قرآن کریم نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے دستورِحیات اور اصلاح و تربیت کا ہدایت نامہ (manual) ہے۔ اس کا ایک اعجاز یہ ہے کہ انتہائی بلیغ انداز میں، مختصر ترین کلمات میں اپنی ہدایات کو ایک عام فہم طریقے سے دلوں اور دماغوں میں اُتار دیتا ہے، تاکہ دماغ اور دل جس معاملے میں بھی فیصلہ کرنا چاہتے ہوں تو ان کے فتویٰ کی بنیاد یہ ہدایت، یہ نور اور یہ دستور ہی ہو۔
قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کی ضرورت کا احاطہ کرتے ہوئے محض چار مختصر جملوں میں یہ کتابِ ہدایت ہمیں جو یاد دہانی کراتی ہے اس کی اعلیٰ ترین مثال سورئہ عصر ہے۔ یہ ان سورتوں میں سے ہے جسے ایک بچے سے لے کر ایک ۹۰سال کے معمر شخص نے بھی حافظے میں محفوظ کر رکھاہے لیکن المیہ یہ ہے ذہن میں محفوظ رکھنے کے باوجود ہم اکثر اس کے معنی اور مفہوم اور اس میں دی گئی ہدایات پر غور نہیں کرسکے۔
وَالْعَصْرِ o اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o ( العصر ۱۰۳:۱-۳) زمانے کی قسم، انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
پہلی بات جو سمجھائی جارہی ہے وہ اسلام کی دعوتِ انقلاب پر ایمان ہے۔ توحید جو اسلام کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور نقطۂ کمال بھی، مطالبہ یہ ہے کہ ہر وہ فرد جو اپنے آپ کو اسلامی تحریک سے وابستہ خیال کرتا ہے، اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ اس کے فکرو عمل میں توحید کتنی موجود ہے یا اسلام پر ایمان کے دعوے کے باوجود اس نے بے شمار خدائوں کو گوارا کیا ہوا ہے؟ کیا اس کے وقت کا ایک ایک لمحہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی میں صرف ہو رہا ہے یا معاشرے میں رائج رسوم و رواج، طورطریقوں اور لادینی تہذیب کی خدمت میں صرف ہو رہا ہے؟ اس کا اپنا گھر کہاں تک توحید کا نمونہ پیش کرتا ہے؟ اگر وہ ایک تاجر ہے تو جو مال وہ فروخت کر رہا ہے وہ اسی معیار کا ہے جس کی قیمت لے رہا ہے یا جلد نفع کے حصول کی خواہش نے اسے معیار پر سمجھوتا کرنے پر آمادہ کردیا ہے؟ کہیں وہ اپنے معاشی معاملات میں خسارے کا حامل انسان تو نہیں بن گیا، جس کا ذکر سورئہ عصر میں کیا گیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ جو انسان بھی اُن چار اُمور کی پروا نہیں کر رہا وہ خسارے میں ہے۔ یہ چار اُمور ہیں: ایمان، عملِ صالح، تلقینِ حق اور مستقل مزاجی کے ساتھ دعوتِ دین۔تحریکِ اسلامی کی دعوت کا پہلا نکتہ اللہ تعالیٰ پرشعوری طور پر ایمان لانا ہے: اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا (الحجرات ۴۹:۱۵) ’’مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے‘‘۔ اس ایمان لانے کو دوسرے مقام پر یوں کہا گیا کہ ’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر استقامت اختیار کرلی‘‘ (حم السجدہ ۳۰:۴۱)۔ ان کی محبت اور وابستگی صرف اور صرف اللہ رب العزت کے ساتھ ہوتی ہے۔ ’’اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں‘‘۔(البقرہ ۲:۱۶۵)
