ڈاکٹر انوار احمد بگوی


صحت، اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جوہرشخص کابنیادی اورقانونی حق ہے۔صحت حاصل کرنے اور اُسے برقرار رکھنے کے لیے سب زیادہ ذمہ داری ریاست پرعائد ہوتی ہے، کیوں کہ وہ اپنے عوام کی صحت وسلامتی اوردیگربنیادی ضروریات کی ضامن ہوتی ہے۔

صحت کیاہے جس کا حصول اتنا اہم قراردیاگیاہے؟اس انسانی حق کی تعریف ’عالمی ادارہ صحت‘ (WHO) کے مطابق اس طرح ہے:

ایک مکمل جسمانی،ذہنی،نفسیاتی اورسماجی (Well Being)تسلی بخش حالت، جومحض بیماری اورمعذروی(Infirmity)سے نجات تک محدود نہ ہو۔( ۱۹۴۸ء)

مختلف طبقوں اورعلاقوں کے انسانوں کے لیے معیارصحت میں کوئی فرق نہیں ہے۔  انسان خواہ جس حیثیت ،نسل،مذہب،رنگ،زبان سے تعلق رکھتاہو،عالمی ادارہ صحت وغیرہ انھی خطوط پر اپنی انتہائی مہنگی خدمات فراہم کرنے کے لیے دُنیا بھر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تاہم، ملکی سطح پریہ منظر بدل جاتاہے۔یہاں امیرغریب،دیہاتی شہری،خواندہ اَن پڑھ، مزدور اَجر،افسرماتحت،مافیاغیرمافیا،اشرافیہ عوامیہ،حاکم محکوم،ممبراسمبلی اورووٹر، شہری اور فوجی کے لیے قانون میں فرق ہے اور اطلاق جداجدا ہے ۔یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کی تعریف، معیار اوراُس کی سہولیات بھی الگ الگ ہوجاتی ہیں۔پاکستان میں صحت پہلے وفاقی موضوع تھا، اب ۱۸ویںترمیم کے بعد صوبائی ذمہ داری قرار پایاہے، البتہ کئی کلیدی اُمور پر وفاق کاکنٹرول ہے۔

انگریز کے لیے ہندستانی عوام کی صحت کی ضرورت اورحفاظت صرف اپنے کام کے ملازم، سپاہی اورفوجی تک محدود تھی، ورنہ عوام کسی کھاتے میںشمارنہیں ہوتے تھے۔انگریز کے لیے اپنے گورے سول اورفوجی ملازم ہی اہم تھے۔ چنانچہ چھائونیوں میں پہلے اُن کے لیے ہسپتال بنے اورصفائی کانظام بہترکیاگیا۔فوج کی صحت کے بعد انسپکٹرجنرل ڈسپنسریز اور جیل خانہ جات کاعہدہ قائم کیاگیا، جس نے فوجی پیداکرنے والے علاقوں میں ڈسپنسریوں کاآغازکیا،تاکہ صحت مند نسل کے نوجوان تاج برطانیہ کی حفاظت کے لیے بھرتی ہوسکیں۔وبائی امراض سے بچائو کے لیے بڑے شہروں اورقصبوں میں سینی ٹیشن اور چیچک وٹائیفائیڈ سے بچائو کے لیے حفاظتی ٹیکوں کاانتظام کیا گیا۔ دیہات جہاں۸۰ فی صد سے زائد محنت کش آبادی رہتی تھی اُسے آفات اور تعویذ گنڈے، جھاڑپھونک کے رحم وکرم پرچھوڑدیاگیا۔’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت نظام صحت وصفائی میں کچھ بہتری اس وقت آئی، جب انگریز کواپنی’نوآبادیاتی مملکت‘ پرجرمنی، اٹلی اورجاپان کے حملے کے خطرات منڈلاتے نظر آئے۔ تب اُس نے شہری دفاع،فائربریگیڈ اور شہری علاقوں میںسول ہسپتال قائم کیے۔

