ماہ نامہ ترجمان القرآن (اپریل ۱۹۴۱ئ) میں ’ایک صالح جماعت کی ضرورت‘ کے عنوان سے مولانا مودودی نے تشکیل جماعت کی تجویز پیش فرمائی تھی۔ اسی دوران یکم جون ۱۹۴۱ء کو میری شادی ہوگئی۔ میرے ولیمے کے اگلے ہی روز ایک اندوہ ناک واقعہ پیش آیا۔ میرے ماموں خسر فتح محمد صاحب دعوت ولیمہ میں شرکت کے لیے اہل و عیال کے ہمراہ اپنے گائوں صفدرپور سے ہمارے ہاں راے پور آئے ہوئے تھے۔ ولیمے کے اگلے روز میرے والد صاحب اور کچھ دوسرے رشتہ دار انھیں بیل گاڑی پر بٹھا کر نڈالہ کے لاری اڈے پر چھوڑنے جارہے تھے۔ یہ ابھی گائوں سے نکل کر آدھ پون کلومیٹر کی دُوری پر تھے کہ ماموں فتح محمدصاحب کے سینے میں درد اُٹھا، اور انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے دم توڑ دیا۔ میرے والد اور دوسرے رشتہ دار ان کی میت چھکڑے پر واپس رائے پور لے آئے۔ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ ان کی بیوی، بچے اور میری اہلیہ تیسرے روز، روتے دھوتے واپس صفدرپور روانہ ہوگئے۔
اس وجہ سے ۲۲ یا ۲۳؍اگست ۱۹۴۱ء کو، یعنی شادی کے بعد پہلی بار اہلیہ کو اپنے گھر لانے کے لیے میں روانہ ہوا۔ راستے میں کپورتھلہ پڑتا تھا۔ ابھی میں راستے میں کپورتھلہ پہنچا ہی تھا کہ مجھے چودھری عبدالرحمن صاحب نے بتایا: ’ایک صالح جماعت کی ضرورت ‘ کی تجویز کے مطابق مولانا مودودی صاحب کی دعوت پر لاہور میں اجتماع ہو رہا ہے۔ پھر مستری محمد صدیق صاحب اور چودھری عبدالرحمن صاحب نے مجھے بھی لاہور کے اس اجتماع میں شرکت کی پُرزور دعوت دی، اور میں سسرال جانے کے بجاے راستے ہی سے ان کے ہمراہ لاہور کی جانب چل دیا۔ ان دنوں میں گورنمنٹ کالج لاہور اور یونی ورسٹی لا کالج کی تربیت اور ماحول کے زیراثر لباس کی حد تک مکمل مغربی طرزِ معاشرت کے مطابق زندگی بسر کرتا تھا۔ اسی حالت میں، مَیں لاہور کے اجتماع میں شریک ہوا۔ یہ اجتماع اسلامیہ پارک لاہور میں مولانا ظفراقبال صاحب کی کوٹھی فصیح منزل سے متصل مسجد کے سامنے مولانا مودودی صاحب کی رہایش گاہ میں منعقد ہوا۔
یہ اجتماع ۲۵، ۲۶ ؍اگست ۱۹۴۱ء مطابق یکم، دوشعبان ۱۳۶۰ھ دو دن جاری رہا۔ پہلے دن تو جماعت کے لیے مجوزہ دستوری خاکے پر بحث ہوتی رہی۔ شرکا نے بعض ترامیم پیش کیں۔ یہ دستور ساز کمیٹی آٹھ دس آدمیوں پر مشتمل تھی۔ ان افراد میں مَیں بھی شامل تھا۔ اس پہلے اجتماع میں شریک جن لوگوں کی یاد ذہن میں محفوظ ہے، ان میں سیّد عبدالعزیز شرقی صاحب، مولانا جعفرشاہ پھلواروی صاحب، مولانا محمد منظور نعمانی صاحب، نعیم صدیقی صاحب، حافظ فتح اللہ صاحب، شیخ فقیر حسین صاحب، مستری محمد صدیق صاحب، چودھری عبدالرحمن صاحب، ماسٹر عزیز الدین صاحب وغیرہ شامل تھے۔