اس تعلق کا مطالبہ ہے کہ وہ جھکیں تو صرف اللہ کے سامنے، توکّل کریں تو صرف اللہ پر اور ان کی کثرت ِ تعداد اور ان کے ہمراہ چلنے والے لاکھوں افراد کا آجانا انھیں اپنی طاقت پر ناز کرنے پر آمادہ نہ کردے۔ وہ افراد کے ہجوم (street power) پر بھروسا کرنے یا اپنی قلت تعداد کے باوجود اپنے رب کی نصرت اور فرشتوں کے ذریعے ان کی حمایت پر زیادہ توکّل رکھتے ہوں۔ اور اگر اللہ انھیں بڑی تعداد میں رضاکار اور کارکن فراہم کردیتا ہے تو شکر میں اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
یہ ایمان اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اللہ کی کتاب سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں اور کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اس کی تلاوت، غوروفکر کے ساتھ کرتے ہیں۔ تلاوت کے آداب اور حق کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کلامِ عزیز کی ایک ایک آیت ٹھیرٹھیر کر نمناک آنکھوں اور خشیتِ قلب کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ اگر اس کیفیت میں کمی ہے تو پھر بعد کے مراحل بھی کمزور ہوں گے۔ یہ دعوت کا پہلا زینہ ہے۔ دوسروں کی اصلاح سے قبل اپنے نفس کی تربیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
دعوتِ دین دینے اور خصوصاً ان کے قائدین کو ہر وقت سورئہ صف کی دوسری آیت کو ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے۔ فرمایا گیا: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ o(الصف ۶۱:۲) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو‘‘۔قرآن کے نزدیک ایمان ایک قابلِ محسوس حقیقت ہے۔ یہ کسی مخفی روحانی کیفیت کا نام نہیں جس کا اظہار اللہ کی بندگی کی شکل میں نہ ہورہا ہو۔ خصوصاً جو زمانے کا رُخ بدلنے اور باطل نظام کی جگہ حق و صداقت اور عدل و رواداری کے نظام کو قائم کرنے نکلے ہوں، ان کے لیے ایمان کے اس مفہوم کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ کیونکہ تغیر وتبدیلی کا آغاز اندر سے ہوتا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف (نفس) کو نہیں بدل دیتی‘‘۔(الرعد ۱۳:۱۱)
ایمان اس داخلی تبدیلی کا نام ہے ،جو عمل صالح کی شکل میں اپنا اظہارکرتا ہے۔ اللہ پر ایمان لانے کا پہلا تقاضا نظامِ صلوٰۃ کا قیام ہے، جس کا تذکرہ مسلسل قرآنِ کریم میں آتا ہے: ’’یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے ان اہلِ ایمان کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نظامِ صلوٰۃ قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ (البقرہ ۲:۲-۳)۔گویا ایمان کا فوری تقاضا انفرادی اور اجتماعی طور پر نظامِ صلوٰۃ قائم کرنا ہے، صف بندی کر کے طاغوت، ظلم، جہالت، قتل و غارت کے خلاف جہاد کرنا ہے اور ساتھ ہی اپنے آپ کو مال کی غلامی سے نکال کر اُس مال کو جو اخلاقی ضابطے کے تحت پیدا کیا ہے، اس کے نام پر اسے خوش کرنے کے لیے خرچ کرنا ہے جس نے دیا ہے۔ جس نے ایمان کے ان دو اوّلین مطالبات کو سمجھ لیا اور پا لیا، اس نے ایک بیش بہا دولت حاصل کرلی۔ اسے آخرت میں سفارش کرنے والے دو اعمال مل گئے جو روزِ محشر ربِ کریم سے سفارش کریں گے کہ آپ کے اس بندے نے آپ کی زمین پر نماز کے نظام کو قائم کیا اور آپ کی راہ میں اپنے مال کو دل میں تنگی لائے بغیر خرچ کیا۔
