سیرتِ طیبہؐ کے مختلف پہلوئوں اور گوشوں پر بیسیوں بلکہ سیکڑوں کتابیں اور مقالات لکھے جاچکے ہیں لیکن قرآنِ حکیم کی روشنی میں سیرتِ پاکؐ پر کم ہی قلم اُٹھایاگیا ہے۔ ایک صدی پہلے مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا تھا: ’’آج تک کبھی اس کی کوشش نہیں کی گئی کہ صرف قرآنِ حکیم میں دائرہ استناد و اخذ محدود رکھ کر ایک کتاب سیرت میں مرتب کی جائے‘‘۔ مولانا آزاد نے مولانا شبلی کو بھی اس طرف متوجہ کیا تھا۔ ۲۰۱۰ء میں دارالمصنّفین اعظم گڑھ میں منعقدہ سیمی نار بہ عنوان ’مصادرِ سیرت‘ میں مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی نے اپنے لیے موضوع ’’سیرتِ رسولؐ کا اہم ترین ماخذ قرآنِ مجید‘‘ منتخب کیا۔ زیرنظر کتاب اسی مقالے کی توسیع ہے۔
فاضل مصنّف کہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم سیرتِ رسولؐ کا سب سے اہم، بنیادی، معتبر اور مستند ماخذ ہے۔ کتاب کے پہلے حصے میں ۲۴ عنوانات کے تحت سیرتِ پاکؐ کے مختلف پہلو نمایاں کیے گئے ہیں۔ ہر عنوان میں اوّلاً ایک مختصر سی ’تمہید‘ ہے۔ بعدہٗ قرآنِ حکیم کی متعلقہ آیات اور ان کا اُردو ترجمہ، پھر اس کی وضاحت۔ اسی طرح دوسرے حصے میں دعوت کے ۱۸ پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ہمارے ہاں محبت ِ رسولؐ اور عشقِ رسولؐ کے اظہار کے لیے بہت کچھ کیا جاتا ہے۔ اگر اس کتاب کی مدد سے قرآنِ حکیم کی روشنی میں دیکھا جائے کہ محبت ِ رسولؐ کے اصل تقاضے کیا ہیں، تو شاید ہماری عملی زندگیوں میں کچھ تبدیلی آجائے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
سیّد محمود حسین نقوی مودودی (وفات: ۳۰ نومبر ۱۹۸۷ء) نے خاندانِ مودود چشتیہ کا تذکرہ تیار کیا تھا جو ۳۵ شخصیات (از سیّدنا امام علی زین العابدین تا سیّدابوالاعلیٰ مودودی) پر مشتمل ہے۔اس فہرست میں چودھویں بزرگ کا نام قطب الاقطاب خواجہ سیّد مودود چشتی تھا۔ انھی کی پیڑھی کے تمام بزرگ مودودی چشتی کہلاتے تھے۔
دیباچہ نگار سیّدخالد محمود نقوی مودودی (مقیم لندن) لکھتے ہیں: صوفیہ کے چودہ سلاسل ائمۂ اہلِ بیت، سادات کے توسط سے حضرت علیؓ ابن ابی طالب تک پہنچتے ہیں۔ ان میں سے ایک سلسلہ ساداتِ مودود چشتیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس خاندان کے بزرگوں نے تیرہ سو برس تک ارشادو ہدایت اور فقرو درویشی کو جاری رکھا۔یہ تاریخ انھی بزرگوں کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ ہربزرگ کے حالات متعدد ضمنی عنوانات (نام، نسب، ولادت، تعلیم و تربیت، اخلاق و اوصاف، عبادات، وفات وغیرہ) کے تحت دیے گئے ہیں۔ مزید عنوانات، متعلقہ شخصیت کے امتیازی پہلوئوں کے مطابق قائم کیے گئے ہیں۔ بعض بزرگوں کے حالات مختصر اور بعض کے حالات نسبتاً طویل ہیں۔ ایسے تذکروں میں تذکرہ نگار، عموماً بزرگوں کے کشف و کرامات کے قصّے بہ کثرت بیان کرتے ہیں لیکن جیسا کہ سیّد محمود حسین نے لکھا ہے: مصنف مرحوم نے اِس تذکرے میں کرامات کے بیان سے کافی حد تک اجتناب کیا ہے۔ اِس اعتبار سے اِس کتاب کی نوعیت تربیتی ہے۔
یہ سارے بزرگ عوام کو شعائر اسلامی کی پابندی کی تلقین کرتے اور امرا اور سلاطین کو عدل و انصاف، مظلوم کی داد رسی، رعایا پرور ی اور شریعت کی پیروی کی نصیحتیں کرتے تھے۔ ہمیں دیباچہ نگار کی اِس راے سے اتفاق ہے کہ اگر ہندستان کو فتح کرنے میں محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری اور بابر کا ہاتھ ہے تو یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ ہندستان کی روح کو مودود چشتی درویشوں نے فتح کیا۔ یہ درویش صفت انسان کی باطنی زندگی اور ظاہری زندگی کے نبض شناس تھے۔ حالات و واقعات کا پیرایۂ بیان دل چسپ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
