریں گی، مگر سزا پوری قوم کو ملے گی۔ جس کی تائید اور طرف داری کوئی سمجھ دار مسلمان ہرگز نہیں کرسکتا۔ دینِ اسلام اور اسلامی تہذیب و معاشرت میں مذہبی اقلیتوں کے وہی شہری حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔ یہ ہم مسلمانوں کو اسی طرح عزیز ہیں جیسے اپنے دیگر مسلمان بھائی بند۔
جیساکہ بیان کیا جا چکا ہے کہ تعلیم جیسے اہم موضوع پرجسٹس جیلانی صاحب نے وہ فیصلہ دیا، جس میں مسلمانوں کاکوئی ماہرتعلیم یا مذہبی رہنماشریک نہیںتھا۔ اس ضمن میں ہم سمجھتے ہیں کہ درخواست یہ ہے کہ موجودہ محترم چیف جسٹس گلزاراحمد صاحب اس گذشتہ فیصلے پرنظرثانی کےلیے کم از کم دس ججوں پر مشتمل بنچ بنائیں، اور کوئی قابلِ اطمینان بندوبست کریں جو تمام متعلقہ فریقوں کو بلاکر موقف سنے، جن میں ہائرایجوکیشن کمیشن، یونی ورسٹیوں اور جامعات کے وائس چانسلر، اساتذہ تنظیمیں، والدین کی انجمنیں، صوبائی اور وفاقی تعلیمی محکمے اور دیگرمتعلقین شامل ہیں۔ اقلیتوں کے نمایندہ افراد بھی اپنا موقف پیش کریں۔ اس طرح اکثریتی مسلم آبادی اور اقلیتیں، دونوں مطمئن ہوں۔ عدل پر مبنی فیصلہ ہی درست سمت دے سکتا ہے اور دستورِ پاکستان کے الفاظ کی پاس داری کرسکتا ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نصاب میںاسلام کاوجود یاعدم وجود پاکستان میں کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں اور نہ ہے۔ اس امرواقعہ کی تائید اور وضاحت کے لیے اقلیتی نمایندوں کا نقطۂ نظر پڑھ کر آپ پہ واضح ہوجائے گا کہ انھیں نصاب پرکوئی اعتراض نہیں بلکہ اس مہم کی پشت پر مخصوص ایجنڈے کے حامل ادارے اور ان کے افرادِکار ہیں، جو ملک میں افراتفری کے لیے دانستہ اور نادانستہ طور پر کوشاں رہتے ہیں۔ (iqbal.malik888@gmail.com)
_______________
حواشی
1- Shahzad Sham : https://www.youtube.com/watch?v=_uojr8gbXHE
2- Shahzad Sham : https://www.youtube.com/watch?v=GK2YKawjBVk
3- Shahzad Sham : https://www.youtube.com/watch?v=ja-RSqz2s7g
۲۰۱۴ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی نے پشاور میں ایک چرچ پر دہشت گرد حملے کے بعد اَزخود نوٹس لیا۔ یہ نوٹس ’جسٹس ہیلپ لائن‘ نامی این جی اوز کی درخواست پرلیا گیا تھا۔ اقلیتی برادری کی چند دیگردرخواستوں کو یکجا کرکے چیف جسٹس نے صرف سرکاری حکام کو بلایا، تین رکنی بنچ بنایا،جس میں خود ان کے علاوہ جسٹس عظمت سعید اور جسٹس مشیرعالم تھے۔ ۱۹جون ۲۰۱۴ء کو انھوں نے اس نوٹس کی سماعت کی اور ایک ایسا فیصلہ سناڈالا، جس کے متاثرین ۹۶ فی صد مسلمان تھے۔ لیکن ان کے کسی نمایندے کو نہ تو سنا گیا، نہ بلایا گیا اور نہ انھیں علم ہوا کہ ان کی پشت پر کیا خنجر آبدار گھونپا جارہا ہے۔چرچ پر مذکورہ دہشت گردانہ حملے کا کوئی مجرم نہیں پکڑا گیا تھا۔
