حج کی اہمیت اور افادیت کے لیے اس کا ایک رکنِ اسلام ہونا بجاے خود کافی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کا سب سے نمایاں پہلو انبیاکرام علیہم السلام کی دعوت کے مرکزی اور کلیدی پیغام کو انسانوں کے لیے ایک قابلِ عمل عبادت اور مظہر اطاعت بنا دینا ہے۔ قرآنِ کریم نے تمام انبیا کرام ؑ کی دعوت کو محض دو الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ اللہ کے بندے بن جائو اور ہرباغیانہ سرکشی سے باز آجائو، اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶)۔ چنانچہ میدانِ دعوت مکہ کی وادیِ غیر ذی زرع ہو یا ماوراالنہر کی عراق و شام کی سرسبز و شاداب سرزمین، ہر نبی برحق نے انسانوں کے خودساختہ معبودوں کو وہ پتھر اور لکڑی سے بنے ہوں یا وہم وگمان کی پیداوار ہوں، وہ مندر اور کلیسا میں ہوں یا نہاں خانۂ دل میں محفل جمائے ہوں، وہ معاشرتی رسوم کے خدا ہوں، یا معاشی استحکام اور سیاسی اقتدار کے حریص بادشاہ ہوں، ان تمام بے اصل سرچشمۂ ہوا و ہوس کو جہل خرد کی باطل پیداوار قرار دیتے ہوئے انسانیت کو صرف اور صرف ایک رب العالمین، احکم الحاکمین اور خالق کائنات کی بندگی اور اطاعت کی طرف متوجہ کیا۔
حج کا عظیم مقصد زندگی کے ہر عمل کو توحید ِخالص میں رنگ کر ایک کلّی انقلاب کا برپا کردینا ہے تاکہ انسان کے انفرادی معاملات ہوں، عقیدہ و عمل ہو، مرنا اور جینا ہو، ہرممکنہ عمل صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا پابند ہوجائے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَـہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳) کہو ، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا میں ہوں۔
اس توحید ِ خالص کی پکار کو قرآن کریم نداے حج کے زیرعنوان یوں بیان فرماتا ہے: ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں رکھے گئے ہیں‘‘ (الحج ۲۲:۲۶-۲۸)۔ یہ توحید خالص کی دعوت تمام انسانیت کے لیے ہے کیونکہ اسلام تمام انسانیت کے لیے اللہ کی طرف سے آخری اور مکمل دین بنا کر بھیجا گیا ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔
حج زندگی کی بے شمار شاہراہوں کا تزکیہ کرتے ہوئے تمام انسانوں کو صراطِ مستقیم، سواء السبیل، سراجِ منیر اور الہدیٰ کی طرف بلاتا ہے تاکہ انسان خود کو ہرنوعیت کے شرک سے نکال کر ان کلمات کی تکرار کرے جو توحید ِ خالص کے پیغامبر ابوالانبیا کی زبانِ مبارک سے نکلے تھے: اِنَّنِیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَo (الانعام ۶:۱۹)’’جن کو تم شریک ٹھیراتے ہو، میں ان سب سے براء ت کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔ گویا میں نے تمام معاشی، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی خدائوں سے نجات حاصل کرتے ہوئے مقصد ِ حیات کو پالیا ہے۔ اپنی سمت کو درست کرلیا ہے، زاویۂ نظر کی اصلاح کرلی ہے اور یکسو ہوکر صرف اور صرف اللہ کو اپنا حاکم اور مولا تسلیم کرلیا ہے۔ ’’میں نے تو یکسو ہوکر اپنا رُخ اُس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔(الانعام ۶:۷۹)
اس شعوری فیصلے کا اعلان وہ تلبیہ کے ہر ہر لفظ کے ذریعے سرگوشی میں نہیں بلکہ بلندآواز سے کرتا ہے کہ کائنات کی ہر شے جس تک اس کی آواز پہنچ سکے اس راستی اور شہادتِ حق کی گواہ بن جائے۔ ہاں، ہاں، میں حاضر ہوں۔ مالک تمام عظمت، تقدس، ثنائ، حمد، تعریف صرف اور صرف آپ کے لیے ہے۔ آپ ہی ہر حمدوعظمت کے مستحق ہیں۔ آپ کے سوا کوئی حاکمیت و اقتدار میں ذرہ برابر شریک نہیں ہوسکتا اور نہ کسی تعریف و توصیف کا مستحق ہوسکتا ہے۔ میں نے اپنی مادری زبان، اپنے ملکی لباس کو، اپنے گھر کو، اپنے کاروبار کو، اپنے دوست اور اقربا کو، غرض ہر واسطے کو چھوڑ کر صرف دامنِ توحید میں پناہ لے لی ہے۔ میں آپ کی بندگی میں آکر تمام بندگیوں سے آزاد ہوکر اپنی متاعِ حیات کو آپ کے قدموں میں پیش کرتے ہوئے عہد کرتا ہوں کہ آج سے میرا سر کسی کے سامنے نہیں جھکے گا۔ اس عظمت والے گھر میں کیا جانے والا ایک سجدہ مجھے ان تمام بندگیوں سے نجات دے گا جن میں مَیں آج تک پڑا ہوا تھا۔
