سیّد محمدحسنین(۲۳مارچ۱۹۱۷ء-۱۴جنوری۲۰۰۵ء)اکتوبر۱۹۴۱ء سے جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوئے اور تادمِ مرگ یہ وابستگی قائم رہی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ پختہ تر ہوتی گئی۔ اس دوران انھوں نے مختلف جماعتی ذمہ داریاں اداکیں۔مشرقی ہند کے قیم،شمالی بہارکے امیرحلقہ اور کُل ہندجماعت مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔مزیدبرآںدرس گاہِ اسلامی دربھنگاکے ناظم بھی رہے۔جماعت اسلامی سے وابستگی کے سبب کئی بارپابندسلاسل بھی ہوئے۔بقول اے یو آصف: ’’ان کی پوری زندگی جماعت کے کازکے لیے وقف تھی‘‘۔ (دعوت دہلی، ۷مارچ۲۰۰۵ء)
ان کا آبائی تعلق صوبہ بہار(کورونی،بھپوڑا،دربھنگا)سے تھا۔ابتدائی تعلیم سوری ہائی اسکول مدھوبنی سے حاصل کی۔ حصولِ علم کا شوق انھیں کشاںکشاں دہلی لے آیا۔وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گھروالوں کو بتائے بغیر پڑھنے کے لیے آئے تھے۔شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی توجہ سے محمدحسنین کو اگست۱۹۳۴ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ثانوی سوم میں داخلہ مل گیا۔مئی۱۹۴۰ء میں جامعہ سے بی اے کیا۔ زمانۂ طالب علمی میںوہ ہمیشہ ہرکلاس میںاوّل رہے۔مزیدبرآںجامعہ کالج کے طلبہ کی تنظیم انجمن اتحادکے ناظم اورانجمن اتحاد کے ترجمان قلمی رسالے کے اڈیٹربھی رہے۔ علامہ اقبال پررسالے کاخاص نمبرجوہراقبال کے نام سے شائع ہوا۔ جامعہ میںاُن کاقیام بورڈنگ ہاؤس (اقبال ہال)میں تھا۔ وہ اس ہاؤس کے سینئرمانیٹرتھے۔روایت ہے کہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒکسی موقعے پرجامعہ ملیہ گئے توسیّد محمد حسنین کے کمرے میں بھی تشریف لے گئے۔
ڈاکٹر ذاکرحسین سے طالب علمی کے زمانے میں حسنین صاحب کا جو تعلق قائم ہوا، اسے اوّل الذکر نے ٹوٹنے نہیں دیا، عمر بھر قائم رکھااورآفرین ہے مؤخرالذکر پرکہ انھوں نے (باوجود گورنر صوبہ بہار اور صدر جمہوریہ ہند ہو جانے کے) حسنین صاحب کویاد رکھا، بھلایانہیں۔ ذاکرصاحب فوت ہوئے تو حسنین صاحب نے حسب ذیل مضمون میں ذاکرصاحب سے اپنے تعلق کی ابتدا اور ان تعلقات میںنشیب وفراز کی تفصیل قلم بند کی۔یہ مضمون پٹنہ کے خدا بخش لائبریری جرنل میں شائع ہوا تھا۔
اس مضمون سے جہاں خود حسنین صاحب کے مزاج اوران کی شخصیت کااندازہ ہوتا ہے،خصوصاً ان کی دعوتی سرگرمیوںاوردعوتِ دین کے طریق کار کا پتا چلتاہے،وہیں ڈاکٹرذاکرحسین کی دل نواز مگر مصلحت پسند شخصیت کی جھلکیاں بھی سامنے آتی ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کی دعوت کو سمجھتے تھے اور کانگریسی ہونے کے باوجود جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے جیسا کہ زیرِ نظر مضمون سے اندازہ ہوتا ہے۔(مرتب)
[اے یوآصف راوی ہیں کہ ڈاکٹرذاکرحسین نے ان کے شوقِ تعلیم اورجستجو کو دیکھ کر داخلے کی منظوری تو دے دی لیکن وطن واپس جا کروالد سے اجازت لے کرآنے کاکہا۔ ان کے حکم کے مطابق وہ واپس آگئے اورپھراجازت حاصل کی۔]
ہاں، یہ بتا دوں کہ جب میں ان کے کمرے میں داخل ہواتوایک نہایت حسین ووجیہ پُروقار شخصیت سے سامناہواتھا۔اس وقت ان کی عمر۳۵-۴۰ کے قریب رہی ہوگی۔ سرخ،سفید چہرہ اور اس پر بھر پورسیاہ داڑھی،بقول حفیظ جالندھری: ع جلال بھی ہے جمال بھی ہے،یہ شخصیت کاکمال بھی ہے۔
