۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء ، ۲۷رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ ہماری تاریخ کا ایک روشن اور سنہری دن ہے۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص سے بیسویں صدی میں پہلی بار ایک آزاد اسلامی ملک وجود میں آیا__ ایک ایسا ملک، جو آزادی کی تحریکات کے قافلے میں ایک منفرد مقام رکھتا تھا۔
اس امتیازی شان کی بنیاد یہ تھی کہ مغربی استعمار کے خلاف جو دیگر اقوام اور ممالک، آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، وہ پہلے سے اپنا نام اور جغرافیہ رکھتے تھے، اور صرف اپنے اُوپر سے بیرونی تسلط سے نجات پانے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ ان کے برعکس برعظیم کی صورت حال یہ تھی کہ ایک قوم جس کی بنیاد عقیدے اور نظریے پر تھی، وہ اپنے لیے ایک نیا ملک وجود میں لانے کے لیے سرگرم تھی۔ اس کی جنگ ایک نہیں دو طاقتوں کے خلاف تھی۔ ایک طرف برطانوی سامراج تھا جس نے برعظیم میں محض قوت کے بل بوتے پر قبضہ کرلیاتھا اور دوسری طرف ہندستان کی ہندو اکثریت تھی، جو ’متحدہ ہندی قومیت‘ کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے سیاسی محکومی کا ایک نیا جال بُن رہی تھی۔ برعظیم کے مسلمانوں نے ان دونوں طاقتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور بڑی گراں قدر قربانیوں کا نذرانہ پیش کر کے ایک خطۂ زمین حاصل کیا جسے انگریزوں اور ہندوئوں نے بڑی کانٹ چھانٹ کے بعد ہی دیا۔ یہ ملک، جغرافیائی قومیت کی بنیاد کے مقابلے میں ایک اصولی اور نظریاتی قومیت کی بنیاد پر حاصل کیا گیا، تاکہ ہندی مسلمان اپنی دینی، تہذیبی اور ملّی شناخت کی حفاظت اور ترقی کا اہتمام کرسکے، نیز اپنے اصول و نظریات کی روشنی میں اپنا مستقبل تعمیر کرسکے۔
انسانی تاریخ میں نظریاتی ریاست کی یہ روشن مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کی شکل میں قائم ہوئی تھی، اور ۱۲۰۰ سال تک مختلف شکلوں میں یہ اپنا جلوہ دکھاتی رہی، لیکن مغربی استعمار کے دو ڈھائی سو سالہ دور میں اس شمع پر اندھیروں نے غلبہ حاصل کرلیا تھا۔ اگرچہ دلوں میں یہ شمع روشن تھی، لیکن اس کی روشنی سے سیاسی اور اجتماعی زندگی محروم ہوگئی تھی اور مغربی دنیا ہی نہیں تقریباً دنیا کے سارے طول و عرض پر ایک نئے سیاسی اور تہذیبی نظام کو مسلط کردیا گیا تھا جس میں قوموں کی شناخت کی بنیاد نظریے اور اقدار کی جگہ جغرافیے، نسل، رنگ اور سیاسی مفادات پر رکھی گئی تھی۔ پھر سیکولرزم، لبرلزم، جمہوریت اور سرمایہ داری کے نام پر انسانیت کے استحصال کا ایک نیا اور بڑا ہی تباہ کن نظام دنیا کی اقوام پر عسکری قوت، جبرواستبداد، تہذیبی یلغار اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعے مسلط کردیا گیا۔
تحریکِ پاکستان سیاسی غلامی ہی کے خلاف محض آزادی کی ایک تحریک نہ تھی، بلکہ ایک نظریاتی اور تہذیبی تحریک بھی تھی، جس نے وقت کے غالب تصورات کو چیلنج کیا اور دنیا سے اس اصول کو تسلیم کرایاکہ عقیدے، نظریے اور تہذیب کی بنیاد پر قائم ایک قوم کا یہ حق ہے کہ جن علاقوں میں اسے اکثریت حاصل ہو، وہ ان میں اپنے تصورات کے مطابق نظامِ زندگی قائم کر کے اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کے مطابق اپنا مستقبل تعمیر کرسکے۔ مغربی سامراج اور ہندو اکثریت نے بڑی مجبوری کے عالم میں اس دعوے کو قبول کیا۔ یہ ہے وہ خصوصی پس منظر، جو پاکستان کی تحریک اور پاکستان کو ایک ملک کی حیثیت سے منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے، یعنی یہاں کسی ملک نے آزادی حاصل نہیں کی بلکہ ایک قوم نے ایک ملک حاصل کیا اور اس طرح تاریخ کے ایک نئے دور کی طرف پیش قدمی کا دروازہ کھول دیا۔ اس کے لیے ان مسلمانوں نے بھی بیش بہا قربانیاں دیں جو ان علاقوں میں رہتے تھے جو پاکستان کا حصہ بنے، اور ان سے بھی زیادہ قربانیاں، ان مسلمانوں نے دیں جو یہ جانتے تھے کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے، لیکن پھر بھی برعظیم کی اُمت اسلامیہ کے مستقبل کی خاطر وہ اس جدوجہد کا حصہ بنے اور اس کے لیے سردھڑ کی بازی لگادی۔ یہ تاریخ کی بڑی ہی نادر مثال ہے کہ کروڑوں انسانوں نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس جدوجہد کے ثمرات میں کوئی حصہ نہ پائیں گے، صرف ایک نظریے کے غلبے کے لیے اپنے دنیاوی مفادات کو دائو پر لگادیا اور بے لوث نظریاتی جدوجہد کی ایک نادر مثال قائم کردی۔
تحریکِ پاکستان تک پہنچنے اور پھر اس کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے برعظیم کے مسلمان بڑے صبرآزما مراحل سے گزرے، جن کو سمجھے بغیر پاکستان کی حیثیت اور تحریکِ پاکستان کے مزاج، مراحل اور مقاصد کو سمجھنا مشکل ہے۔
