ہمارا وطن پاکستان عقل اور اُمنگ کا حسین امتزاج ہے۔اسے ہم بالفاظِ دگر ایک ناممکن الحصول خواب کی تعبیر بھی کہہ سکتے ہیں۔اغیار اس کا حصول ناممکن سمجھتے تھے۔ ہمارے طلب کردہ پاکستان کی ایک ممکنہ مشکل یہ تھی کہ اسے ایسے دو خطّوں پر مشتمل ہونا تھا، جو ایک دوسرے سے ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کی دُوری پر تھے۔ اس لیے اس کا انتظام چلانا محال تھا، مگر پاکستان کی محبت نے یہ دُوری بے حقیقت بنادی اور اسے ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء تک چلا کے بھی دکھا دیا۔ اس کا سقوط دونوں بازوئوں کی دُوری کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ سیاسی دغابازوں کی مکاری کی وجہ سے ہوا۔ دغاباز عناصرپاکستان کی اسمبلیوں پر غالب آگئے تھے۔ اقتدار اگر اکثریتی جماعت کو منتقل کر دیا جاتا تو یہ تسلسل کے ساتھ چلتا رہتا۔
پاکستان کے برعکس آزاد ہندستان یا ہندو انڈیا صدی بھر سے ایک ملک تھا۔ حکومت چلانے کی تمام انتظامی سہولتیں اس کی دسترس میں تھیں۔ بنا بنایا دہلی کا دارالحکومت، بھرا پُرا خزانہ، ہر طرح سے مسلح فوج، ہر طرح کے عمالِ حکومت، سمندری تجارت اور ذرائع رسل و رسائل کا بھرپور نظام، اس ہندو انڈیا کے پاس تھا۔ اس کے برعکس پاکستان کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہ تھا۔ جو کچھ ہمیں ملنا تھا اسے ہنود دبائے بیٹھے تھے۔ برطانوی حکومت کے چھوڑے ہوئے روپے پیسے میں سے پاکستان کا جو حصہ بنا تھا، اس کا بھی ایک چوتھائی حصہ ہندو انڈیا نے اقتدار ہاتھ میں لیتے ہی دبا لیا تھا تاکہ پاکستان ماہی بے آب بن جائے۔ یہ اتنی ظالمانہ حرکت تھی کہ خود گاندھی جی [م:۳۰ جنوری ۱۹۴۸ء] سے بھی برداشت نہ ہوئی اور انھوں نے پاکستان کا رُکا ہوا حصہ دلوانے کے لیے بھوک ہڑتال کردی۔ تاہم، پاکستان کے پاس فرزندانِ پاکستان کی محبت تھی۔ اس محبت نے ناقابلِ شکست طاقت دکھائی۔ اسی جذبے کی بدولت پاکستان کے نیم مسلح قبائلی مجاہدین نے کشمیر کا ایک حصہ بھارت سے چھین لیا۔ آزاد کشمیر اسی کا نام ہے۔
اگست ۱۹۴۷ء کے اسی ناتواں پاکستان کی آج کی سربلندی دیکھیے کہ دشمن اسے زیر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کی وجہ بیان کرنے کے لائق ہے۔ پاکستان اس مطلوبہ خطۂ ارض میں اسلام کے نفاذ کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ کیوں کہ پہلے بھی ۱۲۰۲ء سے ۱۸۵۷ء، یعنی ۶۵۱ برس تک یہاں کسی نہ کسی شکل میں اسلام نافذالعمل رہ چکا تھا۔اس ٹھوس حقیقت کی وجہ سے پاکستان بنتے ہی ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کی۔ اس کی منظوری پاکستان کے وجود کی سب سے مضبوط اینٹ ہے جسے ہمارے بے دین حکمران بھی اکھیڑ نہ سکے۔
پاکستان کی دوسری بڑی طاقت اس کا اسلامی آئین اور اس کے اسلامی قوانین ہیں۔ یہی اجزا نظریۂ پاکستان (Pakistan Ideology) کہلاتے ہیں۔ اس کو دو قومی نظریہ بھی کہا جاتا ہے۔ نظریۂ پاکستان ہم مسلمانوں کو فکری ورثے میں ملا۔ اس فکری ورثے کی ابتدا عہد ِ رسالتؐ کی تاسیس اور آپؐ کے معاً بعد ۶۳۲ء میں حضرت عبداللہ بن ابی قحافہ، ابوبکرصدیقؓ [م: ۲۳؍اگست ۶۳۴ء] کی خلافت [۸جون ۶۳۲ء-۲۲؍اگست ۶۳۴ء]کے قیام کے ساتھ ہوئی۔ پھر یکے بعد دیگرے خلافت بنواُمیہ ، خلافت ِ عباسیہ اور خلافت ِ عثمانی سے ہوتی ہوئی ۱۹۲۴ء تک، بالفاظِ دگر ۱۳ طویل صدیوں تک قائم رہی۔ کسی اور سیاسی نظام کو دنیا میں ۱۳ صدیوں کی طویل عمر نصیب نہیں ہوئی۔
۱۳صدیوں پر محیط اس اسلامی یا مسلم خلافت کی دیرینہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اسلامی خلافت مسلمانوں کی بالخصوص برعظیم کے مسلمانوں کی دیرینہ تڑپ کا نام ہے۔ اسی لیے عثمانی خلافت کے خلاف ۱۹۱۳ء میں مغربی اقوام کے زیراثر جو جنگ ِ بلقان چھڑی تو ہندستان کے مسلمانوں نے ڈاکٹر مختاراحمد انصاری [۲۵دسمبر ۱۸۸۰ء- ۱۰مئی ۱۹۳۶ء]کی قیادت میں جنگ ِ بلقان کے زخمیوں کی طبّی امداد کے لیے ایک میڈیکل مشن ترکی بھیجا۔ اس مشن میں ڈاکٹروں کے علاوہ ہندستان کی اعلیٰ مسلم قیادت کے درج ذیل سات ارکان: ڈاکٹر ایم اے انصاری، شعیب قریشی، عبدالرحمٰن سندھی، چودھری خلیق الزماں، عزیز انصری، ملک غلام محمد (جو بعدازاں گورنر جنرل پاکستان بنے) اور منظور محمود شامل تھے۔ یہ میڈیکل مشن بھی خلافت ِ عثمانیہ کے لیے برعظیم کے مسلمانوں کی دیرینہ تڑپ کی بیّن مثال ہے۔