اس سماعت میں عدالت کے اندر کے تمام حاضرین نے اَزخود یہ فرض کرلیا کہ ’’دہشت گرد چونکہ موجودہ نظامِ تعلیم کی پیداوار ہیں، لہٰذا اس نظامِ تعلیم کو بدل دیا جائے‘‘۔ معلوم نہیں یہ فرض کرنے کی بنیاد کیا تھی؟ کیا دہشت گرد غیرملکی نہیں ہوسکتے ہیں؟ ممکن ہے وہ ہندستان سے آئے تھے؟ کیا وہ واقعی مسلمان تھے؟ کیا یہ حملہ خود مسیحیوں کے دوگروہوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ تو نہیں ہے؟ کیا اس میں خاندانی یا ذاتی دشمنی کا کوئی عنصر تو نہیں ہے؟ یہ وہ چند ممکنہ سوالات ہیں، جن کا جواب تلاش کرکے ہی کوئی نتیجہ نکالا جاسکتا تھا۔ لیکن معزز عدالت نے سرسری سی سماعت میں اتنا بڑا فیصلہ سناڈالا کہ ا س کے نتائج تصور میں لاتے ہوئے دل ڈوبنے لگتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بس یہ فرض کرلیا کہ ’’تمام دہشت گرد پاکستانی مسلمان تھے اور دہشت گردی کا سبب تعلیمی نصاب ہے‘‘۔اس فیصلے کے منفی اثرات مسلم نسل کشی کی شکل میں مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں۔
اسی حکم نامے میں عدالت نے پولیس سروس کے ایک معروف افسر ڈاکٹر شعیب سڈل کی قیادت میں کمیشن مقرر کیا، جس کے ذمے عدالتی حکم نامے پر عمل درآمد کرانا تھا۔ کمیشن کی معاونت کے لیے ایک چاررکنی کمیٹی مقرر کی گئی، جس کے ارکان تھے: ڈاکٹر شعیب سڈل، ڈاکٹر رمیش کمار، کوئی ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور خود معزز چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی کے معزز صاحبزادے جناب ثاقب جیلانی۔ جسٹس جیلانی فیصلہ سنانے کے سترہ دن بعد ریٹائر ہوگئے۔ یہ کمیٹی اور کمیشن گزشتہ سات سال سے کام کررہے ہیں۔ اس عرصے میں ملکی تعلیمی نظام اور مسلمانوں کی نسل کشی کا کیا بندوبست ہورہا ہے؟ اس کی کچھ تفصیل آپ آیندہ سطور میں پڑھیں گے۔
یوں تو یہ فیصلہ ’’ازخود نوٹس‘‘ پر چار فی صد اقلیتوں کے لیے تھا، لیکن اس فیصلے سے ۹۶ فی صد مسلمانوں کی نسلوں پر جو اثرات مرتب ہوں گے، ان کے بارے سوچ کر دل لرزتا ہے۔ اس سے بڑھ کر شرم ناک تماشا یہ ہے کہ مسلمانوں کو نہ اس مقدمے میں فریق بنایا گیا اور نہ انھیں سنا گیا۔ معزز عدالت نے حکم دیا کہ ’’اسکول اور کالج کے درجات پر ایسا مناسب نصاب تشکیل دیا جائے، جو مذہبی رواداری کی ثقافت کو فروغ دے‘‘۔ فیصلے میں ۱۹۸۱ء میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کا حوالہ دے کر لکھا ہے: ’’بچے کو مذہب اور اعتقاد کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے تعصب سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کی نشوونما، سمجھ داری، رواداری، افراد کے مابین دوستانہ روابط، امن اور آفاقی بھائی چارے ، مذہبی آزادی اور دوسرے اعتقاد کی تعظیم اور اس شعور کے ساتھ کی جائے گی کہ اس کی صلاحیتیں اور توانائی اپنے ساتھیوں کے لیے وقف ہوگی‘‘۔
فیصلے کی نقل فوراً متعلقہ اداروں کو بھیجی گئی۔ پنجاب حکومت نے تین مقامی ’دانش وروں‘ پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی، جس نے سفارشات مرتب کیں۔ تین مقامی اورمطلقاً غیرمعروف افراد کی ان سفارشات کو ۲فروری ۲۰۱۶ء کو پنجاب حکومت نے(جس کے سربراہ جناب شہباز شریف تھے) سرکاری و نجی یونی ورسٹیوں کو اس ہدایت کے ساتھ ارسال کیا کہ ’’ان سفارشات پر عمل کرکے بالوضاحت بتایا جائے کہ نصاب میں کیاترامیم کی گئیں اور جن کتب میں ترامیم کی گئیں، وہ کتب بھی منسلک کی جائیں‘‘۔ اسی پربس نہیں، یونی ورسٹیاں امتحانی سوالات بھی اب ان تین غیرمعروف افراد کے افکار کی روشنی ہی میںمرتب کیا کریں گی۔لیکن پہلے کمیٹی کی چند سفارشات پر ایک نظر ڈال لیجیے۔