برعظیم میں ایک نہیں متعدد نسلیں آباد تھیں۔ دراوڑ، آریائی، سامی، عرب، مغل اور ان کے ارتباط سے رُونما ہونے والی بے شمار نسلیں، اس سرزمین کا انسانی سرمایہ تھیں۔ بدھ مذہب، ہندومت، جین مت، اسلام اور پھر سکھ مت، عیسائیت اپنے اپنے دور اور اپنے اپنے انداز میں کارفرما قوت بنتے رہے۔ ہندومذہب اور سماج کی بنیاد ذات پات پر ہے۔ اس معاشرے کی بنیاد تخلیق انسان کے بارے میں ان کے مذہبی تصورات پر ہے اور ذات پات کی یہ تقسیم ہی ان کی اصل تہذیبی اور مذہبی شناخت ہے۔ اسلام نے ان تصورات کو چیلنج کیا اور عقیدے اور دین کی بنیاد پر انسانوں کے اجتماع کو قائم کر کے ایک حقیقی انسانی اور عالمی سماج اور ریاست کی بنیاد رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ برعظیم کے مسلمانوں کا تعلق بھی انھی نسلوں سے تھا، جو برعظیم میں پائی جاتی ہیں لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی شناخت، نسل، رنگ، زبان، قبیلے یا طبقے پر نہیں، ایمان کی بنیاد پر ایک اُمت کی صورت اختیار کرگئی اور یہی ان کی قومیت کی بنیاد بنی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے تحریکِ پاکستان کی بنیاد، یعنی دو قومی نظریے کو بڑے سادہ مگر تاریخی حقائق پر مبنی انداز میں علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے یوں بیان کیا کہ ’’پاکستان کی بنیاد اس دن پڑگئی جس دن برعظیم کی سرزمین پر پہلا ہندو، مسلمان ہوا تھا‘‘۔
برعظیم میں مسلمانوں نے آٹھ نو سو سال تک حکمرانی کی، لیکن اس پورے دور میں تمام نشیب و فراز کے باوجود ان کی کوشش یہی رہی کہ اپنی شناخت پر کوئی سمجھوتا نہ کریں۔ دوسروں کو ان کی اپنی شناخت کے مطابق زندگی گزارنے کے پورے پورے مواقع دیں اور ان کے حقوق کا مکمل تحفظ کریں، لیکن ان کی اور اپنی شناخت کو گڈمڈ کرکے کوئی مشترکہ دین اور تہذیب نہ بنائیں۔ اس سلسلے میں جو کوششیں بھی مختلف حلقوں کی جانب سے ہوئیں وہ ناکام و نامراد ہوئیں، خواہ وہ اکبربادشاہ کے سرکاری قوت کے استعمال کے ذریعے ہوں، یا انگریز سامراج کے ترغیب و ترہیب کے ہتھکنڈوں سے، یا انڈین نیشنل کانگریس کے سیکولر اور جمعیت العلماء ہند کے ایک دھڑے کے مذہبی حربوں سے ہوں۔
اس جدوجہد کا بڑا ہی اہم اور چشم کشا منظر برعظیم کی بیسویں صدی کی سیاسی جدوجہد میں دیکھا جاسکتا ہے۔ سیّداحمدشہید کی قیادت میں تحریک مجاہدین،دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلمائ، سرسیّداحمد خان کی علی گڑھ تعلیمی تحریک، ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام، تحریک ِخلافت کا ظہور اور ہندستان بھر میں پھیلائو اور پھر تحریک ِپاکستان اپنے اپنے انداز میں مسلم شناخت کی یافت اور حفاظت کی کوششیں تھیں۔ بلاشبہہ ایک مدت تک یہ کوشش ہوتی رہی کہ برعظیم کی تمام اقوام متحدہوکر سیاسی اہداف حاصل کریں، جن میں مسلمانوں کی شناخت کی حفاظت اور ترقی کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ جداگانہ انتخابات اور تہذیب، تعلیم، زبان اور مذہبی حقوق کی حفاظت، ۱۹۰۵ء سے لے کر ۱۹۴۰ء تک کی جدوجہد کے ہر مرحلے میں بحث و گفتگو کا مرکز اور محور رہے۔ جب کانگریس کے مسلم کش اور جارحانہ کردار، اور برطانوی حکمرانوں کے دوغلے پن سے یہ واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کی قومی شناخت، ان کی اقدار اور ان کی تہذیبی روایات کی حفاظت و ترقی کسی بھی مشترک سیاسی انتظام میں ممکن نہیں، اور اس پر تاجِ برطانیہ کے ’۱۹۳۵ء کے قانون‘ کے نفاذ اور ۱۹۳۷ء کے صوبائی انتخابات کے بعد نیشنل کانگریس کی حکومتوں کے برہمنی جارحانہ اقدامات نے مہرتصدیق ثبت کردی، تو پھر علامہ محمد اقبال کے ۱۹۳۰ء کے خطبے کی روشنی میں مارچ ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ نے تقسیمِ ملک کی منزل کو اپنا ہدف مقرر کیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے صرف سات سال کے اندر قائداعظم کی روح پرور قیادت اور برعظیم کے مسلمانوں کی پوری یکسوئی کے ساتھ ایمان پرور اور قربانیوں سے بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں مسلمانوں کا ایک آزاد ملک وجود میں آگیا اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی کے طور پر یہ نعمت ۲۷رمضان المبارک کے دن حاصل ہوئی۔ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
تحریکِ پاکستان کا مقصد جہاں انگریز اور ہندو سامراج دونوں سے نجات حاصل کر کے ایک آزاد اسلامی ملک کا قیام تھا، وہیں اس کا اصل ہدف پاکستان کو ایک آئینی اسلامی فلاحی ریاست کی حیثیت سے ترقی دینا تھا، تاکہ دین اور تہذیب کی بنیاد پر استوار ہونے والی قوم کو جب آزاد ملک کی نعمت میسر آجائے، تو پھر وہ اس ملک کو اپنے نظریے کی بنیاد پر ایک مثالی ریاست بناسکے۔ جو ایک طرف اپنے نظریے کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری کرے، تو دوسری طرف دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے لیے نہ صرف تمام شہری اور انسانی حقوق کی ضمانت دے، بلکہ ان کے مذہبی اور سماجی تشخص کی حفاظت اوراس کو پروان چڑھائے جانے کے تمام مواقع بھی فراہم کرے۔
علامہ اقبال، قائداعظم اور ملت اسلامیہ پاک و ہند کا وژن اور تحریکِ پاکستان کی قیادت اور برعظیم کے مسلمانوں کے درمیان جو عمرانی میثاق ہوا، وہ بالکل واضح ہے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کی ۶۹ویں سالگرہ کے موقعے پر سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ اس وژن اور اس میثاق کو ذہنوں میں تازہ کیا جائے اور خصوصیت سے اپنی نئی نسلوں اور زندگی کے ہر شعبے کے ذمہ دار حضرات کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ یہ ملک لاکھوں افراد کی جانوں، ہزاروں معصوم بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں، کھربوں روپے کی مالی قربانیوں، اور لاکھوں انسانوں کی ہجرت کی قیمت پر قائم ہوا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا قیام، تحفظ اور ترقی صرف ان مقاصد سے وفاداری ہی کے ذریعے ممکن ہے، جو اس کی اساس ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے بعد قوم سے صاف لفظوں میں کہی تھی:
