صحت، اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جوہرشخص کابنیادی اورقانونی حق ہے۔صحت حاصل کرنے اور اُسے برقرار رکھنے کے لیے سب زیادہ ذمہ داری ریاست پرعائد ہوتی ہے، کیوں کہ وہ اپنے عوام کی صحت وسلامتی اوردیگربنیادی ضروریات کی ضامن ہوتی ہے۔
صحت کیاہے جس کا حصول اتنا اہم قراردیاگیاہے؟اس انسانی حق کی تعریف ’عالمی ادارہ صحت‘ (WHO) کے مطابق اس طرح ہے:
ایک مکمل جسمانی،ذہنی،نفسیاتی اورسماجی (Well Being)تسلی بخش حالت، جومحض بیماری اورمعذروی(Infirmity)سے نجات تک محدود نہ ہو۔( ۱۹۴۸ء)
مختلف طبقوں اورعلاقوں کے انسانوں کے لیے معیارصحت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انسان خواہ جس حیثیت ،نسل،مذہب،رنگ،زبان سے تعلق رکھتاہو،عالمی ادارہ صحت وغیرہ انھی خطوط پر اپنی انتہائی مہنگی خدمات فراہم کرنے کے لیے دُنیا بھر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تاہم، ملکی سطح پریہ منظر بدل جاتاہے۔یہاں امیرغریب،دیہاتی شہری،خواندہ اَن پڑھ، مزدور اَجر،افسرماتحت،مافیاغیرمافیا،اشرافیہ عوامیہ،حاکم محکوم،ممبراسمبلی اورووٹر، شہری اور فوجی کے لیے قانون میں فرق ہے اور اطلاق جداجدا ہے ۔یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کی تعریف، معیار اوراُس کی سہولیات بھی الگ الگ ہوجاتی ہیں۔پاکستان میں صحت پہلے وفاقی موضوع تھا، اب ۱۸ویںترمیم کے بعد صوبائی ذمہ داری قرار پایاہے، البتہ کئی کلیدی اُمور پر وفاق کاکنٹرول ہے۔
انگریز کے لیے ہندستانی عوام کی صحت کی ضرورت اورحفاظت صرف اپنے کام کے ملازم، سپاہی اورفوجی تک محدود تھی، ورنہ عوام کسی کھاتے میںشمارنہیں ہوتے تھے۔انگریز کے لیے اپنے گورے سول اورفوجی ملازم ہی اہم تھے۔ چنانچہ چھائونیوں میں پہلے اُن کے لیے ہسپتال بنے اورصفائی کانظام بہترکیاگیا۔فوج کی صحت کے بعد انسپکٹرجنرل ڈسپنسریز اور جیل خانہ جات کاعہدہ قائم کیاگیا، جس نے فوجی پیداکرنے والے علاقوں میں ڈسپنسریوں کاآغازکیا،تاکہ صحت مند نسل کے نوجوان تاج برطانیہ کی حفاظت کے لیے بھرتی ہوسکیں۔وبائی امراض سے بچائو کے لیے بڑے شہروں اورقصبوں میں سینی ٹیشن اور چیچک وٹائیفائیڈ سے بچائو کے لیے حفاظتی ٹیکوں کاانتظام کیا گیا۔ دیہات جہاں۸۰ فی صد سے زائد محنت کش آبادی رہتی تھی اُسے آفات اور تعویذ گنڈے، جھاڑپھونک کے رحم وکرم پرچھوڑدیاگیا۔’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت نظام صحت وصفائی میں کچھ بہتری اس وقت آئی، جب انگریز کواپنی’نوآبادیاتی مملکت‘ پرجرمنی، اٹلی اورجاپان کے حملے کے خطرات منڈلاتے نظر آئے۔ تب اُس نے شہری دفاع،فائربریگیڈ اور شہری علاقوں میںسول ہسپتال قائم کیے۔
۱۹۴۷ء میں موجودہ پاکستان میں جہاں آبادی تقریباً ۳کروڑنفوس تھی، اس کےچاروں صوبوں اور مشرقی پاکستان میں انتظامی اضلاع اورڈویثر نوں کی تعدادبہت تھوڑی تھی۔ہرضلعی صدرمقام پر ایک سول ہسپتال اورضلع کے چند شہروں اور دوسرے حصوں میں محدود پیمانے پر ڈسپنسریاں تھیں۔ ان ڈسپنسریوں میں کئی مقامات پر LSMF ڈاکٹر یا نیم تربیت یافتہ ڈسپنسر تعینات کیے گئے تھے، جہاں زیادہ ترمقامی طورپرتیارکردہ گولیاں ،مکسچراور سفوف (پائوڈر) استعمال ہوتے تھے۔ مسلّمہ دواساز فیکٹری کی تیارشدہ ادویات نہیں ہوتی تھیں۔ملک بھرکے دیہات کسی ایمرجنسی اور میڈیکل امدادی سہولت سے محروم تھے۔ سیلاب اورمتعدی وبائی امراض اُن کا مقدررہے۔ مائوں، بچوں اور ضعیفوں کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔ عوام حفاظتی اور تائیدی صحت سے محروم تھے۔ سادہ زندگی میں امراض بھی سادہ تھے۔سیاسی اَدوار میں عام ہسپتالوں اورڈسپنسریوں میںمعتدبہ اضافہ نہ ہوا۔ البتہ پنجاب میں نشترمیڈیکل کالج، ملتان اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج، لاہور کے علاوہ چند ضلعی ہسپتال تعمیر ہوئے۔ انتظامی سہولت کے لیے ضلعی صدرمقام پرسول سرجن کی پوسٹ کومیڈیکل سپرنٹنڈنٹ(MS) اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر(DHO) میں بانٹ دیا گیا۔ایک شہر کے علاج کے لیے،دوسرا باقی ضلع میں صحت وصفائی اوروہاں قائم شدہ چند ڈسپنسریوں کی نگرانی کے لیے۔
صدر ایوب خان کے عہد میں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کاآغاز ہوا۔بیرونی امداد کے ساتھ ’عالمی ادارہ صحت‘ بھی فعال ہوتاچلاگیا۔انھوں نے حصول صحت اورتدارک امراض کی سہولیات اور ’بنیادی مراکز صحت‘(PHC) کے حوالے سےآٹھ نکات پرترقی پذیرملکوں کی توجہ مرکوزکرائی۔بنیادی صحت کے یہ عناصر ملک کی دیہی اورشہری تمام آبادی کے لیے یکساں ضروری قرارپائے: ۱-بنیادی علاج ،۲- بنیادی ادویات کی فراہمی،۳-زچہ بچہ،۴-حفاظتی ٹیکے، ۵-متعدی امراض خصوصاً ملیریاسے بچائو،۶-صاف پانی اورسینی ٹیشن،۷-متوازن غذا، اور ۸-تعلیم و صحت۔
اس تناظر میں ہریونین کونسل میں ایک بنیادی مرکزصحت تعمیرہوا۔ان مراکز کا مقصد یہ تھاکہ خصوصاً دیہی آبادی کو بنیادی صحت کے مذکورہ بالا آٹھ عناصر اُن کے گھرکے نزدیک میسر ہوں۔ ہرچند کہ عملہ وافر تھا، مگر یہ مراکز بہت کم اپناہدف یامقبولیت حاصل کرسکے۔ دیہی مرکز پر ایکسرے، ڈینٹل چیئر، لیبارٹری، آپریشن روم،لیبرروم،کمپائوڈر،ایمبولینس موجود ہیں مگر کرپشن (بدنظمی، بدعنوانی، لاپروائی، قانون سے بے خوفی وغیرہ) کی بنا پران کی موثرکارکردگی مشتبہ ہے۔اتنے بڑے منصوبے کی بے اثری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صحت اوردیگر تعمیری کاموں میں پلاننگ، بجٹ، فنڈنگ، تعمیر، کارکردگی، غرض تمام کنٹرول بیوروکریٹ کلاس کے افسروں کارہا۔اُن پالیسی سازوں کی توجہ کا ارتکاز بدستور بڑے شہر،بڑے ہسپتال ،ذاتی مفاد اور حکمرانوں کی خوشنودی رہا۔ اُن مراکز صحت کی تعمیر میں اصل ہدف تو ’بنیادی مراکز صحت‘ کےآٹھ نکات کوکامیاب بناناتھا۔ لیکن یہ مراکز،پہلے سے موجود ڈسپنسریوں اورسول ہسپتال کی طرح بیوروکریسی کی نااہلی اور لاپروائی کاشکار ہوتے رہے۔اس بے خبری میں ڈاکٹروں نے بھی اپنی پیشہ وارانہ کوتاہی سے فائدہ اُٹھایا۔