’پاکستان اسٹڈیز انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں تحریک ِ خلافت میں گاندھی کے کردار پر معروضی انداز میں نظر ثانی کی جائے‘۔ یہ تعلیمی سفارش بھارت میں مودی حکومت کے کسی متعصب رہنما کی نہیں تھی، بلکہ مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں دی گئی تھی، جب لاہورکے کالجوں میں دوپروفیسرصاحبان اور ایک انتظامی افسر پر مشتمل کمیٹی نے ’رواداری اور روشن خیالی ‘کے فروغ کے لیے جو سفارشات مرتب کیں، یہ ان کی دیگ میں سے چاول کا ایک دانہ ہے۔ ملکی اور صوبائی سطح پر مختلف نصاب میں چند مزید مجوزہ تبدیلیاں ملاحظہ ہوں۔ بریکٹ میں ہمارا تبصرہ ہے:
۱- طلبہ کو پڑھایا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ مذاہب کی تنسیخ کے لیے نہیں آئے بلکہ ابراہیم، موسیٰ، داؤد، سلیمان اور عیسیٰ علیہم السلام کا پیغام وہی تھا، جو محمدؐ کا ہے۔[گویا یہودیت اور مسیحیت اپنی موجودہ شکل میں وہی مذاہب ہیں، جو مذکورہ پیغمبروںؑ کے تھے۔ اسے قرآنی آیات کی تحریف کہا جائے یا استخفاف؟]
۲- ’’تحریک ِ پاکستان کا اَزسرنو معروضی جائزہ لے کر اس میں اقلیتوں کاکردار اُجاگر کیا جائے‘‘۔ [قیام پاکستان کے آٹھ برس بعد مسلم لیگ کے مرکزی رہنما جناب ظفراحمد انصاری نے واضح طور پر لکھا تھا: حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمان اور صرف مسلمان قوم کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہماری آبادی کے دوسرے عناصر خصوصاً ہندوقوم نے پاکستان کو وجود میں نہ آنے دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘‘ (Daily Dawn، ۲۳دسمبر ۱۹۵۵ء)]۔
۳- ’’یورپ میں تحریک احیائے علوم کی تفصیلات نصاب میں شامل ہوں‘‘[مغربی فکر کے مطابق یونانی عہد کے بعد انسانیت پر ایک تاریک دور (Dark Age) آیا جس کا خاتمہ، یورپی صنعتی انقلاب کے ذریعے ہوا۔ اس ’تاریک دور‘ میں اُن کے نزدیک بعثتِ رسولؐ، خلافت راشدہ اور مسلمانوں کے دوسرے عہد زریں بھی شامل ہیں،کہ جب عورت کو تحفظ، وقار اور جایداد میں حصہ ملا۔ کیا اب ہمارے بچے عہد نبوی اور خلافت ِ راشدہ کو عہد ِ ظلمات کے طور پر پڑھیں گے؟]
یہ نمونے کی چندسفارشات ہیں، جو پشاور میں ایک چرچ پر شرپسندوں کے دہشت گردانہ حملے کے ثمرات ہیں۔ امریکا اور ناٹو کی سرپرستی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اندازے کے مطابق ۸۰ہزار سے زیادہ، پاکستان کے مسلمان مارے گئے ہیں، مساجد اور درگاہیں تک تباہ ہوئی ہیں، اور بچوں اور نمازیوں تک کی لاشیں تڑپی ہیں، تاہم وہ صبر اور شکر کے ساتھ یہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ادھر ایک چرچ پر ستمبر۲۰۱۳ء میں اذیت ناک حملہ ہوا تو ملاحظہ ہو کہ ایک تسلسل کے ساتھ کیا کیا فیصلے کیے گئے، جن کا پاکستانی قوم کو احساس تک نہیں ہونے دیا گیا۔