اسلام ہمارا بنیادی اصول اور حقیقی سہارا ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ تب ہی ہم پاکستان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
اقبال اور قائداعظم نے قوم کو جس منزل کی طرف دعوت دی، اس کو آج دھندلا کرنے بلکہ بالکل مخالف سمت میں ڈالنے کی شرانگیز کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے اس وژن کو بالکل دوٹوک الفاظ میں ایک بار پھر قوم، اس کے دانش وروں، پالیسی ساز اداروں اور افراد اور سب سے بڑھ کر نئی نسل اور اس کے نوجوانوں کے ذہنوں میں تازہ اور راسخ کردیا جائے۔ اس لیے کہ پاکستان کی بقا اور ترقی صرف اس وژن اور منزل کے صحیح اِدراک اور ان کو حرزِجان بنانے پر منحصر ہے۔
علامہ محمد اقبال نے اس تحریک کی فکری اور نظریاتی بنیادیں رکھیں تو قائداعظم محمدعلی جناح نے ان بنیادوں پر سیاسی اور نظریاتی تحریک برپا کی، اور اس کی قیادت اس طرح انجام دی کہ پوری قوم یکسو ہوکر ان کی تائید میں میدانِ عمل میں نکل آئی۔ ان کا اصل محرک آزادی کا حصول اور اپنی تہذیبی شناخت کی حفاظت اور ترقی تھا اور یہ دونوں ایک ہی جدوجہد کے دو رُخ ہیں، جن کو ایک دوسرے سے کسی صورت میں بھی جدا نہیں کیا جاسکتا۔
علامہ اقبال نے The Reconstruction of Religious Thought in Islam میں اسلام کے تصورِ توحید اور ریاست کے تعلق کو اس طرح بیان کیا ہے کہ:
گویا بہ حیثیت ایک اصول، عملِ توحید اساس ہے حریت، مساوات اور حفظ ِ نوعِ انسانی کی۔ اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازروے اسلام، ریاست کا مطلب ہوگا ہماری یہ کوشش کہ یہ عظیم اور مثالی اصول زمان و مکان کی دنیا میں ایک قوت بن کر ظاہر ہوں۔ وہ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیت ِ بشری میں مشہود دیکھنے کی۔ لہٰذا، اسلامی ریاست کو حکومت ِ الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں۔ ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمامِ اقتدار کسی ایسے خلیفۃ اللہ فی الارض کے ہاتھ میں دے دیں، جو اپنی مفروضہ معصومیت کے عذر میں اپنے جورواستبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے۔(Reconstruction،ص ۱۲۲-۱۲۳، ترجمہ: سید نذیر نیازی،تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ،ص ۲۳۸)
علامہ محمد اقبال نے ۳۰،۳۱ دسمبر ۱۹۳۰ء کے کُل ہند مسلم لیگ کے اجتماع الٰہ آباد میں اپنے خطبۂ صدارت میں نظریاتی اور دینی بنیادوں پر تقسیمِ ہند کا تصور پیش کرتے ہوئے اس کی جس بنیاد پر روشنی ڈالی وہ بہت اہم ہے۔ انھوں نے اپنی بات کا آغاز ہی اس دعوے سے کیا کہ:
آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے لیے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے، جو اس امر سے مایوس نہیں ہوگیا ہے کہ اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے، جو ذہنِ انسانی کو نسل اور وطن کی قیود سے آزاد کرسکتی ہے۔ جس کا عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے اور جسے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیر خود اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ بحیثیت ایک اخلاقی نصب العین اور نظامِ سیاست کے، اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزو ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوتی ہے۔ اسلام ہی کی بدولت ان کے سینے ان جذبات اور عواطف سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے، جن سے متفرق اور منتشر اجزا بتدریج متحد ہوکر ایک متمیزومعین قوم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔مسلمانوں کے اندر اتحاد اور ان کی نمایاں یکسانیت، ان قوانین اور روایات کی شرمندۂ احسان ہے جو تہذیب اسلامی سے وابستہ ہیں۔
اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے، جو خود اس کا پیدا کردہ ہے، الگ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کر دیا تو بالآخر دوسرے کو بھی ترک کرنا لازم آئے گا۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی کسی ایسے نظامِ سیاست پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہوگا، جو کسی ایسے وطنی یا قومی اصول پر مبنی ہو، جو اسلام کے اصولِ اتحاد کے منافی ہو۔ یہ مسئلہ ہے جو آج ہندستان کے مسلمانوں کے سامنے ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔ پھر اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہوکر، جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں، اس جمود کو توڑ ڈالے گا جو اس کے تہذیب و تمدن، شریعت و تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف اس کے صحیح معانی کی تجدید ہوسکے گی، بلکہ وہ زمانۂ حال کی رُوح سے بھی قریب ہوجائے گا۔
آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کی وجۂ جواز کیا تھی؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری ہے، نہ انگریزوں کی چال__ بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔
مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآنِ پاک کو غور سے پڑھیں، اور قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔
ان لوگوں کو چھوڑ کر جو بالکل ہی ناواقف ہیں، ہرشخص جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔مذہبی، معاشرتی، دیوانی، معاشی، عدالتی، غرض یہ کہ ان مذہبی رسومات سے لے کر روزمرہ کے معاملات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، اجتماعی حقوق سے لے کر انفرادی حقوق تک، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک، دنیاوی سزائوں سے لے کر آنے والی [اُخروی] زندگی کی جزا وسزا کے تمام معاملات پر اس کی عمل داری ہے۔ اور ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہرشخص اپنے پاس قرآن رکھے اور خود رہنمائی حاصل کرے۔ اس لیے کہ اسلام صرف روحانی احکام اور تعلیمات تک ہی محدود نہیں ہے، یہ ایک مکمل ضابطہ ہے جو مسلم معاشرے کو مرتب کرتا ہے۔
ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا ہے، ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزمائیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنایت ِ خاص کے ساتھ جس چیز نے پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا اور یہ تاریخی کرشمہ وجود میں آیا، اسے چار نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
۱- آزادی کا جذبہ اور اس کے حصول اور حفاظت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہ کرنا۔
۲- دین، نظریۂ حیات، تہذیب و تمدن کی حفاظت اور ترقی کو انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ترجیح بنانا۔
۳- عوام کی جمہوری قوت، ا ن کا اتحاد اور ان کا یہ جذبہ کہ اپنی آزادی اور اپنے دین اور نظریے کے باب میں کوئی سمجھوتا قبول نہیں کریں گے اور ان کی خاطر جان کی بازی لگادیں گے۔
۴- مخلص، باصلاحیت اور ایمان دار قیادت۔
قائداعظم نے ہر ذاتی مفاد سے بالا ہوکر صرف قوم کی خاطر اور اللہ کی خوشنودی کے لیے، عوامی قوت کے ذریعے اور پوری یکسوئی کے ساتھ اصل ہدف پر ساری توجہ مرکوز کردی۔ اس مسلم قیادت نے قوم پر اعتماد کیا اور قوم نے اس پر اعتماد کیا اور دونوں نے اپنے اپنے اعتماد کو سچ کر دکھایا۔ ایک طبقہ آج قائداعظم کو مسلم قوم کا صرف ایک ’وکیل‘ بناکر پیش کر رہا ہے، جب کہ قائداعظم نے یہ پوری جدوجہد ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے کی تھی، یہ محض وکالت نہیں تھی۔ اس سے بڑا بہتان اُن پر اور کیا ہوسکتا ہے؟ قائدکے جذبات اور محرکات کیا تھے، انھی کے الفاظ میں سننے اور ذہن میں نقش کرنے کی ضرورت ہے:
مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اُٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی۔ میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت ِ اسلام کا حق ادا کردیا۔ جناح تم مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علَمِ اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔(روزنامہ انقلاب، ۲۲؍اکتوبر ۱۹۳۹ئ)
یہی وہ جذبہ تھا، جس نے تحریکِ پاکستان کو ملت اسلامیہ ہند کے دلوں کی آواز بنادیا ،اور وہ ایک آزاد اسلامی ملک کے قیام کے لیے سرگرمِ عمل ہوگئی۔ قوم کی یکسوئی اور تائید اور قائد کا عزم اور بے لاگ خدمت__ جب یہ دونوں قوتیں یک جا ہوجاتی ہیں تو تاریخ کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ آج ہمارے مسائل اور مشکلات کی اصل وجہ یہ ہے کہ منزل اور مقصد کا شعور دھندلا دیا گیا ہے۔ قوم اور اس کی فلاح و بہبود کو یکسر بھلادیا گیا ہے۔ مخصوص مفادات کے پرستار زمامِ اقتدار پر قابض ہیں، جو عوام کے اعتماد سے محروم ہیں اور جن کی دیانت اور صلاحیت دونوں مشتبہ ہیں۔ وژن اور مقصد سے محرومی، عوام کی تائید اور ان کے مرکزی کردار کا عدم وجود اور صحیح قیادت کا فقدان ہمیں پستی کی انتہائوں کی طرف دھکیلے جا رہا ہے۔
۱۴؍اگست کے تاریخی لمحے کی یاد میں ان تمام حقائق، جذبات اور عزائم کو ذہنوں میں تازہ کرنا ضروری ہے، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہماری قوت کا اصل سرچشمہ یہی عزائم، جذبات اور داعیات ہیں۔ سات سال میں تحریکِ پاکستان کی کامیابی کا راز مندرجہ بالا چاروں عوامل پر ہے۔ انھی کے سہارے ہم ان بلندیوں پر پہنچے، جن کا نقطۂ فراز ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء تھا اور گذشتہ سات عشروں میں جس پستی کی طرف ہم لڑھکتے جارہے ہیں، اس کا تعلق بھی انھی چاروں کے بارے میں کمزوری یا فقدان سے ہے۔