العصر میں جس ایمان اور عملِ صالح کا تذکرہ آیا ہے قرآن کریم کا ہرصفحہ اس کی تفسیر پیش کرتا ہے۔ یہ چار آیات دعوتِ دین کے ہر داعی کو بطور ایک انعام الٰہی نازل فرما کر یہ تاکید بھی کردی کہ اپنی ذات کی اصلاح کے ساتھ حق کی دعوت کو اپنی ذات تک محدود نہ رکھو۔ اسے لے کر گلی گلی اور کوچے کوچے میں پہنچ جائو۔ حق کی تواصی، خود اپنے آپ کو اور تمام انسانوں کو کرنا ایمان کا تقاضا اور انسانی معاشرے کو تبدیل کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کا الہامی طریقہ ہے۔
مکی سورتوں میں ۱۳سال تک مکہ مکرمہ میں ایمان اور عملِ صالح پر اسی لیے زور دیا گیا کہ آگے چل کر جس نظامِ حق کو نافذ کرنا مقصود ہے، وہ اندر کی اصلاح کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ امرواضح ہے کہ معاشرے اور نظام کی تبدیلی محض عوام کے ہجوم سے نہیں ہوسکتی۔ سمندر او ردریا میں جب طغیانی آتی ہے تو سطحِ آب جھاگ سے بھر جاتی ہے اور ساتھ ہی خس و خاشاک بھی ہر جانب پھیل جاتے ہیں لیکن قرآن کریم ظاہری شدت کو کوئی وقعت نہیں دیتا۔ وہ اُس تعداد کو زیادہ قوی قرار دیتا ہے جو بندگیِ رب سے سرشار ہوکر صرف اپنے مالک پر توکّل کرکے راہِ حق میں نکلتی ہے۔
ہاں، کامیابی کی اوّلین شرط ایمان کا دل و نگاہ کی گہرائی میں بس جانا اور عملِ صالح کی شکل میں ظاہر ہونا ہے: ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟‘‘(العنکبوت ۲۹:۲)
جدوجہد کے دوران کارکن اور قیادت اکثر اس سوال کا سامنا کرتی ہے کہ ہم کو کام کرتے ہوئے اتنے سال ہوگئے، مگر منزل اب بھی قریب نظر نہیں آتی۔ ہم اپنا وقت، اپنی صلاحیت، اپنا مال ہر چیز مقدور بھر اللہ کی راہ میں لگا رہے ہیں، لیکن نتائج وہ نہیں ہیں جو ہونے چاہییں۔ ان سوالات کے اُبھرنے کے ساتھ ہی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہماری نظر سے اوجھل ہوجاتی ہے کہ کیا واقعی ہمارے وقت کا بڑا حصہ اس دعوت کے لیے استعمال ہو رہا ہے یا اپنی تجارتی، انتظامی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کے بعد چھٹی کے دن چند گھنٹوں کے لیے دعوتی کام میں لگانے کو ہم اپنے وقت کی قربانی تصور کرلیتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنی قرآن فہمی، سیرت پاکؐ سے قربت و تعلق، علومِ فقہ، حدیث، اصول تاریخ میں اتنا درک حاصل کرلیا ہے کہ ہم دین کی دعوت کے لیے ہر نکتے کو قرآن و حدیث اور فقہ کے اصولوں کو ذہن میں تازہ کرتے ہوئے عوام الناس کے سامنے پیش کرسکیں؟ کیا ہم نے اپنے مال کے حوالے سے وہ اصول اختیار کیا ہے جس میں ایک تہائی اپنے لیے، ایک تہائی اپنی اولاد اور حادثاتی مواقع کے لیے، اور ایک تہائی اللہ کے لیے صرف کیا ہے؟ اگر ایمان کے یہ بنیادی تقاضے ابھی مکمل نہیں ہوسکے ہیں اور ساتھ ہی منزل کے قریب نہ ہونے کا احساس ہو رہا ہے تو کیا ان دونوں میں واقعی کوئی منطقی ربط ہے؟
اگراہلِ ایمان ، دعوتِ دین کی تحریک کے کارکن اور قائدین،ایمان کے بنیادی تقاضوں کو جیساکہ ان کا حق ہے اختیار کرلیں تو پھر قرآن کریم کا وعدہ ہے: ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہوجائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی۔ (حم السجدہ ۴۱:۳۱-۳۲)
