سیرتِ رسولؐ ایک ایسے انسان کی داستانِ زندگی ہے جو اپنی زندگی کو اس دعوت کی نذر کردیتا ہے جس میں اس کا کوئی ذاتی مفاد نہیں۔ دولت و ثروت، اثر و نفوذ یا منصب و اقتدار کی کوئی خواہش نہیں، حتیٰ کہ تاریخی بقا و دوام بھی پیش نظر نہیں کیونکہ وہ تو اللہ کے ہاں دوام پرایمان رکھتاہے۔ ایسا انسان جو بچپن سے لے کر ۴۰ سال تک کی زندگی نہایت پاکیزگی سے گزارتا ہے۔ پھر ۴۰برس سے انتہاے عمر تک کی زندگی عبادت و ہدایت اور جہاد و جدوجہد میں گزارتا ہے اور دنیا اس کے سامنے زیر ہو جاتی ہے، تو وہ دنیا کے تمام تر باطل معیارات کو کالعدم کرتا ہے اور اپنے راستے پر پھر سے رواں دواں ہو جاتا ہے۔
آیئے!آپؐ کی رسالت و نبوت کے ابتدائی برسوں کے چند لمحات پر ایک نظر ڈالیں! یہ برس ایسے ہیں کہ صبر و ثبات اور صدق و عظمت میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ان برسوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ہادی و معلّمِ انسانیت جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں دوسرے برسوں کی نسبت ان برسوں میں کھل کر سامنے آئیں۔ یہ برس زندہ کتاب کا دیباچہ تھے۔
یہ رسالت کے وہ سال ہیں جب رسولؐ اللہ تنہا تھے۔ آپؐ نے اپنا تمام تر سکون اور راحت کو تج دیا تھا اور لوگوں کے پاس ایسی چیز لے کر گئے تھے جس سے لوگ آشنا نہیں تھے بلکہ وہ اس کو ناپسند کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا پیغام لے کر ان کے ذہنوں پر دستک دینے نکلے۔ اہل دانش جانتے ہیں کہ عوام کے ذہنوں کو مخاطب کر کے اس وقت کوئی بات کرنا تو بڑا آسان ہوتا ہے جب آدمی اجتماعی توقعات اور اُمیدوں میں خود بھی ان کے ساتھ کھڑا ہو مگر جب انھیں ایسے مستقبل بعید کی طرف بلایاجائے جس کو آدمی خود تو دیکھ رہا ہو مگر لوگ اسے نہ دیکھ رہے ہوں تو یہ انتہائی مشکل ہوتا ہے! جی ہاں، جب آدمی عوام کے ذہنوں پر دستک دے اور اُن کی زندگی کی بنیادوں کو امانت دارانہ اور مخلصانہ طور پر منہدم کرنے کے لیے اٹھے اور اس کے پیچھے کوئی ذاتی غرض، مَجدو شرف اور خواہش و آرزو بھی نہ ہو تو ایسی صورتِ حال میں پیش آنے والے خطرے کا سامنا کرنا اولوالعزم صالحین و مرسلین ہی کا کام ہے۔ محمد رسولؐ اللہ اس موقعے کے مردِ میدان اور رجلِ عظیم ہیں! یہ وہ موقع ہے جب بتوں کی عبادت ہی اصل عبادت تھی اور انھی کے شعائر اصل دین تھا۔
اس موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کسی چال کی آڑ نہ لی۔ راستے کی دشواری اور مصائب کی شدت دونوں اس بات کی اجازت دیتی تھیں کہ یکدم کلمۂ توحید پیش کرڈالنے سے قبل افرادِ کار کو تیار کرنے میں آپؐ اپنی نادر ذہانت کو استعمال کر لیں۔ یہ آپؐ کے دائرہ اختیار میں بھی تھااور آپؐ کا حق بھی تھا کہ آپؐ صدیوں سے بتوں کی عبادت سے وابستہ معاشرے کو اس سے دُور کرنے کے لیے فضا سازگار بناتے اور راہ ہموار کرتے، پھر رفتہ رفتہ تحریک کو اس تباہ کن مزاحمت سے بچاتے ہوئے آگے بڑھاتے جو اول لمحے ہی سے قوم کے بغض و کینہ کی صورت میں متحرک ہوجانے اور اپنے تمام تر اسلحے کو میدان میں لا ڈالنے والی تھی مگر آپؐ نے اس طرح کا کوئی ایک کام بھی نہ کیا۔ اور یہی سب سے بڑی نشانی تھی کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں جس نے آسمانی صدا کو اپنے دل میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ کھڑے ہو جائو تو کھڑے ہو گئے۔ اس نے کہا: پیغام پہنچا دو تو پیغام پہنچا دیا۔ اس میں لمحہ بھر کے لیے توقّف کیا نہ ذرّہ بھر فرار کی کوشش کی۔آپؐ نے اول روز بلکہ اول لمحے ہی سے رسالت کے جوہر اور مسئلے کی اصل کو بیان کرتے ہوئے یوں لوگوں کو مخاطب کیا:
لوگو!میں تمھاری طرف بھیجا گیا اللہ کا رسول ہوں تاکہ تمھیں یہ بتائوں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائو۔یہ بت جن کی تم عبادت کرتے ہو، لغو و باطل ہیں۔ تمھارے کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں!
