قیامِ پاکستان کے وقت دونوں حصوں، مغربی پاکستان (اب پاکستان) اور مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کی مجموعی طور پر آبادی ۶کروڑ تھی۔ اب پاکستان کی آبادی ۲۱کروڑ سے زیادہ اور بنگلہ دیش کی ساڑھے ۱۶ کروڑ ہے۔ یہاں ۷۰برسوں میں کم و بیش نصف مدت فوجی اور نصف مدت جمہوریت کی حکمرانی رہی۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں برابری (Parity) کا اصول طے کرنے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا دستور ۱۹۵۶ءمیں بنا اور ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو صدر اسکندر مرزا نے مارشل لا لگا کر اس دستور کومنسوخ کر دیا۔ پھر ۲۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو سپہ سالار جنرل ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کو معزول کر کے اسی مارشل لا کے تحت عنانِ حکومت سنبھال لی۔ پھر اپنی مرضی سے دوسرا دستور ۱۹۶۲ء میں نافذ کیا۔ انھی کے جانشین جنرل یحییٰ خاں نے ۱۹۶۹ء میں اس دستور کو بھی منسوخ کر دیا۔ ۷دسمبر کو متحدہ پاکستان میں ’ون مین ون ووٹ‘ کے اصول پر پہلے قومی انتخابات ہوئے۔
مشرقی اور مغربی پاکستان میں الگ الگ پارٹیاں منتخب ہوئیں۔ یہ دونوں کسی متفقہ آئینی فارمولے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوئیں۔ مشرقی پاکستان سے کامیاب عوامی لیگ نے کھلم کھلا بغاوت اور بھارت سے فوجی و سیاسی امداد کا راستہ اختیار کیا۔ انجامِ کار ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو بھارت کی عریاں فوجی جارحیت کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ مغربی پاکستان، جو ۲۰دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد پاکستان کہلایا، اس میں ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا متفقہ دستور پاس ہوا اور ۱۴؍اگست ۱۹۷۳ء کو نافذ ہوا۔ آج تک پاکستان کے چاروں صوبوں، قبائلی علاقہ جات ، شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کی اساس یہی دستور ہے۔ اس دستور میں اب تک ۲۲ترامیم ہوچکی ہیں۔
الغرض پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل جاری نہ رہ سکا، نہ سیاسی جماعتیں مضبوط ہوئیں اور نہ دستوری حدود کے اندر رہتے ہوئے ادارے ہی مضبوط ہوسکے۔ اس لیے ہمارے ہاں مقتدرہ کبھی علانیہ اور کبھی پس پردہ کرامات دکھاتی رہی۔اب درست یا غلط، بدقسمتی سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ آزاد عدلیہ کا مقتدرہ کے ساتھ ایک غیرمرئی تعلق قائم ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ ہمارے ہاں پارلیمنٹ، جمہوری اداروں اور سیاسی جماعتوں کے مستحکم نہ ہونے کی ذمہ داری خود سیاست دانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ۱۹۸۵ء میں غیر جماعتی بنیاد پرقومی انتخابات ہوئے۔ ان کا مقصد بھی سیاسی جماعتوں کو کمزور اور منقسم کرنا تھا اور فی الواقع ایسا ہی ہوا۔ لسانی بنیادوں پر سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور مذہبی گروہوں کے مسلح جتھے اور ان کی باہم آویزش کا آغاز بھی فوجی حکمرانی کے دور میں ہوا۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اور صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کی عسکری حکمرانی کے نتائج پاکستان اب تک بھگت رہا ہے۔
