جب ہم اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم وہ گروہِ انسانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو اس دنیا میں انبیا کرام ؑ کا جانشین ہے۔ جس کے ایک ایک فرد نے اپنی منفرد حیثیت میں اور پورے گروہ نے بحیثیت مجموعی اپنے آپ کو کلیتاً اپنے رب کے حوالے کر دیا ہے اور اپنی پوری زندگی اور اس کے سارے معاملات کو غیرمشروط اور برضا و رغبت خدا کی اطاعت و بندگی میں دے دیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہیں، کہ ہم نے ہر طرف سے منہ موڑ کر پوری یکسوئی اور طمانیت ِ قلب کے ساتھ فقط اللہ رب العالمین کو اپنا الٰہ و رب، خالق و مالک، حاکم اور واضع قانون مان لیا ہے۔ سب کو چھوڑ کر فقط محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما اور قائد و پیشوا بنا لیا ہے۔ سب نظام ہاے زندگی اور نظریہ ہاے حیات کو ترک کر کے صرف اسلام اور قرآن کو بطور نظامِ زندگی اور دستورِحیات کے قبول کرلیا ہے۔ ہر دوسری بازپُرس کا خیال دل سے نکال کر محض اپنے الٰہ واحد کی بازپُرس کو قابلِ لحاظ تسلیم کرلیا ہے۔
مختصر یہ کہ ہرطریق زندگی کو ترک کر کے، ہراقتدار کو ٹھکرا کر، ہرحاکمیت و عقیدت سے بغاوت کرکے اور ہرخوف اور لالچ سے بے نیاز ہوکر صرف اللہ واحد کی غلامی و وفاداری اور اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں ڈال لیا ہے۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ باہم میل ملاپ، لین دین، نکاح و طلاق اور نماز روزے سے لے کر تنظیم و سیاست، قانون وعدالت، صلح و جنگ اور ملکی نظم و نسق تک ہمارا ہرانفرادی، اجتماعی ، تمدنی اور سیاسی معاملہ، سرتاپا خدا کی حاکمیت کے تحت، اس کے قانون کے مطابق، اس کے رسولؐ کی رہنمائی میں اور محض آخرت کی بازپُرس کا لحاظ کرتے ہوئے انجام پائے۔
لیکن، ذرا انصاف سے اور کھلے دل سے موجودہ مسلمان سوسائٹی پر تنقیدی نگاہ ڈالیے اور شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک ان کی کروڑوں کی آبادیاں دیکھتے چلے جایئے اور بتایئے، کیا ان میں کہیں کوئی ایسا گروہ موجود ہے جو ان اسلامی اساسات پر پورا اُترتا ہو؟ ہاں، منفرد طور پر کچھ اللہ کے بندے ضرور ایسے مل جائیں گے، جنھوں نے اسلام کے اُس حصےکو، جو انسان کی انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، پورے شدومد کے ساتھ اختیار کر رکھا ہوگا اور اعتقاداً بھی اللہ کے سوا کسی اور کو الٰہ و رب، محمدؐ کے سوا کسی اور کو رہنما، کتاب و سنت کے سوا کسی اور شے کو قانون اور آخرت کی بازپُرس کے سوا کسی اور بازپُرس کو قابلِ اعتنا نہ سمجھتے ہوں گے۔
لیکن، ان بزرگوں سمیت جہاں تک مسلمانوں کی اجتماعی زندگی، ان کی تنظیموں اور جماعتی پروگراموں کا تعلق ہے، ان کو آپ اسی طرح سرتاپا غیراسلامی پائیں گے اور اسلام کے بجاے مغربی نظریہ ہاے حیات کے پابند دیکھیں گے، جس طرح اللہ کے باغیوں اور اس سے پھرے ہوئے انسانوں کی اجتماعی زندگیوں، تنظیموں اور جماعتی پروگراموں کو۔ ان سب کے نزدیک کتاب و سنت نہیں بلکہ جمہوری اصول، اسوئہ فرنگ اور مغربی قوانین و آئین ہی حجت و بُرہان اور سند و سلطان کا حکم رکھتے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس اَمر کی بین دلیل ہے کہ اگرچہ مسلمان اور ان کے رہنما زبان سے اس کا اقرار کریں یا نہ کریں، لیکن عملاً ان کے نزدیک اب اسلام محض ایک شخصی معاملہ (Personal Affair) اور اعتقادی چیز ہے، جسے ان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی سے کوئی سروکار نہیں۔
