واقعہ یہ ہے کہ کسی انسانی معاشرے میں آپس کی محبت و اُلفت ، باہمی ہمدردی و خیراندیشی، اور ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ اور مرتبے کا احترام اس درجے کا نہیں پایا جاتا اور نہ پایا گیا ہے جیساکہ صحابہ کرامؓ کے معاشرے میں نظر آتا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کے اندر یہ صفت انتہائی ممکن کمال تک پہنچی ہوئی نظر آتی ہے، جس کا کسی انسانی معاشرے کے حق میں تصور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن انسان جب تک انسان ہیں، اِن کے اندر بہرحال کبھی نہ کبھی اختلافات بھی پیدا ہوسکتے ہیں اور وہ اختلافات لڑائی جھگڑے کی صورت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ بھی انسان ہی تھے۔ عالمِ بالا سے کوئی فوق البشر مخلوق، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و معیت کے لیے اُتر کر نہیں آئی تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہن سہن، لین دین اور اجتماعی زندگی کے معاملات کرتے ہوئے لامحالہ بہ تقاضاے بشریت ان میں اختلافات بھی ہوجاتے تھے، اور بعض اوقات یہ اختلافات شدید نوعیت بھی اختیار کرگئے ہیں....
بے شک وہ جنگ جمل و صفّین میں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوئے ہیں، مگر کیا دُ نیا کی کسی خانہ جنگی میں آپ فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہوئے بھی ایک دوسرے کا وہ احترام ملحوظ رکھتے دیکھتے ہیں، جو اِن بزرگوں میں نظر آتا ہے۔ وہ نیک نیتی کے ساتھ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہوئے لڑے تھے، نفسانی عداوتوں اور اغراض کی خاطر نہیں لڑے تھے۔ انھیں افسوس تھا کہ دوسرا فریق ان کی پوزیشن غلط سمجھ رہا ہے اور خود غلط پوزیشن اختیار کرتے ہوئے بھی اپنی غلطی محسوس نہیں کر رہا ہے۔وہ ایک دوسرے کو فنا کردینے پر تلے ہوئے نہیں تھے، بلکہ اپنی دانست میں دوسرے فریق کو راستی پر لانا چاہتے تھے۔ ان میں سے کسی نے کسی کے ایمان سے انکار نہیں کیا، اس کے اسلامی حقوق سے انکار نہیں کیا، بلکہ اس کی فضیلت اور اس کی اسلامی خدمات کا انکار بھی نہیں کیا۔ انھوں نے ایک دوسرے کو ذلیل و رُسوا کرنے کی کوشش نہیں کی.... لڑ کر گر جانے والے کے لیےوہ سراپا رحم و شفقت تھے، اور گرفتار ہوجانے والے پر مقدمہ چلانا اور اس کو سزا دینا یا اس کو ذلیل و خوار کرنا تو درکنار، قید رکھنا اور کسی درجے میں بھی نشانۂ عتاب بنانا تک انھوں نے گوارا نہ کیا۔ (’رسائل و مسائل‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۸، عدد۶، ذی الحجہ ۱۳۷۶ھ، ستمبر ۱۹۵۷ء، ص ۴۲-۴۳)