 ۱۹۴۷ء میں موجودہ پاکستان میں جہاں آبادی تقریباً ۳کروڑنفوس تھی، اس کےچاروں صوبوں اور مشرقی پاکستان میں انتظامی اضلاع اورڈویثر نوں کی تعدادبہت تھوڑی تھی۔ہرضلعی صدرمقام پر ایک سول ہسپتال اورضلع کے چند شہروں اور دوسرے حصوں میں محدود پیمانے پر ڈسپنسریاں تھیں۔ ان ڈسپنسریوں میں کئی مقامات پر LSMF ڈاکٹر یا نیم تربیت یافتہ ڈسپنسر تعینات کیے گئے تھے، جہاں زیادہ ترمقامی طورپرتیارکردہ گولیاں ،مکسچراور سفوف (پائوڈر) استعمال ہوتے تھے۔ مسلّمہ دواساز فیکٹری کی تیارشدہ ادویات نہیں ہوتی تھیں۔ملک بھرکے دیہات کسی ایمرجنسی اور میڈیکل امدادی سہولت سے محروم تھے۔ سیلاب اورمتعدی وبائی امراض اُن کا مقدررہے۔ مائوں، بچوں اور ضعیفوں کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔ عوام حفاظتی اور تائیدی صحت سے محروم تھے۔ سادہ زندگی میں امراض بھی سادہ تھے۔سیاسی اَدوار میں عام ہسپتالوں اورڈسپنسریوں میںمعتدبہ اضافہ نہ ہوا۔ البتہ پنجاب میں نشترمیڈیکل کالج، ملتان اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج، لاہور کے علاوہ چند ضلعی ہسپتال تعمیر ہوئے۔ انتظامی سہولت کے لیے ضلعی صدرمقام پرسول سرجن کی پوسٹ کومیڈیکل سپرنٹنڈنٹ(MS) اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر(DHO) میں بانٹ دیا گیا۔ایک شہر کے علاج کے لیے،دوسرا باقی ضلع میں صحت وصفائی اوروہاں قائم شدہ چند ڈسپنسریوں کی نگرانی کے لیے۔

صدر ایوب خان کے عہد میں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کاآغاز ہوا۔بیرونی امداد کے ساتھ ’عالمی ادارہ صحت‘ بھی فعال ہوتاچلاگیا۔انھوں نے حصول صحت اورتدارک امراض کی سہولیات اور ’بنیادی مراکز صحت‘(PHC) کے حوالے سےآٹھ نکات پرترقی پذیرملکوں کی توجہ مرکوزکرائی۔بنیادی صحت کے یہ عناصر ملک کی دیہی اورشہری تمام آبادی کے لیے یکساں ضروری قرارپائے: ۱-بنیادی علاج ،۲- بنیادی ادویات کی فراہمی،۳-زچہ بچہ،۴-حفاظتی ٹیکے، ۵-متعدی امراض خصوصاً ملیریاسے بچائو،۶-صاف پانی اورسینی ٹیشن،۷-متوازن غذا، اور ۸-تعلیم و صحت۔

اس تناظر میں ہریونین کونسل میں ایک بنیادی مرکزصحت تعمیرہوا۔ان مراکز کا مقصد یہ تھاکہ خصوصاً دیہی آبادی کو بنیادی صحت کے مذکورہ بالا آٹھ عناصر اُن کے گھرکے نزدیک میسر ہوں۔ ہرچند کہ عملہ وافر تھا، مگر یہ مراکز بہت کم اپناہدف یامقبولیت حاصل کرسکے۔ دیہی مرکز پر ایکسرے، ڈینٹل چیئر، لیبارٹری، آپریشن روم،لیبرروم،کمپائوڈر،ایمبولینس موجود ہیں مگر کرپشن (بدنظمی، بدعنوانی، لاپروائی، قانون سے بے خوفی وغیرہ) کی بنا پران کی موثرکارکردگی مشتبہ ہے۔اتنے بڑے منصوبے کی بے اثری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صحت اوردیگر تعمیری کاموں میں پلاننگ، بجٹ، فنڈنگ، تعمیر، کارکردگی، غرض تمام کنٹرول بیوروکریٹ کلاس کے افسروں کارہا۔اُن پالیسی سازوں کی توجہ کا ارتکاز بدستور بڑے شہر،بڑے ہسپتال ،ذاتی مفاد اور حکمرانوں کی خوشنودی رہا۔ اُن مراکز صحت کی تعمیر میں اصل ہدف تو ’بنیادی مراکز صحت‘ کےآٹھ نکات کوکامیاب بناناتھا۔ لیکن یہ مراکز،پہلے سے موجود ڈسپنسریوں اورسول ہسپتال کی طرح بیوروکریسی کی نااہلی اور لاپروائی کاشکار ہوتے رہے۔اس بے خبری میں ڈاکٹروں نے بھی اپنی پیشہ وارانہ کوتاہی سے فائدہ اُٹھایا۔

