اگست ۲۰۱۷ء کے شروع ہی میں یہ خبر پاکستان بھر میں تشویش کے ساتھ سنی گئی کہ: ’’عالمی بنک جس نے ۱۹۶۰ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائوں کے پانی کی تقسیم کا مشہور سندھ طاس معاہدہ کروایا تھا، اس نے بھارت کو دریاے جہلم کے معاون دریا کشن گنگا، جسے پاکستان کے اندر دریاے نیلم کہا جاتاہے، پر ۸۶۴ ملین ڈالر کی لاگت سے ’کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ‘ اور دریاے چناب پر ریٹل پاور پلانٹ کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے‘‘۔
کشن گنگا ڈیم مقبوضہ کشمیر میں ۱۳۳میٹربلند اور ۸ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے والے رینٹل پاور پلانٹ، کشمیر ہی کے موضوع ریٹل، ضلع ڈوڈا میں تعمیر کیا جائے گا۔ بھارت اس سے ۸۵۰میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ اس پر پاکستانی اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے عالمی بنک نے کہا ہے کہ: ’’۱۹۶۰ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں پر بجلی کی پیداوارکے لیے منصوبے تعمیر کرسکتا ہے‘‘۔ بھارت نے یہ منصوبہ ۲۰۰۷ء میں شروع کیا تھا اور اُسے توقع تھی کہ ۲۰۱۶ء تک اس کی تعمیر مکمل ہوجائے گی، لیکن ابتدائی کام کے دوران ہی ۲۰۱۱ء میں ہالینڈ میں قائم Permanent Arbitration Court نے پاکستان کے اعتراضات پر اس کی تعمیر رکوا دی تھی۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ کشن گنگا اور ریٹل ڈیموں کی تعمیر کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والا وہ پانی یقینا شدید متاثر ہوگا۔ اسی طرح زیریں حصے میں پاکستان کے اندر تعمیر ہونے والے نیلم جہلم پراجیکٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کس طرح پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہا ہے اور مستقبل مزید گمبھیر ہوتا جا رہا ہے:
سترھویں صدی کے مشہور برطانوی مصنّف تھامس فِلر نے پانی کی اہمیت کے بارے میں کہا تھا: We never know the worth of water, till the well is dry (ہم اُس وقت تک پانی کی قدروقیمت سے آگاہ نہیں ہوتے جب تک کہ کنواں خشک نہ ہوجائے)۔
جنوبی ایشیا، دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کا مسکن ہے، جہاں زرعی معیشت ہی گزراوقات کا بڑا ذریعہ ہے۔ فصلات، مویشی و ماہی پروری، جنگلات اور باغات سب کچھ پانی ہی سے ممکن ہے۔ خطّے کا ایک بڑا حصہ انتہائی گرم اور خشک ہے، جہاں بارش کی سالانہ اوسط بمشکل ۲۵۰ملی میٹر ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر فی کس سالانہ پانی کی فراہمی بمشکل ایک ہزار سے ۱۲۰۰ کیوبک میٹر ہے، جب کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں ۱۵۰۰ سے ۲۵۰۰ کیوبک میٹر پانی فی کس دستیاب ہے، بلکہ ناروے اور کینیڈا میں تو سالانہ فی کس ۷۰ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔
پاکستان کی آبادی اور معیشت کا انحصار مکمل طور پر دریاے سندھ اور اس کے معاون دریائوں میں بہتے پانی پر ہے، جن کا منبع کوہ ہمالیہ اور دیگر پہاڑی چوٹیوں پر موجود گلیشیرز ہیں۔ تاہم، ان دریائوں کا راستہ بھارت سے ہوکر آتا ہے۔ اگر ہم تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو ہزاروں سال سے لوگ یا تو بارش کے پانی پر انحصار کرتے آئے ہیں، یا پھر دریائوں کے کنارے ہی بستیاں بسائی گئی ہیں۔ وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب (ہڑپہ، موہنجوڈارو وغیرہ) دریاے سندھ کے کنارے ہی پھل پھول سکی تھی۔ پھر انیسویں صدی میں آب پاشی کے جدید نظام کی تشکیل (ذخائر کی تعمیر، نہروں، کھالوں کی کھدائی وغیرہ) کے ساتھ بڑے پیمانے پر ریگستانوں کو قابلِ کاشت بنایا گیا۔ اس طرح بڑے پیمانے پر صحرا سرسبز و شاداب کھیتوں میں تبدیل ہوگئے۔
سندھ طاس کا آب پاشی نظام، ۳۲۰۰ کلومیٹر لمبے دریاے سندھ اور اس کے معاون پانچ مشرقی دریائوں (جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج) پر مشتمل ہے۔ مجموعی طور پر ان دریائوں کی لمبائی ۴۵۰۰ کلومیٹر ہے، جب کہ پانی کی مقدار یا بہائو ۱۸۰ بلین کیوبک میٹر سالانہ ہے۔ یہ دریا صدیوں سے برصغیر میں آب پاشی کے لیے استعمال ہوتے آئے ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل ہندستان کی مختلف ریاستوں یا صوبوں (پنجاب، بہاول پور، سندھ اور بیکانیر) کے درمیان بھی پانی کی تقسیم اور انتظام پر اختلافات اور تنازعات اُٹھتے رہے ہیں۔ تقسیم ہند اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ان چار ریاستوں کے درمیان اُبھرنے والے تنازعات دو ملکوں کے تنازعات میں بدل گئے ہیں۔ مغربی پنجاب، پاکستان کے حصے میں آیا، چوںکہ اس کی زمینیں زرخیز تھیں، اس لیے برطانوی حکومت نے آب پاشی کا وسیع نظام مغربی پنجاب میں تعمیر کیا۔ تقسیم کے وقت ریڈکلف جنھیں تقسیم کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، نے نہ صرف زمین پر تقسیم کی لکیر کھینچی، بلکہ دریائوں کے پانی اور اس کے منبعے کو بھی تقسیم کردیا۔ لہٰذا، دونوں نئی مملکتوں پر ایک ناخوش گوار ذمہ داری پہلے دن سے ہی عائد ہوگئی کہ وہ پانی کی تقسیم بارے ایک منصفانہ اور قابلِ عمل معاہدہ اور طریق کار طے کریں۔
گزرتے وقت کے ساتھ بھارت نے مشرقی پنجاب میں ہماچل پردیش، ہریانہ اور راجستھان میں آب پاشی کا ایک نظام تعمیر کرنا شروع کیا۔ دوسری طرف پاکستان کے چونکہ تمام ہی دریائوں کا منبع بھارت کے قبضے میں تھا، لہٰذا پاکستان کو پانی کی مستقل بندش، خشک سالی یا قحط کا خدشہ لگا رہا۔ مئی ۱۹۴۸ء میں اثاثہ جات کی تقسیم پر ہونے والے معاہدات میں بھارت نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ پاکستان کا پانی بند یا کم نہیں کرے گا۔ جون ۱۹۴۹ء میں پاکستان نے بھارت سے تحریری طور پر مطالبہ کیا کہ پانی کے معاملات میں عالمی عدالت ِ انصاف کو مداخلت اور تصفیہ کا حق دیا جائے، لیکن بھارت نے کسی بھی تیسری قوت کی مداخلت سے پہلے باہمی مذاکرات یا منصفین کے تقرر سے اختلافات کم کرنے کی تجویز دی۔ ۱۹۵۱ء میں عالمی بنک کے صدر نے پاک بھارت وزراے اعظم کو واشنگٹن مدعو کیا، جہاں اصولی طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کوئی بھی ملک پانی کی فراہمی کے موجود نظام میں خلل نہیں ڈالے گا۔ لیکن تحریری یقین دہانیوں اور معاہدات کے باوجود پاک بھارت پانی کا تنازعہ دونوں ملکوں کے درمیان شدید سیاسی اختلافات، علاقائی کش مکش اور جنگ کے خطرات کا باعث بنتا جارہا ہے، خاص طور پر، جب کہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔
جدول نمبر۱ میں پاکستان میں بہہ کر آنے والے دریا، اُن کے منبع اور روٹ، یعنی جن علاقوںسے گزرکر وہ پاکستان میں داخل ہوتے دکھائے گئے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ تمام ہی دریائوں کے منبع ہمالیہ، کوہِ سلیمان اور ہندوکش کی بلند پہاڑی چوٹیوں پر واقع ہیں، جہاں سے مقبوضہ کشمیر، بھارت کے راستے بہتے ہوئے وہ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اِسی لیے کہا تھا کہ ہماری Life Line اسی کشمیر سے ہوکر آتی ہے:
دریا
منبع
لمبائی
(کلومیٹر)
سندھ
جھیل مانسرور،
تبت، چین
۳۲۰۰
پانی کے بہائو کے لحاظ سے دنیا کا ۲۱واں بڑا دریا ہے۔ یہ تبت سے جموں کشمیر، بھارت میں ۷۰۹ کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے گلگت بلتستان اور پھر پاکستان سے گزرتے ہوئے بحیرئہ عرب میں جاگرتا ہے۔ دریاے اَستور، دریاے بلرام، دریاے گلگت، دریاے کابل، دریاے تنوبل اور دریاے زنسکر سمیت کئی چھوٹے دریا مختلف مقامات پر دریاے سندھ کاحصہ بنتے ہیں۔
وُلّر جھیل، پیر پنجال، کشمیر
۷۷۴
وادیِ کشمیر کے جنوب مشرق سے نکل کر سری نگر اور پھر مظفرآباد کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے، جہاں دریاے نیلم اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ ۱۹۶۷ء میں ۵ء۹ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے والا منگلا ڈیم اِسی دریا پر تعمیر کیا گیا۔زیریں علاقوں میں رسول بیراج اور تریموں بیراج اس پر تعمیر ہیں۔
درہ باڑہ، کوہ ہمالیہ سے نکلنے والے دریا چندرا اور بھاگا
۹۶۰
ہمالیہ کی چوٹیوں سے جموں وکشمیر اور پھر سیالکوٹ کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ تریموں (ضلع جھنگ) کے مقام پر دریاے جہلم اور اوچ شریف (بہاول پور) کے مقام پر دریاے ستلج میں شامل ہوکر پنجند کے مقام پر دریاے سندھ میں جا شامل ہوتا ہے۔
راوی
۷۲۰
ہمالیہ کی چوٹیوں سے بہہ کر وادیِ کشمیر اور پھر بھارتی پنجاب کے جنوب مغرب سے بہتا ہوا لاہور کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ ۱۹۶۰ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت راوی کا پانی بھارت کے حصے میں آیا ہے۔
تبت، چین
۵۵۰
جنوبی کوہ ہندوکش ، کوہ ہمالیہ اور کوہ سلیمان کے سنگم سے نکلنے والا یہ دریا بھارتی پنجاب کی تاریخی گزرگاہ سے بہتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ تقسیم سے پہلے ریاست بہاول پور کا بیش تر حصہ اسی دریا سے سیراب ہوتا تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت دریاے ستلج کا پانی بھی بھارت کے حصے میں آیا ہے۔
