ستمبر ۲۰۱۷

فہرست مضامین

پاکستانی زراعت کے ۷۰سال

ڈاکٹر مسعود احمد شاکر | ستمبر ۲۰۱۷ | قلمی مذاکرہ

Responsive image Responsive image

دوکروڑ ۲۳لاکھ ہیکٹر [’ہیکٹر بین الاقوامی یونٹ ہے، جو ہمارے ڈھائی ایکڑ کے برابر ہوتا ہے] پر لہلہاتے کھیت، خوبانی، سیب، انگور، کِنوں، مالٹا، آم اور کھجور کے پھولوں پھلوں سے لدے باغات، دریاے سندھ، اس کے معاون دریائوں اور جھیلوں میں تیرتی انواع و اقسام کی مچھلیاں اور دیگر آبی پرندے، شمالی علاقہ جات، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی چراگاہوں میں چرتے دودھ اور گوشت فراہم کرنے والے کروڑوں مویشی اور فضائوں میں رقصاں لاکھوں رنگ برنگ پرندے___ یہ ۲۲کروڑ آبادی والا دنیا کا چھٹا گنجان آباد ملک پاکستان ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں گندم، چاول، کپاس، گنا، پھل اور سبزیاں، دودھ اور گوشت کی پیداوار کے لحاظ سے ساتواں یاآٹھواں بڑا زرعی ملک ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں زراعت کی تاریخ چھے تا سات ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے، جب وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب مہرگڑھ اور موہنجوڈارو وغیرہ میں آب پاشی، جانوروں کے ذریعے زمین میں ہل چلا کر غلّہ کاشت کرنا شروع ہوا۔ قابلِ کاشت زمین اور دریائوں جھیلوں کا پانی اس خطے کے قدرتی وسائل میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد بھارت چوں کہ ایک بڑی اور گنجان آبادی والا ملک تھا، اس لیے بھارتی قیادت نے زراعت کے فروغ کو اپنی معاشی پالیسیوں میںا وّلین ترجیح قرار دیا۔ لیکن پاکستان میں جس اعلیٰ سطحی بیوروکریسی نے ملک کا نظم و نسق سنبھالا وہ ابتدائی برسوں میں زراعت کی ترقی کے لیے مطلوب زمینی حقائق کا ادراک نہ کرسکی۔

مغربی اور مشرقی پاکستان میں ۹۰ فی صد چھوٹے کاشت کار زراعت میں جدید اور ترقی یافتہ ذرائع استعمال کرنے کے لیے مطلوبہ وسائل سے محروم تھے۔ ملک کے آبی وسائل کی تنظیم نو اور ذخائر کی تعمیر بھی بھاری فنڈز کی متقاضی تھی۔ آزادی کے وقت زراعت گو ملکی جی ڈی پی کا ۵۰ فی صد حصہ فراہم کر رہا تھا، لیکن یہ قلیل مقدار ملک کی معاشی نمو میں کوئی نمایاں کردار ادا کرنے سے قاصر تھی۔

قیامِ پاکستان سے پہلے متحدہ ہندستان میں پنجاب کو برعظیم کی ’فوڈ باسکٹ‘ کہا جاتا تھا۔ مشرقی پنجاب جو تقسیم کے بعد بھارت کے حصے میں آیا، کا زرعی کاشتہ رقبہ گو مغربی پنجاب سے ایک تہائی تھا، لیکن بھارتی حکومت نے ’نہرو پلان‘ کے تحت مفت آب پاشی، سستی کھاد اور بیج، زرعی تعلیم و تحقیق کے لیے وافر فنڈز، زرعی منڈیوں اور دیہی آبادی میں سڑکوں کی تعمیر کے نتیجے میں جلد ہی زرعی پیداوار میں حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جب کہ پاکستان میں غریب کاشت کار سحرخیزی اور دن رات خون جما دینے والی سردی اور جسموں کو جھلسا دینے والی گرمی میں کام کرنے کے باوجود نان جَویں اور بنیادی انسانی ضروریات کے حصول میں ناکام رہے۔

قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کی سالانہ غلے کی پیداوار صرف ۸ٌٌٌء۳ ملین ٹن گندم تھی، جب کہ آج الحمدللہ ہم سالانہ ۲۲ملین ٹن گندم، ۵ء۶ ملین ٹن چاول، ۱۲ملین کپاس کی گانٹھیں،   وافر چینی، پھل اور سبزیاں پیدا کر رہے ہیں۔ شعبہ مرغبانی و حیوانات جو زراعت ہی کا ایک سب سیکٹر ہے، ۳۰ ملین ٹن دودھ، ۵۳۰ ملین مرغیاں، ۱۱ء۲ ارب انڈے سالانہ پیدا کرتا ہے، جب کہ ۱۴کروڑ سے زائد گائے، بھینس اور بھیڑبکری ہمارا مستقل اثاثہ ہیں، جو دودھ، گوشت اور چمڑا  فراہم کرتے ہیں۔ شعبہ فصلات، حیوانات کے علاوہ جنگلات اور ماہی پروری بھی زراعت ہی کے سب سیکٹرز ہیں، جو ہماری قومی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ برآمدات کے ذریعے قابلِ قدر زرمبادلہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ زراعت کی دنیا میں کامیابیوں کا یہ سفر کس طرح طے ہوا؟ ہم اس کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں:

جیساکہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ آزادی کے بعد ابتدائی برسوں میں ہماری حکومتیں زراعت کی ترقی اور آبی وسائل کی تنظیم نو کے لیے کوئی خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکیں، لیکن ۱۹۶۰ء کے عشرےاور ایوب خان کے ۱۰ سالہ دورِ حکومت میں زراعت کی ترقی اور مطلوب آبی ذخائر کی تعمیر کے ذریعے نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

پاکستان کے آبی وسائل کا تخمینہ دریاے سندھ اور اس کے معاون دریائوں ، جھیلوں، شمال کے پہاڑی سلسلوں میں موجود گلیشیرز کی صورت تقریباً ۱۴۰ ملین ایکڑ فٹ سالانہ ہے۔ زیرزمین پانی جو تقریباً ۱۰ لاکھ ٹیوب ویل کی مددسے ہمیں آب پاشی کے لیے میسر آتا ہے، ۵۵ ملین ایکڑ فٹ ہے۔ مون سون کی بارشیں جو تین مہینے جاری رہتی ہیں ہمارے آبی ذخائر کو بھرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ صرف ۱۹ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت جو ۴۰برس گزرنے کے بعد ۳۵ فی صد کم ہوکر صرف ۱۲ ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے، کی وجہ سے ۳۰ تا ۴۰ ملین ایکڑ فٹ پانی سیلاب کی صورت میں بڑی تباہی کے بعد سمندر میں جاگرتا ہے۔ آب پاشی کے لیے ۱۴۰ ملین ایکڑ فٹ دستیاب پانی کا تقریباً ۴۰فی صد جذب و تبخیر(Seepage & Evaporation) جیسے نقصانات کے بعد صرف ۹۰ ملین ایکڑ فٹ کھیت تک پہنچ پاتا ہے۔ یہ اَمر قابلِ افسوس ہے کہ گذشتہ ۴۰برس میں کوئی بھی نیا ڈیم تعمیر نہیں کرسکے، اگرچہ ہم چشمہ، ورسک، خان پور، منگلا، تربیلا جیسے آبی ذخائر، ۱۸بیراج، ۱۲لنک کینال، ۴۵ آب پاشی نہروں اور ۱۰ہزار ۷۰۰ کھالوں کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام کے حامل ہیں۔

پاکستان چوں کہ دنیا کے گرم اور خشک خطے میں واقع ہے، جہاں زیرزمین پانی بھی زیادہ تر نمکین ہے۔ اس لیے بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے آبی وسائل کے پیش نظر اسے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ دوسری جانب پنجاب اور سندھ میں زرعی آب پاشی کے لیے نصب لاکھوں ٹیوب ویل زمین میں کھارے پانی کی وجہ سے کلر اور سیم و تھور کا باعث بن رہے ہیں۔

جدول نمبر۱ میں پانی کی فی کس کم ہوتی ہوئی صورتِ حال کا ایک جائزہ پیش کیا گیا ہے:

سال

۱۹۴۷ء

۱۹۵۵ء

۱۹۹۰ء

۲۰۱۵ء

۲۰۲۵ء

دستیاب فی کس پانی

(مکعب میٹر)

۴۵۰۰

۲۴۹۰

۱۶۷۲

۱۰۰۰

۸۳۷

نوٹ: یاد رہے کہ دنیا بھر میں فی کس ۱۰۰۰ مکعب میٹر سالانہ سے کم دستیاب پانی والے ممالک / علاقوں کو خشک سالی/قحط کا شکار گردانا جاتا ہے۔

ایک وسیع ترین نہری نظام کے باوجود پاکستان کے ۲۲ء۳ ملین ہیکٹر زیرکاشت رقبے میں سے صرف ۱۴ء۵۶ ملین ہیکٹر رقبہ ہی نہری پانی سے سیراب ہوپاتا ہے۔ زراعت اور دیگر ضروریات کے لیے وافر پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مزید آبی ذخائر کی تعمیر اور آب پاشی کے لیے سپرنکلر (Sprinkler) اور ڈرپ (Drip) جیسے مستعد اور کفایت شعار آب پاشی نظام اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں زراعت کی ترقی اور آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے سندھ طاس معاہدے کے تحت منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیم تعمیر کیے گئے۔ ان منصوبہ جات کے لیے ورلڈبنک اور دیگر مالیاتی اداروں و دوست ممالک نے کثیرفنڈز فراہم کیے۔ لیکن یہ بات باعث ِ تشویش ہے کہ پاکستان ایوبی دور کے اِن تعمیرشدہ آبی ذخائر کے بعد مزید آبی ذخائر کی تعمیر میں کوئی کارکردگی نہیں دکھاسکا، جب کہ بھارت مسلسل بیسیوں ڈیم تعمیرکرچکا ہے۔ آبی ذخائر کی تعمیر کے علاوہ زراعت کے دیگر شعبے بھی ماضی اور آج کی حکومتوں کی عدم دل چسپی کا شکار ہیں۔