پس، ہمارے سیاست دانوں کو اپنی ناکامیوں، نادانیوں اور عاقبت نااندیشیوں کا بھی اعتراف کرنا چاہیے اور سارا بوجھ دوسری جانب ڈال کر اپنی معصومیت و بے گناہی کا واویلا نہیں کرنا چاہیے۔ وطن عزیز کو ایسے قائد (Statesman) اور مُدبّر کی ضرورت ہے، جو لمحۂ موجود کا اسیر بن کر نہ رہے، بلکہ دُوراندیش اور صاحب ِ بصیرت ہونا چاہیے۔کوتاہ بینی کا انجام تو آج سب کے سامنے ہے۔ ہمارا شعار یہ ہے کہ : ’’اولاد، ماں باپ کے تجربے سے اور شاگرد، استاد کے تجربے سے سبق حاصل نہیں کرتا، تاوقتیکہ اسے خود ٹھوکر نہ لگے‘‘۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاست دان اور حکمران تاریخ یا دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرنا تو درکنار، خود ٹھوکر کھا کر بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ ان کا شعار اپنی غلطیوں کو بار بار دُہرانا اور ہربار ایک ہی انجام سے دوچار ہوناہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: ’’تم ضرور ہو بہو پچھلی اُمتوں کے طریقوں کی پیروی کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے، تو تُم بھی ان کی پیروی کرو گے۔ ہم نے عرض کیا:یارسولؐ اللہ! آپؐ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اور کون؟ ‘‘ (بخاری: ۷۳۲۰)
سو، ہمارے سیاست دانوں کی کمزوریاں، اُن کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہیں، جیسے اب جناب نوازشریف کو عوام کا مینڈیٹ اور پارلیمنٹ کی بالادستی سب کچھ یاد آرہا ہے، لیکن کیا انھوں نے چار سال تک پارلیمنٹ، کابینہ اور خود اپنی سیاسی جماعت کو وہ وقعت دی، جو ان کا استحقاق تھا؟
۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۹ء تک کے جمہوری اَدوار میں سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں مصنوعی سیاسی جماعت تشکیل دینے کے لیے اداروں کے ہاتھوں استعمال ہوئے۔ ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اپنے اتحادیوں سمیت اقتدار میں آئی لیکن آزاد عدلیہ کے دبائو میں رہی کہ اس حکومت پر کرپشن اور نااہلی کی چھاپ کا شہرہ تھا۔ ۲۰۱۳ء کے انتخاب کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی، لیکن تحریک ِ انصاف کی جانب سے اس کے خلاف مسلسل محاذ آرائی جاری رہی۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے جس آئینی و قانونی بنیاد پر جناب نواز شریف کو نااہل قرار دیاہے، اس کے بارے میں آئینی و قانونی ماہرین کی آرا منقسم ہیں۔ہمیں محدود عصبیتوں سے نکل کر بحیثیت مجموعی ملکی اور قومی وقار کو بھی دیکھنا چاہیے اور اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ کون چلا گیا اور اس کی جگہ کون لے گا؟
ان ۷۰برسوں میں پاکستان نے دفاعی حوالے سے جو غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا، وہ ایٹم بم بنانا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو ایک طرح کا تحفظ مل گیا ہے اور ایٹم بم کو سدِّجارحیت کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ بات پوری قوم کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایٹم بم آج تک صرف امریکا استعمال کرسکا ہے۔ مسلم ممالک پر تو چڑھائی کرنے میں امریکا ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتا اور ’تمام بموں کی ماں‘ گرا دیتاہے، لیکن شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی پابندیوں اور طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کے سوا کوئی عملی اقدام نہیں کرسکا۔ اشتراکی روس، افغانستان میں اپنی ہزیمت، پسپائی اور تحلیل برداشت کرگیا، لیکن ایٹم بم چلانے کی ہمت نہیں کرسکا۔ دفاع اور عالمی وقار کے لیے ملک و قوم کا سیاسی و معاشی استحکام، قومی اتفاق راے اور ملّی اتحاد بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل پاکستان کی تاریخ سے بالکل بے بہرہ ہے اور دوسرا یہ کہ تاریخ پڑھائی بھی نہیں جاتی۔ میڈیا جو تاریخ بیان کرتا ہے، وہ متنازعہ، مسخ شدہ اور بیان کرنے والوں کی اغراض کی آلۂ کار ہوتی ہے، مگر تاریخ ہرگز نہیں کہلاسکتی۔ تاریخ کے حوالے سے ہرایک کی تعبیر اپنی اپنی عصبیتوں کے تابع ہے۔ ایک کے نزدیک کوئی ابلیس ہے، تو دوسرے کے نزدیک فرشتہ، ایک کے نزدیک کوئی شہید ہے، تو دوسرے کے نزدیک قاتل۔ پاکستان میں کرپشن کی ابتدا جعلی کلیموں سے شروع ہوئی، لوگوں کے نسب بدل گئے، کئی نامی بے نام ہوگئے اور کئی بے نام نام وَر بن گئے۔ نذیردہقانی نے خوب کہا ہے ؎