انھوں نے ہنستے ہوئے گرمجوشی سے میرا استقبال کیااورمصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ وہ ایک نہایت سفیدفرش پربیٹھے تھے۔ فرش کے اوپرناریل کی چٹائی تھی۔ سامنے فرشی میز تھی جس پرہرچیزاپنی جگہ انتہائی سلیقے سے سجی ہوئی رکھی تھی۔ ان کی بائیں طرف دیوار پرشیشے کاایک فریم آویزاں تھا جس پریہ شعرخوش خطی کا بہترین نمونہ پیش کررہاتھا ؎
آسایش دوگیتی تفسیر ایں دوحرف است
بادوستاں تلطّف ، بادشمناں مدارا
جب انھوں نے میرے فارم پر دستخط کردیے توان سے الوداعی مصافحہ کرکے کمرے سے باہر آیااوربہت خوش اورمسرورتھا۔
چند دنوں کے بعد جامعہ کے احاطے میں ان سے آمناسامناہوا۔انھوں نے مجھے روک کر فرمایا:’’تعلیم ختم ہوجانے کے بعددوگھنٹے صدرمدرس کے دفترمیں آپ کام کیاکریں گے۔ اس کے عوض آپ کو۸روپے ماہانہ ملا کریں گے جس سے آپ اپناجامعہ کا خرچ پورا کرنے کی کوشش کریں‘‘۔اس پرمیں نے ان کا شکریہ اداکیا۔
میں نے اپناداخلہ جامعہ میں غیرمقیم طالب علم(Day Scholar) کی حیثیت سے کرایا، کیوںکہ اس وقت جامعہ میں دارالاقامہ میں قیام وطعام کے مصارف۱۶ روپے ماہانہ تھے۔ اس وقت مَیں جامعہ ملیہ قرول باغ دہلی سے اُتر کی جانب سبزی منڈی کے ریلوے اسٹیشن کے احاطے میں ایک مسجد میں رہتاتھاجس کی دوری جامعہ قرول باغ سے دو (۲) میل سے کم نہ تھی۔ ایک روزپھر جامعہ میں میرا اُن سے آمناسامنا ہوااوریہ پوچھاکہ ’’آپ کہاں رہتے ہیں؟‘‘ میں نے بتایا کہ سبزی منڈی،ریلوے اسٹیشن کی مسجدمیں۔یہ سن کرخاموش ہوگئے۔ چنددنوں کے بعدپھر اسی طرح سرِراہ ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے فرمایا:’’قرول باغ میںجامعہ سے متصل ہی ان کے عزیز، احمد خاں رہتے ہیں،جوطبیہ کالج میں پڑھتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھاہے،ان کے کمرے میں گنجایش ہے،آپ ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں‘‘۔ میں نے ان کا شکریہ اداکیااورچنددنوں میںسبزی منڈی سے قرول باغ منتقل ہوگیا۔ احمدخاںصاحب نے اپنے کمرے میںجگہ دی لیکن کرایہ قبول نہ کیا۔
ایک سال تک ان کے ساتھ رہا۔ نہایت مخلص اورشریف آدمی ثابت ہوئے۔۸ روپے جامعہ سے جو بطور معاوضہ کے ملتے تھے ،اس میں سوادوروپے میں نے جامعہ کی فیس تعلیم اداکی اورچارروپے میں جامعہ کے مطبخ سے دونمبرکھاناجاری کرالیاجس میں صرف دال اور چپاتیاں ملاکرتی تھیں۔ باقی پونے دوروپے ناشتہ اوراوپرکے خرچ کے لیے کافی ہوجایاکرتے تھے۔ کچھ دنوں بعد پھر ایک روز جامعہ میں سرِ راہ ملاقات ہوئی تواستاد علیہ الرحمہ نے مجھے روک کر فرمایا: ’’ڈاکٹرسلیم الزماں صاحب کے چھوٹے بچے کو شام کوایک گھنٹہ ان کی کوٹھی پر جاکر پڑھا دیاکریں۔دس روپے ماہانہ معاوضے کے طورپروہ دیاکریں گے‘‘۔ اس طرح جامعہ میں بہ سہولت تعلیم حاصل کرنے کا موقع میرے لیے پیداکرادیااورجب تک جامعہ میںقیام رہا، ان کی نوازشوں اورکرم فرمائیوں کاسلسلہ جاری رہا۔
ان ساری نوازشوں کا تذکرہ اس وقت نامناسب ہے لیکن ایک واقعے کا تذکرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک روز جامعہ لائبریری کے برآمدے میں اسٹینڈ پر جہاںروزنامہ اخبارلگے رہتے تھے، لوگ کھڑے ہو کر اخبارپڑھ رہے تھے،میں بھی اخبار دیکھ رہا تھا۔ بائیں طرف کے راستے سے استاد علیہ الرحمہ گزررہے تھے۔میں نے اپنی آنکھیں اٹھائیں توان سے آنکھیں چار ہوئیں اوربغیران کو سلام کیے میں دوبارہ اخبارپڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ استادعلیہ الرحمہ چلتے چلتے رُک گئے اور پھرجب میں نے نظراُٹھا کر ان کو دیکھا توانھوں نے جھک کرمجھ کو فرشی سلام کیااورآگے بڑھ گئے۔ میں نے جواب تو دیالیکن سلام نہ کرنے کی کوتاہی پربڑی ندامت محسوس کی___ یہ تھا ان کا ایک اندازِ تربیت!
۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی تشکیل عمل میں آئی اورمیں اس سے وابستہ ہوگیا۔ جماعت اسلامی کا مرکزلاہورسے پٹھان کوٹ منتقل ہوگیا۔ ۱۹۴۴ء میں آل انڈیاجماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ میں رکن بنایاگیا۔ مجلس شوریٰ میں شرکت کے لیے پٹھان کوٹ آتے جاتے میں دہلی میں رک کر احباب سے ملاقات اوراپنے اساتذۂ کرام کی خدمت میں حاضری دیاکرتاتھا۔ استاد علیہ الرحمہ جب علی گڑھ کے وائس چانسلرہوئے تب بھی دہلی آتے جاتے،ان کی خدمت میں حاضرہوتاتھا۔ جماعت کا لٹریچر ان کی خدمت میںپیش کرتااورجماعت کی سرگرمیوں سے ان کوواقف کراتاتھا۔ وہ ہمیشہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تاآنکہ وہ۱۹۵۷ء میںبہارکے گورنرہوکے پٹنہ تشریف لائے۔ ان کاگورنری کاعہدہ قبول کرنامجھ کو پسند نہ آیا۔ میرے خیال میںیہ منصب ان کے مقام سے بہت فروترتھا۔ نہ میں اُن سے ملنے گیااورنہ ان کی خدمت میںخیرمقدم کاکوئی خط ارسال کیا۔ تقریباًچھے مہینے کے بعد انھوں نے پٹنہ کے کسی صاحب سے میرے متعلق تذکرہ کیاکہ’’یہاں بہار میں میرے ایک شاگردہیںحسنین۔وہ اب تک ملاقات کے لیے نہیں آئے،پتانہیں کیابات ہے۔کبھی کبھی وہ میراایمان تازہ کردیاکرتے تھے‘‘۔ ان صاحب نے پٹنہ میں محبی شبیراحمد (جو ان دنوں پٹنہ میں ایک سوڈافیکٹری کے منیجرتھے)سے میرے بارے میں استادعلیہ الرحمہ کی گفتگو دہرائی۔ ایمان تازہ کرنے کی بات یہ ہے کہ جب میں ان کی خدمت میں حاضری دیاکرتاتھاتوجماعت کی کوئی نہ کوئی کتاب ان کی خدمت میں پیش کیاکرتاتھا۔ محبی بشیر احمدصاحب نے مجھ کو پٹنہ سے ایک کارڈ لکھاکہ تم اب تک اپنے استادسے کیوں نہیں مل سکے اور استاد علیہ الرحمہ کی گفتگونقل کی۔ اُن کا خط ملنے پر میں نے استادؒکی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا،بعد القاب وآداب میں نے عرض کیاتھا:
’’گورنر کی حیثیت سے آپ کو پٹنہ تشریف لائے ہوئے کافی دن ہو گئے،لیکن افسوس ہے کہ میں نہ تو آپ کی خدمت میں حاضر ہو سکا اور نہ خیر مقدم کا کوئی خط ہی ارسال کیا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس الجھن میں ہوں کہ آپ کے لیے گورنری ،قلندری سے کیسے افضل ہو گئی؟اور آپ نے اسے کیسے پسند فرما لیا؟ اخبارات میں یہ پڑھ کر خوشی ہو ئی کہ آپ اس ریاست کو نمونے کی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جس کے کار پردازوں کا طرزِعمل ظلم و جور کا ہو،اس کو نمونے کی ریاست بنانے میں آپ کو بہت دشواری پیش آئے گی۔جماعتِ اسلامی ہند سے توآپ بہت حد تک واقف ہیں ۔جماعت اسلامی کے سلسلے میں حکومتِ بہار کا جو رویہ ہے ،اس کے متعلق دعوت، اخبار میں میرا ایک بیان شائع ہوا ہے۔اس کا تراشا ارسالِ خدمت ہے‘‘۔(ان دنوں حکومتِ بہار نے جماعت اسلامی پرsubversive activities [تخریبی سرگرمیوں]کا الزام لگایا تھا اور ملازمین کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ لوگ جماعت کی سرگرمیوں سے دور رہیں ورنہ Conduct Rule دفعہ ۳۳ کے تحت ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی)۔ دوسری بات میں نے یہ عرض کی تھی کہ ’’اب مجھ جیسا معمولی آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہونابھی چاہے تو کیسے حاضر ہو سکتا ہے؟اور جماعت کا کچھ تازہ لٹریچر بھی خط کے ساتھ رجسٹرڈ ڈاک سے استاد علیہ الر حمہ کی خدمت میں ارسال کر دیا لیکن پندرہ دنوں تک ان کی طرف سے نہ کوئی جوب آیا اور نہ خط کی رسید ہی ملی۔اس پر میں نے ڈاک سے دوسرا عریضہ ان کی خدمت میں ارسال کیااور اس میں عرض کیا کہ دو ہفتوں سے زائد ہوگئے آپ کی خدمت میں ایک عریضہ اور اور چند کتابیں ارسال کی تھیں۔ تعجب ہے کہ اس کے جواب میں نہ تو آپ کا کوئی گرامی نا مہ ملا اور نہ خط کی رسید ہی ملی۔اندیشہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں ورنہ آپ سے ایسی توقع نہیں ہے کہ آپ میرے عریضے کا جواب نہ دیں گے۔میرے اس عریضے کے جواب میں رانچی سے ان کا گرامی نامہ ملا۔اس خط کا مضمون یہ ہے:
راج بھون -رانچی کیمپ ، ۱۰ستمبر ۱۹۵۷ء
عزیزم حسنین صاحب،السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
آپ کے دونوں محبت نامے ملے۔آپ کا بھیجا ہوا لٹریچر بھی ملا ۔معافی چاہتا ہوں کہ پہلے خط کے جواب میں اتنی دیر ہوئی کہ آپ کو یاد دہانی کرنی پڑی۔شاید آپ کو غلط فہمی ہو، اس لیے وجہ لکھے دیتا ہوں ۔میں ذاتی خطوط کے جواب لکھنے میں بہت کاہل ہوں۔ پھر اگر کوئی دوست یا عزیز اپنے خط میں کوئی ایسا سوال کر دیتا ہے،جو میری شخصی داخلی زندگی سے متعلق ہو تو مجھے اس کا جواب لکھنا اور دشوار ہو جاتا ہے۔آپ نے اپنے پہلے خط میں الجھن یہ بتائی کہ قلندری سے گورنری کیسے اور کب سے افضل ہو گئی اور میں نے گورنری کو قلندری پر کیسے ترجیح دی؟
پہلے تو عزیز ِمن !میں قلندر کب تھا ؟لیکن سوال کو اپنی ذات سے الگ کر کے ایک اصولی سوال سمجھوں تو اس کا بہت اچھا جواب حضرت مخدوم سیدّعلی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ المعروف داتا گنج بخش ؒنے اپنی کتاب کشف المحجوبمیں ایک جگہ دیا ہے___ اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھتا :
[وہ فرماتے ہیں ]:استاد ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ سے ہم نے سنا،فرمایا:فقیری اور مال داری کے سلسلے میں لوگوں نے بات کہی ہے اور ا س کو اختیار کیاہے، میں اس کو اختیار کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ میرے لیے پسند فرمائے اور مجھ کو اپنی نگاہ میں رکھے۔ اگر مال داری کی حالت میں رہوں تو اللہ سے غافل نہ ہونے پاؤں اور اگر غربت کی حالت میں رہوں تو حریص اور لالچی نہ بنوں۔ لہٰذا مال داری نعمت ہے اوراس حال میں اللہ سے غفلت آفت ہے۔ غریبی اور فقیری بھی نعمت ہے اوراس حال میں حرص آفت ہے۔
دوسری الجھن کا جواب سہل ہے۔ میں ابھی کوئی تین چارہفتہ یہاں ہوں۔ وسط اکتوبرسے ان شاء اللہ پٹنہ میںرہوں گا۔ آپ ایک کارڈ میرے سیکرٹری کو لکھ دیں ،وہ مجھ سے پوچھ کرآپ کے لیے وقت مقرر کردیں گے۔ ضرور تشریف لائیے۔ مفصل گفتگو کو بہت جی چاہتاہے۔خداکرے کہ آپ خیریت سے ہوں اورخوش بھی۔خیرطلب:ذاکرحسین
میں نے استادؒ کی ہدایت کے مطابق ان کے سیکرٹری کوخط لکھااوران سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے وقت مقررکرکے مجھ کو مطلع کیا۔ مقررہ وقت پر میں راج بھون پہنچا۔ ان کے ملٹری سیکرٹری نے میرااستقبال کیااوران کے کمرے تک میری رہ نمائی کی۔ میں کمرے کے اندر داخل ہوگیاتوانھوںنے دروازہ بند کردیا۔ استادؒ کو میں نے سلام کیااورمصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ انھوں نے کھڑے ہوکرمعانقے کے لیے کھینچ لیااور اسی حال میں ہنستے ہوئے فرمایا: ’’آپ لوگ حکومت پر بہت تنقید کرتے ہیں‘‘۔ پھر اپنے قریب کی کرسی پربیٹھنے کی ہدایت کی۔
میں نے جواب میں عرض کیا:’’جب ہم مجبور ہوتے ہیںتبھی حکومت پرتنقید کرتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد دوسراسوال انھوں نے یہ کیا:’’کیا ابھی مولاناابواللیث صاحب امیرجماعت اسلامی ہندنے کہیں یہ کہا ہے کہ’’جماعت اسلامی پاکستان نہیں چاہتی تھی؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کہاہوگا۔ جماعت اسلامی تو پوری دنیا میں اللہ کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے،لیکن کچھ لوگوں نے ہندستان کے دوٹکڑوں پرہی قناعت کرلی ہے‘‘۔