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز میں کیا کیا بارودی سرنگیں بچھ رہی ہیں اور اس جمہوری ملک میں ۹۶ فی صد آبادی کو کچھ معلوم ہی نہیں کہ آنے والی نسلوں کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے؟ اس مقدمے میں تمام فریقوں یا کرداروں نے خودبخود یہ فرض کرلیا ہے کہ ’’چرچ پرحملہ آور، غلط نصابِ تعلیم کی پیداوار پاکستانی مسلم طلبہ تھے اور نصابِ تعلیم عدم برداشت پر مبنی ہے‘‘ (مگر اس مفروضے کا ایک بھی تائیدی ثبوت فیصلے میں درج نہیں)۔ چونکہ اس ’اَزخود نوٹس‘ کے تمام متاثرین غیرمسلم افراد تھے، اس لیے نہ تو مسلمانوں میں سےکسی کو بطور فریق سنا گیا، نہ کسی سطح کے تعلیمی نصاب کی جانچ پرکھ کی گئی اور نہ کسی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سے رابطہ کیا گیا۔
معزز چیف جسٹس صاحب نے فیصلہ تحریر کرتے وقت ان تمام حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے، جو عدلیہ کے لیے پوری دُنیا میں تسلیم شدہ ہیں۔ اسی فیصلے میں یہ حکم بھی موجود ہے کہ ’’ایک خاص تربیت یافتہ پولیس فورس تشکیل دی جائے، جو اقلیتی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے‘‘۔ معزز عدالت نے اس مختصر سے حکم کے مضمرات پر شاید غور نہیں کیا۔ کل کو نجی اسکولوں کے مالکان ’دہشت گردی‘ کے نام پر سپریم کورٹ میں چلے گئے تو ان کے لیے ایک نئی پولیس فورس کیوں نہ تشکیل دی جائے؟ فی الاصل عدلیہ کا کام ملکی قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوتا ہے نہ کہ انتظامی احکام جاری کرنا۔
ذرا اندازہ کیجیے کہ کتنی خاموشی اور تسلسل سے تبدیلیوں کی ایک رو چلتے چلتے مسلمانوں کی نسلوں کو لپیٹ میں لے آئی کہ جنھیں سماعت کے دوران میں سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ دہشت گرد، عالمی غنڈوں کے پروردہ ہیں۔ ان کا عامۃ الناس اور اسلام سے کیا تعلق؟ چرچ پر حملے کوجواز بنا کر ایک این جی او کی درخواست اور ازخودنوٹس پر سماعت میں، یہ سارا فیصلہ مفروضوں پر مبنی ہے۔
کیا چرچ پر حملے کے ملزمان کہیں پکڑے گئے؟ اگر ہاں تو کیا ان پر کوئی ایسی جرح ہوئی کہ جس میں انھوں نے اپنے اس فعلِ بدکو تعلیمی نظام کی پیداوار قرار دے کر کوئی اعتراف کیا ہو؟
کیا کسی نے نصاب کا جائزہ لے کر اس کے توجہ طلب پہلو اُجاگر کیے؟
ظاہر ہے یہ سب کچھ نہیںہوا۔ فیصلے میں معزز عدالت کے سامنے ایک اقلیتی عبادت گاہ پر حملے کے مرتکبین کی گرفتاری مسئلہ تھا، لیکن معزز جج صاحب نے نادیدہ اور نامعلوم مجرموں کو ’’اوّلاً خود بخود مسلمان فرض کرلیا‘‘۔ پھر یہ بھی فرض کیا کہ ’’ملکی نظام تعلیم ان مسلمانوں کی تربیت کاذمہ دار ہے‘‘۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ ’’نصابِ تعلیم تبدیل کیا جائے‘‘۔
اس اعلیٰ عدالتی قصّے میں کوئی ایک لطیفہ سرزد ہواتو اس کا ذکر کیا جائے، یہاں تو ایک سے بڑھ کر ایک والا معاملہ ہے۔یونی ورسٹیاں دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خودمختار ادارے ہیں۔ حکومتیں ان سے تحقیق کی درخواست تو کرسکتی ہیں، انھیں کوئی حکم نہیں دے سکتیں۔ حکم دینے کے لیے متعلقہ پارلیمان سے یونی ورسٹی کے ایکٹ میں ترمیم لازم ہے۔