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
پھر کرپشن، لُوٹ مار اور بددیانتی ہمارے جسد ِ ملّی کے رگ و پے میں سرایت کرتی چلی گئی۔ پہلے راشی اور مرتشی ہونا عیب تھا، مگر ازاں بعد اعزاز بن گیا۔ علم اور کردار بے توقیر ہوگئے اور دولت ذریعۂ وقار و افتخار بن گئی۔ یہ اَخلاقی امراض وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرضِ مُزمن (chronic) کی شکل اختیار کرگئے۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو صدر ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے اَدوار غنیمت نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر صدر ایوب خان کے دور تک اعلیٰ بیوروکریسی کے انتخاب میں اقرباپروری نہیں تھی، مگر ۱۹۷۱ء کے بعد تنزل، اقرباپروری اور ذاتی پسند و ناپسند کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ اسی طرح جن اکابر علما ے دین نے تحریکِ پاکستان میں جان دار کردارادا کیا تھا، آج ان کے اسماے گرامی آپ کو نصابی کتابوں اور قومی تاریخ میں نہیں ملیں گے۔ دین اور اہلِ دین کے حوالے سے ہر آن زہر اُگلا جاتا ہے اور تحریکِ پاکستان کے سب سے بنیادی اور جوہری محرک، دین اسلام کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس ظلم کا مداوا سیکولر قوتوں نے نہیں، بلکہ دینی حمیت اور ملّی وابستگی رکھنے والے محب ِ وطن اہلِ دانش نے کرنا ہے۔ لیکن افسوس کہ ایسی جنس گراں مایہ ذرا کم ہی دکھائی دیتی ہے۔
l ہم جو آزاد قوم ہیں: الحمدللہ علٰی احسانہ، ہم ایک آزاد قوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک آزاد اور خودمختار وطن کی نعمت سے نوازا ہے۔ ہمارا اپنا ایک دستور اور ایک نظامِ ریاست و حکومت ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے وطنِ عزیز کو ایک غیرمعمولی محلِ وقوع سے نوازا ہے، اس لیے دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو یکسر نظرانداز نہیں کرسکتیں۔ ہم دنیا کی ساتویں اور مسلم ممالک کی پہلی ایٹمی قوت ہیں۔ ہمارا ایٹمی پروگرام اور میزائل ٹکنالوجی ہمارے حریف ملک بھارت سے بہتر اور برتر ہے۔ ہم کافی حد تک اپنے لیے دفاعی سامانِ حرب تیار کر رہے ہیں اور برآمد بھی کر رہے ہیں۔ پاکستانی فوج افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت، عزم و حوصلے، جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کے اعتبار سے ہم اپنے حریف ملک کے مقابلے میں بہت آگے ہیں۔ ہماری قوم ذہانت کے اعتبار سے بھی مسلّم ہے، امریکی اور مغربی ممالک میں ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ باعزت شعبوںسے وابستہ ہیں۔ ہمارے نوجوان عزم، ولولہ اور ذہانت سے معمور ہیں۔
ہمارے حریف ملک بھارت نے کمپیوٹر کی سافٹ ویئر انڈسٹری کو کافی ترقی دی ہے، بالخصوص جنوبی ہند اس کا بہت بڑا مرکز ہے۔ اگر ہمارے نوجوانوں کو جدید کمپیوٹر، سافٹ ویئر کی تربیت دی جائے، سہولتیں فراہم کی جائیں تو ان شعبوں میں بھی ہم کافی ترقی کرسکتے ہیں۔ نادراسافٹ ویئر اسی شعبے میں ہماری مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ الغرض پاکستان میں امکانی استعداد اور مواقع بہت ہیں۔ کاش! ہم ان سے پوری استعداد کے مطابق فائدہ اُٹھا سکیں۔