پاکستان کا محلِ وقوع تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی اور مادی دونوں وسائل سے ہمیں مالا مال کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی قوم نے جس درجے میں ان چاروں عناصر کا اہتمام کیا ہے، وہ بلندیوں کی طرف بڑھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مایوسی کفر ہے اور حالات کی خرابی کے باوجود کسی درجے میں بھی مایوسی مسلمان کا شعار نہیں ہوسکتی۔ اگر صحیح مقاصد کے لیے، صحیح قیادت کی رہنمائی میں، مؤثر اجتماعی اور عوامی جدوجہد کی جائے، تو بڑی سے بڑی مشکل دُور ہوسکتی ہے اور دُور دراز واقع منزل بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس جس درجے میں یہ چیزیں حاصل ہوں، اسی حد تک محدود دائروں میں بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس طرح پاکستان کا قیام ایک تاریخی کامیابی تھا، اسی طرح اوّلین دور میں پاکستان کی بقا اور ترقی بھی ایک کرشماتی نعمت سے کم نہیں۔ بھارتی قیادت کو یقین تھا اور انگریز سامراج بھی اسی وہم میں مبتلا تھا کہ پاکستان باقی نہیں رہ سکے گا۔
تقسیمِ ملک کے لیے اصل تاریخ اپریل ۱۹۴۸ء تھی لیکن انگریز اور کانگریسی قیادت دونوں انتقالِ اقتدار کے لیے مناسب وقت اور نقشۂ کار سے پاکستان کو محروم رکھنے اور اوّلین برسوں ہی میں شکست وریخت (collapse ) کے خطرات سے دوچار کرنے کے لیے ۱۱ مہینے کی مدت کو کم کرکے یک طرفہ طور پر ڈھائی مہینے کردیا، یعنی ۳جون کو اسکیم کا اعلان ہوا اور ۱۴؍اگست تک اس پر عمل مکمل کرنے کا نوٹس دے دیا۔ پھر سرکاری وسائل اور مالیات کی تقسیم کے پورے انتظام کو درہم برہم کردیا اور پاکستان کو اس کے حقوق سے محروم رکھا۔ ریڈکلف نے ایوارڈ میں تبدیلیاں کرکے پاکستان کو کشمیر اور دوسرے اہم علاقوں سے محروم کردیا۔ پورے ملک میں فسادات کی آگ بھڑکا دی گئی اور اتنے بڑے پیمانے پر آبادی کی نقل مکانی واقع ہوئی کہ پورا انتظامی ڈھانچا درہم برہم ہو گیا۔
یہ سب ایک منظم منصوبے کے مطابق ہوا، جس میں برطانوی حکومت، اس کا مقرر کردہ گورنرجنرل مائونٹ بیٹن اور کانگریس کی حکومت اور ہندو عوام سبھی برابر کے شریک تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک طرف تقسیمِ ہند کی اسکیم پر دستخط کیے تو دوسری طرف اپنی قوم سے کہا:
ہماری اسکیم یہ ہے کہ ہم اس وقت جناح کو پاکستان بنالینے دیں اور اس کے بعد معاشی طور پر یا دیگر انداز سے ایسے حالات پیدا کردیے جائیں، جن سے مجبور ہوکر مسلمان گھٹنوں کے بل جھک کر ہم سے درخواست کریں کہ ہمیں پھر سے ہندستان میں مدغم کرلیجیے۔
برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے ایک طرف آزادیِ ہند کے منصوبے کی منظوری دی اور برطانوی پارلیمنٹ میں بل منظور کروایا، تو دوسری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ:
ہندستان تقسیم ہو رہا ہے لیکن مجھے اُمید واثق ہے کہ یہ تقسیم زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گی اور یہ دونوں مملکتیں جنھیں ہم اس وقت الگ کر رہے ہیں، ایک دن پھر آپس میں مل کر رہیں گی۔(تاریخ نظریۂ پاکستان ، پروفیسر محمد سلیم، لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص ۲۷۵)
ان حالات میں پاکستان کا باقی رہ جانا اور جلد اپنے پائوں پر کھڑے ہوجانا، اسی طرح کا ایک دوسرا تاریخی کرشمۂ قدرت تھا جیسا سات سال میں اس کا قیام۔پاکستان کے لیے ایٹمی صلاحیت کا حصول بھی اسی طرح کا ایک ناقابلِ تصور کرشمہ ہے۔ بلاشبہہ اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی پوری ٹیم کی مہارت اور کوشش، سیاسی اور عسکری سطح پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر صدر محمدضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف اور غلام اسحاق خان کی قیادت اور قوم کی تائید اور دُعائیں سب کا کردار ہے۔ دنیا کی مخالفت، امریکا اور مغربی اقوام کی جان لیوا پابندیاں اور وسائل کی قلت کے باوجود جب وژن، محنت اور صلاحیت، تنظیم اور کوشش، عوامی تائید اور دعائیں مل جاتی ہیں، تو بڑی سے بڑی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ پاکستان نے ساری پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایک ترقی پذیر ملک ہوتے ہوئے بھی یورنیم کی افزودگی ( Uranuim Enrichment) اور اسلحہ سازی (weaponization) کے اس مشکل عمل کو، جو امریکا میں۱۸سال میں مکمل ہوا تھا، صرف سات آٹھ سال میں مکمل کرلیا۔ صدر محمد ضیاء الحق نے راجیوگاندھی کو ۱۹۸۷ء میں یہ پیغام دیا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا، ہمارے پاس وہ چیز ہے جو تمھیں منٹوں میں تباہ کرسکتی ہے۔ مئی۱۹۹۸ء میں ہندستانی ایٹمی دھماکے کے نتیجے میں امتحان کا لمحہ آیا تو الحمدللہ ۱۵دن کے اندر پاکستان نے چھے ٹیسٹ کرکے ہندستانی جنگ ُجو قیادت کے ہوش اُڑا دیے اور دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور دنیا کے چپے چپے میں مسلمانوں کا سر بلند کردیا۔ اس سے پہلے ۱۹۶۵ء میں بھارت کے حملے کے موقعے پر بھی فوج اور قوم نے جس کردار کا مظاہرہ کیا وہ لاجواب تھا۔
اکتوبر ۲۰۰۵ء میں ہولناک زلزلے نے ایک بار پھر قوم کی خوابیدہ صلاحیتوں کے خزانے کو بے نقاب کیا۔آزمایش کی اس گھڑی کے موقعے پر خیبر سے کراچی تک عوام جس طرح متحرک ہوئے اور اس قومی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے سینہ سپر ہوگئے، وہ ایمان افروز اور اُمیدافزا تھا۔ اس موقعے پر اپنی مدد آپ کی ایک روشن مثال قائم ہوئی اور ایک بار پھر یہ یقین تازہ ہوگیا کہ ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی ، بہت زرخیز ہے ساقی!