اس کام میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بیان کردہ ایمان و اسلام کے تقاضوں کو سمجھ کر اور ’ایک صالح جماعت کی ضرورت‘ والا مضمون پڑھنے کے بعد بالکل یکسو ہوگیا تھا۔ میرے دل نے یہ گواہی دی کہ یہ شخص (مولانا مودودی) جو کچھ کہتا ہے بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ پھر میں یقین کی اس منزل کو پہنچ گیا کہ یہ ایک ایسی سچائی اور ایسا حق ہے کہ اس دنیا میں کوئی تیسرا شخص اس فرد کا ساتھ دینے کے لیے اُٹھے یا نہ اُٹھے، مَیں بہرحال اس کا ساتھ دوں گا اور آخر دم تک اس کا ساتھ دوں گا۔ ہم یہی کام کرتے کرتے اپنے خالق و مالک کے پاس چلے جائیں گے۔
تاسیس جماعت کا اجتماع بڑا رقت آمیز تھا۔ ہرشخص جو کلمۂ شہادت کی تجدید کے لیے اُٹھتا، شدتِ جذبات سے اس کی ہچکی بندھ جاتی تھی، اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شہادت کی اس ذمہ داری کو وہ زمین و آسمان کے بوجھ سے بھی زیادہ وزنی سمجھ کر اُٹھا رہا ہے۔ اس کے بعد جب اجتماعی دُعا ہوئی تو وہ بڑی اثرانگیز اور شرکا پر رقت طاری کرنے والی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس اجتماع میں جو لوگ شریک تھے، وہ اس کی کیفیات اور تجربے کو عمربھر نہیں بھلا سکے ہوں گے۔
یہ واقعہ میری یاد میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ اس اجتماع میں مدراس [چنائے] سے پشاور اور پٹنہ سے کراچی و بمبئی تک پورے [غیرمنقسم]ہندستان سے ۷۵ آدمی شریک ہوئے۔ اس دو روزہ اجتماع کا پہلا دن تو باہمی تعارف اور عام تبادلۂ خیالات اور ملاقاتوں میں گزرا۔ پھر جماعت کے لیے مجوزہ دستور کا مسودہ اجتماع میں پیش ہوا۔ ایک کمیٹی نے اس مسودے پر نظرثانی کی اور غوروبحث کے بعد اسے آخری شکل دے دی۔
دستور مکمل ہوجانے کے بعد اگلے روز صبح کے اجلاس میں مولاناسیّدابوالاعلیٰ مودودی اُٹھے اور افتتاحی خطاب کیا (یہ خطبہ رُوداد جماعت اسلامی، حصہ اوّل میں پڑھا جاسکتا ہے)۔ اس کے بعد فرمایا: ’’اس جماعت کی رکنیت کے لیے سب سے پہلے میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں اور آپ سب کو گواہ کر کے پورے فہم و شعور کے ساتھ کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت ادا کر کے ازسرِنو ایمان لاتا ہوں اور اس جماعت کی رُکنیت اختیار کرتا ہوں‘‘۔
مولانا مودودی کے بعد لکھنؤ سے محترم مولانا محمد منظور نعمانی اور پھر یکے بعد دیگرے دوسرے حضرات بھی کلمۂ شہادت کی تجدید کرکے جماعت میں شامل ہوتے گئے۔ پانچویں یا چھٹے نمبر پر میں بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس وقت میں اپنے آبائی وطن ریاست کپورتھلہ (مشرقی پنجاب) میں وکیل تھا۔ ۲۷ برس عمر تھی اور اڑھائی تین ماہ پیش تر شادی ہوئی تھی۔ جیساکہ بتا چکا ہوں میں اہلیہ کو گھر لانے کے بجاے اجتماع میں آگیا تھا اور حسب معمول کوٹ پتلون اور ٹائی ہی میں ملبوس تھا۔ ہیٹ میرے ہاتھ میں تھا اور داڑھی مونچھ صاف۔
میں نے اُٹھ کر کہا: ’’میں بھی اپنے آپ کو جماعت اسلامی کی رکنیت کے لیے پیش کرتا ہوں‘‘۔ اس پر ہمارے نہایت محترم شریک محفل جناب مولانا محمد منظورنعمانی جنھیں میں نے اسی اجتماع میں دیکھا تھا، انھوں نے میری وضع قطع کو دیکھ کر اعتراض کیا: ’’ان فرنگی آلایشوں کے ساتھ کسی شخص کو جماعت کی رکنیت میں کیسے لیا جاسکتا ہے؟‘‘ بعض دوسرے حضرات نے بھی مولانا نعمانی صاحب کی بات کی پُرزور تائید کی۔