انھوں نے فرمایاکہ’’حسنین صاحب! آپ لوگ حکومت الٰہیہ قائم کرناچاہتے ہیں لیکن عام طورسے ہندستان کے مسلمان حکومتِ الٰہیہ نہیں چاہتے ہیں‘‘۔ میں نے ان سے کہا: یہ کم حوصلگی اور پست ہمتی ہے ورنہ مسلمان کی حیثیت سے:’’ہر ملک، ملکِ ماست کہ ملکِ خداماست‘‘۔ ہرملک میں حکومت الٰہیہ یا اللہ کا دین قائم ہوناچاہیے‘‘۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا:’’آپ کی حکومت نے جماعت اسلامی کو subversive [تخریبی]کیسے قراردے دیا، ہم لوگ توپُرامن طریقے پرلوگوں کو اللہ کے راستے پربلاتے ہیں ،کوئی توڑ پھوڑ، قتل وغارت گری کا طریقہ نہیں اپناتے ہیں‘‘۔ انھوں نے فرمایا:’’subversive ہونے کے لیے اتنا کافی ہوسکتاہے کہ حکومت کے دستور کوتسلیم نہ کیا جائے اور غیر پارلیمانی طریقے سے حکومت کوتبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ دیکھیے! کمیونسٹوں نے ملک کے دستور کو مان کرکیرالا میں الیکشن میں حصہ لیااورالیکشن میں کامیاب ہونے پر وہاں حکومت بنائی۔ آپ لوگ بھی دستورکو مان کرپارلیمانی طریقے سے حکومت کو بدل سکتے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ اگرsubversive سے یہ مطلب ہے توہم اقراری مجرم ہیں۔ یہ فرمائیے کہ کیا ہم آپ کی ریاست میں اللہ کا نام لے سکتے ہیں؟ انھوں نے فرمایاکہ اس سے آپ کو کون روک سکتاہے۔ میں نے عرض کیاکہ جب ہم لاالٰہ الا اللہ کی تشریح کریں گے تو پھر subversive آجائے گا۔اس پر آپ نے فرمایاکہ ایک چیز پھل ہے اور ایک چیزدرخت ہے۔ پھل سے اگر لوگوں کواختلاف ہے، قبل از وقت پھل کا تذکرہ مت کیجیے۔ درخت لگانے کی کوشش کیجیے۔ جب لوگ آپ کے میٹھے پھل کو چکھیں گے تومخالفت ترک کردیں گے۔ میں نے بہ ادب عرض کیا:درخت لگانے کا عمل چپکے سے اور اکیلے تو نہیں ہوگا،اس کی خوبیوںکو بتا کرکچھ لوگوں کو تواپنے ساتھ لینا ہی ہوگااوران کے تعاون ہی سے یہ کام انجام پاسکتاہے۔ میں نے جماعت اسلامی کی دعوت اورطریقۂ کار کا مختصراً تعارف کرایا۔ آپ نے توجہ اورصبرسے میری باتوں کو سنا اور فرمایا: ’’ٹھیک ہے جس بات کوآدمی حق سمجھے،اس کے لیے جدوجہدکرے‘‘۔ا س کے بعد میں نے عرض کیاکہ’’آپ کی حکومت میری ہمہ وقت نگرانی کیوں کرتی ہے؟ سی آئی ڈی کے دوآدمی سایے کی طرح میرے ساتھ رہتے ہیں؟‘‘ جواب میں انھوں نے فرمایا:’’یہ آپ کے لیے ہی مخصوص نہیں ہوگا، تمام سیاسی ورکروں کی نگرانی کی جاتی ہے،آپ کی بھی کی جاتی ہوگی۔ اس میں گھبرانے اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیںہے۔ وہ اپنا کام کرتے ہیں،آپ اپنا کام کیجیے۔راہِ حق میں دشواریاں توپیش آتی ہی ہیں‘‘۔
جب میں استادؒ سے ملاقات کے لیے پٹنہ پہنچاتوبرادرم سیدوسیم اللہ صاحب کے یہاں قیام کیا تھا،جو ان دنوںسیکرٹیریٹ میںملازم تھے اور کسی اونچے منصب پر فائز تھے۔ جماعت اسلامی سے ان کا تعلق’ہمدردی‘کاتھالیکن اس تعلق کی بنا پران کے خلاف کارروائی چل رہی تھی۔ استاد محترم سے پہلے جو گورنرصاحب تھے،انھوں نے کوئی آرڈیننس جاری کیاتھاکہ جو سرکاری ملازم کسی سیاسی سرگرمیوں میںملوث پایاجائے گا،اس کا compulsory retirement [جبری سبک دوشی] ہوسکتی ہے۔ اسی آرڈی ننس کے تحت وسیم اللہ صاحب کے خلاف کارروائی ہورہی تھی۔ حالاںکہ اس آرڈی ننس کی مدت ختم ہوچکی تھی اورگورنرصاحب بھی تشریف لے جا چکے تھے۔میں نے وسیم اللہ صاحب سے اس آرڈی ننس کا نام اورنمبروغیرہ لے کر اسے استادؒ کی خدمت میں پیش کیا۔ انھوںنے چشمہ بدل کربغوراس کو پڑھا اور پوچھاکہ’’اس طرح کے کتنے آدمیوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے‘‘؟ میں نے عرض کیا: ’’بہار میں تقریباً ۲۰اشخاص کو جوجماعت اسلامی کے رکن تھے اور سرکاری ملازم بھی تھے،پرائمری سکول کے ٹیچرسے لے کرگزیٹیڈآفیسر تک کوجماعت اسلامی کی رکنیت کے جرم میں برطرف کیا جاچکاہے۔ ان لوگوں نے ملازمت سے برطرفی کو گوارا کیا اور جماعت سے تعلق کوبرقرار رکھا۔ لیکن وسیم اللہ صاحب جماعت کے رکن نہیں ہیں۔ ان پر جماعت کی رکنیت کاغلط الزام لگا کران کو پریشان کیاجارہاہے‘‘۔استادؒ نے اس پرزے کورکھ لیا۔