رفتگاں کی یاد اور ان کے کارناموں کو تازہ رکھنے کے لیے فاضل مصنّف کی نئی کتاب ہے۔ سلسلۂ رفتگاں کا یہ چھٹا حصہ ہے، جس میں ۲۱ شخصیات کا تذکرہ شامل ہے۔ اس تذکرے میں عزیمت کے بلند منصب پر فائز شہداے بنگلہ دیش (مولانا مطیع الرحمٰن نظامی، علی احسن محمدمجاہد، میرقاسم علی) کے مفصل حالات شامل ہیں۔ اسی طرح تحریکِ اسلامی کے وابستگان (ملک محمداسلم، گل انداز عباسی، معراج الدین خان، ظفرجمال بلوچ، حکیم عبدالرحمٰن عزیز،مولانا عبدالوکیل علوی وغیرہ) کے علاوہ کچھ ایسے رفتگان کا ذکر بھی ہے، جو براہِ راست تحریک سے وابستہ نہیں تھے، مگر مقصد ِ زندگی کی یکسانیت کی بنا پر تحریک سے ان کے ذہنی اور قلبی روابط استوار تھے۔
اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی تحریک نے کیسے کیسے صاحبانِ کردار پیدا کیے، جو ہمارے معاشرے کے لیے بہترین انسانوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں انھوں نے خواہ کیسی ہی تنگی و ترشی میں زندگی گزاری ہو، آخرت میں وہ بامراد ہوں گے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
انقلاب(بمبئی) بھارت کی اُردو دنیا کا مقبول روزنامہ ہے۔ زیرنظر کتاب انقلاب میں گذشتہ پانچ چھے برسوں کے دوران میں شائع ہونے والے ڈاکٹر زرقانی کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ زرقانی عالمِ دین ہیں۔ لیبیا اور دیگر عرب ممالک میں زیرتعلیم رہے۔ ہیوسٹن (امریکا) کی ایک مسجد کے خطیب اور وہاں کے لون اسٹار کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے اسی زاویے سے مشرق (مسلم) اور مغرب کے مسلم حکمرانوں پر اور اُن کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی ہے جو زیادہ تر بجا ہے۔
انڈونیشیا سے انھیں بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ ۳۹ممالک میں کروائے گئے ایک سروے کے مطابق انڈونیشیا کے تقریباً ۹۸ فی صد لوگ پابندی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح مسجد جانے والوں کا تناسب سب سے زیادہ انڈونیشیا ہی میں ہے۔ فی کس آمدنی کے لحاظ سے انڈونیشیا ۱۲۶ویں نمبر پر ہے، مگر دین داری کے اعتبار سے بہت اُوپر ہے۔
مصنّف نے سعودی عرب میں غیرملکیوں کے لیے نظامِ کفالیٰ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عصرِحاضر میں نظامِ کفالیٰ دراصل رواجِ غلامی کی ترقی یافتہ شکل ہے (ص ۷۱)۔ بعض کفیل صرف دستخط کرنے کے عوض غیرملکیوں سے بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ غیرملکی مزدوروں کے ساتھ زیادتی کے متعدد واقعات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔
مجموعی حیثیت سے یہ تبصرے تعمیری ہیں۔ وہ مسلم معاشروں کی حالت پر افسردہ خاطر ہیں اور مسلمانوں کو اتحاد کا درس دیتے ہیں۔ یہ مجموعہ پہلے دہلی سے چھپا تھا۔ پاکستانی ناشر نے اِس نوٹ کے ساتھ شائع کیا ہے کہ ’’پبلشر کا مصنّف سے کامل اتفاق ضروری نہیں‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی)
o امام الانبیاؐ کا سفرِ حج ، انجینیرمحمد ارشد۔ ناشر: مثال پبلشرز، رحیم سنٹر، پریس مارکیٹ، امین پوربازار، فیصل آباد۔ فون:۶۶۶۸۲۸۴- ۰۳۰۰۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۵۰۰ روپے ۔[اس کتاب کا مقصد رسولؐ اللہ کے حج و عمرے کے طریقے (سنت) و واقعات کو ایک مسلمان تک پہنچانا ہے‘‘ تاکہ وہ ان عبادات میں آپ کا اتباع اختیار کرسکے (مصنّف)۔ ۳۱عنوانات کے تحت آپؐ کے حج اور عمرے کے اَسفار کا ذکر احادیث کے حوالے سے کیا گیا ہے، مثلاً یہ کہ مسجدالحرام میں آپؐ کب اور کس طرح داخل ہوئے، اور آپؐ نے وہاں کیا فرمایا، یا مثلاً مزدلفہ کے قیام میں آپؐ نے کیا کچھ کیا اور فرمایا، وغیرہ۔ حج اور عمرے کے عازمین کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔]
o حرف حرف روشنی ،ترتیب و تالیف: احمد علی محمودی۔ ملنے کا پتا: ندائے ملت پبلی کیشنز، دارالسلام ، عزیزآباد کالونی، وہاڑی روڈ، حاصل پور (ضلع بہاول پور)۔ فون: ۶۳۴۷۵۷۲- ۰۳۳۳۔ صفحات:۴۹۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ [اقوالِ زریں اور حکمت و دانش پر مبنی مختصر اور جامع نصائح۔ علمی و ادبی ورثے سے عمدہ انتخاب، نیز بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے رہنمائی۔ تزکیہ و تربیت اور سوشل میڈیا پر مختصر پیغامات اور دعوت کے لیے مفیدکتابچہ۔]