آج ملک کے۱۳۶ اضلاع میں۵ہزار ’بنیادی مراکز صحت‘،۶۰۰ ’دیہی مراکز‘ اور ۱۰۰۰کے لگ بھگ ضلعی اورتحصیلی ہسپتال ہیں۔ان میں تدریسی،سپیشل اورڈویزنل ہسپتال بھی شامل ہیں۔ ۶۰ فی صد بنیادی اور۲۵فی صد ’دیہی مراکزصحت‘ شروع دن سے ایسی جگہوں پرتعمیرکیے گئے ہیں، جو قبرستان کے ہمسایے اورآبادی سے دُور، ویرانے میں ہیں۔ناقص تعمیرکردہ عمارتیں اکثر کھنڈربن چکی ہیں۔ سامان ناقص اورٹرانسفارمر غائب۔ بعض جگہوں پر مقامی وڈیروں، ارکانِ اسمبلی کے ساتھیوں کاقبضہ ہے۔عملہ علاقے کی گروہی سیاست کاشکار ہے۔ جو مراکز کام کررہے ہیں وہاں کا عملہ اکثرکام چوراورنااہل ہے ۔برابرتربیت کا نظام ناپید ہے۔ دوائیں ناکافی ہیں اورکام کی دوائیں بچتی نہیں۔خریداری میں کمیشن کا بھائو بہت بڑھ گیا ہے۔ عملے کی نگرانی اورکنٹرول کے لیے نوکرشاہی کااستعمال غیرمؤثررہاہے، بلکہ اس سے کارکردگی مصنوعی اورسطحی ہوکررہ گئی ہے۔

o نظامِ صحت، اہداف اور ترجیحات: صحت عامہ سے متعلق مختلف طبی کاموں کے دائرے کچھ اس طرح ہیں:

ا   :علاج معالجہ (Curative) ،  ب: حفاظت وتدارک (Preventive) ، ج:تائیدوترقی صحت (Promotive)،  د: طبی تعلیم وتربیت (Training Education)، س:مطبی تحقیق وترقی (Development & Research)۔

َٓاِن دائروں میں کام کرنے والے ادارے درج ذیل ہیں:

۱- صوبائی اوروفاقی حکومتیں(سرکاری) ۲- فوجی ونیم فوجی، نیم سرکاری اور بلدیاتی ادارے ۳-نجی(پرائیویٹ)سیکٹر۔

  • مریضوں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے طریقے یہ ہیں:lایلوپیتھی: سرکاری، فوجی اورنجیlہومیوپیتھی: سرکاری اور نجی حکمت(طب): سرکاری اورنجیlدیسی وعطائی(مقامی ٹوٹکے و نیم ایلوپیتھی): دیہی اورنجی۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ۹۰ فی صد سے زائد عوام ایلوپیتھی طریقۂ علاج سے استفادہ کرتے ہیں۔صحت کے اداروں نے معیارصحت جانچنے کے جومعیارات طے کیے ہیں اور ’عالمی ادارہ صحت‘ کے MDG  (Mallinium Development Goal) یہ ہیں:

۱- نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی، ۲-حاملہ مائوں کی شرح اموات میں کمی،۳-ایڈز سے شرح اموات میں کمی، ۴- حیات کے متوقع دورانیہ میں اضافہ، ۵- متعدی امراض میں شرح اموات میں کمی،۶- پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ۷-بیت الخلا اورنکاسی آب کی سہولت،۸- کم عمر بچوں کے لیے غذائی توازن اورمناسب وزن،۹- ۵ سال تک کے بچوں میں بیماریوں کے خلاف مدافعت اور بچائو، ۱۰-ماحولیاتی صحت اورصفائی۔