ہماری یہ ملاقات بہت زیادہ طویل ہوگئی تھی اوران کے پاس یاددہانی کی گھنٹی بار بار بجتی رہی۔ جب ہماری گفتگوختم ہوئی تووہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایاکہ مقررہ وقت سے زیادہ ہی وقت صرف ہوچکاہے اورلوگ انتظار میں بیٹھے ہوں گے۔باقی ان شاء اللہ آیندہ۔اس طرح ان سے مصافحہ کرکے رخصت ہوااوروہ دروازے تک پہنچاگئے۔
کچھ دنوں کے بعد جب وسیم اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی توانھوںنے بتایاکہ ان کے خلاف کارروائی ختم ہوچکی ہے اوران کی ترقی کے ساتھ ان کی تنخواہ میں بھی اضافہ کیاگیاہے اورمیرے ساتھ جوسی آئی ڈی کی نگرانی تھی،وہ بھی ختم ہوگئی۔ دربھنگا میں سی آئی ڈی کے ایک افسرنے آکراطلاع دی کہ ہمارے پاس آرڈرآگیاہے کہ اب آپ کی نگرانی نہ کی جائے۔
اس کے کچھ ہی دنوںکے بعدگوہاٹی میں استاد کے پرائیویٹ سیکرٹری اورملٹری سیکرٹری کے خطوط ملے۔ جس میں درج تھاکہ استادؒ۲۵؍اپریل کو گوہاٹی پہنچ رہے ہیں۔ اس شام کوساڑھے پانچ بجے سرکٹ ہاؤس میں مجھ سے مل کروہ خوش ہوں گے۔ اس کے بعد دوسرے دن سی آئی ڈی کے ایک افسر میرے پاس آئے اور بتایاکہ پریسیڈنٹ ۲۵؍اپریل کوگوہاٹی پہنچ رہے ہیں۔ ان کے پروگرام میں آپ سے ملاقات بھی شامل ہے۔ مہربانی کرکے سی آئی ڈی آفس آیئے،آپ کو ایک پاس دیاجائے گا۔اس کولے کر ہی آپ ان سے مل سکتے ہیں۔چنانچہ میںسی آئی ڈی دفترپہنچ گیا۔سی آئی ڈی افسرنے مجھ سے پوچھاکہ صدرجمہوریہ ہند کس سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتے ہیں اوران کاآپ سے کیاتعلق ہے؟ میں نے ان کو بتایاکہ وہ میرے استاد رہ چکے ہیں۔میں نے جامعہ ملیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۰ء تک میں وہاں رہا۔ وہ ہمارے استاد بھی رہے اوروائس چانسلر بھی رہے۔ اسی تعلق سے اُن سے ملناہے۔چنانچہ مجھ کو ایک پاس دیاگیا،اس کولے کرمیں ان سے ملا۔ میری ملاقات سے پہلے گوہاٹی کے ایک بڑے میدان میںان کی تقریرتھی۔ پہلے میں جلسے میں شریک ہوا اوراُن کی تقریر سنی۔اس کے بعد مقررہ وقت سے چندمنٹ پہلے سرکٹ ہاؤس پہنچ گیا۔
مجھے ویٹنگ روم میں بٹھایاگیا۔ ان کے ملٹری سیکرٹری میرے پاس آئے اوربتایاکہ سب سے پہلے آپ کی ملاقات ہے اور آپ کی ملاقات کے لیے۵منٹ کاوقت دیا گیا ہے۔جب آپ کی طلبی ہوگی تومیںآپ کو کمرئہ ملاقات میں پہنچا دوں گااورکمرہ بند ہوجائے گا۔جب آپ کا وقت ختم ہوجائے تو میںدروازہ کھول کرکھڑاہوجاؤں گاتو مہربانی کرکے آپ اٹھ جائیے گا،ورنہ جب تک آپ بیٹھے رہیں گے،وہ بھی آپ سے باتیںکرتے رہیں گے اورآپ کے بعدآنے والوں کو موقع نہیں مل سکے گا۔ اس لیے کہ اس کے بعد نماز کا وقت ہوجائے گااوروہ نماز پڑھیں گے۔میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے ،مجھے کوئی عرض داشت نہیں پیش کرنی ہے اور نہ کوئی لمبی چوڑی گفتگو ہی کرنی ہے۔ ہم ایک دوسرے کی خیروعافیت دریافت کریں گے اوروقت ختم ہونے پر اُٹھ آئیں گے۔ ہماری یہ گفتگوملٹری سیکرٹری سے ہورہی تھی کہ استادؒ بی کے نہروکے ساتھ،جو اس وقت آسام کے گورنر تھے،سامنے آئے اور اُن سے جداہوکرملاقات کے کمرے میں گئے اور گھنٹی بجائی۔ مقررہ وقت سے پہلے ہی مجھے طلب کرلیا۔ میں اندر داخل ہوااورسلام عرض کیا۔وہ اٹھے،بڑھ کر گلے لگایا۔ خیریت دریافت کی اورپوچھاکہ’’ آپ آسام کیسے آگئے؟‘‘میں نے عرض کیاکہ’’آپ تو جانتے ہیں کہ ہم لوگوں نے جماعت اسلامی ہند بنائی ہے اور کچھ لوگوں نے اپنی زندگیاں جماعتی سرگرمیوں کے لیے وقف کردی ہیں۔میںبھی اُن میں سے ایک ہوں۔۲۲سالوں تک بہار، اڑیسہ، بنگال میں جماعت اسلامی ہند کی دعوت پیش کرتا رہا۔اللہ کے فضل وکرم سے وہاں کچھ کارکن تیار ہوگئے تو اب جماعت نے مجھ کو آسام بھیجا ہے تاکہ یہاں بھی جماعت اسلامی کی دعوت پیش کروں۔ساتھ ہی ساتھ آسامی زبان میں اسلامی لٹریچر تیار کرانے کا کام میرے سپرد ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آسامی زبان میں اسلامی لٹریچرکی بڑی کمی ہے‘‘۔