برعظیم سے مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد بھی اسلامی قوانین کا نفاذ بہ اندازِ دگر ہندستان میں قائم رہا۔ اسے نظامِ افتا (فتوے دینے کا نظام) کے ذریعے قائم رکھا گیا۔ پورے ہندستان میں آسام و بنگال سے صوبہ سرحد [اب خیبرپختونخوا]تک دارالافتا قائم کیے گئے، جن میں عبادات اور دیگر معاملات کے بارے میں مفتیانِ دین سے فتوئوں کے لیے رجوع کیا جاتا۔یہ نظام آج بھی جاری ہے۔ ان کے فتوئوں کے مجموعے آج بھی مستعمل ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑا ۳۰جلدوں پر مشتمل مجموعہ فتاویٰ عالم گیری کے نام سے مشہور ہے۔ ہندستان کے مسلم فرماں روائوں کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے برعظیم کی مسلم حکومت یہاں کے نظامِ فتاویٰ کے رُوپ میں قائم ہے۔
ترکیہ کی عثمانی خلافت سے اگرچہ ہندستان کے مسلمانوں کو براہِ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا تھا، مگر اس کے باوجود ۱۹۲۴ء میں اس کے خاتمے کا یہاں کے مسلمانوں کو اتنا دُکھ تھا کہ اس کی بحالی کے لیے ان لوگوں نے بمبئی میں ۱۹۲۰ء کے لگ بھگ خلافت کانفرنس قائم کی۔ خلافت کو ختم ہونے سے تو وہ بچا نہ سکے، تاہم ہندستان میںا سلامی حکومت کے احیا کا جو بیج خلافت کانفرنس بو گئی تھی، اس نے اپنا کام خوب دکھایا۔ انھی بیجوں نے ہندستان کے چند مسلمان اکابر کو برعظیم کے مسلم اکثریتی پانچ صوبوں پنجاب، سرحد (افغان صوبہ)، کشمیر، سندھ اور بلوچستان اور بعدازاں بنگال پر پاکستان بنانے اور وہاں اسلامی قوانین نافذ کرنے کا جذبہ اُبھار دیا۔
اس جذبۂ صادق کے محرکین نواب اسماعیل خاں اور چودھری خلیق الزمان تھے۔ اُن اصحاب نے جن میں ہندستان کے ملک گیر علما و فضلا جن میں مولانا سیّدسلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا آزاد سبحانی، ڈاکٹر ذاکرحسین خاں، مولاناسیّد ابوالاعلیٰ مودودی بھی شامل تھے۔ ان فرزندگانِ اسلام نے کئی برس کی محنت ِ شاقہ سے اسلامی نظامِ حکومت کا ایک ۲۷نکاتی خاکہ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی تیار کر دیا تھا۔ جسے ایک دردمند مسلمان، عزیز الدین نے ۱۹۵۶ء میں کراچی سے شائع کر دیا تھا۔
اس پوری داستان سے واضح طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نظریۂ پاکستان کا مفہوم اس سرزمین کے مسلم اکثریتی خطے میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہے۔ اس سے رُوگردانی اپنے ماضی سے رُوگردانی ہے۔
آخر میں اتنا اور عرض کرنا سودمند نظر آتا ہے کہ پاکستان کے سالِ تاسیس ۱۹۴۷ء سے رواں سال ۲۰۱۷ء کے دوران میں جہاں ہمارے اہلِ وطن، پاکستان کے مختلف النوع فوائد سے بہرہ وَر ہوتے رہے، وہیں ہم ایک بہت مُزمِن (chronic) اور وسیع الاثر نقصان سے دوچار ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی جمہوریت کی باگ ڈور فضلا اور خردمندوں کے بجاے عامیو ں کے ہاتھ میں چلی جانے دی۔ تاہم، اس سے بڑھ کر، ہمیں ناقص حکومت، ناقص طریقۂ انتخاب کی وجہ سے ملی۔ اگر اس کی اصلاح نہیں کی گئی تو ہم نااہلی کی تاریکی میں بھٹکتے رہیں گے۔
اس خرابی کو دُور کرنے کا کارگر طریقہ یہ ہے کہ انتخابات کرانے کا پورا انتظام اور اس کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار، اوّل تا آخر، حکومت کے ہاتھ سے نکال کر انتخابی مشینری کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ انتخابی مشینری بے غرض ہونے کی بنا پر صاف ستھرے انتخابات کرانے اور ہمارے آئین میں اسمبلی کی رکنیت کی اہلیت کے لیے دفعہ ۶۲ اور ۶۳ میں تحفظات پر اطمینان بخش طریقے پر عمل درآمد کراسکے گی۔