تواصی بالحق فرضِ عین ہے، کیونکہ سورۂ عصر کے آغاز ہی میں یہ صراحت کردی گئی کہ خسارے سے بچنے کے لیے اہلِ ایمان کے کرنے کے چار کاموں میں سے ایک یہ ہے۔ لیکن اس تواصی بالحق کے لیے حق کا جاننا اور براہِ راست قرآن و سنت سے جاننے کے ساتھ عملِ صالح کا اختیار کرنا شرط ہے۔ ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق اور جادہ صبرواستقامت ان میں گہرا اندرونی رشتہ ہے۔ یہ جڑواں اُمور ہیں انھیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔ تواصی بالحق کیا صرف نماز کے لیے ہوگی، صرف زکوٰۃ کے لیے ہوگی، صرف روزے کے لیے ہوگی، صرف حج کی ترغیب کی شکل میں ہوگی یا مکمل دین اور دین کے مکمل نفاذ کے لیے؟ بات واضح ہے قرآن کریم نہ نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرتا ہے اور نہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں۔
حق کی شہادت،پورے دین کے نظام کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس عمل میں ترجیحات تو ہوسکتی ہیں ، تفریق نہیں ہوسکتی۔ عین ممکن ہے کہ ایک دعوتی مرحلے میں زیادہ ضرورت معاشرتی فلاحی کاموں کی ہو۔ چنانچہ قرآن کریم اہلِ ایمان کے حقوق کے حوالے سے ہدایت کرتا ہے کہ نہ صرف خونی رشتوں کا احترام ہو بلکہ جارالجنب ، یعنی تھوڑی دیر کے لیے ہم نشین یا پڑوسی کے حق کو بھی ادا کیا جائے۔
حق کی دعوت ایک جزوقتی (part-time) کام نہیں ہے کہ جب آدمی کو کرنے کا کوئی کام نہ ہو، فرصت ہو، عمر کے ایسے مرحلے میں آگیا ہو کہ اب وقت اپنی حد کو چھوتا نظر آرہا ہو، تو وہ اللہ کے دین کے کام کے لیے پائوں گردآلود کرنا شروع کر دے۔ یہ فریضہ ہمہ وقتی فریضہ ہے۔ اس میں کوئی رخصت اور کوئی تعطیل نہیں ہے۔ یہ وہ کام ہے جسے انبیاے کرام نے لیلاً ونہارًا کیا اور ایک دو سال یا ۷۰،۸۰سال نہیں کیا، بلکہ ۹۰۰ سال کیا۔ یہ کرنے کے بعد بھی شکوہ نہیں کیا کہ لوگ ہی ایسے ہیں کہ ایک کشتی بھر تعداد کے علاوہ دعوت قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، بلکہ آخر وقت تک، حتیٰ کہ جب طوفانِ نوحؑ کا آغاز ہوچکا تھا، اس وقت بھی مستقل مزاجی، لگن اور تڑپ کے ساتھ اس کام کو جاری رکھا۔ دعوتِ حق کا کام تعداد کی قلت و کثرت سے بلند کام ہے۔ یہاں ایک فرد کو صحیح انداز سے دعوت پہنچا دینا بھی ایسے ہی نجات کا باعث بن سکتا ہے جیسے ایک پوری قوم کو ہدایت سے آشنا کردینا۔ صبرواستقامت کی کمی کا اظہار اُس پریشانی سے ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ بے اعتمادی میں تبدیل ہوجاتی ہے کہ ہم کام کر رہے ہیں پھر نتائج کیوں نہیں نکل رہے۔ کیا کسان فصل اچھی نہ ہونے پر زمین کو طعنہ دیتا ہے یا اپنی سعی اور کوشش کو ذمہ دار ٹھیراتا ہے؟ قرآن کریم نے جو قولِ فصیل دیا ہے وہ حق اور قیامت تک صداقت کا حامل ہے کہ اگر واقعی صبروحکمت کے ساتھ دعوت دی جائے تو نہ صرف کارکن بلکہ قائدین کی جماعت پیدا ہوسکتی ہے: ’’اور جب انھوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے قائدین (ائمہ و پیشوا) پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے‘‘۔(السجدہ ۳۲:۲۴)