آپؐ نے لمحۂ اوّل سے انھی واضح اور کھلے الفاظ سے لوگوں کو مخاطب کیا اور اسی لمحے سے اس سخت معرکہ آرائی کا سامنا شروع کر دیا جس میں ساری زندگی گزار دی۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت پیش کی تو قریش کا شعلوں کی مانند لپکتا ہوا ردّعمل فوراً سامنے آ گیا۔ ایک ایسی جان پر مخالفتیں اور مزاحمتیں ٹوٹ پڑیں جس نے ساری زندگی ایسا اعزاز و اکرام اور عزت و احترام دیکھا تھا کہ اس سے بڑھ کر عزت و احترام کا کوئی مرتبہ نہیں!
رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پہلا درس ہی حیران کن اور عجیب فداکاری کے رنگ میں پیش کرنا شروع کیا اور یہ وہ منظر ہے جس نے زمان و مکان کو بلکہ تاریخ کو بھر دیا۔ مکہ کے زندہ ضمیر اس پر تعجب و حیرت کااظہار بھی کر رہے تھے اور اس کے قریب بھی آتے جا رہے تھے۔
انھوں نے قربانی، استقامت اور عظمت کو دیکھا۔ انھوں نے جو کچھ اس روز دیکھا جب اشرافِ قریش کا ایک وفد جناب ابو طالب کے پاس گیا، یہ تو اور زیادہ خوب صورت اور خوش کن منظر تھا۔ اشرافِ قریش نے جناب ابو طالب کو مخاطب کر کے کہا:
اے ابو طالب!آپ کو ہمارے اندر بزرگی، شرف اور قدرومنزلت کا مقام حاصل ہے، اور ہم نے آپ کو اپنے بھتیجے کو باز رکھنے کے لیے کہا ہے لیکن آپ نے اسے باز نہیں رکھا۔ اللہ کی قسم! ہم اپنے آبا و اجداد کی بے عزتی، اپنے تصورات کی حماقت اور اپنے معبودوں کی عیب جوئی پر صبر نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس کو ہم سے باز رکھ لیں۔ نہیں تو ہم اسے بھی اور آپ کو بھی جنگ میں اُتار لیں گے، یہاں تک کہ ہم دونوں فریقوں میں سے ایک ہلاک ہو جائے۔
بھتیجے!تیری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں اور انھوں نے تیرے معاملے کے بارے میں بات کی ہے۔ لہٰذا تم مجھے اور خود کو مشکل میں نہ ڈالو اور مجھے کسی ایسے امر سے دوچار نہ کرو جس کو برداشت کرنے کی میرے اندر طاقت نہیں۔
وہ تن تنہا شخص جو ایک جانب کھڑا تھا اور ظاہر یہ ہوتا تھا کہ وہ اس جدوجہد سے دست بردار ہوجائے گا یا یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس قبیلۂ قریش کے مقابلے کی تاب نہیں لا سکے گا جس نے اس کے خلاف اپنی خوفناک کچلیاں نکال لی ہیں۔لیکن ادھر ایک اور ہی منظر اور مظاہرہ سامنے آتا ہے اور رسولؐ اللہ کسی تردّد و توقّف کا اظہار کرتے ہیں نہ آپؐ کے عزم میں کوئی کمزوری رُونما ہوتی ہے۔ نہیں ہرگز نہیں!آپؐ تو ایسے الفاظ بھی تلاش نہیں کرتے جن کے ذریعے اپنے ایمان کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ آپؐ کا ایمان تو منصب استاذیت کے بلند مقام پر پہلے ہی کھڑا تھا جو پوری انسانیت پر بلیغ درس اور دائمی ہدایات بہا رہا تھا۔ پھر آپؐ یوں بولتے ہیں کہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ کوئی انسان بات کررہا ہے یا پوری کائنات نغمہ سرا ہے؟
یَا عَمِّ وَ اللّٰہِ لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِی یَمِیْنِیْ، وَ القَمَرَ فِی یَسَارِی ، عَلٰی اَنْ اَتْرُکَ ھٰذَا الاَمْرَ حَتّٰی یُظِھِرَہُ اللّٰہُ اَوْ اَھْلُکَ فِیْہِ، مَا تَرَکْتُہ!!