اس زیرنظر فیصلے کے بعد حکومت پنجاب نے ۲۰۱۶ء میں لاہور کے تین مقامی کالجوں کے تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی سفارشات مرتب کرنے کے لیے قائم کی۔ ایک صاحب انتظامی عہدے دار ہیں اور تین میں سے صرف ایک پی ایچ ڈی ہیں۔یہ اصحاب علمی دُنیا میں کتنے معروف ہیں، اس سے بحث نہیں ہے۔ تاہم، عقل و دانش سے ماورا اس کمیٹی کے قیام کے فیصلے پر حیرت ضرور ہے کہ اب کالجوں کے ایم اے پاس حضرات اور انتظامی افسران، صفِ اوّل کی یونی ورسٹیوں کے پی ایچ ڈی پروفیسروں کے لیے ہدایت نامے مرتب کیا کریں گے۔ یہ یونی ورسٹیوں میں ’معیار کی بلندی‘ کے ثناخوانوں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔
اس سات سالہ عرصہ کی تفصیلات تو سامنے نہیں آسکیں، آخرکار مارچ ۲۰۲۱ء میں کمیشن نے عمل درآمد کی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے سامنے رکھی۔ کمیشن نے سفارش کی کہ اُردو، انگریزی، مطالعہ پاکستان اور ان جیسے دیگر مضامین میں سے حمد، نعت، نبی کریمؐ کا ذکر، خلفائے راشدینؓ اور تاریخ اسلام کے مشاہیر کا تذکرہ نکالا جائے کہ یہ آرٹیکل ۲۲ کے منافی ہے۔ کچھ دیگر مسیحی ماہرین تعلیم نے بھی اس کی تائید کی کہ مطالعہ پاکستان، سائنس اور اُردو اور انگریزی جیسے مشترک مضامین میں بھی اسلام موجود ہے جو آئین کے آرٹیکل ۲۲ کی خلاف ورزی ہے کہ جس کے تحت کسی شخص کو اس کے مذہب سے ہٹ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
معترضین کے سرفہرست اعتراضات ملاحظہ ہوں:’’طالب علم سے مشقی کام کرنے کو یوں کہا گیا ہے کہ وہ سوچ کر بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کون کون سی نعمتیں دی ہیں؟‘‘ اور یہ کہ 'اللہ تعالیٰ ہمارا مالک ہے، اس جملے کو درست تلفظ اور روانی سے پڑھیں‘‘۔ اسی طرح یہ کہ ’’اساتذہ بچوں سے نعت سنیں‘‘۔ ’’چوتھی جماعت کی انگریزی کی کتاب میں چاروں خلفائے راشدین کے بارے میں مضمون بھی قابلِ اعتراض ہے‘‘۔
ان جملوں میں لفظ ’اللہ‘ کا استعمال چند مسیحی افراد اور ان کے ’مسلمان وکلا‘ کو ناگوار ہے۔ واضح رہے کہ لفظ ’اللہ‘ بائبل کے عہدنامہ عتیق میں ’ایلوہ‘(Eloah) کہلاتا ہے، جو صدیوں کے زمانی اور نطقی تغیرات کے باعث عربی میں ’اللہ‘ ہے۔ ہمارے یہ چند مسیحی معززین اور ان کے مسلمان وکلا آتش پرستوں کے ہاں برتا جانے والا لفظ ’خدا‘ تو لینے کو تیار ہیں،کلمہ طیبہ سے لے کر سارے اسلامی ذخیرے کا مرکزی لفظ ’اللہ‘ سامنے آتے ہی ان کی رواداری اور وسعت قلبی کا جذبہ دھڑام سے نیچے گرجاتا ہے۔ گویا اب رواداری اور وسعت قلبی کا مظاہرہ اور الفاظ کا چنائو مسیحی آبادی کی خواہش پر صرف مسلمانوں کی طرف سے ہوا کرے گا۔ چیئرمین اقلیتی کمیشن شعیب سڈل صاحب کا فرمان ہے:’’اس مذہبی مواد کو نصاب سے نکالنا ہو گا‘‘۔