اسی طرح ہمارے منفی پہلو بھی بہت ہیں۔ ہم اگرچہ جسمانی اور جغرافیائی طور پر آزاد ہیں، لیکن ذہنی و فکری آزادی اور معاشی خودکفالت کی آزادی تاحال حاصل نہیں کرپائے۔ ہمارے ہاں دستوری و جمہوری نظام کا تسلسل نہیں رہا۔ ہم ہمیشہ شکست و ریخت سے دوچار رہتے ہیں۔ ہم وقفے وقفے سے فوجی حکمرانی اور جمہوریت کے تجربات کرتے رہتے ہیں، لیکن بحیثیت قوم ہمارے مزاج میں قرار و سکون اور استقلال نہیں ہے۔ ہم چند ہی برسوں میں ایک طرح کے نظام سے بیزار ہوجاتے ہیں، تبدیلی کی خواہش کرنے لگتے ہیں اور پھر اس تبدیل شدہ ڈھانچے سے بھی جلد اُکتا جاتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے لیے ہم پر اعتماد کرنا دشوار ہے، دنیا کو پتا نہیں کہ ہمارا آنے والا کل کیسا ہوگا؟ لہٰذا، ہم سے دیرپا معاملات کرنے میں انھیں دشواری ہے۔ ہم نے امریکا اور یورپ کو شروع ہی سے دوست بنایا۔ سیٹو اور سینٹو ایسے معاہدات میں امریکا کے طفیلی بن گئے، مگر اس کے نتیجے میں مادی دنیا میں ممکنہ امکانات سے پورے فوائد نہ اُٹھا سکے اور دوسری جانب امریکا اور مغرب پر انحصار نے ہمیں مکمل خودکفالت سے محروم رکھا۔
بھارت تو ہمارا روزِ اوّل سے دشمن ہے۔ کشمیر کا تنازع دونوں کے درمیان دائمی وجہِ نزاع ہے اور اُس کے پُرامن حل کے لیے بھارت تیار نہیں ہے۔ ماضی میں بھارت امریکا سے دُور اور اشتراکی روس کے نہایت قریب تھا۔ لیکن اب چین کا حریف، بڑی معیشت اور بڑی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے وہ امریکا اور مغرب کا منظورِ نظر ہے۔ امریکا ہمارا حلیف ہونے کے باوجود ہمیں F-16 ، جیٹ فائٹر اور دیگر جدید اسلحہ دینے پر تیار نہیں ہے، جب کہ بھارت کو وہ یہی اور اس سے بھی جدید اسلحہ ٹکنالوجی سمیت فروخت کرنے کے لیے تیار ہے۔ طالبان کے دور کے علاوہ افغانستان سے ہمارے تعلقات کبھی خوش گوار نہیں رہے، اس کا جھکائو ہمیشہ بھارت کی طرف رہا ہے۔ ایران سے بھی ہمارے اقتصادی تعلقات کبھی اعلیٰ سطح کے نہیں رہے اور نہ دوطرفہ تجارت کا حجم معتدبہ سطح تک پہنچ پایا، لیکن اب ہم ایران کے ساتھ تنائو اور بے اعتمادی کے دور سے گزر رہے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب کا ایران و شام اور اب قطر کے ساتھ تنائو انتہائی حدوں کو چھورہا ہے اور اس کی وجہ سے ہماری پوزیشن ڈانواں ڈول ہے، جب کہ بھارت بیک وقت باہم متصادم اور محاذ آرا ان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو اعلیٰ سطح پر قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب کا ہم سے علانیہ یا غیرعلانیہ مطالبہ ہے کہ ایران کو چھوڑ کر ہمارے کیمپ میں آجائو، جب کہ ہم اس مطالبے پر پورا اُترنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، کیوں کہ ایران ہمارا قریب ترین ہمسایہ ہے اور اُسے ہم پر اعتماد بھی نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات سے بھی پہلے جیسے تعلقات نہیں ہیں۔ علامہ اقبال نے نظم ’فریادِ اُمت‘ میں جو کچھ لکھا ہے ، آج ہم اس کا مصداق ہیں:
رند کہتا ہے ولی مجھ کو، ولی رند مجھے
سن کے ان دونوں کی تقریر کو حیراں ہوں مَیں
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
کوئی کہتا ہے کہ اقبال ہے صوفی مشرب
کوئی سمجھا ہے کہ شیدائے حسیناں ہوں میں
ظاہری ٹھیرائو کے باوجود داخلی طور پر ہم معاشی عدمِ استحکام، سیاسی افراتفری اور اضطراب کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے جمہوری نظام میں شامل سیاسی رہنمائوں کے درمیان نفرتیں انتہا پر ہیں۔ ایک دوسرے کی بے توقیری اور تحقیر و تضحیک اُن کا من پسند مشغلہ ہے۔ ہر ایک جزوی طور پر اقتدار میں حصہ دار بھی ہے اور اختلاف کے دبدبے سے بھی لطف اندوز ہورہا ہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان باہمی اعتماد کا فقدان ہے اور ہم یہ سوچ کر حیران ہیں کہ انھیں حالات کی نزاکت اور گردوپیش کی حساسیت کا اِدراک کیوں نہیں ہے؟