آج حالات کتنے ہی خراب ہوں، لیکن ساری خرابیوں کے باوجود قوم میں خیر کا بڑا خزانہ موجود ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی صلاحیتوں اور کارکردگیوں پر عدم اعتماد اپنی جگہ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرکاری زکوٰۃ کٹوتی میں ہر رمضان میں حکومت کو چارپانچ ارب روپے حاصل ہوتے ہیں۔ ملکی اور غیرملکی تحقیقی اداروں کے مطابق اصحابِ خیر کی طرف سے رضاکارانہ صدقات کی مد میں (صرف رمضان کے مہینے میں نہیں بلکہ سال بھر میں) ۱۱۰؍ارب روپے سے زیادہ رقم مستحقین کو منتقل ہوتی ہے۔ اور ’پاکستان سنٹر فار فلن تھراپی‘ کی رپورٹ کے مطابق سالانہ پاکستان میں عوامی سطح پر ۲۴۰؍ارب روپے سے زیادہ رقم مستحقین کو دی جاتی ہے۔ اس پہلو سے پاکستانی قوم، دنیا میں ان اقوام میں سرفہرست ہے، جن میں اہلِ ثروت، اہلِ ضرورت کی سب سے زیادہ مدد کرتے ہیں۔ ہارورڈ یونی ورسٹی کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق امریکا میں پاکستانی کمیونٹی،امریکا کی سب سے زیادہ خیرات دینے والی کمیونٹی ہے۔ پاکستان میں الخدمت، فلاحِ انسانیت، ایدھی فائونڈیشن، اخوت اور درجنوں ایسے ادارے ہیں، جو کسی نام و نمود کے بغیر خدمت ِ خلق کے جذبے سے دُکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ یہ تمام وہ پہلو ہیں، جو اس مایوس کن اور تاریک ماحول میں اُمید کی کرن ہیں اور یہ یقین پیدا کرتے ہیں کہ اگر قوم کو صحیح قیادت میسر ہو اور کام کرنے کے لیے مناسب طریق کار اور صحیح تنظیمِ کار کا اہتمام کیا جائے تو اس قوم میں بڑی قوت اور صلاحیت ہے۔ ضرورت صحیح وژن،صحیح تنظیم، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کی ہے۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء ایک تاریخی بلندی کی علامت ہے، تو پاکستان کی تاریخ میں ۱۶ دسمبر۱۹۷۱ء پستی کی ایک ہولناک تصویر ہے۔ جب بھارت کی فوج کشی کے نتیجے میں اور خود اپنی بے پناہ غلطیوں کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا ۔ تب پاکستان توڑنے کی سازش میں شریک بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ بھارت کی ہندو قیادت نے مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورِاقتدار کا بدلہ لے لیا ہے اور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ بھارت کے موجودہ ہندوقوم پرست وزیراعظم نریندر مودی نے جون ۲۰۱۵ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں اپنے خطاب میں بھارت کے دہشت پسندانہ کردار کا سرکاری اعلان کرتے ہوئے برملا کہا:’’ بھارتی فوجی، مکتی باہنی کے ساتھ مشرقی پاکستان میں مہینوں سرگرم رہے اور بالآخر بھارت کی فوج کشی نے پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا‘‘۔
آج بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ دوسری بین الاقوامی قوتوں کی معاونت سے ملک میں جو دہشت گردی کی آگ بھڑکانے میں جو کردار ادا کر رہی ہے، اسے بھی اس پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے اور ۱۶دسمبر ۲۰۱۴ء کو پشاور کے فوجی اسکول پر حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ۱۶دسمبر کی تاریخ کا یہ اشتراک بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ نائن الیون کے معاً بعد پاکستانی اقتدار پر متمکن جنرل پرویزمشرف نے جس طرح امریکی دھمکیوں کے آگے سپرڈالی اور ملک کو جس عذاب میں مبتلا کیا، وہ بھی ہماری تاریخ کا بڑا تاریک باب ہے۔ محض نریندر مودی کو خوش کرنے کے لیے دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں حُریت کانفرنس کی قیادت کے لیے افطارپارٹی کو ملتوی کرنا، اور اوفا (روس) کی ملاقات کے بعد اعلامیے کا کشمیر کے ذکر سے خالی رہنا بھی پستی کا دل خراش واقعہ ہے۔
پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کے انتقال اور لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد اقتدار پر جس طرح بیوروکریسی، چند فوجی جرنیلوں اور جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور زرپرست عناصر کی ہوسِ اقتدار کے سایے پڑے ہیں اور جس طرح دستور کو پامال اور اداروں کو تباہ و برباد کیا گیا ہے، بد سے بد تر حکمرانی کے جن اَدوار سے قوم اور ملک کو گزرنا پڑ رہا ہے اور بدعنوانی اور کرپشن کی جو داستان رقم کی جارہی ہے، وہ دل خراش بھی ہے اور تباہ کن بھی۔ آج پاکستان دنیا کے بدعنوان ترین ممالک میں شمار کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ ہونے کے باوجود اسے دہشت گرد ملک بلکہ دہشت گردی کا مرکز بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ جن ’اتحادیوں‘ کے لیے ہم نے اپنی عزت اور امن و چین کو قربان کیا، وہی ہم پر زبان طعن دراز کر رہے ہیں، اور ہماری سیاسی قیادتیں ہیں کہ ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔ دنیا میں ہماری تصویر کیا ہے؟ اس کا اندازہ ورلڈ اکانومک فورم ۲۰۱۴ء کی Golbal Competitiveness Report سے کیجیے:
یہ ملک [پاکستان] مسابقت اور مقابلے کے تمام بنیادی اور اہم دائروں میں بہت کم نمبر حاصل کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی میں، وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی بدعنوانی کی بیماری، بے جا نوازشات اور غیرقانونی سرپرستی کے کلچر کو پروان چڑھانے کے ساتھ ملکیتی حقوق کے تحفظ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے۔