چونکہ ایک طے شدہ معاملے کو سپریم کورٹ نے بطورِ سماعت یہ مسئلہ ایوانِ عدل میں رکھا ہے، اس لیے انھیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے متفقہ آئین کے آرٹیکل ۳۱ کا انکار کس طرح کیا جائے گا جس کے تحت ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر مسلمانوں کے لیے تعلیمات اسلامی کا اہتمام کرے۔ مسیحی اور دیگر اقلیتی آبادی کے اطمینان کے لیے تو مسلمان ماہرین تعلیم کچھ نہ کچھ کر لیں گے، لیکن تعلیمی امور میں شعیب سڈل صاحب کی اس رائے کو کون مسلمان اہمیت دے گا جن کا تعلیمی اُمور سے رتی برابر تعلق نہیں ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کا موجودہ یکساں متفقہ نصاب بنیادی طور پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں کے درجنوں ماہرین تعلیم کی پالیسیوں اور انتظامی ذمہ داروں کا نتیجہ ہے، جس میں دیگر بہت سے سیاست دانوں اور ماہرین کی محنت بھی شامل ہے۔ عملی میدان میں جب کبھی اس نصاب کے حُسن و قبح سامنے آئے تو ماہرین تعلیم اسے بہتر بنا لیں گے۔ یہ کام ماہرین تعلیم اور کارپردازانِ سیاست کا ہے، جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے والے پولیس افسر کا نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسی متفقہ نصابِ تعلیم کے تحت پرائمری جماعتوں تک اقلیتی آبادی کی کتب تیار ہو چکی ہیں، جو پورے ملک میں چار فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ تمام اقلیتی آبادی ملک بھر میں منتشر اور پھیلی ہوئی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر شہروں اور قصبوں میں ہیں۔ مثال کے طور پر راولپنڈی کے سیکڑوں ہزاروں اسکولوں میں سے بمشکل تمام درجن بھر اسکولوں میں ایک دو غیرمسلم بچے ملیں گے۔ یہی حال ملک بھر کے اضلاع کا ہے۔ جہاں اپنی آبادی کے تناسب سے چند اسکولوں ہی میں اِکا دکا بچے ملتے ہیں۔ اسی لیے ماہرین تعلیم نے یہ نصاب ۹۶ فی صد مسلم آبادی کے لیے تیار کیا ہے۔ ان اِکا دکا غیرمسلم بچوں کے لیے بھی نصاب کا ہرحصہ پڑھنا لازم نہیں ہے، مثلاً مشقی کام میں جہاں استاد بچے سے نعت سنتا ہے تو وہیں یہ ہدایت موجود ہے کہ غیرمسلم بچے اس سے مستثنیٰ ہیں۔تاہم، صوبہ سندھ کے چند اضلاع میں ہم وطن ہندو طالب علموں کی تعداد مقابلتاً ذرا مختلف ہے۔ لیکن ان کے مذہبی اطمینان کا طریقہ اسی نصاب میں موجود ہے۔اقلیتی آبادی کی معتدل اور غالب اکثریت کو ان جملوں پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کے اس متفقہ مذہبی مواد کو نصاب سے نکلوانے کے درپے وہ چند لوگ ہیں، جو نہ تو مسیحی اور نہ مسلمانوں کے نمایندے ہیں۔ مسیحی اور دیگر اقلیتی آبادیوں کے بچے ہم سب کے بچے ہیں۔
اگر کوئی بچہ مسیحی ہے، تو اسے مسیحی تعلیمات دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور ریاست یہ ذمہ داری تمام اقلیتوں کی نصابی کتب تیار کرکے پوری کرچکی ہے۔ معمولی لفظی اختلاف کو لے کر اقلیتی آبادی کے یہ چند لوگ اور مخصوص این جی اوز سے ان کے چند مسلمان ہم نوا ، اگر سپریم کورٹ کے توسط سے چاروں صوبوں کے ماہرین تعلیم اور سیاست دانوں کے متفقہ نصاب سے اسلامی تعلیمات نکلوانے میں کامیاب ہوگئے، تو خدشہ ہے کہ آیندہ کسی وقت ۹۶فی صد مسلم آبادی اس پورے نظام کو لپیٹ کر رکھ دے گی اور اس طرح بے جا طورپر، معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی کا خرمن جل کر راکھ ہوجائے گا اور اس المیے کی ذمہ داری آج مسند انصاف پر بیٹھے جج حضرات پر ہوگی۔