چچا جان اللہ کی قسم! اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند لا کر رکھ دیں کہ میں اس امر کو چھوڑ دوں تو میں اسے نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے غالب کر دے یا میں اس (جدوجہد) میں ختم ہو جائوں۔
جناب ابو طالب نے یہ سنا تو فوراً اپنے آبا و اجداد کی روایت کا مظاہرہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے بھتیجے کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا:
بھتیجے! جو چاہو کہو، میں تمھیں کبھی کسی چیز کے حوالے نہیں کروں گا۔
شدائد ہر جانب سے آپؐ پر ٹوٹ پڑے تھے اور وہ غم خواری جو آپؐ کو اپنے چچا جناب ابوطالب اور زوجہ حضرت خدیجہؓ سے مل رہی تھی وہ بھی آپؐ سے منہ پھیر لیتی ہے اور یہ دونوں شخصیتیں تھوڑے تھوڑے وقفے سے وفات پا جاتی ہیں۔
اگر کوئی شخص اس تشدد کی انتہا اور جنگ کی شدت کا تصورکرنا چاہے جو قریش نے تن تنہا رسول کے خلاف برپا کر رکھی تھی، تو اس کے لیے یہی جان لینا کافی ہے کہ وہ ابو لہب جو رسولؐ اللہ کا بدترین دشمن تھا ایک دن اس کا ضمیر بھی اس تشدد کو دیکھ کر یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ رسولؐ اللہ کو پناہ دے گا اور آپؐ کے دشمنوں سے آپؐ کی حفاظت کرے گا!! لیکن رسولؐ اللہ اسے اس کی پناہ واپس لوٹا دیتے ہیں اور خود تنہا کھڑے قربانی پیش کرتے جاتے ہیں۔ کوئی نہیں جو آپؐ سے اس تشدد کو روکے اور آپؐ کا دفاع کرے کیونکہ کوئی یہ طاقت ہی نہیں رکھتا کہ وہ اس تشدد کو روک سکے۔ حتیٰ کہ عظیم المرتبت ابوبکرؓبھی اس صورتِ حال پر رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے!
ایک روز رسولؐ اللہ کعبہ کی طرف جاتے ہیں اور جونہی طواف شروع کرتے ہیں تو انتظار میں بیٹھے اشرافِ قریش ٹوٹ پڑتے ہیں۔ آپؐ کو گھیرے میں لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں: تم ہو جو ہمارے معبودوں کے بارے میں یہ یہ کہتے ہو؟
آپؐ پورے سکون و اطمینان سے جواب دیتے ہیں: ہاں!میں ہوں جو یہ کہتا ہوں۔ قریش یہ سنتے ہی آپؐ پر پل پڑتے ہیں اور آپؐ کو زدوکوب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جنابِ ابوبکرؓ ان کی طرف بڑھتے ہیں اور روتے ہوئے کہتے ہیں:کیا تم ایک ایسے آدمی کو مار ڈالنا چاہتے ہو جویہ کہتا ہے کہ اللہ میرا رب ہے؟
جس شخص نے طائف کے روز رسولؐ اللہ کو دیکھا ہو اس نے تو آپ کی صداقت و فدویت کی ایسی نشانی دیکھی ہو گی جو آپؐ ہی کے شایانِ شان تھی!
رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ثقیف کی طرف رُخ کرتے ہیں اور انھیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔ کیا وہی سلوک کافی نہیں جو آپؐ کی قوم نے آپؐ سے کیا تھا کہ آپؐ ایک اور قوم کی جانب چل پڑے ہیں؟ اور پھر اس قوم کے درمیان اور آپؐ کے درمیان کوئی قرابت داری بھی نہیں کہ وہ اس کا لحاظ رکھتے ہوئے آپؐ کے ساتھ بات کریں!
نتائج و عواقب کسی بھی صورت میں آپؐ کے حق میں نہیں تھے کیونکہ آپؐ کے رب نے آپؐ سے کہہ دیا تھا کہ عَلَیْکَ الْبَـلَاغ (تبلیغ تمھارے اوپر فرض ہے)۔ لہٰذا اب آپؐ کو طائف کی طرف جانا تھا کہ اس کے لوگوں کو بھی اللہ کا پیغام پہنچا دیا جائے۔
جب آپؐ یہاں پہنچے تو اس علاقے کے اشراف نے آپؐ کو گھیرے میں لے لیا۔ اِنھوں نے اپنے احمقوں اور اوباشوں کو اُکسایا، حتیٰ کہ مہمان کی عزت اور پناہ طلب کرنے والے کو پناہ دینے کی مقدس ترین عربی خصلت کو بھی بالاے طاق رکھ دیا۔ انھوں نے ان اوباشوں کو آپؐ کے پیچھے لگادیا اور وہ آپؐ کو پتھر مارنے لگے ۔
جس کو پتھر مارے جا رہے ہیں، یہ وہ شخص ہے جس کو قریش نے پیش کش کی تھی کہ وہ اتنا مال و دولت اس کے لیے جمع کر دیتے ہیں کہ وہ مکہ کا امیر ترین شخص بن جائے، منصب و اقتدار ایسا پیش کر دیتے ہیں کہ وہ پوری مکی قوم کا سردار اور بادشاہ بن جائے لیکن اس شخص نے یہ کہتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ: اِنَّمَا اَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُہُ (میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں)۔ میں ان چیزوں کے حصول کے لیے یہ کام نہیں کر رہا ۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ (اس کا بدلہ تو مجھے اللہ سے ملنا ہے) اللہ اکبر!
طائف کا وہ منظر دیکھیے جب آپؐ ایک باغ میں داخل ہو کر اس کی دیوار کی اوٹ لے کر ان احمقوں اور اوباشوں سے محفوظ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپؐ کا دایاں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا ہوا ہے اور آپؐ دعا فرما رہے ہیں اور بایاں ہاتھ چہرے پر رکھ کر پتھروں سے بچائو کے لیے ڈھال بنایا ہوا ہے۔ اپنے مولا و خالق سے عرض کر رہے ہیں:
اِنْ لَمْ یَکُن بِکَ غَضَبٌ عَلَیَّ فَلَا اُبَالِی، وَلٰکِنَّ عَافِیَتَکَ اَوْسَعُ لِی، اگر مجھ پر تو ناراض نہیں تو مجھے کسی کی پروا نہیں لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔
کیوں نہیں، آپؐ تو اللہ کے رسول ہیں۔ آپؐ بخوبی جانتے ہیں کہ اپنے رب سے کس عظیم ادب کے ساتھ ہم کلام ہونا ہے۔ جب آپؐ اعلان کرتے ہیں کہ راہِ خدا میں آنے والی تکلیف کی مجھے کوئی پروا نہیں تو آپؐ اسی طرح یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ آپؐ کو اس عافیت کی اشد ضرورت ہے جو اللہ کی طرف سے عنایت ہوتی ہے۔
اس طرح کے مواقع پر آپؐ اپنی ہمت و برداشت اور شجاعت و بسالت پر فخر کرتے ہیں اورنہ اترانے کا اظہار، کیونکہ ایسے فخر کا معنی اللہ پر احسان دھرنا ہے اور جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ چیز کیسے مخفی رہ سکتی تھی۔لہٰذا ایسے مواقع پر شجاعت و برداشت کی جو بہترین تعبیر ہو سکتی تھی وہ اللہ کے سامنے گڑگڑانا اور آہ و زاری کرنا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آپؐ اپنے رب سے گلو گیر آواز میں عرض گزار ہوتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِی وَقِلَّۃَ حِیْلَتِی وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، اَنْتَ رَبُّ المُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّی، اِلٰی مَنْ تَکِلُنِی؟ اِلَی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِیْ اَمْ اِلٰی عَدُوٍ مَلَّکْتَہُ اَمْرِی؟ اِنْ لَمْ یَکُنْ بِکَ عَلَیَّ غَضَبٌ فَلَا اُبَالِی، وَلٰکِنَّ عَافِیَتَکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ، اَعُوْذُ بِنُورِ وَجْھِکَ الَّذِی اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ مِنْ اَنْ یَنْزِلَ بِی غَضَبُکَ اَوْ یَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ، لَکَ العُتَبِی حَتّٰی تَرْضٰی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ، بار الٰہا! میں اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ تجھی سے کرتا ہوں، یا ارحم الرحمین! تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔ تومجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کسی بیگانے کے جو تندی سے میرے ساتھ پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر مجھ پر تو ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی ذرا پروا نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے اندھیرے روشن ہو جاتے ہیں اور دنیا و آخرت کے معاملات کا سدھار اسی پر ہے، کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو تیری ہی رضا مطلوب ہے۔ یہاں تک کہ تو خوش ہو جائے اور تیرے بغیرکوئی زور اور طاقت نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی دعوت سے یہ کیسا تعلق اور وابستگی ہے کہ جہاں بھی جاتے ہیں دعوت پیش کرتے ہیںتو شدائد آپؐ کا استقبال کرتے ہیں۔ ان حالات میں دنیاوی اسباب میں سے کوئی چیز ایسی نہیںجو آپؐ کی ہمت کو سہارا دیتی اور آپؐ کی ڈھارس بندھاتی لیکن آپؐ پھر بھی پورے تسلسل کے ساتھ ان حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب طائف سے مکہ کی طرف واپس لوٹتے ہیں تو مایوس نہیں، شکست خوردگی کا احساس نہیں، ناکامی کا خیال نہیں، بلکہ پُرامیدی کی ایک گہری کیفیت ہے جس نے آپؐ کو ڈھانپ رکھا ہے اور اللہ کی راہ میں قربان ہو جانے کا ایک بھرپور جذبہ ہے جو آپؐ کے اندر موجزن ہے!
آپؐ قبائل کے پاس جا کر اپنی دعوت ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ایک روز قبیلہ کندہ کے پاس جاتے ہیں، ایک روز قبیلہ بنی حنیفہ کے پاس اور اگلے روز قبیلہ بنی عامر کے پاس تشریف لے جاتے ہیں۔ اس طرح یکے بعد دیگرے ہر قبیلے کے پاس پہنچتے ہیں اور ان سب سے یہی کہتے ہیں: میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائو اور اس کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، ان سے دست بردار ہو جائو۔
قریب قریب کے قبائل کے پاس جب آپؐ تشریف لے جاتے تو ابولہب آپؐ کے پیچھے پیچھے یہ کہتا جاتا کہ اس کی بات نہ ماننا! یہ تمھیں گمراہی کی طرف بلا رہا ہے۔