انھوں نے فرمایا کہ ’’آپ نے بڑے استقلال سے کام کیا‘‘۔میں نے عرض کیاکہ محض اللہ کی توفیق اور آپ لوگوں کی تعلیم وتربیت ہے کہ اس کام کی سعادت حاصل ہوئی۔آپ نے فرمایاکہ ’’آسامی زبان میںاسلامی لٹریچر کے تیار کرنے کرانے کاکام بھی بہت اہم ہے‘‘۔ انھوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالااورایک سوروپے کا نوٹ نکال کرآسامی زبان میں اسلامی لٹریچر کے لیے دیا۔میں نے قبول کرنے میں تامّل کیاکہ آپ سفر کی حالت میں ہیں،فوری طور پر دیناکیا ضروری ہے۔انھوں نے میری جیب میںنوٹ ڈال دیا۔اس کے بعد فرمایاکہ:’’پچھلے دنوںآپ نے محسن انسانیت بھیجی تھی،سیرت پریہ کتاب مجھ کوبہت پسندآئی۔ سیرت پرمیں نے بہت ساری کتابیں پڑھی ہیں،حتیٰ کہ مولانا شبلی کی سیرت النبی ؐ بھی دیکھی ہے مگرمحسن انسانیت مجھ کو بہت پسند آئی۔
اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔میں نے سوچاکہ اس مختصر ملاقات میں زیادہ ترانھی کے ارشادات سنوں گا اور اپنی طرف سے کوئی بات نہیں پوچھوں گالیکن وہ خاموش ہوگئے تو میں نے عرض کی کہ آج جمعہ کا دن ہے،اگرگوہاٹی کی کسی مسجد میںجمعہ کی نماز بھی آپ کے پروگرام میںشامل ہوتی تو اچھاہوتا۔ یہاں کے مسلمانوں کو توقع تھی کہ مسلمان صدرجمہوریہ ہند یہاں کی کسی مسجد میں نماز اداکریں گے توقریب سے انھیں دیکھنے کاموقع ملے گا۔اس سلسلے میں گوہاٹی کے مسلمانوں کو مایوسی ہوگی۔
انھوں نے فرمایاکہ’’میرے دونوں گھٹنوں میں تکلیف رہتی ہے اور فرش پرنمازاداکرنے میں تکلیف زیادہ محسوس ہوتی ہے۔میں چوکی پربیٹھ کرپاؤں لٹکا کے نمازپڑھتا ہوں۔ کبھی کبھی عید، بقرعیدکے موقعے پردہلی کی عیدگاہ میں چلا جاتاہوںتو بڑی تکلیف کے ساتھ نماز اداکرپاتاہوں‘‘۔ میں نے عرض کیا:یہ عذرمعقول ہے لیکن لوگوںکو اس کی خبرنہ ہوگی۔
اس کے بعد میں نے عرض کیاکہ’’آپ کے جوبھی ہوم منسٹر ہوتے ہیں،جماعت اسلامی کے خلاف غلط الزامات لگایاکرتے ہیں اور ہم لوگ ان کی صفائی میں جو کچھ کہتے ہیں،ان کا وہ کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ ایک طرح کے الزامات بارباردہراتے رہتے ہیں‘‘۔
انھوں نے فرمایاکہ’’وہ اپنا کام کرتے ہیں۔ آپ اپناکام کیجیے۔ بات دراصل یہ ہے کہ آج کل سب لوگوں کواورسب جماعتوں کوخوش رکھنے کے لیے اورتوازن برقرار رکھنے کے لیے سیاسی لوگ ایسی بات کہتے ہیں اورایسی حرکتیں کرتے ہیں جو حقیقت اورصداقت کے خلاف ہوتی ہیں۔ پتا نہیںکہ خودچوہان جی کی(جو اس وقت ہوم منسٹرتھے) جماعت کے بارے میں اپنی رائے کیاہے۔ لیکن عام طورسے ایساہوتاہے کہ الیکشن میں کامیابی کی خاطر لوگ ایسا کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے الیکشن کا موجودہ طریقہ غلط ہے‘‘۔
اس موقعے پر میں نے عرض کیاکہ’’تب تو الیکشن میںجماعت اسلامی کا حصہ نہ لینا حق بجانب ہے‘‘۔ اس کاانھوں نے خاموش مسکراہٹ سے جواب دیا۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ بھارت میں فسادات کا سلسلہ آخرکب ختم ہوگا؟ میرے اس سوال پروہ افسردہ ہوگئے اور کچھ دیر سکوت کے بعد فرمایا:’’ہم لوگ مسلمان ہیں اور فسادات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، لہٰذا فسادات کوزیادہ محسوس کرتے ہیں،ورنہ حکومت کی کون سی کل سیدھی ہے؟ دیکھیے تلنگانہ میں کیا ہورہا ہے؟(اس وقت آندھراپردیش میں تلنگانہ کی پُرتشدد تحریک زوروں پرتھی)۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری لیڈرشپ بہت کمزورہے‘‘۔