لیکن، جن لوگوں نے قرآنِ کریم ، اسوئہ رسولؐ اور سیرتِ صحابہؓ پر سرسری نظر بھی ہدایت حاصل کرنے کے لیے ڈالی ہے، وہ جانتے ہیں کہ اسلام موجودہ زمانے کے عام رائج الوقت مفہوم میں کوئی مذہب یا Religion نہیں ہے، جو محض عبادات، ریاضات، اور کچھ انفرادی دین دارانہ اعمال و افعال پر مشتمل ہو، بلکہ وہ ایک مستقل نظریۂ حیات ، ایک مکمل نظامِ زندگی اور ایک بین الاقوامی دستورالعمل ہے، جو افراد کی انفرادی سیرتوں سے لے کر پوری دنیا کے اجتماعی نظم تک، ہرچیز کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، اور اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ تمام کافرانہ نظام ہاے زندگی کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ کر پوری انسانی سوسائٹی کی تعمیر سراسر میری اساس پر اور میرے نظریہ و مسلک کے مطابق کرو۔ وہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی پوری زندگی کا ایک مفصل اور متعین پروگرام پیش کر کے ایمان والوں سے مطالبہ کرتاہے کہ اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً [البقرہ ۲:۲۰۸] ، اسے پورے کا پورا قبول کرو۔ اس کے وضع اور مرتب کرنے والے، یعنی اللہ رب العالمین نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صاف صاف بتا دیا کہ اُسے یہ دین د ے کر دنیا میں اس غرض سے بھیجا جا رہا ہے کہ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ [التوبہ ۹:۳۳]، تاکہ وہ اسے تمام ادیانِ باطلہ، سب نظریہ ہاے حیات اور کُل نظام ہاے زندگی پر غالب کردے اور اس وقت تک وہ اور اس کے ماننے والے دم نہ لیں، جب تک کہ اس روے زمین پر اللہ کی حاکمیت و اطاعت کے علاوہ کوئی اور حاکمیت و اطاعت بھی باقی ہے، خواہ ان کا ایسا کرنا منکرین حق کو اپنی نفس پرستی، انسان دشمنی اور حماقت و ہٹ دھرمی کی بنا پر کتنا ہی ناگوار محسوس ہو۔
اسلام کے اساسی عقائد اور اس کا پوری انسانی زندگی پر حاوی ہونا معلوم ہوجانے کے بعد مسلمانوں کی حیثیت،ان کے فرائض اور ان کی زندگی کا مقصد آپ سے آپ متعین ہوجاتا ہے، اور یہ حقیقت بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ: ’’مسلمان‘ نام ہے اس بین الاقوامی اصلاحی و انقلابی پارٹی کا جو اسلام کے نظریہ و مسلک کے مطابق انسانی سوسائٹی کی تعمیر کے لیے اس کارزارِ دنیا میں قدم رکھے، اور اس کام کی تکمیل کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے، جو ان کے آقا و مالک نے اپنے رسولؐ کے ذمے اور اس کی وساطت سے خود ان کے ذمے کیا ہے‘‘۔ لیکن، اس کام کے دین کی غایت الغایات اور اس کا اساسی کام ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس معاملے کو ہمارے اتنے سے اجتہاد پر بھی نہیں چھوڑا بلکہ صاف صاف فرما دیا کہ:
لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ [المائدہ ۵:۶۸]،
شَرَعَ لَکُمَ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ [الشوریٰ ۴۲:۱۳]،