آج ملک کے۱۳۶ اضلاع میں۵ہزار ’بنیادی مراکز صحت‘،۶۰۰ ’دیہی مراکز‘ اور ۱۰۰۰کے لگ بھگ ضلعی اورتحصیلی ہسپتال ہیں۔ان میں تدریسی،سپیشل اورڈویزنل ہسپتال بھی شامل ہیں۔ ۶۰ فی صد بنیادی اور۲۵فی صد ’دیہی مراکزصحت‘ شروع دن سے ایسی جگہوں پرتعمیرکیے گئے ہیں، جو قبرستان کے ہمسایے اورآبادی سے دُور، ویرانے میں ہیں۔ناقص تعمیرکردہ عمارتیں اکثر کھنڈربن چکی ہیں۔ سامان ناقص اورٹرانسفارمر غائب۔ بعض جگہوں پر مقامی وڈیروں، ارکانِ اسمبلی کے ساتھیوں کاقبضہ ہے۔عملہ علاقے کی گروہی سیاست کاشکار ہے۔ جو مراکز کام کررہے ہیں وہاں کا عملہ اکثرکام چوراورنااہل ہے ۔برابرتربیت کا نظام ناپید ہے۔ دوائیں ناکافی ہیں اورکام کی دوائیں بچتی نہیں۔خریداری میں کمیشن کا بھائو بہت بڑھ گیا ہے۔ عملے کی نگرانی اورکنٹرول کے لیے نوکرشاہی کااستعمال غیرمؤثررہاہے، بلکہ اس سے کارکردگی مصنوعی اورسطحی ہوکررہ گئی ہے۔
ا :علاج معالجہ (Curative) ، ب: حفاظت وتدارک (Preventive) ، ج:تائیدوترقی صحت (Promotive)، د: طبی تعلیم وتربیت (Training Education)، س:مطبی تحقیق وترقی (Development & Research)۔
۱- صوبائی اوروفاقی حکومتیں(سرکاری) ۲- فوجی ونیم فوجی، نیم سرکاری اور بلدیاتی ادارے ۳-نجی(پرائیویٹ)سیکٹر۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ۹۰ فی صد سے زائد عوام ایلوپیتھی طریقۂ علاج سے استفادہ کرتے ہیں۔صحت کے اداروں نے معیارصحت جانچنے کے جومعیارات طے کیے ہیں اور ’عالمی ادارہ صحت‘ کے MDG (Mallinium Development Goal) یہ ہیں:
۱- نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی، ۲-حاملہ مائوں کی شرح اموات میں کمی،۳-ایڈز سے شرح اموات میں کمی، ۴- حیات کے متوقع دورانیہ میں اضافہ، ۵- متعدی امراض میں شرح اموات میں کمی،۶- پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ۷-بیت الخلا اورنکاسی آب کی سہولت،۸- کم عمر بچوں کے لیے غذائی توازن اورمناسب وزن،۹- ۵ سال تک کے بچوں میں بیماریوں کے خلاف مدافعت اور بچائو، ۱۰-ماحولیاتی صحت اورصفائی۔
لیکن صدی کے بین الاقوامی مطلوبات کے ساتھ پاکستان کے معروضی حالات میں درج ذیل اُمورِ صحت بہت اہمیت کے حامل ہیں، جن کو ہرحال میں ملحوظ رکھنا ہی حصول صحت میں مددگار اورمعاون ثابت ہوسکتاہے۔اُن کو نظرانداز کرکے حصول صحت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا:
پنج سالہ منصوبوں اوردیگرسالانہ ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے علاج معالجے کی سہولتیں خصوصاً میگا ہسپتالوں(Tertiary Care) کی تعمیراورقیمتی برآمدی مشینوں کی خریداری پر کثیررقوم صرف ہوئی ہیں۔یونیسیف اور WHO کی مدد سے تائیدی اورحفاظتی پروگراموں میں توسیع ہوئی ہے، جیسے نیشنل لیڈی ہیلتھ پروگرام مگربعد میںاس پر مزید فرائض لاد دیے گئے۔ یوں اس پروگرام کا اصل مقصد فوت ہوکررہ گیا۔اس پروگرام کے تنقیدی جائزے اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یرقان اور ایڈز کاتدارک وعلاج، بنیادی صحت کے مراکزمیں ۱۰۰ فی صد کے لگ بھگ عملے کااضافہ ہواہے، جو وقت کی سیاسی حکومت کے مقامی ارکانِ اسمبلی کے مرہونِ احسان ہیں۔ خدمات اورکام کے لحاظ سے مراکزصحت کی مجموعی کارکردگی متاثرکن نہیں ہوسکی۔ بلاشبہہ آبادی کئی گنا بڑھ گئی ہے اورمسائل اس سے بھی زیادہ، لیکن آبادی کی ضرورت کے مطابق اضافے کے بجاے سہولیات صحت میں کمی آئی ہے: کمیت، یعنی تعداد ومقدار اورکیفیت، یعنی معیار اوراثرمیں۔