حسب ذیل جدول کے مطابق قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک مختلف اَدوار میں زراعت اور آبی وسائل کے لیے فراہم کردہ فنڈز کا میزانیہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ شعبۂ زراعت مسلسل نظرانداز ہورہا ہے:

جدول نمبر۲: قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک زراعت کے لیے مختص فنڈز (فی صد)

زراعت

۹ء۴۶

۸ء۵۷

۱۰ء۴۵

۸ء۵۹

۹ء۶۹

۷ء۱۳

۴ء۴۵

۰ء۷۵

۱ء۴۲

۲ء۲

پانی

۱۹ء۹۵

۴۳ء۴

۳۴ء۲

۱۷ء۱

۱۰ء۲۹

۹ء۰۸

۸ء۱۱

۷ء۳۹

۱۶ء۷

۱۳ء۰

اُوپر دیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ صرف ۱۹۶۰ء کے عشرے میں زراعت کے لیے قابلِ ذکر رقوم فراہم کی گئیں جو تربیلا، منگلا ڈیم بنانے اور زراعت کو ترقی دینے میں معاون ہوئیں۔ بعد میں تسلسل سے مختص شدہ رقوم میں بالترتیب کمی ہوتی گئی۔ مختلف ادوار میں جی ڈی پی کا ۳۰، ۴۰ فی صد فراہم کرنے والا شعبہ بمشکل ۸، ۱۰ فی صد فنڈز حاصل کرتا رہا ہے۔

زراعت میں سالانہ شرحِ نمو (Annual Growth Rate) ایک ایسا پیمانہ ہے، جس سے ہم زراعت کی ترقی ماپ سکتے ہیں۔ حقائق کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ سواے ۱۹۶۰ء کے عشرے اور ۱۹۸۰ء کے عشرے میں زراعت کی سالانہ شرح نمو اطمینان بخش نہیں رہی ہے۔

۱۹۶۰ء ہی کے عشرے میں میکسیکو کے رہایشی نوبل انعام یافتہ نارمن بورلاگ کی قیادت میں زرعی سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے دنیا میں سبز انقلاب برپا کیا۔ یہ بات ہمارے لیے قابلِ فخر ہے کہ فیصل آباد پاکستان کے دو زرعی سائنس دان ڈاکٹر ایس اے قریشی اور ڈاکٹر منظوراحمد باجوہ بھی اس تاریخی معرکے میںشریک تھے۔ اس ٹیم نے گندم کی بیماریوں کے خلاف مزاحمت رکھنے والی اور تقریباً دگنا پیداواری صلاحیت کی حامل اقسام دریافت کیں اور یوں دنیا کو بھوک اور قحط کے خطرے سے نجات دلانے میں معاونت کی۔

درج بالا جائزے سے یہ بات عیاں ہے کہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ملکی جی ڈی پی کا ۵۰ فی صد فراہم کرنے والا شعبہ آج صنعت اور سروسز سیکٹر کے ساتھ تیسرا بڑا شعبہ ہے، جو ۲۴ فی صد جی ڈی پی اور روزگار کے ۵۰ فی صد مواقع فراہم کرتا ہے۔ ملکی برآمدات کا ۶۶ فی صد زرعی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ کپاس، چاول، پھل، سبزیاں، چمڑے کی مصنوعات ہماری بڑی بڑی زرعی برآمدات ہیں، جب کہ خوردنی تیل اور چائے درآمد کرنے پر ہمارا بڑا زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔

زراعت میں نئے آبی وسائل /ذخائر کی تعمیر، جدید مشینری کا استعمال اور کیمیائی کھادوں و کیمیائی ادویات کا محفوظ استعمال اور گلوبل وارمنگ مستقبل میں قومی زراعت کے بڑے بڑے چیلنج ہیں۔   اگر ہم ان سے بہ احسن عہدہ برآ ہوسکے تو ان شاء اللہ ہم نہ صرف قومی ضروریات پوری کریں گے، بلکہ اپنی برآمدات بڑھا کر کثیرزرمبادلہ بھی کمائیں گے اور اللہ کی مخلوق کو خوراک بھی فراہم کر رہے ہوں گے۔