اکتوبر ۲۰۱۷

فہرست مضامین

ایمان اور اخلاقِ حسنہ

محمد خان منہاس | اکتوبر ۲۰۱۷ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ   اِیْمَانًا   اَحْسَنُھُمْ  خُلُقًا (ابو داؤد ) اہلِ ایمان میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں ، جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ مقدم یہ بات ہے کہ ایمان جو گومذہب کا اصل الصول ہے لیکن اسی بناپر کہ وہ دل کے اندر کی بات ہے جس کو کوئی دوسراجانتا نہیں اور زبان سے ظاہری اقرار ہر شخص کرسکتا ہے، اس لیے اس ایمان کی پہچان اس کے نتائج و آثار، یعنی اخلاق حسنہ کو قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ مومنون میں عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاق کو بھی اہل ایمان کی ان ضروری صفات میں گنایا گیا ہے جن پر ان کی کامیابی کا مدار ہے۔فرمایا :

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ O  الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَتِھِمْ خٰشِعُوْنَ O وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ O وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ O وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ   …… وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ O وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ O (المومنون۲۳:۱تا۵،اور۸تا۹) یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو: اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دُور رہتے ہیں ، زکوٰۃ کے طریقے پرعامل ہوتے ہیں ، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں… اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں،اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔

ان آیتوں میں اہل ایمان کی کامیابی جن اوصاف کا نتیجہ بتائی گئی ہے ان میں وقار و تمکنت (لغویات سے اعراض )،فیاضی (زکوۃٰ)،پاک دامنی اور ایفاے عہد کو خاص رُتبہ دیا گیا ہے ۔

اخلاق حسنہ اور تقویٰ

                اسلام کی اصطلاح میں انسان کی اسی قلبی کیفیت کا نام جو ہر قسم کی نیکیوں کی محرک ہے تقویٰ ہے ۔وحی محمدیؐ نے تصریح کردی ہے کہ تقویٰ والے لوگ وہی ہیں جن کے یہ اوصاف ہیں:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ  وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ط  وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ج      وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ج  وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج  وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ O (البقرہ ۲:۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف ، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا  دل پسندمال رشتے داروں اور یتیموں پر ، مسکینوں اور مسافروں پر ، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں ، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

اس سے ظاہر ہوا کہ راست بازی اور تقویٰ کا پہلا نتیجہ جس طرح ایمان ہے اسی طرح ان کا دوسرا لازمی نتیجہ اخلاق کے بہترین اوصاف فیاضی ،ایفاے عہد اور صبر و ثبات وغیرہ بھی ہیں۔

اللہ تعالٰی کا نیک بندہ ہونے کا شرف

                محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم میں اللہ تعالیٰ کے نیک اور مقبول بندے وہی قراردیے گئے جن کے اخلاق بھی اچھے ہوں اور وہی باتیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کے مقبول ہونے کی نشانی ہیں:

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰہِلُوْنَ   قَالُوْا سَلٰمًا O  وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا O وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ ق اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا O  اِنَّھَا سَآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا O وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ        قَوَامًا O  وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ ج وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا O (الفرقان ۲۵: ۶۳-۶۸) رحمٰن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل اُن کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام جو اپنے ربّ کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں جو دعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے ربّ ، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے ، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے‘‘۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں___ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا ۔

وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا O وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا O وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا O (الفرقان۲۵: ۷۲ تا ۷۴) (اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھُوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں ۔ جنھیں اگر ان کے ربّ کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے ۔جو دُعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے ربّ ، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا‘‘۔

دیکھو ایک ایمان کی حقیقت میں عفو ودرگزر، میانہ روی اور قتل و خوںریزی اور بدکاری نہ کرنا اور مکرو زور میں شریک نہ ہونا وغیرہ اخلاق کے کتنے مظاہر پوشیدہ ہیں۔

اہل ایمان کے اخلاقی اوصاف

وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے پیارے اور مقبول بندے ہیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے اخلاقی اوصاف یہ بیان ہوئے ہیں:

وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ O وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ھُمْ یَغْفِرُوْنَ O  وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ص وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ص وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ O وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ O وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا ج  فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ O وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیْھِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ O اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط  اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ O وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ O (الشوریٰ ۴۲: ۳۶ تا ۴۳) وہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیںاور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔جو بڑے بڑے گناہوں اوربے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو در گزر کر جاتے ہیں،جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں ، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ، ہم نے جو کچھ بھی رزق انھیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں،اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں___بُرائی کا بدلہ ویسی ہی بُرائی ہے ، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں اُن کو ملامت نہیں کی جا سکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور در گزر کرے، تو یہ بڑی اُولوا العزمی کے کاموں میں سے ہے۔

اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ O الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ O(اٰل عمرٰن ۳: ۱۳۳-۱۳۴) اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، خواہ بدحال ہوں یا خوش حال ، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔

اُولٰٓئِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَھُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ O وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَ قَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ سَلٰمٌ ز عَلَیْکُمْ ز لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَO  (القصص ۲۸: ۵۴-۵۵) یہ وہ لوگ ہیں  جنھیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اُس ثابت قدمی کے بدلے جو انھوں نے دکھائی۔ وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جب انھوں نے بے ہودہ بات سنی تو    یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہو گئے کہ ’’ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے ، تم کو سلام ہے ، ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے۔

وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ  مِسْکِیْنًا  وَّیَتِیـْمًا  وَّاَسِیْرًا  (الدھر۷۶:۸)  اور   اللہ کی محبّت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ا یمان اورا خلاقِ حسنہ کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ O (القلم ۶۸:۴) ’’اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو ‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: اُیُّ الْاِیْمَا نِ اَفْضَلُ ’سب سے افضل ‘سب سے اعلیٰ اور سب سے عمدہ ایمان کون سا ہے؟‘‘۔ جواب میں ارشاد فرمایا: خُلُقٌ حَسَنٌ’’یعنی وہ ایمان  جس کے ساتھ اخلاق حسنہ موجود ہوں‘‘۔

ارشاداتِ نبویؐ کی روشنی میں

اَکْمَلُ   الْمُؤْمِنِیْنَ   اِیْمَاناً   اَحْسَنُھُمْ  خُلُقًا  (ابوداؤد ) اہلِ ایمان میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں ، جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں۔

اِ نَّمَا بُـعِـثْتُ   لِاُتَمِّمَ   مَکَارِ مَ  الْاَخْلاَقِ (الادب المفرد للبخاری و مسند احمد) میں اخلاق کریمہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔

 اِنَّ   اَثْقَلَ شَیءٍ یُوْضَعُ  فِیْ  مِیْزَانِ  الْمُؤْمِنِ  یَوْمَ  الْقِیَامَۃِ خُلُقٌ  حَسَنٌ (ابوداؤد،  الترمذی)قیامت کے دن ، مومن کی میزانِ عمل میں ، جو سب سے وزنی اور بھاری چیز رکھی جائے گی، وہ اُس کے اچھے اخلاق ہوں گے۔

اَ لْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ(رواہ احمد ابو داؤد )نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے۔

اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ  وَ اَ قْرَبِکُمْ مِنِّیْ مَجْلِسًا  یَوْ مَ الْقِیٰمَۃِ أَ حْسَنُکُمْ أَ خْلَا قًا (بخاری) بے شک مجھے تم میں سے سب سے محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں اچھے اخلاق والے ہیں ۔

وَ عَنْ رُجُلٍ مِنْ مُزَ یْنَۃَ قَا لَ : قَا لُوْ ا : یَا رَ سُوْ  لَ اللّٰہِ  مَا خَیْرُ مَا اُعْطِیَ الْاِنْسَانُ؟  قَا لَ : اَلْخُلُقُ الْحَسَنُ (بیہقی فی شعیب الایمان) مزینہ قبیلہ کے ایک شخص سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا :اے اللہ تعالیٰ کے رسول،انسان کو جو کچھ عطا ہو ا ہے اس میں سب سے بہتر کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا:حُسن اخلاق۔

اِنَّ   الْمُؤْمِنَ   لَیُدْرِکُ   بِحُسْنِ  خُلُقِہٖ   دَرَجَۃَ  قَائِمِ   اللَّیْلِ   وَصَائِمِ   النَّھَارِ    (ابوداؤد، عن عائشۃؓ ) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : مومن، اپنے اچھے اخلاق سے ان لوگوں کا درجہ حاصل کر لیتا ہے ، جو رات بھر نفلی نمازیں پڑھتے ہوں اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے ہوں۔

ایمان اور اخلاق حسنہ لازم و ملزوم

  •  ارشاد نبوی ؐ:  لَیْسَ الْمُؤْ مِنُ  بِا لطَّعَّانِ  وَ  لَا  اللَّعَّا نِ وَلَا الْفَا حِشِ  وَلَا الْبَذِیْءِ (سنن ترمذی) ’’مومن کبھی طعنے دینے والا ،لعنت ملامت کرنے والا،فحش گوئی کرنے والا اور بداخلاق نہیں ہوسکتا ‘‘۔
  •   نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وَ اللّٰہِ  لاَ  یُؤْ مِنُ  ،   وَ اللّٰہِ  لاَ  یُؤْ مِنُ  ، وَ اللّٰہِ  لاَ  یُؤْ مِنُ   قِیْلَ وَ مَنْ یَا رَسُوْ لَ اللّٰہَ ’’خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ،خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ،خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ۔پوچھا گیا :اے اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کون ؟‘‘۔

                                جواب میں ارشاد فرمایا : اَ لَّذِ یْ لاَ  یَأْ مَنُ جَا رُ ہُ  بِوَا یِقَہُ، وہ شخص جس کی ایذارسانی سے اس کا پڑوسی چین یا امن میں نہیں۔

  •   نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لَا  اِ یْمَانَ لِمَنْ لَّا  اَمَا نَۃَ لَہُ ، وَ لَا دِ یْنَ  لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہُ (مشکوٰۃ ) جس کے اندر امانت نہیں، اس کے اندر ایمان نہیں اور جسے عہد کا پاس نہیں، اس کے پاس دین نہیں ہے۔

 اخلاق حسنہ کے لیے جذبۂ محرکہ 

ایمان باللہ ، ایمان بالآخرۃ، اللہ تعالیٰ کی محبت ،اللہ تعالیٰ کی رضا جو ئی ،اللہ تعالیٰ کا خوف، تقویٰ،یہ احساس کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہو جائے ،اخلاقِ حسنہ کے لیے جذبۂ محرکہ ہیں۔  اسی طرح یہ فکرہے کہ آخرت کا خوف،آخرت کی جواب دہی کا احساس کہ ہر سانس کے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے ۔اس کے لیے شعور کو تازہ رکھنا اور ہر قدم پر اپنا محاسبہ کرنا کے کہیں مجھ سے کوئی غلط فعل سرزد نہ ہو جائےناگزیرہے۔