ان حالات میں لوگوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی مشکل میں ہیں، آپ مومنین و حامیان کی تلاش میں ہیں لیکن ہر جگہ انکار اور دشمنی ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ ان سخت حالات کے باوجود آپؐ نے ہر قسم کی سودے بازی سے انکار کیا اور ایمان کے بدلے کوئی دنیاوی قیمت وصول نہ کی، خواہ یہ بادشاہت کی پیش کش ہی کیوں نہ تھی! ان جھلسا ڈالنے والے ایام میں آپؐ نے اپنے آپؐ کو قبیلہ بنی عامر بن صعصعہ پر پیش کیا۔ آپؐ ان کے پاس بیٹھے قرآنِ حکیم کی تلاوت کر رہے تھے اور اللہ کی باتیں بتا رہے تھے کہ انھو ں نے آپؐ سے پوچھا: اس بارے میں تم کیا کہتے ہو کہ اگر ہم تمھاری بیعت کر لیں، پھر اللہ تعالیٰ تمھیں اپنے مخالفین پرغلبہ عطا کر دے، توکیا تمھارے بعد حکمرانی ہمیں ملے گی؟
رسولؐ اللہ نے جواب دیا: حکمرانی اللہ کی ہے وہ جہاں چاہتا ہے اسے رکھتا ہے۔
بنو عامر نے یہ سنا تو یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمیں تمھارے معاملے کی کوئی ضرورت نہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا۔ دراصل آپؐ تو ایسے اہل ایمان کی تلاش میں تھے جو اپنے ایمان کو حقیر قیمت پر بیچ ڈالنے والے نہ ہوں۔
لوگوں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی تعداد آپؐ کے اوپر ایمان لائی لیکن قلّتِ تعداد کے باوجود اس کے اندر ٹوٹ کر محبت کرنے اور ہر قیمت پر ساتھ چلنے کا جذبہ موجود تھا۔ قریش نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر قبیلہ ان اہل ایمان کو سزا سے دوچار کرے گا۔ پھر اچانک آندھی کی مانند تمام مسلمانوں پر تشدد ٹوٹ پڑتا ہے۔ مشرک کوئی ہتھکنڈا ایسا نہیں چھوڑتے جس کو آزما نہ لیا ہو۔ ادھر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیتے ہیں اورخود تن تنہا یہاں رہ کر دشمن کا سامنا کرتے ہیں۔آپ بھی کسی دوسری جگہ پر جا کر کیوں اللہ کا پیغام نہیں پہنچاتے، اللہ تو تمام جہانوں کا رب ہے اکیلے قریش ہی کا نہیں۔آپؐ اپنے ان ساتھیوں کو کیوں اپنے پاس نہیں رکھ لیتے کہ ان کے یہاں رہنے میں یقینی فائدہ ہے۔ کیونکہ قلت تعداد کے باوجود وہ لوگوں کو اللہ کے دین میں داخل ہونے کے لیے آمادہ کر سکتے ہیں اور پھر ان میں قریش کی اعلیٰ قیادت میں سے بھی کچھ افراد شامل ہیں جو بہرحال ایک قوت و طاقت اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
اس مقام پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ آپؐ کوئی فساد کرنا چاہتے ہیں نہ اندرونی جنگ بھڑکانے کا ارادہ رکھتے ہیں خواہ اس صورت میں آپؐ کو مدد پہنچنے کا امکان بلکہ یقین ہی کیوں نہ ہو۔
اس موقعے پر آپؐ کی انسانیت اور رحمت واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ آپؐ اپنی وجہ سے مومنوں کو مبتلائے عقوبت نہیں دیکھ سکتے۔ کیوںکہ آپؐ کو اس بات پر یقین تھا کہ قربانی ہر عظیم دعوت اور بامقصد جہاد کا خراج ہوتی ہے، لہٰذا جب اس قربانی سے مفر نہیں تو اسے پیش کرنا ہی چاہیے۔
انسانیت اور رسالت دونوں چیزیں آقائے نامدار جنابِ محمد بن عبد اللہ کے اندر پوری شدت کے ساتھ یک جا ہو گئی تھیں۔ جن لوگوں نے آپؐ کی رسالت میں شک کیا وہ آپؐ کی عظمت اور انسانیت کے لیے محبت میں شک نہیں کر سکے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسی ذات ہے جو اس بات کا بہترین علم رکھتا ہے کہ اسے اپنی رسالت کو کہاں رکھنا ہے۔ اسی لیے اس نے جس انسان کو اس منصب کے لیے چنا اس کو ایسی رفعت، بلندی اور امانت سے سرفراز کیا کہ انسانیت اس کے حصول کی خواہش بھی اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتی۔ لوگوں نے دیکھا اور سنا کہ آپؐ کسی کو ڈانٹ بھی پلاتے ہیں تو اس شخص کی حد درجہ تعظیم کے ساتھ یہ کام کرتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ حددرجہ سے بھی کہیں بڑھ کر یہ کام کرتے ہیں۔ آپؐ اس بات سے بھی منع کر دیتے ہیں کہ جب آپؐ تشریف لائیں تو بیٹھے ہوئے لوگ آپؐ کے اعزاز میں کھڑے ہو جائیں۔ ایک بار جب ایسا موقع پیش آیا تو آپؐ نے فوراً اس کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا:
