اکتوبر ۲۰۱۷

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اکتوبر ۲۰۱۷ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

دانش یار ، لاہور

ماہِ ستمبر کے شمارے میں مولانا مفتی سیاح الدین کاکاخیل ؒ کا مضمون پڑھا تو یاد آیا کہ مفتی صاحبl ، دارالعلوم دیوبند سے سند ِ فراغت حاصل کرنے والے سب سے فائق طالب علم تھے۔ حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیl نے اِن کو اپنے طلبہ پر علمی فضیلت کے باعث قابلِ فخر قرار دیا تھا۔ قیامِ پاکستان سے ایک عشرہ پہلے  مولانا مودودیؒ کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں چھپ چکی تھی،اور مفتی صاحبؒ نے      جن اعتراضات کا جواب دیا ہے، اِسی زمانے سے سنے جارہے تھے۔ یاد رہے، اس  کتاب کا پہلامضمون ہی   اِلٰہ پر ہے___ حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ نے اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد فرمایا: ’’یہ شخص (یعنی مولانا مودودیؒ) مُلْھِمْ مِنَ اللہِ معلوم ہوتا ہے‘‘۔ مجھ سے اس تبصرے کا ذکر میرے مرحوم کرم فرما بزرگ قاری محمد عبداللہ (اوکاڑہ والے) نے کیا تھا۔ اصل میں یہی مفہوم و معنی دعوتِ اسلامی کی بنیاد ہے اور اسی کو ہمارے قائدین اور ذمہ داران کو اپنے خطبات اور گفتگوئوں میں مسلسل واضح کرتے رہنا چاہیے۔


خِرقہ پوش صحافی ، میرپور،آزاد کشمیر

ستمبر ۲۰۱۷ء کا شمارہ زیرمطالعہ ہے۔ ’چند قرآنی اصطلاحات کی تعبیر کا مطالعہ‘ میں مفتی سیّد سیاح الدین کاکاخیل نے تفصیل اور قرآنی حوالہ جات سے جو جواب دیا ہے، اس سے ہرباشعور پاکستانی کی آنکھیں کھل جانی چاہییں۔ جن لوگوں نے مولانا مودودی کے ’طاغوت‘ کے معنی اور تشریح پر اعتراض کیا ہے،بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ آج بھی شیطانی طاغوت کے آلۂ کار بنے بیٹھے ہیں ۔ یہ طاغوتی قوت کو سہارا دینے والے، مولانا مودودی جیسے لوگوں کے خلاف ہی دندناتے رہیں گے؟ اللہ انھیں ہدایت دے، آمین!


محمد حسین  عارف، گوجرانوالہ

مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کی تحریریں ترجمان القرآن کے قارئین کے لیے اپنے موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے نہایت قیمتی اضافہ ہیں۔


اسما معظم ، کراچی

ستمبر کے شمارے میں ’۶۰ سا ل پہلے‘ میں انوکھی شان کے حوالے سے واقعتاً جامع انداز میں بہت بڑا سبق سمجھادیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا مودودیؒ کو غریقِ رحمت فرمائے کہ کس خوب صورتی سے اتنی اہم بات سمجھا دی۔ ’اشارات‘ میں ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ’اقامت ِ دین اور عملی تقاضے‘ میں دعوت وتربیت کے کام کی وسعت واضح کی ہے، ورنہ ہمارے ذہنوں میں یہ تصور انتہائی محدود ہوکر رہ گیاہے۔ اس مضمون کو کارکنوں میں خوب پھیلانا چاہیے۔ پھر مولانا مودودیؒ کی تقریر سے ’انقلاب کا راستہ اور دعوت‘ بھی بہت جامع تحریر ہے۔ زراعت اور صحت کے ساتھ خارجہ تعلقات پر تحریروں نے معلومات میں خوب اضافہ کیا۔


ڈاکٹر افضل عظیم ، نورورسک، راجا محمد عاصم، موہری ،کھاریاں

اشارات ’اقامت ِ دین اور عملی تقاضے‘ ایک جامع تحریر ہے۔ اقامتِ صلوٰۃ کی طرح اقامت ِ دین کی جدوجہد ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ یہ بڑی اہم توجہ ہے کہ: ’’تحریک ِ اسلامی کی کامیابی محض سیاسی کامیابی اور نشستوں کی تعداد سے نہیں ناپی جاسکتی۔ اس کا اصل پیمانہ افراد کا خلوص اور دین سے عملی وابستگی ہے‘‘۔


ڈاکٹر علیم احمد نیازی ، راولپنڈی

اگست اور ستمبر کے شمارے تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ ستمبر کے شمارے میں ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری ؒپر مختصر اور مؤثر مضمون نے طبیعت کو اداس کر دیا اور باربار احساس ہوا کہ ہم نے اتنی بڑی شخصیت کو نہ سمجھا اور   نہ اس سے فیض پایا۔ اسی طرح ڈاکٹر انوار احمد بگوی نے پاکستان کی صحت پالیسی کی حالت ِ زار پر نہایت جامع تحریر لکھی ہے۔ پھر ڈاکٹر مسعوداحمد شاکر نے زرعی صورتِ حال کے بارے میں آنکھیں کھول دی ہیں۔