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط [اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴]، وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط[البقرہ ۲:۱۴۳]
یعنی تمھاری یہ ساری رسمی دین داریاں اُس وقت تک ہیچ ہیں، جب تک کہ تم کتابِ الٰہی کو عملاً قائم نہ کرو، اور اس کے منشا کو پورا کرنے کے لیے سربکف نہ ہوجائو۔ تمھارے لیے وہی دین اور نظامِ زندگی مقرر کیا گیا ہے، جو نوح علیہ السلام کو دیا گیا تھا (اور اے محمدؐ! جس کی تیری طرف وحی کی گئی ہے) اور جو ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ (سب انبیا ؑ) کو دیا گیا تھا (اور اس کی غرض یہ ہے کہ) تم اس دین کو دنیا میں برپا کرو۔ تم میں ایک گروہ تو لازماً ایسا موجود رہنا چاہیے، جو لوگوں کو نیکی (اطاعتِ ربّ) کی طرف بلائے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکتا رہے۔ مسلمانو! ہم نے تمھیں دنیا کے لیے عدل و انصاف اور راست روی و حق پرستی کا نمونہ (اُمت ِ وسط) بنایا ہے، تاکہ تم دوسرے لوگوں پر دین حق کی حجت تمام کرنے کا ذریعہ بنو جس طرح ہمارا رسولؐ تم پر اتمامِ حجت کا ذریعہ بنا۔
ظاہر ہے کہ دین کو دنیا میں برپا کرنا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا اور بندگانِ خدا پر زندگی کے ہرشعبے میں اس کے دین کی حجت تمام کرنا منفرد اشخاص کے بس کا کام نہیں۔ ان میں سے ہرکام اجتماعی نظم اور منظم جدوجہد چاہتا ہے، جیساکہ قرآن کا منشا اور نبیؐ کا اسوہ ہے ، جس کے بقا و استحکام کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے جانیں لڑائیں اور جسے زندہ رکھنے کی خاطر خلفاے راشدین اور حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے قربانیاں کیں۔ اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ مسلمان اُمت ِ وسط اور خیرِ اُمت کے فرائض انجام دےسکیں، اور خدا کے [راستے سے] بھٹکے ہوئے بندوں اور گروہوں کے سامنے اس کے دین کی وہ زندہ شہادت بن سکیں کہ ان کے قول اور عمل اور برتائو ہرچیز کو دیکھ کر لوگ زندگی کے ہرشعبے میں صحیح راہ پاسکیں۔ دین کو بالفعل برپا کیے بغیر شہادت علی الناس اور اَمربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا تو درکنار، اسلام کے احکام و ضوابط کو اپنی انفرادی زندگی میں بھی پوری طرح کارفرما کرنا ممکن نہیں۔
لہٰذا، مسلمانوں کا یہ دینی فرض ہے کہ دنیا میں ایک ایسی منظم سوسائٹی بنائیں، جو اقامت ِ دین کا یہ فرض انجام دیتی رہے، اور جس کی حدود کے اندر اللہ کی حاکمیت کے سوا کسی دوسرے اقتدارِ اعلیٰ کو، اس کے قانون کے سوا کسی دوسرے قانون کو ، اس کے رسولؐ کے سوا کسی دوسرے کی رہنمائی کو، اور آخرت کی بازپُرس کے سوا کسی دوسرے کی بازپُرس کو کوئی دخل نہ ہو۔ یہ کام ایمان کا عین تقاضا ہے، مسلمان کی زندگی کا مقصد یہی ہے اور انبیا علیہم السلام کی بعثت سے مقصود یہی تھا۔ اسی کام کے لیے جماعت اسلامی وجود میں آئی ہے اور اسی کو بالفعل انجام دینا ہمارا نصب العین ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں، جب کہ اسلامی اصولوں کے بالکل برعکس ایک ہمہ گیر نظامِ زندگی ہم پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے، اور اس نے ہمیں اپنے اندر اس طرح جکڑ لیا ہے کہ روز کی روٹی بھی، جب تک اس کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں ملنی محال ہے۔ اس کام کو کیسے کیا جائے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ٹھیک اسی طرح، جس طرح اس کام کے اصل علَم برداروں، یعنی انبیا علیہم السلام نے اسے آدم علیہ السلام سے لے کر محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک کیا۔ یہ طریقہ ایک ہی ہے اور بلااستثنا ہر زمانے، ہر ملک اور ہرقوم میں اس کام کے لیےاسی کو اختیار کیا جاتا رہا ہے۔
آپ غور فرمائیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اجتماعی کاموں کے لیے خواہ وہ حق ہوں یا باطل، اللہ تعالیٰ نے شاید ایک ہی طریقہ خلق کیا ہے اور وہ یہ کہ انسان پہلے زیربحث نظریہ و مسلک کو سامنے رکھ کر اس کو سمجھنے، جانچنے اور پرکھنے پر اپنی ساری ذہنی اور عقلی قوتیں صرف کردے۔ پھر اگر دل و دماغ اس کے حق ہونے کی گواہی دیں اور عملاً اس پر چلنے اور نظامِ حیات تعمیر کرنے سے زندگی کی ہرکل ٹھیک بیٹھتی چلی جاتی ہو، تو مردانہ وار اس پر ایمان لے آئے اور اپنی پوری زندگی کی باگ ڈور اس نظریہ و مسلک کے ہاتھ میں دے دے۔ جو کچھ وہ کرنے کا تقاضا اور حکم کرے، اسے پورے شدومد، خلوص و دیانت اور خوش دلی سے کرنے پر کمربستہ ہوجائے، اور جس سے وہ منع کرے یا جو کچھ اس پر ایمان کے منافی ہو، اسے بلاچون و چرا چھوڑتا چلا جائے۔
پھر جب اس نظریہ و مسلک کے ایک سے زیادہ لوگ فراہم ہوجائیں، تو وہ اس کے علَم برداروں کی حیثیت سے اس عزم کے ساتھ اُٹھیں کہ پوری سوسائٹی میں اس نظریۂ حیات کو کارفرما کرکے دم لیں گے۔ اس راہ کا اوّلین قدم یہ ہے کہ اپنے اصولوں اور نظریات کو بالکل صاف اور منزہ صورت میں دنیا کے سامنے رکھ دیا جائے اور بنی نوع انسان کو اپنی کسی غرض کے لیے نہیں، بلکہ خالصتاً ان کی فلاح و بہبود اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے، ان اصولوں کی طرف دعوت دی جائےاور جو لوگ ان کے قائل ہوکر داعیانہ عزم کے ساتھ انھیں قبول کرتے جائیں، ان کو ملا کر ایک منظم گروہ بناتے چلے جائیں۔
ظاہر ہے کہ اِس گروہ میں، جب کہ یہ کسی رنگ و نسل یا قوم و وطن کی بنا پر نہیں بلکہ صرف انسانی فلاح کے عالم گیر اصولوں پر منظم ہو رہا ہے، ہررنگ و نسل، ہر قوم و وطن اور ہرفن و قابلیت کے لوگ آئیں گے اور جوں جوں اس کا دائرہ اور حلقۂ اثر وسیع ہوتا جائے گا اِس کی قوت، اِس کی قابلیت، اس کے ذرائع و وسائل اور اس کے سازوسامان ہرچیز میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، اور یہ اس منظم سوسائٹی کو جنم دے گا، جس کی اُٹھان اوّل سے آخر تک ہرانفرادی اور اجتماعی معاملے میں اسلامی اساس پر ہوئی ہوگی اور جو فطرتاً اُس صاحب ِ اختیار اجتماعی نظم پر منتج ہوگی، جو اَمربالمعروف اور نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس کے فرائض کو کماحقہٗ انجام دے سکے گا۔
اس دوران میں منفرد اشخاص کو بھی اور پورے گروہ کو بھی بہت سے مراحل (stages) میں سے گزرنا پڑے گا اور کئی رکاوٹیں پیش آئیں گی، جن سے ہرمرحلے کے حالات کے مطابق نمٹنا ہوگا۔
(ماہ نامہ ترجمان القرآن ، مئی ۱۹۴۶ء)