اگست ۲۰۱۷ء کے شروع ہی میں یہ خبر پاکستان بھر میں تشویش کے ساتھ سنی گئی کہ: ’’عالمی بنک جس نے ۱۹۶۰ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائوں کے پانی کی تقسیم کا مشہور سندھ طاس معاہدہ کروایا تھا، اس نے بھارت کو دریاے جہلم کے معاون دریا کشن گنگا، جسے پاکستان کے اندر دریاے نیلم کہا جاتاہے، پر ۸۶۴ ملین ڈالر کی لاگت سے ’کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ‘ اور دریاے چناب پر ریٹل پاور پلانٹ کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے‘‘۔
کشن گنگا ڈیم مقبوضہ کشمیر میں ۱۳۳میٹربلند اور ۸ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے والے رینٹل پاور پلانٹ، کشمیر ہی کے موضوع ریٹل، ضلع ڈوڈا میں تعمیر کیا جائے گا۔ بھارت اس سے ۸۵۰میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ اس پر پاکستانی اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے عالمی بنک نے کہا ہے کہ: ’’۱۹۶۰ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں پر بجلی کی پیداوارکے لیے منصوبے تعمیر کرسکتا ہے‘‘۔ بھارت نے یہ منصوبہ ۲۰۰۷ء میں شروع کیا تھا اور اُسے توقع تھی کہ ۲۰۱۶ء تک اس کی تعمیر مکمل ہوجائے گی، لیکن ابتدائی کام کے دوران ہی ۲۰۱۱ء میں ہالینڈ میں قائم Permanent Arbitration Court نے پاکستان کے اعتراضات پر اس کی تعمیر رکوا دی تھی۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ کشن گنگا اور ریٹل ڈیموں کی تعمیر کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والا وہ پانی یقینا شدید متاثر ہوگا۔ اسی طرح زیریں حصے میں پاکستان کے اندر تعمیر ہونے والے نیلم جہلم پراجیکٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کس طرح پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہا ہے اور مستقبل مزید گمبھیر ہوتا جا رہا ہے:
سترھویں صدی کے مشہور برطانوی مصنّف تھامس فِلر نے پانی کی اہمیت کے بارے میں کہا تھا: We never know the worth of water, till the well is dry (ہم اُس وقت تک پانی کی قدروقیمت سے آگاہ نہیں ہوتے جب تک کہ کنواں خشک نہ ہوجائے)۔
جنوبی ایشیا، دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کا مسکن ہے، جہاں زرعی معیشت ہی گزراوقات کا بڑا ذریعہ ہے۔ فصلات، مویشی و ماہی پروری، جنگلات اور باغات سب کچھ پانی ہی سے ممکن ہے۔ خطّے کا ایک بڑا حصہ انتہائی گرم اور خشک ہے، جہاں بارش کی سالانہ اوسط بمشکل ۲۵۰ملی میٹر ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر فی کس سالانہ پانی کی فراہمی بمشکل ایک ہزار سے ۱۲۰۰ کیوبک میٹر ہے، جب کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں ۱۵۰۰ سے ۲۵۰۰ کیوبک میٹر پانی فی کس دستیاب ہے، بلکہ ناروے اور کینیڈا میں تو سالانہ فی کس ۷۰ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔
پاکستان کی آبادی اور معیشت کا انحصار مکمل طور پر دریاے سندھ اور اس کے معاون دریائوں میں بہتے پانی پر ہے، جن کا منبع کوہ ہمالیہ اور دیگر پہاڑی چوٹیوں پر موجود گلیشیرز ہیں۔ تاہم، ان دریائوں کا راستہ بھارت سے ہوکر آتا ہے۔ اگر ہم تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو ہزاروں سال سے لوگ یا تو بارش کے پانی پر انحصار کرتے آئے ہیں، یا پھر دریائوں کے کنارے ہی بستیاں بسائی گئی ہیں۔ وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب (ہڑپہ، موہنجوڈارو وغیرہ) دریاے سندھ کے کنارے ہی پھل پھول سکی تھی۔ پھر انیسویں صدی میں آب پاشی کے جدید نظام کی تشکیل (ذخائر کی تعمیر، نہروں، کھالوں کی کھدائی وغیرہ) کے ساتھ بڑے پیمانے پر ریگستانوں کو قابلِ کاشت بنایا گیا۔ اس طرح بڑے پیمانے پر صحرا سرسبز و شاداب کھیتوں میں تبدیل ہوگئے۔