۱- ملک کی تقسیم کے لیے زمین پر کھینچی گئی لکیر نے زمین اور آبادی کے ساتھ پاکستان کی شہ رگ، یعنی تمام دریائوں کو بھی کاٹ کر رکھ دیا۔ اس طرح اُن کے منبعے پاکستان کے کنٹرول میں نہ رہے۔ ایک طویل مذاکراتی عمل کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کی حکومتیں عالمی بنک کی شراکت سے ۱۹۶۰ءمیں سندھ طاس معاہدے کی صورت میں اس سنگین تنازعے سے عہدہ برآ ہوئیں۔ اس معاہدے کے نتیجے میں تین مغربی دریا: سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے، جب کہ تین مشرقی دریا: راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے لیے مختص ہوکر رہ گیا۔ سندھ طاس کے پانی کا ۷۵ فی صد پاکستان، جب کہ ۲۵ فی صد بھارت کے حصے میں آیا۔
۲- پاکستان کے لیے دوسرا بڑا چیلنج یہ تھا کہ اُس کے حصے میں مغربی دریا آئے، لیکن اس کی بیش تر زرعی زمینیں مشرق اور جنوب میں واقع تھیں۔ پاکستانی انجینیروں نے عالمی بنک اور دیگر ڈونر اداروں کی مدد سے یہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا کہ منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم کی صورت میں پانی ذخیرہ کرنے والے بڑے ڈیم تعمیر کیے اور سیکڑوں کلومیٹر لمبی رابطہ نہریں جو بالترتیب دریاے سندھ، جہلم اور چناب کا پانی مشر ق اور جنوبی علاقوں تک لے گئیں، تعمیر کی گئیں۔ وسیع علاقے آب پاشی کے ذریعے گل و گلزار بن گئے۔
۳- رابطہ نہروں اور دریائوں کے رُخ تبدیل کرنے کی وجہ سے پنجاب اور سندھ کے وسیع علاقے سیم تھور کا شکار ہوگئے۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں مکعب میٹر پانی رسائو (Seepage) کی وجہ سے زیرزمین چلا گیا۔ یوں زیرزمین پانی کی سطح بلند ہوئی، حتیٰ کہ بعض مقامات پر تو زیرزمین پانی بالکل سطح زمین تک آگیا اور کسی بھی طرح کی کاشت ممکن نہ رہی۔ سیم تھور اور کلّر کاعلاج لاکھوں ٹیوب ویل لگا کر کیا گیا، جس سے نہ صرف زیرزمین پانی اطمینان بخش حد تک نیچے چلا گیا، بلکہ زائد نمکیات بھی پانی میں گھل کر زیرزمین چلے گئے۔ ایک عذاب سے عہدہ برآ ہونے کے لیے یہ پاکستان کے زرعی اور آبی ماہرین کی بڑی کامیابی تھی۔
لہٰذا درج بالا شاندار کارکردگی کو دیکھ کر ہم پاکستان کے آبی وسائل کے گلاس کو یقینا نصف سے زائد بھرا ہوا کہہ سکتے ہیں۔ اَمرِواقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے آبی وسائل و مسائل کی یہ صورت حال اتنی سادہ نہیں ہے۔ ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو آبی وسائل کا یہ گلاس نصف سے زیادہ خالی نظر آتا ہے۔ ۲۲کروڑ انسانوں اور ترقی کی طرف گامزن پاکستان کا مستقبل شدید خطرات سے گھِرا ہوا ہے۔ اسی مناسبت سے درج ذیل نکات خصوصی توجہ کے مستحق ہیں:
فی کس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کیوبک میٹر
۶۰۰۰
۳۵۰
۵۰۰۰
۲۵۰
۲۲۰۰
۱۵۰
۱۳۰۰
۱۰۰
ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے فی کس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت افریقا کے قحط زدہ ممالک ایتھوپیا وغیرہ سے کچھ ہی بہتر ہے۔