لیکن صدی کے بین الاقوامی مطلوبات کے ساتھ پاکستان کے معروضی حالات میں درج ذیل اُمورِ صحت بہت اہمیت کے حامل ہیں، جن کو ہرحال میں ملحوظ رکھنا ہی حصول صحت میں مددگار اورمعاون ثابت ہوسکتاہے۔اُن کو نظرانداز کرکے حصول صحت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا:

  •  کثرتِ آبادی، جو ۲۰۱۷ء کی مردم شماری میں ۲۱کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس بڑی تعداد میں غذائی قلت کے شکار پانچ سال سے کم عمر بچے،کمزوراورخون کی کمی کی شکارخواتین اور عوارض میں مبتلابزرگ شامل ہیں۔ یہ طبقہ خودکمانے والے لوگوں میں شمار نہیں ہوتا۔ ۶۰فی صد دیہی آبادی بدستور غذائی کمی،متعدی امراض کانشانہ ہے۔ صحت کی سہولیات میں دیہات پر خصوصی توجہ درکارہے۔
  •      پینے کاصاف پانی اورگندے پانی کانکاس(سینی ٹیشن)۔بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی نوآبادیاں،چھوٹے شہر اوردیہات آج بھی صدیوں پرانامنظر پیش کرتے ہیں۔
  •   بنیادی ’مراکز صحت‘ کی تعمیر و فعالیت کے حصول کے لیے مؤثرنظام اوراس کاثانوی نظم صحت کے ساتھ مربوط تعلق ۔
  •  حاملہ مائوں اورنوزائیدہ بچوں کی صحت وسلامتی کے لیے محفوظ وضع حمل اورنرسری بالخصوص دیہی آبادی کے لیے۔
  •  متعدی امراض سے بچائو کے حفاظتی ٹیکوں کا وسیع نظام۔
  •  اسکول ہیلتھ سروس: بوقت داخلہ اور دوران تعلیم بچوں کی صحت کی نگہداشت۔ سرکاری، پرائیویٹ اور دینی مدارس تینوں میں داخل بچوں کی صحت کی حفاظت۔
  •  دیہات میںرائج عطائیت کے لیے متبادل نظام، تاکہ لوگوں کوسستا،فوری علاج ملتا رہے۔
  • جنیرک(Generic) بنیاد پرسستی اورمعیاری دوائوں کی فراہمی۔{ FR 585 } m
  • الیکٹرانک میڈیا اور جدید موبائل سروس کے ذریعے انفرادی و شخصی تعلیم صحت۔
  •   میڈیکل اورسرجیکل اور شاہراہوں پر حادثات کی صورت میں مستعدایمبولینس سروس جو دیہات کےClusters (جمگھٹ )کومرکزصحت کے ساتھ مربوط کرے۔{ FR 587 }

پنج سالہ منصوبوں اوردیگرسالانہ ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے علاج معالجے کی سہولتیں خصوصاً میگا ہسپتالوں(Tertiary Care) کی تعمیراورقیمتی برآمدی مشینوں کی خریداری پر کثیررقوم صرف ہوئی ہیں۔یونیسیف اور WHO کی مدد سے تائیدی اورحفاظتی پروگراموں میں توسیع ہوئی ہے، جیسے نیشنل لیڈی ہیلتھ پروگرام مگربعد میںاس پر مزید فرائض لاد دیے گئے۔ یوں اس پروگرام کا اصل مقصد فوت ہوکررہ گیا۔اس پروگرام کے تنقیدی جائزے اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یرقان اور ایڈز کاتدارک وعلاج، بنیادی صحت کے مراکزمیں ۱۰۰ فی صد کے لگ بھگ عملے کااضافہ ہواہے، جو وقت کی سیاسی حکومت کے مقامی ارکانِ اسمبلی کے مرہونِ احسان ہیں۔ خدمات اورکام کے لحاظ سے مراکزصحت کی مجموعی کارکردگی متاثرکن نہیں ہوسکی۔ بلاشبہہ آبادی کئی گنا بڑھ گئی ہے اورمسائل اس سے بھی زیادہ، لیکن آبادی کی ضرورت کے مطابق اضافے کے بجاے سہولیات صحت میں کمی آئی ہے: کمیت، یعنی تعداد ومقدار اورکیفیت، یعنی معیار اوراثرمیں۔