سندھ طاس کا آب پاشی نظام، ۳۲۰۰ کلومیٹر لمبے دریاے سندھ اور اس کے معاون پانچ مشرقی دریائوں (جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج) پر مشتمل ہے۔ مجموعی طور پر ان دریائوں کی لمبائی ۴۵۰۰ کلومیٹر ہے، جب کہ پانی کی مقدار یا بہائو ۱۸۰ بلین کیوبک میٹر سالانہ ہے۔ یہ دریا صدیوں سے برصغیر میں آب پاشی کے لیے استعمال ہوتے آئے ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل ہندستان کی مختلف ریاستوں یا صوبوں (پنجاب، بہاول پور، سندھ اور بیکانیر) کے درمیان بھی پانی کی تقسیم اور انتظام پر اختلافات اور تنازعات اُٹھتے رہے ہیں۔ تقسیم ہند اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ان چار ریاستوں کے درمیان اُبھرنے والے تنازعات دو ملکوں کے تنازعات میں بدل گئے ہیں۔ مغربی پنجاب، پاکستان کے حصے میں آیا، چوںکہ اس کی زمینیں زرخیز تھیں، اس لیے برطانوی حکومت نے آب پاشی کا وسیع نظام مغربی پنجاب میں تعمیر کیا۔ تقسیم کے وقت ریڈکلف جنھیں تقسیم کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، نے نہ صرف زمین پر تقسیم کی لکیر کھینچی، بلکہ دریائوں کے پانی اور اس کے منبعے کو بھی تقسیم کردیا۔ لہٰذا، دونوں نئی مملکتوں پر ایک ناخوش گوار ذمہ داری پہلے دن سے ہی عائد ہوگئی کہ وہ پانی کی تقسیم بارے ایک منصفانہ اور قابلِ عمل معاہدہ اور طریق کار طے کریں۔
گزرتے وقت کے ساتھ بھارت نے مشرقی پنجاب میں ہماچل پردیش، ہریانہ اور راجستھان میں آب پاشی کا ایک نظام تعمیر کرنا شروع کیا۔ دوسری طرف پاکستان کے چونکہ تمام ہی دریائوں کا منبع بھارت کے قبضے میں تھا، لہٰذا پاکستان کو پانی کی مستقل بندش، خشک سالی یا قحط کا خدشہ لگا رہا۔ مئی ۱۹۴۸ء میں اثاثہ جات کی تقسیم پر ہونے والے معاہدات میں بھارت نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ پاکستان کا پانی بند یا کم نہیں کرے گا۔ جون ۱۹۴۹ء میں پاکستان نے بھارت سے تحریری طور پر مطالبہ کیا کہ پانی کے معاملات میں عالمی عدالت ِ انصاف کو مداخلت اور تصفیہ کا حق دیا جائے، لیکن بھارت نے کسی بھی تیسری قوت کی مداخلت سے پہلے باہمی مذاکرات یا منصفین کے تقرر سے اختلافات کم کرنے کی تجویز دی۔ ۱۹۵۱ء میں عالمی بنک کے صدر نے پاک بھارت وزراے اعظم کو واشنگٹن مدعو کیا، جہاں اصولی طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کوئی بھی ملک پانی کی فراہمی کے موجود نظام میں خلل نہیں ڈالے گا۔ لیکن تحریری یقین دہانیوں اور معاہدات کے باوجود پاک بھارت پانی کا تنازعہ دونوں ملکوں کے درمیان شدید سیاسی اختلافات، علاقائی کش مکش اور جنگ کے خطرات کا باعث بنتا جارہا ہے، خاص طور پر، جب کہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔
جدول نمبر۱ میں پاکستان میں بہہ کر آنے والے دریا، اُن کے منبع اور روٹ، یعنی جن علاقوںسے گزرکر وہ پاکستان میں داخل ہوتے دکھائے گئے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ تمام ہی دریائوں کے منبع ہمالیہ، کوہِ سلیمان اور ہندوکش کی بلند پہاڑی چوٹیوں پر واقع ہیں، جہاں سے مقبوضہ کشمیر، بھارت کے راستے بہتے ہوئے وہ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اِسی لیے کہا تھا کہ ہماری Life Line اسی کشمیر سے ہوکر آتی ہے:
دریا
منبع
لمبائی
(کلومیٹر)
سندھ
جھیل مانسرور،
تبت، چین
۳۲۰۰
پانی کے بہائو کے لحاظ سے دنیا کا ۲۱واں بڑا دریا ہے۔ یہ تبت سے جموں کشمیر، بھارت میں ۷۰۹ کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے گلگت بلتستان اور پھر پاکستان سے گزرتے ہوئے بحیرئہ عرب میں جاگرتا ہے۔ دریاے اَستور، دریاے بلرام، دریاے گلگت، دریاے کابل، دریاے تنوبل اور دریاے زنسکر سمیت کئی چھوٹے دریا مختلف مقامات پر دریاے سندھ کاحصہ بنتے ہیں۔
وُلّر جھیل، پیر پنجال، کشمیر
۷۷۴
وادیِ کشمیر کے جنوب مشرق سے نکل کر سری نگر اور پھر مظفرآباد کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے، جہاں دریاے نیلم اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ ۱۹۶۷ء میں ۵ء۹ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے والا منگلا ڈیم اِسی دریا پر تعمیر کیا گیا۔زیریں علاقوں میں رسول بیراج اور تریموں بیراج اس پر تعمیر ہیں۔
درہ باڑہ، کوہ ہمالیہ سے نکلنے والے دریا چندرا اور بھاگا
۹۶۰
ہمالیہ کی چوٹیوں سے جموں وکشمیر اور پھر سیالکوٹ کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ تریموں (ضلع جھنگ) کے مقام پر دریاے جہلم اور اوچ شریف (بہاول پور) کے مقام پر دریاے ستلج میں شامل ہوکر پنجند کے مقام پر دریاے سندھ میں جا شامل ہوتا ہے۔
راوی
۷۲۰
ہمالیہ کی چوٹیوں سے بہہ کر وادیِ کشمیر اور پھر بھارتی پنجاب کے جنوب مغرب سے بہتا ہوا لاہور کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ ۱۹۶۰ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت راوی کا پانی بھارت کے حصے میں آیا ہے۔
تبت، چین
۵۵۰
جنوبی کوہ ہندوکش ، کوہ ہمالیہ اور کوہ سلیمان کے سنگم سے نکلنے والا یہ دریا بھارتی پنجاب کی تاریخی گزرگاہ سے بہتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ تقسیم سے پہلے ریاست بہاول پور کا بیش تر حصہ اسی دریا سے سیراب ہوتا تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت دریاے ستلج کا پانی بھی بھارت کے حصے میں آیا ہے۔
۱- ملک کی تقسیم کے لیے زمین پر کھینچی گئی لکیر نے زمین اور آبادی کے ساتھ پاکستان کی شہ رگ، یعنی تمام دریائوں کو بھی کاٹ کر رکھ دیا۔ اس طرح اُن کے منبعے پاکستان کے کنٹرول میں نہ رہے۔ ایک طویل مذاکراتی عمل کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کی حکومتیں عالمی بنک کی شراکت سے ۱۹۶۰ءمیں سندھ طاس معاہدے کی صورت میں اس سنگین تنازعے سے عہدہ برآ ہوئیں۔ اس معاہدے کے نتیجے میں تین مغربی دریا: سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے، جب کہ تین مشرقی دریا: راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے لیے مختص ہوکر رہ گیا۔ سندھ طاس کے پانی کا ۷۵ فی صد پاکستان، جب کہ ۲۵ فی صد بھارت کے حصے میں آیا۔
۲- پاکستان کے لیے دوسرا بڑا چیلنج یہ تھا کہ اُس کے حصے میں مغربی دریا آئے، لیکن اس کی بیش تر زرعی زمینیں مشرق اور جنوب میں واقع تھیں۔ پاکستانی انجینیروں نے عالمی بنک اور دیگر ڈونر اداروں کی مدد سے یہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا کہ منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم کی صورت میں پانی ذخیرہ کرنے والے بڑے ڈیم تعمیر کیے اور سیکڑوں کلومیٹر لمبی رابطہ نہریں جو بالترتیب دریاے سندھ، جہلم اور چناب کا پانی مشر ق اور جنوبی علاقوں تک لے گئیں، تعمیر کی گئیں۔ وسیع علاقے آب پاشی کے ذریعے گل و گلزار بن گئے۔