اسی طرح جدول نمبر۳ میں دنیا کے خشک خطوں میں بہنے والے دریائوں پر تعمیرشدہ ذخائر (Dams) کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے:
تعمیرشدہ ڈیم پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت (بہائو کے دن)
کلوراڈو، امریکا
۹۰۰
بھارت مختلف دریا
۲۲۰
مُرے دارلنگ، آسٹریلیا
۹۰۰
تربیلا منگلا ،پاکستان
۳۰
اورنج ، جنوبی افریقا
۵۰۰
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سالانہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں ایک ملین ایکڑ فٹ کی کمی ہرسال ۱۰لاکھ ایکڑ رقبے کو ایک فٹ کم پانی کی فراہمی ہے، جو یقینا پیداوار میں لاکھوں ٹن کی کمی کا باعث بنتی ہے۔
آبی وسائل اور مسائل کے لحاظ سے یقینا ہمارا گلاس آدھا خالی ہے، لیکن نصف سے کم جو بھرا ہوا ہے، وہ اُمید اور مستقبل کی روشن تصویر بن سکتا ہے۔
آبی وسائل کی ترقی سے وابستہ ، اُمید کی روشن کرنیں
پاکستان کے آبی وسائل کی ۷۰سالہ تاریخ بیان کرتے ہوئے جہاں تشویش اور غفلت کے بے شمار در وَا ہوئے ہیں ، وہیں اُمید کی چند روشن کرنیں بھی نظر آتی ہیں، جو یقینا ہمیں عمل پر اُبھاریں گی:
l ۱۹۶۰ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت بین الاقوامی طور پر پاکستان کا سندھ طاس کے ۷۵ فی صد پانی پر حق تسلیم کیا گیاہے۔ دنیا بھر میں بہت سے ملکوں کے اندر دریائوں کی شراکت کو آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔ پھر ۱۹۹۱ء کے Water Accord کے تحت ملک کے چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم بھی طے پاچکی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ پاکستان سمندر میں بہہ جانے والے پانی اور زیرزمین پانی کے استعمال بارے رہنما اُصول طے کرے اور دُور رس ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مناسب فیصلے کرے۔
پس چہ باید کرد!
دوکروڑ ۲۳لاکھ ہیکٹر [’ہیکٹر بین الاقوامی یونٹ ہے، جو ہمارے ڈھائی ایکڑ کے برابر ہوتا ہے] پر لہلہاتے کھیت، خوبانی، سیب، انگور، کِنوں، مالٹا، آم اور کھجور کے پھولوں پھلوں سے لدے باغات، دریاے سندھ، اس کے معاون دریائوں اور جھیلوں میں تیرتی انواع و اقسام کی مچھلیاں اور دیگر آبی پرندے، شمالی علاقہ جات، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی چراگاہوں میں چرتے دودھ اور گوشت فراہم کرنے والے کروڑوں مویشی اور فضائوں میں رقصاں لاکھوں رنگ برنگ پرندے___ یہ ۲۲کروڑ آبادی والا دنیا کا چھٹا گنجان آباد ملک پاکستان ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں گندم، چاول، کپاس، گنا، پھل اور سبزیاں، دودھ اور گوشت کی پیداوار کے لحاظ سے ساتواں یاآٹھواں بڑا زرعی ملک ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں زراعت کی تاریخ چھے تا سات ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے، جب وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب مہرگڑھ اور موہنجوڈارو وغیرہ میں آب پاشی، جانوروں کے ذریعے زمین میں ہل چلا کر غلّہ کاشت کرنا شروع ہوا۔ قابلِ کاشت زمین اور دریائوں جھیلوں کا پانی اس خطے کے قدرتی وسائل میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد بھارت چوں کہ ایک بڑی اور گنجان آبادی والا ملک تھا، اس لیے بھارتی قیادت نے زراعت کے فروغ کو اپنی معاشی پالیسیوں میںا وّلین ترجیح قرار دیا۔ لیکن پاکستان میں جس اعلیٰ سطحی بیوروکریسی نے ملک کا نظم و نسق سنبھالا وہ ابتدائی برسوں میں زراعت کی ترقی کے لیے مطلوب زمینی حقائق کا ادراک نہ کرسکی۔
مغربی اور مشرقی پاکستان میں ۹۰ فی صد چھوٹے کاشت کار زراعت میں جدید اور ترقی یافتہ ذرائع استعمال کرنے کے لیے مطلوبہ وسائل سے محروم تھے۔ ملک کے آبی وسائل کی تنظیم نو اور ذخائر کی تعمیر بھی بھاری فنڈز کی متقاضی تھی۔ آزادی کے وقت زراعت گو ملکی جی ڈی پی کا ۵۰ فی صد حصہ فراہم کر رہا تھا، لیکن یہ قلیل مقدار ملک کی معاشی نمو میں کوئی نمایاں کردار ادا کرنے سے قاصر تھی۔
قیامِ پاکستان سے پہلے متحدہ ہندستان میں پنجاب کو برعظیم کی ’فوڈ باسکٹ‘ کہا جاتا تھا۔ مشرقی پنجاب جو تقسیم کے بعد بھارت کے حصے میں آیا، کا زرعی کاشتہ رقبہ گو مغربی پنجاب سے ایک تہائی تھا، لیکن بھارتی حکومت نے ’نہرو پلان‘ کے تحت مفت آب پاشی، سستی کھاد اور بیج، زرعی تعلیم و تحقیق کے لیے وافر فنڈز، زرعی منڈیوں اور دیہی آبادی میں سڑکوں کی تعمیر کے نتیجے میں جلد ہی زرعی پیداوار میں حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جب کہ پاکستان میں غریب کاشت کار سحرخیزی اور دن رات خون جما دینے والی سردی اور جسموں کو جھلسا دینے والی گرمی میں کام کرنے کے باوجود نان جَویں اور بنیادی انسانی ضروریات کے حصول میں ناکام رہے۔
قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کی سالانہ غلے کی پیداوار صرف ۸ٌٌٌء۳ ملین ٹن گندم تھی، جب کہ آج الحمدللہ ہم سالانہ ۲۲ملین ٹن گندم، ۵ء۶ ملین ٹن چاول، ۱۲ملین کپاس کی گانٹھیں، وافر چینی، پھل اور سبزیاں پیدا کر رہے ہیں۔ شعبہ مرغبانی و حیوانات جو زراعت ہی کا ایک سب سیکٹر ہے، ۳۰ ملین ٹن دودھ، ۵۳۰ ملین مرغیاں، ۱۱ء۲ ارب انڈے سالانہ پیدا کرتا ہے، جب کہ ۱۴کروڑ سے زائد گائے، بھینس اور بھیڑبکری ہمارا مستقل اثاثہ ہیں، جو دودھ، گوشت اور چمڑا فراہم کرتے ہیں۔ شعبہ فصلات، حیوانات کے علاوہ جنگلات اور ماہی پروری بھی زراعت ہی کے سب سیکٹرز ہیں، جو ہماری قومی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ برآمدات کے ذریعے قابلِ قدر زرمبادلہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ زراعت کی دنیا میں کامیابیوں کا یہ سفر کس طرح طے ہوا؟ ہم اس کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں:
جیساکہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ آزادی کے بعد ابتدائی برسوں میں ہماری حکومتیں زراعت کی ترقی اور آبی وسائل کی تنظیم نو کے لیے کوئی خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکیں، لیکن ۱۹۶۰ء کے عشرےاور ایوب خان کے ۱۰ سالہ دورِ حکومت میں زراعت کی ترقی اور مطلوب آبی ذخائر کی تعمیر کے ذریعے نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