شعبہ صحت عامہ میں بہ نظرظاہرشان دارعمارتوں، قیمتی مشینوں اورعملے کی تنخواہوں میں وافر اضافے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ عام آدمی اپنی صحت وسلامتی کے بارے میں مطمئن نہیں ہے؟ ملکی اہداف صحت اورعالمی اہداف صحت دونوں پورے نہیںہورہے ۔پولیو کے خاتمے کے لیے ان گنت مرتبہ قطرے پلائے جاچکے ہیں، لیکن پولیو ہے کہ ختم ہونے کانام نہیں لیتا۔ایک ایک بستر پر ۳،۳مریض،ایمرجنسی سروسز ناکافی ،حادثات میںبڑھتی ہوئی اموات، جگہ جگہ فارماانڈسٹری لگانے اور قیمتیں بڑھانے کے باوجود دوائوں کا بحران، ڈاکٹروں،معاون عملے اور ہسپتالوں کے خلاف بڑھتی ہوئی شکایات ،بڑے ہسپتالوں میں مہنگی مگر خراب مشینری کے گورستان، غرض جوں جوں سسٹم کے اندراُترتے جائیں تومعلوم ہوتاہے کہ سرکارصرف دکھاوے کا کام کرر ہی ہے مگر صحت کے نظام کی اصلاح کی قائل نہیں ہے۔سسٹم پوری طرح ناکارہ بلکہ کمپیوٹراصطلاح میں کرپٹ ہوچکاہے اور اس میں اصلاح کرنے پرکوئی مائل نہیںنظرآتا۔

oدرپیش مسائل اور حل: موجودہ نظامِ صحت کی چیدہ چیدہ خرابیوں کی چند بڑی بڑی وجوہ اوراصلاح احوال کے لیے متعدد تدابیرکاتذکرہ درج ذیل ہے:

  •  عملے کی بھرتی سے اس کے تبادلے تک، اس کی کارکردگی سے کام چوری تک، عمارتی تعمیر سے سامان اوردوائوں کی خریداری تک ___کرپشن اور بدانتظامی، جس میں قانون شکنی، بدعنوانی، بدنیتی ،رعونت، سفارش،رشوت،مفاد پرستی،مافیا نوازی، جھوٹ، شوبازی، جعلی اعداد و شمار،سائل اور مریض سے حقارت،فرائض سے پہلو تہی،سیاسی مفادات کی نگہداشت، غرض اخلاقی اورانتظامی مفاسد کی بھرمار ہے ۔
  • سیاسی مصلحتوں اور شعبدے بازیوں کے تحت نئے قائم شدہ میڈیکل کالجوں اورملحقہ تدریسی ہسپتالوں میں معیار اورسٹاف کی کمی،یوں زیرتعلیم ڈاکٹروں کی ناقص تربیت۔
  •     نجی شعبے کے میڈیکل کالجوں میں بڑے بڑے نمایشی ناموں کے باوجود معیار اورتربیت کا شدید فقدان اور صحت عامہ کولاحق خطرات۔
  •  بنیادی صحت،جنرل پریکٹس اورنجی شعبے کے لیے میڈیکل آفیسروںکی کمی۔
  •   صحت سے متعلق تمام پلاننگ ،بجٹ اور عمل درآمد کے سارے کام وفاق میں بھی اور صوبوں میں بھی نوکرشاہی کرتی ہے۔ان کاموں میں ڈاکٹروں کا کہیںکوئی کردار نہیں ہوتا۔اسی لیے ڈاکٹراپنے محکمے کے انتظام و انصرام میں دل چسپی نہیں لیتے اور حاکموں کی طرح وہ بھی اپنے محکمے میں مہمان بنے رہتے ہیں۔
  •    سول سیکرٹریٹ میںمحکمہ صحت چلانے کے لیے سیکریٹریٹ کا۹۵ فی صد عملہ اور وزراے اعلیٰ سیکرٹریٹ میں صحت سے متعلق ۱۰۰فی صد عملہ نان ڈاکٹروںپرمشتمل ہے۔ سیکرٹری و اسپیشل سیکرٹری صحت، گریڈ ۱۹، ۲۰ کے اورتین ایڈیشنل سیکرٹری صحت گریڈ۱۸کے سول سرونٹ ہوتے ہیں۔۱۴  /۱۲ ڈپٹی سیکرٹریوںمیں ڈاکٹر صرف دو ہوتے ہیں۔یہ نان ڈاکٹرعملہ دوڈھائی سال تک سیرسپاٹوں اورسہولتوں سے استفادے کے بعد واپس محکمہ جنگلات یا ماہی پروری (فشریز) یا جنگلی حیات (وائلڈلائف) یا آب پاشی میں تعینات ہوجاتا ہے۔ میڈیکل کے معاملات بالخصوص: حفاظت و تدارک، علاج معالجے، میڈیکل کی تعلیم، حساس میڈیکل مشینری کی تربیت وغیرہ کے بارے میں کچھ نہیںجانتے، مگر وہ امرت دھارا بن کرچند مہینے کے لیے طبّی اُمور کے پردھان بن جاتے ہیں۔ اس حکمران کلاس کے   غلط فیصلوں سے صحت عامہ بہترنہیں ہورہی۔ صحت کا نظام چلانے کے لیے وہی کارندے درکار ہیں، جن کاتعلق سسٹم سے ہواور وہ اس کام، محکمے اور میدانِ کار سے دل چسپی رکھتے ہوں۔
  •      صحت کا بجٹ آبادی اور بیماریوں کی یلغار کے لحاظ سے کم ہے اوراس میں مریضوں کے لیے استعمال ہونے والاحصہ کم ترہوتاہے۔قومی جی ڈی پی تعلیم کی طرح مندی کا شکار ہے۔ جب وفاقی بجٹ میں اضافہ ہو گا توباقی سطحوں پر بھی بہتری آئے گی۔
  •   بڑے بڑے ہسپتالوں کاانتظام عملاً ناممکن ہے۔چھوٹے یونٹ، یعنی بستروں کی تعداد کم ہوتو وہ پھر بھی قابلِ انتظام ہوسکتے ہیں۔
  •  بیوروکریٹ اپنی سروس کے دوران غیر ملکی تربیت کے لیے سات، آٹھ مرتبہ باہر جاتا ہے۔ مریضوں اورہسپتالوں کے لیے کبھی کوئی ڈاکٹرتربیت یا فنی مشاہدے کے لیے بیرون ملک سرکاری خرچ پرباہرنہیں گیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ صحت کے تکنیکی کورسز اور دورے بھی یہی اعلیٰ اختیاراتی حکمران کلاس خودہی کرلیتی ہے۔
  •   صوبے میں ایک ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اس سے زیادہ بے وقعت، بے اختیار اوربے اثر ادارہ شایدہی کوئی ہو،عملاً مفلوج ! سارے اختیار سول سیکریٹریٹ کے سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری اور سیکشن افسراستعمال کرتے ہیں۔ فی الواقع گریڈ۱۸ تک تقرر اور تبادلے کے ساتھ ساتھ نگرانی اورکارکردگی کی مانیٹرنگ کاکام اس ادارے کو کرنا چاہیے۔ صحت عامہ کے فیصلوں میں اُسے مؤثر رول ملناچاہیے، مگر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