اسی طرح عالمی بنک کی ۲۰۱۳ء کی رپورٹ Worldwide Governance Indicators میں بدعنوانی اور کرپشن کے باب میں پاکستان کا شمار نچلے ترین درجے میں ہوتا ہے۔ دنیا کے ممالک ۷۲ فی صد ہم سے بہتر ہیں، ہم آخری ۱۸ فی صد میں ہیں۔ بنگلہ دیش بھی ہم سے چھے درجے بہتر حالت میں ہے۔ یہی صورت قانون کی حکمرانی کی ہے۔ بنگلہ دیش اور موزمبیق ہم سے اُوپر ہیں۔ مجموعی طور پر اندازِ حکمرانی کے اشاریے میں بھی ہم پست ترین مقام پر ہیں، حتیٰ کہ غزہ بھی ہم سے اُوپر ہے۔ (ڈان، ۲۶ جون ۲۰۱۵ئ)
بدعنوانی اور کرپشن، وسائل کا ناجائز استعمال، اہم مناصب پر من پسند لوگوں کی تقرریاں، اہلیت کی دھجیاں بکھرتے ہوئے اداروں کی کمزوری اور تباہی، اداروں کے درمیان تصادم، پالیسیوں میں ہم آہنگی کا فقدان، پولیس اور بیوروکریسی کا سیاسی استعمال، عوام کی حقیقی ضروریات سے اغماض اور بنیادی سہولتوں کا فقدان اس بحران کے بدترین سرچشمے ہیں، جس نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے اور سول انتظامیہ اور سیاسی قیادت دونوں کو بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور دوسری طرف حکمران مہنگے منصوبوں کے عشق میں مبتلا ہیں۔ ستم ہے کہ ان حالات میں وزیراعظم صاحب کی ترجیح یہ ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کے قافلے میں نت نئی کاروں کا ہرسال اضافہ کیا جاتا رہے۔ اس وقت جب ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے، قومی خزانے سے ۳۰کروڑ روپے کی قیمت پر ۱۰ لگژری کاریں خرید رہے ہیں، جن میں چھے وہ کاریں ہیں، جو یورپ کے سربراہانِ مملکت بھی استعمال کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔
یہ منظرنامہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرناک ہے اور جس کے نتیجے میں سول اور فوجی نظام کے درمیان توازن روز بروز بگڑ رہا ہے اور ایک طبقہ مسلسل یہ راہ ہموار کر رہا ہے کہ خدانخواستہ کوئی ’مصطفی کمال‘ بن کر جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دے۔
افسوس کا مقام ہے کہ وہ دانش ور، صحافی اور اینکر خواتین و حضرات جو آزادی، روشن خیالی اور حقوق کی باتیں کرتے ہیں، وہی آج کسی طالع آزما کی تلاش اور فوجی قیادت کو کچھ کرگزرنے کی دعوتیں دے رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کی نااہلی اور کرپشن اپنی جگہ، اور وہ ایک بڑا ناسور ہے جس کی اصلاح ضروری ہے، مگر اسے بہانہ بناکر اعلیٰ فوجی قیادت کو سیاست میں ملوث ہونے کی دعوت دینا، فوج اور ملک دونوں کے ساتھ خیرخواہی کا راستہ نہیں ہے۔
فوجی قیادت کی حکمرانی کے چار دور ہم دیکھ چکے ہیں اور اس میں سے ہر دور بنیادی طور پر قومی حالات کو بگاڑنے کا سبب بنا ہے، خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف کا آخری دور تو سب سے زیادہ تباہ کن رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بھی فوج جو خدمت انجام دے رہی ہے، وہ چند مثبت پہلوئوں کے باوجود، بالآخر اس کی دفاعی صلاحیت کار کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ امرواقعہ ہے کہ فوج اور رینجرز کا استعمال: سول انتظامیہ، پولیس اور نچلی سطح پر عدالتی عمل کی ناکامی کی وجہ سے ہے اور ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر فوج کو اس کا موقع دیا گیا ہے۔ لیکن اسے سیاسی نظام اور دستوری انتظام کو درہم برہم کرنے کے لیے وجہ جواز بنانا ایک زیادہ بڑی تباہی کی طرف جانے کے مترادف ہوگا۔ جس دلدل میں فوج کو گرا دیا گیا ہے، وہ حقیقت ہے، لیکن اس سے نکلنے کا راستہ یہ نہیں کہ فوج کو اقتدار میں لایا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان اسباب کا تعین کیا جائے، جو پستی کی طرف لے جانے اور بگاڑ کو گمبھیر کرنے کا سبب بنے ہیں اور پھر اس دلدل کے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے، تاکہ ایک دلدل سے نکلنے کی خواہش میں کسی دوسری اور زیادہ بڑی دلدل میں نہ پھنس جائیں بلکہ وہ راستہ اختیار کریں جو فی الحقیقت بلندی اور فراز کی طرف لے جاسکے۔
حکومت کی ترجیحات میں نمایشی منصوبے مرکزیت رکھتے ہیں، جب کہ عوام کی حقیقی ضرورتوں: خوراک، صاف پانی، تعلیم، صحت، رہایش پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ معیشت کا پورا نظام سرمایہ دارانہ اصولوں پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔معاشی ترقی کا جو تصور چھایا ہوا ہے، اس کا فائدہ زیادہ سے زیادہ ۱۰ فی صد آبادی کو مل رہا ہے، جب کہ ۹۰ فی صد عوام محروم ہیں۔ دولت کی عدم مساوات روزافزوں ہے۔ غربت میں کمی نظر نہیں آرہی، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ توانائی کا بحران حسب سابق ہے۔ زراعت رُوبہ زوال ہے۔ صنعت کی ترقیاتی رفتار ٹھیری ہوئی ہے، البتہ اسٹاک ایکسچینج میں بہار آئی ہوئی ہے اور بنکوںکے وارے نیارے ہیں۔ ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (آئی ایم ایف) کی ایک تازہ ترین رپورٹ یہ کہنے پر مجبور ہوئی ہے: ’’دنیا میں جن دو ملکوں میں بنک سب سے زیادہ منافع کمارہے ہیں وہ پاکستان اور کولمبیا ہیں‘‘۔ گذشتہ سال جب زراعت کی پیداوار کا گراف نیچے گرا ہے، اور بڑی صنعت ۲ فی صد کی شرح سے بڑھی ہے، بنکوں کا منافع ۲۵ فی صد سے ۷ئ۴۰ فی صد تک رہا ہے اور وہ بھی اس عجیب و غریب سرمایہ کاری کے نتیجے میں کہ بنکوں کے وسائل کا ۹۰ فی صد حکومت کی سیکورٹیز اور بانڈز میں لگا ہوا ہے اور صنعت اور تجارت میں ان کی سرمایہ کاری ۱۰ فی صد سے بھی کم ہے۔ بنکوں کے چیف ایگزیکٹوز کی تنخواہوں پر نگاہ ڈالیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ یونائیٹڈ بنک لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو کی تنخواہ ایک کروڑ ۱۵لاکھ روپے ماہانہ ہے۔ مسلم کمرشل بنک