محمد سعید کھوکھر ، گوجرانوالہ

متحدہ پاکستان کے پہلے اور آخری نام نہاد آزاد انہ الیکشن کی انتخابی مہم کے سلسلے میں مولانا مودودی مرحوم کے ٹی وی خطاب کو ترجمان القرآن (ماہِ اگست) میں پڑھ کر اس پُرآشوب دور کی بہت سی تلخ و شیریں یادیں تازہ ہو گئیں۔ میں اُس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کا رفیق اور بی اے کا طالب علم تھا۔ اس انتخابی مہم کے ابتدائی دنوں میں ہونے والے دو جلسہ ہاے عام کے نقوش آج تک ذہن میں تازہ ہیں۔ یہ جمعے کا دن تھا۔ نمازِجمعہ کے بعد مولانا مرحوم و مغفور نے شیرانوالہ با غ گوجرانوالہ میں عوام سے خطاب کیا ۔ مولانا مودودی مرحوم نے ۱۹۴۷ء سے لے کر اس روز تک کی تاریخ اور جدو جہد پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا کہ اگرحصولِ آزادی کے ساتھ ہی اسلامی اقدار کے فروغ اورترقی کی طرف توجہ دی جاتی تو پاکستان بہت سے بحرانوں اورخلفشارسے بچ جاتا۔ انھوں نے جماعت اسلامی پاکستان کے منشور اور پروگرام کی وضاحت کے ساتھ تجویز دی کہ دستورساز اسمبلی کے انتخاب کے بجاے، ملک میں ۱۹۵۶ء کے دستور کے تحت مقننہ کاانتخاب کرایا جائے اور آئینی مسا ئل آیندہ منتخب پارلیمان پر چھوڑ دیے جائیں۔ اس خطاب کے ٹھیک ایک ہفتے بعد جمعے ہی کے دن جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے نیشنل اسٹیڈیم گوجرانوالہ میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کیا اور مولانا کی اس تجویز کا خاکہ اُڑاتے ہوئے کہا کہ: ’’کیا چھپن چھپن کی رٹ لگا رکھی ہے، آئین چپلی کباب نہیں جوغریب کے بچے کاپیٹ بھرتا ہے، آئین اسپتال نہیں جہاں غریب کا علاج ہو تا ہے، آئین اسکول نہیں جہاں غریب کے بچے کو تعلیم ملتی ہے، لوگوں کو آئین نہیں، روٹی کپڑا مکان دو‘‘ ۔ظاہر ہے کہ یہ بات ایک سیاسی نعرے بازی کے سوا کچھ نہ تھی۔

جماعت اسلامی نے ان انتخابات میں بھر پور حصہ لیا۔ اس کے نا مزد اُمیدواروں کا تعلیمی معیار اور صحتِ کردار دوسری پارٹیوں کے اُمیدواروں کے مقابلے میںمثالی تھی۔ تعلیم، سوجھ بوجھ، وقار اور متانت میں سب سے بہتر تھے۔ اگرچہ جماعت ان انتخابات میں خاطر خواہ نشستیں نہ لے سکی، لیکن اس کا ووٹ بنک بہترین تھا۔ وابستگان جماعت کی وابستگی (کومٹ منٹ) خالص نظریاتی تھی۔ ووٹ کے استعمال کا تصور، امیدوار کی عملیت پسندی کے اعتراف، سچی شہادت اور حق دار کی امانت سے منسوب تھا۔ سیاسیات کے طلبہ اور علماکے لیے تحقیق کا    ایک دل چسپ موضوع یہ بھی تھا کہ کُل پاکستان امیر جماعت سے لے کر نچلی سطح تک حلقے کے ذمہ دار کے بیان میں کوئی تضاد اور بے پَرکی نعرے بازی یا سوقیانہ الزام تراشی نہیں تھی۔ وحدت فکر و نظر اور حُسنِ گفتار وبیان کا    یہ بے مثال مظا ہرہ جماعت اسلامی کی پہچان تھا۔


عبدالرزاق ، کوہاٹ

ماہِ اگست کے ’اشارات‘ میں مولانا مودودی مرحوم کی جامع تقریر اور اس پر پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی تعارفی سطور پڑھ کر ایمان تازہ اور نشانِ منزل بھی واضح ہوا۔ اس اثاثے سے واقفیت عطا کرنے پر ماہنامہ ترجمان القرآن مبارک باد کا مستحق ہے۔


عمران احمد خان ، مردان

اگست کا شمارہ پڑھا۔ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ یہ دین اور دنیا میں رہنمائی کے لیے ایک جامع پرچہ ثابت ہوا۔ بہترین لکھنے والوں کی ایک کہکشاں ہے۔ اس چمکتے دمکتے اور علم و نُور کی کرنیں بکھیرتے ہوئے رسالے میں تحریک ِ پاکستان کے حوالے سے ہرپہلو کا جائزہ ہے۔ اس شمارے کے کسی بھی مضمون کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، تمام ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ امام سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تقریر پر مشتمل ’اشارات‘ نئی نسل کے لیے  ایک زبردست تحفہ ہے۔ ۵۰، ۶۰ سال پہلے کہی گئی باتیں آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہیں۔ یہ تقریر بھی اُن کی لکھی ہوئی تحریر کی طرح تروتازہ لگنے کی اصل وجہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ، سیّد مودودی قرآن و سنت کی روشنی میں لکھتے تھے۔ اسی طرح دیگر مضامین کا بہترین گلدستہ پیش کرنے پر ہم مدیر محترم کے تہ دل سے شکرگزار ہیں۔