لَا تَقُوْمُوْا کَمَا یَقُومُوا الاَعَاجِمُ، یُعَظِّمُ بَعْضُھُمْ بَعْضًا ،اس طرح کھڑے نہ ہوا کرو جس طرح عجمی لوگ کھڑے ہوتے ہیں کہ ان میں سے کچھ لوگ کچھ کو بڑا سمجھتے ہیں۔
آپؐ کے بیٹے جنابِ ابراہیم کی وفات کے روز سورج کو گرہن لگ گیا تو لوگ یہ کہنے لگے کہ ابراہیم کی وفات کے غم میں ایسا ہوا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت اٹھے اور اس بے بنیاد تصور اور دعویٰ کو لوگوں کے ذہنوں میں پختہ ہونے سے پہلے ہی محو کرڈالا۔ آپؐ منبرپر جلوہ افروز ہوئے اور لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا:
اِنَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ، لَا یَنْخَسِفَانِ لِمَوتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہٖ،سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ کسی کی موت اور زندگی پر گرہن زدہ نہیں ہوتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس بات کا علم الیقین رکھتے تھے کہ آپؐ حیاتِ انسانی کو بدلنے کے لیے مبعوث کیے گئے ہیں۔ آپؐ صرف قریش کی طرف بھیجے گئے رسول نہیں ہیں، نہ صرف عرب کی طرف مبعوث کیے گئے ہیں بلکہ آپؐ تو ساری کائنات کے لیے رسول بنائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی بصیرت کو اس انتہا تک کھول دیا تھا جہاں تک آپؐ کی دعوت کو پہنچنا اور آپؐ کے جھنڈے کو لہرانا تھا۔ آپؐ نے یقین کی آنکھ سے اس دین کے مستقبل کو دیکھ لیا تھا جس کی آپؐ دوسروں کو خوشخبری دیتے تھے، اور اس دوام کا بھی مشاہدہ کر لیا تھا جو عنقریب اس دین کو عطا ہونے والا تھا کہ اللہ روے زمین کا آپؐ کو وارث بنا دے گا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود آپؐ اپنی ذات، اپنے دین اور اپنی کامیابی کو جس کی زمین نے کوئی مثال نہیں دیکھی، عمارت میں ایک اینٹ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔آپؐ پوری وضاحت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں:
مَثَلِی وَ مَثَلُ الاَنْبِیَائِ قَبْلِیِ، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاَحْسَنَہُ وَاَجْمَلَہُ اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ فِی زَاوِیَۃٍ مِنْ زَوَایَاہُ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِہِ وَیَعْجَبُوْنَ لَہُ، وَ یَقُوْلُوْنَ: ھَلَّا وُضِعَتْ ھٰذِہِ اللَّبِنَۃُ؟ فَاَنَا تِلْکَ اللَّبِنَۃُ وَ اَنَا خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ ، میری اور مجھ سے قبل کے انبیا ؑ کی مثال اس آدمی جیسی ہے جو ایک مکان بنائے اوراس کو آراستہ پیراستہ کرے مگر ایک کونے میں ایک اینٹ لگانا چھوڑ دے۔ لوگ اس مکان کو دیکھنے کے لیے اس کے اردگرد گھوم رہے ہوں اور اس پر پسندیدگی کا اظہار کر رہے ہوں اور یہ بھی کہہ رہے ہوں کہ یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی؟ (انبیاء کی عمارت) میں یہ اینٹ میں ہوں (جو ابھی لگنا باقی تھی) اور میں خاتم النبیینؐ ہوں!
یہ ہیں معلّمِ انسانیت اور خاتمِ انبیا !جناب محمد رسولؐ اللہ!