  • ’شریف شاہی‘ کے انتظامی جرائم میں ایک بڑااورسنگین جرم کارسرکار میں خودبھی اوراپنے  ارکانِ اسمبلی کے ذریعے مسلسل اورشدیدمداخلت ہے۔ لاہورشہر میں تمام تقرریاں اور تبادلے وزیراعلیٰ کے صاحبزادے کے ذریعے ممکن ہیں،کارکردگی اوراہلیت کاکوئی دخل نہیں۔ یہی حال مضافات کا ہے۔سفارشی کہاں صحیح کام کرتے ہیں؟
  • عملی طورپر صحت کے پبلک اورپرائیویٹ اداروں کی کارکردگی اورمعیار کارکے لیے تشخیصی نگرانی کا نظام ناپید ہے۔
  •  ہیلتھ کیئرکمیشن کے لیے نئے اہداف اور مقاصد کے ساتھ اس کے کام کے بے لاگ جائزے کی ضرورت ہے۔ بہتری کیسے آئے گی؟پرائیویٹ پریکٹس ایک بے لگام گھوڑابن چکا ہے، جوغریب، مجبور اور لاچار مریضوں کو روندرہاہے۔
  • انتظامی اور دیگر اُمور میں اختیارات کا ارتکاز (سنٹرلائزیشن) تبادلوں، منصوبوں اور پروگراموں کی حالت یہ ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز بے اختیارہے۔ مثلاً وزیراعلیٰ پنجاب کے ۳۲ محکموں سے روزانہ سیکڑوں سمریاں جاتی ہیں، وزیراعلیٰ ان کو سرسری طورپر دیکھ بھی نہیں سکتا۔سارے فیصلے نوعمر ڈپٹی سیکرٹری اور گھاک قسم کے بیوروکریٹ کرتے ہیں۔ یہی کام نیچے کے تکنیکی لوگ، یعنی محکمہ صحت میں ڈاکٹر خود کیوں نہیں کرسکتے؟
  •  واقعہ یہ ہے کہ صوبے کے تمام محکموں اورخاص طور پر محکمہ صحت کوچلانے کے لیے حکومت پنجاب کے موجودہ ایکٹ ۱۹۷۳ء (Rules of Business)کے ضابطۂ کار میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس فرسودہ ایکٹ کی وجہ سے شعبہ صحت بھی جکڑ بندی کاشکارہے۔
  •  صحت کی ہر اسکیم جوگورے کسی ایجنسی کے ذریعے بھیج دیں، محکمہ صحت میں براجمان نوکرشاہی آنکھیں بند کرکے صادرکردیتی ہے۔حالاں کہ ایسی صحت اسکیموں کا ملکی ماہرین اپنے وطن کے احوال کی روشنی میں جائزہ لیں اوراپنی ضرورتوں کے موافق ترامیم کے بعد  قبول کریں۔
  •         ملک میںبڑھتے ہوئے امراض(Burden of Diseases) کے مطابق ماہرین ڈاکٹر تیارکیے اورلگائے جائیں، جیسے امراض دل، گردہ، کینسر، ذیابیطس، نفسیات، جلد، چشم، بچگان،مستورات، معدہ وجگر وغیرہ کے لیے۔دیہی ضرورتوں کے لیے بجاے فیلوشپ کے کم خرچ ڈپلومہ کورسزجاری کیے جائیں۔
  •  محکمہ صحت میں بڑھتی ہوئی کرپشن اورنااہلی اورنجی شعبے کی بے لگامی اورڈاکٹروں کی   حرص وبددیانتی کے پیش نظر’ صحت محتسب‘ (Ombudsman) ضروری ہے۔ جس پرکوئی دیانت دار(امین اور صادق) پروفیشنل ڈاکٹر یااُستادکام کرے۔
  • بڑے شہروں کے میگاہسپتالوں پرآئوٹ ڈور کا رش کم کرنے کے لیے شہروںمیںفلٹرکلینک یاڈسپنسریاں بنائی جائیں۔
  •   بہترکارکردگی کے لیے دیہی صحت کے مراکز کو چلانے کااختیارمقامی لوگوں کے حوالے کیا جائے اورہیلتھ انشورنس کادائرہ وسیع کیاجائے۔
  •   حاملہ مائوں کولیڈی ڈاکٹروں کی لالچ سے بچانے کے لیے سی سیکشن (بڑے آپریشن) پر تحدیداورفطری وضع کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
  •  محکمہ بہبود آبادی اصل میں صحت کاحصہ ہے۔بیوروکریسی نے اپنے مفادکی خاطر اسے الگ کرکے عملاً غیرفعال اور غیرموثر کردیاہے۔
  •  ضرورت ہے کہ موجودہ حالت ِ صحت کی روشنی میں صحت کے لیے اہداف اور صحت کا قومی بیانیہ تیار کیاجائے۔
  •  میڈیکل ایجوکیشن کے موجودہ نصاب کوملکی ضروریات اورقومی اُمنگوں کے مطابق ڈھالا جائے۔نصاب کویورپ کی یونی ورسٹی یاامریکی کالجوں اور ہسپتالوں میںداخلے کے لیے نرسری نہ بنایاجائے۔حرص ،بدیانیتی،کام چوری اور دوسرے اخلاقی عوارض کے لیے نصاب میں اسلامی اوراخلاقی پہلوئوں پر عملی توجہ از حد ضروری ہے۔
  •         شعبہ طب نامکمل ہے اگر اس کامعاون عملہ، یعنی نرسیں،پیرامیڈیک اورٹیکنیشن صحیح طورپر تربیت یافتہ اور اخلاق یافتہ نہ ہوں۔