۳- رابطہ نہروں اور دریائوں کے رُخ تبدیل کرنے کی وجہ سے پنجاب اور سندھ کے وسیع علاقے سیم تھور کا شکار ہوگئے۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں مکعب میٹر پانی رسائو (Seepage) کی وجہ سے زیرزمین چلا گیا۔ یوں زیرزمین پانی کی سطح بلند ہوئی، حتیٰ کہ بعض مقامات پر تو زیرزمین پانی بالکل سطح زمین تک آگیا اور کسی بھی طرح کی کاشت ممکن نہ رہی۔ سیم تھور اور کلّر کاعلاج لاکھوں ٹیوب ویل لگا کر کیا گیا، جس سے نہ صرف زیرزمین پانی اطمینان بخش حد تک نیچے چلا گیا، بلکہ زائد نمکیات بھی پانی میں گھل کر زیرزمین چلے گئے۔ ایک عذاب سے عہدہ برآ ہونے کے لیے یہ پاکستان کے زرعی اور آبی ماہرین کی بڑی کامیابی تھی۔
لہٰذا درج بالا شاندار کارکردگی کو دیکھ کر ہم پاکستان کے آبی وسائل کے گلاس کو یقینا نصف سے زائد بھرا ہوا کہہ سکتے ہیں۔ اَمرِواقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے آبی وسائل و مسائل کی یہ صورت حال اتنی سادہ نہیں ہے۔ ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو آبی وسائل کا یہ گلاس نصف سے زیادہ خالی نظر آتا ہے۔ ۲۲کروڑ انسانوں اور ترقی کی طرف گامزن پاکستان کا مستقبل شدید خطرات سے گھِرا ہوا ہے۔ اسی مناسبت سے درج ذیل نکات خصوصی توجہ کے مستحق ہیں:
فی کس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کیوبک میٹر
۶۰۰۰
۳۵۰
۵۰۰۰
۲۵۰
۲۲۰۰
۱۵۰
۱۳۰۰
۱۰۰
ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے فی کس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت افریقا کے قحط زدہ ممالک ایتھوپیا وغیرہ سے کچھ ہی بہتر ہے۔
اسی طرح جدول نمبر۳ میں دنیا کے خشک خطوں میں بہنے والے دریائوں پر تعمیرشدہ ذخائر (Dams) کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے:
تعمیرشدہ ڈیم پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت (بہائو کے دن)
کلوراڈو، امریکا
۹۰۰
بھارت مختلف دریا
۲۲۰
مُرے دارلنگ، آسٹریلیا
۹۰۰
تربیلا منگلا ،پاکستان
۳۰
اورنج ، جنوبی افریقا
۵۰۰
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سالانہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں ایک ملین ایکڑ فٹ کی کمی ہرسال ۱۰لاکھ ایکڑ رقبے کو ایک فٹ کم پانی کی فراہمی ہے، جو یقینا پیداوار میں لاکھوں ٹن کی کمی کا باعث بنتی ہے۔
آبی وسائل اور مسائل کے لحاظ سے یقینا ہمارا گلاس آدھا خالی ہے، لیکن نصف سے کم جو بھرا ہوا ہے، وہ اُمید اور مستقبل کی روشن تصویر بن سکتا ہے۔
آبی وسائل کی ترقی سے وابستہ ، اُمید کی روشن کرنیں
پاکستان کے آبی وسائل کی ۷۰سالہ تاریخ بیان کرتے ہوئے جہاں تشویش اور غفلت کے بے شمار در وَا ہوئے ہیں ، وہیں اُمید کی چند روشن کرنیں بھی نظر آتی ہیں، جو یقینا ہمیں عمل پر اُبھاریں گی:
l ۱۹۶۰ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت بین الاقوامی طور پر پاکستان کا سندھ طاس کے ۷۵ فی صد پانی پر حق تسلیم کیا گیاہے۔ دنیا بھر میں بہت سے ملکوں کے اندر دریائوں کی شراکت کو آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔ پھر ۱۹۹۱ء کے Water Accord کے تحت ملک کے چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم بھی طے پاچکی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ پاکستان سمندر میں بہہ جانے والے پانی اور زیرزمین پانی کے استعمال بارے رہنما اُصول طے کرے اور دُور رس ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مناسب فیصلے کرے۔
پس چہ باید کرد!