پاکستان کے آبی وسائل کا تخمینہ دریاے سندھ اور اس کے معاون دریائوں ، جھیلوں، شمال کے پہاڑی سلسلوں میں موجود گلیشیرز کی صورت تقریباً ۱۴۰ ملین ایکڑ فٹ سالانہ ہے۔ زیرزمین پانی جو تقریباً ۱۰ لاکھ ٹیوب ویل کی مددسے ہمیں آب پاشی کے لیے میسر آتا ہے، ۵۵ ملین ایکڑ فٹ ہے۔ مون سون کی بارشیں جو تین مہینے جاری رہتی ہیں ہمارے آبی ذخائر کو بھرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ صرف ۱۹ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت جو ۴۰برس گزرنے کے بعد ۳۵ فی صد کم ہوکر صرف ۱۲ ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے، کی وجہ سے ۳۰ تا ۴۰ ملین ایکڑ فٹ پانی سیلاب کی صورت میں بڑی تباہی کے بعد سمندر میں جاگرتا ہے۔ آب پاشی کے لیے ۱۴۰ ملین ایکڑ فٹ دستیاب پانی کا تقریباً ۴۰فی صد جذب و تبخیر(Seepage & Evaporation) جیسے نقصانات کے بعد صرف ۹۰ ملین ایکڑ فٹ کھیت تک پہنچ پاتا ہے۔ یہ اَمر قابلِ افسوس ہے کہ گذشتہ ۴۰برس میں کوئی بھی نیا ڈیم تعمیر نہیں کرسکے، اگرچہ ہم چشمہ، ورسک، خان پور، منگلا، تربیلا جیسے آبی ذخائر، ۱۸بیراج، ۱۲لنک کینال، ۴۵ آب پاشی نہروں اور ۱۰ہزار ۷۰۰ کھالوں کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام کے حامل ہیں۔
پاکستان چوں کہ دنیا کے گرم اور خشک خطے میں واقع ہے، جہاں زیرزمین پانی بھی زیادہ تر نمکین ہے۔ اس لیے بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے آبی وسائل کے پیش نظر اسے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ دوسری جانب پنجاب اور سندھ میں زرعی آب پاشی کے لیے نصب لاکھوں ٹیوب ویل زمین میں کھارے پانی کی وجہ سے کلر اور سیم و تھور کا باعث بن رہے ہیں۔
سال
۱۹۴۷ء
۱۹۵۵ء
۱۹۹۰ء
۲۰۱۵ء
۲۰۲۵ء
(مکعب میٹر)
۴۵۰۰
۲۴۹۰
۱۶۷۲
۱۰۰۰
۸۳۷
نوٹ: یاد رہے کہ دنیا بھر میں فی کس ۱۰۰۰ مکعب میٹر سالانہ سے کم دستیاب پانی والے ممالک / علاقوں کو خشک سالی/قحط کا شکار گردانا جاتا ہے۔
ایک وسیع ترین نہری نظام کے باوجود پاکستان کے ۲۲ء۳ ملین ہیکٹر زیرکاشت رقبے میں سے صرف ۱۴ء۵۶ ملین ہیکٹر رقبہ ہی نہری پانی سے سیراب ہوپاتا ہے۔ زراعت اور دیگر ضروریات کے لیے وافر پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مزید آبی ذخائر کی تعمیر اور آب پاشی کے لیے سپرنکلر (Sprinkler) اور ڈرپ (Drip) جیسے مستعد اور کفایت شعار آب پاشی نظام اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں زراعت کی ترقی اور آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے سندھ طاس معاہدے کے تحت منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیم تعمیر کیے گئے۔ ان منصوبہ جات کے لیے ورلڈبنک اور دیگر مالیاتی اداروں و دوست ممالک نے کثیرفنڈز فراہم کیے۔ لیکن یہ بات باعث ِ تشویش ہے کہ پاکستان ایوبی دور کے اِن تعمیرشدہ آبی ذخائر کے بعد مزید آبی ذخائر کی تعمیر میں کوئی کارکردگی نہیں دکھاسکا، جب کہ بھارت مسلسل بیسیوں ڈیم تعمیرکرچکا ہے۔ آبی ذخائر کی تعمیر کے علاوہ زراعت کے دیگر شعبے بھی ماضی اور آج کی حکومتوں کی عدم دل چسپی کا شکار ہیں۔