یہ تلخ جملہ لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ دورانِ سماعت ۳۱مارچ ۲۰۲۱ء کو سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد صاحب سے منسوب یہ تبصرہ ذرائع ابلاغ پر مسلسل دُہرایا جاتا رہا: ’’۱۹۶۰ء کا نصاب نکال کر پڑھائیں، اس میں بہترین مذہبی ہم آہنگی تھی ‘‘۔
راقم نے یہی نصاب پڑھا تھا جو تقسیم سے پہلے متحدہ ہندستان میں فی الحقیقت اس وقت کے ہندو مسلمان دونوں کے لیے تھا۔ اس نصاب میں ہم طلبہ رام چندر، سیتا، لچھمن اور راون کی اساطیری داستانیں پڑھتے تھے۔ دیوالی، ہولی، دسہرہ اور کرسمس تہوار پوری طرح سے اس نصاب میں موجود تھے۔ کیا یہ اساطیری داستانیں مسلمان اپنے بچوں کو پڑھانے پر رضامند ہو جائیں گے؟
سچی بات تو یہ ہے کہ محترم چیف جسٹس سے منسوب یہ جملہ پڑھ سن کر یقین نہیں آیا کہ اقلیتی کمیشن کے مسلمان چیئرمین کے لیے نصاب میں لفظ ’اللہ‘ تک ناگوار ہو اور مسلمان بچوں کو جناب چیف جسٹس کے حکم پررام چندر، سیتا اور لچھمن کی وہ داستانیں پڑھائی جائیں، جن پر ملک کی ہندو آبادی کا بھی اتفاق نہیں ہے۔ ذرا سندھ کی ہندو آبادی میں سروے کرائیں۔ سو ہندوئوں میں آپ کو دس ہندو کہلوانے والے ملیں گے باقی خود کو دلت، بھیل، کوہلی اور دیگر شیڈولڈ کاسٹ کہلوانے پر مصر ہیں۔
سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں اسمبلیوں کے معزز ارکان اور دانش وروں سے دردمندانہ گزارش ہے کہ براہِ کرم ان بارودی سرنگوں پر نظر رکھا کریں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مضمرات پر ماہرین تعلیم غور کریں۔ یہ دینی و غیر دینی سیاست کا موضوع نہیں ہے۔ اس فیصلے کے مضمرات کے تدارک کا بندوبست کیا جائے۔ ورنہ وہ دن دُور نہیں جب طلبہ کتابوں میں خلافت ِ راشدہ کو ظلمات کے دور ہی کا ایک عہد پڑھیں گے۔ اور ۱۹۶۰ء کے نصابِ تعلیم کو امرت دھارا سمجھیں گے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ ہمیں واقعی رواداری اور عدم برداشت کی طرف لے جائے گا؟ ہمیں معاشرتی طبقات میں بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کی ضرورت ہے، مگر یہ فیصلہ اور پھر تعلیمی سفارشات طبقاتی خلیج کو اور گہرا کریں گی۔
آخر میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں گزارش کی جائے کہ اعلیٰ عدلیہ سے ضلعی عدالتوں تک کے تمام افسران دستورِ اسلامی جمہوری پاکستان کے بعد اگر کسی کتاب کو حرزِ جاں بنائیں تو وہ پاکستان کے سابق مسیحی جسٹس جناب اے آر کارنیلیس کی کتابLaw and Judiciary in Pakistan ہے۔ہرجج کو یہ کتاب اپنے سرہانے رکھنا چاہیے۔ اگر اس مسیحی جج ہی سے لی گئی رواداری اور وسعت قلبی کا ہلکا سا اثر بھی عدلیہ میں دیکھا گیا تو ملک کی کوئی اقلیت نہ مسلمانوں سے شاکی ہوگی، نہ نصابِ تعلیم پر نظر ڈالنے کی اس طرح ضرورت پیش آئے گی اور نہ عدالتوں کو بے سوچے سمجھے نامعلوم دہشت گردوں کو اسلامی نظامِ تعلیم کی پیداوار سمجھنا پڑے گا۔محترم چیف جسٹس صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی سپریم کورٹ کے ایک ہندو جج جناب رانا بھگوان داس، اسلامیات میں ایم اے تھے۔ وہ ہندو کے طور پر ہی دنیا سے رخصت ہوئے، لیکن اسلام انھوں نے وسعت ِ قلبی سے پڑھا، کوئی جبر اُن پر نہیں تھا۔