[بقیہ دیکھیے: ص ۱۰۹]
[’اشارات‘ ص ۲۳ سے آگے]
کے منتظم اعلیٰ کو ۴۵لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے۔ الائیڈبنک کے سربراہ کی تنخواہ ۴۴لاکھ ماہانہ ہے اور حبیب بنک کے سربراہ کی ۳۰ لاکھ روپے ماہانہ ہے، جب کہ ملکی آبادی کا ۶۰ فی صد اوسطاً ۶ہزار روپے ماہانہ اور ۳۰ فی صد اوسطاً صرف ۳ہزار روپے ماہانہ کما رہا ہے۔ یہ ہے وہ معاشی دہشت گردی جس کی آماج گاہ پاک وطن بن چکا ہے۔
یہ وہ حالات ہیں، جن کے نتیجے میں پاکستان آج صرف سیاسی اور معاشی بحران ہی کا شکار نہیں، نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی انتشار میں بھی مبتلا ہے، جس کی شدت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ آج حالات کی اصلاح کے لیے اسی طرح کی ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے، جیسی برعظیم کے مسلمانوں کو برطانوی حکومتوں اور بھارتی سامراج سے نجات دلانے کے لیے علامہ محمد اقبال کی فکری اور قائداعظم کی سیاسی رہنمائی میں برپا ہوئی تھی۔
ہر زبان پر یہ سوال ہے کہ اصلاح کا راستہ کیا ہے؟
ہماری نگاہ میں نہ فوج کی سیاسی مداخلت پاکستان کے حالات کو درست کرسکتی ہے اور نہ تشدد اور لُوٹ مار کی سیاست۔ ملکی سیاست میں تصادم اور تلخی جس حد کو پہنچ گئی ہے، وہ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ ریاست اور ملک کے وجود کے لیے بھی خطرہ بنتی جارہی ہے۔ حکومتوں کی آمرانہ روش، تنگ دلی، تنگ نظری اور مفادپرستی حالات کو بگاڑ رہی ہے اور اداروں کی کمزوری اور باہم آویزش حالات کو اور بھی مخدوش بنارہی ہے۔ ایک طرف عوام کی حالت روز بروز خراب ہورہی ہے تو دوسری جانب معاشی بگاڑ کم ہونے میں نہیں آرہا۔ توانائی کے بحران میں کوئی کمی نہیں ہورہی۔ وسائلِ حیات کی قلت اور مہنگائی نے عوام کی زندگی دوبھر کردی ہے تو دوسری طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ ضربِ عضب اور دہشت گردی کے خلاف ’نیشنل ایکشن پلان‘ نے کچھ علاقوں میں بہتری پیدا کی ہے، مگر بحیثیت مجموعی حالات ابھی گرفت میں نہیں ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسئلے کا حل صرف فوجی قوت کا استعمال نہیں۔ مناسب حد تک فوجی قوت کا استعمال اور ریاست کی رِٹ قائم کرنے کے تمام ضروری اقدامات اپنی جگہ بہت اہم، لیکن سیاسی فضا کی بہتری اور سب سے زیادہ اندازِ حکمرانی کی درستی اور اداروں کو سیاسی مداخلت اور مفاد پرستوں کی گرفت سے آزاد کرکے اہلیت اور قانون کی حکمرانی اور ضابطۂ کارکے احترام کی بنیاد پر متحرک اور مؤثر کیے بغیر تبدیلی اور اصلا ح محال ہے۔
کس قدر صدمے اور شرم کی بات ہے کہ سیاست اور جرم اس طرح شیروشکر ہوگئے ہیں اور ہرسطح پر یوں جلوہ گر ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ایک ماڈل گرل کو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود چار مہینے بڑے ناز نخروں کے ساتھ زیرحراست رکھا جاتا ہے اور عدالت میں روز روز کی پیشیاں ایک تماشا بنادی جاتی ہیں، مگر اس کے باوجود چارج شیٹ نہیں کیا جاتا کہ جن پر ضرب پڑتی ہے وہ ہرقانون سے بالا اور ایک دوسرے کے محافظ ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جو پاکستان کی سیاست پر لوگوں کو تین حرف بھیجنے کا راستہ دکھاتے ہیں یا سیاست کی بساط لپیٹ دینے والوں کو موقع فراہم کرتے ہیں۔
اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ ملک کے وہ تمام عناصر جو حالات سے غیرمطمئن ہیں، بگاڑ کے اسباب پر متفق ہیں اور اصلاح کے خواہاں ہیں، وہ مل جل کر سیاسی جدوجہد کے ذریعے نظام کو دستور کے دائرے میں رہ کر بدلنے کے لیے سرگرم ہوں۔ اس مقصد کے لیے بگاڑ کے ایک ایک سبب کو دُور کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے، جب عوام کو متحرک اور منظم کیا جائے اور عوامی تائید سے اقتدار ایک ایسی قیادت کو سونپا جائے جس کا دامن پاک ہو، جو اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل ہو، جس کا تعلق مفاد پرست طبقوں سے نہ ہو، بلکہ جو عوام میں سے ہو، جو عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کا جذبہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔
قوم میں یہ صلاحیت موجود ہے اور وہ بار بار اس کا مظاہرہ کرچکی ہے۔ ضرورت صحیح مقصد اور منزل کا تعین اور جماعتی اور گروہی تعصبات سے بالا ہوکر تمام محب ِ وطن عناصر کو ایک مؤثر اور متحرک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی ہے۔ آسمان سے فرشتے نہیں اُتریں گے، قوم کو خود اپنے معاملات کی اصلاح کے لیے اپنے میں سے اچھے لوگوں کو آگے لانا ہوگا۔ یہی راستہ صحت مند تبدیلی کا راستہ ہے۔ اسی کو اختیار کرکے ہم خوش حال اسلامی پاکستان کی طرف پیش قدمی کرسکیں گے۔