حسب ذیل جدول کے مطابق قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک مختلف اَدوار میں زراعت اور آبی وسائل کے لیے فراہم کردہ فنڈز کا میزانیہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ شعبۂ زراعت مسلسل نظرانداز ہورہا ہے:
۹ء۴۶
۸ء۵۷
۱۰ء۴۵
۸ء۵۹
۹ء۶۹
۷ء۱۳
۴ء۴۵
۰ء۷۵
۱ء۴۲
۲ء۲
پانی
۱۹ء۹۵
۴۳ء۴
۳۴ء۲
۱۷ء۱
۱۰ء۲۹
۹ء۰۸
۸ء۱۱
۷ء۳۹
۱۶ء۷
۱۳ء۰
اُوپر دیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ صرف ۱۹۶۰ء کے عشرے میں زراعت کے لیے قابلِ ذکر رقوم فراہم کی گئیں جو تربیلا، منگلا ڈیم بنانے اور زراعت کو ترقی دینے میں معاون ہوئیں۔ بعد میں تسلسل سے مختص شدہ رقوم میں بالترتیب کمی ہوتی گئی۔ مختلف ادوار میں جی ڈی پی کا ۳۰، ۴۰ فی صد فراہم کرنے والا شعبہ بمشکل ۸، ۱۰ فی صد فنڈز حاصل کرتا رہا ہے۔
زراعت میں سالانہ شرحِ نمو (Annual Growth Rate) ایک ایسا پیمانہ ہے، جس سے ہم زراعت کی ترقی ماپ سکتے ہیں۔ حقائق کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ سواے ۱۹۶۰ء کے عشرے اور ۱۹۸۰ء کے عشرے میں زراعت کی سالانہ شرح نمو اطمینان بخش نہیں رہی ہے۔
۱۹۶۰ء ہی کے عشرے میں میکسیکو کے رہایشی نوبل انعام یافتہ نارمن بورلاگ کی قیادت میں زرعی سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے دنیا میں سبز انقلاب برپا کیا۔ یہ بات ہمارے لیے قابلِ فخر ہے کہ فیصل آباد پاکستان کے دو زرعی سائنس دان ڈاکٹر ایس اے قریشی اور ڈاکٹر منظوراحمد باجوہ بھی اس تاریخی معرکے میںشریک تھے۔ اس ٹیم نے گندم کی بیماریوں کے خلاف مزاحمت رکھنے والی اور تقریباً دگنا پیداواری صلاحیت کی حامل اقسام دریافت کیں اور یوں دنیا کو بھوک اور قحط کے خطرے سے نجات دلانے میں معاونت کی۔
درج بالا جائزے سے یہ بات عیاں ہے کہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ملکی جی ڈی پی کا ۵۰ فی صد فراہم کرنے والا شعبہ آج صنعت اور سروسز سیکٹر کے ساتھ تیسرا بڑا شعبہ ہے، جو ۲۴ فی صد جی ڈی پی اور روزگار کے ۵۰ فی صد مواقع فراہم کرتا ہے۔ ملکی برآمدات کا ۶۶ فی صد زرعی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ کپاس، چاول، پھل، سبزیاں، چمڑے کی مصنوعات ہماری بڑی بڑی زرعی برآمدات ہیں، جب کہ خوردنی تیل اور چائے درآمد کرنے پر ہمارا بڑا زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔
زراعت میں نئے آبی وسائل /ذخائر کی تعمیر، جدید مشینری کا استعمال اور کیمیائی کھادوں و کیمیائی ادویات کا محفوظ استعمال اور گلوبل وارمنگ مستقبل میں قومی زراعت کے بڑے بڑے چیلنج ہیں۔ اگر ہم ان سے بہ احسن عہدہ برآ ہوسکے تو ان شاء اللہ ہم نہ صرف قومی ضروریات پوری کریں گے، بلکہ اپنی برآمدات بڑھا کر کثیرزرمبادلہ بھی کمائیں گے اور اللہ کی مخلوق کو خوراک بھی فراہم کر رہے ہوں گے۔