میں نے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ نہ مانے۔ آخر میں نے درد بھرے لہجے میں التجا کرتے ہوئے کہا: ’’آپ مجھے موقع تو دیجیے‘‘۔
چنانچہ مولانا مودودی کی تجویز پر مجھے آزمایشی طور پر اس شرط کے ساتھ جماعت میں شامل کرلیا گیا کہ اگر چھے ماہ کے اندر میں نے اپنے ذریعۂ معاش اور دوسری قابلِ اصلاح چیزوں کو درست کرلیا تو رکنیت برقرار رہے گی، ورنہ ساقط کردی جائے گی۔
اس طرح میں ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو جماعت کی تاسیس کے روز ہی جماعت میں شامل ہوگیا۔ سراسر خداوند تعالیٰ کے فضل و توفیق سے میں نے جماعت کی طرف سے مقرر کردہ میعاد سے پہلے ۲۳جنوری ۱۹۴۲ء کو شرائط داخلہ پوری کردیں۔ اگرچہ اس کی وجہ سے مجھے والدین، اعزہ و اقربا اور احباب و شناسا، سب کی شدید ناراضی کا برسوں تک سامنا کرنا پڑا۔ لیکن کسی نصب العین کو اختیار کرنے کے بعد ان باتوں سے سابقہ پیش آنا ایک قدرتی امر ہے۔ مستقبل میں بھی اس راہ پر قدم بڑھانے والے ہر شخص کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس فیصلے اور اقدام کے بارے میں مجھے آج تک ذرہ بھی تردّد نہیں ہوا۔ بڑے بڑے طوفان آئے، بڑے بڑے برج گر گئے، بڑے بڑے دعوے کرنے والے ساتھ چھوڑ گئے، لیکن اللہ نے میرے پائوں میں کوئی لغزش نہ آنے دی اور نہ اس کا مجھ پر کبھی کوئی اثر پڑا کہ فلاں فرد جماعت کو چھوڑ کر چلا گیا، یا فلاں نے یہ کہہ کر راہِ فرار اختیار کرلی ہے وغیرہ وغیرہ۔ امرِواقعہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بعد اپنی ذمہ داری کا احساس اور زیادہ بڑھ جاتا۔
جماعت اسلامی اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی ایک بنیادی مقصد لے کر میدان میں آئی ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے، صرف اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے دین کے پیرو بن کر رہیں۔ اپنی زندگیوں کا تزکیہ کریں اور نیکی کو پھیلائیں۔ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات و تعلیمات، قرآنِ مجید اور حضور نبی آخر الزمان حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہیں، ان احکام و تعلیمات کو من و عن اور عملی طور پر ایک نظام کی صورت میں اپنے معاشرے میں برپا اور نافذ کریں۔ یہی جماعت اسلامی کے بنیادی مقاصد ہیں۔ اسی کو قرآن کی زبان میں ’اقامت ِ دین‘ کہا گیا ہے۔ جس کے لیے جدوجہد کیے بغیر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ممکن نہیں ہے۔ رضاے الٰہی ہی انسانی زندگی کا اصل مقصود ہے۔
قرآن نے انسان کو اس دنیا میں اپنا خلیفہ (vice gerent) کہا ہے۔ خلیفہ اسے کہتے ہیں جو اپنے مالک کی مرضی پر خود بھی چلے اور دوسروں پر بھی اس مرضی کو نافذ کرے۔ نہ خود اس کے خلاف کوئی کام کرے اور نہ کسی اور کو ایسا کرنے دے۔(مشاہدات، مرتبہ: سلیم منصور خالد، ص ۶۱-۶۷)