شعبہ صحت عامہ میں بہ نظرظاہرشان دارعمارتوں، قیمتی مشینوں اورعملے کی تنخواہوں میں وافر اضافے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ عام آدمی اپنی صحت وسلامتی کے بارے میں مطمئن نہیں ہے؟ ملکی اہداف صحت اورعالمی اہداف صحت دونوں پورے نہیںہورہے ۔پولیو کے خاتمے کے لیے ان گنت مرتبہ قطرے پلائے جاچکے ہیں، لیکن پولیو ہے کہ ختم ہونے کانام نہیں لیتا۔ایک ایک بستر پر ۳،۳مریض،ایمرجنسی سروسز ناکافی ،حادثات میںبڑھتی ہوئی اموات، جگہ جگہ فارماانڈسٹری لگانے اور قیمتیں بڑھانے کے باوجود دوائوں کا بحران، ڈاکٹروں،معاون عملے اور ہسپتالوں کے خلاف بڑھتی ہوئی شکایات ،بڑے ہسپتالوں میں مہنگی مگر خراب مشینری کے گورستان، غرض جوں جوں سسٹم کے اندراُترتے جائیں تومعلوم ہوتاہے کہ سرکارصرف دکھاوے کا کام کرر ہی ہے مگر صحت کے نظام کی اصلاح کی قائل نہیں ہے۔سسٹم پوری طرح ناکارہ بلکہ کمپیوٹراصطلاح میں کرپٹ ہوچکاہے اور اس میں اصلاح کرنے پرکوئی مائل نہیںنظرآتا۔
غرض شعبہ صحت میں پچھلے ۷۰ سالوں میںاگر ایک قدم آگے بڑھا ہے تو تین قدم ہم پیچھے ہٹے ہیں۔عملے ،عمارتوں اورمشینوں کے باوجود اخلاص،اخلاق ،خداترسی اورتکنیکی مہارت غائب ہوگئی ہے ۔ طب ایک کمرشل کاروبار کی شکل اختیارکرچکاہے ۔معالجوں کامشینوں پر اعتباربڑھ گیا ہے۔ ہرمریض سونے کاانڈا دینے والی مرغی بن کررہ گیا ہے، کیوں کہ جوکچھ اُوپرہورہاہے اُسی کا عکس نیچے پڑتاہے۔ڈاکٹروں میں انسان نوازی اورمریض دوستی بلکہ قوم پرستی جنسِ نایاب ہوکر رہ گئی ہے۔ صحیح تشخیص،مناسب علاج،سستی دوائیں ،ہمدردانہ رویہ اورمناسب خرچ (Affordable) وقت کی ضرورت ہے۔
o تحقیق ناگزیر تقاضا: ترقی کے عمل میں تحقیق و ترقی (R & D) ایک ناگریز ضرورت ہے۔پاکستان میں عام جامعات ہوں یامیڈیکل کے ادارے ،تحقیق نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کاغذوں میں لکھا ہے کہ اسسٹنٹ ایسوسی ایٹ اور فل پروفیسر بننے کے لیے ایک مقررہ تعداد میں جینوئن اوراوریجنل ریسرچ پیپردرکارہیں۔یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ دیگر اداروں اورجامعات کی طرح محکمہ صحت کے ٹیچنگ کیڈر میں حاضراساتذہ کے ریسرچ پیپر ساختہ، جعلی اورکسی دوسرے طالب علم کی عارضی محنت کاحاصل ہوتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ کوئی میڈیکل کالج، میڈیکل یونی ورسٹی یاکالج آف فزیشنزوسرجنز طب میں،پبلک ہیلتھ میں،فارمامیں کوئی ریسرچ نہیں کروا رہا۔ یہ سب فرضی کام کرتے ہیں،کیوں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کی طرح پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(PMDC) کو ان ’چھوٹے‘ کاموں میں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔جب اُستاد ہی جعلی ریسرچ پر تعینات ہوگاتو ایم ایس، M.Phil اور FCPS کی ریسرچ میںشاگردوں کی کیا رہنمائی کرے گا؟
تحقیق کے لیے بجٹ ، ریسرچ اسکالرز،لائبریری اوردیگرسہولیات کافقدان ہے۔وجہ یہ ہے کہ پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کاشعبہ بیوروکریسی کے پاس ہے جو تحقیق و ترقی (R&D)کو کارفضول سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہمارے طبی محقق ملک کی بیماریوں اورقوم کے مسائل صحت کے حوالے سے تحقیق کریں جوہمارے لیے مفیداورنظام صحت کو بہتربنانے میں مدد دے اور جن سے ملک وقوم کوواضح فائدہ ملے۔