یہ توحیدی اجتماع ہر فرد کو آغاز سے تکمیل تک کلمۂ حق بلند کرنے اور بلاخوف و خطر خالقِ حقیقی کی عظمت و جلال کو ہر ایوان میں بلندکرنے ، اور بلاخوف و ہراس وقت کے جباروں کو للکار کر ان کی آمریت اور اللہ سے بغاوت کرنے کی روش کو رد کرتے ہوئے، زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لانے اور اپنے قبلے کی درستی کے ساتھ اپنی ترجیحات میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے۔
کل تک ایک شخص کا گھنٹوں نیند کے مزے لینا اس کی ترجیح تھی تاکہ وہ تروتازہ ہوسکے۔ اب وہ یہی تازگی چند لمحات کے لیے آنکھ بند کر کے حاصل کرلیتا ہے اور وقت کا بڑا حصہ اللہ تعالیٰ کی حمدوعظمت کے بیان میں صرف کرتاہے۔ کل تک اس کی ترجیح اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ دولت، آسایش کا حصول تھا۔ اب وہ اپنے دینی بھائی کے لیے اپنے حق کو قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ صبروتحمل کے ساتھ اُس سچے وعدے کے پیش نظر جو رب کریم نے اپنے بندوں سے کرلیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو فردوس کا وارث بنا دے گا، اس دنیا میں پیش آنے والی ہر آزمایش و امتحان کو خوشی کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔ وہ حج کے ظاہری فوائد اخوت، رواداری، باہمی تعارف، تجارتی فروغ، مرکز توحید اور مرکز رسالتؐ سے وابستگی، اتحادِ اُمت، تعاون باہمی، سنت ِ ابراہیمی کے احیا اور ماضی کے تمام گناہوں سے نجات کے ساتھ ایک نئے عزم و ارادے سے مسلح ہوکر واپس ہوتا ہے۔
اب عصبیت، فرقہ واریت، علاقائیت، قبائلی اور برادری کے فخر اسے اپنی طرف متوجہ نہیں کرتے۔ اس نے اللہ کے رنگ کو اختیار کرلیا ہے۔ تمام لبادوں کو اُتار کر اللہ کی بندگی کی قبا کو پہن لیا ہے۔ اب چاہے وہ دوبارہ اپنے ملک کی زبان میں بات کر رہا ہو لیکن اب سوچ کا انداز، دل کی دھڑکن، ذہن کا رجحان صرف ایک مرکز کی طرف ہے کہ کس طرح اللہ کی زمین میں اللہ کی حاکمیت کو قائم کرسکے، کس طرح ظلم و استحصال کے خدائوں سے نجات حاصل کرکے عدل و رواداری اور محبت و اخوت کو رواج دے سکے۔ جس اجتماعیت کا تجربہ اسے حج کے دوران ہوا ہے وہ اس کے اعتماد اور اللہ پر توکّل میں اضافہ کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی اُمت سے وابستہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خیرامۃ قرار دے کر تمام اقوامِ عالم کی سربراہی کے فریضے پر فائز کیا ہے۔ اپنے تن من دھن کو صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی میں دینے کے عمل کے ساتھ اب اس کا اصل کردار توحید ِ خالص کو اپنے ملک میں، اپنے معاشرے میں، اپنے گھر میں اور خود اپنی شخصیت میں ہرہرسطح پر نافذ کرنا ہے۔
حج اسے عالمی تحریک اسلامی سے وابستہ ہوکر کلمۂ حق کے بلند کرنے اور حاکمیت ِ الٰہیہ کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ حج کا انقلابی عمل معاشرے میں نیکی اور بھلائی کے فروغ اور بدی اور فحش کے خاتمے کے لیے اجتماعی جدوجہدکا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ معاشرے کو وہ تازہ خون فراہم کرتا ہے جو معاشرے کی صحت کی ضمانت دیتا ہے۔ ہر سال لاکھوں افرا اس نظامِ تربیت سے گزرتے ہیں۔ یہ ایک عظیم سرمایہ ہے جسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو دعوت الی اللہ اور حکومت ِ الٰہیہ کے قیام کی منزل جلد قریب آسکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرشہر اور ہرگائوں میں اللہ کے ان بندوں تک پہنچا جائے جو اس عظیم فریضے کی تکمیل کے بعد اپنے گھر واپس لوٹے ہوں اور انھیں حج کے عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے منظم ہونے اور اس تربیت میں حاصل کی گئی بھلائی کو اصلاحِ معاشرہ، اصلاحِ گھر اور اصلاحِ اقتدار کے لیے استعمال کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