غرض شعبہ صحت میں پچھلے ۷۰ سالوں میںاگر ایک قدم آگے بڑھا ہے تو تین قدم ہم پیچھے ہٹے ہیں۔عملے ،عمارتوں اورمشینوں کے باوجود اخلاص،اخلاق ،خداترسی اورتکنیکی مہارت غائب ہوگئی ہے ۔ طب ایک کمرشل کاروبار کی شکل اختیارکرچکاہے ۔معالجوں کامشینوں پر اعتباربڑھ گیا ہے۔ ہرمریض سونے کاانڈا دینے والی مرغی بن کررہ گیا ہے، کیوں کہ جوکچھ اُوپرہورہاہے اُسی کا عکس نیچے پڑتاہے۔ڈاکٹروں میں انسان نوازی اورمریض دوستی بلکہ قوم پرستی جنسِ نایاب ہوکر رہ گئی ہے۔ صحیح تشخیص،مناسب علاج،سستی دوائیں ،ہمدردانہ رویہ اورمناسب خرچ (Affordable) وقت کی ضرورت ہے۔

o تحقیق ناگزیر تقاضا: ترقی کے عمل میں تحقیق و ترقی (R & D) ایک ناگریز ضرورت ہے۔پاکستان میں عام جامعات ہوں یامیڈیکل کے ادارے ،تحقیق نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کاغذوں میں لکھا ہے کہ اسسٹنٹ ایسوسی ایٹ اور فل پروفیسر بننے کے لیے ایک مقررہ تعداد میں جینوئن اوراوریجنل ریسرچ پیپردرکارہیں۔یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ دیگر اداروں اورجامعات کی طرح محکمہ صحت کے ٹیچنگ کیڈر میں حاضراساتذہ کے ریسرچ پیپر ساختہ، جعلی اورکسی دوسرے طالب علم کی عارضی محنت کاحاصل ہوتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ کوئی میڈیکل کالج، میڈیکل یونی ورسٹی یاکالج آف فزیشنزوسرجنز طب میں،پبلک ہیلتھ میں،فارمامیں کوئی ریسرچ نہیں کروا رہا۔ یہ سب فرضی کام کرتے ہیں،کیوں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کی طرح پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(PMDC) کو ان ’چھوٹے‘ کاموں میں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔جب اُستاد ہی  جعلی ریسرچ پر تعینات ہوگاتو ایم ایس، M.Phil  اور FCPS کی ریسرچ میںشاگردوں کی کیا رہنمائی کرے گا؟

تحقیق کے لیے بجٹ ، ریسرچ اسکالرز،لائبریری اوردیگرسہولیات کافقدان ہے۔وجہ یہ ہے کہ پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کاشعبہ بیوروکریسی کے پاس ہے جو تحقیق و ترقی (R&D)کو کارفضول سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہمارے طبی محقق ملک کی بیماریوں اورقوم کے مسائل صحت کے حوالے سے تحقیق کریں جوہمارے لیے مفیداورنظام صحت کو بہتربنانے میں مدد دے اور     جن سے ملک وقوم کوواضح فائدہ ملے۔