حق کی نصیحت نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے خاموش اور بے لوث طرزِعمل سے کرنا فی الواقع ایک صبرآزما کام ہے۔ عوامی تحریکات میں بظاہر ہزاروں افراد جمع ہوجاتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی دعوت اور شخصیت کا کمال ہے۔ وقت آنے پر حقیقت کچھ اور ہی نکلتی ہے۔ دعوتِ اسلامی کا مزاج عوامی ہنگاموں سے مختلف ہے۔ یہ محض جذباتی نعروں کا مجموعہ نہیں ہے ،بلکہ فکروسوچ کو ہلادینے والی فکر اور انسان کی شخصیت کو سرتاپا تبدیل کر دینے والی تربیت کا نام ہے۔ شخصیت کی تبدیلی کے لیے ایک فرد کے ذہن اور ترجیحات کو نئے سانچے میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ یہ اصلاحی عمل غیرمعمولی صبروحکمت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کی بہترین مثال مکی دور کے وہ ۱۳سال ہیں جو اپنی اثرانگیزی کے لحاظ سے ۱۳قرنوں سے کم نہیں کہے جاسکتے۔ ان ۱۳سالوں میں شخصیت وکردار کے جوہر کو ایسی جلا بخشی گئی کہ خاک کا ہر ذرّہ ایک چمکتا ہوا چاند بن کر توحید کے محور کے گرد گردش میں آگیا۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اصلاحی تحریکات بیک وقت کئی محاذوں پر کام کرتی ہیں، جب کہ سیاسی تحریکات صرف سیاسی اقتدار کے حصول میں اپنی ساری قوت صرف کردیتی ہیں۔ اصلاحی تحریکات فرد، خاندان اور معاشرے میں اصلاح و تبدیلی کی جدوجہد کے ساتھ اپنے دور کے فکری نظریات اور معتقدات کا تنقیدی جائزہ اور اسلامی نقطۂ نظر سے ان مسائل کا حل پیش کرنے پر بھی مامور ہوتی ہیں۔ اس ہمہ جہت جہاد میں ان کی قوتیں مختلف محاذوں پر تقسیم ہوجاتی ہیں۔ گو ہدف تبدیلیِ نظام ہی رہتا ہے لیکن بیک وقت فکری محاذ پر معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی مسائل پر توجہ دینے کے نتیجے میں سیاسی تبدیلی کا عمل قدرے طویل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان حالات میں یہ کام قیادت کا ہے کہ وہ معاشرے کے دبائو کو سمجھتے ہوئے زمینی حقائق کے پیش نظر کامیابی کی رفتار کا تعین کرتی رہے۔
قرآن کریم نے اس نوعیت کی صورتِ حال کا تذکرہ حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰی ؑ کے تناظر میں بار بار کیا ہے کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ’’آخر اللہ کی مدد کب آئے گی‘‘۔ جواب ظاہر ہے جو لوگ اپنے رب پر مکمل ایمان کے ساتھ اس کے دین کی سربلندی کے لیے، اس کے بتائے ہوئے طریقے سے ہلکے اور بھاری نکل کھڑے ہوتے ہیں، ان کی امداد کے لیے فرشتوں کے پَرے کے پَرے اُترتے ہیں اور دشمن کے جوڑ جوڑ پر چوٹ لگا کر اسے پسپا کردیتے ہیں۔ ہاں،یہاں پھر شرط اوّل اللہ پر مکمل ایمان اور صبرواستقامت کا رویہ ہے۔
کامیابی کی کنجی احتساب کے عمل میں ہے کہ ہرہرفرد اپنا احتساب کر کے دیکھے کہ وہ کس حدتک ان مطالبات پر پورا اُترتا ہے جو تحریک اپنے کارکنوں سے کرتی ہے۔ وہ منصبی ذمہ داریوں کی ادایگی اور طلب کیے جانے پر بروقت حاضر ہو یا مالی اعانت یا نمازوں اور دیگر عبادات کا اہتمام، قرآن کریم کی تلاوت و فہم ہو یا اللہ کے بندوں کی خدمت کے لیے گائوں، گلی کوچے میں جاکر ان کی امداد کرنا یا اپنے گھر میں اہلِ خانہ او ر رشتہ داروں کو دعوتِ حق پہنچانا، احتساب کا عمل ہی ہمیں صحیح جواب فراہم کرسکتا ہے کہ کمی کہاں پائی جاتی ہے۔
العصر کا پیغام بہت آسان ہے ۔ اپنی سیرت و کردار کو مثالی داعی کی شکل دی جائے تاکہ ہمارا ہرعمل دعوت کی پکار بن جائے اور ربِ کریم کے ہاں مقبول ہوجائے۔ تبدیلیِ زمامِ اقتدار کو اپنی تمام اہمیت کے باوجود انتہائی منزل و مقصد نہیں کہا جاسکتا۔ انتہائی مقصد تو صرف اللہ کی رضا کا حصول ہے جس کے لیے معاشرے اور نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے۔