یہ سن کرمیں حیرت میں مبتلا ہوگیاکہ اپنی ہی حکومت کے سلسلے میں صدرجمہوریہ کیا فرما رہے ہیں۔ بات یہاں تک پہنچی تھی کہ صدرکے ملٹری سیکرٹری دروازہ کھول کرنمودارہوئے اور میں ان کی ہدایت کے مطابق اُٹھ کھڑاہوا۔ استاد محترم بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں الوداعی سلام کرکے ہاتھ ملاکردروازے کی طرف بڑھا۔ وہ بھی میرے کاندھوں پرشفقت سے ہاتھ رکھے ہوئے دروازے تک یہ کہتے ہوئے آئے:’’اللہ آپ لوگوں کوکامیاب کرے،آپ لوگوں کی میرے دل میں بڑی قدرہے‘‘۔ اس آخری ملاقات کے بعد جب میں باہر نکلاتومیں بہت خوش اور مسرورتھاکہ انھوں نے میری سرگرمیوں کی تائید فرمائی اور دعادی۔ ان کی حوصلہ افزائی اوردعائیں میرے کانوں میں گونجتی رہیں اوراب تک گونج رہی ہیں،مگرافسوس کہ میری خوشی اورمسرت کے لمحات بہت عارضی ثابت ہوئے۔
ایک ہفتہ بعد۳ مئی ۱۹۶۹ء کو میرے ایک دوست نے آکرخبر دی کہ صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹرذاکرحسین انتقال کرگئے ہیں،اِنَّـالِلّٰہِ وَاِنَّـااِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔ یہ خبر سن کرمیں اس درجہ متاثر ہواکہ بستر پر جاکرلیٹ گیااوردیرتک روتارہا۔ جب کچھ سکون ملاتووہاں سے اپنے ایک عزیزکے یہاں چلا گیاجن کے پاس ریڈیو سیٹ تھا۔ بستر پرلیٹے لیٹے،اس وقت تک ریڈیو سنتارہاجب تک ان کی تجہیزوتکفین نہ ہوگئی۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اوراپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے___ آمین۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگی ان دوحرفوں کی تفسیرتھی:’’بادوستاں تلطّف، بادشمناں مدارا‘‘ یااقبالؒ کے اس مصرع کے مصداق تھے:’’مروت حسنِ عالم گیرہے مردانِ غازی کا‘‘___ یااللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق تھے:’’تم میں سے اچھا انسان وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھاہو۔ اور اللہ نے مجھ کو اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا‘‘۔ اورارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ اَ کْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْط(الحجرات ۴۹:۱۳)’’تم میں سب سے محترم ومکرم بندہ وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرکرزندگی گزارنے والا پرہیز گارہو‘‘۔
نوٹ: ڈاکٹر ذاکر حسین برعظیم کی سیاست ، دانش وَری اور تعلیم کے شعبوں میں ایک بڑا نام ہے۔ صدر جمہوریۂ ہند کے منصب پر فائز ہوکر وہ ترقی اور عروج کی انتہا کو پہنچ گئے۔ برعظیم میں کوئی شخص، خصوصاً ایک بھارتی مسلمان، اس سے بڑے عہدے کا تصور نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر ذاکرحسین کا سیاسی گراف تو بہت اُونچا چلا گیا مگر تعلیم (جو اُن کا اصل میدان تھا) یا دانش وَری کے بارے میں ان کی آدرشیں کیا ہوئیں؟
اُن کے قریبی رفیق اور دانش ور پروفیسر محمد مجیب نے ان کی سوانح عمری میں ان کی شخصی خوبیوں کے ساتھ ان کی مصلحت اندیشی کا ذکر بھی کیا ہے۔ علی گڑھ کے پروفیسر اور نامور ادبی شخصیت اسلوب احمد انصاری نے ذاکرصاحب کی وائس چانسلری کے زمانے میں انھیں قریب سے دیکھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’حکمت عملی اور مصلحت اندیشی ان کی زندگی کے دو بنیادی تشکیلی اصول تھے۔ اس کا نتیجہ ہمیشہ مفاہمت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور کسی طرح کے تعہّد (commitment) کی نفی کرتا ہے۔ مصلحت اندیشی، حق شناسی اور حق گوئی کے راستے میں، ان کے لیے عمربھر زنجیرپا بنی رہی۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے انھوں نے بڑے قابلِ قدر کام کیے [مگر] بعض اوقات صاحبانِ جاہ و منصب کے زیراثر اور ان کے دبائو میں آکر نامنصفانہ طورپر اور جانب داری کے ساتھ ایسے لوگوں کو آگے بڑھایا جو اس اعزازاور ترقی کے کسی طرح مستحق نہیں تھے۔ ذاکرصاحب کے ذہین اور فطین اور اعلیٰ فن کار ہونے میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں لیکن ان کا کوئی کارنامہ نہیں ہے‘‘۔
ذاکرصاحب کی اس مثال سے یہ واضح ہے کہ انسان کی ذہانت و فطانت، اگر مصلحت کوشی کو راہ نما بنالے تو حاصلِ حیات کیا ہوتا ہے۔ (مرتب)